اللہ کی کائنات
اللہ نے اس کائنات کی تخلیق کی اوراسی نے کائنات کے لیے جن قوتوں ، اشیاء کی ضرورتیں ہیں اس سے مزّین کیاتاکہ مخلوق خداوندی کی تمام ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔ کائنات کا وہ حصہ جس میں رہتے سہتے ہیں اس میں آسمانوں کوستاروں سے سجایا اور زمین کوپھیلایا تاکہ انسان اس سے فائدہ اُٹھائے۔ اللہ نے ہی زمین میں پہاڑ جمائے ، ہر نوع کی جمادات ونباتات اگائیں۔ زمین میںا للہ نے معیشت اور روز ی کے اسباب فراہم کئے اللہ نے ہی صاف ہوائیںچلائی، برکت والا پانی نازل کیا ۔ اسی نے غلّہ، پھول و پھل اورمیوے پیدا کیا ۔ اسی نے دن اوررات بنایا، سورج تارے اور چاند کوپیدا کیا اورسمندر و دریا کو مسخر کیا ۔ ہوا اورپانی کوراستہ کے لئے ہموار کیا ۔ اس نے نسل انسانی کی افزائش کی ، انسان کودماغ ، آنکھ ، ناک اورکان دئیے۔ جان وسکون کے لئے گھروں کا انتظام کروایا ۔ اسی نے معدنیات جیسے سونا، چاندی، لوہا، تانبہ وغیرہ کا انتظام کیا ۔ گیس وتیل وغیرہ پیدا کیا تاکہ انسان اس سے فائدہ اُٹھائے ۔ سورۂ ابراہیم آیت نمبر ۳۴ میں اللہ نے قرآن کریم میںفرمایا :’’ اگرتم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہوتو انہیں پورا شمار نہیں کرسکتے۔ کائنات میں کتنی مرئی اور غیر مرئی توفیق محفوظ کردین جس سے انسان فائدہ اُٹھاتے رہیں ہیں اوراُٹھاتے رہینگے ‘‘۔
یہ پوری کائنات داد ودہش کے ضابطے وقانون کے سہارے چل رہی ہے جس کا تعلق براہِ راست صفتِ خدا وندی سے ہے اگرخدا اپنے اس صفت کوروک دے تو زندگی دوبھر ہوجائےگی۔ اس کائنات کا کوئی حصہ دوسرے حصہ سے بے نیاز وبے تعلق نہیںہے ۔ سب ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہیں اورساری چیزیں انسان کی ضـرورتوں میںلگی ہوئی ہیں، سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ساری چیزیں انسان کی ضرورتوں میںلگی ہوئی ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے :’’ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے جوکچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میںہے سب کو تمہارے کام میں لگارکھاہے ‘‘۔ (لقمان: ۲۰)
اللہ کا دین
اللہ نے ہی انسانوں کودنیا کی تمام لازوال نعمتیں مانگے اوربے مانگے عطا کیں ہیں جن سے انسان دن رات فائدہ اُٹھارہا ہے ۔ ان نعمتوں میں سب سے لازوال اوربیش قیمت زندگی گزارنے کا وہ طریقہ دیا ہے جیسے اللہ نے ’’دین‘‘ کہا ہے ، ’’اللہ کے نزدیک دین (ضابطہ حیات) صرف اسلام ہی ہے ‘‘ ۔ (آل عمران: ۱۹) اللہ نے ضابطۂ حیات کے لئے صرف اسلام کوہی پسند کیا ۔ دین اسلام میں ہی انسانوں کی فلاح وبھلائی ممکن ہے ۔ اس کے علاوہ وہ تمام دوسرے طریقۂ زندگی انسانوں کو انسانیت سے دور کردیتا ہے چاہے وہ بگڑا ہوا طریقہ زندگی ہو یا انسانوں کا خود ساختہ طریقۂ زندگی۔ انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ السلام جوپہلے انسان ہی نہیں پہلے نبی بھی تھے کواللہ نے دینِ اسلام سے نوازا اوران کے بعد جولاکھوں ابنائے کرام دنیا میں تشریف لائے وہ سب کےسب انسانوں کے لئے دینِ اسلام ہی لے کر آئے ۔ بقول قرآن کریم۔
l’’ اس نے تمہارے لئے دین کا دینی طریقہ مقرّر کیا جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جیسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ بھیجا ہے اورجس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کواوراس میں متفرق نہ ہوجاؤ ‘‘۔ (الشوریٰ : ۱۳)
l’’ ابتداء ‘‘ سارے انسان ایک ہی امت تھے بعد میں انہوںنے مختلف عقیدے اورمسلک بنالیے اور اگرتیرے رب کی طرف سے پہلے ہی یہ بات نہ طے کی گئی ہوتی تو جس چیز میں ہم اختلاف کررہے ہیں اس کا فیصلہ کردیا جاتا ‘‘۔ (یونس: ۱۹)
خدا اپنے بندوں پربے انتہا مہربان ہے اوراس کی رحمت سے ہی زمین پر انسانوں کا بسنا اورجینا ممکن ہے ۔ مخلوقات خدا وندی اسی کے ہوا میں سانس لیتی ہے اوراس کا ہی دیا ہو ا رزق استعمال کرتی ہے ۔ تمام انسانوں کی بھلائی صرف اور صرف دینِ اسلام میں ہی ممکن ہے ۔ انسانوں کا وہ گروہ جودینِ اسلام کوپسند کرتے ہیں اوراس کے قانون کو قائم کرنا چاہتے ہیں وہی لوگ در اصل زمین کے اصل وارث ہیں اوراللہ کے پسندیدہ ہیں۔ دین اسلام کوقائم کرنا تاکہ انسانیت کا بھلا ہویہ انسان کی ذمہ داری ہے اورجولوگ یہ کام کرتے ہیں وہ اللہ کے سپا ہی ہیں۔
دین قائم کرنے کے لئے انفاق کی ضرورت
اللہ نے مومنوں کوتمام مال ومتاع اورتمام اشیاء بخشنے کے بعد ان سے سودا کیا ہے ۔ آپ اسے قرآن کریم کی زبان میں سنیں:
l’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ مومنوں سے ان کے نفس اورمال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔ وہ اللہ کی راہ میںلڑتے اورمارتے مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمہ ایک پختہ وعدہ ہے ۔ تو راۃ اورانجیل اورقرآن میں، اورکون ہے جواللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو۔ بس خوشیاں مناؤ اپنے اس عہد پر جوتم نے خدا سے کیا ہے اوریہی سب سے بڑی کامیابی ہے ‘‘۔ (التوبۃ: ۱۱۱)
قرآن کی پکار پر مکہ اورآس پاس کی تمام سعید روحوںنے لبیک کہا اوراسلام کے لئے اپنا مال وجان کا نذرانہ پیش کیا تاکہ دین قائم ہوجن کے گواہ تاریخ کے اوراق ہیں۔دیکھتے دیکھتے جنت کے خریداروں کی نہ ختم ہونے والی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرگئی ۔ ان کی نگاہوں میں یہ بڑا ہی سستا سودا تھا جس میں خسارے کا کوئی ڈر نہیں تھا گھاٹے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا وہ اپنےرب کی خوشنودی اورجنت کے مشتاق تھے۔
۲۳؍سال کی ایک چھوٹی سی مدت میں تزکیہ نفس اورتزئین قلب کے ذریعے ایک ایسی امت اورایک ایسی حکومت وجود میں آئی جس کا ہر فرداپنے خدا اور رسول ؐکا فرمانبردار اورقربانی کا پیکر تھا۔ حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عثمان ؓ، حضرت زید بن حارثہؓ ، حضرت بلالؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت خبابؓ ، حضرت عمّارؓ وغیرہ وغیرہ آپ گنتے جائیے آپ تھک جائیںگے مگر فہرست ختم نہ ہوگی جنہوں نے قرآن کریم کی ایک آواز پر اپنا سب کچھ دین پر نچھاور کرکے دین قائم کردیا۔ صحابہ کرامؓ نے غربت کا زمانہ بھی دیکھااور دولت وحکومت کے جاہ حشمت کا دور بھی پایا مگر ان کے قدم نہ کبھی ڈگمگائے نہ کبھی وہ لڑکھرائے ۔ انہوں نےاپنے اللہ سے جوعہد باندھا اس پر ہر حال میں قائم رہے۔ صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید کوسر آنکھوں سےلگایا ، فرمانِ رسول ؐ کووظیفہ زندگی بنایا ، انفاق فی سبیل اللہ کوتقرب اِلٰہی کا ذریعہ سمجھا اور اقامت دین کی سعی جہاد میں لگ گئے۔ یہی لوگ در اصل قرآن کریم کے گل وبوٹے، معطرپھول ہیں جنہیں دنیا اصحابؓ محمد کے نام سے جانتی ہے جن کے خوشبو سے سارا عالم مہک رہا ہے اورجن کے خون وقربانی سے اسلام کی کھیتی لہلہانے لگی تھیں ۔ تمام صحابہ کرامؓ قرآنی صراط مستقیم پر گامزن تھے، رسولؐ کےفرمادات ان کے میل کے پتھر تھے ، آخرت ان کی منزل تھی، انفاق سبیل اللہ زاد سفر تھا، جنت ان کا ابدی گھر تھا اوررضائے اِلٰہی ان کی مقصود حیات تھی۔
خدا کے دین کا مطالبہ ۔ انفاق فی سبیل اللہ
ہر دور میں دین اسلام اپنے غلبۂ وقیام کے لئے مومنین سے انفاق فی سبیل اللہ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ انفاق بالعموم دین کے غلبہ وقیام کے لیے جان ومال کے خرچ کی ترغیب دلاتا ہے ۔ صحابہ کرامؓ جوقرآن کے اولین مخاطب تھے نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے مطالبہ پر بڑھ چڑھ کرانفاق کیا اوروہ منزل مقصود پر پہنچے جن کی ضمانت قرآن نے دی ہے ۔
- ’’اے ایمان لانے والوں جوکچھ مال ومتاع ہم نے بخشا ہے اس میںسے خرچ کرو قبل اس کے وہ دن آئے جس میں خریدوفروخت ہوگی نہ دوستی کام آئےگی اورنہ سفارش چلے گی اورظالم اصل میں وہی ہیں جوکفر کی روش اختیار کرتے ہیں ‘‘۔ (البقرۃ: ۲۵۴)
- ’’ایمان لاؤ اللہ اوراس کے رسولؐپراور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کوخلیفہ بنایا ہے اور جولوگ تم میں سے ایما ن لائیں گےاورمال خرچ کریں گے ان کے لئےبڑا اجر ہے ‘‘۔ (الحدید: ۷)
قرآن کریم کی پکار ہے کہ لوگوں تم میں ضُعف نہ آجائے ۔ تم کاہلی وسستی کا شکار نہ ہو۔ بخل میںمبتلا نہ ہوجاناکیونکہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں ہماری زندگی کا راز مضمر ہے اوراسی میں امت کی بقا کا سامان ہے ۔ اگرملت اسلامیہ اس فریضہ سے غافل ہوجائے تو دنیا کی قومیں ان پرٹوٹ پڑیںگی ملت کی ہوا اکھڑ جائے گی اورانہیں غلامی کے دن دیکھنے پڑیںگے ۔ قرآن کہتا ہے : - ’’دیکھو تم لوگوں کودعوت دی جارہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پرتم میں سے کچھ لوگ بخل کررہے ہیں حالانکہ جوبخل کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے آپ میں بخل کرتا ہے ۔ اللہ تو غنی ہےتم ہی اس کے محتاج ہو ، اگرتم منہ، موڑوگے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اورقوم کرلے آئے گا اوروہ تم جیسے نہ ہوں گے ‘‘۔ (سورۂ محمد:۳۸۔۳۷)
- ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اوراپنے آپ کوہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کروکہ اللہ محسنوں کوپسند کرتا ہے ‘‘۔ (البقرۃ: ۱۹۵)
- ’’آخر ان لوگوں پر کیا آفت آجاتی اگر یہ اللہ اور روز آخر ت پر ایمان رکھتے اور جوکچھ اللہ نےدیا ہے اس میں سے خرچ کرتے۔ اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ سے ان کی نیکی کا حال چھپا نہ رہ جاتا ۔ اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اسے دو چند کرتا ہےاور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے ‘‘۔ (النسا: ۳۹)
- ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین وآسمان کی میراث اللہ ہی کے لئے ہے ‘‘۔ (الحدید: ۱۰)
مذکورہ بالا تمام آیات قرآنی اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہیں کہ غلبہ دین کے لئے انفاق فی سبیل اللہ ایک اہم عمل ہے اگر اُمت آج بھی اللہ سے کئے گئے وعدوں پر اُٹھ کھڑی ہوتو یہ منظر سامنے آئے گا۔
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’ عنقریب ایسا ہوگا کہ’ قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کوکھانے والی پیالے کی طرف بلاتے ہیں۔ایک شخص نے عرض کیا کہ کیاایسا اس زمانے میں ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا نہیںتم اس زمانے میں کثیر تعداد میںہوگے لیکن تمہاری حیثیت کوڑے کرکٹ کی ہوگی جیسے وہ خاشاک جودریا اورسیلاب کے جھاگ کے ساتھ ملا ہوتا ہے ۔ اللہ تمہارے رشتوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دل میں ’’وہن‘‘(سستی وکمزوری) ڈال دے گا ایک شخص نے پوچھا اے اللہ کے رسول ؐ’’وہن‘‘ کیا ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا :’’ دنیا کی محبت اور موت سے ڈر‘‘۔
انفاق کاجذبہ آدمی کوآفاقی خصوصیت سے ہم آہنگ کردیتا ہے اوروہ اپنے رب سے یگانیت کا رشتہ جوڑلیتا ہے جس کے بدلے میں اللہ ان کواپنی تمام نعمتوں سے نوازدیتا ہے اورآدمی کے اندر اعلیٰ ظرفی اوربہترین صلاحیت واہلیت پیدا ہوتا ہے ۔ انفاق کے ذریعہ ہی دنیا کی سب سے بڑی دولت سیرت وکردار کی بلندی عطا ہوتی ہے ۔ انفاق فی سبیل اللہ آدمی کوروح کی بالیدگی عطا کرتاہے جس کے ذریعہ وہ ہرقسم کی پستی وتنگ دستی اورکوتاہ بینی سے پاک ہوجاتا ہے۔
اللہ کی راہ میں کیا خرچ کیا جائے؟
سورۂ بقرہ آیت نمبر۲۱۵ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے :’’ لوگ پوچھتےہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دوکہ جومال بھی تم خرچ کروگے اپنے والدین پر ،رشتے داروں پر ، یتیموں پر مسکینوں پر اور مسافروں پرخرچ کرواور جوبھی بھلائی تم کروگے اللہ اس سے باخبر ہوگا‘‘۔
آیت مذکورہ میں خیر کا لفظ آیا ہے جس کے دومعنیٰ ہیں ایک یہ کہ ہم راہ خدا میں جوچیزبھی خرچ کریں اس میںخرچ کرنے والوں اوردیگرلوگوں کے لئے خیر ہو اوروہ فی نفسہٖ بھی اچھی ہودوسرے جوچیز خرچ کی جائے وہ اس کے پاس سب سے اچھی ہوجس کا مقصددل کی تطہیر اورنفس کا تزکیہ ہو ۔
دوسری جگہ فرماتا ہے :
’’ پوچھتےہیں کہ ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں کہوجوکچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے شاید تم دنیا وآخرت دونوں کی فکر کرو‘‘۔ (سورۂ بقرہ۔۲۱۹)
اسلامی ریاست کی ضروریات اوربقاکے لئے خرچ کیا ہوا مال انفاق فی سبیل اللہ ہے ۔
اللہ رب العالمین فرماتا ہے :
’’ اورتم لوگ جہاںتک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اورتیار بندھے رہنے والے گھوڑے مہیا رکھو تاکہ اس کےذریعہ سے اللہ کے اوراپنے دشمنوں کواور ان اعدا کوخوف زدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جوکچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائےگا اورتمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہوگا ۔‘‘( انفال:۶۰)
نیکی در اصل یہ ہے کہ انسان صدق دل سے اللہ کی راہ میں اپنا پسندیدہ مال ان راستو ں پر خرچ کرے جیسے اللہ پسند کرتا ہے ، ارشادِ خدا وندی ہے:
’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلئے یا مغرب کی طرف(کرلیتے) بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو ، یوم آخرت کواور ملائکہ اوراللہ کی نازل کردہ کتاب اوراس کے پیغمبروں کودل سےمانے اور اللہ کی محبت میں اپنا پسندیدہ مال رشتہ داروں اوریتیموں پر ، مسکینوں اورمسافروں پر، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانےوالوں پر اورغلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اوروہ نیک لوگ ہیںکہ جب عہد کریں تووفاکریں اورتنگی اور مصیبت کے وقت میں اورحق وباطل کی جنگ میں صبر کریں یہ لوگ راست باز لوگ ہیںاور یہی متقی ہیں ‘‘۔(البقرۃ: ۱۷۷)
’’ اے لوگوجوایمان لائے ہومیںبتاؤںتم کووہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچادے ۔ ایمان لاؤ اللہ اوراس کے رسولؐ پر اورجہاد کرواللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے ۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگرتم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کردےگا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی اورابدی قیام تک بہتر ین گھرتمہیں عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی ‘‘ ۔ (الصف: ۱۲۔۱۱)
انفاق کے ذریعہ انسان ایک طرف دربارِ خدا وندی میں تقرب حاصل کرتا ہے تو د وسری طرف انفاق فی سبیل اللہ تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن کی پکار پر اپنا سب کچھ نچھاور کرکے جنت کا ابدی گھر خریدا ۔ جب سورہ الحدید آیت نمبر ’’نازل ہوتی جس میں اللہ فرماتاہے کہ کون ہے جواللہ کو’’ قرض‘‘ دے اچھا قرض تاکہ اللہ اسے کئی گنا کرکے واپس کرتےتو حضرت عبداللہ ابن مسعودؓفرماتے ہیں کہ ابوالداحداح ؓ نے رسول اکرمؐ سے پوچھا یا اللہ کےرسولؐ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا :ہاں اے ابوالداحداح ؓ، جس پر انہوںنے اللہ کے رسولؐ سے کہا ذرا آپ اپنا ہاتھ مجھے دکھائیے تو آپؐ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھادیا ۔ انہوںنے آپؐ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا’’ میںنے اپنے رب کواپنا باغ قرض دے دیا ۔ اس باغ میں چھ سو ۶۰۰ سے زیادہ درخت تھے اور ان کے گھر بھی اسی میں تھےجہاں ان کی بیوی اوربچے رہتے تھے ۔ رسول اللہؐ سے بات کرکے سیدھے گھر گئے اور باہر سے ہی اپنی بیوی کو پکار کر کہا وحداح کی مان نکل آ میں نے یہ باغ اپنے رب کوقرض دے دیا ہے ۔ ان کی نیک بیوی نے بے چوں وچرا کے بولیں تم نے نفع کا سودا کیا اے وحداح کے باپ اوراسی وقت اپنا سامان اوربچوں کولے کر باغ سے نکل گئیں(ابن ابی حاتم) یہ ہوتا ہے وہن مبین کے لئے ایثار وقربانی کا نمونہ جوگلشن نبوت کے ایک پھول نے دکھایا اوراسی طرح کی انگنت واقعات سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہیں۔ جب جب تقاـضاء وقت آیا صحابہ کرامؓ نے اپنی بساط سے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کی مثالیں پیش کیں اور دربار خداوندی میں سرخرو ہوئے‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ایک دن حضرت بلالؓ کی قیام گاہ پر پہنچے اور دیکھا کہ ان کے پاس چھوارا کا ایک ڈھیر ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ حضرت بلالؓ نے عرضـ کیا میں نے اسے آئندہ کے لئے ذخیرہ بنایا ہے ۔ حضورؐ نے فرمایا بلالؓ کیاتمہیں اس کا ڈر نہیں کہ کل قیامت کے دن آتش دوزخ میں تم اس کی تپش دیکھو۔ اےبلالؓ راہ خدا میںخرچ کرو اور عرش عظیم کے مالک سے قلت کا خوف نہ کرو ۔ کل کے لئے ذخیرہ رکھنے کی فکر نہ کرو۔ جس نے تمہیں آج دیا ہے وہ کل بھی تمہیں دے گا‘‘۔ ( بیہقی)
انفاق فی سبیل اللہ کے اثرات
انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ انسان اپنے رب کریم پر مکمل بھروسہ ویقین پر عامل ہوتا ہے اور دربار خدا وندی میں تقرب حاصل کرتا ہے وہیں وہ اپنے توبہ کومؤثر بناتا ہے انفاق فی سبیل اللہ جہاں تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے وہیں انفاق کے ذریعہ انسان اپنے اندر موجود برائیوں کودور کرتا ہے ۔ فرمانِ خدا وندی ہے:
l’’ اگرتم اپنے صدقات علانیہ دوتو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجتمندوں کودو تویہ بھی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ تمہاری بہت سی برائیاں اس طرز عمل سے محمود ہوجاتی ہے اورجوکچھ تم کرتے ہو اللہ کوبہر حال اس کی خبر ہے ‘‘۔ (البقرۃ:۲۷۱)
l’’ کیا ان لوگوں کومعلوم نہیں کہ وہ اللہ ہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کوقبولیت عطا فرماتا ہے اوریہ کہ اللہ بہت معاف کرنےوالا ہے ‘‘۔ ( توبہ:۱۰۴)
l’’اسی طرح راہِ خدا میں تھوڑا یا بہت کوئی خرچ وہ اُٹھائیں اورسعی وجہاد میں کوئی وادی وہ پار کریں اوران کے حق میں اسے لکھا نہ جائے تاکہ اللہ ان کے اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطا کرے ‘‘۔ (سورۂ توبہ: ۱۲۱)
lقرآن فرماتا ہے کہ ’’ جولوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسےایک دانہ بویا جائے اوراس سے سات بالیں نکلیں اورہر بال میں سودانے ہوں ۔ اس طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے ۔ وہ فراخ دست بھی ہے اورعلیم بھی ‘‘۔ (البقرۃ:۲۶۱)
l’’تم نیکی کونہیں پہنچ سکتے ، جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدائی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو‘‘۔ (آ ل عمران: ۹۲) نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ اللہ کے رسولؐ کے خدمت ہوکر فرمایا میرا محبوب ترین مال بیر ماء کا باغ ہے وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے اس نیکی کو میںاللہ کی بارگاہ میں ذخیرہ کرتا ہوں اسے اللہ کے رسول آپ جس طرح چاہیں اس کوخرچ کردیجئے۔
صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں میں جو زبردست انقلاب برپا ہوا وہ ان کے اعمال صالحہ اورراہ خدا میں ان کے انفاق کا ہی نتیجہ تھا ، ان کے انفاق، دریا دلی و فیاضی ، جودوکرم اور سخاوت کے اثرات ایسے ہوئے کہ لوگوں کے دل ان کی طرف کھینچنے لگے اورلوگ جوق در جوق لاکھوں کی تعداد میں داخل اسلام ہوئے۔
راہِ خدا میں انفاق نہ کرنے والوں کا انجام
جولوگ ضرورت کے وقت اللہ کی راہ میں انفاق نہیں کرتے ان کا انجام نہایت ہی بھیانک دردناک ہوگا۔ انہیں اسی سونے اورچاندی سے داغا جائے گا ۔ قرآن مجید فرماتا ہے:
l’’درد ناک سزا کی خوشخبری دے دوان کوجوسونے اورچاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اوراسے خدا کی راہ میں خرچ نہیںکرتے۔ ایک دن آئےگا کہ اس کےسونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اورپھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اورپٹھوں سے داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جوتم نے اپنے لئے جمع کیا تھا تو اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو‘‘۔ ( سورۂ توبہ :۳۵)
l’’تباہی ہے ہر اس شخص کے لئے جومنہ در منہ‘ لوگوں پر طعن کرتا ہے اورپیچھے برائیاں کرنے کا خوگر ہے جس نے مال جمع کیا اوراسے گن گن کر رکھا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کامال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا ۔ ہرگز نہیںوہ شخص تو چکنا چور کرنے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کرنے والی جگہ؟ اللہ کی آگ خوب بھڑکائی ہوئی ہوگی جودلوں تک پہنچے گی وہ ان پر ڈھانک کر بندکردی جائے گی اس حالت میں کہ وہ اونچے اونچے ستون میں کھڑے ہوں گے‘‘۔ ( سورۂ ہمزہ)
lسورۂ التغابن میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہے اللہ سے ڈرتے رہواور سنو اوراطاعت کرواوراپنے مال خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے جواپنی دل کی تنگی سے محفوظ ہوگئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (آیت: ۱۶)
l’’اگرتم اللہ کو قرض حسن دو تووہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے در گزر فرمائے گا اللہ بڑا قدردان اوربردبار ہے‘‘۔ ( آیت۔ ۱۷)
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے (مجھ سے ) فرمایا ’’ خرچ کرو، گنومت ورنہ خدا بھی تمہیں گن کردے گا ، اورروکو مت ورنہ خدا بھی تم سے روکے گا اورجتنا دے سکتی ہو‘‘۔(بخاری ومسلم)
ایک دوسری حدیث حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ یقیناً صدقہ رب کے غضب کوٹھنڈا کرتا ہے اوربُری موت کودور کرتا ہے‘‘۔(ترمذی) حضرت کعب بن عیاضؓفرماتے ہیںکہ میںنے رسول خدا ؐ کویہ فرماتے سنا کہ ’’ ہر اُمت کے لئے ایک فتنہ ہے اورمیری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔
آپ ؐ فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتو مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے اوپر تین دن گزر جائیں اس حال میں کہ میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بجز اس شئے کہ جوادائیگی کے لئے رکھ لی جائے ۔(بخاری ومشکوٰۃ)
’’ اے آدم کے بیٹے تو ضرورت سے زائد خرچ کردے یہ تیرے لئے بہتر ہے اور اگرتم اس کوروک کررکھے تو یہ تیرے لئے بُرا ہے اورکان بقد کفایت روکنے میں کوئی ملامت نہیں اور خرچ کرنے میں جن کا روز کا تیرے ذمہ ہے اس سے ابتدا کر‘‘۔مذکورہ بالا تمام احادیث وقرآن کریم کی آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نزدیک انفاق نہ کرنے والا خراب آدمی ہے جبکہ انفاق کرنے والوں سے اللہ راضی ہوتا ہے حضورؐ کا عمل بھی یہی تھا کہ آدمی انفاق زیادہ سے زیادہ کرے۔
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے ۔ شیطان یہ چاہتا ہے کہ انسان اس راہِ کشادہ کو اختیار نہ کرے جواللہ نے انسان کو دکھائی ہے بلکہ وہ اس کی ترغیب دیتا ہے کہ ہوشیاری یہ ہے کہ آدمی اپنی دولت کوسنبھال سنبھال کررکھے۔ اللہ حکمت ودانائی کی راہ بتاتا ہے تاکہ آدمی جو کچھ بھی کمائے اسے اپنی مستورات ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بھلائی کے کاموں پر خرچ کرے ۔ ارشاد خدا وندی ہے :’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتاہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اورفضل کی اُمید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست ودانا ہے جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اورجس کو حکمت ملی اسے حقیقت میںبڑی دولت مل گئی‘‘۔
حوالہ جات
- تفہیم القرآن از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ۲۵
- کلام نبوت از مولانا محمد فاروق خان مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ۔۲۵
- ترجمان الحدیث از سید محمود حسن
- انفاق فی سبیل اللہ از ابن عبدالشکور، مکتبہ ذکریٰ، رام پور ، یوپی ( انڈیا)
مشمولہ: شمارہ اگست 2018