علامہ یوسف قرضاویؒ (وفات:26 ستمبر 2022) اس دور کے عظیم ترین فقیہ اور مفکر تھے۔ اسلامی تحریک بھی ان کی توجہ کا خاص محور تھی۔ علامہ قرضاوی نے کئی کتابیں تحریک اسلامی کے حوالے سے لکھی ہیں۔ درج ذیل اقتباسات ان کی کتاب ‘تحریک اسلامی کی ترجیحات’سے ماخوذ ہیں۔ (ادارہ)
ہماری اپروچ علمی ہو
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام تر تعلقات تمام فیصلوں اور زندگی کے تمام تر مسائل میں علمی سوچ اور علمی روح غالب آجائے تاکہ ہم جب بھی مختلف اشیا، شخصیات، اعمال، مسائل اور مراحل کا جائزہ لیں تو وہ ایک علمی جائزہ ہو۔ ہم اپنے تمام اقتصادی، سیاسی، تعلیمی اور دوسرے امور سے متعلق فیصلے، حکمت عملیاں، علمی سوچ اور علمی پیمانوں کے مطابق کریں۔ ذاتی جذبات و احساسات، ہلڑ بازی، بے جا تاویلات یا تحکمانہ انداز سے اجتناب کریں۔ بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات یہ رویے ہماری محفلوں میں بھی در آتے ہیں اور پھر بڑی حد تک ہماری سرگرمیوں پر چھا جاتے ہیں۔ ہمارے فیصلہ کرنے والے اداروں میں سے اگر کوئی شخص اپنی ذاتی خواہشوں یا اپنے گروہ اور جماعت کی خواہشوں کے غلبے سے بچا بھی ہوتا ہے تب بھی وہ وہی فیصلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو عوام کی عام خواہشوں کے مطابق ہو۔ حالاں کہ اسے تو صرف وہی رائے اپنانی چاہیے جو عوام کے مفادات کی ضامن ہو ان کے وطن اصغر، ملک اکبر اور پھر وسیع تر دنیا میں ان کے مستقبل کو محفوظ رکھ سکتی ہو۔
اجتہادی روح پیدا کریں
مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اسلامی تحریک اگرچہ اپنے مصادر، اپنی منزل اور اپنے اصول ومبادی کے لحاظ سے تو پورے عالم میں اور ہر زمانے میں یکساں ہے مگر طریق کار وسائل اور اجتہادی فیصلوں میں ہر زمانے اور ہر خطے کے لیے وہی چیز اختیار کی جائے گی جو خدمت دین اور غلبہ دین کے لیے وہاں زیادہ مناسب و موزوں شمار ہوگی۔
دعوت و تحریک کے طریقہ کار، وسائل اور نظام خود اسلامی تعلیمات کی طرح ابدی نہیں ہوتے، انھیں اسلام کے بنیادی اصولوں اور مبادی جیسا ثبات حاصل نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ طریق کار اور عملی پالیسیاں تو ان بشری اجتہادات اور کوششوں کا ثمر ہیں جو احیائے اسلامی اور غلبہ اسلام کے لیے ہر دور میں کی جاتی رہی ہیں۔
غیر علمی رویہ
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عوام کا نظریاتی اور فکری لحاظ سے منتشر ہونا ہے، لوگوں کے ذہن میں اسلام کے متعلق بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات و اعمال کے درجات و مراتب سے واقفیت بڑی ناقص ہے۔ لوگ نہیں جانتے کہ زیادہ اہم کام کیا ہے کم اہم کیا ہے اور غیر اہم کیا ہے۔ بہت سے لوگ عصر حاضر اور حالات حاضرہ کے تقاضے سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں۔ دوسروں کو صحیح طور پر سمجھنا اور ان کے متعلق صحیح معلومات رکھنا تو ناپید ہی ہو چکا ہے۔ ہم کسی کو تو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور کسی کو بالکل ہی حقیر گردان بیٹھتے ہیں۔ ہمارے دشمن تو ہمیں خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ ابھی اپنے آپ کو ہی اچھی طرح نہیں سمجھ سکے۔ ہم اپنی قوت کے پہلوؤں سے بھی ناواقف ہیں اور اپنی کم زوریوں سے بھی۔ اپنی صلاحیتوں کا علم بھی نہیں رکھتے اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا بھی۔کبھی ہم حقیر سی اشیا کو بھی عظیم سمجھنے لگتے ہیں اور کبھی کوہ گراں کو بھی رائی قرار دے بیٹھتے ہیں۔ یہ لاعلمی اور بے خبری صرف مسلم عوام الناس تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ کم زوری اس طبقہ قائدین میں بھی در آئی ہے جس سے نصرت اسلام کی توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں اور جو مطلوبہ اسلامی جد و جہد میں بنیادی حیثیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔
عوامی دباؤ میں فیصلے نہ کریں
ایک غلطی جس کا ارتکاب تحریک اسلامی سے بھی ہوسکتا ہے، یہ ہے کہ ایسے اہم فیصلے جو تحریک کے لیے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتے ہوں صرف رائے عامہ کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کر ڈالے جائیں۔ بعض ممالک میں یہ بھی ہوا ہے کہ بعض قائدین تحریک صرف اسٹریٹ پاور اور عوامی رجحان کے پیش نظر ہی ایسے ایسے سیاسی معرکوں میں پوری قوت و توانائی کے ساتھ کو دے جن کے لیے ابھی تحریک کی فکری، سیاسی اور فنی صلاحیتیں مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچی تھیں۔ اس طرح وہ اپنی استطاعت سے زیادہ بوجھ اٹھانے کے درپے ہوئے اور یقینی ناکامی سے دوچار ہو گئے۔ عام طور پر اس طرح کے اقدامات یا تو عجلت کی وجہ سے اٹھالیے جاتے ہیں یا نتائج کے متعلق غلط اندازوں کی وجہ سے اور یا پھر اپنی صلاحیتوں، اپنی قوتوں کے متعلق مبالغہ آمیزیوں اور مخالفین کی صلاحیتوں کو بے حد حقیر سمجھ لینے کی وجہ سے”۔
سازشیت کی قید سے باہر نکلیں
یہ بات بھی انتہائی خطرناک ہے کہ جو مسئلہ یا جو بات بھی ہمارے جی کو نہ بھاتی ہو ہم اس کے متعلق یہ گمان کرنے لگ جائیں کہ اس کے پیچھے تو کوئی خفیہ ہاتھ ہے۔ غیر ملکی جہنمی قوتیں ہیں جنھوں نے بڑی چالا کی اور عیاری سے پلاننگ اور منصوبہ بندی کرتے ہوئے اندھیروں میں چھپ کر یہ سازش تیار کی تھی جسے ہم جانتے بوجھتے ہوئے نافذ کر بیٹھے۔
ان خیالات میں سے کچھ نہ کچھ صحیح بھی ہو سکتے ہیں لیکن اگر ہم اسی سوچ کو عام کردیں گے تو یہ بات بڑی خطرناک ہوگی۔ اپنے وطن کے تمام سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، ثقافتی یا تربیتی واقعات و حوادث کی ہمیشہ یہ تاویل کرتے رہنے سے کہ یہ بیرونی سازشوں کا نتیجہ ہے، دو منفی نتائج بر آمد ہوں گے۔ ایک تو مجبوری و بے چارگی کا احساس عام ہو جائے گا کہ شاید ہم تو ان بھیانک سازشوں کے سامنے لاچار و بے بس ہیں، ہمارے پاس تو ان کے مقابلے کی کوئی سبیل ہی نہیں ہے، کیوں کہ ان کی پشت پر تو بڑے مادی اور فکری وسائل ہیں، ہم جیسے کم زور و عاجز ان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں اور ہم تو صرف شطرنج کے مہرے بن کر رہ گئے ہیں، اس طرح کا احساس قاتلانہ نا امیدی اور نفسیاتی ہزیمت و شکست کے علاوہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کا احساس ہمیں کبھی خود تنقیدی اور خود احتسابی کا خوگر نہیں بننے دے گا، ہم اپنے عیوب اور اپنی خامیاں تلاش کرنے کے لیے اپنی بیماریوں کی جڑ تک پہنچنے اور ان کا علاج کرنے کے لیے اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے اور اسباب ذلت و نکبت جاننے کے لیے کبھی کوئی جدوجہد، کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کر سکیں گے، کیوں کہ پھر ہماری ہر غلطی، ہر فساد، ہر خرابی، ہر کاہلی کا سبب تو وہی ماکرانہ غیر ملکی سازشیں ہی قرار پائیں گی، ہمارا تو اس معاملے میں کوئی قصور ہی نہیں ظاہر ہوگا، حالاں کہ قرآن تو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں اگر کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کسی شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو اس کے اصل سبب اور اصل ذمہ دار ہم خود ہی ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : و ما اصابكم من مصیبته فبما كسبت ایدیكم و یعفو عن كثیر (تم لوگوں پر جو مصیبت بھی آئی ہے تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگز کر جا تا ہے۔ الشوری-۳۰)
عمارتوں سے زیادہ انسانوں کی تعمیر پر خرچ کریں
مخلص داعیانِ اسلام اور ماہرینِ دین کا اس بات پر اجماع ہے کہ انسان کی تعمیر مساجد کی تعمیر سے بھی زیادہ اہم ہے اور خاص طور پر ایسے انسانوں اور ایسے افراد کی تعمیر کہ جن کے ہاتھوں تہذیب انسانی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، جن کی مدد و نصرت سے پیغام رسالت و نبوت کام یاب ہوتا ہے، جن کی کوششوں اور جن کے اخلاص عمل سے معاشرے کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، جن کے ذریعے مسجدیں بارونق ہوتی ہیں اور جن کے وجود سے اسلامی تحریکیں پروان چڑھتی ہیں۔ دعوت اسلامی کے ایسے مراکز قائم کرنا کہ جن کے ذریعے مسلمانوں کی تربیت ہو انھیں فہم دین حاصل ہو، جن کے ذریعے نوجوانوں میں صحیح اسلامی افکار پھیلائے جاتے ہوں اور ان کے عقائد درست کرنے کے لیے جد و جہد کی جاتی ہو، ان کی تعمیرِ اخلاق ہوتی ہو اور ان کے دلوں میں دین اسلام پر فخر، اس سے محبت اور اس کے لیے غیرت کے جذبات پیدا کیے جاتے ہوں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے مختلف تربیتی کیمپ لگانا، لیکچروں اور تقاریر و دروس کا اہتمام کرنا یہ سب کام بھی اللہ تعالی کی قربت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں، ان سے بھی خدمت اسلام کا فریضہ ادا ہوتا ہے۔ اس لیے ان سرگرمیوں میں انفاق فی سبیل اللہ کرنا بھی اولین دینی ضرورت اور عظیم ترین نیکی ہے۔
سب تک پہنچیں
تحریک اسلامی کے لیے انتہائی ناگزیر ہے کہ وہ اپنے دعوتی نور کی شعاعیں معاشرے کے ہر طبقے اور ہر گروہ تک پہنچائے۔ اسلامی بیداری کی لہر کو افرادی قوت کی اس قدر غذا فراہم کرے کہ معاشرے کے ہر کونے تک اس کی دعوت اور اس کی آواز پہنچ جائے ہر جگہ اس کے تحریکی سپاہی، تحریکی کارکن اور ان کے ساتھ ان کے حامیوں، مددگاروں اور دوستوں کی ایک معتد بہ تعداد پائی جاتی ہو۔ یہ صورت حال تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب باقاعدہ منصوبہ بندی اور منظم طریقے سے عصر حاضر کے جدید وسائل، سائنسی سہولتیں، جدید نشریاتی صحافتی ٹکنالوجی استعمال کرتے ہوئے مشرق و مغرب کے وہ تمام طریق کار استعمال میں لائے جائیں گے جن سے دعوتی کام کو تقویت اور منزل مقصود تک پہنچنے میں مدد ملتی ہو اس لیے کہ کلمہ حق تو بندہ مومن کی متاع گم گشتہ ہے۔ یہ متاع جہاں سے بھی ملے وہی اس کا سب سے زیادہ حق دار ہو تا ہے۔
عوام کے خیرخواہ بنیں
عوام اور جمہور کی قوت کے اعتراف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ساتھ ملانے کی خاطر انھیں تلخ حقائق سے بے خبر رکھ کر صرف خواہشوں کے نشے میں مبتلا کردیں۔ تحریکی داعیوں اور دانش وروں کا فرض ہے کہ وہ امت کے سامنے اس کے امراض کھول کھول کر بیان کریں۔ عوام سے ان کی بیماریاں اس طرح پوشیدہ نہ رکھیں جیسے ہمارے معاشرے کے بعض لوگ خطرناک امراض کے شکار افراد سے ان کی بیماریوں کو چھپا کر رکھتے ہیں بلکہ ہمیں چاہیے کہ عوام کو صحیح حقائق سے باخبر رکھیں اگر چہ وہ حقائق تلخ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ نہیں کہ ہم انھیں رنگ و بو کے سپنوں میں ہی مدہوش رکھیں اور وہ اپنے امراض کے علاج کی کوئی فکر بھی نہ کر سکیں۔
نعرہ نہیں لائحہ عمل دیں
عوامی مسائل کے اسلامی حل اور اسلامی شعار (motto)عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے ایک بات جس پر اسلامی تحریکوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جب تحریکی کارکنان یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ‘‘اسلام ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ اسلام کے بغیر اصلاح احوال کا کوئی تصور ممکن نہیں اور ‘‘اسلام ہی ہمارے معاشی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے سمندر میں سفینہ نجات ہے ’’ تو عام لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ صرف یہ نعرہ لگادینے سے، نعرہ پیش کرنے والوں کی انتخابی حمایت کرنے اور ان حمایت یافتہ افراد کے اکثریتی انتخابی نشستیں جیت جانے سے، کسی جادوئی چھڑی یا آسان معجزے کے ذریعے ان کے تمام مسائل پلک جھپکتے حل ہو جائیں گے۔ اس لیے تحریک اسلامی کے داعیوں اور دانش وروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ شروع ہی میں تمام لوگوں کو مکمل وضاحت اور صراحت سے بتادیں کہ اسلام لوگوں کی مشکلات لوگوں ہی کے ذریعے حل کرتا ہے۔ اللہ تعالی آسمان سے کوئی فرشتے نہیں نازل فرماتا کہ جاؤ ان لوگوں کی جگہ تم جاکر زمینوں میں ہل چلاؤ، ڈھور ڈنگر پالو، مچھلیوں کی افزایش کرو، صنعتوں کو ترقی دو، تجارت کو بڑھاؤ، بڑی بڑی عمارتیں اور بلڈنگیں تعمیر کردو یا جاکر فلاں امت کے افراد کو نفع بخش کاموں میں استعمال کرو، ان کی توانائیاں ضائع ہونے سے بچاؤ، بلکہ یہ سب ضروریات زندگی لوگوں کو خود ہی پوری کرنی ہوں گی۔ صالح انسانیت کا سامان زندگی اور نیک معاشرے کی ساری احتیاجات خود اس معاشرے کے افراد ہی کے ذریعے مہیا ہوں گی۔
خواتین کی قیادت خواتین کریں
میری رائے کے مطابق خواتین میں دعوت اسلامی تب ہی کام یاب و کامران ہو گی جب ان میں اسلامی نسوانی قیادت وجود میں آئے گی جو دعوت، نظریات، تربیت اور علم و ادب کے میدانوں میں خواتین کی قیادت کر سکتی ہو اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کام کوئی ناممکن یا بہت ہی زیادہ دشوار بھی نہیں ہے، کیوں کہ خواتین میں بھی مردوں ہی کی طرح انتہائی ذہین و دانا بہنیں ہوتی ہیں۔ غیر معمولی ذہانت صرف مرد حضرات ہی کا حصہ نہیں ہے۔ قرآن کریم نے ہمارے سامنے اس خاتون کا ذکر یوں ہی بے فائدہ تو نہیں کیا جس نے پوری حکمت و شجاعت سے اپنی قوم کی قیادت کرتے ہوئے انھیں انتہائی شاندار انجام تک پہنچایا تھا۔ میری مراد ملکہ سبا سے ہے جس کا ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے میں ملتا ہے۔ یہ میرا مشاہدہ ہے کہ طالبات طلبہ سے آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبات کے پاس مردوں سے زیادہ وقت ہوتا ہے طلبہ کی مصروفیات بھی کچھ زیادہ ہوتی ہیں اور پھر وہ اپنی گاڑیوں پر بیٹھ کر ادھر ادھر گھومنے اور سیر سپاٹے پر بھی نکل جاتے ہیں۔
خواتین کو الگ تھلگ نہ کریں
یہاں میں پوری صراحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں میں خواتین و حضرات کے مابین روابط کے بارے میں بعض انتہائی متشددانہ آرا در آئی ہیں جو اس مسئلے کے متعلق پائی جانے والی فقہی آرا میں سب سے زیادہ سخت اقوال پر مبنی ہیں۔ میں نے یہ بات کئی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں نوٹ کی ہے۔ یہاں تک کہ اب یورپ اور امریکا کے اسلامی حلقوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ ۷۰ء کی دہائی کے وسط میں مجھے کئی برس تک اسلامک اسٹوڈنٹس یونین کی کانفرنسوں کے سلسلے میں امریکا اور کینیڈا جانے کا موقع ملتا رہا ان کانفرنسوں میں تحریکی بھائیوں کے ساتھ ہی ساتھ تحریکی بہنیں بھی شریک ہوتی تھیں۔ وہ ساری تقاریر اور عام اجتماعات میں شریک رہتی تھیں۔ مختلف مسائل پر ہونے والے سوالات و جوابات سنتیں، اسلام کی روشنی میں مختلف فکری، علمی، معاشرتی، تربیتی، سیاسی مسائل پر تبصرے سنتیں اور پھر خواتین کے خصوصی مسائل کے متعلق ایک خصوصی نشست کا بھی اہتمام کرتیں جو صرف خواتین ہی کے لیے ہوتی۔ لیکن جب ۸۰ کے عشرے میں امریکا و یورپ کی مختلف اسلامی کانفرنسوں میں شریک ہوا تو مردوں اور خواتین کے پروگرام مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ ہو چکے تھے۔ ہمارے بھائیوں کے لیے جو بہت سی تقاریر، اجتماعات اور بحث و مباحثہ ہوتا تھا ہماری بہنیں اس سے مکمل طور پر محروم ہو چکی تھیں۔ مجھ سے کئی بہنوں نے شکایت بھرے لہجے میں کہا کہ اب تو ہمارے سارے کے سارے پروگرام صرف ‘خواتین کے مسائل’ ان کے ‘حقوق’ ان کی ‘ذمے داریوں’ اور ‘اسلام میں ان کے مقام’ کے موضوعات تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ مسائل و موضوعات اتنی بار دہرائے جاچکے ہیں کہ اب ان پروگراموں میں شرکت سزا سی محسوس ہونے لگتی ہے۔
خواتین کو ترقی کا پورا موقع دیں
خواتین میں دینی کام کے راستے کی اصل رکاوٹ یہ ہے کہ خواتین کی قیادت بھی مرد حضرات نے ہی سنبھال رکھی ہے وہی ان کی رہ نمائی کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ باگ ڈور انھی کے ہاتھ میں رہے۔ وہ کبھی بھی کلیوں کو کھِل کر پھول بننے کی اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی خواتین کی رہ نمائی کرنے کے لیے کوئی اسلامی نسوانی قیادت ابھر نے دیتے ہیں، یہاں تک کہ خواتین کے اجتماعات کا انتظام و کارروائی بھی یہی مرد حضرات سنبھالے ہوتے ہیں، خواتین کی فطری حیا سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انھیں دم سادھ لینے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کہیں وہ خود ہی اپنا نظام نہ سنبھالنے لگ جائیں، ان کی قائدانہ صلاحیتیں نہ پروان چڑھنے لگ جائیں، تجربہ و عملی جد و جہد ان کی صلاحیتوں کو مزید جلا نہ بخش دے اور یہ قیادت مدرسہ حیات کی تربیت سے سر خرو ہو کر اپنے طور پر ہی اپنی سرگرمیاں نہ شروع کردے۔
اس سلسلے میں مسلم بہنیں بھی بالکل بری الذمہ نہیں قرار دی جاسکتیں کیوں کہ انھوں نے اس صورت حال کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں وہ اس آرام کوشی کی عادی ہو چکی ہیں کہ مرد حضرات ہی ان کے معاملات پر غور و فکر کریں اور وہ خود اس جھنجھٹ سے بچی رہیں حالاں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے دینی و دعوتی کام کی باگ ڈور خود سنبھالیں، خود اپنے لیے دعوت و عمل کے نئے میدان ڈھونڈیں اور ان مغرب زدہ خواتین کی زبانیں گنگ کر کے رکھ دیں، جن کے نعرہ ہائے باطل اس امت کے عقیدے، اس کی اقدار اور اس کی شریعت کی دشمن ہیں۔ یہ خواتین اگرچہ ایک حقیر سی اقلیت میں ہیں کہ جس کا دین و دنیا میں کوئی مقام نہیں مگر ان کی صدائیں بلند اور مؤثر ہیں۔
تحریکی شوہر رکاوٹ نہ ڈالے
مصر اور الجزائر میں بہت سی بہنوں نے ایک شکایت اور بھی کی وہ یہ کہ ایک تحریکی خاتون شادی سے پہلے بڑی متحرک، بڑی سرگرم ہوتی ہے مگر وہ جب کسی پابند شریعت تحریکی ساتھی سے شادی کرلیتی ہے تو وہ اس کے تحریکی کام پر بھی پابندی عائد کردیتا ہے، اسے گھر ہی میں محصور کر کے تحریک میں عملی حصہ لینے سے بھی منع کر دیتا ہے اور اس طرح وہ شعلہ بجھ کر رہ جا تا ہے جسے بہت ساری مسلم بیٹیوں کے سامنے راہ اسلام روشن کرنا تھا۔
اس صورت حال سے متاثر ہو کر مجھے الجزائر سے ایک تحریکی طالبہ نے خط لکھ کر پوچھا کہ کیا اس کے لیے سرے سے ہی شادی کرنے سے انکار کر دینا جائز ہے؟ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ بھی اپنی دوسری بہنوں کی طرح کسل مندی اور سست روی کا شکار ہو کر تحریکی سرگرمیوں سے محروم ہو جائے جب کہ سوشلسٹ سیکولر اور اباحیت کی پرستار خواتین اپنی مفسدانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
قیادت کامل ایمان والی ہو
تحریک اسلامی یہ بات بھی پیش نظر رکھے کہ طبقہ عوام اور متفقینِ تحریک کے لیے تو صرف نصف ایمان یا چوتھائی ایمان ہی شاید کافی ہو مگر طبقہ قائدین کے لیے ایمان صادق و کامل بے حد ضروری ہے۔ قیادت کے لیے نصف ایمان یا چوتھائی ایمان سے ہرگز کام نہیں چل سکتا۔ امام حسن البناؒ اپنے شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بارہ ہزار مومن بندے لادو میں ان کے ساتھ مل کر پہاڑوں سے ٹکر لے سکوں گا۔ سمندر کی لہروں سے جالڑوں گا اور ایک دنیا فتح کر دکھاؤں گا۔ کوئی اگر پوچھے کہ کیا اتنی مختصر تعداد اس قدر عظیم مقاصد کے حصول اور امت اسلامیہ کی تمام تر امیدوں کے بر آنے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے؟ تو میں کہوں گا کہ ہاں یقینا ہاں! اگر بارہ ہزار سچے مومن مل جائیں تو وہ ہمارے لیے بالکل کافی ہیں لیکن میں ساتھ ہی یہ بھی کہوں گا کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ بارہ ہزار کاملین ایمان نہ سہی چوبیس ہزار نصف مومن ہی سہی یا اڑتالیس ہزار چوتھائی حصے والے مومن سہی یا چھیانوے ہزار آٹھویں حصے والے مومن ہی سہی یا پھر ڈھلمل ایمان والے لاکھوں افراد مل کر قائدانہ ذمہ داریاں سنبھال سکتے ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہو گی۔
تحریک میں وسعت کے ساتھ قیادت کا معیار بلند ہوتا رہے
بہت سے ممالک میں تحریک اسلامی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں کی قیادت کی صلاحیتیں اس تحریک سے منسوب افراد کے حجم کی نسبت کم تر ہوتی ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہمیں اس تلخ حقیقت کے اعتراف میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مذکورہ صورت اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ عصر حاضر میں اسلامی بیداری کی تحریکیں خوب پھلی پھولی ہیں۔ ان کی شعاعیں مشرق و مغرب میں اجالا کر رہی ہیں اور ان کے متعلقین کی تعداد میں وسیع و عریض پیمانے پر اضافہ ہوا ہے مگر بہت سے ممالک میں اس پھیلاؤ کے مطابق مناسب قیادت نہیں ابھر سکی۔ یہ کمی نظریاتی سطح پر بھی محسوس ہوئی، تربیتی میدان میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی، تحریک اسلامی کی موجودہ قیادت کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے آئندہ مراحل کے لیے تیاری کرنی چا ہیے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ دعوت کے لیے مخلص ہونا، اس کے لیے قربانیاں دینا اور اس میدان کے پرانے کارکن ہو نا ہی وہ کافی شرائط نہیں ہیں جن کی بنیاد پر کسی شخص کو تحریک کی قیادت کے لیے چنا جا تا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ شرائط اپنا ایک وزن اور اہمیت رکھتی ہیں، اللہ کے ہاں اور لوگوں کے نزدیک ان کی خاصی وقعت ہوتی ہے مگر مطلوبہ قیادت کے لیے فکری، نفسیاتی اور عملی صلاحیتیں وافر ہونا اور ساتھ ہی ساتھ ایمان اخلاق اور کردار عالیہ سے متصف ہونا بے حد ضروری ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ قیادت (لیڈرشپ) سے میری مراد کسی تنظیمی ڈھانچے کے اوپر بیٹھا کوئی ایک شخص نہیں ہے بلکہ قیادت سے میری مراد ایک گروپ اور ایسا مجموعہ کارکنان ہے جو تحریک کے لیے پلاننگ کرے، اسے متحرک رکھے، اس کی رہ نمائی کرے اور تحریک سے متعلق تمام افراد کی صلاحیتوں کو شعلہ بار رکھتے ہوئے انھیں تحریک ہی کے لیے کھپانے کا بیڑا اٹھائے، انھیں تخریب کے بجائے تعمیر میں مصروف کرے اور انھیں خالی خولی اور جدلیہ بحثوں اور مناظروں کے بجائے عمل میں منہمک رکھے اور لہو و لعب یا بے کاری کے بجائے تن دہی اور مفید سرگرمیوں کا خوگر بنائے۔
آپس میں نشانہ بازی کے بجائے باطل کو نشانہ بنائیں
مطلوبہ اسلامی فکر نو سے ہماری درخواست ہے کہ وہ قدیم تاریخی اختلافات اور تنازعوں پر اب مٹی ڈالیں کیوں کہ ان جھگڑوں نے بے تحاشہ توانائیاں بلا فائدہ خرچ کرا ڈالی ہیں۔ کیا یہ کوئی عقل مندی ہے کہ کبھی ذات الہی پر نزاع تو کبھی صفات الہی پر تنازع۔ کیا صفات ہی ذات ہیں یا ذات و صفات علیحدہ علیحدہ ہیں؟ کیا صفات بذات خود ذات بھی نہیں اور اس کے علاوہ بھی کچھ نہیں؟ کبھی خلق قرآن کے مسئلے پر نزاع چھڑا اور ائمہ اسلام کو سخت ترین مصائب سے دوچار کر دیا گیا۔ کبھی علم کلام میں مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے سلف اور خلف کے درمیان تاویل کے جواز و عدم جواز پر معرکہ آرائیاں ہو رہی ہیں کبھی اشاعرہ، ما تریدیہ اور ان کی آرا تسلیم کرنے والوں پر طعن و تشنیع ہو رہا ہے اور کبھی عالم اسلام کی مختلف یونیورسٹیوں ازہر، زیتونہ، قرویین اور دیوبند وغیرہ میں باہم چشمک چل رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تمام مسائل، یہ تمام جھگڑے اس فکر اور اس سوچ کا حصہ نہ بنیں جسے ہم آئندہ مرحلے کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ فکرِ نو خیز اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں صہیونیت، صلیبیت مارکسزم اور مغرب و مشرق سے آئے ہوئے دوسرے تباہ کن افکار و نظریات کے مقابلے کے لیے وقف کردے۔
سلف صالحین سے نسبت کا پاس رکھیں
لفظ ‘سلفیت’ پر اس کے انصار و مددگار طبقے اور اس کے مخالفین نے یکساں ظلم ڈھایا ہے۔ اس کے حامیوں نے (یا جنھیں لوگ سلفی سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنے آپ کو سلفی گردانتے ہیں) سلفیت پر اس طرح ظلم ڈھایا کہ اسے صرف ظاہری شکل و شباہت یا علم کلام، علم فقہ اور علم تصوف کے بعض اختلافی اور جدلیہ مسائل میں محصور کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کے شب و روز ان ہی مسائل کے دفاع اور ان کے جزوی یا کلامی مخالفین کے خلاف قلمی منجنیقیں نصب کرنے اور کلامی تیراندازی میں ہی گزر جاتے ہیں۔ اس محاذ آرائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض لوگوں کے ذہن میں سلفیت کا تصور ہی یہ بیٹھ گیا ہے کہ سلفیت جنگ و جدل اور جھگڑوں کا نام ہے، تعمیر و عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سلفیت صرف جزوی اور فروعی مسائل سے ہی مطلب رکھتی ہے کلی افکار سے اس کا کوئی سروکار نہیں۔ سلفیت ہمیشہ متفق علیہ کے بجائے مختلف فیہ مسائل اور جوہر و اصل روح کے بجائے صرف شکل و صورت میں ہی الجھی رہتی ہے۔ سلفیت کے مخالفین اس پر یوں ظلم ڈھاتے ہیں کہ اس پر رجعت پسندی کی تہمت لگادیتے ہیں جو ہمیشہ ماضی کو ہی دیکھتی رہتی ہے، حاضر مستقبل سے اسے کوئی غرض نہیں۔ وہ سلفیت کو متعصّب سمجھتے ہیں جسے دوسروں کی رائے سننا ہرگز گوارا نہیں ہوتی اور نہ وہ دوسروں ہی کی رائے کو کوئی اہمیت دیتی ہے ان کے نزدیک سلفیت تجدید و احیائے دین، اجتہاد اور جمال و کمال کے خلاف ہے، ہمیشہ متشددانہ راستہ اختیار کرتی ہے، اعتدال و میانہ روی سے تو واقف ہی نہیں۔ حالاں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باتیں سلفیت اور اس کے صحیح پیرو کاروں پر بہت بڑا ظلم ہے۔ زمانہ گذشتہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم جیسے اہم بزرگوں نے سلفیت کی طرف دعوت دی اور اس کا دفاع کیا۔ یہی ہستیاں اپنے اپنے زمانے میں اسلامی تحریک کی بانی اور مجدد تھیں جنھوں نے تمام علوم اسلامیہ کی تجدید کی۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2022