انسانی رشتوں کے حقوق کی ادائیگی اور اس کی پاسداری میں ہی زندگی کی اصل خوب صورتی ہے ۔ رشتوں میں پائیداری کے لیے بے لوث محبت اور پر خلوص خدمت از حد ضروری ہیں ۔ خدا وند کریم نے جہا ں ان رشتوںکی پاسبانی کی ہدایت کی ہے،وہیں ان کی اہمیت اور مرتبے بھی واضح کر دئیے ہیں ۔بنی آدم کو رب کائنات نے بنیادی طور پر دو طرح کے حقوق دئیے ہیں۔ پہلا حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد ۔ حقوق العباد کی حفاظت ،اس کی ا دائیگی اور تکمیل کا راستہ قرآن و حدیث کے اطاعت و پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
والدین کے حقوق :
قرآن مبین میں کئی مقامات پر والدین کے حقوق پر احکام آئے ہیں ۔ والدین وہ عظیم ہستیاں ہیں جن سے ہماری جنت اور جہنم وابستہ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کی تاکید کی ہے ۔ حقوق اللہ کے بعدبندوں کے حقوق میں سر فہرست اطاعت و فرماں برداری والدین کی ہے ۔ ان کے مقام ،مرتبہ ، عظمت اور فضیلت کا بیان متعدد مقام پر کیا گیا ہے ۔ حدیث پاک ہے :
’’ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺمیرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا تیری ماں ، اس نے کہا پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا تیری ماں ، اس نے کہا پھر کون ؟ آپ ؐ نے فرمایا تیری ماں ،اس نے کہا پھر کون ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا ، تیرا باپ پھر درجہ بہ درجہ جو تیرے قریب لوگ ہیں ۔ ـ‘‘ (بخاری، مسلم ،متفق علیہ)
اس حدیث پاک سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درجہ باپ سے بڑا ہے ۔ اس لیے کہ ولادت کے دوران عورت ایک قسم کے تخلیقی مراحل سے گزرتی ہے ۔اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ والد کی اہمیت کم ہے ۔والد جنت کے دروازوں میںایک دروازہ ہے ۔ ان کی عظمت کا بیان کون کر سکتا ہے کہ جن کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنا بھی باعث اجر و ثواب ہے۔ والدین کی اہمیت اس حدیث سے بالکل واضح ہے :
’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کی ناک خاک آلود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو ،پوچھا گیا کس کی ناک یا رسول اللہﷺ؟سرکار ؐ نے فرمایاجس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایااور پھر جنت کا حق دار نہ بنا ۔‘‘(مسلم :۴۲۹۳)
حقوق زوجین :
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حقو ق زوجین کو بھی بیان کیا ہے (سورہ النساء :۱ ، سورہ الروم:۲۱ اور سورہ البقرہ:۱۸۷) ۔ اس بیان کا مقصد ہی یہی ہے کہ کسی کی حق تلفی اور دل آزاری نہ ہو ۔ اس رشتے کا آغاز ہی اعتماد کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے ۔ دونوںکے باہمی تعاون سے ہی گھر کا سکون بحال رہ سکتا ہے ۔ ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میںدونوں فریقین کو ایک دوسرے پر یقین بے حد ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو قوام اور بیوی کو محکوم کا درجہ عطا کیا ۔قرآن میں ان دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے ۔لباس سے مراد ایک دوسرے کی اچھائیوں کو سمجھنا ہے اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنا ہے، ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ دونوں کو برابر حقوق حاصل ہوں ۔ اس رشتے میںذہنی ہم آہنگی کا ہونا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ زوجین کے مرتبے کے سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہو۔آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اگر میں کسی کو دوسرے کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے ۔‘‘(ترمذی شریف:۳۱۱۶)
مذکورہ حدیث سے شوہر کی اہمیت ثابت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں کہ خاوند صرف اسی بات کو بنیاد بنا کر حاکمیت چلانے لگ جائیں بلکہ شوہر کے جو اوصاف اسلام میں بتا دئیے گئے ہیںاسے ملحوظ رکھیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی ہیں :
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تم میں کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ۔‘‘ (ترمذی شریف:۳۱۲۵)
اسی طرح قرآن کریم میں متعدد مقامات پر انھیں ان کے حقوق کی یاد دہانی کرائی گئی ہے اور بعض مقامات پر تنبیہ بھی کیا ہے ۔ اسی بنیاد پر انھیں راعی کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا ہے ۔ حدیث پاک :
’’ کسی نے رسول ﷺ سے پوچھا : کون سی عورت سب سے اچھی ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا وہ کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو خوش ہو جائے ، وہ حکم دے تو اس کی تعمیل کرے اور اپنی جان و مال کے معاملے میں ایسی کوئی بات نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو۔’’(نسائی:۳۱۳۲،بیہقی)
دوسری حدیث میں بیان ہے :
’’حضرت اُم سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو سکتی ہے ۔‘‘(ترمذی شریف:۳۱۱۷)
اللہ نے عورت کو ماں ہونے کی حیثیت سے فضیلت عطا کی ہے تو دوسری جگہ مرد کو شوہرہونے کی وجہ سے عورت سے ایک درجہ بلندرکھا ہے ۔ اس طرح دونوں کو ان کا حق مل رہا ہے ۔
اولاد کا حق:
والدین کافرض ہے کہ اپنے بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق کھاناکھلائیں ،پہنائیں اور ان کی ضروریات کاخیال رکھیں ۔اللہ نے خصوصی طور پر والدین کو مخاطب کیا ہے کہ تم اپنے ماتحت کو رزق حلال کھلائو۔ بیٹا اور بیٹی کا فرق بالکل بھی نہ کرو ۔رزق کو تنگی کے ڈر سے نہ انھیں قتل کرو اور نہ ان کے ساتھ بد سلوکی کرو ۔اصل میںوالدین صرف ایک ذریعہ ہیں ۔حقیقی کفالت کرنے والا تو خدائے رحمن ہے ۔ جو صاف صاف کہتا ہے کہ رزق دینے والا میں ہوں ۔حدیثوں میں آتا ہے کہ:
’’حضرت ثوبان ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول ؐ نے فرمایا : اجر و ثواب کے اعتبار سے وہ دینار بہتر ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو ۔‘‘ (مسلم : ۱۸۳۶)
دوسری حدیث اس طرح ہے ،حضرت انسؓ راوی ہیں :
’’اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہو گئیں تو قیامت کے دن وہ آئے گا۔ ہم اور وہ اس طرح ہوں گے ۔آپ ؐ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا ۔‘‘ (مسلم شریف:۴۷۳۱)
اسی رشتے کی ایک اہم کڑی بھائی بہن کا تعلق ہے جو نہایت مقدس اور پاکیزہ ہے ۔اس رشے کی بھی عظمت کھلی ہوئی ہے ۔ بھائی کو بہن کے لیے اس کامان ہونا چاہیے اسی طرح بہن کو بھی بھائی کے لیے اس کا فخر بننا چاہیے ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے نمانہ بنیں ۔موجودہ حالات اس کے بر عکس ہیں۔
پڑوسیوں کا حق :
اللہ کے نبی ﷺ نے ہمیشہ اپنے گھر والوں اور صحابۂ کرام کو پڑوسیوں کے حقوق کے سلسلے میں عمدہ نصیحتیں کی ہیں ۔ان کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنے کی ترغیب دی ہے ۔یہی بات امت مسلمہ پر بھی لازم آتی ہے ۔اس لیے کہ چھوٹی بڑی پریشانی میں پہلے پڑوسی شامل ہوتے ہیں ،بعد میں رشتہ دار آتے ہیں ۔ دو بھائیوں سے پہلے دو پڑوسیوں کا حساب لیا جائے گا ۔ ایک مسلمان کو یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ خود پیٹ بھر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سو جائے ۔ حدیث پاک ہے :
’’حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبریل ؑ ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے بار ے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے ۔‘‘(متفق علیہ:۴۷۴۵)
رشتہ داروں کے حقوق:
حقوق العباد کی ایک اہم کڑی رشتہ داروں سے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ ان کے ساتھ ادب اور تمیز سے بات کرناہے ۔ ان کے ساتھ نرمی اور صلہ رحمی کا معاملہ کرنا ہے تاکہ رشتوں میںحسن اور محبت قائم رہے ۔ اس میں مضبوطی اور پائیداری رہے ۔ اس طرح سے پیش آنے کے باوجود بھی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اگلا شخص بد ظن ہو ۔ اچھائی کا جواب برائی سے دے ۔ان حالات میں صبرکرتے ہوئے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنے والوں کو دوہرا اجر ہے ۔ ان رشتوں کی اہمیت کا اندازہ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ :
’’حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:وہ سچا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو بدلے میں صلہ رحمی کرے ۔ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس سے کٹیں تووہ ان سے جڑے۔‘‘ (بخاری شریف:۴۷۰۴)
ایک اور حدیث نے تو اس رشتے کو بڑے جامع انداز میں بیان کیا ہے:
’’ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ؐ ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں ۔جن کے حقو ق میں ادا کرتا ہوں اور وہ میرے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں ۔میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں ۔میں ان کے ساتھ حلم و بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت برتتے ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو کہتا ہے تو گویا تو ان کے چہروں پر سیاہی پھیر رہا ہے اور اللہ ان کے مقابلہ میں ہمیشہ تیرا مدد گار رہے گا جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا۔‘‘(مسلم ،ابو ہریرہؓ)
خادم کے حقوق :
عرب میں عام رواج تھا کہ غلاموں سے کام کرائے جاتے تھے ۔ ان غلاموں کے ساتھ بعض لوگ نرمی کے ساتھ پیش آتے تھے اور بعض افرادبے جا سختی کرتے تھے۔ ان کی اپنی کوئی زندگی نہیں تھی۔ ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بد ترین سلوک کیا جاتا تھا۔اسی وجہ سے اللہ کے پیارے رسول محمد ﷺ نے خادموں اور غلاموں کے ساتھ شفقت اور محبت کا رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے موت سے قبل جو الفاظ جاری کیے۔ ان میں لفظ ’’غلام‘ ‘ بھی تھا ۔حدیث پاک کا حصہ ہے کہ:
’’غلاموں کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے ، اور اس پر کام کا اتنا بوجھ ڈالے جو اس کی طاقت سے باہر نہ ہو، اور اگر اس پر ایسے کام کا بوجھ ڈالے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور وہ اسے نہ کر پا رہا ہو تو اس کام میں اس کی مدد کرے ۔‘‘ (بخاری، مسلم ،ابوہریرہؓ)
بیوہ و یتیم کے حقوق :
اسلام واحد مذہب ہے ۔جس نے حقوق نسواں کو زمین پر نافذ کیا ۔ اس کی پوری حفاظت کی ۔ معاشرے میں خواتین کو ان کا مقام اور جائز پناہ ملی ۔جس نے برائیوںکو پھیلنے کا موقع کم کر دیا ۔اسی طرح یتیم بچوں کی کفالت کا بھی بہترین انتظام کیا ۔اس حکیمانہ نظام نے ایک ساتھ بیوہ اور یتیم دونوں کی کفالت کا مسئلہ حل کیا ۔ یتیم کی کفالت یا سرپرستی کرنے والے کو اللہ پسند کرتا ہے ۔اس کے ولی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے بالغ ہونے تک اس کے جان و مال کی حفاظت کرے ،اسے ستائے نہیںبلکہ رحم دلی سے پیش آئے ۔ اسی میں دونوں کی خیر و بھلائی کا عنصر پوشیدہ ہے ۔بقول رسول اللہ ﷺ کہ:
’’سہل بن سعد ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اور یتیم کا سرپرست نیز دوسرے محتاجوں کا سرپرست ہم دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ یہ کہہ کر آپ ﷺنے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا ۔‘‘ (بخاریشریف)
مسکین، محتاج اور فقیر کا حق:
یہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جسے عموماً غریب کہاجاتاہے ۔جن کے پاس زندگی گزارنے کے وسائل نہیں ہوتے ہیں۔ان کے پاس پیٹ بھر کھانا اور سر پر سایہ نہیں ہوتا ۔ ایسے لوگ بالخصوص مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ بھی خاص نہیں بلکہ عام ہے کہ انھوں نے محنت کرنی چھوڑ دی اور ہاتھ پھیلانا شروع کر دیا ۔ اب ان کی پہچان بہت مشکل ہو گئی ہے کہ واقعی ان میں کون ضرورت مند ہے اور کون غیر ضرورت مند ۔ بہرحال یہ کام اجر و ثواب کا بے شک ہے لیکن یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کہیںحق دار کا حق تو نہیں مارا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں بھی ایک حدیث پاک دیکھتے چلیں :
’’ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا فرمان رسول ؐ ہے کہ : اللہ عزو جل قیامت کے دن کہے گا ۔ اے آدم کے بیٹے ! میںنے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے نہیں کھلایا ۔تو وہ کہے گا اے میر ے رب ! میں تجھے کیوں کر کھلاتا جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے ؟اللہ کہے گا کہ کیا تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہیں کھلایا ؟ کیا تجھے خبر نہیں کہ تو اس کو کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے یہاں پاتا ؟ اے آدم کے بیٹے !میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے نہیں پلایا ۔تو وہ کہے گا ۔اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پلاتا جب کہ تو خود رب العالمین ہے ؟اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں دیا اگر تو اس کو پانی پلاتا تو وہ پانی میرے یہاںپاتا ۔ ‘‘ (مسلم شریف)
دراصل یہ کھانا کھلانا ،پانی پلانا ،روپے پیسے یا دوسری چیزوں سے مدد کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے ۔ یہ تو ان کا حق ہے جو اللہ ہمارے ذریعہ کراتا ہے ۔اللہ کو وہ ہاتھ بہت پسند ہے جو دینے والا ہو ،لینے والا نہیں ، یعنی اوپر والا ہاتھ نیچے والے سے بہتر ہے ۔
مسافر کا حق :
جو شخص کسی قافلہ یا سفر میں ہو اسے چاہیے کہ اپنے ساتھ جو مسافر ہیں۔ ان کا خیال رکھے ۔ ضرورت کی چیز مانگنے پر منع نہ کرے۔اپنے اخلاقانہ اثرات اس پر چھوڑے کہ مسلمان ہر جگہ اللہ کا بندہ ہوتا ہے ۔ جگہ بدلنے سے اس کی حیثیت نہیں بدلتی ہے ۔حدیث سے ثابت ہے کہ:
’’ قوم کا سردار اُن کا خادم ہوتا ہے ،تو جو شخص لوگوں کی خدمت کرنے میں سبقت لے جائے تو لوگ اس سے کسی عمل کی بدولت نہیں بڑھ سکتے بجز شہادت کے ۔‘‘(مشکوٰۃ ،سہل بن سعدؓ)
مسلمان کا مسلمان پر حق:
ایک مسلم دوسرے مسلم بھائی کے لیے ستون کی حیثیت رکھتا ہے ۔جب ایک کسی پریشانی و مصیبت میں مبتلاہوتا ہے تواسے حوصلہ دیتا ہے ۔اسے صبر کی تلقین کرتا ہے۔ اس کی خوشی اور اس کے غم میں برابر کا شریک ہوتا ہے ۔ ایک مومن کی یہی خوبی بتائی گئی ہے کہ وہ طعنہ دینے والا نہیں ہو سکتا ۔حفاظت کرنے والا ہوتا ہے ۔وہ ہلاکت کو دفع کرنے والا ہوتا ہے ۔حدیث پاک کے مطابق :
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل کرے ، نہ اس کی تحقیر کرے ۔ تقویٰ یہاں ہے ۔آپ ؐ نے سینے کی طرف اشارہ کیا ۔آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ۔ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون، مال اور آبرو حرام ہے ۔ ‘ ‘ (مسلم : ۷۴۰ ۴(
مہمان اور مریض کا حق :
مہمان نوازی مسلمانوں کی قدیم روایت کا حصہ ہے ۔یہ آپسی تعلقات کو مضبوط کرتا ہے ۔ مہمان کو چاہیے کہ وہ تین دنوں تک ہی مہمان نوازی کرائے ورنہ میزبان کو تکلیف ہو سکتی ہے ۔ کوئی رشتہ دار یا مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت بھی ضروری ہے ۔ بیمار کی عیاد ت کرنے والے کے لیے سمندر کی مچھلیا ں اور ستر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں ۔ حدیث کے مطابق:
’’ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہاں سے واپس آنے تک وہ جنت کے باغ میں سیرکرتا ہے ۔‘‘(مسلم : ۲۵۶۸)
حقوق العباد کی ادائیگی مرد و زن دونوں پر عائد ہوتی ہے ۔ اللہ کے یہاں فیصلہ انسان کے اوصاف کی بنیاد پر ہوگا۔ جو انسان کسی ظلم کا بار ِ گناہ اٹھائے ہوئے آئے گا ،خواہ اس نے حق تلفی اپنے خدا کے حقوق پر کیا ہو ،خلقِ خدا پر یا پھر اپنے نفس پر ،اسے کامیابی نہیں ملے گی ۔ عدل و انصاف اور محبت و اخوت کا ساتھ دینے والوں کو ہی کامیابی حاصل ہوگی۔ بہتر اور صالح معاشرے کا وجود اسی احترام کا متقاضی ہے ۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2016