انسانی اقدار اور اصلاح معاشرہ

اس کرہ ارض پربنی نوع انسان ممتاز مخلوق ہے، اللہ رب العالمین نے انسان کے لئے کائنات کو مسخر کیا ،اسکو رہنے سہنے زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا، اس کو وہ کچھ سکھایا جو نہیں جانتا تھا۔

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ كُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰىِٕكَۃِۙ فَقَالَ اَنبِوْنِىْ بِاَسْمَاءِ ھٰٓؤُلَاءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ  ۱؎

’’اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوںکو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا،اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ‘‘۔

اس کرہ ارض پر جب تک انسانی اقدار کی حفاظت نہ ہو معاشرہ کی اصلا ح ممکن نہیں،صالح معاشرہ کا قیام تبھی ممکن ہے جب انسانی اقدار کی رعایت کی جائے۔ انسانی اقدار کے بنا  ہمارامعاشرہ ادھورا ہے ، انسانی اقدار کی پاسداری کا نتیجہ ایک پر امن ماحول اور خوشحال معاشرہ کا قیام ہے ۔انسانی اقدار میں امن وسچائی، عدل و انصاف ،مساوات ا و ربردباری شامل ہیں۔  ضروری ہے کہ تعلیم و تبلیغ کا محور اچھا اور بہت اچھا انسان بننا ہو۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’بیشک سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے ‘‘۔

انسان کے لئے اہم  چیزصدق و پاکدامنی ہے اگر وہ سچائی کی راہ پر گامزن ہوتو نیکی کی طرف رہنمائی ہوتی ہے، اور نیکی انسان کو جنت کی طرف راغب کرتی ہے، اس طرح انسان کو آخرت و دنیا دونوں میں کامیابی  و کامرانی حاصل ہوتی ہے۔ انسان وہ واحدمخلوق ہے جوانسانی اقدار کی پابند ہے، اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر ضمیر  عطا کیا ہے۔

انسانی حقو ق و فرائض

جو انسانی حقوق مشروع کئے گئے ان کے تحفظ کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے ان اقدامات کے تحت معاشرہ کو ڈھالا گیا ،نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا :

’’ اے لوگو بیشک تمہارا رب ایک ہے ،اور بیشک تمہارا باپ بھی ایک ہے ، ہاں عربی کو عجمی ،عجمی کو عربی پر ،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ، مگر تقوی کے سبب سے‘‘۔

اس خطبہ میں حضرت محمدﷺ نے انسانی حقوق کے متعلق اسلام کا موقف بیان فرمایا۔ لوگ انسانی قدر و قیمت میں برابر ہیں۔ اور آپس میں بھائی بھائی ہیں،ان تعلیمات کے ذریعے اسلام نے لوگوں میں حسب و نسب کی اونچ نیچ کا قلع قمع کر دیا ،اورانسانیت کا پیغام تمام انسانیت کو دیا۔ عربی عجمی گورے کالے کے درمیان کوئی یا برابری نہیں ، مسلمان دنیا میں جہاں بستے ہیں ،خواہ رنگ و نسل جدا جدا ہی کیوں نہ ہو دین میں بھائی بھائی ہیں۔

اسلام میں انسان کا مقام و مرتبہ بلند ہے انسان خواہ کسی نسل یا قوم یا رنگ یا نسب کا ہو، اس کی معاشرتی و معاشی حیثیت کچھ بھی ہو قابل احترام مخلوق ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو عزت اور شرف سے نوازا ، اسے بہت سی مخلوقات پر فضیلت بخشی،اور اسکو بہتر زندگی عطاکی ۔

قرآن کریم میں ارشادہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ  ۴؎

’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر بنایا‘‘۔

انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کے تصور کی بنیادبنی نوع انسان کے احترا م ،عزت وقار اور  لزوم عدل و مساوات پر ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا      ۵؎

’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں اور ا ن کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاںفوقیت بخشی ‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو شرف و تکریم سے نوازا  اس کو اعلی درجہ پر فائز کیا،انسانی مساوات کو اللہ تعالیٰ نے  اہمیت دی  انسانی اقدار واضح انداز میں دین اسلام میں موجود ہیں، اسلام کے تفویض کردہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہیں، اللہ تعالیٰ نے انسان کو مذہبی اخلاقی، معاشی، معاشرتی، سیاسی شعبہ ہائے زندگی میں  ہدایات دیں۔ اسلام میں حقوق کے ساتھ فرائض اور ذمہ داریوں پر بھی یکساں زور دیا گیا۔قرآن میں ارشاد ربانی ہے:

وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا              ۶؎

’’ اور تم اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو ،اور  رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر،اور جن کے تم  مالک ہو چکے ہو، ان کے ساتھ بھی بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر کرنے والا فخر کرنیوالا ہوـ‘‘۔

نبی اکرم ﷺ کی دج ذیل حدیث مبارکہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تاکید کی گئی ہے:

’’حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اے معاذ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندے پر کیا حق ہے؟حضرت معاذ نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا:یقینا اللہ کا حق بندوں پریہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں،پھر آپﷺ نے فرمایا: کیا تو جانتا ہے کہ اللہ پر بندے کا کیا حق ہے؟حضرت معاذ نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا :بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ بندوں کو عذاب نہ دے‘‘۔

ارشاد ربانی ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ      ۸؎

’’بے شک مومن آ پس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

ــ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے‘‘۔

اسلا م کی بنیاد ی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اوپر عائد دوسرے افراد کے حقوق کی ادائی کے لئے کمر بستہ رہے اور صرف حق کی ادائیگی تک محدودنہ رہے بلکہ احسان کی روش اپنائے۔

اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ۱۰    ؎

’’بے شک اللہ تمیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔

اس آیت میں عدل و انصاف کو بیان کیا ہے،عدل کا مفہوم تو یہ ہے کہ وہ حقوق جو شریعت اور قانون کی رو سے کسی فرد پر لازم ہیں وہ ان کی ادائیگی کرے جبکہ احسان یہ ہے کہ فرض و عائد حقوق سے بڑھ کر بھی و ہ دوسرے افراد  معاشرہ سے حسن سلوک کرے۔

احسان انسانی معاشرہ کو سراپا امن و آشتی بنانے کی ضمانت فراہم کرتاہے،کیونکہ ایک فرد کا جو فرض ہے،وہ دوسرے فرد کا حق ہے جب ہر فرد اپنے فرض کو صحیح طریقے سے ادا کرے گا تو دوسرے فرد کا حق اُسے مِل جائے گا اس طرح  پورے معاشرہ کے حقوق و فرائض کا نظام درست ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق انسانی کا ایسا نظام قائم کیا جہاں حقوق و فرائض میں باہمی تعلق و تناسب پایا جاتا ہے، اور انسانی اقدار انہی حقوق و فرائض سے متعلق ہیں۔

اسلام انسانیت کی بقاء ،فلاح و بہبود اور ارتقا کے اصولوں کا امین ہے، حقوق کی پاسداری ، انسانی معاشرہ میں حقوق کا احترام اور اعلیٰ انسانی اقدار کا قیام اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح ہے، انسانی اقدار دور جدید کا اہم موضوع ہیں،انسانی تہذیب و ثقافت کا پیمانہ انسانی حقوق کا احترام ہے،کسی بھی قوم و ملت کی اعلیٰ قومی تہذیب و ثقافت کا معیار ان کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسلام میں فرائض کی ادائیگی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔

اخلاقیات:

انسانی اقدار اخلا قی اصول اپنانے پر آمادہ کرتے ہیں۔ بلاشک و شبہ مذہب انسانی اقدار و اخلاقیا ت اور اچھی صفات کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میں بلند اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘۔

اخلاق کی تکمیل ضروری ہے، اخلاقی اقدار میں رحمت کو فوقیت حاصل ہے  اسلام  نے اسے اہمیت دی ہے۔

انسان سے اعلیٰ اخلاقی زندگی مطلوب ہے جس کے دائرے ہر جگہ محیط ہیں،سب سے پہلا دائرہ انسان کی اپنی ذات ہے،پھر اسکا خاندان و قبیلہ ہے ،پھر ملک و ملت، ان سب دائروں میں ایک انسان کو حقوق کو اداکرنے کا حکم ہے حقوق و فرائض کے اخلاقی ضابطے متعین ہیں۔

اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا :

’’مسلمانوں میں کا مل ایمان اسکا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔

اسلام نے جو عبادتیں فرض کی ہیں ان کافیض  اخلاق  کی اصلاح ہے،جیسا کہ نمازکے بارے میں قرآ ن کریم میں ارشادرربانی ہے۔

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۱۳ ؎

’’یقینانماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔

نماز برائیوں اور بے حیائیواں سے روکتی ہے،اسی طرح روزہ انسان میں تقوی اور شکر کی کیفیت پیدا کرتا ہے،زکوۃ کے ذریعہ انسانیت کی ہمدردی و مدد کا داعیہ پیدا ہوتاہے،اس لحاظ سے ہر عبادت کانتیجہ  اخلاق کی پاکیزگی ہے،یہی وجہ ہے کہ رسولﷺ نے ایمان کے بعد اخلاق حسنہ کو سب سے زیادہ مقدم قرار دیا ہے ۔اسلام میں اخلاق کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اس سے ظاہر ہے آپ ﷺ نماز میں جو دعا مانگتے تھے اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہوتا تھا ۔

’’ اور اے میرے خدا تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر تیرے سوا کوئی بہتر سے بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھا سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے پھیر دے اور ان کو نہیں پھیر سکتا لیکن تو‘‘۔

تاریخ کے ہر دور میں معاشرہ اورقوم و ملت کو ایسے صالح افراد  کی ضرورت رہی ہے جو اس کی قیادت کرسکیں اور مسائل و مشکلات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اُن کا مقابلہ کر سکیں اور موزوںاقدامات کر سکیں، ایسے افراد سے امت کو توانائی و خود اعتمادی حاصل ہوتی ہے ایسے مخلص افراد کی قدردانی و حوصلہ افزائی ہوتی ہے توقوم ترقی کی شاہراہوں پر چلتی ہے، جب ان کی ناقدری اور مخالفت ہوتی ہے تو قوم زوال و انحطاط میںپھنستی چلی جاتی ہے۔

اسلام نے انسانی اقدار کونافذ کیا اور انکی حفاظت  کے لئے بہت سی ضمانتوں کا حصار قائم کیا۔ اس نے معاشرے کو ایسے اصول  دیےجو حقوق و فرائض کو اد ا کرنے کے مواقع  فراہم کریں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول میں بیان کردہ انسانی اقدار ابدی ہیں اور ان انسانی اقدار کے تحت حقوق و فرائض کو تسلیم کرنا صالح معاشرے کے قیام کا راستہ ہے ۔

مصادر و مراجع

۱؎ سورۃ البقرۃ،آیت:۳۱

۲؎ الصحیح مسلم ،کتاب البر و الصلۃ و الآداب،باب قبح الکذب وحسن الصّدق وفضلہ

۳؎ علامہ شبلی نعمانی ،سیرت النبی،جلد دوم، ص۷۶۴،ادارہ  اسلامیات پبلشرز بک سیلرز

۴؎ سورۃ التین آیت:۴

۵؎ سورۃ بنی اسرائیل،آیت:۷۰

۶؎ سورۃ النساء، آیت  :۳۶

۷؎  الصحیح  المسلم: کتاب الایمان،باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا

۸؎ سورۃ حجرات آیت: ۱۰

۹؎ الصحیح البخاری، کتاب المظالم،باب:لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ

۱۰؎ سورۃ النحل ،آیت :۹۰

۱۱؎ مؤطا امام مالک ،کتاب :حسن الخلق  ،باب ما جا ء فی حسن الخلق

۱۲؎ ترمذی، الرضاع عن رسول اللہ ﷺ،باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا

۱۳؎ سورۃ العنکبوت ،آیت:۴۵

۱۴؎ الصحیح المسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا،باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ

مشمولہ: شمارہ نومبر 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223