اسوۂ ابراہیمی
قرآن مجید میں پیغمبروں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سب سے زیادہ تذکرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آیا ہے۔ مختلف پہلوؤں سے ان کی بزرگی اور عظمت، ان کی دعوت و تبلیغ اور ان کے دلائل، ان کی سعی و جہد اور ان کی قربانیوںکاذکرکیاگیاہے۔ ان کی حیاتِ طیبہ کے چار پہلوؤں کو قرآن نے بہت نمایاں کیا ہے۔
۱- حنیفیت
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک خصوصیت قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ وہ توحید خالص کے علم بردار تھے۔ ہر شائبۂ شرک سے ان کا دامن پاک تھا۔ وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جس میں ان کا باپ خود شرک کا علم بردار اور پروہت تھا اور پوری ریاست اور پورا علاقہ شرک میں مبتلا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو مختلف پہلوؤں سے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو تنہا چلانے والا ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ اگر آدمی اس کے ساتھ شرک کرتا ہے تو اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ ایک رات حضرت ابراہیم ؑ نے ایک ستارہ دیکھا۔ ستارے تو وہ ہمیشہ دیکھتے ہی تھے، لیکن غالباً وہ ایسا ستارہ تھا جس کی ان کی قوم پرستش کرتی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم ستارہ پرست تھی اور اس کے نام سے اس نے بت بھی بنا رکھے تھے۔ قرآن کہتا ہے کہ انھوں نے ستارہ دیکھا تو اپنی قوم سے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی میرا رب ہے۔ ظاہر ہے، حضرت ابراہیمؑ کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہوئے، لیکن مشرک قوم کو سمجھانے کے لیے انھوںنے کہا کہ تم جس کی پوجا کرتے ہو، شاید وہی میرا بھی رب ہے، پھر جب ستارہ ڈوب گیا تو کہا: لاَ اُحِبُّ الآفِلِیْنَ۔ ﴿میں ڈوبنے والوں سے محبت نہیں کرتا﴾ یعنی یہ خدا نہیں ہوسکتا اور میں اس کی پرستش نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ خدا تو وہ ہے جو اس کو روشنی عطا کرتا ہے اور اس کی روشنی ختم بھی کردیتا ہے ۔خدا تو وہ ہوگا جس پر کسی کاحکم نہ چلے، یہاں تو صاف معلوم ہورہا ہے کہ اس پر کسی دوسرے کا حکم چل رہا ہے، پھر وہ کیسے خدا ہوسکتا ہے؟ اور کیسے میں اپنا دل اس سے جوڑ سکتا ہوں؟ پھر اس کے بعد کسی وقت انھوں نے چاند کی طرف اشارہ کیا۔ ہوسکتا ہے وہ چودھویں رات کا چاند رہا ہو، جیسا کہ بعض مفسرین نے لکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ میرا رب ہے۔ یہ زمین کو روشن کررہا ہے، کوئی ستارہ اس کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ یہ ہے میرا رب۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو انھوں نے کہا کہ اگر میرا رب مجھے سیدھا راستہ نہ دکھائے تو میں بھٹک جاؤں گا۔ میرا رب تو کوئی اور ہے۔ میں چاند کو رب نہیں مان سکتا۔ اس لیے کہ کس شان کے ساتھ یہ طلوع ہوا، مگر کچھ دیر کے بعد غروب ہوگیا۔ پھر بعد میں کسی وقت انھوں نے اپنی قوم کو سمجھانا چاہا تو سورج کو دیکھ کر کہا کہ یہ ہے خدا۔ سورج دیوتا کی وہاں پہلے سے پرستش ہورہی تھی۔ انھوںنے کہا: یہ سب سے بڑا خدا ہے، اس کی روشنی کے سامنے ہر روشنی مدھم پڑجاتی ہے۔ مگر جب شام کو وہ بھی غروب ہوگیا تو انھوں نے کہا کہ اس پر بھی کسی کا حکم چل رہا ہے، یہ بھی کسی کے حکم کا پابند ہے۔ اگرچہ دیکھنے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساری دنیا کو روشن کررہاہے، ساری دنیا اس سے فیض اٹھارہی ہے، واقعی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور اس کے سامنے سب کی روشنی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ بھی کسی کے حکم کا پابندہے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا :
اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴿الانعام:۷۹﴾
میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جو زمین و آسمان کی خالق ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
یہ ستارے اور سیارے جن کو تم خدا سمجھ رہے ہو، ان کا بھی خالق اللہ ہی ہے۔ وہی زمین اور آسمانوں کا بھی خالق ہے، اس کی طرف میں متوجہ ہوگیا ہوں۔ اگر کوئی شخص کسی اور کو خدا مانتا اور اس کی عبادت کرتا ہے تو غلط کرتا ہے، اس لیے میرا رخ تو صرف اس کی طرف ہوگیا ہے اور خدائے واحد کی عبادت کے لیے میں بالکل یک سو ہوں۔ اس معاملے میں میرے اندر کوئی کمزوری نہ دیکھوگے کہ کبھی کسی اور کو خدا مان لوں، یا کسی اور کی محبت میرے دل میں گھر کرجائے، یا کسی دوسرے کی پرستش کرنے لگوں۔ نہیں۔ میں بالکل حنیف ہوں، یکسو ہوں، جب کہ تم سب لوگ شرک میں مبتلا ہو۔ تم نے ایک خدا کی جگہ ہزاروں خدا بنا رکھے ہیں ، اس لیے میں تم سے الگ ہورہا ہوں۔ جن کو تم پوجتے ہو ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ذرا سوچیے ، ایک ایسی قوم میں جو ستارہ پرست ہے، ستاروں ، سیاروں، چاند اور سورج کو خدا مان رہی ہے، ان کے بُت بنا رہی ہے اور ان کی پوجا کررہی ہے ، ایک شخص تن تنہا اس کے درمیان کھڑے ہوکر اعلان کر رہاہے کہ یہ ستارے، یہ چاند، یہ سورج، کیا یہ سب خدا ہوسکتے ہیں؟ ان پر تو کسی اور کی حکومت ہے! میں تمھارے خداؤں سے برائ ت کا اعلان کرتا ہوں۔ قرآن کہتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ شرک سے بے زار اور توحید کے علم بردار تھے۔ ہر جگہ انھوں نے کہا کہ دیکھو، خدا ایک ہی ہے، اسی کی عبادت ہونی چاہیے، اس کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جس کی آدمی عبادت کرے، جس کے آگے سر جھکا ئے اور جسے خدائی کا مقام عطا کرے۔
۲- سراپا اطاعت
دوسری خصوصیت حضرت ابراہیمؑ کی یہ بتائی گئی کہ وہ اللہ کے فرماں بردار تھے، وہ خدا کو صرف مان ہی نہیں رہے تھے، بلکہ اس کے آگے جھک گئے تھے اور اس کے ہر حکم کو ماننے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ قرآن ان کی یہ خصوصیت بتاتا ہے کہ وہ صرف زبانی دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ میں مشرک نہیں ہوں ، موحّد ہوں، خدا کو ایک مانتاہوں، بلکہ اس کے ہر حکم پر جھکنے والے تھے، ارشاد ہے:
اذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴿البقرۃ:۱۳۱﴾
اس کے رب نے اس سے کہا: جھک جاؤ، چنانچہ ﴿بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تردد کے﴾ اس نے کہا کہ : میں جھک گیا اللہ رب العالمین کے سامنے۔
یہ ہے دین کی روح اور اس کی جان کہ اللہ کے حکم کے سامنے آدمی اپنا سر جھکادے اور اپنی پیشانی ٹیک دے۔ اس کا رب جس کام کا حکم دے اس کے کرنے پر آمادہ ہوجائے اور جس چیز سے منع کرے اس سے باز رہے۔
اب آگے دیکھیے کہ اللہ کے حکم سے خانۂ کعبہ کی تعمیر ہورہی ہے، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ اس کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔ بہت بڑا کام انجام پا رہا ہے۔ ساری دنیا کے لیے یہ توحید کا مرکز بننے والا ہے۔ اس تصور ہی سے آدمی کا سر اونچا ہوجائے گا کہ خدا نے ہمیں کتنا بلند مقام عطا کیا ہے کہ ہم جس گھر کی تعمیر کر رہے ہیں، وہ ساری دنیا کے لیے توحید کا مرکز بن جائے گا! لیکن تعمیر کرنے والوں میں غرور اور بڑائی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ وہ یہ دعا کررہے ہیں:
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ. رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْْنِ لَکَ وَمِن ذُرِّیَّتِنَا أُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ. ﴿البقرۃ:۱۲۷،۱۲۸﴾
ہمارے رب! ہماری اس کوشش کو قبول فرمالے تو سننے اور جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا فرماں بردار بنالے اور ہماری جو اولاد آگے آئے، اس میں بھی ایک امت مسلمہ برپا کروگے۔
یہ اللہ کی فرماں برداری کیا ہے؟ یہی اسلام ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اللہ کے حکم سے بیٹے کے حلق پر چھری پھیرنے کے لیے تیار ہوگئے تو اس موقع پر قرآن میں ان کے لیے جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ یہ تھے: ’فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہ، لِلْجَبِیْنِ‘ ﴿باپ بیٹے جب جھک گئے اللہ کے حکم کے سامنے اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا﴾ باپ نے کہا : بیٹے ! مجھے اللہ کی طرف سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ اس کی راہ میں تمھیں ذبح کردوں، بیٹے نے کہا: اللہ کاحکم ہے تو اس پر عمل کیجیے، میں گھبراؤں گا نہیں، اللہ کا حکم ہے تو ٹھیک ہے، چنانچہ باپ بیٹے دونوں تیار ہوگئے۔ باپ کا چھری پھیرنے کے لیے تیار ہوجانا اور بیٹے کا پیشانی کے بل لیٹ جانا ، قرآن نے اس کو ’اَسْلَمَا‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، یعنی دونوں ہمارے حکم کے آگے جھک گئے۔ یہ ہے اسلام !
۳- دعوتی جدو جہد
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تیسری خصوصیت ان کی دعوتی تگ و دو اور جدّو جہد ہے۔ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد انھوں نے اپنے باپ کو بڑی دل سوزی، محبت اور ملائمت کے ساتھ سمجھانے اور راہ حق پر لانے کی کوشش کی۔ اپنی قوم کے سامنے بھی بار بار مختلف انداز سے دعوتِ توحید پیش کی اور شرک کی غیر معقولیت واضح کی۔ وہ عراق سے شام، فلسطین، حجاز جہاں بھی پہنچے، اسی دعوت کو لے کر پہنچے۔ قرآن نے مختلف انبیائ کی جو دعوتی سرگزشت بیان کی ہے ان میں حضرت ابراہیم ؑ کا تذکرہ بہت نمایاں ہے۔ اس میں راہِ دعوت میں کام کرنے والوں کے لیے عبرت و نصیحت کے بہت سے پہلو ہیں۔
۴- قربانی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چوتھی خصوصیت اپنے مقصد کے لیے ان کی قربانیاں ہیں۔ ان کے نام کے ساتھ قربانی کا تصور ابھرتا ہے۔ ان کی زندگی سراسر قربانی کی زندگی تھی۔ انھوں نے اللہ کے لیے قربانی دی تھی۔ قربانی یوں تو بہت سے لوگ دیتے ہیں، بعض محض اپنے فائدے کے لیے اور بعض بیوی بچوں کے فائدے کے لیے، اس کے علاوہ دیگر فائدے بھی پیش نظر ہوتے ہیں، لیکن حضرت ابراہیمؑ نے جو قربانی دی تھی وہ صرف اللہ کے لیے اور اس کے دین کے لیے تھی۔ اس کے علاوہ کوئی اور مقصد ان کے پیشِ نظر نہیں تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میں پیدا ہوئے وہ ستارہ پرست قوم تھی، وہ سورج، چاند اورستاروں سیاروں کی پرستش کرتی تھی۔ اس نے ان کے بت بنا رکھے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جس گھرانے میں پیدا ہوئے، اس میں ان کا باپ اس وقت کا پنڈت اور مہنت تھا۔ وہ چاہتے تو بڑے اطمینان کی زندگی گزار سکتے تھے ، لیکن انھوں نے باپ اور قوم کی مخالفت مول لی اور کہا کہ جن چیزوں کو تم لوگوں نے خدا بنا رکھا ہے وہ حقیقت میں خدا نہیں ہیں، خدا تو کوئی اور ہے۔ گھر کی مخالفت آسان نہیں ہے۔ قرآن مجید نے تفصیل سے بتایا ہے کہ کس بات پر ان کے باپ سے ان کی مخالفت ہوئی تھی۔ انھوں نے باپ سے کہا تھا:
یٰاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَائَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَأْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْ أَہْدِکَ صِرَاطاً سَوِیّاً۔ ﴿مریم: ۴۳﴾
ابا جان! جو علم میرے پاس آیا ہے، وہ آپ کے پاس نہیں ہے آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: تم لوگ یہ کس کی پوجا کررہے ہو؟ میرا راستہ دوسرا ہے۔ تمھارے عقیدے، تمھارے مذہب اورتمھارے طریقۂ عبادت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کہ تم شرک میں مبتلا ہو، جب کہ میں توحید کا علم بردار ہوں :
اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴿الانعام:۷۹﴾
میں سب سے کٹ کر اس ذات کی طرف متوجہ ہوگیا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس اعلان سے قوم کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ اس نے کہا: ابراہیمؑ کو یہ اعلان کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ اس کی سزا یہ ہے کہ الاؤ تیار کرو، آگ دہکاؤ اور اس میں ڈال کر اسے زندہ جلا ڈالو۔ وہ انھیں قتل بھی کرسکتے تھے، سنگ سار بھی کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے سوچا کہ اسے ایسی سزا دو کہ بعد کے لوگوں کے لیے عبرت بن جائے، چنانچہ یہی ہوا، آگ دہکائی گئی اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پھینک دیا گیا۔ لیکن اس وقت اللہ کی شان کریمی جوش میں آئی اور آگ ٹھنڈی ہوگئی:
قُلْنَا یٰنَارُ کُونِیْ بَرْداً وَّسَلَاماً عَلَی اِبْرَاہِیْمَ. وَأَرَادُوا بِہِ کَیْْداً فَجَعَلْنٰہُمُ الْأَخْسَرِیْنَ ﴿الانبیائ:۶۹،۷۰﴾
ہم نے کہا: اے آگ ! ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے۔ انھوں نے اس کے خلاف خفیہ تدبیر کی، لیکن ہم نے انہیں نیچا دکھادیا۔
دشمنوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں۔ وہ ناکام و مراد رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے بچالیا ، اس لیے کہ ان سے ابھی اور کام لینے تھے۔ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وطن سے ہجرت کا ارادہ کرلیا۔ انھوں نے کہا کہ اب میں یہاں سے جارہا ہوں۔ اللہ مجھے جہاں پہنچانا چاہے گا، پہنچائے گا۔ اس موقع پر وہ دعا کرتے ہیں:
رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴿الصّٰفت: ۱۰۰﴾ ’اے اللہ ! مجھے صالح اولاد دے۔‘
آدمی اولاد کے لیے دعا کرتا ہی ہے۔ جن کی اولاد نہیں ہوتی وہ رات دن دعائیں کرتے ہیں، لیکن حضرت ابراہیمؑ کی دعا بس یہی نہیں تھی کہ اے اللہ! مجھے اولاد دے، بلکہ انھوں نے صالح اولاد کی دعا کی۔ اس لیے کہ اگر اولاد صالح نہیں تو بے کار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا۔ فرمایا:
فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ ﴿الصّٰفت: ۱۰۱﴾ ’ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔ ‘
یہ بچہ بڑا ہوا اور دوڑ دھوپ کے قابل ہوا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس جگر گوشے کو ذبح کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کے ذہن میں یہ بات نہیںآئی کہ ارے خواب ہی تو ہے، اس کا کیا اعتبار؟ آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنی اولاد کو ذبح کرسکتا ہے ۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ نے خواب کو اشارۂ الٰہی سمجھا۔ انھوں نے بیٹے سے کہا: بیٹے ! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تم کو ذبح کرہا ہوں، تمھاری رائے کیا ہے؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جواب دیتے ہیں:
یٰاَ َبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِن شَآئ اللَّہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ﴿الصّٰفت:۱۰۲﴾
ابّا جان ! آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اسے کرگزریے۔ آپ ان شائ اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔
اب باپ بیٹے دونوں اللہ کے حکم پر جھک گئے اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بَل لٹادیا۔ اس پر اللہ نے کہا: تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ اب اس کے عوض ایک مینڈھا ذبح کردو۔ کہاجاتا ہے کہ مینڈھا جنت سے آیا تھا، یا اسی جنگل میں اچانک انھیں مل گیا تھا ۔ کچھ بھی ہو، بہر حال پہلے سے وہاں کوئی مینڈھا نہیں تھا، آزمائش پوری ہونے کے بعد ایک مینڈھا فراہم کردیا گیا اور کہا گیا کہ اسے ذبح کردو اور اسی جذبہ سے ذبح کروکہ حکم ہوگا تو بیٹے کے گلے پر چُھری پھیردوگے۔ قرآن نے کہا:
وَتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الآخِرِیْنَ ﴿الصّٰفت:۱۰۸﴾ یہ سنت ہم نے بعد میں جاری کردی۔
دنیا کی امامت
قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں دوسری جگہ کہا ہے:
وَاِذِ ابْتَلَیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہ‘ بِکَلِمٰتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً ﴿البقرۃ:۱۲۴﴾
ابراہیمؑ کو اس کے رب نے بعض باتوں میں آزمایا ﴿امتحان لیا﴾، اس پر وہ پورا اُترا تو اُس کے رب نے کہا: ہم تمھیں دنیا کے لیے امام بنارہے ہیں۔
یعنی ہم تمھیں دنیا کے لیے نمونہ بنارہے ہیں۔ دنیا دیکھے گی کہ دین کے لیے کیا کیا تکلیفیں برداشت کی جاسکتی ہیں؟ کیا کیا قربانیاں دی جاسکتی ہیں؟ گھر کی ، وطن کی، اولاد کی، بیٹے کو ذبح کرنے کی۔ اگر کوئی شخص دیکھنا چاہے تو دیکھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو۔ وہ دینی لحاظ سے امام تھے اور پھر ان کی ذرّیت میں دنیا کا اقتدار جاری کیا۔ اللہ نے ان کی اولاد میں پیغمبروں کا سلسلہ چلایا، حضرت اسحق ، حضرت یعقوب، حضرت یوسف علیہم السلام اور خدا جانے کتنے پیغمبر آئے۔ اس کے بعد حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ آئے۔ پھر آخر میں حضرت محمد ﷺ تشریف لائے۔ یہ انعام آپ کو دیا گیا کہ دنیا کے لیے آپ کو نمونہ بنادیا گیا۔
معلوم ہوا کہ دنیا میں آدمی قربانیوں سے امام بنتا ہے ، وہ شخص دنیا کا امام ، قائد اور لیڈر ہے جو دین کے لیے قربانی دے، کسی اور مقصد سے نہیں، صرف اللہ کے دین کے لیے۔ وہ دنیا کو دکھادے کہ اللہ کے دین کے لیے کس کس چیز کی قربانی دی جاسکتی ہے؟ جان بھی دی جاسکتی ہے، آگ کے دریا سے بھی گزرا جاسکتا ہے، اولاد بھی قربان کی جاسکتی ہے، وطن بھی چھوڑا جاسکتا ہے، غرض ہر چیز کی قربانی دی جاسکتی ہے، تب ہی امامت کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی امام خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ تھے۔ آپﷺ کو ساری دنیاکی امامت دی گئی اور اُن ساری آزمائشوں سے آپ کو گزارا گیا جس کا آدمی تصور کرسکتا ہے۔ ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا:
لقد اوذیت فی اللہ لم یؤذ احد.﴿جامع ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، ۲۴۷۲﴾
مجھے دین کے راستے میں اتنی تکلیفیں پہنچیں کہ کسی دوسرے کو نہیں پہنچی ہوں گی۔
اس کے بعد کہا گیا کہ آپﷺ دنیا کے قائد اور رہ نما ہیں، اُسوہ اور نمونہ ہیں۔ دنیا آپ(ص) کے ذریعہ دیکھ سکتی ہے کہ اللہ کے دین پر کس طرح عمل ہوتا ہے اور اس کے لیے کس طرح قربانیاں دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں امتِ مسلمہ کھڑی ہوئی۔ اس نے بھی وہ تمام قربانیاں دیں جن کی ضرورت دین کو پیش آئی ، جان کی، مال کی، وطن کی، اور دیگر قربانیاں۔ اس کے بعد اس سے کہا گیا کہ تم دنیا کے امام ہو:
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ﴿آل عمران: ۱۱۰﴾
تم بہترین امت ہو ، تمھیں لوگوں کی رہ نمائی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
جب تک یہ امت اللہ کے دین کے لیے قربانیاں دیتی رہی وہ دنیا میں غالب رہی، لیکن جب سے اس نے دین کے لیے قربانی دینا چھوڑ دیا وہ ذلت اور پستی میں مبتلا ہوگئی۔ اللہ نے کہا کہ اب یہ امت امامت کی اہل نہیں ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ! تو مجھے امام بنا رہا ہے ، میری اولاد کو بھی امام بنا۔ اس وقت بھی اللہ نے فرمایا تھا:
لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظّٰلِمِیْنَ ﴿البقرۃ: ۱۲۴﴾ ’میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ہے۔‘
اس امت کو قیادت کا مقام دیا گیا تھا اور اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا:
انتم شہدائ اللہ فی الٲرض ﴿صحیح بخاری، کتاب الجنائز ، ۱۳۶۷؛ صحیح مسلم ، کتاب الجنائز، ۲۲۰۰﴾
’تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔ ‘
یعنی جسے تم کہوگے کہ یہ راہِ راست پر چل رہا ہے، یقیناً وہ راہِ راست پر چل رہا ہے اور جسے تم کہوگے کہ وہ غلط راستے پر چل رہا ہے تو یقیناً وہ غلط راستے پر ہے۔ تم جس کے بارے میں جو فیصلہ کروگے وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوگا۔
جب اُمت نے قربانی دینی ختم کردی تو وہ امامت و قیادت سے محروم ہوگئی ۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ آدمی ہر کام کے لیے قربانی دے سکتا ہے، قومیں قربانی دے رہی ہیں، جماعتیں قربانی دے رہی ہیں، لیکن اللہ کے دین کے لیے قربانی دینے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ ایسے افراد کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس رہی ہیں جو اللہ کے دین کے لیے قربانی دیں۔ وقت کی، صلاحیت کی، مال کی، توانائی کی، جو اللہ کے دین کے غلبہ و سربلندی کے لیے اپنی صلاحتیں لگادیں۔ اللہ نے تو وعدہ کیا ہے کہ آزمائشوں اور قربانیوں کے بعد وہ افراد اور اقوام کو امامت کے مقام پر پہنچاتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں اور کون ہے جو نہیں چاہتاکہ آپ کو پھر دنیا میں امامت کامقام حاصل ہو، آپ آگے ہوں اور دنیا آپ کے پیچھے چلے، آپ رہ نما ہوں اور دنیاآپ سے رہ نمائی حاصل کرے، تو ضروری ہے کہ آپ نمونہ پیش کریں قربانی کا، اللہ کے دین کے لیے جینے اور مرنے کا۔ یہی سبق نبی
ö کو بھی دیا گیا تھا۔ آپﷺ سے کہا گیا تھا:
قُلْ اِنَّنِیْ ہَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْناً قِیَماً مِّلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴿الانعام: ۱۶۱﴾
اے پیغمبر ﷺ، آپ یہ اعلان کردیجیے کہ میرے رب نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ سیدھا دین ، وہ دین جسے ابراہیم نے اختیار کیا تھا، اس ابراہیم نے جو ساری دنیا سے کٹ کر اللہ کے لیے یکسو ہوگیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا۔
آپﷺ سے کہا گیا تھا کہ اعلان کردیں :
قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ﴿الانعام: ۱۶۲،۱۶۳﴾
کہو میری نماز، میری قربانی، میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اس کے آگے سرجھکارہا ہوں۔
جو شخص حقیقی معنٰی میں قائد اور رہ نما ہو اُسے چاہیے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کی عبادت واطاعت کی بات کرتے ہوتو دیکھو میں سب سے پہلے اس کے سامنے سر جھکاتاہوں اور اس کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہوں۔ ہر پیغمبر یہی کہہ کر دنیاکے سامنے آتا ہے:
وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ﴿الانعام:۱۶۳﴾
میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے اپنا سر جھکانے والا ہوں۔
اللہ کی رحمت، اس کی عنایت اوراس کے وعدے ہمارے منتظر ہیں، لیکن اس نے یہ شرط لگادی ہے کہ ہم کو امامت و قیادت اس وقت حاصل ہوگی جب ہم اس کے دین کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2010