آج پوری دنیا مسائل کا شکار ہے لیکن خاص طور پر ہمارا ملک ہندوستان زبردست انتشار اور افتراق کی زد میں ہے۔ یہاں عداوت ہے، اضطراب اور بے چینی ہے، شکست وریخت اور توڑ پھوڑ ہے۔ یہاں بُعد اور افتراق پیدا کرنے والے عناصر تو اپنا کام کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسے متحد رکھنے اور مختلف طبقات کو باہم جوڑنے والی کوئی مضبوط اساس سامنے نہیں آرہی ہے۔ بس ایک قومیت کا جذبہ ہے جس سے یہاں کے سوچنے سمجھنے والے افراد توقعات وابستہ کرتے ہیں لیکن وہ کم زور بنیاد ہے۔
جو لوگ اسلام پر ایمان ویقین رکھتے ہیں اور اسے ایک انقلابی فکر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ان کے نزدیک اسلام اس ملک کے اتحاد اور اس کی ترقی کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ اس کے اندر مختلف طبقات اورگروہوں کو ایک وحدت بنانے کی صلاحیت ہے۔ مسلمانوں کے موجودہ اختلافات اور ان کاانتشار فکر وعمل اس بات کی دلیل نہیںہےکہ اسلام تازگی کھوچکا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے انتشار کے اسباب اسلام کے اندر نہیں باہر ہیں۔ اسلام سے دوری نے مسلمانوں کو یہ روز بددیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ ماضی میں اسلام مختلف گروہوں اور برسرپیکار طبقات کو جوڑنے کااور ان میں اتحاد پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دے چکاہے ۔ آج کی دنیا میں اسلام سے اس کی توقع بے جا نہ ہوگی۔
ملک کی توجہ طلب فضا
اسلام کو اس ملک میں ایک متبادل فکر کی حیثیت سے پیش کرنے والوں کو ملک کے سماجی و سیاسی حالات کو سامنے رکھنا ہوگا ان کی روشنی میں وہ اپنی راہ عمل متعین کرسکتے ہیں یہ ملک اس وقت بڑے پیچیدہ حالات اور گوناگوں مسائل میں گھراہوا ہے۔ ان میں سے اکثر مسائل وقتی نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ ملک ان پیچیدہ حالات سے نکلنے کی کامیاب سعی نہیں کرسکا ہے۔ ملکی راہنماؤں کی بے تدبیریوں کے نتیجہ میں مسائل کی فہرست میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ ان حالات میں تبدیلی کے لئے ہمہ جہت طویل جدوجہد کرنی ہوگی ہر شعبہ حیات میں اسلام کی ہدایات سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی اور ان کی حقانیت کوثابت کرنا ہوگا۔ یہ کام بڑا صبر آزما ہے اور بڑی دیدہ وری بھی چاہتاہے۔ اسلام کے داعیوں اور خدمت گاروں کو دعوت حق کی نئی راہیں تلاش کرنی ہوں گی۔
ذیل میں ملکی حالات کا جائزہ لیاگیا ہے۔ بآسانی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اس بڑے ملک کے مسائل بھی بڑے ہیں۔ اُن کےحل میں دشواریاں حائل ہیں ۔ ان حالات میں اہل حق کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ہندوستان ایک وسیع وعریض ملک ہے، شمال سے جنوب کے آخری سرے تک اس کی وسعت تین ہزار کلو میٹر ہے۔ مشرق سے مغرب تک اس کی چوڑائی بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ اس میں متعدد ریاستیں اور مرکز کے تحت علاقے ہیں جن میں متعدد زبانوں کے بولنے والے رہتے ہیں۔ ملک کی آبادی سوا ارب تک پہنچ چکی ہے۔
مذہبی تنوّع
ملک کا کوئی ایک مذہب نہیں ہے یہاں ہندومت، اسلام، عیسائیت، سکھ مت، بدھ مت جیسے بڑے بڑے مذاہب کے پیرو موجود ہیں۔ یہودیت اور زرتشت کے ماننے والے بھی تھوڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں وہ لوگ بھی ہیں جو کسی مذہب کے قائل نہیں جنہیں آپ ملحد یا دہریے بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو خود کو انسان دوست کہلانا پسند کرتے ہیں۔
ملک کی اَسّی فیصد سے زائد آبادی ہندومت کی ماننے والی ہے، گرچہ یہ گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جن کے درمیان عقیدے اور فکر کا بنیادی اختلاف موجود ہے۔ رسماً اس مت کے دائرہ میں پس ماندہ طبقات اور قبائل ، آدی باسی اور اسی نوعیت کے دیگر قبائل بھی شامل ہیں۔ ان کی آبادی کل آبادی کا تقریباً بیس فیصد ہے ان سب کے رسوم ورواج اور طریقہ ہائے حیات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن یہ سب قانوناً ہندوہی سمجھے جاتے ہیں اس کے بعد یہاں کا بڑا مذہب اسلام ہے، جس کے ماننے والے والوں کی تعداد چودہ فی صد بتائی جاتی ہے۔ یہاں کے بڑے مذاہب کے درمیان، عقیدے، عبادات اور معاشرت واقدار کے بنیادی اختلافات موجود ہیں ایک نظام عقائد کو صحیح مانا جائے تو دوسرے کو غلط کہنا ہوگا اِن سب کو ایک دوسرے میں ضم نہیں کیاجاسکتا۔
ہندوستان کوایک مذہبی ملک کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات اس پہلو سے درست ہے کہ یہاں فی الجملہ مذہب اور روحانیت کا تصور عام ہے ۔ مذہب ایک فطری جذبہ ہے جسے دبانے کی کوشش کے باوجود وہ بار بار اُبھرتا رہتا ہے لیکن ایک بڑا سوال جس سے ملک دوچار ہے یہ ہے کہ مذہب اور روحانیت کا معاملات حیات اور دنیا کے نظام سے کیا تعلق ہے؟ دنیا کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ یہ خیال عام ہے کہ مذہب نے تو ترک دنیا کی تعلیم دی ہے اور دنیا سے بے تعلقی کا رجحان پیدا کیا ہے۔ اسی ترک دنیا کوعموماً مذہب کی معراج سمجھاجاتا ہے اس لئے مذہبی جذبے کے باوجود مذہب سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔ عملی زندگی میں اس کی ضرورت اور افادیت کو ملک ماننے کے لئے آمادہ نہیںہے۔
اسی طرح ملک میں اخلاق اور اخلاقی اقدار کی اہمیت کا احساس پایاجاتا ہے اس کی تعلیم وتلقین بھی ہوتی رہتی ہے لیکن اسی کے ساتھ عملاًاخلاقی قدریں بری طرح پامال ہورہی ہیں اور کسی جانب سے اس سوال کاجواب نہیں مل رہاہے۔ کہ انسان کو اخلاق کااور اخلاقی قدروں کاکیسے پابند بنایا جائے اور بے راہ روی سے کیسے بچایا جائے؟
لسانی تنوع
ہندوستان میں ہندی کو رابطے کی زبان (Link language) کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن بیشتر ریاستوں کی الگ الگ سرکاری زبانیں ہیں۔ ان میں سے ہر زبان کے بولنے والوں کی تعداد لاکھوں اور کروڑوں میں ہے۔ دستور ہند نے اٹھارہ زبانوں کو باقاعدہ تسلیم کیاہے۔ ان میں بعض زبانوں کے بولنے والے علمی سرمایے ، لسانی خصوصیات اور بولنے والوں کی کثرت تعداد کی بناپر اپنی زبان کو لائق اور برتر سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو ہندی سے شکایت ہے کہ وہ علاقائی زبانوں کی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے اور ہندی کے غلبے کی وجہ سے ان کی اہمیت کم ہورہی ہے بعض ریاستیں انگریزوں کے دور سے لے کر اب تک انگریزی ہی کو انتظامی امور میں استعمال کرتی چلی آرہی ہیں ۔ انہوں نے ہندی کو رابطہ کی زبان کی حیثیت سے بادلِ ناخواستہ ہی تسلیم کیاہے۔ ہندی مخالف جذبات کے نتیجے میں لسانی ہنگامے اور پرتشدد مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح کے جذبات کے بطن سے ایک وقت میں انڈین یونین سے علاحدگی کامطالبہ بھی کیاجاچکا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دستور کی تسلیم شدہ تمام زبانوں کو رابطہ کے لئے استعمال کیاجانا چاہئے۔ پھر تجربے کے بعد جس زبان کو قبولیت عام کا درجہ مل جائے، اسے رابطے کی مشترک زبان مان لینا چاہئے ،بڑی اور نمایاں زبانوں کے علاوہ ملک میں بہت سی بولیاں ہیں جو خاص خاص علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ اِن علاقوں کے لوگ بالعموم کوئی دوسری زبان نہیں جانتے۔ اب یہ بولیاں بھی اپنے جداگانہ تشخص کی حفاظت کا حق مانگ رہی ہیں۔ اس طرح کی چھوٹی بڑی بولیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔
ملک میں خاصا جغرافیائی تنوع پایاجاتاہے۔ ہر خطے کی آب وہوا اور موسم مختلف ہے۔ اس کی وجہ سے رنگ روپ، کھانے پینے،پہننے، اوڑھنے میں ہی نہیں، عادات اور افتادِ طبع میں بھی کافی اختلاف ہے۔ ہر خطے میں پیدائش، موت، شادی بیاہ خوشی اور غمی کی رسومات پر اُس خطے کی چھاپ نظر آتی ہے۔ پورے ملک میں تہوار بھی بہت سے ہیں۔ کوئی عنصر اپنی تہذیب ومعاشرت اور امتیازی خصوصیات سے دست بردار ہونے کے لئے تیارنہیں ہے۔
انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزادی دلانے کے لئے یہاں کے مختلف طبقات نے کوشش کی اور زبردست قربانیاں دیں۔ بالآخر ملک آزاد ہوگیا اور اقتدار اہل ملک کے ہاتھ میں آیا۔ آزادی کا جذبہ اتحاد کا وقتی محرک تھا۔ آزادی وطن کے بعد یہ محرک ختم ہوگیا۔ اب ملک کے عناصر کو جوڑنے والااس طرح کا کوئی قوی محرک نہیںہے۔ اس لئے وہ اختلافات جو پہلے وقتی طور پر دب گئے تھے، اب سراٹھانے لگے ہیں۔
حل طلب سوالات
آزادی وطن کے بعد یہاں کے رہ نماؤں کے سامنے کئی اہم سوالات تھے ایک بنیادی سوال غریبی کا ہے۔ ہندوستان دنیا کے غریب ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہاں اگر دولت ہے بھی تو اس کی تقسیم غیر عادلانہ ہے۔ ایک طرف چند دولت مند خاندان ہیں جو داد عیش دے رہے ہیں۔ اور دوسری طرف عام طبقہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہیں کرپارہا ہے۔ اسے پیٹ بھرنے کے لئے روٹی اور تن ڈھکنے کے لئے معمولی کپڑا میسر نہیںہے۔ اس تفاوت کو کیسے ختم کیا جائے۔ سب کے لئے معاش کے یکساں مواقع اور سہولتیں کیسے فراہم ہوں؟ اس مقصد کے لئے ملک کے ذمہ داروں نے سوشلزم کا نعرہ دیا جو ہندوستان کی طرح تمام غریب ملکوں کی منزل سمجھی جاتی تھی اور جسے غربت وافلاس کا واحد علاج اور نسخہ کیمیا سمجھاجارہاتھا۔ لیکن طویل تجربے کی ناکامی اورسوشلزم کے امام سوویت روس کی شکست وریخت نے ہمارے ملک کے نعروں کو بدل دیا۔ اب ہندوستان امریکہ اور دوسرے سرمایہ دار ممالک کی طرف للچائی نظروں سے دیکھتا اور انہیں اپنے لئے نمونہ سمجھتاہے۔ جس طرح اس سے پہلے وہ اشتراکی ملکوں کو سمجھتا تھا۔
جنگ آزادی کے رہ نماؤں اور ملک کے قائدین کے سامنے دوسرا اہم سوال بھی تھا۔ یہاں کے مختلف طبقات اور گروہوں کو جن میں عقیدہ وفکر، دین ومذہب، تہذیب ومعاشرت اور زبانوں کا اختلاف اور تنوع موجود ہے ایک ہندوستانی قوم کیسے بنایا جائے؟ اس کا حل سیکولرزم میں تلاش کیاگیا ۔ قومیت اور سیکولرزم کے فلسفے مغرب سے برآمد کئے گئے اور ان کی بنیاد پر ملک کا آئین تشکیل پایا۔
یوروپ میں سیکولرزم کا تصور مذہب سے کشمکش اور اس سے بغاوت کے نتیجے میں اُبھرا تھا۔ وہاں مذہب کو گویا زندگی سے بے دخل ہی کردیاگیا تھا۔ یہاں تک کہ انفرادی اور شخصی زندگی سے بھی مذہب کی قدریں، روحانیت ، پاکیزگی اور اخلاقی اصول رفتہ رفتہ خارج ہوتے گئے۔ ہندوستان جیسے مذہبی ملک کے لئے یہ رجحان قابل قبول نہیں ہوسکتا تھا اس لئے تاویل یہ کی گئی کہ ہندوستان کا سیکولرزم، مذہب کامخالف نہیں بلکہ مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہے۔ سیکولرزم کامطلب یہ ہے کہ خود ریاست کاکوئی مذہب نہ ہوگا البتہ وہ تمام مذاہب کے ساتھ مساوی رویہ اختیار کرے گی۔ ریاست کے نزدیک کسی مذہب کو دوسرے پر ترجیح حاصل نہ ہوگی۔
جمہوریت کا تصور یہ ہے کہ ملک پر کسی فرد، خاندان یا کسی طبقے اور گروہ کی حکومت نہ ہوگی۔ بلکہ تمام شہروں کو آزادی اورترقی اور حکومت میں شرکت کے یکساں مواقع حاصل رہیں گے۔ باشندگان ملک پر ان کے نمائندوں کی حکومت ہوگی اور توقع کی جائے گی کہ وہ ان کے مفاد کے لئے کام کریں گے۔ ملک کے باشندگان کواپنے نمائندے منتخب کرنے کا ہرچند سال بعد موقع ملتا رہےگا۔
ان بنیادوں پر ملک کا دستور وضع کیاگیا اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ہر طرح کے نقائص سے پاک ہے، انسان کے فکر وعمل میں خامیوں کاپایاجانا بالکل فطری ہے۔ چنانچہ نقائص کے امکان کا ثبوت یہ ہے کہ دستور میں اب تک چھوٹی بڑی بہت سی تبدیلیاں ہوچکی ہیں آئندہ بھی تبدیلیوں کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا۔
دستور ہند کی خصوصیات
اسلام کے نقطہ نظر سے اصولی اعتراض مغربی فلسفوں پر یہ ہے کہ ان میں اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کردیاگیا ہےکہ انسان پر انسان کی حکمرانی غلط اور ناجائز ہے۔ کسی فرد کو چاہے وہ کتنی ہی بڑی صلاحیت کا مالک کیوں نہ ہو اور اسی طرح کسی چھوٹے بڑے گروہ کو بھی ،انسانوں پر حکومت کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ حق صرف خدائے تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔ اللہ انسانوں کاخالق، مالک، پروردگار، معبود اور فرماں روا ئے مطلق ہے، وہی انسانوں کو قانون دینے والا ہے۔ اسی کا قانون ہر نقص اور عیب سے پاک ہے ۔ دستور ہند کی موجودہ شکل سے بعض لوگوں کو اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود باشندگان ملک نے اور ان کے طبقات کے نمائندوں نے اس دستور کو ملک کے موجودہ حالات میں ایک سمجھوتے کی حیثیت سے قبول کرلیا۔ دستور ہند کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہر ایک کے نزدیک قابل قدر ہیں اور ان میں سبھی کے جذبات اور اُمنگوں کی رعایت پائی جاتی ہے۔
دستور ہرشہری کی جان مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے اس معاملے میں وہ شہریوں کے درمیان فرق نہیں کرتا اور کسی کے ساتھ کسی امتیاز کو روا نہیں رکھتا۔
دستور نے مذہب کی آزادی تسلیم کی ہے۔ اس آزادی کا دائرہ گو بہت محدود ہے۔ تاہم اس کے تحت ہر شخص اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرسکتاہے، پیدائش ، موت اور خوشی وغمی کے مواقع پر مذہبی مراسم انجام دے سکتاہے۔ ہر مذہبی گروہ کو اس بات کی آزادی دی گئی ہے کہ اس کا پرسنل لا محفوظ رہے گا اور اس کی مذہبی روایات میں کوئی مداخلت نہ ہوگی مختلف قبائل اور پہاڑی آبادیوں کو بھی جن کا پرسنل لا مدون نہیںہے۔ اور جو محض روایات کی پابند ہیں اس حق سے محروم نہیں کیاگیا۔
مذہبی آزادی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہب کی تعلیم وتلقین نشرواشاعت مذہبی اداروں کے قیام اور مذہب کی دعوت وتبلیغ کا حق ہے مزید یہ کہ یہاں تبدیلی مذہب کے حق کو بھی تسلیم کیاگیاہے۔ ملک کا جو شہری جس مذہب کو قبول کرناچاہے، قبول کرسکتا ہے اس پر ازروئے دستور کوئی پابندی نہیں ہے ہاں اگرتبدیلی کے پیچھے جبرواکراہ ، خوف ولالچ مکروفریب جیسی چیزیں کار فرما ہوں تو قانون ایسی تبدیلی کی اجازت نہ دے گا۔
دستور ہند فکر وعمل کی، اظہار خیال کی، انجمن سازی اور جماعت بنانے کی آزادی تسلیم کرتا ہے۔ یہاں ہر شہری کو اس کا حق ہے کہ وہ ملک کی فلاح وبہبود کے لئے جس بات کو صحیح سمجھے اس کی طرف دعوت دے اور اس کے لئے منظم جدوجہد کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دستوری اسپرٹ کے مطابق موجودہ اجتماعی اور سیاسی نظام کو بالکل آخری اور حتمی نہیں سمجھا گیاہے، اس کا بدل تلاش کیا جاسکتاہے اور اسے ملک کے سامنے پیش کرنے میں بھی کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اگر اہل ملک موجود ہ فلسفوں کے بجائے کسی اور نظام فکر وعمل کو قبول کرلیں تو وہ حکمراں نظریات کی جگہ لے سکتا ہے۔ ملک کے بعض طبقات کو بجاطور پر یہ شکایت رہی ہے کہ دستور کے بعض حقوق عملاً انہیں حاصل نہیں ہیں اور ان کی راہ میں کئی طرح کی رکاوٹیں ہیں۔ لیکن بہرحال یہ رکاوٹیں عملی نوعیت کی ہیں۔ اُن کے پیچھے خاص قسم کے تعصبات جذبات اور نفسیاتی عوامل کام کرتے ہیں۔ اصولاً اس معاملے میں دستور کا قصور نہیں بلکہ ان افراد یا جماعتوں کا قصور ہے جو اپنے ذاتی مصالح کے لئے دستور کو پوری طرح عمل میں آنے نہیں دیتے۔
افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں ایسی طاقتیں پہلے بھی رہی ہیں اور آج تو اُن کو حکمرانی کا مقام مل گیاہے، جودستورہند اور اس کے جمہوری مزاج سے ذہنی ہم آہنگی نہیں رکھتیں۔ وہ ملک کی جمہوری فضا کو خوش دلی سے گوارا نہیں کررہی ہیں وہ یہاں کے مذہبی، معاشرتی، تہذیبی اور لسانی تنوع کو بہ جبر مٹا کر ملک کو ایک خاص تہذیب کے رنگ میں زبردستی رنگناچاہتی ہیں۔ اگر وہ اپنے نظریات اور اصول تہذیب کی خوبیاں واضح کریں اور اُن کی برتری دلائل سے ثابت کریں اور انہیں اختیار کرنے کی پُر امن دعوت دیں تو ظاہر ہے یہ غلط نہ ہوگا۔ اس کا حق ہر فکر کے حاملین کو از روئے عقل اور از روئے دستور حاصل ہے۔ دِقّت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جبر کااستعمال کرتی نظر آتی ہیں اور دستور کے جمہوری ڈھانچے ہی کو بدل دینے کا عزم وارادہ رکھتی ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ ملک میں تبدیلی یہاں کے باشندوں کی آزاد مرضی سے آئے۔ جبرکارویہ ملک کے اتحاد اور امن وامان کو ختم کردے گا اور پورا ملک انتشار اور بدامنی کے خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔
اسلام کا پیغام
جماعت اسلامی ہند اسلام کو اس ملک کے لئے بلکہ پوری نوع انسانی کے لئے فلاح اور نجات کا نظام سمجھتی ہے وہ خدا کی نازل کردہ ہدایت اور اس کے دیئے ہوئے قانون کو صحیح اور برحق تسلیم کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام مادیت اور روحانیت کا بہترین امتزاج رکھتاہے اور عدل وانصاف کی محکم بنیادیں فراہم کرتا ہے اسلام سے اس ملک کی اُمنگوں کی تکمیل ہوسکتی ہے اور وہ اتحاد واتفاق کی دولت سے ہم کنار ہوسکتاہے، صحیح سمت میں اس کی ترقی ہوسکتی ہے اور آگے بڑھنے کی راہیں کھل سکتی ہیں ۔ اسلام کی دعوت کے حق میں جماعت کے پاس دلائل ہیں لیکن اس کی آواز ابھی مدھم ہے۔ ملک کے تمام طبقات تک یہ ابھی نہیں پہنچ پائی ہے۔ اگر پہنچی بھی ہے تو اکثر اسے صحیح پس منظر میں دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اسلام کی راہ میں صدیوں کے تعصبات اور نفرت کی دیواریں بھی حائل ہیں۔ جمہوریت کی فضا اس بات کے مواقع فراہم کرتی ہے کہ اسلام کو صحیح شکل میں ملک کے سامنے پیش کیاجائے۔ اس کے بارے میں جو شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں انہیں حکمت کے ساتھ دور کیا جائے۔ اس کی تعلیمات کی معقولیت واضح کی جائے ، زندگی کے دوسرے نظاموں کے مقابلے میں اسلام کے نظام حیات کی برتری ثابت کی جائے تاکہ باشندگان ملک اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرسکیں۔ اگر وہ اپنے درد کا مداوا اور ملک کی فلاح وبہبود کا سامان اسلام میں دیکھیں تو اسے اختیار کرنے میں کوئی شئے حائل نہیں۔ اس عظیم مقصد کے لئے جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ ملک میں جمہوری فضا بحال رہے اور غیر جمہوری ، آمرانہ اور فسطائی رجحانات اس کی جگہ نہ لینے پائیں۔
مشمولہ: شمارہ جون 2015