اس سے قبل اِن سطور میں معاشرے کی تعمیر کے موضوع پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ یہ بات ہمارے سامنے آچکی ہے کہ کسی بھی معاشرے کے بنیادی پہلو دو ہیں۔ ایک اُس میں رائج قدریں (Values) اور دوسرے اُس کے ادارے۔ قدروں سے مراد وہ اخلاقی معیارات ہیں جو اُس معاشرے میں مقبول ہوں۔ یہ معیارات ہی متعین کرتے ہیں کہ اُس معاشرے کے نزدیک صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے یا مطلوب طرزِ عمل کون سا ہے اور غیرمطلوب کون سا؟ دوسرے لفظوں میں قدریں کسی معاشرے کی سوچ اور فکر کا عکاس ہوتی ہیں۔جب کہ معاشرے کے اِدارے اُس کے عملی رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔ جس طرح کسی فرد کی اِصلاح کے معنی یہ ہیں کہ اُس کی فکر اور عمل دونوں درست ہوں اسی طرح معاشرے کی صالح تعمیر بھی یہ چاہتی ہے کہ معاشرے کی قدریں بھی درست ہوں اور اُس کے ادارے بھی صحیح خطوط پر کام کریں۔صالح قدروں کی ترویج کا مفہوم اور اُس کے تقاضے پہلے زیرغور آچکے ہیں۔ اس وقت معاشرے کے اداروں کے سلسلے میں گفتگو پیش نظر ہے۔
معاشرے کی تعمیر کے موضوع پر گفتگو مسلمانوں کے معاشرہ کے سیاق میں بھی ہوسکتی ہے اور عام اِنسانی معاشرے کے سیاق میں بھی۔ فطری ترتیب یہی ہے کہ پہلے مسلمان معاشرے کے سلسلے میں غور کیاجائے۔
مسلمان معاشرہ کی ماہیت
مسلمانوں کاایک معاشرہ بن کر زندگی گزارنا عین اِسلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کو برادرانہ تعلقات سے تعبیر کیاہے:
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ اِذْ کُنتُمْ أَعْدَائ فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ اِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون ﴿سورہ آل عمران، آیت :۱۰۳﴾
’’سب مل کر اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اُس نے تمھارے دِلوں میں محبت ڈال دی اور تم اُس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے پھر اللہ نے تم کو اُس سے نجات دی۔ اِس طرح اللہ اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتاہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْْنَ أَخَوَیْْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون ﴿سورہ الحجرات، آیت:۱۰﴾
’’بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ امید ہے کہ تم پر رحم کیاجائے گا۔‘‘
مسلمانوں کو متحد کرنے والی شے اللہ پرایمان ہے۔ مسلمانوں کے اتحاد کاعملی ظہور اُن کی اپنے مشن سے وابستگی کی صورت میں ہوتا ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائ بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَ ئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ اِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْم ﴿سورہ توبہ، آیت:۱۷﴾
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور بُرائیوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اوراُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جِن پر اللہ رحم کرے گا۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘
اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لینے اور تفرقہ میں نہ پڑنے کی واضح ہدایت کے علاوہ خود دین کامزاج ایسا ہے جو مسلمانوں کو ایک معاشرہ بنادیتا ہے۔ ایک مشن سے وابستگی تو ایک پارٹی کے ممبروں میں بھی ہوتی ہے اور یہ وابستگی اُن کے درمیان ایک درجے میں باہمی یگانگت بھی پیدا کرسکتی ہے لیکن محض یہ قربت اور یگانگت اُن کو ایک معاشرہ نہیں بناسکتی۔ پارٹی کے ممبروں کا باہمی تعلق اصلاً قانونی قسم کا ہوتا ہے اور عموماً معاشرتی تعلق کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ اِس کے برعکس اہلِ ایمان کاباہمی تعلق محض ایک پارٹی کے مخلص و سرگرم ممبروں جیسا نہیں ہوتا بلکہ معاشرتی روابط کی شکل بھی اختیار کرتا ہے۔ مسلمانوں کو ایک معاشرہ بنانے میں دین کی جو تعلیمات کلیدی رول ادا کرتی ہیں وہ نظامِ عبادات اورخاندان سے متعلق ہیں۔
اِسلامی عبادات اجتماعی طورپر انجام دی جاتی ہیں۔ مثلاً اقامتِ صلوٰۃ کا لازمی جز نماز باجماعت کا اہتمام ہے۔ اللہ کے حضور ایک صف میں کھڑے ہونے کا یہ عمل مسلمانوں کے ایک معاشرہ بننے میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔ اِسی طرح رمضان کے روزے سارے مسلمان ایک ساتھ رکھتے ہیں اور اس سخت عبادت کی ایک ہی وقت میں انجام دہی اہلِ ایمان کے باہمی روابط کو استوار کرتی ہے۔ زکوٰۃ کا نظم مسلمان معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کے کام آنے کی تربیت دیتاہے اور حج کی عبادت مسلمانوں کو ظاہری لباس کے لحاظ سے بھی ایک کردیتی ہے۔
سلمانوں کو معاشرہ بنانے میں خاندان کا ادارہ کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ خاندان سماج کی بنیادی اِکائی ہے۔ خاندان کاآغاز نکاح سے ہوتا ہے۔ اِسلام نے نکاح کو صِرف اہلِ ایمان کی حد تک ﴿یا اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی حد تک﴾ محدود رکھ کر مسلمانوں کو ایک معاشرہ بنادیا ہے۔ اِسلامی ہدایات کے مطابق تشکیل پانے والے خاندان وُسعت اختیار کرکے مسلمان معاشرے میں ڈھل جاتے ہیں۔
وَلاَ تَنکِحُواْ الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ وَلأَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکَۃٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ وَلاَ تُنکِحُواْ الْمُشِرِکِیْنَ حَتَّی یُؤْمِنُواْ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکٍ وَلَوْ أَعْجَبَکُمْ أُوْلَ ئِکَ یَدْعُونَ اِلَی النَّارِ وَاللّہُ یَدْعُوَ اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہِ وَیُبَیِّنُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ ﴿سورہ البقرہ، آیت:۱۲۲﴾
’’اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں اور ایک مومن لونڈی مشرک خاتون سے بہتر ہے، خواہ وہ تم کو کتنی ہی اچھی لگے اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرکوں سے نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اور ایک غلام مسلمان بہتر ہے ﴿آزاد﴾ مشرک سے خواہ وہ تم کو کتنا ہی بھلا لگے۔ یہ ﴿شِرک کرنے والے﴾ لوگ تم کو آگ کی طرف بُلاتے ہیں اور اللہ اپنے اِذن سے جنت اور مغفرت کی طرف بُلاتا ہے۔ اور وہ اپنی آیات کھول کھول کر اِنسانوں کے لیے بیان کرتاہے تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔‘‘
جناب شبیر احمد عثمانی اِس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’مشرکین اور مشرکات، جِن کاذکر ہوا، اُن کے اقوال، اُن کے افعال ﴿اور خود اُن﴾ کی محبت،اُن کے ساتھ اختلاط کرنا، شرک کی نفرت اور اُس کی بُرائی کو دِل سے کم کرتا ہے اور شرک کی طرف رغبت کا باعث ہوتاہے۔ جِس کا انجام دوزخ ہے۔ اِس لیے ایسوں کے ساتھ نکاح کرنے سے اجتناب کُلّی لازم ہے۔‘‘
اِس سلسلے میں اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت سے کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ اوّل تو یہ محض اجازت ہے۔ کتابیہ عورتوں سے نکاح کی کوئی ترغیب نہیں دی گئی ہے۔ بلکہ اجازت کے الفاظ ایسے ہیں جو اہلِ ایمان کو تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کی صورت میں اپنے ایمان کی حفاظت کے سلسلے میں چوکنّے رہیں:
الْیَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ اِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَانٍ وَمَن یَکْفُرْ بِالاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ﴿سورہ مائدہ، آیت :۵﴾
’’آج تمھارے لیے ساری پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمھارا کھانا اُن کو حلال ہے۔ اور حلال ہیں تمھارے ﴿نکاح کے﴾ لیے پاک دامن مسلمان عورتیں اور پاک دامن عورتیں اُن لوگوں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ بشرطیکہ تم اُن کو اُن کے مہر اداکرو اور قیدِ نکاح میں لاؤ۔ آزاد شہوت رانی نہ کرنے لگو نہ چوری چھپے آشنائیاں کرو۔ اور جو ایمان لانے کے بعد کفر کرے تو اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آخرت میں خاسرین میں سے ہوگا۔’
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اہلِ کتاب مردوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اب چونکہ شوہر خاندان کا سربراہ ہوتاہے اِس لیے بیوی کے اہلِ کتاب میں سے ہونے کے باوجود وہ خاندان مسلمان خاندان ہی سمجھاجائے گا ﴿جہاں شوہر مسلمان ہو﴾ اور وہ خاندان مسلمان معاشرے ہی کا حصہ ہوگا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے ایمان نہ لانے کے باوجود حضرت لوط کے گھر کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کاگھر قرار دیاہے۔ اِس لیے کہ اُس گھر کے سربراہ حضرت لوط تھے۔
فَأَخْرَجْنَا مَن کَانَ فِیْہَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ oفَمَا وَجَدْنَا فِیْہَا غَیْْرَ بَیْْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ o﴿سورہ الذاریات، آیات:۳۵،۳۶﴾
’’﴿لوط کی بستی پر جب عذاب آیا﴾ تو ہم نے اُس بستی سے اُن سب لوگوں کو نکال لیا جو مومن تھے اور ہم نے اُس بستی میں سوائے ایک گھر کے مسلمانوں کاکوئی گھر نہ پایا‘‘
ظاہرہے کہ ’’یہ ایک گھر‘‘ حضرت لوط علیہ السلام ہی کاگھر تھا۔
مسلمان معاشرے کے بنیادی ادارے
مسلمان معاشرے کے بنیادی ادارے یہ ہیں: خاندان جِس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے، مسجد،تعلیم و تزکیہ کے مراکز ،نیز امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، اطعام مساکین، جمع و تقسیم زکوٰۃ اور مسلمانوں کے دفاع کے کاموں کو انجام دینے والے ادارے۔ مندرجہ بالا اداروں کو بنیادی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اُن کاتذکرہ کرتا ہے۔ مسلمان معاشرے کی تعمیر کے معنی یہ ہیں کہ یہ سارے ادارے موجود ہوں اور اپنامطلوبہ رول ادا کریں۔
مساجد
اِنسانی آبادیوں میں مساجد کی موجودگی اللہ کو پسند ہے۔ اگر مسجدوں کو ڈھانے کی کوشش کی جائے یا اُن میںاللہ کا نام لینے کی اِجازت نہ ہوتو یہ فتنے کی حالت ہے۔ مشیت الٰہی ایسی صورت میں ظالم حکمرانوں کے خاتمے کا فیصلہ کردیتی ہے۔
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَاِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ o الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ اِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ اِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ﴿سورہ حج، آیات:۳۹،۴۰﴾
’’اُن اہلِ ایمان کو جنگ کی اجازت دی جاتی ہے جن سے کافر لڑتے ہیں ﴿اور یہ اجازت﴾ اِس لیے ہے کہ اُن ﴿اہلِ ایمان﴾ پر ظلم ہوا ہے اور بے شک اللہ اُن کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جِن کو اُن کے گھروں سے ناحق نکالاگیاہے محض اِس قصور پر کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رَب اللہ ہے۔ اور اگر اللہ اِنسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو صوامع اور مدرسے اور عبادت خانے اور وہ مسجدیں جِن میں کثرت سے اللہ کاذِکر کیاجاتاہے، سب ڈھادیے جاتے۔ یقینا اللہ مدد کرے گا اُس کی جو اللہ کی مدد کرے۔ بے شک اللہ زبردست ہے اور سب پر غالب ہے۔ ‘‘
مسجد کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر مسلمان علانیہ مسجد نہ بناسکتے ہوں تو انھیں اپنے گھروں کے اندر نماز باجماعت کااہتمام کرناچاہیے۔ بنی اسرائیل کو مصر کے دورِ غلامی میں یہی ہدایت دی گئی تھی:
وَأَوْحَیْْنَا اِلَی مُوسَی وَأَخِیْہِ أَن تَبَوَّئ َا لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوتاً وَاجْعَلُواْ بُیُوتَکُمْ قِبْلَۃً وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْن ﴿سورہ یونس، آیت:۸۷﴾
’’اور ہم نے موسیٰ اور اُس کے بھائی کو وحی بھیجی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھر مقرر کرو اور اپنے گھر قِبلہ رو بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور اہلِ ایمان کو خوشخبری دے دو۔‘‘
نماز باجماعت کااہتمام بہرحال ہونا چاہیے۔ اگر شرپسندوں کی شرانگیزی کااندیشہ ہوتو نماز باجماعت میں قرأت کی آواز پست کی جاسکتی ہے:
قُلِ ادْعُواْ اللّہَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَ نَ أَیّاً مَّا تَدْعُواْ فَلَہُ الأَسْمَائ الْحُسْنَی وَلاَ تَجْہَرْ بِصَلاَتِکَ وَلاَ تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْْنَ ذَلِکَ سَبِیْل ﴿بنی اسرائیل، آیت:۱۱۰﴾
’’کہو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر۔ جِس نام سے بھی تم پکاروگے ﴿درست ہے﴾ اُسی کے لیے سارے اچھے نام ہیں۔ اور اپنی نماز میں آواز زیادہ بلند نہ کرو اور نہ بہت پست آواز سے پڑھو بلکہ دونوں کے درمیان اوسط آواز رکھو۔‘‘
مسجدیں اس لیے ہیں کہ اُن میں اللہ کا ذِکر کیاجائے:
فِیْ بُیُوتٍ أَذِنَ اللَّہُ أَن تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہُ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴿سورہ نور، آیت :۳۶﴾
’’﴿اللہ کے نور کا ظہور ہوتاہے﴾ اُن گھروں میں کہ اللہ نے حکم دیا اُن کو بلندکرنے کا اور وہاں اُس کاذِکر کرنے کا۔ وہاں ایسے لوگ ہیں جو اُس کی پاکی بیان کرتے ہیں صبح اور شام۔‘‘
مسجد کے ذِکر الٰہی کا مرکز بننے کی توقع اُسی صورت میں پوری ہوسکتی ہے۔ جب اُس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہو:
لاَ تَقُمْ فِیْہِ أَبَداً لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَن یَتَطَہَّرُواْ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْن ﴿سورہ توبہ، آیت:۱۰۸﴾
’’﴿مسجدِضرارمیں﴾ تم کبھی کھڑے نہ ہو بلکہ وہ مسجد جِس کی بنیاد اوّل روز سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اِس لائق ہے کہ تم اُس میں کھڑے ہو۔ اُس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
مسجدیںمسلمان معاشرے کا کلیدی ادارہ ہیں۔ وہ اپنا حقیقی رول اُسی وقت انجام دے سکتی ہیں جب اُن کے منتظم صالح افراد ہوں۔
انَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلاَّ اللّہَ فَعَسَی أُوْلَ ئِکَ أَن یَکُونُواْ مِنَ الْمُہْتَدِیْن ﴿سورہ توبہ، آیت :۸۱﴾
’’اللہ کی مسجدوں کو وہی شخص آباد کرتا ہے جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دِن پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہدایت یاب ہوں گے۔‘‘
تعلیم و تزکیہ کے مراکز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کے اندرجو کام انجام دیا وہ تعلیم و تزکیے کا کام تھا۔ یہ کام آپ کے بعد بھی جاری رہناچاہیے اور اُمت کے سربراہوں کی ذمّہ داری ہے کہ اُس کاانتظام کریںاور اُس کے لیے ضروری ادارے قائم کریں:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَان کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍo وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ oذَلِکَ فَضْلُ اللَّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَائ ُ وَاللَّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْم ﴿سورہ جمعہ، آیات۲-۴﴾
’’وہی ﴿اللہ﴾ ہے جِس نے اُمّیوں میں خوداُن میں سے ایک رسول بھیجا جواُن کو اُس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، اُن کاتزکیہ کرتا ہے اور اُن کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس سے پہلے وہ صریح گم راہی میں پڑے ہوئے تھے۔ اور اس رسول کی بعثت اُن کے بعد کے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی اُن سے ملے نہیں ہیں۔ اور بے شک اللہ غالب اور حکیم ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جِس کو چاہتاہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔’
تعلیم و تزکیہ کے اس دائمی فریضے کی انجام دہی کے لیے نماز جمعہ کی خصوصی اہمیت کا اِدراک ضروری ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِذَا نُودِیْ لِلصَّلَاۃِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلَی ذِکْرِ اللَّہِ وَذَرُوا الْبَیْْعَ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ اِن کُنتُمْ تَعْلَمُون ﴿سورہ جمعہ، آیت:۹﴾
’’اے ایمان والو! جب تم کو جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذِکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑدو۔ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔‘‘
آج مسلمان معاشرے میں مساجد بھی موجود ہیں اور تعلیم و تزکیہ کے مراکز بھی لیکن یہ ادارے اپنا حقیقی رول کماحقہ انجام نہیں دے رہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ان اداروں کے نگراں و منتظم ایسے افراد ہوں جو علم وتقویٰ کی صفات سے بہرہ ور ہوں اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ نمونے کے مطابق اِن اداروں کو سرگرم بنائیں۔ تبھی مسلمان معاشرے کی تعمیر ممکن ہے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر
نیکیوں ﴿معروف﴾ کاحُکم دینا اور بُرائی ﴿منکر﴾ سے روکنا مسلمانوں کاایک لازمی وصف ہے۔ مسلمان معاشرے میں کوئی نہ کوئی ادارہ ضرور ایسا ہونا چاہیے جو نیکیوں کی تلقین کرے اور بُرائیوں سے روکے:
وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ اِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَ ئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون ﴿سورہ آلِ عمران،آیت:۱۰۴﴾
’’تم میں ایک جماعت ضرورایسی ہونی چاہیے جو نیک کاموں کی طرف بُلائے، معروف کا حکم دے اور مُنکر سے روکے۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
سوال پیدا ہوتاہے کہ نیکیوں کی تلقین اور بُرائیوں سے روکنے کاکام کرنے والا یہ ادارہ کون سا ہو؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس کاانحصار حالات پر ہے۔ اگر اہلِ ایمان کو اقتدار حاصل ہو تو خود اسلامی حکومت یہ کام کرے گی ﴿یعنی نیکیوں کاحکم دے گی اور بدی سے روکے گی﴾
الَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُور﴿سورہ حج، آیت:۴۱﴾
’’﴿یہ اہل ایمان﴾ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم اُن کو زمین میں اقتدار بخشیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔’
اگر اِسلامی حکومت موجود نہ ہوتو علماء کو امربالمعروف و نہی عن المنکر کا کام انجام دینا چاہیے یاپھر مخلص افراد کی کوئی جماعت ایسی ہونی چاہیے جو اِس کام کو کرے۔ بہرحال مسلمان معاشرے میں ایسے ادارے کی موجودگی ضروری ہے۔ آج کل مسلمان اس سلسلے میں بالعموم غافل ہیں اور مسلمان معاشرے میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کی کوئی قابلِ ذکر سرگرمی نہیں پائی جاتی۔ مسلمان معاشرے کی تعمیر نو کے لیے یہ کام بہرحال ناگزیر ہے۔ تعمیر کی سعی کرنے والوں کو اِس جانب توجہ دینی چاہیے۔
اطعامِ مساکین
قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ مجرموں کے جہنم میں جانے کا ایک سبب یہ ہوگاکہ وہ مسکین کو کھانا نہیں کھِلاتے تھے۔
کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ o اِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِیْنِ oفِیْ جَنَّاتٍ یَتَسَائ لُونَ oعَنِ الْمُجْرِمِیْنَ oمَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ oقَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ oوَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْن ﴿سورہ مدثر، آیات۳۸،۴۴ ﴾
’’ہر نفس اپنی کمائی کے بدلے رہن ہے سوائے دائیں بازو والوں کے وہ جنتوں میں ہوں گے اور مجرموں سے پوچھیں گے: ‘تم کو کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟‘’ وہ جواب دیں گے :‘ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔‘‘
اِس سے اطعامِ مسکین کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسکین کو خود کھانا کھلانے کے علاوہ دوسروں کو اِس سلسلے میں ترغیب دینا بھی مطلوب ہے۔ ترغیب کی یہ مطلوبیت اجتماعی سعی کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔
أَرَأَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ oفَذَلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ oوَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ﴿سورہ ماعون، آیات ۱-۳﴾
’’کیا تم نے اُس شخص کو دیکھا جو دین کی تکذیب کرتاہے۔ وہ وہی ہے جو یتیم کو دھکّے دیتاہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔‘‘
قرآنی مزاج کا تقاضا ہے کہ مسلمان معاشرے میں مساکین کی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے اجتماعی سعی کی جائے۔ موجودہ مسلمان معاشرہ اس اہم کام سے بھی بحیثیت مجموعی غافل ہے۔ معاشرے کی تعمیر کامنصوبہ رکھنے والوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
زکوٰۃ کے مصارف کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید ’’عاملین علیہا’ کاتذکرہ کرتاہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے کام پر مامور ہوں۔ قرآن کی اِس ہدایت سے معلوم ہوتاہے کہ زکوٰۃ کے جمع و صَرف کے لیے اجتماعی نظم ہونا چاہیے۔
اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْم ﴿سورہ توبہ، آیت:۶۰﴾
’’بے شک صدقات فقرائ و مساکین کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو اس کام پر مامور ہوں اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مقصود ہو اور گردنوں کے چھڑانے کے لیے، قرض داروں کی مدد کے لیے، اللہ کے راستے میں خرچ کے لیے اور مسافر نوازی کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ مدیں ہیں۔ اور اللہ علم والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
کچھ عرصے سے مسلمان زکوٰۃ کے نظم کی طرف متوجہ ہوئے ہیں لیکن ابھی معیار مطلوب تک پہنچنے کے لیے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
مسلمانوں کا دِفاع
مسلمانوں پر کی جانے والی جو زیادتیاں ایسی ہوں جِن کا نشانہ محض ایک فرد نہ ہو بلکہ مسلمان معاشرہ ہو، اُن کے مقابلے کے لیے اجتماعی سعی ضروری ہے۔
وَالَّذِیْنَ اِذَا أَصَابَہُمُ الْبَغْیُ ہُمْ یَنتَصِرُونَo وَجَزَائ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ o وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہِ فَأُوْلَئِکَ مَا عَلَیْْہِم مِّن سَبِیْلٍ oاِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُونَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِیْ الْأَرْضِ بِغَیْْرِ الْحَقِّ أُوْلَئِکَ لَہُم عَذَابٌ أَلِیْمٌ o ﴿سورہ شوریٰ، آیات:۳۹،۴۲﴾
’’﴿یہ اہل ایمان﴾ وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کامقابلہ کرتے ہیں۔ بُرائی کا بدلہ وہی بُرائی ہے۔ پھر جو کوئی معاف کرے اور اِصلاح کرے تو اس کااجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو کوئی بدلہ لے ظلم ہونے کے بعد تو ایسے لوگوں پر کوئی اِلزام نہیں۔ اِلزام تو اُن پر ہے، جو اِنسانوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں۔ اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
دین کی عمومی تعلیمات کاتقاضا ہے کہ مسلمانوں کے دِفاع کی یہ اجتماعی سعی اخلاقی اور شرعی حدود کی پابند ہونے کے علاوہ قانونی حدود کی بھی پابند ہو۔
یہ مسلمان معاشرے کی صالح تعمیر کے لیے درکار بنیادی اداروںکا اِجمالی تذکرہ تھا۔ بنیادی اداروں کے علاوہ دیگر ادارے بھی ہیں جِن کے قیام کو مسلمانوں کے موجودہ حالات نے اور تمدنی ارتقاء نے ضروری بنادیا ہے۔ اِن میں وہ ادارے شامل ہیں جن کا تعلق تعلیم، معاشی تگ ودو، سیاست ،ذرائع اِبلاغ اور ثقافتی سرگرمیوں سے ہے۔ اِن اداروں کے سلسلے میں کسی اور موقع پر گفتگو کی جائے گی۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2011