ہندوستان کی تاریخ کا تذکرہ یہاں کی ہندو مسلم تہذیب کے بغیر نامکمل ہے۔ اس سرزمین پر اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ اس وقت سےہے، جب ۷۱۱ء میں عربوں کےپہلے دستے نے ہندوستان کے دروازہ پر دستک دی۔مسلمانوں کی اس سرزمین پر آمد کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا ان کی آمد نے یہاں گہرے اثرات مرتب کئے۔ مذہب، تہذیب وثقافت زبان وادب ، شاعری وفنون لطیفہ، اکل وشرب، معاشرت و معیشت حکومت وفوج کا نظم، جہانگیری ، قیادت وسیاست ۔ الغرض زندگی کاکوئی گوشہ ایسا نہ تھا۔ جس پر مسلمانوں کی تازہ روح تہذیب کے اثرات مرتب نہ ہوئے ہوں۔ وہ اس ملک کی فضا پر بادلوں کی طرح چھا گئے۔
پھر مسلمانوں نے رفتہ رفتہ اپنی تخلیقی روح، اور تعمیری قوت ضائع کردی اور مسلمانوں کے اس زریں دورنے ۱۸۵۷ء میں آخری ہچکی لی اور دَم توڑ دیا۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اس زوال سے متاثّر قوم کے فکری رویوں کاجائزہ پیش کیاجائے۔ اور اس بات کا بھی کہ ان حادثوں کے بعد اب بحیثیت قوم وہ کس مقام پر کھڑی ہے اور آگے کے لئے کیا راستہ ہے، یہ مطالعہ فکری رویوں، نیز ملی، دینی فکری سیاسی جماعتوں کے افکار کاجائزہ بھی چاہتا ہے۔
قومیت
آج تصور قومیت کے سیاق میں مسلمانوں کو پرکھا جاتا ہے کہ وطن کے تعلق سے اُن کی وفاداری، اور حب الوطنی کیسی ہے۔ مسلمانوں کی وفاداریوں کو ہرتھوڑے وقفہ کے بعد مشکوک ثابت کرنے کی منصوبہ بند کوشش ہوتی ہے۔مسلمان وضاحت کے ساتھ اپنے موقف کو اہل وطن کے سامنے رکھنے میں اب تک پوری طرح کامیاب نہیںہیں۔ یہ تذبذب ماضی میں موجود رہااور حال اُس سے خالی نہیں۔
فرقہ پرور اور قوم پرور مسلمانوں کی تقسیم میں دیگر عناصر کی تنگ نظری کے نتیجہ میں ملک تقسیم ہوگیا۔ سار ا الزام مسلمانوں کے سررکھا گیا چھ لاکھ انسانوں کا قتل عام ہوا۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ انسان گھر سے بے گھر ہوگئے۔ ایک ملک کی سرحد بنانے پر ایسی تباہی ، بربادی، شاید ہی اس سے پہلے اِس سرزمین نے دیکھی ہو۔ پاکستان بن گیا۔ مگرسوالات کا ایک سلسلہ چھوڑ گیا کہ کیا ملک کے بٹ جانے سے دونوں طرف کے مسلمانوں کا سلسلہ حل ہوگیا؟
نسلیں گزر گئی ہیں، وقت نے زخم پر کچھ مرہم رکھ دیا ہے پھر بھی بطور یاد دہانی، تقسیم ملک کے معاً بعد کا نقشہ پیش ہے جس کو جناب مشیر الحق سابق وائس چانسلر ، سری نگر یونیورسٹی نے کھینچا ہے یوں ہے : ’’آزاد ہندوستان میں جب مسلمانوں نے خمارِ شب کی سرگرانی سے ہلکے ہوکر آنکھیں کھولیں تو انہوں نے زمین وآسمان بدلا ہوا پایا۔ چاروں طرف ایک ایسا بھیانک اندھیرا چھایا ہوا تھا کہ انہیں راہ تو دکھائی دیتی مگر آنکھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسے اندھیرے میں نہ دوستوں کی تمیز رہ گئی تھی نہ دشمنوں کی پہچان! ‘‘آگے رقم طراز ہیں:’’اگر تقسیم کے فوراً بعد کا مطالعہ کریں تو محسوس ہوگا، ان دنوں مسلمانوں کو ہندوستانی قوم کا ایک ایسا مفلوج عضو سمجھ کر نظر انداز کیاجارہاتھا۔ جیسے جڑ سے کاٹ کر پھینکنا آسان نہیں ہوتا اور اسے باقی رکھنے کا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔
قومیت کا پس منظر
مختصراً ہم سلسلۂ قومیت کا مفہوم اور اس کے متعلق مختلف آراء کا تعارف یہاں پیش کرتے ہوئے۔ اِس کو آج کے حالات میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ اٹھارویں صدی کا وہ نظریہ ہے جس کی ابتداء یورپ میں چرچہ اور شہنشاہیت کی بندش، مختلف اسباب وعلل اور عوامی تحریکوں کے بعد ڈھیلی پڑنے کے بعد ہوئی اور اس کے بظاہر سادہ اور مرعوب کن نعروں نے یورپ میں کئی چھوٹے چھوٹے لسانی، تہذیبی، نسلی گروپوں پر مشتمل مملکتوں کے وجود میں آنے کا باعث ہوا۔ جس کا مقصد ایک نسل قوم زبان کے لوگوں کی مفادات کو ایک قومی سرحد کاپابندبنا تھا۔ (یورپین یونین میں بیشتر اسے ممالک شامل ہیں)
یہی (Idea)تصور تحریک آزادی کے وقت یہاں کے رہنماؤں کے ذہن میں بھی تھا۔ اور آزادی کی تحریک اسی کے زیر اثر پروان چڑھی، لیکن حقیقت واقعہ یہ تھا کہ وقت ایک صدی آگے کا سفر طے کرچکا تھا۔ اس افکار کی شکل اور ہیئت میں زبردست تبدیلی آچکی تھی۔
اب مسئلہ قوم اور قومیت کا نہ تھا بلکہ اس کے تحت متشکل پا جانے والے Natia Stateکے جا وبیجا اختیارات کاتھا۔ قوم پرستی کے چور دروازہ سے داخل ہوئی کلچرل نیشنلزم کا تھا جو اپنی ساخت میں اقلیت کش اور شدید شکل میں جبر و فاشزم تک پہنچنے کا راستہ تھا۔ جس پر سوائے مولانا مودودی ؒ اور تحریک اسلامی کے اور کوئی گفتگو کرنے کو تیار نہ تھا۔
لغوی تشریح
قومیت کا فلسفیانہ اور اصطلاحی مفہوم کچھ اس طرح ہے:
قوم: Nation
قومیت: Nationality
Notion: (n) a large group sharing the same culture language and history, or inhabitant of a particular state
Nationality the stalurs of belonging to a particular Nation state
OR An ithenic group.
لارڈ برائٹس کی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ میں اس کی تشریح کچھ اس طرح کی گئی ہے۔
’’ایک قوم سے مراد اشخاص کا ایسا مجموعہ جس کو چند مخصوص جذبات نے ملا کر آپس میں جوڑ دیا ہو۔ ان SENTIMENTمیں سب سے طاقتور دوہیں۔
(۱) جذبہ نسلRace :
(۲) جذبہ دین:Religion
البتہ ایک مشترک زبان کااستعمال ،مشترک لٹریچر سے دلچسپی ، ماضی کے مشترک قومی کارناموں اور مشترک مصائب کی یاد اور ایک مشترک رسوم وعقائد (Thougts & Dreams)اور مشترک مقاصد اور حوصلوں کا بھی اس احساسِ جمعیت میں بہت کچھ دخل ہوتا ہے کبھی یہ رابطے یکجا موجود ہوتےہیں اور مجموعہ افراد کو باہم پیوستہ رکھتے ہیں اور کبھی بعض موجود نہیں ہوتے ہیں، لیکن قومیت پھر بھی موجود رہتی ہے۔(صفحہ ۱۱۷، بحوالہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان ،حصہ اوّل، صفحہ ۳۰۴)
Encylopaedia of Religion and Ethicsمیں یوں کی گئی ہے:
’’قومیت وہ صفت عام ہے یا متعدد اوصاف کا ایک مرکب ہے، جو ایک گروہ کے افراد میں مشترک ہو، اور اس کو جوڑ کر ایک قوم بنادے۔ ہر ایسی جماعت ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے، جو نسل، مشترک روایات ، مشترک مفاد، مشترک عادات ورسوم اور مشترک زبان کے رابطوں سے باہم مربوط ہوتے ہیں۔ ان سب میں سب سے اہم رابطہ ان کے درمیان یہ ہوتا ہے کہ وہ باہم اور دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔ بلا ارادہ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ ان درمیان مختلف حسیات سے الفت وموانست ہوتی ہے۔
غیر قوم کاآدمی ان کو اجنبی محسوس ہوتا ہے، اس لئے اس کی دلچسپاں اس کی عادات اس کو نرالی معلوم ہوتی ہے۔ اور اُن کے لئے اس کے اندازِ طبیعت اور اس کے خیالات وجذبات اس کو نرالے معلوم ہوتے ہیں جس کو سمجھنا بہت مشکل معلوم پڑتا ہے۔اسی وجہ سے قدیم زمانے کے لوگ غیر قوم والوں کو شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اِسی وجہ سے آج کا مہذب آدمی بھی غیر قوم والے کے عادات طرز زندگی کو اپنے مذاق کے خلاف پاکر ناک بھوں چڑھاتا ہے۔‘‘(بحوالہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان ، حصہ اوّل، صفحہ ۳۰۴)
قوم کے مفہوم کا خلاصہ
لفظ قوم Nationکے معنی انگریزی زبان میں اُس جماعت یا گروہ کے ہیں، جو ایک مذہب رکھتے ہوں۔ ایک زبان بولتے ہوں۔ ایک خطہ زمین پر بستے ہوں، جن کے رسم ورواج ایک ہوں، آپس میں شادی بیاہ، لین دین ہو، اور جن کی کلچر اور تہذیب ایک ہو۔
متحدہ قومیت یا قوم پرستوں کا استدلال یہ تھا کہ’’ہندواور مسلمان وطنی اور تہذیبی اعتبار سے ایک قوم ہیں اور دونوں کو مل کر ہندوستان آزاد کرانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
اسی چیز کی وضاحت بحیثیت صدر کانگریس مولاناآزادؒ کے خطبہ صدارت میں ملتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے ، آزادی کے بعد مسلمان بحیثیت قوم اِسی کو اپنی پالیسی اور قومیت کے آئیڈیالوجی کے طور پر تسلیم کیا۔’’ہندو اور مسلمان گنگا اور جمنا کے دھاروں کی طرح پہلے ایک دوسرے سے الگ الگ بہتے رہے، لیکن قدرت کی منشا تھی کہ دونوں ایک ہوں اِسی لئے دونوں کو ایک سنگم میں مل جانا پڑا۔
ان دونوں کا میل تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا۔ جس دن سے یہ واقعہ پیش آیا۔ اس دن سے قدرت کی مخفی ہاتھوں نے قدیم ہندوستان کی جگہ ایک نئے، ہندوستان کے ڈھالنے کا کام شروع کردیا۔ اب نہ ہندو کو مسلمان پر اور مسلمان پر ہندو کو برتری حاصل تھی، جس طرح ایک ہندو، فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور ہندو مذہب کا پیرو ہے۔ اسی طرح مسلمان بھی اِسی فخر کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ وہ ہندوستانی ہے اور اسلام کا پیرو ہے۔(خطبۂ صدارت، انڈین نیشنل کانگریس ۱۹۴۰)
۱۹۴۰ء میں دوسری جگہ مولانا آزاد نے مزید اپنی بات، متحدہ قومیت پر وضاحت سے رکھی ہے۔ ’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں، اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئیں ہیں، میں تیار نہیں کہ اس کاکوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم ، اسلام کی تاریخ اسلام کے علوم وفنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرہ میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں۔ اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی اس میں مداخلت کرے۔
لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور بھی احساس رکھتا ہوں۔ جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے۔ اسلام کی روح مجھے اِس سے نہیں روکتی، وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں۔ میں اس متحدہ قومیت کاایسا عنصر ہوں، جس کے بغیر اس کی عظمت کاہیکل ادھورا ہے۔ میں اس کی تکوین کا (بناوٹ) کاایک ناگزیر عامل ہوں، میں اپنے دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتا۔ (خطبہ صدارت: انڈین نیشنل کانفرنس، ۵۳واں اجلاس، رام گڑھ (مارچ ۱۹۴۰)
مولانا آزاد جہاں دیدہ اور حالات پر نظر رکھنے والے انسان تھے ملکی معاملات کو طے کرتے ہوئے انہیں جدید نظریات کو قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ وہ ملت کے نبض شناس ہونے کے ساتھ اس کی داخلی کمیوں کا ادراک بھی رکھتے تھے اور وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ قوم کے انحطاط اور جمود کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہ بڑی عالمی تہذیب کی وارث ہونے کی وجہ سے ، جو کہ فی زمانہ، تاریخ کے اسٹیج سے اُترچکی تھی لیکن وہ تمام جدید نظریات اور عالمی تہذیب کو ایک مدت تک سامراج کا نیاحربہ، استعمار کا آلہ کار کے طور پر شناخت کرتے رہے اور بڑی عالمی تہذیب سے خود کو الگ تھلگ رکھ کر ہمیشہ اس کو مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔ مولانا اپنے فلسفہ میں ہندوستانی مسلمان کو وقت کی حرکت سے جوڑ کر رکھنے کے حامی تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی رہنماؤں نے اس عالمی نظریات وتہذیب کے جواب میں صرف اپنا حاصل مطالعہ اور تنقید ہی پیش کیا۔ کھلے ماحول میں کوئی معروفی مطالعہ اور اکیڈمک ریسرچ کے ہونے کا پتہ بہت ہی کم ملتا ہے۔ اور ان سب پر اٹھارویں اور انیسویں صدی کا پس منظر غالب ہے۔
کبھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ اس کا معروضی مطالعہ اس نقطہ نظر سے ہو کہ ، اس سے علم وتحقیق کا نیا طریقہ، سیاسی تنظیم ، صنعتی معاشرہ بنانے اور صنعتی انقلاب پیدا کرنے کے اصول اخذ کئے جائیں اور ان کی روشنی میں ملت کی جدید تنظیم اور سائنس وعلم وتحقیق کا حامل معاشرہ پیدا کرکے اپنی عظیم الشان تہذیبی وراثت کو از سر نو حرکت دیں۔ جمود کو تعطل کو ختم کر ایک نئی حرکت وتوانائی پیدا کریں۔ یہ آج بھی کل کے مقابلہ میں آج کرنے کا کام ہے۔
دوسرا رویہ مسلمانوں کے اشراف اور صاحت ثروت لوگوں کا تھا۔ جن سے بجائے جدید نظریات کی حقیقی روح کو سمجھنے کے کوٹ، پتلون اور ایک عدد گوری میم کاحصول، ان کی نگاہ میں کل سرمایہ تھا، جو مغربی تہذیب یا جدید تہذیب سے انہیں حاصل کرنا تھا اور ان چیزوں کے حصول کے بعد انہیں لگا کہ ہم نے سب کچھ حاصل کرلیا۔ نئی دنیا کی روشنی ہمارے گھر اُتر آئی۔
ڈاکٹر عابد حسین نے اپنی کتاب ’ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام میں لکھا ہے:
’’منقسم ہندوستان میں یہ سوال تمام تہذیبی اکائیوں کے سامنے تھا کہ آیا وہ اپنی زندگی کے دھارے کو انسانی تہذیب کے آس بڑے دریا سے جوڑ کر رکھیں جو جدید تہذیب کہلاتا ہے یا کاٹ کر اپنی ایک الگ راہ نکالیں؟ اور اس سوال کا جواب آج بھی مسلمانوں کی طرف سے تشنہ تکمیل ہے کہ وہ کیا رویہ من حیث قوم اپنائیں۔‘‘
’’اس کا اصل جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ہم خود کوروشن خیالی اور جدید تہذیب کو اعتماد سے دیکھیں اور اس کے مثبت قدروں کو زاویہ نظر اور سائنٹفک اپروچ کو اپنائیں ، ہمارا یہ معاملہ اپنے اقدارِ حیات اور اصل مذہبی روح سے وابستہ رہ کر ہو، اس بنیاد پر ہم جتنا کچھ لے سکتے ہیں لیتے ہیں اور جو کچھ دے سکتے ہیں دیں۔‘‘
اب آگے بڑھنے کاراستہ، زندگی کی موجودہ حقیقتوں کے اثبات سے ہی ہوکر گزرتا ہے۔ اغماض اور لاتعلقی کا نام ہی جمود اور انحطاط ہے پچھلے تین سوسال کی تاریخ، ہمارے اغماض اور لاتعلقی کی روش گواہ ہیں دینی جماعتوں اور مذہبی حلقوں نے جو نتائج اخذ کئے، مغرب میں پیدا ہوئی جدید تہذیب اور علم وفکر سے اس کا راستہ بھی اک خاص مقام پر آکر رُک سا گیا ہے، یہاں سے آگے کا سفر ، شک گریز اور تصادم سے ہوکر نہیں نکل سکتا۔ ہمیں پھر سے ، جمہوریت، سیکولرزم، قومیت اور اس قبیل کے دوسرے غالب نظامہائے زندگی کامطالعہ آج کے زماں ومکاں اور اسباب وعلل کی روشنی میں معروضی اکیڈمک اور سائنٹفک اپروچ کے ساتھ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ صدیوں کی جمود کی وجہ سے ہم خود کوئی ایجاد، نئی کھوج، اختراع کر نہیں پاتے۔ سائنس وٹکنالوجی میں پیچھے رہ گئے۔ اور عالمی سطح پر سائنسی ایجادات واختراع پر پابندیاں لگاتے رہے اور بعد میں انہیں ایجادات کا جاو بے جا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ مگر نظر سے یہ بات اوجھل رہتی ہے کہ کن دماغوں نے ان کو پیدا کیا، کس سرزمین سے اس کا رشتہ ہے؟
راہِ عمل
حاصل کلام یہ ہے کہ مسلمان تقسیم ملک کے بعد کھلے ذہن کے ساتھ ایک نئے’’تصور ہندوستان‘‘ کے خواب کو اہل ملک کے سامنے رکھیں، جس میں نہ ماضی پرستی ہوکہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ اور نہ رجعت پسندی! اس ملک کو آج بھی آپ کے نظریہ ہندوستان کے سامنے آنے کاانتظار ہے۔ جو حرکت پذیر ہو مسرت اور غم مشترک کو اپنے دل میں جگہ دینے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ الخلق عباداللہ کے چلتی پھرتی تصویر آپ کے افکار وکردار سے جھلکتی ہو اور دوسری جانب مشرق و مغرب کے ہر اس تصور کا میزباں بھی ہو، جو انسانوں کی خدمت کی راہ پیش کرتی ہو۔ یہی ہمارے درد کا درماں بھی ہے ، کشا کشِ زندگی کی رزم گاہ میں آگے بڑھنے کاراستہ بھی۔
(۱) عصبیت ، جاہلیت، قوم پرستی کا بیجا اظہار، تاریخ کے کسی دور میں مفید نہیں رہا۔اگر اس نے کچھ وقتی فائدے دیئے تو مستقبل کے عظیم نقصان کی صورت میں۔
(۲) اسلام کی پوری تعلیمات، تنگی، علاحدگی، بزدلی، خوف کے خلاف ہیں اسلام کا مزاج انسانی دنیا سے وابستگی کا، گوشہ گیری کی جگہ جلوت کا ، کٹنے کے بجائے جڑنے کا، فرار کے بجائے مقابلے کا سکوت کی جگہ حرکت کا۔ شک کی جگہ تجربہ کا سبق دیتا ہے۔ یہ تمام مثالیں ہماری تاریخ کے صفحات پر جابجا بکھری پڑی ہیں۔ ضرورت ہے ہم ا س سے سبق لیں، اپنے قومی حادثات وواقعات سے عبرت حاصل کر کے حال کو بدلنے اور سدھارنے کی فکر کریں۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2017