عبادات میں سے سب سے اہم عبادت دعا ہے جو مومن کی ڈھال اور شیطانی وسوسوں، حملوں اور نفسیاتی خواہشات کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار ہے ،اسی وجہ سے شریعت کی نظر میں دعا ایک عبادت اور عبادات کی روح وجان ہے اور ہر مسلم سےشرعاً مطلوب ہے کہ وہ ہمہ وقت ذکرواذکار ومسنون دعاؤں کا اہتمام کرے اور قرآنی تعلیمات کوحرزجان بنائے ۔یہ بھی حق ہے کہ مومن انفرادی واجتماعی دعاؤں کے ذریعہ بہت سے مصائب وآلام وآفات ارضی وسماوی سے محفوظ رہے گا اور شیطانی حملے اس کے حق میں غیر مؤثر ہوں گے ۔
زیر نظر مضمون میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کتاب وسنت اور آثار وتعامل صحابہؓ اور مؤقراہل علم کے مستندفتاوے کی روشنی میںاجتماعی دعا کی حیثیت پیش کی جائے اور افراط وتفریط سے ہٹ کر اعتدال کی روسے بلکہ انصاف کے ساتھ یہ واضح کی جائے کہ یہ مسئلہ ان مختلف فیہ مسائل میں سے ضرور ہے جس میں سلف صالحین کے نزدیک وسعت موجود ہے اور اختلاف کے باوجود مخالفت کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے اور نہ ہی فروعی مسائل میں اختلاف حق وباطل کا ہے بلکہ اکثر وبیشتر جواز واستحباب کا ہے اور افضل اور غیر افضل کا ہے یا راجح ومرجوح کا۔
راقم الحروف کا مقصد یہی ہے کہ امت مسلمہ کے عوام وخواص کے مابین جن فروعی مسائل میں بے جا شدت پسندی ہے ان مسائل کواعتدال کے ساتھ جارحانہ انداز سے بچتے ہوئے مثبت انداز میں راہ حق وصواب کی طرف رہنمائی کی جائے ۔ نیز اختلاف کی صورت میں صحابہ کرام ؓ وتابعین عظام ؒ کے منہج اور طریقہ کار کی طرف نشاندہی کی جائے ۔اس لئے کہ آج اسلاف سے محبت کادعوی توہے لیکن ان کی خدمات کا اعتراف ناپید ہے اور ان کی علمی کاوشوں کی ناقدری ہے پھر بھی ان کے نام کے جلسے جلوس اور عظمت صحابہ کانفرنس کی بہتات تو ہے اور آج امت دین اسلام کی روح اور مزاج سے بالکل ناآشنا ہے ۔
وہ مقامات جہاں رسول اکرم ﷺ کادعا کے لئے ہاتھ اٹھانا ثابت ہے
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے فرمایا ہے کہ :
من الناس من قال ان الید لا تر فع الا فی الاستسقاء وتر کوا رفع الیدین فی سائر الادعیۃ ومنہم من فرق بین دعاء الرغبۃ ودعاء الرہبۃ والصحیح الرفع مطلقا فقد تواتر عنہﷺ ( مختصر الفتاوی المصریۃ ۱/۱۵۹ ۔ المستدرک علی مجموع الفتاوی ۲/۱۳۵)
یعنی بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ صرف استسقاء ( بارش طلب کرتے وقت ) میں ہی ہاتھ اٹھانا چاہیے باقی مقامات میں انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا ۔اور بعض حضرات نے ترغیب اور ترہیب کی دعاؤوں میں فرق کیا ہے صحیح بات یہ ہے کہ آپ ﷺ سے مطلقا دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا تواتر کے ساتھ ثابت ہے ۔ ذیل میں ان مقامات کا تذکرہ ہے جہاں دعا کے لئے رسول اکرم ﷺ نے ہاتھ اٹھایا ہے ۔
۱۔ طفیل بن عمرو دوسی ؓ نے رسو ل اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ قبیلہ دوس نافرمان قوم ہے پس آپ ان کے خلاف بد دعا فرمائیں ۔ تو نبی کریم ﷺ نے قبلہ روہوکر دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا فرمائی اے اللہ : قبیلہ دوس کوہدایت فرما اور انہیں اسلام کی توفیق عطا فرما ۔ ( بخاری ۲۹۳۷ مسلم ۱۹۷( ۲۵۲۴)
۲۔ ابوموسی اشعری ؓنے رسول اللہ ﷺ کو ابوعامر اشعری ؓ کی وفات کی خبر سنا ئی تو آپ اپنے گھر میں موجودتھے چنانچہ آپ ﷺ نے وضو کے لئے پانی طلب کیااور دونوں ہاتھوں کواس قدر اٹھایا کہ آپ ﷺکے بغل کی سفیدی نظر آنے لگی اور دعا فرمائی: اللہم اغفر لعبید أبی عامرؓ پھر ابوموسی اشعری ؓنے درخواست کی یارسول اللہ میرے لئے بھی دعا فرمادیں تو آپ ﷺ نے دعا کی: اللہم اغفر لعبد اللہ بن قیس ذنبہ وأدخلہ یوم القیامۃ مدخلا کریما ( صحیح بخاری ۴۳۲۳ ومسلم ۲۴۹۸ ) ترجمہ :’’اے اللہ۔ عبد اللہ بن قیس ؓ کے گناہوں کومعاف فرما اور انہیں قیامت کے دن باعزت مقام میں داخل فرما۔ ‘‘
۳۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل امین تشریف لائے اور عرض کیا کہ اللہ کا حکم یہ ہے کہ آپ اہل بقیع کے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں تو آ پﷺ بقیع الغرقد ( مدینہ کاقبرستان ) (رات کے وقت )پہنچے بہت دیر تک قیام فرمایا اور ہاتھ اٹھاکرآپ ﷺ نے تین بار دعا فرمائی۔ ( مسلم ۱۰۳( ۹۷۴)
امام نوویؒ نے اس حدیث کی شرح میں بیان کیا ہے کہ اس حدیث سے طویل دعا کرنے اور اس میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا استحباب معلوم ہوتا ہے ۔ ( شرح مسلم ۱/۳۱۳)
۴۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ ج وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے سو جس شخص نے میرا کہا مانا وہ میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘( ابراہیم ) اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَج وَاِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(المائدۃ :۱۱۸) اگر تو ان کو عذاب دے تویہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو (اپنی مہربانی ہے) بیشک تو غالب (اور) حکمت والا ہے ۔ہاتھ اٹھاکر آپ ﷺ نے دعا فرمائی : اللہم أمتی أمتی اے اللہ میری امت کی مغفرت فرما ۔ اے اللہ میری امت کی مغفرت فرما ، اور رونے لگے تو جبریل أمین کے ذریعہ اللہ کی طرف سے یہ خوشخبر ی آئی انا سنرضیک فی أمتک ولانسؤک ’’اے محمد! ہم آپ کوآپ کی امت کی طرف سے خوش کردیں گے اور آپ کوناراض نہیں کریں گے۔‘‘مسلم ۳۴۶ ۔ ( ۲۰۲)
۵۔ قیس بن سعد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آل سعد بن عبادۃ کے حق میں دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا فر مائی: اللہم اجعل صلواتک ورحمتک علی آل سعدبن عبادۃ (۵۱۸۵ سنن أبی داؤد )
۶۔ حضرت علی ؓ کو جب آپ ﷺ نے ایک فوج کے ساتھ روانہ فرمایا تو دونوںہاتھ اٹھاکر دعا فر ما ئی اللہم لاتمتنی حتی ترینی علیا( ترمذی ۳۷۳۷وقال حسن غریب )
۷۔ قنوت نازلہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا فرماتے تھے۔ (رواہ البیہقی ومستخرج أبی عوانۃ ۳۶۰۶ والمعجم الأوسط للطبرانی: ۳۷۹۳) نیزابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ مسلسل پانچوں نمازوں میں رعل وذکوان اور عصیۃ کے خلاف قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا اور( مقتدی صحابہ کرام ؓ )آمین کہا کرتے تھے۔( سنن ابی داؤد۱۴۴۳حسنہ الالبانی )
۸۔ انس بن ملک ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے دیکھا ہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بغل کی سفیدی دکھائی دیتی تھی ۔ رأیت رسول اللہ ﷺ یرفع یدیہ فی الدعاء حتی یری بیاض ابطیہ
(مسلم ۵ ( ۸۹۵)
۹۔ طفیل بن عمرو دوسی ؓ کے ساتھ ایک اور ساتھی مدینہ منورہ ہجرت کرکے پہنچے مدینہ منوہ کی آب وہوا انہیں راس نہ آئی یہاں تک کہ وہ بیمار ہوگئے بیمار ی سے گھبرا کر ایک آلہ سے اپنا ہاتھ زخمی کرلیا اسی زخم کے ساتھ وہ وفات پاگئے ایک دن طفیل نے اپنے ساتھی کوخواب میں بہترین شکل وصورت وحالت میں دیکھا اور سوال کیا کہ رب نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا تو فرمانے لگے کہ میر ے نبی ﷺ کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے معاف فرمادیا طفیل ؓ نے اپنے ساتھی کے ہاتھوں کو ڈکھے ہوئے پایا توسوال کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ ہم اسکی اصلاح نہیں کریں گے جسے تم نے خودسے بگاڑدیا ہے یہ ساری باتیں جب طفیل ؓ نے آپ ﷺ کے سامنے بیان کردی تو نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی: اللہم ولید یہ فاغفرورفع یدیہ (صحیح مسلم ۱۸۴ / ۱۱۶) اے اللہ !ا پنی مغفرت سے اس کے ہاتھوں کوبھی درست فرما اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھا ئے۔
۱۰۔ عبد الرحمن بن سمرۃ ؓ نے کسوف ( سورج گرہن )کے موقع پر نبی کریم ﷺ کوہاتھ اٹھاکر دعا کرتے دیکھا۔(مسلم ) (مزید تفصیلات کے لئےملاحظہ فرمائیں: مختصر الفتاویٰ المصریۃ لابن تیمیۃ۱۶۰/۱)
مذکورہ بالا احادیث شریفہ سے مطلقا ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کاثبوت ظاہر ہے اس لئے کہ ان میں وقت کی تعیین نہیں کی گئی ہے لہذا بندہ مومن نماز سے قبل یا نماز کے بعد , چاہے نماز نفل ہو یا فرض ہاتھ اٹھاکر دعا مانگ سکتا ہے ۔شریعت اسلامیہ میں حکم مطلق کو عموم پر ہی محمول کیا جاتا ہے جب تک اس کی تخصیص وارد نہ ہویا اس عموم کومقید نہ کردیا جائے۔
امام نووی ؒ نے اپنی مشہور کتاب المجموع شرح المہذب میں ہاتھ ا ٹھانے اور چہرے پر ہتھیلیوں کوپھیرنے کے تعلق سے تیس روایتیں نقل کی ہیں اور ان کے پیش نظر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھا نا مستحب ہے ۔ اعلم انہ مستحب نیزآپ نے ان روایتوں کو نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ ا لمقصود أن یعلم أن من ادعی حصر المواضع التی وردت الاحادیث بالرفع فیہا فہو غالظ غلطا فاحشایعنی جوشخص ان احادیث کو ان کے مواقع کے ساتھ خاص کرتا ہے وہ فحش غلطی پر ہے ۔ (المجموع ۳/۵۱۱) ( باب فی استحباب رفع الیدین فی الدعاء خارج الصلوۃ وبیان جملۃ من الاحادیث الواردۃ فیہ ص ۴۴۸تا ۴۵۰ , مطبوعۃ المکتبۃ العلمیۃ )
قرآن کریم میں متعدد آیتیں ہیں جن کے عموم سے اجتماعی دعا کاثبوت ملتا ہے حضرت آدم وحواء ، ابراہیم واسماعیل ،موسیٰ وہارون علیہم السلام کی دعاؤں سے جواز پر استدلال کیا گیا ہے جیسے حضرت آدم وحواء علیہما السلام کی دعا:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف:۲۳)
’’عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے ۔‘‘
حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے کعبہ کی تجدید کے بعد یہ دعا فرمائی :
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ o (البقرہ:۱۲۷۔۱۲۹)
’’اور جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے اللہ ہم سے یہ خدمت قبول فرما بیشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ۔اے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنائے رکھ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بناتے رہنا اور (اللہ) ہمیں ہمارے طریقِ عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما بیشک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے ۔اے پرودگار ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرمانا جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور اُن (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے ۔‘‘
حضرت موسی دعا فرماتے تھے اور ہارون علیہم السلام آمین کہتے تھے
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَلَا تَتَّبِعَآنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَo (یونس: ۸۹)
’’(اللہ نے) فرمایا کہ تمہاری دعا قبول کر لی گئی تو تم ثابت قدم رہنا ا ور بے عقلوں کے رستے نہ چلنا ۔‘‘( تفسیر قرطبی ۱/ ۱۳۰)
نبی کریم ﷺ کواللہ تعالی نے رسولوں کے ذکر خیر کے بعد حکم دیا کہ آپ ان نبیوں اور رسولوں کی اقتداء فرمائیں اور ان کے راستہ کی پیروی فرمائیں جیساکہ ارشاد باری ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰئہُمُ اقْتَدِہْ ( الانعام :۹۰)
’’وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو ‘‘
لہٰذا اس پہلو سے بھی انبیا ء کر ام علیہم السلام اسوہ ا ورنمونہ ہیں ۔
سنن وآثار اور علماء کرام کے اقوال کی روشنی میں اجتماعی دعاء :
۱۔ عن ابن عمر ؓ قال ‘ قلما کان رسول اللہ یقوم من مجلس حتی یدعو بھولاء الکلمات لأصحابہ اللہم اقسم لنامن خشیتک ما یحول بیننا وبین معاصیک ومن طاعتک ما تبلغنا بہ جنتک ومن الیقین ما تہون بہ علینا مصیبات الدنیا ومتعنا باسماعنا وابصارنا وقوتنا ما احییتنا واجعلہ الوارث منا واجعل ثأرناعلی من ظلمنا وانصرنا علی من عادانا ولا تجعل مصیبتنا فی دیننا ولا تجعل الدینا أکبر ہمنا ولا مبلغ علمنا ولا تسلط علینا من لا یرحمنا۔( رواہ الترمذی وحسنہ الألبانی رقم الحدیث ۳۵۰۲ )
مطلب یہ ہے کہ ایسا کم ہی ہوتا کہ رسول اکرم ﷺ کسی بھی مجلس سے اپنے صحابہ ؓ کے لئے دعا کئے بغیر اٹھے ہوں۔ اللہم اقسم لنامن خشیتک ما یحول بیننا وبین معاصیک ومن طاعتک ما تبلغنا بہ جنتک ومن الیقین ما تہون بہ۔۔
۲۔ امام نووی ؒ نے مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ باب باندھا ہے ( باب دعاء الجالس فی جمع لنفسہ ومن معہ ) یعنی کسی جماعت میں بیٹھنے والے کا اپنے اور اپنے ساتھیوں کے حق میں دعا کرنے کا بیان: (الاذکار للنووی حدیث نمبر۸۹۰)
۳۔ حضرت سلمان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
ما رفع قوم أکفہم الی اللہ عزوجل یسألونہ شیء الا کان حقا علی اللہ أن یضع فی أیدیہم الذی یسألونہ ( رجالہ رجال الصحیح ۔۔ موضع الیدین بعد الرفع من الرکوع للألبانی )
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو قوم اللہ سے مانگنے کے لئے ہاتھ اٹھاتی ہے تو ان کا اللہ پر یہ حق ہے کہ ان کے ہاتھوں میں ان کی مراد پوری کردے۔
۴۔ حضرت ابن مسعود ؓ جب اپنے ساتھیوں کے لئے دعا کرتے تھے تو فرماتے
اللہم اہدنا ویسرہداک لنا اللہم یسرنا للیسری وجنبنا العسری واجعلنا من اولی النہی اللہم لقنا نضرۃ وسرورا واکسنا سندسا وحریراوحلنا أساور الہ الحق اللہم اجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بہا قائلیہا وتب علینا انک أنت التواب الرحیم ( مصنف ابن ابی شیبہ ۲۹۵۲۷)
ترجمہ :’’ اے اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرما اور ہدایت ہمارے لئے آسان کردے نیکی کو آسان کردے اوربدی سے ہمیں دور کردے اور ہمیں عقلمندوں میں شامل فرما اے اللہ ہمیں خوش رکھ اور ریشمی لباس عطافرما اے برحق معبود ہمیں عالی شان پوشاک عطاکردے اے اللہ ہمیں تیری نعمتوں پرشکر گذاری کی توفیق دے اورتیر ی نعمتوں کویاد کرنے والوں میں شامل کردے اور ہماری توبہ قبول فرما بے شک توتوبہ قبول کرنے والا ہے ۔‘‘
۵۔ عوف بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ میں ایک جنازہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ حاضرتھا پس میں نے آپ ﷺ کی یہ دعایادکرلی اللہم اغفرلہ وارحمہ شیخ الحدیث مولانا صفی الرحمن مبارکپور ی ؒ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی انسان دعا کرے اور اور اس کے آس پاس کے لوگ آمین کہیں ۔ ( منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم )
۶۔ حضرت انس ؓ سے ثابت ہے کہ ثابت بن قیس ؓ نے حضرت انس ؓ سے فرمایا آپ کے ساتھی چاہتے ہیں کہ آپ ان کے حق میں دعا فرمائیں توآپ ؓ نے دعافرمائی:
اللہم رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار ( الدر المنثور : ۱/۲۴۲)
۷۔ حضرت عمر ؓ ابوبکر صدیق ؓ کے بعدخلیفہ ہوئے بیعت خلافت کے بعد آپ ؓ نے خطبہ دیا اور فرمایا یا: أیہاالناس انی داع فأمنوا اللہم انی غلیظ فلینی لأہل طاعتک یعنی اٍے لوگوں میں دعا کرنے والا ہوں پس تم لوگ آمین کہو : اے اللہ میں درشت مزاج ہوں تیرے اطاعت گذاروں کے لئے مجھے نرم کردے۔ (العقد الفرید لاٍبن عبد ربہ ۴/۱۵۶)
اجتماعی دعا کے جواز پر اہل علم کے فتاوے :
۱۔ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ؒ کا فتوی :الاجتماع علی القراء ۃ والذکر والدعاء حسن مستحب اذا لم یتخذ ذلک عادۃ راتبۃ کالاجتماعات المشروعۃ ولا اقترن بہ بدعۃ منکرۃ ( مجموع فتاوی ۲۲/۵۲۳)
یعنی تلاوت کتاب اللہ ذکر واذکار اور دعا کے لئے جمع ہونا اچھا اور مستحب ہے بشرطیکہ اس طرح کی محفلوں کی کوئی مستقل عادت نہ بنالی جائے جیسے شرعی اجتماعات کی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی اس طرح کی محفلوں میں کسی بدعت کا ارتکاب ہو ۔
۲۔ امام کے لئے جائز ہے کہ وہ جمعہ کے خطبۂ اولی اور ثانیہ میں نمازیوں، عام مسلمانوں، اورمسلم حکمرانوں کے حق میں دعا ء خیر کرے اور مقتدی اس دعا پر آمین کہیں۔ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ۔ ۷/ ۱۱۲)
۳ ۔ دروس یا وعظ ونصیحت کے بعد دعاء کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے اس طرح کے مواقع میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ سنت سے ثابت نہیں ہے البتہ عام حدیثیں ہیں جس میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے اور وہ اسباب اجابت یعنی ہاتھ اٹھانا قبولیت کے اسباب میں سے ہے لیکن مجھے اس طرح کی کوئی حدیث یا دنہیں ہے جس میں رسول اللہ ﷺ وعظ ونصیحت کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعاکرتے تھے؟ اگر یہ ثابت شدہ ہوتی توصحابہ کرام ؓ ضرور نقل فرماتے انہوں نے ہر اس چیز کو امت تک پہنچایا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا پس بہتر اور احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس طرح کے مواقع میں ہاتھ نہ اٹھایا جائے الا یہ کہ کوئی دلیل مل جائے اسی طرح کسی واعظ یا خطیب کا یہ دعا کرنا کہ غفر اللہ لنا ولکم أووفقنا اللہ وایاکم أو نفعنا اللہ وایاکم بما سمعنا اوماأشبہ ذلک فہذا لاباس بہ یعنی اللہ ہماری اور آپ لوگوں کی مغفرت فرمائے یا ہم سب کونیک توفیق دے یا ہمیں ان سنی ہوئی باتوں سے فائدہ پہنچائے یا اسی طرح کے کلمات خیر کہنے اور اس پر آمین بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (نورعلی الدرب ا بن باز رحمہ اللہ )
۴۔ وعظ ونصیحت کے اختتام میں اجتماعی دعا اور اس پر آمین سے متعلق شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے فتوے کا خلاصہ: کسی مجلس وعظ ونصیحت کے اختتام میں اجتماعی دعا اور اس پر آمین کہنا صحیح ہے بشرطیکہ ا س طریقہ کو عادت نہ بنالیا جائے ورنہ اس طرح کی عادتیں جوسنت بنالی جاتی ہیں حالانکہ وہ سنت نہیں بن جاتیں بلکہ اس کاحکم بدعت ہے جب کبھی لوگ اس طرح کی مجلسوں کوقائم کریں دعا پرمجلس کوختم کریں یہ عمل سنت سے ثابت نہیںہے البتہ وعظ ونصیحت کے موقع پر وعیدیا ترغیبات پر دعا کا اہتمام ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اس لئے راتب اور عارض میں فرق ہے (راتب : مستقل سنت عارض : کبھی کبھار کیا جانے والا عمل) اور عارض کبھی کبھار کیا جانے والا جس کے ترک پروہ قابل ملامت نہیں ہوتا جیساکہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ کبھی کبھی نماز تہجد باجماعت کا اہتمام کرتے حالانکہ وہ سنت تو نہیں ہے مگر کبھی کبھی باجماعت نماز تہجد پڑھی جاسکتی ہے ۔( لقاء الباب المفتوح لابن عثیمین ۱۱۷/۲۳ )
۵۔ علامہ شاطبی ؒ نے لکھا ہے کہ: اگر ہم یہ فرض کریں کہ بعض ہنگامی حالات میں کسی خوفناک صورت حال میں یا قحط سالی کی دجہ سے ائمۂ مساجد کی جانب سے اجتماعی دعا کا اہتمام کیا گیا تو یہ عمل جائز ہوگابشرطیکہ اس عمل کوسنت کا درجہ نہ دے دیا جائے اور نہ اس کا اعلان ہومساجد وجماعات میں بالالتزام جس کی پابندی ہو ۔ اس لئے کہ یہ اضطراری کیفیت ہے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے بارش طلب کرتے وقت اجتماعی دعا کا اہتمام فرمایا اور نمازوں کے اوقات کے علاوہ بھی بعض حالات میں آپ ﷺ سے اجتماعی دعا کا ثبوت ملتا ہے جس کے لئے کسی خاص وقت اور خاص کیفیت کے اہتمام کے بغیر جیسے دیگر تطوعات میں (مستحبات ) آپ ﷺ کا معمول تھا ۔
امام شاطبیؒ کا خیال یہ ہے کہ بغیر التزام اور سنت متبعہ کا درجہ دیئے بغیر یا کسی شخصیت کونبی کا درجہ دیئے بغیر خاص خاص حالات میں کسی وقت کی تعیین وکیفیت کے بغیر اجتماعی دعا جائزہے البتہ ضروری یا سنت کا درجہ نہ دیا جائے جیساکہ حضرت عمر ؓ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ آپ اپنے دور خلافت میں ایک رات عشاء کے بعد تفتیش کے لئے مسجد پہنچے تودیکھا کہ کچھ لوگ ذکر الہٰی میں مشغول ہیں آپ اپنا درہ ایک طرف رکھ کر ان کے ساتھ تشریف رکھے اور بعض احباب سے کہنے لگے اے فلان: تم ہمارے حق میں دعا کرو ،اے فلان : تم ہمارے حق میں دعا کرو اس طرح لوگوں سے دعا کی درخواست کرنے لگے اس محفل کی گواہی یہی تھی کہ عمر ؓ جیسے سخت مزاج آدمی موم کی طرح نرم ہوکر رونے لگے اس وقت آپ سے زیادہ کوئی رقیق القلب نہ تھا ۔نیز صاحب کتاب نے آگے چل کر ایک اور واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر ؓ کی خدمت میں خط لکھا کہ فادع اللہ لی فکتب الیہ عمر ؓ انی لست بنبی ولکن اذا أقیمت الصلاۃ فاستغفر اللہ لذنبک یعنی عمر ؓ نے جوابی خط میں فرمایا کہ میں نبی تو نہیں ہوں لہٰذا تم نماز کے بعد اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرلینا۔ شاطبی ؒ نے دونوں واقعات نقل کرنے کے بعد توجیہ یہ بیان کی ہے کہ عمر ؓ نے اصل دعاء سے انکار نہیں کیا بلکہ سائل کو اس خیال سے پھیرنے کی کوشش کی کہ میں نبی نہیں ہوں کہیں وہ یہ نہ سمجھ لے کہ عمر ؓ کی دعا ہرحال میں قبول ہوگی یا اس طریقہ کولازمی سنت کا درجہ دے دیا جائے یا یہ صورت پیدا ہوجائے کہ عمر ؓ ہی قبولیت دعا کے اہم وسیلہ ہیں یا لوگوں میں یہی سنت رائج نہ ہوجائے اس طرح کے اندیشہ سے آپ ؓ نے فرمایا کہ میں نبی نہیں ہوں حالانکہ آپ نے لوگوں سے اس سے قبل دعاء کی درخواست کی اور لوگوں نے آپ کے حق میں دعا بھی کی تھی ۔( الاعتصام للشاطبی المتوفی۷۹۰ ھ۱/۵۰۰)
۶ ۔ شیخ الحدیث عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد بغیر التزام کے امام اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھاکر آہستہ آہستہ دعا کرنا جائز ہے خواہ انفرادی شکل میں ہو یا اجتماعی شکل میں۔ ہمارا عمل اسی پر ہےپانچوں نمازوں کے اجتماعی شکل میں اور کبھی منفردا ۔ ہماری تحقیق میں یہی صور ت اقرب الی السنۃہے ۔ اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس کا بلند آواز سے دعا مانگنا او رمقتدیوں کا ہاتھ اٹھاکرزور زورسے آمین کہتے جانا اور امام اور مقتدیوں کی دعا کی اس ہیئت کذائی کومؤکد سمجھ کر اس کا التزام کرنا یہ طریقہ سنت سے بعیدہے ۔ ( فتاوی شیخ الحدیث مبارکپوریؒ ۱/ ۳۱۱ ۱۸/ ۱۱/ ۱۳۹۷ھ )
۷۔ عن ثابت البنانی عن أنس أنہ کان اذاختم القرآن جمع أہلہ ۔ الصحیح انہ موقوف ( شعب الایمان للبیہقی المتوفی ۴۵۸ھ یعنی ثابت بنانی سے مروی ہے کہ حضرت انسؓ ختم قرآن کے وقت اپنے اہل وعیال کو جمع فرمالیتے تھے (تحقیق وتخریج : د/ عبد العلی عبد الحمید حامد )
المعجم الکبیر کی روایت میں جمع أھلہ وولدہ فدعالہم یعنی ختم قرآن کے وقت اپنے اہل وعیال کو جمع فرما کر دعا کرتے تھے۔ ( رقم الحدیث : ۶۷۴)سنن الدارمی میں رقم الحدیث۳۵۱۷ تعلیق المحقق : حسین سلیم أسد الدارانی قال اسنادہ صحیح وہوموقوف علی أنس ؓ
خلاصہء بحث :
دعا ازروئے شرع ایک اہم عبادت ہے بلکہ تمام عبادتوں کی روح وجان ہے اسلام میں دعا کا مقام ومرتبہ نہایت اعلی واشرف ہے دعاء مومن کا ہتھیار اور دین کی اساس وبنیاد ہے خالق ومخلوق کے درمیان ایک قوی ومضبوط رابطہ ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں اس کی اہمیت کومختلف اسلوب وانداز میں بیان کیاگیا ہے کہیں دعا کرنے پر ترغیب دی گئی ہے تو کہیں اس سے اعراض کرنے والوں پر سخت وعید سنائی گئی ہے غرض یہ کہ مختلف طریقوں سے اس کی اہمیت کوثابت کیا گیا ہے ۔لیکن دعاء کے سلسلہ میں خصوصا اجتماعی دعاؤں کے سلسلہ میں امت محمدیہ بے اعتدالیوں کا شکار ہے ۔بعض حضرات فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھاکر اجتماعی دعا کرنے کو لازم اور ترک دعا کو قابل مذمت فعل قرار دیتے ہیں تو دوسرے حضرات اس فعل کوبدعت اور نہ کرنے کو عمل رسولﷺ اور اصل سنت سمجھ بیٹھے ہیں جب کہ راہ صواب ومحتاط رویہ تویہ ہے کہ
۱۔ فرض نمازوں اور نماز جمعہ کے بعد بالالتزام اجتماعی دعا کے سلسلہ میں صحیح حدیث ثابت نہیں ہے لہٰذا اس کا ترک ہی اولی اور اقرب الی السنۃ ہے ۔
۲۔ بعض خاص حالا ت میں اجتماعی دعا کا ثبوت ملتا ہے مثلا عیدین کے موقع پر بارش طلب کرتے وقت قنوت نازلہ خطبہ جمعہ کے دوران اور ختم قرآن کے وقت قرون مفضلہ میں سلف صالحین سے اجتماعی دعا کا ثبوت ملتا ہے جیسے ابن عباس ؓ ابن مسعود ؓ اور انس بن مالک ؓ ختم قرآن کے وقت دعا کیا کرتے تھے اور اس دعا میں اپنے اہل وعیال اور احباب کوبھی شریک کرلیا کرتے تھے۔ ( جلاء الافہام لابن قیم ؒ ۱/ ۱۴۶ مجموع فتاوی بن باز ؒ ۱۲/ ۱۴۶ موقع الاسلام سؤال وجواب : صالح المنجد ۵/۸۷۱۴ )
لہٰذا جو چیزنصوص شرع اور تعامل صحابہ سے ثابت ہو اسے مطلقا بدعت کہنا درست نہیں ہے نیز مسائل شرعیہ میں کتاب وسنت کی افہام وتفہیم بھی صحابہ کرام ؓ کی طرح ہونا چاہیئے البتہ اختلاف کی صورت میں بھی صحابہ کرام کے نہج کے مطابق حدود شریعت میں رہ کر ایک دوسرے کوبر داشت کرنا چاہیے اور اختلاف علم کی بنیادوں پر ہو نہ کہ جہالت وانانیت یا مسلکی عصبیت کی بنیادوں پر ۔
۳۔ دعاء کے موقع پر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا قبولیت دعا کے اسباب میں سے ہے جیساکہ حضرت سلمان ؓ فارسی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ شرم وحجاب والا اور کریم ہے جب بندہ اس کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ بندہ کے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے ( قال الامام ابن حجر ؒ اخرجہ الاربعۃ الا النسائی وصححہ الحاکم و صحیح الترغیب والترہیب ۲/ ۱۲۸، صحیح ابی داؤد للألبانی ۱۳۳۷)
مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا جائز ہے بلکہ اجابت دعا , حصول مراد اوراللہ کی عنایت مبذول کرانے کے لئے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا مشروع ہے۔مذکورہ حدیث دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کے سلسلہ میں عام ہے لہذا اسے کسی وقت کے ساتھ مخصوص کرنا بلادلیل ہے ۔
۴۔ کوئی شخص دعا کرے اور دوسرے لوگ اس پر آمین کہیں توشرعا جائز ہے جیساکہ مؤقر اہل علم کے فتاوی سے ظاہر ہے، اگر کوئی انسان دعا کرے کسی جماعت یا کسی مجلس میں اور لوگ اس دعاء پر آمین کہیں تواس پرکوئی حرج نہیں ہے جیسے دعائے قنوت، دعاء ختم قرآن اور بارش طلب کرتے وقت اور اس طرح کے کسی اور موقع پر ( مجموع فتاوی بن باز ۱۷/ ۲۷۴ وفتاوی نور علی الدرب۹/ ۱۴۰ ) نیز فتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں مذکور ہے کہ امام کے لئے جائز ہے کہ وہ جمعہ کے خطبۂ اولیٰ اور ثانیہ میں نمازیوں، عام مسلمانوں،اورمسلم حکمرانوں کے حق میں دعا خیر کرے اور مقتدی اس دعا پر آمین کہیں ۔( فتاوی اللجنۃ الدائمۃ۔ ۷/ ۱۱۲)
مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کسی بھی مجلس سے اٹھنے سے قبل اپنے صحابہ ؓ کے لئے اجتماعی دعا کیا کرتے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں کسی ایک ہی حدیث سے پورے مسائل کا استنباط واستحضار ناممکن ہے جیسے نماز , روزہ , زکوۃ اور حج کے سارے اصولی وفروعی مسائل ایک ہی حدیث سے مستنبط نہیں ہیں بلکہ متعدد حدیثوں کوجمع کرنے کے بعد ہی مسائل پر عمل ممکن ہے اسی طرح اجتماعی دعا بھی مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہے اوردعا پر ہاتھ اٹھانا کسی او ر صحیح حدیث سے ثابت ہے اور دعا پرآمین کہنا کسی اور حدیث سے ہی ثابت ہے ان تمام حدیثوں کوجمع کرنے سے اجتماعی دعا کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔
۵۔ مذکورہ بالا دلائل کی بنیاد وں پر کبھی نکاح کے بعد یا تدفین میت کے بعد ختم قرآن یا دینی مجالس کے اختتام پر اجتماعی دعاء کرلینے میں شرعا کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا البتہ اس دعا کووجوب کا درجہ دینا یا سنت کی حیثیت دینا اس پر التزام کی دعوت دینا یا ضد پراتر آنا یا جماعتوں میںتفریق پیداکرنا صحیح نہیں ہے ۔یہ ان فروعی مسائل میں سے ہے جس میں وسعت موجود ہے۔
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے تدفین کے بعد اجتماعی دعاسے متعلق سوال کیاگیا تو انہوںنے فرمایا: تدفین کے بعد اجتماعی دعا جائز ہے۔
نری أنہ لاباس بالدعاء ولکن الداعی واحدا والبقیۃ یؤمنون فکلما کثر الداعون والمؤمنون رجي أن یستجاب لذلک الدعاء ۔ واللہ أعلم ( فتوی ابن جبرین )
’’ ابن جبرین ؒ نے فرمایا کہ ہماری رائے یہ ہے کہ تدفین میت کے بعد اجتماعی دعا کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے ہاں دعاء کرنے والا ایک ہو باقی لوگ آمین کہیں گے جب کبھی دعا کرنے والوں اور آمین کہنے والوں کی اکثریت ہوگی قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے۔ ‘‘
رسول اکرم ﷺ نے کئی موقع پرمختلف صحابہ کرام کے لئے یا کسی کی درخواست پر میت کے حق میں دعافرمائی ہے یعنی آپ ﷺ سے قولاًوعملاً دعا ثابت ہے توایسی صورت میں اجتماعی دعا کووجوب کا درجہ دئے بغیرکبھی اجتماعی دعا کرلینے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے اور یہ حقیقت کے خلاف ہے کہ نبی کریم ﷺ کسی کے حق میں دعاء مغفرت فرمائیں یا کسی کے خلاف بددعاء فرمائیں اور صحابہ کرام ؓ آمین تک نہ کہیں جب کہ دیگر حدیثوں میں جبریل امین کے بد دعا کے وقت آمین کہنا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے نیز دعا کے موقع پر آمین کہنے کا حکم بھی وارد ہے لہٰذا مسائل ثابت کرنے کے لئے کئی حدیثوں پر گہری نظر رکھنا لازم ہے ۔
۶ ۔ ختم قرآن کے وقت نماز تراویح میں دعا کرنا مستحب امورمیں سے ہے اور اس میں حاضر ہونا بھی مستحب ہے اس لئے کہ یہ عمل سلف سے ثابت ہے اور اس محفل میں حاضری کی غرض سے مساجد کا رخ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مذکورہ فتوی کی روشنی میں مطلب یہ ہے کہ ختم قرآن کے موقع پرنماز میں ہو یا نماز سے باہر بھی دعا کرنا اور اس پر حاضرین کا آمین کہنا سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے اور اس پر خیر القرون کے لوگ عمل پیراتھے جیساکہ حضرت انس ؓ ابن عباس ؓ اور ابن مسعودؓ کا تعامل ثابت ہے نیزیہ دعا بھی اجتماعی ہوا کرتی تھی اور اس کے جواز میں تعامل صحابہ اور سنن وآثار شاہد ہیں لہذا اس دعا کو بدعۃ الحرمین کے نام سے موسوم کرنا مناسب نہیں ہے ۔
ہذا ماتبین لی واللہ أعلم بالصواب وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم والحمدللہ رب العالمین ۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2014