آج کے برق رفتار دورمیں ذرائع ابلاغ کو انسانی زندگی میں لازمی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔ انسان کے تمام حواس اس سے متاثر ہیں۔ ذرائع کی ہی کرشمہ سازی ہے کہ کوئی بھی واقعہ یاحادثہ رونما ہوتا ہے تواس کی خبرپوری دنیامیں پھیل جاتی ہے۔ انسان ہرطرح کے واقعات وحادثات بہت آسانی سے جان لیتاہے۔ صحافی سے توقع کی جاتی ہے کہ معاشرے میںسماج کی سچی ترجمانی کرے اور سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کوعوام کے سامنے پیش کرے۔ عمل اورردعمل کاسلسلہ مسلسل جاری رہتاہے۔ ان خصوصیات کے سبب صحافت کو عوامی نظام میں چوتھے ستون کادرجہ دیا گیاہے۔
عوامی ذرائع ابلاغ میں صحافت کواولیت کاشرف حاصل ہے۔ اس نےہردورمیںمعاشرے کی تربیت کی ہے۔ اقدارکےتحفظ ، عوامی حقوق کی پاس داری اوررائے عامہ ہموارکرنےاورمتاثرکرنے کی توقع صحافت سے کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی سماجی زندگی کومثبت سمت عطاکرنا اس کا فرض ہے۔ صحافت کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ اسے صرف تجارت یاپیشے کی حیثیت حاصل ہے لیکن حقیقتاً ایسانہیں ہے۔ اگراعلیٰ مقصد کونصب العین بناکر صحافت کے میدان میں قدم رکھاجائے تووہ قابل احترام رویہ ہوگا صحافی کافرض عوام کو سماج کے ہرمعاملے سے با خبررکھنااورسماجی اصلاح وبہبود کی طرف توجہ دلاناہے۔ ہندوستان میںدیگرزبانوںکی صحافت کی طرح اردوصحافت کاممتاز مقام ہے۔ اردو صحافت نے تمام سیاسی انقلابات میں اہم رول اداکیاہے اردو صحافت کی تاریخ میں چندمخصوص نام ہیں۔ جام جہاں نما، صادق الاخبار ،دہلی اردواخبار، تہذیب الاخلاق ،اودھ پنچ، زمین دار، ہمدرد، الہلال والبلاغ ۔ یہ تمام اخبارات صحافت کے میدان میں چمکتے ہوئے ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ علمی،ادبی، ملی،قومی ،معاشرتی، تہذیبی خدمات کے لحاظ سے ممتاز اخبارات میں شامل ہیں۔
مستند ذرائع کے مطابق اردوکاپہلااخبار’’جامِ جہاں نما‘‘ہے جو۱۸۲۲ء میں کلکتہ سے جاری ہوا۔ شروع میں یہ اخبار ایسٹ انڈیاکمپنی کا ہم زبان رہاہے مگر جلد ہی کمپنی کی شاطرانہ اورعیارانہ ہوس ملک گیری سے پیچھاچھڑاکر قومی ہمدردی کے راستے پرگامزن ہو گیا ۔ جس کے نتیجے میںایڈیٹروں کواس کاخمیازہ بھگتناپڑا۔’’صادق الاخبار‘‘اور’’دہلی اردو اخبار‘‘ اپنی بے باکی ،حق گوئی اور حکومت پرنکتہ چینی کی وجہ سے حکومت کی نظرمیں معتوب ومغضوب رہے ، ان کے مدیروں کوحق گوئی کی پاداش میں پے درپے کئی سالوں تک قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں،لیکن ان مدیروں نے کبھی حق کا دامن ہاتھ سے جانے نہیںدیا۔ انھوںنے انگریزوں کی سفاکانہ ذہنیت کو واشگاف کیاجس کے نتیجے میں ’’دہلی اردواخبار‘‘ کے مدیرمحمدباقر کو انگریزوں کے گولی کانشانہ بنناپڑا۔
رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ سرسیدکی ادارت میں علی گڑھ سے نکلا۔اس کامقصد ہندوستانی مسلمانوں کے خیالات میں کشادگی اور نقطۂ نظر میں وسعت پیداکرنا تھا۔اس رسالے نے قوم کی سیاسی ،ثقافتی ،ادبی اورمذہبی فکرپر گہرااثرمرتب کیا۔اس کامنشا قارئین کو حالات کی ابتری سے خبردار کرنا، اوران میں بیداری پیدا کرنا تھا۔ اس مشن میں سرسید کو خاص کامیابی حاصل ہوئی۔ اس رسالے نے اردولٹریچر کو مبالغہ انگیزی اور سطحیت سے پاک کیا۔ لوگوں میں اپنے خیالات کوآزادی کے ساتھ ظاہرکرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ اورمسلمانوں کو اجتماعی تحریک کی ترغیب ملی ساتھ ہی قوم کوجدید تعلیم کی طرف مائل کیا۔ دنیاکی دوسری قوموں کے خیالات سے واقف کردیا۔
اردوکے اخباروں میں اودھ پنچ کوادبی و قومی خدمات کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔ اس اخبار نے دیسی ریاست کی بد انتظا میو ں اوربدعنوانیوں پرکاری گرفت کی۔ اس کے نشترمیں بلاکی تیزی نہیں۔ اپنی خدمت اور جامعیت کے لحاظ سے اس اخبار کواہم درجہ حاصل ہے۔اخبار’’ہمدرد‘‘کے مدیر مولانا محمدعلی جوہرتھے جوبے باک، شعلہ بیاں مقرر،قوم کے ہمدرد، خداداد ذہانت اور صلاحیت کے مالک تھے۔ اس اخبارکوہندوستان کی سیاسی ،ادبی اورصحافتی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔جوہر نے اپنی صحافت کے ذریعہ قوم کی زندگی کو توانائی اورقوت بخشی ان کے شعورکوپختہ کیا،ان میں جرأت رندانہ پیداکی۔ انھوںنے اپنی زندگی قومی خدمت اورجنگ آزادی کی راہ میں لگادی ۔انھوںنے اپنے اخبارات ’کامریڈ‘اور’ہمدرد‘کے ذریعہ ہندوستانیوں کوآزادی کی قدروقیمت سمجھانے کی کوشش کی ۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبارات’الہلال والبلاغ ‘ کوتاریخ کے صحافت میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔انہوں نے مسلمانوں میں سیاسی بیداری کی روح پھونکی اوران کے جمود تعطل کوتوڑا ان اخباروں نے اپنی آواز سے لوگوں کوگرویدہ بنالیااس کے مطالعہ سے اس کی اشاعت کے اغراض ومقاصد کاپتاچلتاہے۔ لکھتے ہیں:
’’الہلال کی دعوت اصل اصول مسلمانوں کو ان کی زندگی کے ہرعمل اور عقیدے میں اتباع کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی طرف بلاتاہے اوران پالیٹکل پالیسی کے لیے بھی اسی اصول کوپیش کرتاہے اس کاعقیدہ ہے کہ مسلمانوں میں جس دن ان کی گمشدہ قرآنی روح پھربیدارہوجائے گی اس دن پھر وہ اپنے اورہر چیز کامل اوراکمل پائیںگے۔ پس اصل کام اسلامی تعلیم کا احیااور ایک صحیح دعوت کی تحریک ہے۔ پس اگر توفیق الٰہی ساتھ دے دے توالہلال مسلمانوں کو ایسی دعوت کی طرف بلاناچاہتاہے جوتعلیم قرآنی کی ایک خالص دعوت ہواورجوقوم کے آگے اسلام کی حقیقی تعلیم کی راہ کھول دے ۔
(مولانا ابوالکلام آزاد۔۔۔فکروفن ۔ملک زادہ منظوراحمد)
مولانا نے الہلال میں اپنے مخصوص ومنفرد طرزمیں قوم کو بتایاہے کہ ان کے پاس قرآن شریف جیسی مقدس کتاب کی شمع روشن ہے تودوسروں کے ٹمٹماتے چراغ سے استفادے کی کیاضرورت ہے ۔ یہ اخبار اپنی ادبی ، صحافی ،مذہبی بے باکی اور بلندآواز کی وجہ سے اردوصحافت میں سرفہرست ہے ۔یہ اپنے دورکے حالات وواقعات ، ماحول اور سوسائٹی کی تصویر وتاریخ ہے۔ یہ اخبار اپنے مستقبل کے مورخ کے لیے بہترین موادفراہم کرتے ہیں ماضی کی تہذیبی تاریخ اورادب کے محرکات کوجاننے کے لیے اس دورکے اخبارات کامطالعہ ناگزیر ہے ۔ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے اخبارات کے تاریخی ریکارڈ کے سلسلے میں لکھاہے:
’’جوکچھ ان اخبارات میں ہمیں مل جاتاہے اوربہت کچھ اوریجنل حالت میں مل جاتاہے اتناکسی اورذریعے سے نہیں مل پاتاہے اورجوں جوں وقت آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ پچھلی صدی کے اخبارات کی اہمیت اورافادیت بھی بڑھتی چلی جائے گی اورہم ذوق مطالعہ کی تسکین اورعملی تہذیبی اورتاریخی معلومات کے حصول کے لیے ان کی طرف خصوصی توجہ دینے پرمجبور ہوجائیںگے۔‘‘ (دیباچہ ،روح صحافت)
درج بالااقتباس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اخبارات کوعلمی ،ادبی ،تہذیبی اورتاریخی معلوماتی اعتبارسے دستاویز کی حیثیت حاصل ہے ۔اس لیے اخبارات کامطالعہ مورخ کے لیے ضروری ہے ۔
ماضی کے اخبارات کے ذریعہ ماضی کے حالات کاپتاچلتاہے علمی ،ادبی اورتہذیبی کیفیت علم ہوتا ہے ہردورکے اخبارنے علم وادب، تاریخ وتہذیب، مذہب ومعاشرت اورسیاست وغیرہ امورپر لکھا ہے ۔ اخبارات نے اردوادب کومخصوص حلقہ سے نکال کرہندستان گیربنانے میں اہم رول اداکیاہے ۔اردونثر کے موجودہ مراحل بہت حدتک اخبارات کی خاموش خدمت کے وسیلے سے ہی طے پائے ہیں۔
اخبارات ،عوام کے درمیان ربط وتعلق پیداکرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ عوامی دورمیں اس کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ رائے عامہ کوہموارکرنے ، سیاسی بیداری پیداکرنے اورمعاملات کی تربیت کے لیے بہترین آلات تصورکیے جاتے ہیں۔ اخبارات یہ حکومت کی نگرانی اوران کے غلط اقدام کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ دنیامیں رونماہوئے بڑے انقلابات سے واقف کراتے ہیں۔ ماضی قریب میںبنگلہ دیش کےقیام ایران کےانقلاب سویت روس کےخاتمہ ،فلسطین میں یہودیوں کےظلم ،وغیرہ سے صحافت نے واقف کرایا ہے۔
اخبارات نے ہردورکے عصری مسائل کواپناموضوع بنایاہے ۔ مستقبل کے مؤرخ کے لیے نئے اورابھرتے واقعات وحادثات کواپنے دامن میں محفوظ کیا بادِ مخالف کے جھونکوں سے نبردآزمائی کی۔ اپنافرض منصبی پورا کیا۔یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ صحافت کی تاریخ زریں ہے لیکن نیا منظر نامہ قدرے بدلا ہوا ہے۔اب صحافت اور ذرائع ابلاغ نے ان خبروں کو ترجیح دینا شروع کردی ہے۔ جن میں جھوٹ کی آمیزش ہو،مصلحت پسندانہ رویہ اپنالیا ہے۔ ہندوستان کی میڈیا آزاد نہیں معلوم ہوتا بلکہ مفاد پرستوں کے تحت آگیا ہے ۔ کوئی ہے جو میڈیا کو قبضے میں کیا ہوا ہے۔مثال کے طور پر ایک لفظ ’’دہشت گرد‘‘کو لیں ۔اس کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے کہ جس گروہ یا شخص سے عوام کے اندر خوف و دہشت پیدا ہو،دہشت گرد ہے لیکن برقی میڈیا نے ایسی تصویر لوگوں کے دلوں میں نقش کرائی ہے کہ جو شخص مسلمان ہو ،باریش ہو،کرتے پائجامے میں ملبوس ہو اور اس کے چہرے سے نورانیت جھلکے ،وہ دہشت گرد ہے۔عوام کے دلوں میں برقی میڈیا نے یہ بات اس طرح سے نقش کرائی کہ اُسی قوم کا شخص اپنے بھائی کے لیے ایسے غلط القابات کا استعمال کرتا ہے اور ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتا۔اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں بس اشارہ مقصود ہے کہ آج برقی میڈیا غیر ذمہ دار ہوگیا ہے۔ لیکن اب بھی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً دہلی سے شائع ہونے والا اخبار’’دعوت‘‘قابل مبارک باد ہے جو نہ صرف بے لاگ تبصرے کرتا ہے بلکہ موجودہ سیاسی ماحول پر حقیقت پسندانہ رائے بیان کرتا ہے۔اس طرح کےاخبار کی اہمیت مسلّم ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2016