اسلامی تحریک کے داخلی اختلافات

اختلاف کبھی ختم نہ ہونے والی ایک حقیقت ہے

یہ ایک اولین مسلّمہ حقیقت ہے جو کسی طویل بحث یا جھگڑے کی گنجائش نہیں رکھتی ہے۔ لوگوں کے درمیان اختلاف ایک واقعاتی حقیقت ہے اور یہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ اس کو ختم کرنے اور مٹادینے کی ہر امید ایک خام خیالی اور سراب ہے۔ اسے ختم کرنے کی ہر کوشش رائیگاں جانی ہے اور مایوس کن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔ ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ ہم اختلاف کو تسلیم کریں اور اس کے ساتھ بہتر طریقے سے نمٹنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، یہی ممکن ہے، تو ہمیں اسی امکانی دائرہ میں سرگرمی دکھانی چاہیے۔

خلقِ خدا میں اختلاف کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے اللہ نے لوگوں پر مسلط کیا ہو اور انھیں اس کی آزمائش میں ڈالا ہو۔ یہ تو ان کی فطرت کا حصہ ہے اور ان کی لازمی صفات میں شامل ہے۔ یہ دراصل ان کی عمومی تقدیر کا حصہ ہے کہ وہ کوتاہ مخلوق ہیں، جتنا جانتے ہیں اس سےبہت زیادہ نہیں جانتے ہیں۔ جتنی قدرت رکھتے ہیں اس سے بہت زیادہ بے بس ہیں۔ غلطیاں بھی کرتے ہیں اور کبھی غلطیوں سے بچ بھی نکلتے ہیں۔

اگر ہم ایسے لوگوں کا تصور کریں جو اختلاف ہی نہ کریں تو ہمیں پہلے یہ تصور کرنا ہوگا کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں، وہ کبھی غلطی نہیں کرتے اور کوئی کام ان کے بس سے باہر نہیں! اختلاف سے محفوظ رہنا صرف ان کے لیے زیبا ہے جن کا علم ہر چیز کو محیط ہو اور جن کے شمار میں ایک ایک چیز شامل ہو۔ ایسی تو کوئی مخلوق ہے ہی نہیں۔ ایسے علم سے متصف تو بس اللہ کی بلند و برتر ذات ہے، اس کے سوا کوئی نہیں۔

جہاں تک خلق خدا کی بات ہے تو چوں کہ علم، ادراک، تجربہ، مہارت، یادداشت اور بھولنے کے معاملے میں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اس لیے ضرور ان کے تخمینے، توجیہات اور توقعات بھی باہم مختلف ہوں گی۔ اس کی وجہ سے ان کا موقف اور انتخاب بھی مختلف ہو گا۔ اس حقیقت کو علامہ ابن مرتضی نے ایک جامع جملے میں بیان کیا ہے: اختلاف کی علّت – علم میں یکسانیت کا نہ ہونا ہے۔

اس عامل کے علاوہ ایک اور عامل بھی ہے جو انسان کے مقام و تقدیر کا حصہ ہےاور وہ ہے انسان کا عمومی طور پر خواہشوں اور چاہتوں کے سامنے جھک جانا۔ اس معاملے میں ہر شخص دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور ہر حالت دوسری حالت سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ عامل بھی لازمی طور پر آرا، اقوال اور اعمال میں بے شمار قسم کے اختلافات جنم دیتا ہے۔ یہاں خواہشوں اور چاہتوں سےمیری مراد صرف وہ چیزیں نہیں ہیں جو حرام یا مذموم ہیں، بلکہ وہ چیزیں بھی میرے پیش نظر ہیں جو مباح یا مستحب ہیں۔ جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:

زُینَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ [آل عمران: 14]

(مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی)

تو تمام لوگ – جیسا کہ آیت میں صراحت کی گئی اور حقیقت بھی یہی بتاتی ہے – ان چیزوں کی چاہ رکھتے ہیں اور انھیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگ ان چیزوں کی چاہت اور ان کے حصول وبقا کی کوششوں میں بہت زیادہ تفاوت رکھتے ہیں۔ اگر بہت سے لوگ ان خواہشوں اور چاہتوں میں غرق رہتے ہیں، تو دوسرے لوگ ان کے تئیں دانائی و میانہ روی کی بلندی اختیار کرتے ہیں۔ ڈوبے رہنے کی بھی بے شمار سطحیں ہیں اور بلند تر رہنے کے بھی بے شمار مراتب ومقامات ہیں۔ انسانوں کی خواہشوں اور چاہتوں سے تعلق میں جتنا زیادہ تفاوت ہے ، ان کی رایوں، رویوں اور فیصلوں میں بھی اتنا ہی زیادہ تفاوت ہوتا ہے۔

لوگوں کی جبلتوں، مزاجوں اور جذبات کے درجوں میں اختلاف بھی اسی قبیل سے ہے۔ اس سلسلے میں امام غزالی کہتے ہیں:  ’’لیکن اخلاق، حالات اور رویوں کا اختلاف ظنون (رایوں اور اندازوں) کے اختلاف کا سبب بنتا ہے۔ جس پر غصہ غالب ہوتا ہے، وہ ہر چیز میں نخوت و انتقام کی طرف مائل ہوتا ہے، جب کہ نرم مزاج والے لوگ اسی سے بے زار رہتے ہیں اور مہربانی و نرمی کی طرف جھک جاتے ہیں۔ ‘‘ غرض بے شماررائیں، موقف اور فیصلے اس طرح کے فطری اور نفسی فرق کا عکس ہوتے ہیں یا کم از کم ان سے متاثر ہوتے ہیں۔

یوں ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ تخلیق کا اختلاف بنیادی طور پر کسبی اختلافات کا ایک بنیادی سرچشمہ ہے۔ جب تک یہ سرچشمہ جاری ہے، اختلاف کو سرے سے ختم کرنا یا اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ناممکن ہے۔ لوگوں کی زندگیوں اور تعلقات میں بے شمار اختلافات سرایت کیے رہیں گے۔ ہمیں اس واقعاتی حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ نمٹنے کے بہترین طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔

اختلاف شریعت میں ثابت ہے

جیسا کہ معلوم ہے، اسلامی شریعت فطرت کی شریعت ہے، یعنی یہ اس فطرت کے مطابق بنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں رکھی ہے اور یہ شریعت فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ یہاں فطرت سے مراد وہ سب چیزیں ہیں جو اللہ نے لوگوں میں پیدا کی ہیں جن میں ان کا کوئی دخل نہیں، جیسے کہ ان کی خواہشات اور ان کی کمیاں۔ اگر لوگوں کے درمیان اختلاف کے کچھ اسباب کا منبع ان کے وجود میں پنہاں عوامل ہیں جن سے چھٹکارا ممکن نہیں، تو لازم تھا کہ شریعت اس کا لحاظ رکھے، اسے تسلیم کرے اور اس کی اساس پر اپنی بنا قائم کرے۔ عملًا ہم اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ ہمیں شریعت کے نصوص و احکام میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جو اختلاف پر سرے سے روک لگاتی ہو یا اس کو مٹادینے اور زندگی کو اس سے آزاد کرنے کی کوشش کرتی ہو۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ شریعت اختلاف کے امرِ واقعی ہونے کا اعتراف کرتی، اس کی مختلف صورتوں کا ذکر کرتی اور اس کے لیے حدود و ضوابط قائم کرتی ہے۔ شریعت کا یہ رویہ ان تمام معاملات میں ہے جو دراصل مباح ہوتے ہیں، البتہ ان کے لیے حدود و ضوابط مقرر کیے جاتے ہیں جو انھیں مخصوص احوال میں حرام یا مکروہ بنادیتےہیں یا کچھ شرطوں کے ساتھ مشروط کردیتے ہیں۔

اختلاف ایک حقیقت ہے اور اسے تسلیم کرنا چاہیے، اس امر کی طرف شریعت متوجہ بھی کرتی ہے۔ اس توجہ دہانی کی ایک شکل یہ ہے کہ قرآن و سنت ہمیں جائز اختلافات کی مختلف مثالیں بتاتے ہیں۔ یہ اختلافات جو قرآن و سنت میں ذکر کیے گئے ہیں، معصوم نبیوں اور فرشتوں کے درمیان ہوئے ہیں، جن کے افعال کس چیز کے مشروع اور مباح ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ نبیوں کے اختلافات کی ایک مثال یہ ہے جو قرآن کریم میں داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان علیہما السلام کے بارے میں بیان کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَدَاوُودَ وَسُلَیمَانَ إِذْ یحْكُمَانِ فِی الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِیهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِینَ [الأنبیاء: 78]

(اور داؤد اور سلیمان (کا حال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصلہ کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چر گئی (اور اسے روند گئی) تھیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود تھے)

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَیمَانَ وَكُلًّا آتَینَا حُكْمًا وَعِلْمًا [الأنبیاء: 79]

(تو ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا۔ اور ہم نے دونوں کو حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا تھا۔)

یہاں دونوں نبی ایک ہی معاملے میں الگ الگ فیصلے پر پہنچے۔ اسی طرح ایک اور اختلاف کا ذکر حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دو عورتیں تھیں جن کے ساتھ ان کے بیٹے تھے، ایک بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بیٹے کو لے گیا۔ تب ایک نے دوسری سے کہا: ’’یہ تو تمھارے بیٹے کو لے گیا‘‘ دوسری نے کہا: ’’نہیں، یہ تمھارے بیٹے کو لے گیا‘‘۔ وہ دونوں داؤد کے پاس گئیں، تو انھوں نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ دیا۔ پھر وہ داؤد کے بیٹے سلیمان کے پاس گئیں، تو انھوں نے کہا: ’’ایک چھری لاؤ تاکہ میں اسے تم دونوں کے درمیان دو حصے کر دوں۔‘‘ چھوٹی عورت نے کہا: ’’نہیںایسا نہ کرو، اللہ تم پر رحم کرے، یہ میرا بیٹا ہے‘‘ ،تو سلیمان نے فیصلہ چھوٹی عورت کے حق میں دیا۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑاور ان کے بھائی ہارونؑ کے درمیان اختلاف کا ذکر بھی کیا ہے، واقعہ کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے:

وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلَاثِینَ لَیلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِینَ لَیلَةً وَقَالَ مُوسَى لِأَخِیهِ هَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ  [الأعراف: 142]۔

(اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعده کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بگاڑ کرنے والے لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا)

پھر ایسا ہوا:

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِیهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ [الأعراف: 148]۔

(موسیٰؑ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی)

پھر جب وہ لوگ بچھڑے کی پرستش میں ملوث ہوگئے اور ہارون انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینے پر مجبور ہوئے، توپھر قرآن یہ منظر پیش کرتا ہے:

وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِی مِنْ بَعْدِی أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِیهِ یجُرُّهُ إِلَیهِ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی وَكَادُوا یقْتُلُونَنِی فَلَا تُشْمِتْ بِی الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ [الأعراف: 150]

(ادھر سے موسیٰؑ غصے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا آتے ہی اس نے کہا : بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر لیتے؟‘‘ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھا ئی (ہارونؑ) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا ہارونؑ نے کہا :  اے میری ماں کے بیٹے، اِن لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر‘‘)

اسی طرح موسیٰؑ اور خضرؑ کے درمیان بھی کئی اختلافات ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے سورة کہف میں تفصیل سے بیان کیے۔ موسیٰؑ کا آدم کے ساتھ بھی اختلاف ہوا، جیسا کہ ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آدمؑ اور موسیٰؑ کے درمیان بحث ہوئی، تو موسیٰ ؑنے کہا: تم وہ آدم ؑہو جو اپنی خطا کی وجہ سے جنت سے نکلنے کا سبب بنا؟’’تو آدم ؑنے کہا: اور تم وہ موسیٰؑ ہو جسے اللہ نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام سے منتخب کیا، پھر بھی تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جو میرے لیے میری تخلیق سے پہلے ہی مقدر کردی گئی تھی۔‘‘

ایک وہ اختلاف بھی ہے جس کا ذکر درج ذیل آیت میں آیا ہے:

ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیبِ نُوحِیهِ إِلَیكَ وَمَا كُنْتَ لَدَیهِمْ إِذْ یلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَیهُمْ یكْفُلُ مَرْیمَ وَمَا كُنْتَ لَدَیهِمْ إِذْ یخْتَصِمُونَ [آل عمران: 44]

(یہ غیب کی خبریں ہیں ہم بذریعہ وحی تمھیں اطلاع دیتے ہیں اورتو ان کے پاس نہیں تھا جب اپنا قلم ڈالنے لگے تھے کہ مریم کی کون پرورش کرے اور تو ان کے پاس نہیں تھا جب کہ وہ بحث کرتے تھے)

فرشتوں کے درمیان بھی اختلاف ہوتا ہے، جس کا ایک یہ منظر قرآن دکھاتا ہے:

مَا كَانَ لِی مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَى إِذْ یخْتَصِمُونَ [ص: 69]

(مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جب کہ وه تکرار کر رہے تھے)

فرشتوں کے اختلاف کا ایک واقعہ وہ بھی ہے جب ایک آدمی نے سو قتل کیے تھے، پھر وہ توبہ واصلاح کی طلب میں دوسرے شہر کی طرف روانہ ہوا اور راستے میں اس کی موت ہوگئی۔ تو رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں کے درمیان اختلاف ہوگیا، یہاں تک کہ اللہ نے ان کے درمیان فیصلہ کرنے والے کو بھیجا۔

جہاں تک صحابہ کرام ؓ کے اختلاف کی بات ہے تو امام غزالی کے الفاظ میں : ’’ان کا اختلاف … تواتر (بے شمار روایتوں )سے معلوم ہے‘‘، اس لیے میں اس کی مثالیں اور واقعات بیان کرکے اپنی تحریر کو طول نہیں دوں گا۔

جائز اختلاف اور ممنوع اختلاف

اختلاف کا ہونا شریعت میں تسلیم شدہ ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر قسم کے اختلاف کی شریعت میں اجازت ہے نہ یہ کہ اختلاف کا دروازہ بلا قید و شرط کھلا ہوا ہے۔ یہ کیسےسوچا یا کہا جاسکتا ہے؟ جب کہ اختلاف کی مذمت اور اس کے خطرناک نتائج سے ڈراوا قرآن و سنت میں کثرت سے موجود ہے۔

اختلاف سے متعلق نصوص کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اختلاف کی ہر صورت ممنوع نہیں ہے اور نہ ہی شرع میں اس کی غیر مشروط اجازت ہے۔ کچھ اختلافات کی شریعت میں اجازت ہے اور کچھ ممنوع ہیں۔ جن اختلافات کی شریعت میں اجازت ہے ان کی بھی اپنی حدود و قیود ہیں۔

ممنوع اختلاف

اختلاف کے ممنوع ہونے کی کئی اقسام ہیں، جن میں سے تین اہم ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:

الف:بنیادی عقائد میں اختلاف

اور اس کی بھی سب سے خطرناک قسم اللہ پر ایمان یا اللہ کی وحدانیت یا اللہ کی عبادت کے فرض ہونے یا رسولوں اور یومِ آخرت پر ایمان میں اختلاف کا ہونا ہے۔یہ تو ایمان اور کفر کا اختلاف ہے۔ جن آیتوں میں اختلاف اور اختلاف کرنے والوں کی مذمت آئی ہے، ان میں سے بیشتر کا تعلق اسی قسم کے اختلاف سے ہے۔ کہیں اس کی صراحت ہے اور کہیں سیاق کلام سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ جیسے:

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِیحْكُمَ بَینَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیهِ إِلَّا الَّذِینَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَینَاتُ بَغْیا بَینَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّهُ یهْدِی مَنْ یشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ [البقرة: 213]

(دراصل لوگ ایک ہی گروه تھے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے۔ اور صرف ان ہی لوگوں نے جنھیں کتاب دی گئی تھی، اپنے پاس دلائل آچکنے کے بعد آپس کے بغض وعناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا اس لیے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیئت سے رہبری کی اور اللہ جس کو چاہے سیدھی راه کی طرف رہبری کرتا ہے)

وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ  [البقرة: 253]

( لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر)

فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِنْ بَینِهِمْ فَوَیلٌ لِلَّذِینَ كَفَرُوا مِنْ مَشْهَدِ یوْمٍ عَظِیمٍ [مریم: 37]

(پھر یہ فرقے آپس میں اختلاف کرنے لگے، پس کافروں کے لیے تباہی ہے ایک بڑے دن کی حاضری سے)

مراجع میں اختلاف

یعنی وہ چیزیں جن کی طرف اختلافات کو رفع کرنے کے لیے رجوع کرنا ممکن ہو۔ جن کے حجت اور فیصلہ ساز ہونے پر اختلاف کرنے والوں کا اتفاق ہو۔ جیسے آسمانی کتابیں، نبیوں کی سنتیں، سماج کے معروفات، وہ قواعد و ضوابط جن کی پابندی پر انسانی گروہ کا اتفاق ہو، عمومی مصالح اور بلند مقاصد جن پر اجماع ہو۔ اگر یہ مراجع موجود نہ رہیں یا خود انھی کے بارے میں اختلاف، تشکیک یا انکار اور ہٹ دھرمی ہوجائے، تو ایسی صورت میں انسانوں کا اختلاف ممانعت کے دائرے میں داخل ہو چکا ہوتا ہے اور ایسی خطرناک سطح تک پہنچ جاتا ہے کہ جس کے بعد تعلقات پارہ پارہ ہوجاتے ہیں، دھینگا مشتی کی نوبت آجاتی ہے اور اجتماعیت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے پھر اجتماعیت اپنا مشترک مشن بھی کھوبیٹھتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے کتاب کو مرجع ماننے میں اختلاف کو اس اختلاف سے جوڑ کر بیان کیا ہے جس اختلاف کی اور جس کے نقصانات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِی الْكِتَابِ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ  [البقرة: 176]

(یہ اس لیے کہ اللہ نے تو حق کے ساتھ کتاب نازل کی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑے میں بہت دور نکل گئے)

اللہ تعالی اپنے بندوں کے لیے جو کتابیں نازل کرتا ہے، ان کے اولین مقاصد میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ انھیں اختلاف میں فیصلہ کن مرجع بنایا جائے۔

وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَیكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَینَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوا فِیهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یؤْمِنُونَ [النحل: 64]

(ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ تم اُن اختلافات کی حقیقت اِن پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں یہ کتاب رہ نمائی اور رحمت بن کر اتری ہے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں)

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی اس بات کا حکم بار بار دیتا ہے کہ اختلافات کو اس کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کی طرف لوٹایا جائے۔

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیهِ مِنْ شَیءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ  [الشورى: 10]

(اور جس جس چیز میں تمھارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے)

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ [النساء: 59]

(پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمھیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔)

تفرقے میں ڈالنے والے اختلافات

ایسے اختلافات کا ذکر درج ذیل ارشاد باری میں ہے:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَینَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا  [آل عمران: 103]

(اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے)

اسی سلسلہ کلام میں آگے کہا گیا:

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَینَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ [آل عمران: 105]

(تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا، انھیں لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے)

اس قسم کے اختلافات کے بارے میں خبردار کیا گیا:

إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَكَانُوا شِیعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِی شَیءٍ [الأنعام: 159]

(بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروه گروه بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں)

وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِینَ  مِنَ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَكَانُوا شِیعًا  [الروم: 31، 32]

(اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔ ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروه گروه ہوگئے )

اختلافات کی یہ وہ قسمیں ہیں جن کے سلسلے میں ممانعت، مذمت اور وعیدیں آئی ہیں، کیوں کہ یہ نہایت خطرناک ہوتے ہیں، ان سے نمٹنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ان پر کنٹرول کرنا اور ان کے اثرات سے محفوظ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان اختلافات تک لے جانے والے سبھی دروازے بند کرنے چاہئیں۔ اختلاف کی یہ تینوں ممنوع قسمیں اکثر تو ایک دوسرے کا لازمی نتیجہ ہوتی ہیں اور ایک ساتھ مل کر کارستانی کرتی ہیں۔ لیکن کبھی یہ علیحدہ بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی ایک یا دو ہی موجود ہوں۔ اہم بات یہ ہے کہ شرعی ممانعت ان میں سے ہر ایک قسم پر ہے، چاہے وہ اکیلی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر دوسری یا تیسری قسم کا بھی اضافہ ہو جائے تو ممانعت مزید سخت ہو جاتی ہے۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات عموماً تیسری قسم کے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ پہلی اور دوسری قسم والے اختلاف میں پڑنے والا تو اسلام کی دائرے ہی سے باہر نکل جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی قسم کے فرعی اختلافات بھی موجود ہیں، یعنی کلامی فرقوں کے اختلافات، جو بسا اوقات ممنوع اختلافات کے دائرے میں چلے جاتے ہیں۔ تاہم، مختلف فرقوں کے درمیان عقائد کی بنیادوں پر اتفاق اور فیصلہ کن مراجع پر اتفاق کی موجودگی ان اختلافات کو بہت بڑا ہونے سے روکتی رہی ہے اور بعض اوقات ان کا خاتمہ بھی کرتی رہی ہے۔ مگر ہمارے اس دور نے ایک خطرناک اختلاف کو جنم دیا ہے جو دوسری قسم میں آتا ہے، یعنی مراجع کے بارے میں اختلافات۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو مسلمانوں کے درمیان ابھرا ہے۔ یہ رجحان قرآن و سنت اور ان سے نکلنے والی قدروں اور قوانین کی مرجعیت کو تسلیم نہیں کرتا اور ان کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھتا۔ اس رجحان کو اس کی تمام صورتوں اور شکلوں کے ساتھ ہم سیکولر رجحان کا ایک نام دے سکتے ہیں۔ اس نے امت میں سنگین قسم کے اختلافات کو جنم دیا ہے۔ اس کے جڑ پکڑنے اور تناور ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ مغربی نظام کے مدار پر گردش کرتا ہے، اسی سے غذا اور قوت حاصل کرتا ہے۔ چوں کہ اس وقت دنیا پر یہی نظام غالب ہے اور دور تک اس کی عمل داری ہے، اس لیے جو رجحان یا دھارا اس سے نسبت اور تعلق قائم کرلے، اسے کچھ نہ کچھ پروموشن اور پوزیشن مل ہی جاتی ہے۔ مشیر طارق بشری نے اس رجحان کی خطرناکی کو بہت اچھی طرح بیان کیا ہے اور اس کے اثرات کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کی کئی تحریروں میں سے ایک وہ مقالہ ہے جسے IIIT نامی معروف ادارے نے کتابچے کی صورت میں شائع کیا۔ ا س کا عنوان ہے (دو مسائل اور ان کا مطالعہ)۔

بشری نے اس حوالے سے کہا: ’’ہم اپنی فکری، ثقافتی زندگی اور تہذیبی نظریات میں ایک خطرناک حد تک بڑھی ہوئی دراڑ سے دوچار ہیں، جو ہمارے لیے سخت تکلیف کا باعث ہے۔ یہ دراڑ صرف معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کرتی بلکہ یہ فرد واحد کو بھی دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دیتی ہے۔ سیاسی تقسیم نے جس طرح ہمیں مختلف خطوں میں بانٹ دیا تھا، اسی طرح یہ دراڑ ہمارے وجدان کو ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے۔ اس نے ایک امت کو دو امتیں بنا ڈالاہے۔ مسلم قوم کئی قوموں کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ ان کے درمیان کوئی مشترک نفسی اور معنوی ہیئت باقی نہیں رہی۔ ضمیر ( یعنی ہم) کئی ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔

ہمارے درمیان قانونیت کے دو نظام اور دو بنیادیں قائم ہوگئی ہیں۔ دو مرجعیتیں وجود میں آگئی ہیں۔ ایک کا سرچشمہ اسلامی تصور ہے تو دوسرے کا ماخذ مغرب کے فلسفے اور نظریات ہیں۔

مرجعیت اور قانونیت کی بنیادوں کے حوالے سے اس دورخے پن کے کرب میں ہمارا معاشرہ مبتلا ہے۔ معاشرے کے ان دونوں دھڑوں میں جتنی زیادہ کشمکش ہورہی ہے، معاشرے کے قوی اسی قدر ضعیف ہوتے جارہے ہیں۔‘‘

اختلاف مشروع

اس سے پہلےیہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلام لوگوں کے درمیان اختلاف کے وجود کو تسلیم کرتا ہے اور بہت سے اختلافات کو جائز بھی قرار دیتا ہے۔ اسی لیے اس نے ہمیں کچھ ایسے واقعات بھی سنائے ہیں جو اس حوالے سے نمونہ بن سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یتَفَكَّرُونَ [الأعراف: 176]

( تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں)

نمونے کے یہ قرآنی واقعات اور ان پر مزید صحابہ کے درمیان ہونے والے اور تواتر سے منتقل ہونے والے اختلافات سب مل کر اختلافات کے جواز اور ان کے مشروع ہونے کے لیے بنیاد بن گئے ہیں۔

اس بات کو مزید تقویت اس سے ملتی ہے کہ اللہ تعالی نے رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں تاکہ لوگ ایک کلمہ سواء ( صحیح بات) پر جمع ہوجائیں اور ان کے باہمی اختلافات کے سلسلے میں ان کے سامنے فیصلہ کن بات رکھ دی جائے۔ یہ مقصد ضرور ہے۔ تاہم اللہ کا مقصود یہ نہیں ہے کہ اس طرح انسانوں کے درمیان پائے جانے والے تمام تر اختلافات کو فیصل کرکے ختم کردیا جائے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ یقُصُّ عَلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ أَكْثَرَ الَّذِی هُمْ فِیهِ یخْتَلِفُونَ [النمل: 76]

(یہ واقعہ ہے کہ یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثر اُن باتوں کی حقیقت بتاتا ہے جن میں وہ اختلاف رکھتے ہیں)

مزید فرمایا:

وَلَمَّا جَاءَ عِیسَى بِالْبَینَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَینَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِی تَخْتَلِفُونَ فِیهِ [الزخرف: 63]

(اور جب عیسیٰؑ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض اُن باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو)

معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں تاکہ ایسے بعض اختلافات کا قلع قمع کیا جائے جن میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے اور تاکہ ان کتابوں کے مشمولات وہ مراجع بن جائیں جن سے بہت سے اختلافات کے سلسلے میں رجوع کیا جائے اور ان کی روشنی میں ان کا حل نکالا جا سکے۔ اس دائرے میں لوگ اختلاف کر تے رہیں گے، پھر متفق ہوجائیں گے یا متفق نہیں ہوں گے۔ اگر ان آداب و ضوابط کا خیال رکھا جائے گا جو اختلاف کا بندوبست کرتے ہیں تو اختلافات کی شدت میں کمی آجائے گی۔

خلاصہ یہ ہے کہ اختلافات کو یک سر ختم کردینا اور مٹادینا شریعت کے مقاصد میں نہیں ہے۔ ہاں بعض خطرناک اختلافات کو ختم کردینا اور مرجعیت کا ایک دائرہ قائم کرنا ضرور مقصود ہے جوتمام طرح کے اختلافات کو کم کرنے، انھیں سلیقہ عطا کرنے اور ان کے ممکنہ نقصانات سے بچانے میں مددگار ہو۔ بس یہی مشروع اختلافات ہیں۔ یعنی وہ اختلافات جو مرجعیت کے ایک جامع دائرے کے اندر رہتے ہیں:

وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیلِهِ  [الأنعام: 153]

(نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندہ کر دیں گے)

ان اختلافات کے درمیان میں ان آداب وضوابط کی پابندی ضروری ہوگی جو شریعت نے وضع کیے ہیں، جیسے اسلامی اخوت کی حفاظت کرنا۔ مودّت و محبت، باہمی تعاون اور ایک دوسرے کو تقویت پہنچانا، آپس میں رابطہ اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ سب کچھ اسلامی اخوت کے تقاضے ہیں، جن کی نگہ بانی سب پر لازم ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ تمام امور جو شریعت کے ضابطہ احکام وآداب میں درج ہیں۔ اس وقت اختلاف مفید بھی ہوگا اور تعمیری بھی۔ یہاں تک کہ اگر اختلاف کے کچھ نقصانات بھی ظاہر ہوئے تو بھی اس کا فائدہ اس کے نقصان سے بڑھ کر ہی ہوگا۔

بہرحال، جہاں تک تحریک کے اندرونی اختلافات سے بچا جاسکے ان سے بچنا بہتر ہے اور سلامت روی سے قریب تر ہے۔ اتحاد ویک جہتی کی جتنی زیادہ سے زیادہ صورتوں کا حصول ممکن ہو ان کا حصول شرعاً مطلوب ہے۔ کیوں کہ بہترین صورت یہی ہے کہ جو بھی اختلافات پیدا ہوں وہ وحدت و مودّت اور تعاون و اخوت کی فصیلوں کے اندر ہی رہیں۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223