امانت و دیانت

مکہ میں نبی کریم کی شخصیت کا تعارف

دنیا میں بے شمار شخصیتوں نے جنم لیا اور دنیا کی پیدائش سے لے کر اب تک بے شمار تحریکیں اور مشن اس زمین پر برپا ہوئے۔ لیکن اللہ کے رسولﷺ سے عظیم تر شخصیت اس روئے زمین پر کوئی پیدا نہیں ہوئی اور جو مشن اور تحریک آپ نے برپا کی اس سے بڑا مشن بھی اب تک دنیا میں برپا نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہوگا۔اگرچہ اس مشن کو پورا کرنے کی ذمہ داری آپ کو چالیس برس کی عمر میں عطا کی گئی، لیکن آپؐ کو اس کی تربیت اور تیاری بچپن سے کرائی جانے لگی تھی۔ اس کے لیے جو تیاری مطلوب تھی اس کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ معاشرے میں آپ کی شخصیت کا تعارف کیا ہے۔ آپ اپنے لوگوں کے درمیان کن اوصاف اور خوبیوں کے ساتھ معروف ہیں۔لوگوں کے درمیان آپ کی تصویر کیاہے۔ وہ آپ کو کس نام سے پکارتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ آئندہ جو کام آپ کو سونپا جانے والا تھا، اس کی کامیابی اور اثر انگیزی میں آپ کا یہی تعارف معاون و مددگار بن سکے۔ جن نمایاں ترین خوبیوں سے آپ کی شخصیت مزین تھی اور مکہ کا ہر مرد اور عورت اس سے واقف تھا، وہ آپ کی صفت امانت تھی۔بلکہ اہل مکہ نے آپ کا نام ہی ’’امین‘‘ رکھ دیا تھا۔ لوگ آپ کا تذکرہ کبھی آپ کے نام سے اور کبھی ’’امین‘‘ کہہ کر کرتے تھے۔

حضرت خدیجہؓ آپ کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے اس لیے تیار ہوئیں کہ وہ جانتی تھیں کہ آپ امانت دار ہیں۔جب ان کے پاس یہ پیش کش آئی کہ کیا وہ محمد ﷺ سے تجارت کرانا پسند کریں گی؟ توانھوں نے اس تجویز کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو امانت دار ہیں، میں بخوشی ان سے تجارت کرانا پسند کروں گی۔ اور آخرکار آپؐ کی اسی صفت امانت داری سے حضرت خدیجہؓ اس قدر متاثر ہوئیں کہ مکہ کے بڑے رئیسوں کے رشتوں کو ٹھکرا کر نبیﷺ سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہو گئیں۔

ایک بار سیلاب کی وجہ سے خانہ کعبہ کی عمارت میں بڑا سا شگاف پیدا ہوگیا۔ پورا مکہ اس کی تعمیر و مرمت میں لگ گیا۔مکہ کے تمام قبیلے اور خاندان باہم مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر میں لگ گئے۔ لیکن جب حجر اسود کو نصب کرنے کی بات آئی، قریش کے مختلف قبیلوں میں اس قدر اختلاف ہو اکہ ان کے درمیان جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا۔خون کی ندیاں بہا دینے تک عہد لے لیا گیا۔مکہ کے سنجیدہ لوگ حالات کو قابو میں کرنے اور کوئی پرامن حل تلاش کرنے کے لیے حرم کے اندر جمع تھے۔ لیکن کوئی حل ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ حالات کا یہ رنگ دیکھ کر مکہ کے ستر سالہ بزرگ ابو امیہ بن مغیرہ نے مشورہ دیا: اجعلوا لحکمَ فیہا بینکم اولَ من یدخلُ من باب الصفا (جو شخص سب سے پہلے باب الصفا کی جانب سے خانہ کعبہ میں داخل ہو، اس کا فیصلہ تسلیم کر لیا جائے۔)سب نے اس مشورے کو تسلیم کر لیا۔آخر سب کی نگاہیں اس دروازے پر مرکوز ہوگئیں اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں وہ خوش نصیب کون ہے۔پھر لوگوں کی آنکھوں نے حضرت محمدﷺ کو دروازے سے خانہ کعبہ کے اندر  آتے دیکھا۔آپ کو دیکھتے ہی سب پکار اٹھے: ’’یہ تو امین ہیں، ہمیں ان کا فیصلہ بسر و چشم قبول ہے۔‘‘

اہل مکہ میں آپ کی یہ امانت داری اس قدر معروف تھی کہ نبوت کے اعلان کے بعدپوری قوم آپؐ کی مخالف ہو گئی، آپ کی جان کی دشمن ہو گئی، آپ کو سچ مچ قتل کرنے کی سازشیں ہونے لگیں، لیکن اس وقت بھی قتل کی سازش کرنے والوں کو یہ یقین تھا کہ انھوں نے جو امانتیں نبی ؐ کے پاس رکھی ہوئی ہیں، وہ محفوظ ہیں۔ورنہ وہ اس سازش پر عمل کرنے سے پہلے کوشش کرتے کہ کم از کم اپنی امانتیں تو واپس لے لیں۔ خود نبیؐ کا یہ حال تھا کہ انھیں وحی کے ذریعے قریش کی جانب سے قتل کی سازش کا علم ہو چکا تھا۔ انھیں معلوم ہو چکا تھاکہ آج رات قریش کے مسلح لوگ اکٹھا ہو کر ان کے گھر کو گھیرنے والے ہیں۔ آپؐ کی زندگی دائوپر لگی ہوئی تھی۔لیکن آپ کو اپنی زندگی کی فکر نہیں تھی۔ فکرتھی تو مکہ کو الوداع کہنے سے پہلے لوگوں کی امانت واپس کرنے کی ۔آپؐ حضرت علیؓ کو مکہ میں چھوڑ کر جاتے ہیں اورساری  امانتیں ان کے حوالے کر کے انھیںیہ ہدایت دیتے ہیں کہ ہر شخص کی امانت اس کے مالک تک پہنچا کر ہی مکہ سے رخصت ہونا۔

امانت کے سلسلے میں نبی اکرم کا یہ اسوہ نبوت سے پہلے کا تھا۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالی نے اہل مکہ کے درمیان آپ کا تعارف ایک امین و امانت دار کے طور پر کرایا تھا، تاکہ کل جب وہ اللہ کی امانت ، یعنی اللہ کی شریعت ، ان کے سامنے پیش کریں تو انھیں آپ کے سلسلے میں کسی قسم کی خیانت اور بددیانتی کا شک نہ ہو۔اور یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کام کو انجام دینے والا امانت دار ہو اور لوگوں کے درمیان وہ امانت دار کی حیثیت سے معروف ہو۔

امانت : اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات

امانت خیانت کی ضد ہے۔امانت کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ کی ہدایات و تعلیمات بہت واضح ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں: قلّما خطَبَنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِلّا قال لا ایمان لمن لا امانۃ لہ و لا دین لمن لا عہد لہ (کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ اللہ کے رسولﷺ نے کوئی خطبہ دیا ہو اور آپؐ نے اپنے خطبے میں یہ نہ فرمایا ہو کہ جس آدمی کے پاس امانت داری نہیں، یا جو شخص امانت دار نہیں اس کے پاس ایمان نہیں، اور جس کو اپنے وعدے کا پاس نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔)

نبی اکرمﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ جس بات کی اہمیت زور انداز میں واضح فرمانا چاہتے تو اس بات کو ایک ہی گفتگو میں ایک سے زائد بار دہراتے۔ لیکن امانت کے سلسلے میں آپ کا معمول اس سے بھی بڑھ کر یہ تھا کہ آپ جب بھی خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوتے، یا جب بھی لوگوں کو مخاطب فرماتے ، عہد و امانت کا ذکر ضرور کرتے۔ اور امانت کی اہمیت پر اس سے بڑھ کر کوئی شہادت نہیں ہو سکتی کہ اللہ کے رسولﷺ اس کو ہر خطبے میں دہراتے تھے۔

امانت اور ایمان کو ایک ساتھ ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر امانت نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے۔ گویا امانت ایمان اور دین کی بنیاد ہے۔ ایمان کی بنیاد صفتِ امانت پر قائم ہے۔ قرآن نے بھی اہل ایمان کی ایک صفت یہ بتائی ہے کہ وہ اپنی امانتوں اور عہد کی حفاظت کرتے ہیں:

وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ (المومنون: ۸)(اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرتے ہیں۔) بالکل یہی بات سور ہ معارج میں بھی کہی گئی ہے۔ گویا قرآن نے بھی اس بات کو دو الگ الگ مقامات پر دہرا کر اس کی تاکید کی ہے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کر دیا ہے۔

ایک دوسری حدیث حضرت عدی بن عمیرہ الکندی سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: من استعملناہ منکم علی عمل فکتمنا مخیطا فما فوقہ، کان غلولا یأتی بہ یوم القیامۃ۔ قال فقام الیہ رجل اسود من الانصار کأنی انظر الیہ فقال : یا رسول اللہ! قبل عنی عملک۔ قال : ’’وما لک؟‘‘ قال: سمعتک تقول کذا کذا۔ قال ’’وانا اقول الآن من استعملناہ منکم علی عمل فلیجیء بقلیلۃ و کثیرۃ فما اوتی منہ اخذ و ما نہی عنہ انتہی  (صحیح مسلم:کتاب الامارۃ، باب تحریم ہدایا العمال)

’’ میںنے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم نے تم میں سے جس کسی کو کسی کام پر مامور کیا اور اس نے اس میں سے ایک سوئی یا اس سے بھی چھوٹی چیز چرالی تو یہ خیانت ہوگی اور قیامت کے دن وہ اس خیانت کو لے کر حاضر ہوگا۔‘’ حدیث کے راوی عدی کہتے ہیں کہ آپؐ کا یہ ارشاد سن کر انصار میں سے ایک کالا آدمی آیا اور آپؐ کے پاس کھڑاہو گیا ، جیسے میں اسے ابھی بھی کھڑا ہوا دیکھ رہا ہوں، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ نے جو کام ہمارے سپرد فرمایا ہے،اسے واپس لے لیجیے۔ آپ نے فرمایا: کیا ہوا؟اس نے عرض کیا: ہم نے آپ کو اس اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ بات تو میں اب بھی کہتا ہوں کہ ہم نے تم میں سے کسی کو کسی کام(زکوۃ کی وصولی وغیرہ) پر متعین کیا تو کم یا زیادہ جو بھی ہو، اسے ہمارے پاس لائے۔ اس میں سے جو اسے دیا جائے لے لے اور جو نہ دیا جائے اسے لینے سے باز رہے۔‘‘

حضرت ابومسعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھ کو اللہ کے رسولﷺ نے عامل (زکوۃ وصول کرنے والا) بنا کر بھیجا۔ پھر فرمایا: ’’ابو مسعود! جائو، میں تم سے قیامت کے دن میں تمھیں اس حال میں نہ پائوں کہ تم آئو تو تمھاری پیٹھ پر صدقے کاوہ اونٹ چلّا رہا ہوجس کو تم نے خیانت کر کے اپنا لیا ہو۔ یہ سن کر ابو مسعودؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول تب تو ہم نہ جائیں گے، تو آپؐ نے فرمایا کہ پھر ہم تم کو مجبور بھی نہ کریں گے۔‘‘  (سنن ابی دائود: کتاب الخراج والامارۃ و الفیء، باب: ۱۲)

ہشام اپنے والد ابوحمید ساعدیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک آدمی کو بنو سلیم کے صدقات وصول کرنے پر مقرر کیا۔ جب وہ وصولی کے بعد واپس آیا تو آپؐ نے اس کا حساب لیا۔ اس نے کہا : یہ آپ کامال ہے اور یہ ہم کو ہدیہ کیا گیا ہے۔ یہ سن کر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ایسا کیو ںنہ ہوا کہ تم اپنے باپ ماں کے گھر بیٹھے رہتے اور گھر بیٹھے تمھارا ہدیہ تم کو مل جاتا؟ اس کے بعد آپ نے تقریر فرمائی۔ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی ، پھر فرمایا:’’اما بعد، میں تم میںسے کسی آدمی کو ان کاموں کے لیے ، جن کی اللہ تعالی نے مجھ پر ذمہ داری ڈالی ہے، عامل مقرر کرتا ہوں۔ جب وہ وصول کرکے واپس آتاہے تو کہتا ہے یہ تمھارا مال ہے اور یہ مجھ کو ہدیہ کیا گیا ہے۔ تو اگر یہ سچا ہے تو کیوں نہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھا رہا، اس کا ہدیہ وہیں آ جاتا؟ خدا کی قسم تم میں سے جو شخص بھی اس میں سے کچھ لے لے گا وہ اس کو قیامت کے دن لے کر حاضر ہوگا۔میں تم میںسے کسی کو اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ قیامت کے دن اللہ سے اس طرح ملے کہ بلبلاتا ہوا اونٹ، یا ڈکارتی ہوئی گائے یا چلاتی ہوئی بکری اپنے اوپر لادے ہوئے ہو۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اے اللہ میں نے تیرا حکم پہنچا دیا، میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا۔ ((صحیح بخاری: کتاب الاَیمان و النذور، باب:۳)

امانت کی اتنی تاکید کیوں؟

امانت داری برتنے کی اس قدر تلقین کیوں کی گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امانت کا تعلق مال سے ہے۔ اور مال فتنہ ہے۔ اس معاملے میں ذرا سی لغزش انسان کو ایک غلط راستے پر ڈال سکتی ہے اور وہ اپنی اس روش سے پورے معاشرے کا ماحول خراب کر سکتا ہے۔ معاشرے میں امانت داری کا فقدان اور خیانت کا رواج پورے معاشرے کو کرپٹ اورحرص و ہوس کا بندہ منا دیتا ہے۔ہر شخص دوسرے کے مال اور سامان پر نظر رکھنے لگتا ہے۔ دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کا ماحول پنپنے لگتا ہے۔

امانت کا ایک دوسرا مفہوم

امانت کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے۔ وہ ہے ذمہ داری ، پیشوائی اور سرداری کا منصب۔ یہ ایک امانت ہے جو معاشرے اور کسی اجتماعیت سے وابستہ ہر فرد کے پاس موجود ہے۔ اس امانت کے بارے میں مطالبہ یہ ہے کہ اس کو ایسے شخص کے حوالے کیا جائے جو اس کا واقعی اہل ہو۔یہ دو طرفہ امانت ہے ۔ یعنی اس  امانت کی ادائیگی ایک طرف معاشرے اور اجتماعیت کے عام افراد پر عائد ہوتی ہے۔ ان سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنی اس امانت کو ایسے لوگوں کے سپرد کریں جو واقعی اس کے اہل ہوں۔ جو اس ذمہ داری کا حق ادا کر سکتے ہوں۔ دوسری طرف اس کی ادائیگی ان لوگوں پر بھی عائد ہو تی ہے جو کسی معاملے کے ذمہ دار بنائے جاتے ہیں۔ لوگوں کی طرف سے یہ ذمہ داری یا منصب انھیں بطور امانت ملا ہے۔ اس لیے اسے ایک امانت سمجھتے ہوئے استعمال میں لائیں۔اس کا ناجائز استعمال شروع نہ کر دیں۔امانت کو سپرد کرنے والے اور اس امانت کو پانے والے، دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس میں خیانت نہ کریں۔بنی اسرائیل کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ انھوں نے اپنی اجتماعی ذمہ داریاں، سرداری کے مرتبے اور مذہبی پیشوائیاں قوم کے نااہل، کم ظرف اور بددیانت اور بداخلاق لوگوں کے سپرد کر دی تھیں جس کی وجہ سے پوری قوم میںوہی اوصاف پیدا ہوتے چلے گئے۔

اس امانت کا حق ادا کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ہے:

اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝۵۸  (النساء: ۵۸)

’’مسلمانوں! اللہ تمہیں حکم دتیا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘

یعنی اجتماعی ذمہ داریاں اور مناصب انھی لوگوں کے حوالے کرنا جو اس کے اہل ہوں۔ جو اس امانت کے بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور قوم و اجتماعیت کے معاملات میں انصاف سے کام لینا جانتے ہوں۔ اللہ تعالی نے اپنے اس حکم کو نہایت عمدہ نصیحت سے تعبیر فرمایا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر مسلمانوں نے اس نصیحت پر عمل کیا تو ان کا حال اور مستقبل دونوں ہر قسم کی خرابیوں اور برائیوں سے محفوظ رہیں گے۔سورہ انفال میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (الانفال: ۲۷)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو او رنہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تم (ان باتوں کو ) جانتے ہو۔‘‘

یہاں بھی امانتوں سے مراد اجتماعی ذمہ داریاں ، اجتماعی معاہدات، اجتماعی راز، افراد اور قوم کا مال، اور وہ عہد ہ و منصب ہے جو کسی پر اعتماد کر کے اس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ ان ساری امانتوں میں خیانت کا مرتکب ہونے کی کوئی کوشش نہ کرے۔

امانت اور قرب قیامت

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیںکہ اللہ کے رسولﷺ نے ہم سے دو باتیں بیان فرمائیں۔ ان میں سے ایک کو تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تھا: امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اتری ہے۔ پھر قرآن مجید نازل ہوا۔ پس لوگوںنے امانت کو قرآن مجید اور سنت سے پہچان لیا۔‘‘ پھر آپؐ نے ہمیں امانت کے اٹھ جانے کے متعلق بیان فرمایا کہ آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے قبض کر لی جائے گی۔ پھر اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا اور امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی۔ پس اس کا اثر ابلے کی طرح باقی رہ جائے گا۔ جیسے تم انگارے کو اپنے پائوں پر لڑھکائو تو اس پر ابلہ نمودار ہو جائے۔ پس تم اسے ابھرا ہوا تو دیکھتے ہو مگر اس میں کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پھر آپؐ نے ایک کنکری لی اور اسے پائوں سے لڑھکایا۔ پس لوگ اس طرح ہو جائیں گے کہ آپس میں خرید و فروخت کرتے ہوں گے مگر ان میں کوئی امانت ادا کرنے کے قریب بھی نہ بھٹکے گا۔ یہاں تک کہا جائے گاکہ فلاں لوگوں میں ایک امانت دار آدمی ہے۔ یہاں تک آدمی کو کہا جائے گا کہ یہ کتنا مضبوط، ہوشیار، اور عقل مند ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ پر ایک ایسا زمانہ بھی گزرا کہ میں پروا نہیں کرتا تھاکہ مجھ سے کس نے خرید و فروخت کی بشرطیکہ وہ مسلمان ہوتا۔ اس لیے کہ اس کا دین مجھے میری چیز کو ضرور واپس کر دے گا اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہوتا تو اس کا کارندہ مجھے میری چیز ضرور واپس کردے گا۔ مگر آج کل تو میں صرف فلاں اور فلاں سے ہی خرید و فروخت کا معاملہ کرتا ہوں۔ ( بخاری کتاب الفتن، باب ۳۴)

یہ روایت اپنے مضمون کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور اس کی اہمیت اس وجہ سے اور بھی زیادہ ہے کہ اس کے راوی حضرت حذیفہؓ ہیں۔ کیوں کہ صحابہ کرام میں حضرت حذیفہؓ کا مقام بعض حیثیتوں سے سب سے الگ تھا۔ آپ کو راز دار نبی کہا جاتا تھا۔ آپ کو ایسی باتیں معلوم تھیں جو حضرت ابو بکر و عمرؓ جیسے صحابیوں کو بھی معلوم نہیں تھیں۔ اللہ کے رسولؐ آپ کی ذہانت، حاضر دماغی اور راز داری کی وجہ سے آپ پر ہر درجہ اعتماد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے تمام منافقوں کے نام ان کو بتا رکھے تھے۔ اور منافقوں کے سلسلے میں خلفائے راشدین ان سے رجوع کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ تو کسی کا انتقال ہونے پر یہ دیکھتے تھے کہ حذیفہ اس کی نماز جنازہ پڑھنے آئے ہیں کہ نہیں۔ وہ پڑھتے تو نماز جنازہ پڑھ لیتے، ورنہ سمجھ جاتے کہ مرنے والا شخص منافق تھا۔

یہ روایت انھی حذیفہؓ کی ہے۔ اس میں انھوں نے صاف طور پر یہ بیان کر دیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ رفتہ رفتہ دلوں سے امانت رخصت ہو جائے گی۔ اور جس طرح حالت نیند میں کسی تبدیلی کا ہمیں پتہ نہیں چلتا، اسی طرح امانت کے رخصت ہوجانے کا بھی ہمیں پتا نہیں چلے گا۔وہ ایک ایسی نایاب چیز ہو جائے گی کہ کہیں کہیں کوئی شخص امانت دار ہوگا۔ لوگ اس کی مثال دے کر کہیں گے کہ فلاں شخص امانت دار ہے۔لوگ باہم معاملات کریں گے لیکن اس میں امانت داری سے کام نہ لیں گے۔اس کے بعد ایسا وقت آئے گا کہ لوگ امانت داری سے زیادہ کسی کی جسمانی مضبوطی، ہوشیاری اور عقل مندی کی مثال دیا کریں گے کہ فلاں شخص ہوشیار اور عقل مند ہے۔ لیکن دل اس کاایمان سے خالی ہوگا۔ آخر میں وہ کہتے ہیں کہ پہلے میں کسی سے بھی بے دھڑک معاملہ کر لیا کرتا تھا، کیوں کہ ہر شخص کی امانت داری قائم تھی۔مسلمان تھا تو اس کے ایمان پر اعتماد تھا اور غیر مسلم تھا تو نظام پر اعتماد تھا کہ نظام حکومت کسی کی امانت ضائع نہ ہونے دے گا۔ لیکن اب یہ حال ہو گیا ہے کہ گن کر بتا سکتاہوں کہ صرف فلاں اور فلاں سے ہی معاملہ کرتا ہوں۔ورنہ باقی لوگ اب اس لائق نہیں رہے کہ ان کی امانت داری پر بھروسا کیا جا سکے۔

امانت کے اس طرح ضائع کیے جانے کو اللہ کے رسول ﷺ نے قیامت کی نشانی قرار دیا ہے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ انھوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ امانت کا ضائع ہونا کس طرح ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کیے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم، باب ۲)

یعنی قیادت ایسے لوگوں کے پاس آ جائے جو اس کے اہل نہ ہوں۔ سیاست ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے جو اس کے اہل نہ ہوں، مال ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے جو اس کا صحیح استعمال نہ جانتے ہوں،علم اور تعلیم گاہیں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ جائیں جو علم اور تعلیم کا صحیح طرح سے حق ادا نہ کر سکیں۔ حکم راں ایسے لوگ بنا دیے جائیں جو ملک و قوم کے خیر خواہ نہ ہوں۔ جب یہ سب باتیں نظر آنے لگیں تو سمجھ لو کہ قیامت برپا ہونے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ اب اس کا انتظار کرو۔

امانت کی اہمیت یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔قیامت برپا ہو جانے کے بعد آخرت میں امانت وہ چیز ہوگی جو لوگوں کے لیے یا تو جنت میں جانے کا سبب بنے گی یا جنت میں جانے کے لیے رکاوٹ بن جائے گی۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت حذیفہؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیںکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :

’’قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی لوگوں کو جمع کرے گا۔ اہل ایمان ایک طرف کھڑے ہوں گے حتی کہ جنت ان کے قریب لے آئی جائے گی۔پھر اہل ایمان حضرت آدمؑ سے جنت کا دروازہ کھولنے کی درخواست کریں گے لیکن وہ فرمائیں گے کہ کیا تمھیں جنت سے تمہارے باپ آدم کی غلطی ہی نے نکالا تھا؟ مجھے جنت کو کھولنے کا اختیار نہیں، جائو میرے بیٹے ابراہیم کے پا س جائو۔‘‘ روایت میں ہے کہ اس کے بعد اہل ایمان حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسی ؑاور اخیر میں حضرت عیسیؑ کے پاس جائیں گے ، لیکن سب کے سب معذرت کر لیں گے۔ آخر میں وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس آئیں گے۔ اور آپ کو جنت کو وا کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ لیکن اسی وقت امانت داری اور صلہ رحمی کو وہاں بھیج دیا جائے گا۔یہ دونوں چیزیں جنت کی طرف جانے والے راستے کے دونوں طرف دائیں بائیں کھڑی ہو جائیں گی۔اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں  سےکچھ لوگ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اس راستے سے گزر جائیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ بجلی کی طرح گزرنا کیا ہوتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ(آسمان سے) بجلی کس طرح آتی ہے اور پلک جھپکتے ہی پلٹ جاتی ہے؟‘‘پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس کے بعد کچھ لوگ ہوا کی طرح گزر جائیں گے۔ اور اس کے بعد کچھ لوگ پرندے کی رفتار سے گزر جائیں گے۔کچھ لوگ دوڑ کر گزر جائیں گے۔ان کے اعمال انھیں جنت کی طرف لیے جا رہے ہوں گے اور تمھارا نبی وہیں جنت کے راستے میں کھڑا ہوگا اور کہہ رہا ہوگا:ربِّ سلِّم سلِّم ’’اے میرے رب! حفاظت فرما، حفاظت فرما‘‘۔ یہاں تک کہ بندوں کے اعمال اس قدر رکاوٹ بن جائیںگے کہ آدمی چلنے پر قاد ر نہ ہوگا اور لڑکھڑاتا ہوا جنت کی طرف جائے گا۔اور راستے کے دونوں طرف میخیں لگی ہوں گی جو اس بات پر مامور ہوں گی کہ جس کے متعلق انھیں حکم دیا جائے، اسے اچک لیں۔ چنانچہ جو مخدوش ہوا وہ بچ جائے گا اور جسے دھکیل دیا گیا وہ آگ میں گرے گا۔‘‘ (صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب:۸۴)

راستے کے دونوں طرف امانت اور صلہ رحمی کا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نیک اعمال کا اچھا خاصا ذخیرہ ہونے کے باوجود یہ دونوں چیزیں جس کے نامہ اعمال میں نہ ہوں گی وہ اس کے لیے جنت کے راستے میں رکاوٹ بنیں گی۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau