قرآنی قصوں کا بنیادی مقصد
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے دنیائے انسا نیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے اعلیٰ ترین اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے گزشتہ قوموں کے واقعات پیش کیےہیں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تحریک دعوت وجہاد، حق وباطل کے مجادلے اور اولیا ء اللہ اور اولیاء الشیطان کے معرکوں کا ایک بصیرت خیز ذخیرہ ہے جس کے ذریعہ ان قوموں کے اعمال اوران اعمال کے ثمرات ونتائج کا ذکر کرکے عبرت وبصیرت کا سامان مہیا کیا گیا ہے ۔ اس مقصد کوحاصل کرنے کے لیے قرآن پاک نے اہم مباحث کا تذکرہ کیاہے جوتبلیغ دین اوراللہ کی معرفت کی غرض و غایت کو پورا کرتےہوں ۔ قرآن پاک میں قصوں کی تکرار اورمختلف انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا بار بار تذکرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ وہ واقعات سامعین اورقارئین کے دلوں میں گھر کر سکیں اورفطری وطبعی رجحانات کوان حقائق کی جانب متوجہ کیا جاسکے اوریہ جب ہی ممکن ہے جب ایک ہی بات کو مختلف پیرایہ میں بیان اور مناسب حال اسلوب نگار ش سے بار بار دہرایا جائے ا ور خوابیدہ قوائے فکریہ کو پے درپے بیدار کیا جائے۔
مخالفین اسلام اورمعاندین قرآن کا قرآن مجید کے اسلوب بلاغت پر ایک اعترا ض یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک ہی قصہ مکر ر بیان ہوتا ہے ۔ اس بار بار کی تکرار سے کیا حاصل ہے اس سے تو کلام کا لطف جاتا رہتا ہے اورکلام بد مزہ ہوجاتا ہے ۔ پوری کتاب میں ایک بات کو ایک دفعہ کہہ دینا کافی ہے۔
قرآن مجید میں حضرت آدمؑ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت عیسیٰؑ او رحضرت موسیؑ کے قصے جگہ جگہ بیان کئے گئے ہیں ۔ علمائے اسلام نے اس کے متعدد وجوہات قرار دیے ہیں ۔ علامہ کرمانی (م ۷۸۶ ھ) نے اپنی کتاب میں اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن میں کوئی مکرر بات نہیں ہے۔ جہاں جہاں قرآن مجید میںبظاہر ایک ہی معنیٰ مکرر معلوم ہوتے ہیں وہاں یہ ثابت کیا ہے کہ ہر جگہ مختلف معنیٰ مراد ہیں۔ اس لیے یہ اعتراض ہی غلط ہے کہ قرآن مجید میں ایک ہی بات بار بار آتی ہے ۔(۱)
تکرار کی حکمت
مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاروی نے انبیاء کرام ؑ کے واقعات کی تکرار کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایک ہی واقعہ کو مختلف سورتوں میں اُن سورتوں کے مضامین کے مناسب نئے اور اچھوتے انداز میں بیان کرنے کے باوجود واقعہ کی اصل حقیقت اور اس کی متانت وسنجیدگی میں ادنیٰ سا بھی فرق نہیں آنے دیتا ۔ کہیں واقعہ کی تفصیل ہے کہیں اجمال، کسی مقام پر اس کا ایک پہلو نظر انداز کر دیا گیا ہے تو دوسرے مقام پر اسی کو سب سے زیادہ نمایاں حقیقت دی گئی ہے ۔ ایک جگہ اسی واقعہ سے مسرت و انبساط اور لذت وسرور پیدا کرنے والے نتائج نکالے گئے ہیں تو دوسری جگہ واقعہ میں معمولی سا تغیر کئے بغیر خوف و دہشت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے بلکہ بعض مرتبہ ایک ہی مقام پر لذت والم دونوں کا مظاہرہ نظر آتا ہے مگرموعظت وعبرت کے اس تمام ذخیرہ میں ناممکن ہے کہ نفس واقعہ کی حقیقت اور متانت میں معمولی سا بھی تغیر پیدا ہوجائے ۔ (۲)
سید سلیمان ندوی ؒ نے اپنے مضمون مکررات القرآن میں ان قصوں کو تکرار کے ساتھ بیان کرنے کی وجوہات پرروشنی ڈالتےہوئے لکھا ہے کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ غیروں کے حالات اور سرگزشت سے بالطبع نصیحت حاصل کرتا اورمتاثر ہوتا ہے ۔ اس بنا پر قرآن مجید اورتمام کتب سماوی میںجابجا قصے مذکور ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قومیں خدا کی نافرمانی سے کس قدر مبتلائے آلام ہوتی ہیں ا ور نیک نفس قوموں کوخدا کس قدر عروج وراحت عطا کرتا ہے لیکن چونکہ اس قسم کے قصے جب تک بار بار کا ن میں نہ ڈالے جائیں ان سے صحیح عبرت اورکامل اثر نہیں حاصل ہوتا ۔ اس لیے قرآن مجید میں ایسے عبرتناک قصے بار بار دہرائے جاتے ہیں۔
ایک بڑی وجہ ان قصوں کے تکرار کی یہ ہے کہ جس طرح ایک دلیل مختلف دعوؤں پر اثر کرتی ہے ایک قصہّ سے مختلف نتائج پیدا ہوتے ہیں اورمتعدد موقعوں پر ان سے استشہاد پیش کیا جاتا ہے اس لیے ہر جگہ ان قصوں کے اعادہ سے مختلف نتائج پیدا ہوتے ہیں مثلاً حضرت موسیؑ کاقصہّ قرآن میں بار بار آیا ہے مگر غور کرو ہر جگہ ایک جدید نتیجہ کی طرف اس سے اشارہ کیا گیا ہے کہیںتو اظہار قدرت کے موقع پر حضرت موسیٰؑ کا قصہ بیان کیاگیا ہے کہیںبنی اسرائیل پر خدا نے اپنے احسانات کے اظہار کے موقع پر اس قصہ کا ذکر کیا ہے ۔ کہیں نافرمان قوموں کی ہلاکت پر اس قصہ سے استشہاد کیا گیا ہے ۔ کہیں اس سے بنی اسرائیل کی شرارت اورکفران نعمت ثابت کیا گیاہے۔ کہیں اس قصہ کے ذریعہ سچے نبی اورجھوٹے لوگوں میں فرق بتایا گیا ہے ۔ کہیں اس سے خدا نے حضرت موسیؑ پر اظہار احسان کیا ہے کہیں اس سے فرعون کے کفر ، غرور اورنخوت کاتذکرہ مقصود ہے ، کہیںاس سے انسان کی فطری کمزوری کا اظہار کیا گیا ہے۔ حضرت آدمؑکے قصہ سے خدا کے احسانات انسان کی کمزوری ، نفس امارہ کی شرارت، نوع انسانی کی عظمت ، غرور کی مذمت وغیرہ مختلف باتوں پر استدلال ہوسکتا ہے ۔ غرضیکہ تم اس سے نتیجہ نکال سکتے ہو کہ صرف ایک قصّہ سے کس قدر مختلف نتیجے پیدا ہوسکتے ہیں ۔ قرآن مجید میں جوایک ہی قصّہ کی بار بار تکرار ہوتی ہے در اصل ہر جگہ اس قصّہ سے ایک جدید نتیجہ کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے اس لیے وہ تکرار غیر مفید نہیںہوتی ۔ (۳)
تمام انبیاء میں سے صرف چار انبیاءکرام حضرات آدمؑ ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ وعیسیٰ ؑ کے واقعات کا اعادہ بار بار کیوں کیا جاتا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے سیدسلیمان ندوی رقمطراز ہیں:
قرآن مجیدکے اصل مخاطب صرف چار تھے ۔ عموماً عام انسان اورخصوصاً مشرکین عرب، یہود و نصاریٰ ۔ عام نوع انسانی کی عبرت اورتاثیر کے لیے حضرت آدمؑ کے قصّےکی تکرار کی جاتی ہے اورمشرکین عرب چونکہ حضرت ابراہیمؑ کے بے انتہا گرویدہ اورمعتقد تھے اس لیے ان کے لیے حضرت ابراہیمؑ کے واقعات سے اور یہودیوں کے لیے حضرت موسیؑ اورنصاریٰ کے لیے حضرت عیسیٰؑ کے قصّوں سے استدلال پیش کیا جاتا ہے اوران ہی چار انبیاء کے نام اورقصّے باربار آتے ہیں اورچونکہ عرب میں خصوصاً مدینہ میں یہود ی زیادہ تر آباد تھے اس لیے حضرت موسیٰؑ کا نام سب سے زیادہ آیا ہے ۔ ان کے بعد مشرکین کا درجہ ہے جن کوحضرت ابراہیمؑ سے تعلق ہے اور آخرمیں عیسائی ہیں ۔ چنانچہ اس کی تفصیل ذیل کی تفصیل سے واضح ہوگی۔
(۱) حضرت موسیٰ ؑ کا نام قرآن مجید میں ۱۳۵؍ مرتبہ آیا ہے۔
(۲) حضرت ابراہیمؑ کانام قرآن مجید میں ۶۶ مرتبہ آیا ہے۔
(۳) حضرت عیسیٰؑ کا نام قرآن مجید میں ۲۴مرتبہ آیا ہے ۔
(۱) سید سلیمان ندوی ، مقالات سلیمان حصہ سوم ، مرتبہ شاہ معین الدین احمد ندوی، مطبع معارف اعظم گڑھ ، ۱۳۹۱ ھ / ۱۹۷۱ء ص ۶۵،
(۲) مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، قصص القرآن حصّہ اوّل ، ندوۃ المصنفین اردو بازار جامع مسجد دہلی،جنوری ۱۹۸۷ء ،ص ۱۸،
(۳) سید سلیمان ندوی ، مقالات سلیمان حصہ سوم ، حوالہ بالا ،ص ۶۹، (۴) نفس مصدر،ص ۷۰
(جاری)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2017