اوراس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ، اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی، یقینا غوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ (سورۃالروم:21)
كها گیا كه تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہو جاؤ زوج عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے لیے زوج ہے۔ نکاح سے پہلے میاں بیوی الگ الگ ماحول میں پرورش پاتے ہیں، لیکن نکاح کے بعد ان میںگہرا رشتہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے پچھلے طرز زندگی کو خیر باد کہہ کر ایک دوسرے کے ہورہتے ہیں، ان کے درمیان یک بیک وہ محبت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ جوانی میں ان کے درمیان محبت کا جوش ہوتا ہے اور بڑھاپے میں اس پر رحمت اور ہمدردی کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ لیكن ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں۔خالق حقیقی کی مفصل اور مستحکم تدبیران کے درمیان مستقل رفاقت کا ایسا رشتہ جوڑ دیتی هے ، جو دو الگ احوال میں پرورش پائے ہوئے اجنبیوں کو ملا کرباهم پیوستہ کرتا ہے کہ عمر بھر وہ زندگی کے منجدھار میں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتے رہتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے كه جو محبت میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ رحمت كا مظهر یه ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں شوهر كے لیےوجه سكون بنتی هے۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر فیوض الرحمان، تفسیر احسن البیان، تفہیم القرآن)
جذبات كا احترام:
ضروری هے كه انسان رشتے کی مٹھاس اور اس کے تقدس کو سمجھے، پھر رشتوں کی اہمیت کو سمجھ کر رشتوں کو نبھانا انسانیت کا بھی تقاضا ہے۔میاں بیوی میں ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوجاتی ہے۔کبھی بھی اس کو زیادہ طول نہ دیا جائے۔کسی بات پر بحث ہو رہی ہواور ایک بول رہا ہوتودوسرے کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ایک اگر غصّے میں ہے تو دوسرے کو اس کے غصّے کو برداشت کرنا ہوتا ہے،غصّے میں کوئی بات هو جائے تو جلدمعافی مانگ لے۔ پہلے سلام کر لے۔ دونوں کو چاہیئے کہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کے رشتے داروں کا احترام کریں۔غلطیوں پر نادم نہ ہونا تو شیطان کا فعل ہے۔
ایک بار اتفاق سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکسی بات پر حضور ﷺکے سامنے کچھ زور سے بول رہی تھیں کہ ان کے والد سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور غصہ میں آکر حضرت عائشہؓ پر ہاتھ اٹھایا۔ وہ جھٹ حضور ﷺکی آڑ میں آکر کھڑی ہوگئیں۔صدیق اکبر ؓ نے کہا: رسول ؐاللہ کا ادب نہیں کرتی اور باہر چلے گئے۔ حضور ﷺنے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’عائشہؓ! میں نے تم کو بچالیا‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ تھوڑی دیر کیلئے تمام ازواجِ مطہرات کے گھروں میں جاتے اور کچھ دیر بیٹھ کر چلے آتے اور جن کے ہاں شب باش ہونے کی باری ہوتی، وہیں ٹھہر جاتے۔ عصر کی نماز پڑھ کر حضرت ام سلمہؓ کے حجرے سے شروع کرتے، سبھی امہا ت المومنین وہیں جمع ہوجاتیں۔ ہنستیں، بولتیں، باتیں کرتیں ۔
رشتے كا معیار:
ارشاد رسول هے:’’اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تواس كےساتھ اپنی زیر كفالت لڑكی کے شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا‘‘۔(صحيح الترمذي:1084)
مومنہ خاتون اپنی زندگی کی شروعات، دین واخلاق میںبهتر مرد سے نکاح کرکے کرے، اس کے ساتھ زندگی کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔اسلام کی رو سے مردوں کو نیک بیوی کا انتخاب کرنے کا حکم ہے تاکہ رشتہ ازدواج کی بنیاد صالح ہو اور بقیہ زندگی اسی بنیاد پہ رشتہ قائم رہے۔ شوہر پر بیوی كی دلجوئی لازم هے ۔ بیوی اس کی خاطر والداور والدہ کی محبتوں اور شفقتوں کو چھوڑ کر آئی ہے اور اس سے وابستہ تمام نئے رشتوں کو بھی قبول کرتی ہے۔ان سے وہ انجان تھی لھٰذا شوہر نامدار کو ایسے وقت میں اسکی مکمل دلجوئی کرنی چاہئے۔ بیوی کا خاص خیال رکھنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بہت اچھا کھانا پکانا جانتی تھیں۔ ایک روز آپ نے کوئی اچھی چیز پکائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بھیج دی۔اس وقت آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے یہاں تھے۔ حضرت عائشہؓ کو ناگوار معلوم ہوا اور پیالہ زمین پر پٹک ڈالا۔ حضو ر ﷺ اپنے دست مبارک سے پیالہ کے ٹکڑوں کو چنتے تھے اور مسکراتے ہوئے فرماتے تھے: ’’عائشہؓ! تاوان دینا ہوگا‘‘۔
نادان مرد سمجھتے ہیں کہ وہ چونکہ طاقت ور ہیں اس لئے عورتیں انکی خدمت کیلئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔جس گھر میں عورت کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اس کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ایسا گھر امن کا گہوارہ ہوتا ہے ورنہ مرد عورت میں گھریلوجھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔
جائز تفریح:
ایک مرتبہ مسجد نبوی ﷺ میں عیدالفطر کے موقع سے چند حبشی نوجوان نیزوں سے کھیل رہے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے دیکھنے کی خواہش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے کھڑے ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے اور گردن کے درمیان سے میں کھیل دیکھتی رہی۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رخصت ہوکر آئیں تو اس وقت ان کی عمر زیادہ نہ تھی اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، آپ ﷺ نے کبھی اس پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ازواج مطہرات کی موجودگی میں خوش طبعی کی باتیں بھی کرتے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے اور پانی لینے میں چھینا جھپٹی بھی ہوتی، کبھی دوڑ کا مقابلہ بھی ہوتا۔ ایک مرتبہ دوڑ کا مقابلہ ہوا، حضرت عائشہ دبلی پتلی تھیں، آگے بڑھ گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے۔ پھر کچھ زمانے کے بعد یہی مقابلہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبقت حاصل کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہوگیا۔
حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آکر کیا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: اپنے گھر والوں کی خدمت یعنی گھریلو زندگی میں حصہ لیتے،اور گھر کا کام بھی کرتے۔ بکری کا دودھ دوھ لینا، اپنے نعلین مبارک سی لینا۔ (زاد المعاد) گھر میں جو کھانا تیار ہوتا حاضر کردیا جاتا آپ ﷺ کی مرغوب اور پسندیدہ شے ہوتی تو تناول فرماتے ورنہ خاموشی اختیار کرتے، لیکن کھانے میں کوئی نقص نہیں نکالتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدواجی زندگی کا جو خاکہ بتایا ہےخود اس پر عمل کرکے دکھایاہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ عائشہؓ جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے! حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، عائشہ جب تم ہم سے رنجیدہ ہوتی ہو تو ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم کھاتی ہو، اور جب راضی ہوتی ہو تو ربِ محمد ﷺ کی قسم کھاتی ہو، اس پہ عائشہ رضی اللہ عنہا نےعرض كیامیں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں (دل سے محبت تھوڑی جاتی ہے)
جب بیوی کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ خوش و خرم ہو جاتی ہے،اور اس کی دن بھر کی محنت و تھکان دور ہو جاتی ہے،اس طرح محبت میں اضافہ ہوتا هےاورو ہ شوهر كی ہر بات آسانی سے قبول كرتی هے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2019