تحریکِ اسلامی ہند کی اصطلاحات میں ’’داخلی نظم کا استحکام‘‘ رواں میقات میں ایک اہم اصطلاح ہے۔ اس داخلی نظم کے استحکام میں نمایاں ترین کردار ایک امیرِ مقامی کو نبھانا ہوتا ہے۔مرکز اورحلقہ کی قیادت جماعت کی علمی، فکری اور عملی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے، لیکن تحریک کے کاموں کے نفاذ، سرگرمیوں کے اہتمام، اہداف کے حصول اور داخلی نظم کے استحکام کی راست ذمہ داری مقامی قیادت پر ہوتی ہے۔مرکز اورحلقہ کی متحرک، باوقارو ذہین قیادت کے باوجود اگر مقامی قیادت مضمحل ہواور غفلت کا شکار ہوتو تحریکی رفتار متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ایسی صورت میں یقینا ارکانِ جماعت کا انفرادی طور پر مخلص و حنیف ہوکرتحریکی کام کا انجام دیناداخلی نظم کے استحکام میں ایک حد تک معاون بن سکتا ہے، لیکن نظمِ جماعت کو مستحکم کرنے میں اہم ترین رول ایک امیرِ مقامی کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ رفقاے جماعت کو حلقہ اور مرکز کے قائدین و مربیین سے بہت کم ہی واسطہ پڑتا ہے۔ ان کا زیادہ تر معاملہ مقامی امیر کے ساتھ پیش آتا ہے۔اگر مقامی قیادت مثالی اورمتحرک و مستعد ہو تو وہ اپنے حلقۂ اثر میں نظامِ سمع و طاعت قائم کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوجاتی ہے۔
قیادت کی عظمت
اسلامی اجتماعیت میں جس چیز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، وہ ‘امارت’ہے۔ اس لیے کہ امارت کے بغیر اجتماعیت قائم نہیں ہو سکتی۔جیسا کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: وَ لا جَماعَۃَ اِلّا بِاِماَرَۃ ﴿اور جماعت امارت کے بغیر نہیں﴾اسی لیے قرآنِ مجید نے ا ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کی اطاعت بھی لازم کردی ہے﴿النسائ:۵۹﴾۔اسی کی تشریح میں نبی ﷺنے امیر کی اطاعت یا نافرمانی کو اپنی اور خدا کی اطاعت یا نافرمانی کے مساوی ٹھیرایا ہے۔ قرآنِ مجید کے مطالعہ سے قیادت کے سلسلے میں جو اصولی بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ دنیا میں جتنے بھی انبیائ و رسل آئے، وہ تمام منجانب اﷲ منصبِ قیادت پر فائز تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قیادت کا ذکر خصوصیت کے ساتھ سورۂ بقرہ میں ان الفاظ میں کیا گیا: اِنّیْ جَاعِلُکَ لِلنّاسِ اِمَاماً ﴿البقرہ:۲۴﴾‘‘بے شک میں تمہیںلوگوں کا پیشوا بناؤں گا‘‘۔ قرآنِ مجید نے صالح قیادت کا ذکر کرنے کے ساتھ مطلق قیادت کی اہمیت کے پیشِ نظر اُس باطل قیادت سے نبرد آزما ہونے کا حکم بھی دیا جو حق کے مقابل کھڑی ہو فرمایا: ﴿اور کفر کے علمبرداروں ﴿لیڈروں﴾سے جنگ کرو۔التوبہ۔۲۱﴾۔ سورۂ بنی اسرائیل میں قیادت کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے یہ بات کہی گئی کہ قیامت کے روز لوگوں کو ان کے لیڈروں کے ساتھ بلایا جائے گا: ﴿پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔بنی اسرائیل۔۱۷﴾ ۔ اسی مفہوم کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے جو بیہقی میں منقول ہے، جسے حضرت عمرؓ نے روایت کیا ہے:‘’قیامت کے روز اﷲ کے بندوں میں اﷲ کے نزدیک مقام و مرتبہ کے لحاظ سے سب سے بہتر عادل و نرم خو حاکم ہوگا، اور قیامت کے روز اﷲ کے بندوں میں اﷲ کے نزدیک سب سے بدتر انسان ظالم اور سخت گیر حاکم ہوگا‘‘۔ اس سے بڑھ کر بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی وہ روایت بھی منقول ہے جس میں نبی ﷺنے امامِ عادل کو ان سات قسم کے لوگوں میں شمار کیا ہے جو خدا کے خاص منظورِ نظر ہوں گے اور عرشِ الٰہی کے سائے میںمامون و محفوظ رہیں گے جس روز اﷲ کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔
اسلامی قیادت کے نمونے
اسلامی تاریخ کے سرسری مطالعے سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب بھی صالح قیادت ابھری اور متحرک ہوئی تو اسلام کو سربلندی نصیب ہوئی، اہم کارنامے انجام پائے اور انقلابات رونما ہوئے۔حضرت نوحؑ کی قیادت جہاں انتھک جدوجہد پیش کرتی ہے، وہیں حضرت ابراہیم ؑ کی قیادت استعداد کی مثال بن کر ابھرتی ہے۔ جب قیادت کوحکمت اور تاویل الاحادیث سے نوازا جاتا ہے تومصر کا تخت حضرت یوسف ؑ کے لیے مسخر ہوجاتا ہے۔ قیادت میں جب معاملہ فہمی، تدبر و اصابتِ رائے، راہِ خدا میں استقامت، سرگرمی، نظم و انصرام، صبر و توکل اور جود و کرم پیدا ہوتا ہے توآنحضور(ص) کی مثالی قیادت رونما ہوتی ہے، مدینے کے اسلامی معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے اور فتحِ مکہ کے مناظر سامنے آتے ہیں۔جب قیادت میں پیروی رسول ﷺکا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو خلافت علیٰ منہاج النبوّہ کا زریں عہدظاہرہوتا ہے۔جب نوجوان قیادت میں جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے تو فاتحِ سندھ کی داستان سامنے آتی ہے۔جب قیادت میں سنجیدگی، عرق ریزی، مجددانہ بصیرت اور فہم و فراست جاگتی ہے تو تحریکِ اخوان المسلمون اور تحریکِ اسلامی ہند کی بنیاد پڑتی ہے۔ یہی وہ صالح قیادت کے نمونے ہیںجن کو ہر صاحبِ امر اپنے سامنے رکھ کر اپنی قیادت کا جائزہ لے سکتا ہے۔
تحریکی قیادت کا مزاج
تحریکی قیادت کے مزاج میں سب سے پہلی چیز ‘عدمِ امیدواری’ ہے۔ اسلامی اجتماعیت میں امیدواری حرام ہے۔ منصب کے خواہش مند کے لیے آخری صف میں بھی جگہ نہیں۔احادیث میں یہ بات صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ اقتدار کی طلب و حرص اسلام میں ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے منصب کے چاہنے والے کو سب سے بڑھ کر خیانت کرنے والا ٹھیرایا ہے۔ جو شخص قیامت کی باز پرس سے باخبر ہو اور پھر بھی منصب کی خواہش کرے اس سے بڑھ کر احمق کون ہوسکتاہے؟۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یوں فرمایاکہ تم میںجو امیر ہوگا اس کے لیے یقیناً قیامت کے روز طویل اور سخت محاسبہ ہوگا﴿کنز العمال﴾۔اسلامی اجتماعیت میں جہاں امیدواری کی گنجایش نہیں وہیں اجتماعی فیصلوں کے تحت ذمہ داری عائدہونے پر راہِ فرار کی اجازت بھی نہیںہے۔جس شخص پر اجتماعی ذمہ داری ڈالی جائے اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اس ذمہ داری کی ادائی میں خود کو اس طرح تھکادے کہ اﷲ کا وعدۂ نصرت اس کے ذمے ہوجائے۔ عدم امیدواری کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ منصب ایک امانت ہے،جسے ایک اسلامی قائد کسی بھی وقت لوٹانے کے لیے تیار رہتا ہے۔یہ بات معروف ہے کہ تحریکِ اسلامی میں تبدیلیٔ امارت کے موقع پر جانے والا شخص ہنسی خوشی جاتا ہے اور آنے والا شخص احساسِ ذمہ داری کی وجہ سے روتا ہوا آتا ہے۔
مثالی قیادت
انفرادی حیثیت سے ذمہ دارانِ تحریک کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں مثالی شخصیت بنیں۔جب خود قرآن و حدیث نے صالح قیادت کی تعظیم و تکریم بیان کی ہے تو یقیناوہ شخصیت دوسروں سے ممیز اور ممتاز ہوگی۔اس لحاظ سے ایک تحریکی قائد دیکھے کہ کم از کم اپنے حلقۂ اثر میں وہ تمام سے حسنِ احلاق، حرکت و عمل اور علم و استعداد کے اعتبار سے ممتاز ہو۔
مصروف ترین زندگی
ایک تحریکی قائد ہمیشہ سرگرمِ عمل رہتا ہے۔ اس کی زندگی میں ٹھیراؤ نہیں آتا۔ وہ وَمَا ضَعُفُوا وَ مَا اسْتَکَانُوْاکی جیتی جاگتی مثال ہوتا ہے اور نبی ﷺ کی اس وعیدسے ڈرتا ہے کہ‘ جو شخص مسلمانوں کا ذمہ دار بنایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ خیر خواہی نہ کی اور ان کے کام کی انجام دہی میں خود کو اسطرح نہیں تھکایا جس طرح اپنی ذات کے لیے خود کو تھکاتا ہے تو اﷲ اس شخص کو منہ کے بل جہنم میں گرادے گا’ ﴿طبرانی﴾۔
احساسِ ذمہ داری و جوابدہی
ایک تحریکی ذمہ دار کی رگ و پے میںیہ احساس سرایت کیے ہوئے رہتا ہے کہ کل قیامت کے روز اس سے طویل اور سخت محاسبہ ہوگا ۔اس کے کانوں میںکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِےَّتِہِ کی آواز گونجتی رہتی ہے۔وہ حضور ﷺکے اس احساس کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے کہ ’‘ حالانکہ میں اﷲ کا رسول ہوں، لیکن میں نہیں جانتا کہ کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘‘ ﴿بخاری﴾۔ حضرت عمر ؓ کا وہ جملہ اسے ہمیشہ اپنا احتساب کرنے پر آمادہ کرتا ہے کہ ‘‘ دریاے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی ضائع ہوجائے تو مجھے ڈر ہے کہ اﷲ مجھ سے سوال نہ کر بیٹھے‘‘۔
علمی صلاحیت و استعداد
جب قیادت کے انتخاب کے لیے بنیادی شرط ہی دین کا علم و فہم ہو تو اس سلسلے میں ذمہ داروں کا سنجیدہ ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ یہ اصولی بات بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیائ کو قیادت سے سرفراز کرنے کے لیے علم سے بھی نوازا: وَ کُلًّاآتَےْنٰہُ حُکْماًوَّ عِلْماً ﴿الانبیائ:۷۹﴾ اور ہم نے ان میںسے ہر ایک کو حکمت اور علم سے نوازا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تعلموا قبل ان تقودوا، ’’قیادت کرنے سے پہلے علم حاصل کرو‘‘۔اس اصول کے تحت علمی استعداد میں competenceکی حد تک اضافہ کرنا ہر ذمہ دارِ تحریک کے لیے ضروری ہے۔
فنِ گفتگو
قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حسبِ استطاعت اظہارِ خیال کی صلاحیت پیدا کرے۔نبی کریم ﷺ کو اس سلسلے میں جوامع الکلم عطا کیے گئے تھے۔ حضرت موسی ؑ نے اسی ضرورت کے پیشِ نظر اﷲ سے شرحِ صدر اور تخاطب کی صلاحیت کی دعا مانگی تھی ﴿طٰہٰ:۵۲ ۔ ۸۲﴾۔ قرآن نے کئی پیغمبروں کے دعوتی مکالمات بھی نقل کیے ہیں۔چونکہ گفتگو کے بغیر کئی امور تشنہ رہ جاتے ہیں، لہٰذا جن پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہو وہ اپنی استطاعت بھر اس صلاحیت کو پیدا کریں۔
علم و عمل
تحریکِ اسلامی کے قائدین قول و عمل کے تضاد سے پاک ہوتے ہیں۔جہاں وہ علمی استعداد کے اعتبار سے آگے ہوتے ہیں، وہیں عملی میدان میں بھی ‘قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآں’ کے مصداق قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
علم وجسم
ایک تحریکی قائد صحت و تندرستی کے لحاظ سے بھی قوی ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں طالوت و جالوت کے واقعے میں قیادت کا معیار علم اور جسم کو ٹھیرایا گیا ہے﴿البقرہ:۲۴۷﴾۔اسی طرح اﷲ کے رسول ﷺنے قوی مؤمن کو ضعیف مؤمن کے مقابلے میں اﷲ کے نزدیک بہتر اور محبوب ٹہرایا ہے۔
رفتارِ کار ﴿Efficiency﴾
استعداد کے معنی یہ ہیں کہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کیا جائے اور کئی لوگوں کا کام ایک فرد انجام دے۔قرآن نے حضرت ابراہیم ؑ کو اس خاصیت کے لیے ’’کَانَ اُمَّۃً ’‘ ﴿اپنی ذات میں ایک امت﴾کے خطاب سے نوازا ہے ﴿النحل:۱۲۰﴾ ۔ خود حضور اکرم ﷺ نے جو انقلاب برپا کیا وہ دنیا کا تیزترین انقلاب تھا۔سورۂ الانفال : آیت ۵۶/ میں ایک معیاری مؤمن کی استعداد یہ بیان کی گئی کہ وہ دس کفار پر غالب آسکتا ہے یا کم از کم دو پر تو اسے غالب آنا ہی چاہیے۔اس لحاظ سے تحریکی ذمہ داروں میں اتنی استعداد ہو کہ وہ سرعت و استقلال کے ساتھ بیک وقت بہت سارے کام انجام دے سکیں۔
انتظامی صلاحیت
اجتماعیت کو چلانے کے لیے انتظامی صلاحیتیں ناگزیر ہیں۔اگر ذمہ دار کی تنظیمی صلاحیتوں میں کمی ہو تو کئی کام بحسن و خوبی انجام نہیں پاتے۔ کام کو بہتر سے بہتر انداز میں انجام دینے کے لیے اور رفقائ کے تعاون کو یقینی بنانے کے لیے قیادت میں تنظیمی صلاحیتیں ہونی چاہیے ں۔
معاملہ فہمی، تدبر و اصابتِ رائے اور قوتِ فیصلہ
قرآنِ مجید میں ایک اولوالامر کی انھی صفات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ معاملہ فہم ہوتے ہیں، حالات سے باخبر ہوتے ہیں، اس پر غور و خوص کے بعداپنی دینی بصیرت سے نہ صرف صحیح نتیجے پر پہنچتے ہیںبلکہ واضح موقف اختیار کرتے ہوئے فیصلے کی قوت بھی رکھتے ہیں۔‘’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کرپھیلا دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیںتو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیںکہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ ’‘ ﴿ النسائ:۸۳﴾
اجتماعیت میں خواہ کوئی دل شکستہ ہو جائے لیکن ایک قائد ہمیشہ پر عزم اور پر امید ہوتاہے۔جیسا کہ نبی ﷺ کو مخاطب ہو کر اﷲ تعالیٰ نے انبیاے کرام کے اس وصف کا ذکر کیا: فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ مِنَ الْرَّسُلْ ﴿الاحقاف:۳۵﴾﴿پس اے نبی ﷺ آپ صبر کیجیے جیسا کہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا تھا۔﴾
تخلیقیت اور ندرت
دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے تحت اسلام کو انقلابی انداز میں پیش کرنے کے لیے تحریکی قیادت کے اندر منصوبہ بندی، ذہنی و فکری توسع و تنوع پایا جاتا ہے۔ وہ نئے نئے طریقوں کو اپناتے ہوئے دعوت کو پیش کرنے کی سعی کرتی ہے۔ روایتی طریقوں پر اکتفا کیے بغیر ایک اسلامی قائد ہر اس جدت و تنوع کو قبول کرتا ہے جس کی اسلام میں گنجایش ہو اور جس سے تحریکی کاموں میں اضافہ ہوتا ہو۔
تحریکِ اسلامی کی مزاج شناسی
جس تحریک کی کسی بھی سطح کی قیادت ایک شخص کے ذمہ ہو، وہ اس تحریک کے مزاج کو سمجھے بغیراس ذمہ داری کا حق ادا نہیں کر سکتا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس تحریک کے قیام تا حال کا علم، اس کے طریقۂ کار سے واقفیت اور اس کے مزاج کا گہرا شعور حاصل کرے۔
اجتماعیت سے والہانہ قلبی تعلق
اپنے رفقا کے تحریک کے لیے کمٹمنٹ﴿commitment﴾ سے بڑھ کرایک قائد کا کمٹمنٹ ہوتا ہے۔تحریک سے اس کا تعلق رسمی یا کام کی حد تک نہیں ہوتا بلکہ اپنے مقصداور اس کے لیے اجتماعی جد وجہد کو وہ عزیز ترین درجہ دیتا ہے۔اس والہانہ وابستگی میں نہ اس کے رشتے دار رکاوٹ بنتے ہیں نہ مال، تجارت یا گھر بار۔ہر چیز اس کے نزدیک ثانوی درجے کیہوتی ہے۔جبکہ اﷲ، رسول ﷺاور اجتماعی جدوجہدکو اولین ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
راہِ خدا میں صبر و استقامت
اجتماعیت میں خواہ کوئی متزلزل ہو جائے، ذمہ دار ہمیشہ صبر و استقامت کا پہاڑ ہوتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ یہ راہ پھولوں کی سیج نہیںکہ آسانی سے سر ہوجائے۔یہ راہ اپنے اندر مَسَّتْھُمُ الْبَأسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا کی آزمائش رکھتی ہے۔ یہ راہ بت پرستوں سے اعلانِ برائ ت کرنے، آگ میں کود جانے، بے آب و گیاہ دشت و صحرا میں بھٹکنے، وادی غیرِ ذی زرع میں اپنے اہل و عیال کو چھوڑنے اور لختِ جگر پر چھری چلادینے کی راہ ہے۔ یہ راہ طائف کے پتھر کھانے اور وطنِ عزیز سے ہجرت کرنے کی راہ ہے۔ دل برداشتہ ہوئے بغیر ثُمَّ اسْتَقَامُوْا کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔
نرمی و ملاطفت مثالی قیادت کااہم وصف
نرمی اﷲ کے رسول ﷺ کی نمایاں ترین خوبی تھی۔نرم مزاجی کو نبی اکرم ﷺ کی امتیازی شان اور رحمتِ خداوندی کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔اسی نرمی نے تمام صحابہ اکرام کو انتہائی قربت کے ساتھ اﷲ کے رسول ﷺسے جوڑے رکھا تھا۔﴿ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران:۱۵۳﴾۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں کہا گیا: بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤفُ الرَّحِیمْ کہ آپ عام مؤمنوں کے لیے انتہائی درگزر اور رحم کرنے والے تھے۔ ﴿التوبہ:۱۲۸﴾۔ اسی وصف کو آپ صحابہ کرامؓ اور تاقیامت آنے والے تمام اصحاب امر میں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ ﷺ نے دعا کی کہ اے اﷲ جو رعایا پر رحم کریں توان پر رحم فرما اور جو رعایا پر سختی کریں اﷲ ان پر سختی فرما۔ ﴿مسلم﴾
الفت و محبت
الفت ومحبت ایک ایسی صفت ہے کہ اگر امیر و مامورین دونوں میں پیدا ہوجائے تو بقیہ تمام امور درست ہوجائیںگے۔ اس صفت کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر بنی کریم ﷺ نے بہترین اور بدترین قیادت کی کسوٹی ‘الفت و محبت ’ کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’تم میں بہترین لیڈر وہ ہیں جن کو تم محبوب رکھتے ہو اور جو تمہیں محبوب رکھتے ہیں اور تم میں بدترین لیڈر وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہوں‘‘ ﴿مسلم﴾ نبی اکرم ﷺ کے دل میں صحابہ کرام ؓ کے لیے الفت و محبت کا ایک ایسا اتھاہ سمندر تھا کہ ہر صحابی یہ محسوس کرتا تھاکہ شاید اﷲ کے رسول ﷺسب سے بڑھ کر مجھے ہی محبوب رکھتے ہیں۔
ملنساری
پیار اورمحبت کا لازمی نتیجہ ملنساری کا ماحول ہے۔ سورۂ آل عمران،آیت:۱۵۳میں حضور ﷺکے سلسلے میں یہ جو بات کہی گئی کہ اگر آپ سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تم سے چھٹ جاتے، یہ منظر کشی کرتا ہے کہ نبی ﷺاتنے ملنسار تھے کہ صحابہ کرام ؓ آپ کی صحبت کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک محسوس کرتے تھے اور ہمیشہ آپ ﷺکے ارد گردجمع رہتے تھے۔
خیر خواہی
تحریکی قیادت ہمیشہ اپنے مامورین کے لیے خیر خواہ ہوتی ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا‘الدین النصیحہ’ ﴿دین تو بس خیر خواہی کا نام ہے﴾ پوچھا گیا کہ لِمَنْ؟ کس کے لیے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اﷲ کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے ذمہ داروں کے لیے اور مامورین کے لیے‘‘﴿بخاری﴾۔ تحریکی ذمہ داروںکو بھی اپنی فکر سے زیادہ اپنے مامورین کی فکر و خیرخواہی کرنی چاہیے۔
ایثار و قربانی
خیرخواہی کا لازمی تقاضا ہے کہ امیر اپنے مامورین کو اپنی ذات پر ترجیح دے۔ خواہ اس کی اپنی ذات پر کتنا ہی شاق گزرے۔اُسے ہمیشہ وَ یؤثِرُوْنَ عَلی آ اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَہْ ﴿الحشر:۹﴾﴿اور وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہو﴾ کا عملی نمونہ ہوناچاہیے۔
خوش مزاجی
یہ بھی ایک مثالی ذمہ دار کی نمایاں صفت ہے۔حضور ﷺ کے بارے میںعبد اﷲبن حارث بن جزئ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ‘میں نے رسول اﷲ ﷺ سے زیادہ کسی شخص کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا ﴿ترمذی﴾۔ نبی ﷺ نے خود اس کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ‘‘اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے:
A smile is a small curve which sets right many a thing
رفقاء کی قدر و منزلت
نبی ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم ’’وشاورھم فی الامر‘‘﴿آل عمران۔۱۵۳﴾ کہ ان کو اہم معاملوں میں شریکِ مشورہ رکھو۔ یہ بات واضح کرتا ہے کہ رفقائ کی قدر کی جانی چاہیے۔ان کے ہمراہ اطمینان کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔جیسا کہ خود حضور اکرم ﷺ کو یہ حکم دیا گیا :
وَاصْبِرْنَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَداوۃِ وَالْعَیْشِییِ ﴿الکہف:۲۸﴾
’’ اے نبی ﷺآپ خود کو ان لوگوں کے ساتھ مطمئن رکھیے جو اﷲ کو صبح و شام پکارتے ہیں‘‘۔
شیرازہ بندی و مستقل نگرانی
ایک اسلامی قائد کی حیثیت ایک چرواہے کی سی ہے۔ وہ مسلسل یہ دیکھتا رہتا ہے کہ اس کی اجتماعیت کہیں بکھر تو نہیں رہی ہے۔وہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کی اجتماعیت کانھم بنیان مرصوص﴿سیسہ پلائی ہوئی دیوار﴾کے مانندمجتمع اور مربوط رہے۔ وہ تمام رفقائ کو جوڑے رکھتا ہے۔
افراد سازی
ایک اسلامی قائد نئے نئے افراد کو اپنی جدوجہد میں شامل کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔وحیٔ اقرأ کے موقع پر جو شخصیت تنِ تنہا تھی، وہ ایک سے چار، چار سے سولہ کی طرح افراد کو اپنی جدوجہد میں شامل کرتے ہوئے مختصر مدت کے اندراپنے صحابہ اکرام ؓ کے تعاون سے حجّۃ الوداع تک تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار افراد کی اجتماعیت برپا کردیتی ہے۔اس ہمہ گیر افراد سازی کی محرک ‘قیادت ’ ہوتی ہے۔
ساتھ لے کر، گھل مل کر چلنا
ایک تحریکی قائد اپنے رفقا کے ساتھ گھل مل کر کام انجام دیتا ہے۔ سیرت رسول ﷺ کے اس منظر کو ذرا نگاہوں کے سامنے لائیے کہ کس طرح نبی ﷺ خندق کھودنے میں پیش پیش ہیں۔صحابہ کرام کے پیٹوں پر ایک پتھر بندھا ہوا ہے تو سرورِ عالم ﷺکے شکم پر دو دو پتھر نصب ہیں۔ اﷲ اکبر
طریقۂ تربیت
اس ضمن میں آخری چیز اندازِ تربیت ہے۔نبی کریم ﷺکے طریقۂ تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ حکمت، محبت و دلسوزی، مزاج و نفسیات اورجذبات و احساسات کا خیال رکھتے ہوئے تربیت فرماتے تھے۔ صحابہ ؓ کی ہمت افزائی فرماتے تھے۔ حسنِ ظن اورچشم پوشی سے کام لیتے ہوئے تدریج و ترتیب ، حسنِ کردار و گفتار کے ساتھ ان کی ہمہ جہت تربیت فرماتے تھے۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ خلفاے راشدین کی مثالی قیادت سامنے آئی۔
توجہ طلب پہلو
آخر میں ان توجہ طلب پہلؤوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے، جن کی اصلاح ناگزیر ہے۔ خامیاں اور کمزوریاں ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ ذمہ داران ان سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے جو کمزوریاں شیطان کے وسوسوں سے پیدا ہوسکتی ہیں، ان میں خود کو بڑا سمجھنا، مامورین پر بے جا تحکم جتلانا، دوسروں کو حقیر سمجھنا، وغیرہ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا مودودی(رح) کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’امرائے جماعت حکم چلانے کا طریقہ سیکھیں۔ امیر کے لیے ہر گز یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیزسمجھنے لگے اور اپنے تابع رفقائ پر بے جا تحکم جتلانے لگے۔ اسے حکم چلانے میں کبریائی کی لذت نہ لینی چاہیے۔ اسے اپنے رفقائ سے نرمی اور ملاطفت کے ساتھ کام لینا چاہیے‘‘ ﴿تحریک اور کارکن﴾۔ ایک اور موقعے پر آپ نے کہا:‘‘امیرِ جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ساتھیوں کو لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور ان کے اوپر اس طرح حکم چلانے کی کوشش نہ کرے جس سے ان کے اندر ضد یا بددلی پیدا ہو۔بلکہ دلی رفاقت، دلی محبت اور دلی خلوص کے جذبے سے ان کو متأثر کرے اور ارکانِ جماعت اس کے حکم کے منتظر نہ رہیں، بلکہ اس کامنشا سمجھ کر ہی تعمیل کے لیے آمادہ ہوں’’ ﴿امیر و مامور﴾۔ عاجزی و انکسار کا نمونہ سیدِ انسانیت ﷺکے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں: ’’میں بھی ایک بشر ہوں، میں بھی بھولتاہوں جس طرح تم لوگ بھولتے ہو، بس جب میں بھول جاؤںتو مجھے یاد دلا دیا کرو‘‘۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور حضرت عمرفاروق ؓ سے بھی اسی طرح کے جملے منقول ہیں۔
ان کمزوریوں کے علاوہ ذمہ دارانِ تحریک میں خشک مزاجی بھی ایک کمزوری ہے۔ جبکہ خوش مزاجی،تبسم اور ملنساری ایک تحریکی قائد کی پہچان ہوتی ہے۔رفقائ سے دوری﴿Reserved Nature﴾بھی قیادت میں ایک عیب ہے، جس سے تمام ذمہ داران کو محفوظ رہنا چاہیے۔انہیں نبی کریم ﷺ کی طرح اپنی شخصیت کو ہردلعزیز بنانی ہوگی کہ مامورین ان کے اطراف فرطِ محبت میں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں۔پھر ایک ذمہ دار کو چڑچڑے پن اور غصے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے اور عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ ذمہ داران اپنے مامورین کو قدر کی نگاہ سے دیکھیںاور ان کی ہر طرح سے خیر خواہی کا مظاہرہ کریں۔ علامہ اقبال ؒ کی زبانی اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی امامت کے لیے جس سبق کو ہمیں یاد کرنا ہے وہ صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق ہے۔نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو ایک قائد کی پہچان ہے۔وہ گفتار و کردار میں اﷲ کی برہان ہوتا ہے۔ایک میرِ کارواں کے لیے جو رختِ سفر انہوں نے تجویز کیا ہے وہ نگہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پر سوز ہے۔ اور قیادت کی ناکامی سے اگر کوئی کارواں سے ٹوٹتا ہے اور کوئی حرم سے بدگماں ہوتا ہے تو اس کا سبب میرِ کارواں میں خوئے دلنوازی کا فقدان ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2010