اسلام: انسانی مسائل کا حل

انسان نے جب بھی من مانے طریقوں سے زندگی گزاری ہے، زندگی کے سارے معاملات بگڑے ہیں اور ہر سطح پر فساد پیدا ہوا ہے۔ مفاد پرستی، خود غرضی، جھوٹ، دھوکے بازی اور ایسی ہی بہت سی دوسری اخلاقی خرابیاں پیداہوئی ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ خاندانی نظام سے حکومت کے ایوان تک ہر جگہ ہر سطح پر انتشار اور افراتفری کی کیفیت پیدا ہوئی۔ انسان، انسانوں کا غلام بنا۔ جنگل کا راج چلنے لگا اور زندگی اجیرن ہوگئی۔ ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے تاکہ اللہ کی رہنمائی میں وہ انسانوں کو انسان کی بندگی سے نکال کر خدا کا بندہ اور اس کا فرماں بردار بنائیں اور اسی بنیاد پر وہ پوری زندگی کے سارے معاملات کو درست کریں۔

آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے عرب میں ایسی ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آخری رسول حضرت محمدﷺ  کو بھیجا۔ آپﷺ  نے ۲۳سال کے عرصے میں اللہ کی رہنمائی میں سارا فساد دُور کردیا اور لوگوں کو جنگل راج سے نکالا۔ پورے عرب میں امن وامان کا ماحول پیدا ہوگیا۔ مگر افسوس کہ آج پھر پوری دنیا میں فساد پھیل گیا ہے۔ سائنس نے خوب ترقی کرلی۔ انسانی زندگی کے آرام وآسائش کے لیے بہت ساری چیزیں اور مشینیں ایجاد ہوگئیں لیکن انسان پریشان ہے ۔ اس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔

صورتِ حال یہ ہے کہ ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں کچھ اور مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو دنیا کے سارے انسانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں امیر، غریب ، تعلیم یافتہ اور اَن پڑھ کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس وقت یہاں چند مسائل پر گفتگو کروں گا ۔

ماحولیاتی آلودگی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نئے ہزارے میں انسانیت کے لیے اہم خطرات میں ماحولیاتی آلودگی کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ ۶۱/فروری ۲۰۰۵؁ء کو ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کا بین الاقوامی معاہدہ ’’کیوٹوپروٹوکول‘‘ نافذ کیاگیا، جس کے تحت صنعتی ممالک کو ۲۰۱۲؁ء تک فضا کو گرم کررہی ’’گرین ہاؤس گیسوں‘‘ کااخراج ۲ء۵فیصد کم کرنا ہوگا مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملک امریکہ نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ۔

ہوس کے پجاری اور موت کے سوداگروں کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں میں بڑی اور چھوٹی تباہی والے ہتھیار، گولہ بارود، حیاتیاتی ہتھیار، ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، نیپام بم، کلسٹر بموں کے لاکھوں ٹن مادے فضا کی آلودگی بڑھا کر ماحولیاتی توازن میں خلل، انتشار اور فساد پیدا کررہے ہیں۔ اب یہ زمین جانی انجانی بیماریوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ انسان تنفس، جگر، پھیپھڑے، ناک، کان، آنکھ ، آنت اور ہڈیوں کی بے شمار بیماریوں میں مبتلا ہورہاہے۔

ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ روز بہ روزسنگین نوعیت اختیار کرتا جارہاہے۔ دنیا کے چھ ارب انسان اورگیارہ لاکھ حیوانات اور نباتات اس کائنات میں کار فرما، مختلف عوامل بادل، بارش، گرمی، سردی، ہوا سے خطرناک حد تک متاثر ہورہے ہیں۔

کرۂ زمین کے چاروں طرف اللہ تعالیٰ نے ایک ہوائی حفاظتی پرت ’’اوزون گیس‘‘ کی بنائی ہے جس کی وجہ سے سورج اور خلا کی نقصان دہ شعاعیں اور گرمی زمین کی فضا میں داخل نہیں ہوسکتیں مگر پچھلے کچھ سالوں میں دنیا بھر میں پٹرول، گیس، کوئلے کے بے دریغ استعمال سے جو گیسیں خارج ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں اس کے علاوہ ایرکنڈیشن تکنیک اور فریج کی تکنیک کے استعمال سے جو کلوروفلوروکاربن خارج ہورہاہے، اس نے اوزون گیس کی اس حفاظتی پرت کو پتلا کردیا ہے۔ اور انٹارکٹکا کے اوپر اس پرت میں سوراخ ہوگیا ہے جس کی لمبائی پہلے تو امریکہ کے برابر اور گہرائی ایورسٹ کے برابر تھی مگر بعد میں یہ سوراخ امریکہ کے کل رقبے کا تین گنا ہوگیا۔ اب اس سوراخ میں سے سورج کی نقصان دہ شعاعیں زمین پر آرہی ہیں اور یہ عرصے سے اکٹھا ہورہی گرمی دھیرے دھیرے پوری دنیا کا درجہ حرارت بڑھا کر ہی ہے جو معمول کے درجۂ حرارت سے زیادہ ہے۔ اس بڑھتی گرمی کو عالمی حدت Warming)  (Global کہا جارہاہے۔ ایک طرف تو خطرناک گیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے، دوسری طرف ان گیسوں کے مضر اثرات کو جذب کرنے والے جنگلوں کا رقبہ خطرناک حد تک کم ہورہاہے۔ایک تحقیق کے مطابق ۰۷۰۲ئ تک قطب شمالی پوری طرح برف سے محروم ہوجائے گا۔ اسی طرح قطب جنوبی پر انٹار کٹکا کے برفانی گلیشیر کے پگھلنے سے پانی کی سطح بلند ہوگئی ہے۔ اس عمل کے جاری رہنے سے سمندر کے ساحلوں سے لگے ہوئے بڑے بڑے علاقے زیر آب آجائیں گے۔ ایک سائنسی اندازے کے مطابق ۲۰۵۰؁ء تک کلکتہ اور ڈھاکہ ﴿بنگلہ دیش﴾ کا بڑا حصہ زیر آب ہوجائے گا۔ برف کے بڑے بڑے تودے ﴿گلیشیر﴾ اور برفانی جھیلیں پگھل کر بے پناہ بربادی کا سبب بن سکتی ہیں۔ ہمالیہ کی اونچائی والے علاقوں میں گلیشیروں کے پیچھے برفانی پانی کی بڑی بڑی جھیلیں بن گئی ہیں۔ ان جھیلوں کے سامنے رکاوٹ کے طور پر موجود گلیشیر پگھل گئے تو جھیلوں کاپانی یکایک زبردست تباہی پھیلادے گا۔ اس طرح کے واقعات کا بھارت، بھوٹان اور نیپال میں ہونے کا شدید خطرہ موجود ہے۔ ایسا ہونے پر پوری پوری آبادیاںاور علاقے پوری طرح ختم ہوجائیں گے۔ صرف نیپال اور بھوٹال میں ایسی سو جھیلیں ہیں۔

دریاؤں اور جھیلوں میں نائٹروجن کے مل جانے کی وجہ سے ۱۶۰۰۰ قسم کے حیوانات اور نباتات ختم ہوجانے کے قریب ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور کرم کش دواؤں کے استعمال نے جانوروں اورانسانوں کو بانجھ بنانا شروع کردیاہے۔ اوزون کی پرت پتلی ہونے کی وجہ سے آنکھوں میں موتیا بند کی بیماری بڑھ رہی ہے۔ اور جلدی کینسر عام ہورہاہے۔ موجودہ دور کے بدترین انسانی بحران سے دنیا جوجھ رہی ہے مگر اس مسئلے کو بڑے پیمانے پر پیدا کرنے والے ملک امریکہ اس مسئلے کو حل نہیں کرناچاہتا، اس لیے اس مسئلے کی طرف سے دھیان ہٹانے کے لیے بھی کچھ نئے، مصنوعی اور غیر حقیقی مسئلے پیدا کیے ہیں جیسے دہشت گردی، جمہوریت کا قیام اور آزادی وغیرہ۔

رسول اللہ ﷺ  نے قرآن کی روشنی میں زمین سے عملی طور پر ہر طرح کے فساد کو دُور فرمایا جس میں ماحول کاانتشار اور خلل بھی ہے۔ آپﷺ  نے طہارت اور صفائی کے سلسلے میں لوگوں کے شعور کو بیدار کیا اور عملی اقدامات کیے۔ آپﷺ  نے راستے اور سائے میں غلاظت کرنے کو لعنت کرنے والی چیز بتایا۔ آپﷺ  نے پاکی وصفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔آپﷺ  نے پانی کی فضول خرچی کو ناپسند فرمایا۔ یہاں تک کہ آپﷺ  کا فرمان ہے کہ کوئی نہر کے کنارے پر بھی بیٹھا ہے تو پانی کا ضرورت سے زائد استعمال نہ کرے۔ اللہ کے رسولﷺ  نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔ ہم غور کرسکتے ہیں کہ دوسری گندگیوں اور زہریلے فضلات سے پانی کو آلودہ کرنا رسولﷺ  رحمت کی تعلیمات کے کس قدر خلاف ہے۔ تعلیماتِ محمدیﷺ  نے ایسے ایندھن کے استعمال سے منع فرمایا جس کا دھواں پڑوسی کے گھر میں جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیڑ پودوں کو صدقہ قرار دے کر اس کولگانے والوں کی ہمت افزائی کی۔ ماحولیاتی صفائی اور تحفظ کے لیے انقلابی اقدام بھی کیے۔ ارشاد فرمایا: ’’اگر قیامت کا وقت آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہواور قیامت کے برپا ہونے سے پہلے وہ اسے لگاسکتا ہو تو اسے ضرور لگادینا چاہئے۔ آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے پیڑ لگائے۔ مدینے سے تقریباً بیس میل کی دُوری پر وادیٔ عقیق میں رسولﷺ  نے گھوڑوں کے لیے چراگاہ بنائی جو انسانوں کے لیے تفریح گاہ بھی بن گئی۔ ماحولیاتی آلودگی کے تعلق سے دنیا کی موجودہ صورتِ حال نہایت تشویشناک ہے۔ دنیا کے تمام سچے خیر خواہوں اور انسانیت کے ہمدردوں کو ایک ایسے عالمی نظام کی طرف آنا ہوگا جو انسانوں اور کچھ ملکوں کے محدود ، ناقص اور مفاد پرست رویے سے متاثر نہ ہوں بلکہ اس کائنات کو پیدا کرنے والے اللہ کی ہدایت اور رہنمائی میں چلنے کا پختہ ارادہ کرلیں جو انصاف کے مطابق انسانوں اور ملکوں کو چلائے جو زمین کو فساد سے نہ بھرے بلکہ اس کی اصلاح کرے اور دنیا کے ہر شخص کو امیر ہو یا غریب برابر کے مواقع اور ذمہ داری کا شریک بنائے اور جوکائنات کے نظام میں خلل نہ ڈالے اور نہ حد سے آگے بڑھے۔

انسانی جان کا تحفظ

دوسرا اہم ترین مسئلہ انسانی جان کی ناقدری کا ہے۔انسانی جان کی بربادی کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ فرضی انکاؤنٹر کے نام پر جان لے لی جاتی ہے۔ اس میں مرد تو مرد عورتوں تک کو نہیں بخشا جاتا۔

جہالت کے زمانے میں عرب میںقتل وغارت گری کا بازار گرم تھا۔ جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں تھی۔ کسی خاندان کا ایک شخص قتل ہوجاتا تو اس کاانتقام لینا خاندانی فریضہ بن جاتا تھا۔ اور یہ سلسلہ برسہا برس اور پشتہا پشت چلتا رہتا ۔ اسی ماحول میں قرآن نے یہ آواز لگائی:

مَنْ قَتلَ نَفْساً م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً۔﴿مائدہ۳۲﴾

’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔‘‘

مولانا مودودیؒ نے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ:

’’دُنیا میں نوع انسانی کی زندگی کی بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کااحترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کی بقا وتحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتاہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیںکرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتاہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے اور ہمدردی نوع کے جذبے سے خالی ہے۔ لہٰذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے کیونکہ اس کے اندر وہ صفات پائی جاتی ہیں جو اگر تمام افراد انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائیں۔ اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے۔ کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کی بقا کا انحصار ہے۔‘‘

معیشت

دورجدید میں معاشی مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے اس لیے کہ اس پر زندگی کا دار ومدار ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام تقریباً پوری دنیا پر چھایا ہواہے۔ اس نظام معیشت کی بنیاد سود پر ہے۔ پوری دنیا میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میںاضافہ ہوتاجارہاہے۔ دولت مند خوب دولت مند اور غریب غریب ترہوتے جارہے ہیں۔ مال دار لوگ عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، متنوع غذائیں کھا رہے ہیں اور بچا ہوا کھانا بے پروائی سے کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ کچھ نہایت غریب لوگ اس میں سے چن کرنکالتے اور کھاتے ہیں۔

دُنیا کے بڑے اور اہم ملکوں میں آج غربت ،بے روزگاری،مہنگائی اور بنکوں کے دیوالیہ پن کاحال دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب سرمایہ دارانہ نظام کی الٹی گنتی شروع ہونے والی ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے سودی لین دین حرام ہے۔ اسی طرح اسلامی نظام معیشت میں استحصال اور دولت کے ارتکاز کی بجائے دولت کی گردش، اخلاقی قدروں کا لحاظ اور حلال وحرام کی تمیز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس نظام کا محور صحیح ذرائع سے رزق کی جدوجہد ہے۔ اس نظام کے اصول وضوابط کے تحت معاشی وتجارتی سرگرمیاں بھی محض تجارت اور دنیا کا کام نہیں بلکہ عبادت اور آخرت کا کام ہے۔ اسی بناپر راست باز وامانت دار تاجروں اور محنت کشوں کی مذہب اسلام میں بڑی تعریف کی گئی ہے اور ان کا درجہ اونچا بتایا گیا ہے۔

معاشی سرگرمیوں میں تجارت ، زراعت اور صنعت وحرفت بنیادی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صنعت وحرفت میں کام کرنے والے محنت کشوں اور مزدوروں کاپیغمبر اسلام نے اعزاز واکرام کیااورکسی پیشے کو محض پیشے کی وجہ سے ذلیل یا کمتر سمجھنے کی مذموم ذہنیت کی جڑ کاٹ دی۔ آپﷺ  کاارشاد ہے کہ ’’محنت مشقت کرکے روزی کمانے والااللہ کا حبیب ہے۔‘‘ ایک مرتبہ آپﷺ  نے ایک صحابی کے ہاتھوں پر سیاہی دیکھی تو اس کے ہاتھ چوم لیے۔ صنعت وحرفت سے وابستہ لوگوں کے لیے آپﷺ  کی ایک اہم ہدایت یہ ہے کہ ’’جس کام کو اپناؤ پہلے اس میں پوری مہارت حاصل کرو۔ اور جو کام سپرد کیاجائے اس کو لگن اور دیانت داری کے ساتھ انجام دو۔ آپﷺ  نے ذخیرہ اندوزی کر کے چیزوں کا بھاؤ بڑھانے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ اللہ ان سے بری ہے۔ آپﷺ  نے بازار کو صحیح طریقے سے چلانے اور منصفانہ نظام کے استحکام کے لیے اوزان اور پیمانوں کی معیار بندی بھی کی۔ آپﷺ  نے محض ہدایات جاری کرنے کو کافی نہیں سمجھا بلکہ ان پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے بازاروں میں نگراں بھی مقرر فرمائے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات آپﷺ  خود بھی دورہ فرماتے اور موقعے پر ہی ترغیب اور ترہیب کے ذریعے ضروری کارروائی عمل میں لاتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپﷺ  بازار تشریف لے گئے۔ غلّے کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر دیکھا، وہ اندر سے گیلا تھا۔ دکان دار سے اس کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بتایاکہ بارش سے بھیگ گیا۔ آپﷺ  نے فرمایا کہ اس کو اوپر ہی کیوں نہ رکھا تھا کہ ہر ایک کو نظر آتا۔ پھر آگاہ فرمایا کہ ’’جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

خود کشی

سائنس نے زبردست ترقی کرلی ہے۔ انسان کی زندگی کو عیش وآرام سے گزارنے کے وسائل وذرائع ایجاد کرلیے گئے ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ زمانے نے خود انسان کا جینا محال کردیاہے۔ عالمی صحت کی تنظیم (WHO) کے ایک اندازے کے مطابق اگر خود کشی کا موجودہ رجحان جاری رہا تو ۲۰۲۰؁ء میں پندرہ لاکھ سے زائد افراد خود کشی کریں گے یعنی دنیا میں ہر بیس سیکنڈ میں ایک شخص خود کشی کرے گا۔ ’’ترقی یافتہ‘‘ امریکہ میں قتل سے ڈیڑھ گنا زائد افراد خود کشی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔جب کہ برطانیہ میں روزانہ دو نوجوان خود کشی کرتے ہیں۔ دنیا میں جتنے افراد حادثے میں مرتے ہیں اس سے دوگنی تعداد خوش کشی سے مرنے والوں کی ہوتی ہے۔

جب کوئی شخص کسی شدید مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو مایوسی اس پر حملہ آور ہوتی ہے اور وہ ناامیدہوجاتا ہے تو اس کا عام حل یہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ختم کرکے مصیبتوں سے چھٹکارا پاجائے۔ خود کشی کرنے والا اس لیے مایوس ہوتا ہے کہ اس کی تمام کوششیں اور وسائل اس کی مدد نہیںکرسکتے۔ایک مسلمان کے لیے ایسی صورت حال میں امید کاایک بہت بڑا مرکز اللہ کی ذات ہے کیونکہ یہ بات اس کے دل ودماغ میں بیٹھی ہوئی ہے کہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور وہ اس مسئلے کوحل کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔ اس لیے مایوسی کا شکار اگر مسلمان ہو تو وہ ناکامیوں کے اندھیروں میں خدا کو مدد کے لیے پکارتا ہے۔ چونکہ خدا کی شفقت بے پایاں ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ جو مصیبت میں اس پر خلوص دل اور پورے یقین سے بھروسا کرے گا وہ یقینا اس کی مدد کرے گا۔ اس تصور کے ساتھ اسلام پر یقین رکھنے والا کبھی خود کشی نہیں کرسکتا۔ پھر اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خود کشی کرنے والادوزخ میں جائے گا ۔مسلمانوں میں خود کشی کا تقریباً نہ ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ آج جب کہ خود کشی کو روکنے کے لیے مختلف طبی ، نفسیاتی اور مادی طریقے اختیار کیے جارہے ہیں، اگر اسلام کے آزمائے ہوئے نسخے اور حضور اکرمﷺ  کی تعلیمات کو اپنایا جائے تو عالم انسانیت خود کشی سے بچ سکتا ہے۔ خود کشی کو روکنے کاکارگر نسخہ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات اپنایا جائے ۔

دختر کشی

بی بی سی کی ایک ڈاکیو منٹری فلم ”Let her die” ﴿بچی کو مرنے دو﴾ میں برطانوی صحافی Emetic Buchananنے انکشاف کیا کہ ہندستان میں مادہ جنین کا علم ہونے پر روزانہ ۰۰۰۳ حمل گرادیے جاتے ہیں۔ اگر اس عدد کو ۵۶۳ سے ضرب دیں تو یہ تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہوجائے گی۔ راجستھان اور تمل ناڈو میں اسقاط کی شرح سب سے زیادہ رہی ہے۔ علانیہ کہا جاتا رہے Invest Rs. 500/- and save Rs.500,000 پانچ سو روپے لگائیے، پانچ لاکھ روپے بچائیے۔ ﴿پانچ سو روپے سو نوگرامی کا خرچ ہے جب کہ ایک بچی کی پرورش میں پانچ لاکھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں﴾ تمل ناڈو سرکاری اسپتال کی رپورٹ کے مطابق ۱۰نوزائیدہ بچیوں میں سے چار موت کی نیند سلادی جاتی ہیں اور یہ غربت یا جہالت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دولت مند گھرانوں میں دختر کشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ خوش حال جنوبی دہلی میں جنسی تناسب ۷۶۲﴿ایک ہزار نوزائیدہ بیٹوں پر صرف ۷۶۲ نوزائیدہ بیٹیاں﴾ جب کہ خونیں حال بوریولی ﴿ممبئی﴾ میں صرف ۷۲۸ ہے۔ جون ۲۰۰۷؁ء میں دہلی کے مضافات میں ایک ڈاکٹر ۲۶۰غیر قانونی اسقاط حمل کے سلسلے میں گرفتار کیاگیا۔ یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب دواخانے کے سیپٹک ٹینک سے مادہ جنینوں کی ہڈیاں برآمد ہوئیں۔ہمارے ملک میں بچیوں کا جنسی تناسب مسلسل گرتے گرتے اس حد کو پہنچ گیا کہ ۲۰۰۱؁ء میں فی ہزار بچوں پر ۹۲۷بچیاں ریکارڈ کی گئیں۔ ۱۹۹۲۔۹۳ کی سرکاری مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کاجنسی تناسب سب سے زیادہ یعنی فی ہزار بچوں پر ۹۸۶ بچیاں تھیں ، جب کہ پسماندہ ذاتوں میں ۹۳۱، ہندوؤں میں ۹۱۴ اور دیگر اقوام میں ۸۵۹تھا۔

آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے عربوں کا حال لڑکیوں کے تعلق سے کچھ ایسا ہی تھا۔ بیٹی کی پیدائش کی خبرسن کر ان کا جو حال ہوتا تھا قرآن نے اس کو اس طرح بیان کیا ہے :

’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے۔ ‘‘﴿النحل۵۸،۵۹﴾

حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ایک روشن پہلو عورتوں کی قدر دانی اور احترام ہے۔ آپﷺ  نے بیٹیوں کی پرورش اور تربیت کو جنت میں جانے کا ذریعہ بتایا۔ نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا اور بتایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔تمام انسانوں پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے حضرت محمدﷺ  نے کل بھی بچیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا تھا اور آج بھی قبل پیدائش قتل سے ان کی تعلیمات بچیوں کی حفاظت کررہی ہیں۔ آپﷺ  نے فرمایاتھا کہ بیٹیاں جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بھی ہیں اور جنت میں داخلے کا پروانہ بھی۔ ارشاد رسولﷺ  ہے: ’’جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کرکے رکھے، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ ﴿ابوداؤد﴾

والدین بیزاری

عہد جدید کی ایک اور لعنت Old age home ہے۔ ان میں بوڑھے، معذور اور بے سہارا افراد کی مناسب دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ ان میں وہ افراد بھی ہوتے ہیں جن سے ان کے اپنے بھی منہ پھیرلیتے ہیں۔ ان اولڈ ایج ہومس کے پیچھے کرب والم اور درد وتکلیف کا ایک اتھاہ سمندر ہے جو عموماً لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتا ہے۔موجودہ دور کی نئی نسل اپنی زندگی کو معیاری ، خوش گوار اور عیش وعشرت والی زندگی بنانے میں اس قدر مصروف ہے کہ اسے اپنے بزرگوں کو سہارا دینے کی فرصت نہیں رہ گئی ہے۔اولڈ ایج ہومس اصلاً بیسویں صدی عیسوی کی پیداوار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۵؁ء میں امریکہ میں بوڑھوں کے لیے قائم نرسنگ ہومس کی تعداد ۱۱۰۰۰تھی۔ ۲۰۱۰؁ء میں یہ تعداد ۰۰۰ ۲۱ ہوگئی۔ متعدد یورپی ممالک میں بھی ان نرسنگ ہومس کی تعداد میں اضافے کا یہی حال ہے۔ ہندستان میں ۱۹۵۰ سے قبل صرف ۹۶اولڈ ایج ہومس تھے۔ ۲۰۰۹؁ء میں ملک میں قائم اولڈ ایج ہومس کی تعداد ۱۲۷۴رہی۔افسوس کہ ہمارے ملک میں بھی بوڑھے والدین کی ناقدری میں اضافہ ہورہاہے۔ مغربی ملکوں میں بوڑھے والدین کی ناقدری کی جوزہریلی ہوا چل رہی تھی، مشرقی ملکوں میں بھی آگئی۔ ۲۰۱۰؁ء کے کمبھ میلے کے اختتام پر ۱۸۴، لاوارث بوڑھے اور معذور والدین پائے گئے جنہیں ان کے گھر والے چھوڑ دینے کی نیت ہی سے اس مذہبی میلے میں لے آئے تھے۔ الٰہ آباد کے ڈی ایم نے اس پر دلگیر ہوکر کہا تھا کہ افسوس ہم اپنی عظیم قدیم روایات کو بھول گئے۔ جنھیں ہم نے دیوی دیوتاؤں کا درجہ دیا تھا، ان کاآج یہ حشر ہورہا ہے۔

آج کی مادہ پرست دنیا نے بڑھاپے کو بھی ایک ’جرم‘ بنادیا ہے۔ آج گھروں میں بوڑھے والدین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ بوڑھے ماں باپ جنہوں نے رات دن ایک کرکے اس کی پرورش کی، جنہوں نے انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھایا۔ جنہوں نے اپنی اولاد کو پروان چڑھانے اور ان کامستقبل تابناک بنانے کی خاطر زندگی کی تمام صلاحیتوں اور توانائیوں کو نچوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر اعلیٰ تعلیم دلائی۔ جب وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا تووالدین اسے بے کار نظر آنے لگے، وہ بوجھ محسوس ہونے لگے۔ ان کی بیماری اسے Disturb کرنے لگی اور علاج جیب پر بار بن گیا۔ ان کی موجودگی سے پورے گھر کی رونق اڑی جارہی تھی۔ رنگ میں بھنگ پڑرہا تھا۔ آخر ایک دن اس نے اپنے بوڑھے والدین سے کہہ دیا کہ اب بہت ہوچکا۔ اب اس گھر میںہم ہی ہم رہنا چاہتے ہیں۔بوڑھے ماں باپ کا دل خون ہوچکا تھا۔ بوڑھا باپ اپنی جگہ سے اٹھا، ایک حسرت بھری نگاہ اپنی اولاد پر ڈالی اور پھر اپنے اس مکان پر، جس کی تعمیر میں اس نے اپنا خون پسینہ ایک کردیا تھا ایک نظر ڈالی اور ڈبڈبائی آنکھوں سے کہا ’’کاش یہ رقم میں نے تجھے انسان بنانے میں لگادی ہوتی۔‘‘

مگر وہ بوڑھا نہیں جانتا اور بہت سارے دوسرے لوگ بھی ایسے ہیں جنہیں معلوم نہیں ہے کہ انسان بنانے کے لیے اس طرح پیشے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جس طرح گھر بنانے کے لیے ضرورت پڑتی ہے۔ بلکہ System of Lifeایک نظام زندگی موجود ہے۔ یہ اللہ کا بھیجا ہوا ہے۔ اس کا نام اسلام ہے۔ قرآن میں اسی کی تعلیم ہے اور حضرت محمد﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ نے اس پر عمل کرکے دنیا کو بتادیا ہے۔ آپﷺ  کی پوری زندگی کے سارے کام اور ساری باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ اس طرح قرآن اور آپﷺ  کی زندگی سے جہاں دنیا کے سارے مسائل ہوتے ہیں وہیں بوڑھے ماں باپ کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔ ماں باپ جیسی نعمتوں کااس دنیامیں کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے لیے انھوں نے ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کیں۔ ہم پر ان کے اتنے احسانات ہیں کہ ان کااندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے بعد سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انھیں اُف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور دُعا کیا کرو کہ ’’پروردگار! ان دونوں پر رحم فرماجس طرح انھوں نے رحمت وشفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘

ایک روز نبی اکرمﷺ  منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے تین فرمایا: آمین، آمین، آمین۔ لوگوں کے دریافت کرنے پر فرمایا :حضرت جبرئیل (ع) میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے محمدﷺ  جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کی خدمت نہیں کی اور مرگیا تو وہ جہنم میں داخل ہوا، اوراللہ نے اس کو اپنی رحمت سے دُور کردیا۔ کہو آمین تو میں نے آمین کہا۔ اسی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبیﷺ  سے دو باتیں اور بھی کہیں۔ نبیﷺ  نے فرمایا کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔ آپﷺ  نے فرمایا جنت ، ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ آپﷺ  نے یہ بھی فرمایا کہ باپ، جنت کا دروازہ ہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ  کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ مسلمان اپنے بوڑھے والدین کی عزت اور خدمت کرتے ہیں اور انھیں اولڈ ایج ہومس کا راستانہیں بتاتے۔

انسانوں کی خرید وفروخت

مغربی بنگال کے سندیش کھلی گاؤں کے تقریباً ہر گھر میں رہنے والی ماں گزشتہ دس سالوں سے اپنی اس بیٹی کے واپس آنے کا انتظار کررہی ہے جسے اس نے نوجوانوں کی عمر میں پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر روزگار کے لیے بھیجا تھا۔ غربت زدہ یہ گاؤں دراصل انسانوں کی تسکری/ہیومن ٹریفکنگ کے دلالوں کی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے۔

مرکزی وزیر برائے داخلہ نے لوک سبھا میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مغربی بنگال سے چودہ ہزار افراد غائب ہوئے ہیں۔ موصوف نے وضاحت کی تھی کہ ان میں آٹھ ہزار لڑکیاں اور پچپن سو نوعمر لڑکے شامل ہیں۔ ۲۰۰۶؁ء میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ملک میں ہر سال ۴۵۰۰بچے غائب ہوجاتے ہیں۔

انسانوں کی تجارت یا ہیومن ٹریفکنگ کا ایک عالمی نیٹ ورک ہے اور یہ عالمی سطح کا ایک کاروبار ہے جو رپورٹوں کے مطابق ۲۳۰۰۰کروڑ ڈالر کے قریب پہنچ گیا ہے۔ یہ کاروبار دنیا کے ۶۱سے زیادہ ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی وزارت خارجہ کی ۲۰۱۲؁ء کی رپورٹ کے مطابق آٹھ لاکھ افراد کو ہر سال عالمی سطح پر اسمگل کیا جاتا ہے۔ اور اس میں۵۰فیصد بچے ہوتے ہیں۔ بی بی سی نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں اس نے بتایاتھا کہ ایک لاکھ نوجوان لڑکیوں کو جن کی عمریں چودہ سے اُنیس سال تھیں۔ کس طرح لاطینی امریکہ سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قحبہ خانوں کے لیے ۲۰۱۰؁ء میں اسمگل کیاگیا تھا۔

انسانوں کی تجارت کا یہ گھناؤنا اور مجرمانہ کاروبار دولت مند لوگوں کے ہاتھوں غریبوں، مجبوروں اور بے سہاراانسانوں کے استحصال کی بدترین شکل ہے جس کے ذریعے مالدار اور سرمایہ دار لوگ غریب لڑکیوں اور بچوں کا جنسی اور جسمانی استحصال کرتے ہیں۔ وہ قحبہ خانوں میں دھکیل دی جاتی ہیں یا کارخانوں میں بندھوا مزدور کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔

اس میں کار پرداز کی حیثیت سے دلالوں کا وہ نیٹ ورک استعمال ہوتا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں سرگرم عمل رہتا ہے اور مناسب موقعوںس میں خوب صورت نوکری اور اچھی زندگی کا جھانسہ دے کر نوعمر لڑکوں لڑکیوں کو حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی طرح ان کا نیٹ ورک چوری چھپے بچوں کو اٹھانے، اغوا کرنے اور غائب کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا اس تجارت کو جرم اور غیر قانونی عمل قرار دیتی ہے۔ اقوا م متحدہ بھی اسے جرم تصور کرتا ہے مگر اس پر لگام کسنے اور دنیا کو اس کی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہے۔ہندوستان میں اس کے خلاف قانون پہلے سے ہی موجود تھا ۔ اسی طرح ۲۰۰۷؁ء میں ہندوستان میں پولیس کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ یونٹس بھی قائم کیے گئے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود آج بھی ہندوستان میں یہ گھناونی تجارت جاری ہے۔

اسلام اس مسئلے کو بھی حل کرتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ  نے فرمایا: تین لوگوں کے خلاف قیامت کے روز فریق بنوں گا ۔ایک وہ انسان جس نے میرے حوالے سے کوئی چیز دی تھی اور پھر دھوکا دیا، دوسرے جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ دیا اوراس کا بدل کھا گیااور تیسرے وہ آدمی جو کسی کو مزدوری کے لیے لائے، وہ محنت سے کام کرے اور پھر وہ اسے مزدوری نہ دے۔ قانون بنانے سے جرائم نہیں رکتے۔ اس کے لیے ذہن وفکر کی تبدیلی ضروری ہے اور یہ تبدیلی صرف اسلام اور اس کی تعلیمات کے نتیجے ہی میں آسکتی ہے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2013

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223