اسلامی ادارہ سازی: شفاخانے

اس سلسلہ مضامین میں یہ واضح کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ فلاحی ادارے کس طرح اسلام کی شہادت کا موثر ذریعہ بن سکتے ہیں، اسلام کی قدروں اور تعلیمات کی روشنی میں تہذیب و تمدن کو مخصوص رنگ دے سکتے ہیں اورمعاشرے میں نئے سماجی معمولات کو اور ریاست میں نئی پالیسیوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے کے تحت آج ہم صحت سےمتعلق اداروں یعنی شفاخانوں یا دواخانوں کو موضوع بنائیں گے۔

شفاخانے،مطب یا کلینک، موبائل ڈسپنسری اور اس طرح کی دیگر طبی خدمات، دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کی فلاحی سرگرمیوں کا ہمیشہ اہم حصہ رہی ہیں۔صحت سے متعلق اداروں کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ معاشرے کاہر شخص عمر کے ہر مرحلے میں ان سے مستفید ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں سے لوگ بالعموم صرف بچپن یا نوعمری ہی میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ رفاہی مالیاتی اداروں سے سماج کا محروم طبقہ ہی فیض یاب ہوتا ہے، لیکن شفاخانہ ایک ایسا ادارہ ہے جس سے امیر غریب، چھوٹا بڑا، مرد عورت، ہر ایک استفادہ کرتا ہے۔ صحت مند لوگوں کو بھی کبھی کبھی سہی اور مختصر دورانیے ہی کے لیے سہی، شفاخانے جانےکی ضرورت پیش آتی ہے۔ علاج کے علاوہ، طبی معائنوں اوراحتیاطی تدابیر(preventive care) کے لیے بھی اب لوگوں کا رجوع کافی بڑھ چکا ہے۔ عام طور پر زندگی کی ابتدا یعنی ولادت بھی شفاخانے میں ہوتی ہے اور زندگی کا خاتمہ بھی بالعموم شفاخانے کے بستر ہی پرہوتا ہے۔

جماعت اسلامی ہنداوراس کے وابستگان بھی ملک بھر میں طرح طرح کے چھوٹے بڑے شفاخانے چلاتے ہیں۔ملت اسلامیہ کے مختلف ادارے رفاہی مقاصد کے لیے اور بہت سے مسلمان ڈاکٹر پیشہ ورانہ بنیادوں پر شفاخانوں کی ملکیت اور نظم و انتظام سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان شفاخانوں کا اصل مقصد کیا ہونا چاہیے؟ ان کی امتیازی خصوصیات کیا ہونی چاہئیں؟ اور ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں وہ کیسے بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں؟ ان سوالوں کو ذیل کی سطروں میں زیر بحث لایا جارہا ہے۔

نظام صحت و علاج: بنیادی اسلامی تصورات

نظام صحت و علاج کا موضوع مسلمان اہل علم کے یہاں ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ کلاسیکی اسلامی لٹریچر میں بھی اس پر تفصیلی مباحث ملتے ہیں اور حالیہ ادوار میں بھی اس موضوع کےمختلف پہلوؤں پر خاصا کام ہوا ہے۔[1] حدیث کی کتابوں میں اس پر مستقل ابواب موجود ہیں۔[2] اسلامی فلسفہ، تاریخ، فقہ، اصول اور خود طب میں اس موضوع کےمختلف پہلو زیر بحث رہے ہیں۔ ان مباحث کے خلاصے کے طور پر اسلام کے نظام صحت و علاج کے امتیازات کو درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جاسکتاہے:

ہر شعبہ حیات کی طرح صحت و علاج کے شعبے میں بھی اسلام کا اساسی تصور، تصور توحید ہے۔اس کی وضاحت درج ذیل تعلیمات سے ہوتی ہے:

زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔(الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیبْلُوَكُمْ اَیكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَ ھُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُوْرجس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔[الملک2]

صحت و بیماری بھی اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کی حکمت و مشیت کا حصہ ہے۔اس نے بیماری پیدا کی ہے اور اس کے ساتھ شفا بھی پیدا کی ہے(وإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یشْفِینِ۔ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ [الشعراء 80])رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ما انزل الله داء إلا انزل له شفاء۔اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو۔) [3]

زندگی امانت ہے اور صحت اللہ کی عظیم نعمت ہے (نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فیهما كثیرٌ من الناس: الصحةُ، والفراغُ۔ دونعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے اور گھاٹے میں ہیں: صحت اور فراغت)[4] اور مرض و صحت دونوں میں انسان کے لیے آزمائش ہے۔(كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیرِ فِتْنَةً وَإِلَینَا تُرْجَعُونَ۔ ہر جان کو موت کا مزا لازماً چکھنا ہے اور ہم تو لوگوں کو دکھ اور سکھ دونوں سے آزما رہے ہیں، پرکھنے کے لیے اور ہماری ہی طرف تمھاری واپسی ہونی ہے۔ [الانبیاء35])

دوا اور علاج اللہ کی عطا ہےجس سے ممکنہ حد تک فائدہ اٹھانا اس کا حکم ہے(تداوَوا عبادَ اللَّهِ فإنَّ اللَّهَ سبحانَهُ لم یضع داءً إلَّا وضعَ معَهُ شفاءً إلَّا الْهرمَ۔ اے اللہ کے بندو، بیماریوں کا علاج کیا کرو، اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں پیدا کی ہے جس کا علاج نہ پیدا کیا ہو سوائے بڑھاپے کے۔) [5]

علاج کے دوران بھی اصل بھروسا اور توکل اللہ ہی پر ہونا چاہیے۔علاج اور دوا محض ایک ذریعہ اور سبب ہےجس سے بے نیاز نہیں ہونا ہے لیکن یہ یقین رکھنا ہے کہ شفا دینے والا اصلاًاللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ فَإِذَا أُصِیبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔ ہر بیماری کی دوا ہے، جب کوئی دوا بیماری پر ٹھیک بٹھا دی جاتی ہے تو مریض اللہ تعالیٰ کےحکم سے تندرست ہوجاتاہے)۔ [6]

علاج کرانا چاہیے لیکن وہ صحیح معلومات اورٹھوس اور ثابت شدہ حقائق کی بنیادپرہونا چاہیے،توہمات اور بے بنیاد رواجوں کے ذریعے نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ( وَلَا تَقْفُ مَا لَیسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤلًا۔ اور ایسی بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا تجھے علم نہیں کیوں کہ اس بات کے متعلق کان، آنکھ اور دل سب کی باز پرس ہوگی۔ [الاسراء 32])، نیز حدیث نبوی ﷺ میں ارشاد ہوا ہے( هم الذین لا یسترقون، ولا یتطیرون، ولا یكتوون، وعلى ربهم یتوكلون۔ (جنت میں بغیرحساب جانے والے مسلمان وہ ہوں گے) جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، فال نہیں دیکھتے اور داغ کرعلاج نہیں کرتے بلکہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔) [7]

ہر مصیبت کی طرح بیماری میں بھی اللہ ہی سے رجوع ہونا چاہیے اور اسی سے شفا طلب کرنی چاہیے۔ (كان إذا أتى مریضًا، أو أُتی بهِ قال: أذهِبِ البأسَ ربَّ النَّاسِ، اشفِ وأنتَ الشَّافی، لا شفاءَ إلَّا شفاؤُك، شفاءً لا یغادِرُ سَقَمًا۔ جب رسول اللہ ﷺ کسی مریض کے پاس جاتے یامریض آپ کے پاس لایا جاتا تو دعافرماتے، اے انسانوں کے رب! بیماری دور کر دے۔ شفا عطا فرما۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں۔ ایسی شفا دے جس کے بعد کوئی بیماری باقی نہ رہے۔) [8] دوا علاج کی ممکنہ کوشش کے ساتھ اللہ سے دعا کرنی چاہیے، اسی پر توکل کرنا چاہیے، اور اس کی مرضی پر راضی اور مطمئن رہنا چاہیے۔[9]

بیماری بھی مشیت الہی اور اس کی حکمت و مصلحت کا حصہ ہے۔چناں چہ بیماری کےمقاصد پربھی اسلامی تعلیمات میں متعددباتیں ملتی ہیں۔ بیماری کے ان تمام پہلوؤں پر توجہ جہاں اصلاً مریض کا کام ہے وہیں اس کے اعزہ و اقربا، تیماردار اوراس کے مسلمان معالجین کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ ان پہلوؤں پر متوجہ ہونے میں اس کی مدد کریں۔ علاج کا اسلامی نظام ان اہم پہلوؤں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔

بیماری آزمائش وامتحان ہے وہیں زندگی کے ہر مرحلے کی طرح یہ مرحلہ بھی تزکیہ و تربیت، اللہ کی یاد اور قرب الہی کا وسیلہ ہے۔بندہ مومن کے لیے یہ تنبیہ بھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مثل المؤمن كالخامة من الزرع تفیئها الریح مرة وتعدلها مرة، ومثل المنافق كالارزة لا تزال حتى یكون انجعافها مرة واحدة۔ مومن کی مثال پودے کی سب سے پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ ہوا اسے کبھی جھکا دیتی ہے اور کبھی برابر کر دیتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ وہ سیدھا ہی کھڑا رہتا ہے اور آخر ایک جھوکے میں کبھی اکھڑ ہی جاتا ہے۔)[10] یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں کو موت سے پہلے بیماریوں کے ذریعے بار بار متنبہ کرتا رہتا ہے۔

بیماری صبر و شکر اور توکل کی اعلیٰ صفات کو روبہ کار لاکر قرب خداوندی کے حصول کا اور گناہوں کی معافی کا بھی موقع ہے(مَا مِنْ مُسْلِمٍ یصِیبُهُ أَذًى، شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا سَیئَاتِهِ، كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا۔ مسلمان کوجو کوئی تکلیف یا بیماری حتیٰ کہ کانٹابھی چبھتاہے،تواللہ تعالیٰ اس تکلیف کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔) [11]

بیماری،اپنے گناہوں پر شرمندگی، توبہ اور رجوع و انابت کاذریعہ بھی ہے حدیث رسول ہے: (من یرد الله به خیرا یصب منه۔ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے بیماری کی تکالیف اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔)[12] یعنی اس طرح رجوع الی اللہ اور توبہ و انابت کے ذریعے اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔

ہر بیماری موت کی یاد کا اور آخرت کی تیاری کے سلسلے میں توجہ بڑھادینے کا بھی ذریعہ ہے۔

صحت و علاج کے معاملے میں بھی اسلامی شریعت کے اپنے اصول ہیں اور اسلام کے اپنے منفرد اخلاقی تصورات ہیں۔احکام شریعت کی پابندی، فرائض کا اہتمام اور محرمات سے پرہیز، عدل و قسط، انسانی مساوات اور رفاہ عام اور انسانی تکریم و احترام ان تصورات کی اساسیات ہیں۔جسم اور اعضاء انسان کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی امانت ہیں۔ علاج میں بھی حرام اشیا کے استعمال سے ممکنہ حد تک گریز ضروری ہے۔ حیا، حجاب اور صنفین کے درمیان رابطے کے اسلامی حدود کا ممکنہ حد تک لحاظ معالج اور مریض دونوں کے لیے ضروری ہے۔ فرائض کی پابندی ضروری ہے اور مریض کے لیے بھی اس سلسلے میں تفصیلی احکام موجود ہیں۔[13]

صحت اللہ کی امانت ہے اس لیے اس کی حفاظت کی کوشش بھی ضروری ہے۔ علاج سے زیادہ اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام احتیاط اور احتیاطی تدابیر پر بھی زور دیتا ہے۔ جن چیزوں کا مہلک یا شدید نقصان دہ ہونا ثابت ہے ان سے پرہیز شرعاً لازم ہے۔(وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ۔ اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ [النساء 29]) نیز حدیث نبوی ﷺہے: (لا ضررَ ولا ضِرارَ.نہ خود نقصان اٹھاؤ نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ)[14] کھانے پینے میں توازن مطلوب ہے(وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا یحِبُّ الْمُسْرِفِینَ۔ کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ [الاعراف 31 ]) جسمانی سرگرمی کی ترغیب موجود ہے(أن ركانة صارع النبی صلى الله علیه وسلم فصرعه النبی صلى الله علیه وسلم۔ رکانہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی لڑی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پچھاڑ دیا) [15] نماز، روزہ جیسی عبادتوں کی بھی اللہ تعالیٰ نے جو شکلیں متعین فرمائی ہیں ان میں صحت کے فائدے بھی شامل فرمائے ہیں۔

اسلام کی ایک اہم امتیازی خصوصیت صحت و علاج کا کلّی تصور (holistic concept)ہے۔ اسلام کے نزدیک انسانی وجود کاایک اہم حصہ اس کامادی جسم بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بنائے گئے قوانین طبعی کا پابند ہے اس لیے اس کی بیماریوں کے علاج کے لیے دوا، جراحی وغیرہ جیسے مادی اسباب کی بھی اہمیت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ انسان صرف مادی جسم تک محدود اور الگ الگ پرزوں پر مشتمل محض مشین نہیں ہے۔ اس لیے بیماری کے مداوے کے لیے جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ روحانی علاج، ضروری جذباتی معاونت اور ماحول کی درستی بھی ضروری ہے۔[16]

گویا انسانی صحت کاانحصار جسمانی، روحانی، جذباتی اور ماحولیاتی، چار طرح کے عوامل پر ہے۔ علاج معالجے کے مختلف قدیم و جدید طریقوں اور فلسفوں نے ا ن چار عوامل کے ساتھ مختلف طرح کا تعلق رکھا ہے۔ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنے دستور میں صحت کی تعریف اس طرح کی ہے۔‘‘صحت صرف بیماری یا جسمانی عذر کے نہ ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل جسمانی،ذہنی اور سماجی خوش حالی کی کیفیت کانام ہے۔’’[17] اس مشہورزمانہ تعریف کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ ایلوپیتھی کے مروجہ بایو کیمیکل ماڈل کا زیادہ زور صرف جسمانی عوامل (physical factors)پرہے۔ اس ماڈل میں انسانی جسم کو ایک مشین سمجھا گیا ہے۔ اس کے الگ الگ پرزوں کی مشینوں کی طرح مرمت یاجسم کے کیمیائی تعاملات میں لیبارٹری کے طرز پر کیمیائی اصلاحات ہی کو اصل اور واحد علاج سمجھ لیا گیا ہے۔ ماحولیاتی عوامل (ہوا، پانی، غذا، صفائی، انفیکشن سے تحفظ وغیرہ) پر بھی زور ہے اور اب اس زورمیں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے۔ جذباتی عوامل کا کچھ لحاظ اگر لٹریچر میں ہو بھی تو عملاً اس پرتوجہ بہت کم ہے لیکن روحانی عوامل تو پوری طرح نظر انداز ہیں۔[18] دوسرے نظام ہائے صحت و علاج (ہندوستانی، چینی، بدھسٹ،ہومیوپیتھی وغیرہ) میں بھی کچھ اور طرح کے عدم توازن پائے جاتے ہیں۔اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے چاروں عوامل پر متوازن توجہ مرکوز کی ہے۔ معاملہ حفظان صحت اور احتیاطی تدابیر کا ہو یا بیماری کی صورت میں علاج معالجے کا، وہ بیک وقت ان چاروں عوامل پر متوازن توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔

مذکورہ چاروں عوامل پیش نظر ہوں تو یہ بات خود بخود طے ہوجاتی ہے کہ ہر انسان منفرد ہے اور ہر انسان کی بیماری منفرد ہے اور ہرایک کی بیماری کے لیے شخصی توجہ اورمنفرد شخصی علاج درکار ہے۔ طے شدہ اور بے لچک پروٹوکولوں اور الگورتھم کی اساس پر مشینوں کی مرمت ہوسکتی ہےانسان کا علاج نہیں ہوسکتا۔یہ اصول بشمول ایلوپیتھی کے،[19]  تمام طریقہ ہائے علاج میں تسلیم شدہ ہے لیکن عملاً اس کا لحاظ بہت کم ہوتا ہے۔

طبیب کا پیشہ خالص انسانی اور سماجی پیشہ ہے۔ یہ ایک ذمے داری ہے اور اس کے ساتھ گہری دنیوی اور اخروی جواب دہی وابستہ ہے۔ انسانی جان کو بچانا ایک مقدس فریضہ ہے اور علاج معالجہ ایک فرض کفایہ ہے۔[20] بغیر علم و مہارت کے اس کی انجام دہی سخت اخروی جواب دہی اوروبال کا باعث بن سکتی ہے۔ حدیث رسولﷺ ہے: ( من تطبب ولا یعلم منه طب فهو ضامن۔ جو علم طب نہیں جانتا پھر بھی کسی کا علاج کرے تو نقصان کی صورت میں وہ ذمے دار ہوگا)۔[21] اس کام میں تساہلی، لاپروائی اور عجلت اور اس میں کسی بھی درجے کا دھوکہ یا استحصال ایک گھناؤنا اخلاقی جرم ہے۔ فردکی بیماری صرف اس کانہیں بلکہ سماج کابھی امتحان ہے۔کسی کو محض غربت کی وجہ سے علاج سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ لوگوں کو علاج کی ضروری سہولتیں بہم پہنچانا سماج کی اجتماعی ذمے داری ہے۔[22]

اسلامی نظام صحت و علاج: تاریخی جائزہ

ان تصورات کے مطابق اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے صحت و علاج کا شان دار ادارہ جاتی انتظام قائم کیا۔ سب سے پہلا شفا خانہ تو خود رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمایا۔ حضرت رفیدہؓ انصاری خاتون تھیں۔ان کے والد سعد الاسلمی مدینے کے مشہور طبیب تھے جن سے انھوں نے علم طب سیکھا اور قبول اسلام کے بعد اپنے علم سے مدینے کے مسلمانوں کی مفت خدمت شروع کردی۔ ان کا مستقل خیمہ تھا جہاں وہ جنگوں کے بعد اور امن کے حالات میں بھی لوگوں کا علاج کرتیں۔ غزوہ خندق میں حضرت سعد بن معاذ ؓزخمی ہوئے تو رسول اللہ ﷺ کے حکم پررفیدہؓ نے ان کی سرجری کی اوران کا علاج کیا۔ [23]مسجدنبوی سے متصل حضرت رفیدہ ؓکے خیمے کو مورخین اسلامی تاریخ کا پہلا اسپتال قرار دیتے ہیں [24]اور رفیدہ ؓکو معلوم تاریخ کی پہلی خاتون طبیب[25] جس نے راست اللہ کے رسول ﷺ کی نگرانی میں پیشہ طب اختیار کیا۔

بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے اسپتال کے ادارے کو بڑی بلندیوں تک پہنچایا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ عیسائی تاریخ میں بھی اسپتالوں کا ذکر ملتا ہے لیکن غالب عقیدہ یہ تھا کہ بیماری خدا کی طرف سے ہے اس لیے انسانی مداخلت کا اس میں کوئی امکان نہیں ہے۔ اسپتال ہوتے بھی تو پرانی بوسیدہ عمارتوں میں بہت ناقص سہولتوں کے ساتھ ہوتے اور ان اسپتالوں کو اور علاج معالجےکے عمل کو مستحسن نہیں سمجھا جاتا۔[26] مسلمانوں نے اسلام کی فکر کے مطابق اس ادارے کو خاص رخ پر ترقی دی اور اسے اسلامی اصولوں کی شہادت کا ذریعہ بنایا۔

اسپتالوں کے لیے اسلامی تاریخ میں زیادہ مروج اصطلاح ’بیمارستان‘ کی رہی۔ اس فارسی اصطلاح نے عالم عرب میں بھی خوب مقبولیت حاصل کی اور عربی لغت کا حصہ بن گئی۔[27]  اس اصطلاح کے پیچھے یہ تصور کارفرما تھا کہ یہ ادارہ بیماروں کی مکمل پناہ گاہ ہے جہاں ان کی تمام طبی، جذباتی، روحانی اور معاشی ضرورتوں کی تکمیل ہوگی اور وہ مکمل سکون حاصل کرسکیں گے۔ مختلف بیمارستانوں کے جو وقف نامے موجود ہیں ان کے ذریعے بھی اس ہمہ گیر تصور کی شہادت ملتی ہے۔

مورخین کے مطابق پہلا باقاعدہ بیمارستان اموی دور میں دمشق میں(706عیسوی) قائم ہوا۔اگرچہ اصلاً یہ جذامیوں کے لیے تھا لیکن دوسرے امراض کا بھی علاج ہوتا تھا۔ [28] اس کے بعد تیزی سے بڑے بیمارستانوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ تیونس کا القیراون بیمارستان (قیام 830 عیسوی)[29] بغداد کا العاضدی بیمارستان(قیام عیسوی981)[30] دمشق کابیمارستان نوری جسے سلطان نورالدین زنگیؒ نے قائم کیا تھا[31] (قیام1154عیسوی) قاہرہ کا المنصوری بیمارستان(قیام 1284 عیسوی)[32] اور قرطبہ کے بیمارستان، اپنے اپنے وقت میں دنیا کے مشہور ترین اسپتا ل تھے جن کے تفصیلی تذکرے اس زمانے کی تواریخ اور سفرناموں میں ملتے ہیں۔بارہویں صدی عیسوی میں صرف بغداد میں ساٹھ بڑے بیمارستان تھے۔[33]اس وقت بغداد کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ تھی۔ المنصوری بیمارستان میں آٹھ ہزار بستر تھے۔[34]  آج دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں میں بھی آبادی اور اسپتالوں کی تعداد کا یہ تناسب کہیں نہیں پایا جاتا۔[35]

 اسلامی عہد کے بیمارستانوں کی کچھ نمایاں خصوصیات

ان بیمارستانوں میں لگ بھگ وہ ساری مثبت خصوصیات موجود تھیں جو جدید اسپتالوں میں ہوتی ہیں۔تخصصات (specialisation)کی بنیاد پر الگ الگ شعبے ہوتے۔ سند یافتہ تجربے کار اطبا ہوتے جن کی بھاری تنخواہیں مقرر ہوتیں۔ مردوں اور عورتوں کے لیے اور الگ الگ امراض کے لیے جداگانہ وارڈ ہوتے۔ مریضوں کے علاج اور ان کی مستقل چوبیس گھنٹے نگہداشت اور تیمارداری کا انتظام ہوتا۔ اطبا کی نگرانی میں تیار ہونے والی صحت بخش غذا، پھل اورمیوے فراہم ہوتے۔ صفائی، روشنی اور ہوا کے معقول انتظامات ہوتے۔اطبا کی ڈیوٹیاں اور شفٹیں مقرر ہوتیں۔ رہائشی اطبا (residents)کے رہنے کے انتظامات ہوتے۔تفصیلی احکام اور اصولوں پرمبنی کتابچے (protocol manuals)موجودرہتے۔مریضوں کے احوال اور علاج کی تفصیل ریکارڈکی جاتی اور ان کی فائلیں بنتیں۔ جونیر اطبا کی تعلیم و تربیت بھی ساتھ چلتی رہتی۔مرض کی تشخیص،ادویہ کی تیاری اور فراہمی،سرجری، ہنگامی خدمات (emergency)وغیرہ کے مستقل علاحدہ انتظامات ہوتے۔[36]  یہ بات اب تسلیم شدہ ہے کہ اسپتالوں کا جدید تصور بیمارستان ہی سے ماخوذ ہے۔[37]

بیمارستانوں سے استفادہ سب کے لیے عام اور بالکل مفت ہوتا۔ اخراجات کی تکمیل اُن اوقاف سے ہوتی جو ان کے لیے قائم کیے جاتے۔[38] وقف ناموں میں صراحت ہوتی کہ بیمارستان کے دروازے چوبیس گھنٹے ہر ایک کے لیے کھلے رہیں گے اورسب کا مفت علاج ہوگا۔ المنصوری بیمارستان کے وقف نامے کی یہ عبارت بیمارستانوں کے تاریخی تذکروں میں عام طور پر نقل کی جاتی ہے:

’’بیمارستان تمام مریضوں کو خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، اس وقت تک اپنے پاس رکھ کر ان کی نگہداشت کرے گا جب تک وہ مکمل شفایاب نہ ہوجائیں۔ اس دوران ان کے تمام اخراجات بیمارستان کے ذمے ہوں گے خواہ مریض قریب سے آئیں ہوں یا دوردراز سے، مقامی ہوں یابیرون ملک کے، طاقتور ہوں یاکم زور ہوں، اونچے طبقات کے ہوں یانچلے، امیر ہوں یاغریب، روزگار سے وابستہ ہوں یابے روزگار، اندھے ہوں یا آنکھ والے، پڑھے لکھے ہوں یا جاہل، جسمانی عوارض میں مبتلا ہوں یا ذہنی۔ کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیاجائے گا اورنہ اس کا کوئی اشارہ ہی کیا جائے گا۔ یہ ساری خدمت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے انجام پذیر ہوگی جو سب سے زیادہ فیاض ہے۔‘‘[39]

گویا بیمارستان مکمل فلاحی ادارے تھے۔مریضوں کے علاج کے علاوہ ان کو صحت مند غذا فراہم کی جاتی۔ کپڑے فراہم کیے جاتے۔ گوشت،ترکاری،پھل،میوہ جات پر مشتمل مکمل صحت بخش غذا ہوتی۔ یہی نہیں، بلکہ اس کی تیاری میں مریض کے ذوق اور اس کی غذائی عادات کا بھی لحاظ رکھا جاتا۔مریضوں کے لیے کھیل کود اور تفریح کے بھی انتظامات ہوتے۔ بعض بیمارستانوں کے اوقاف میں یہ انتظام بھی ہوتا کہ مریض کے قیام کے دوران بیمارستان کی جانب سے اس کےاہل خانہ کو راشن فراہم کیا جائے اور جب مریض رخصت ہو تو کچھ دورانیے تک اس کے گھر کاخرچ اس کودیا جائے۔[40]

بیمارستانوںمیں غیرمسلم مریض بھی ہوتے اورغیر مسلم ٖڈاکٹر بھی۔بلکہ اکثر بیمارستانوں میں یورپ کے پڑھے لکھے لوگوں کو بلانے اور انھیں ٹریننگ دینے کے باقاعدہ انتظامات تھے تاکہ وہاں بھی ایسے ادارے قائم ہوسکیں۔[41] چناں چہ یہ بات متعدد یورپی مورخین نے لکھی ہے کہ یورپ میں اسپتالوں کا فروغ بیمارستانوں ہی کامرہون منت ہے۔ [42]

خواتین کے علاج کے لیے عام طور پرخواتین طبیب ہی ہوتیں۔بعض خواتین طبیب غیرمعمولی مہارت و صلاحیت کی حامل ہوتیں تو وہ حسب ضرورت مناسب حدود میں مردوں کابھی علاج کرتیں۔[43] 1627 عیسوی میں بیمارستان منصوری کی سربراہ ایک خاتون طبیب ست الملوك بنت شہاب الدین بنیں اور مشیخة الطب (ملک کے چیف میڈیکل آفیسر) کے عہدے پر فائز ہوئیں۔[44]

بیمارستانوں میں اطبا کی تعلیم و تربیت اور نگرانی کا بڑا سخت انتظام رہتا۔ مناسب ٹریننگ کے بغیر علاج کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر منع فرمایا ہے۔اس کی تعمیل میں اناڑیوں اور عطائیوں کی ہمت شکنی کی جاتی اور انھیں کڑی سزائیں دی جاتیں۔ حسبہ (احتساب) کا آزاد ادارہ بیمارستانوں کا اور اطبا کے رویوں کا باریکی سے آڈٹ کرتا اور ان کے کا م کی سخت نگرانی کرتا،[45] بلکہ اسپتال میں ہونے والی ہر موت کی تحقیق ہوتی اور اگر طبیب کی لاپروائی یا غلط علاج ثابت ہوتا تو طبیب سے خوں بہا وصول کیا جاتا۔[46]  پیشہ ورانہ تربیت کے علاوہ اطبا کی دینی اور اخلاقی تربیت بھی مسلسل ہوتی رہتی۔ [47] عام طور پر بڑے اطبا دینی علوم کے بھی ماہر ہوتے۔ابن رشد طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ مالکی مسلک کے مشہور فقیہ بھی تھے۔[48]  اسلامی تاریخ کے مشہور طبیب ابن نفیس، بیمارستان نوری میں آنے سے پہلے قاہرہ میں شافعی فقہ کے استادتھے۔[49] رازی،[50] بو علی سینا، [51]  جیسے مشہور اطبا قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر اسلام علوم میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے جس کا اظہار ان کی تحریروں سے ہی ہوجاتا ہے۔ موسی بن میمون (Maimonides) بیمارستان میں خدمات انجام دینے والا مشہور یہودی طبیب تھا لیکن اس نے بھی دینی اور شرعی علوم میں مہارت حاصل کررکھی تھی۔[52] چناں چہ یہ اطبا علاج معالجے میں نہ صرف اسلام کے اخلاقی اصولوں کا بھرپورلحاظ رکھتے بلکہ علاج کے جن روحانی،جذباتی اور ماحولیاتی پہلوؤں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کا بھی بھرپور لحاظ رکھتے۔

ان بیمارستانوں میں اسلامی اخلاقی اصولوں پر لازمی طور پرعمل کیاجاتا۔ مردو ں،عورتوں کے علاحدہ وارڈہوتے۔ ستر کی حفاظت اور پرائیویسی کے احترام کا ممکنہ حد تک لحاظ رکھا جاتا۔ طبیب علاج کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی اورتوبہ واستغفار کی تلقین کرتے۔ مریضوں کے اندر صبر، شکر اور توکل کے جذبات کو فروغ دینے کی مسلسل کوشش کی جاتی۔مرنے والے مریضوں کے لیے خاتمہ زندگی سے متعلق جواصول (end of life protocol)طے تھے ان میں تلاوت،دعا، وصیت کی یاددہانی، توبہ کی تلقین اور تجدید ایمان کی تلقین جیسے امور لازمی طور پرشامل رہتے۔ نماز گاہ اور باجماعت نمازوں کا اہتمام رہتا۔ جو مریض نماز گاہ نہیں جاسکتے ان کو ان کے بیڈ ہی پرنمازکی ادائیگی کی سہولت رہتی۔اسٹاف، وضو اور نمازمیں مریضوں کی خاص طور پرمددکرتا۔[53]  جن بیمارستانوں میں غیرمسلم مریضوں کی آمد رہتی وہاں ان کے لیے بھی عبادت کے علاحدہ انتظامات رہتے۔ [54]

اسلامی نظام صحت و علاج کی شہادت: دور حاضر میں

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاخانے کااسلامی ماڈل، مروج مغربی ماڈل سے کافی مختلف ہے۔ اسلامی تحریکوں اور مسلمانوں کی جانب سے چلائے جارہے شفاخانوں کا کام صرف مغربی ماڈل کی نقالی کرتے ہوئے ’خدمت‘تک محدود نہیں ہوسکتا۔ اصلاً انھیں منفرداسلامی ماڈل کوممکنہ حد تک بروئے کار لانا ہے اور اس کی برکت و افادیت کی عملی شہادت دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔آج کے حالات میں یہ ماڈل کیا ہوسکتا ہے،اس پرغور کرنا اصلاًمتعلق شعبے کے ماہرین کا کام ہے۔ اس موضوع پرگراں قدر علمی کام کرنے والے اور اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز طبیب،احمد القاضی (1940-2009)نے ہاسپٹل کے اسلامی اصولوں کےمطابق ہونے کے لیے چھ شرائط بیان کی ہیں۔ اعلیٰ معیار کا حامل ہونا، اسلامی عقیدے اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری، کلی صحت کے تصور کے مطابق جسم، روح، جذبات اور ماحول پریکساں توجہ، آفاقیت یعنی کسی عصبیت کے بغیر تمام مفید چیزوں اور طریقوں کاعلاج کے لیےاستعمال اور تمام انسانوں کو بلا تفریق فائدہ، سائنٹفک یعنی صرف ٹھوس ثابت شدہ طریقوں پرانحصار اور چھٹی شرط معقول اوردرست سمت کاحامل ہونا ہے۔[55]

اس رخ پربعض ملکوںمیں کام بھی ہورہا ہے۔ ملیشیا میں وہاں کے اسلامی اسپتالوں نے شریعت سے مطابقت رکھنے والے اسپتال (shariah compliant hospital – SCH)اور عبادت دوست اسپتال (ibadah friendly hospital – IFH)کے نام سے تفصیلی معیارات طے کیے ہیں۔[56]  انڈونیشیامیں باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں ایکریڈیشن پروگرام (shariah hospital accreditation progarmme)چل رہاہے۔[57]  ڈاکٹرو ں کی اسلامی تنظیموں کی عالمی وفاق فیما (Federation of Islamic Medical Associations)اس سلسلے میں مسلسل کام کررہی ہے اور کئی گائیڈ لائن جاری کرچکی ہے۔[58] برطانیہ میں ڈاکٹروں کی اسلامی تنظیم (British Islamic Medical Association – BIMA)کے جرنل میں مسلسل ایسے مقالے شائع ہورہے ہیں جن سے اس سلسلے میں تفصیلی رہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔[59] ہندوستان کے احوال میں بھی ایسے رہ نما خطوط کی ضرورت ہے۔

ہمارے خیال میں، ہندوستان کے احوال میں خاص طور پردرج ذیل امور قابل توجہ ہیں۔ان میں سے جہاں جوممکن ہو اسے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔

معیاری اورعلمی لحاظ سے ثابت شدہ طریقہ علاج کی پابندی: طبیب احمد القاضی کے مذکورہ بالا پیمانے میں یہ پہلی اور اہم شرط ہے۔ ہندوستانی مسلم معاشرے میں اس وقت جہالت و پسماندگی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عطائی،نیم حکیم اور جعلی سائنسی (pseudoscience)طریقوں کا رواج ہے۔ اسپتالوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان توہمات کی ہمت شکنی کریں اور ٹھوس ثابت شدہ طریقہ ہائے تشخیص و علاج کو عام کریں۔ ایلوپیتھی،یونانی، ایورویدا،ہومیوپیتھی وغیرہ مختلف طریقہ ہائے علاج کے درمیان دینی نقطہ نظر سے کسی تفریق کاکوئی محل نہیں ہے البتہ شرعاًیہ ضروری ہے کہ جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے وہ ٹھوس علمی طریقوں سے ثابت شدہ ہو اور اس کوپریکٹس کرنے والا باقاعدہ تربیت یافتہ،اجازت یافتہ (certified)اور ضروری مہارت کاحامل ہو۔ اس وقت اسپتالوں میں عام پریکٹس میڈیکل سائنس کے مسلمہ اصولوں سے منحرف ہوکر لاپروائی،جلد بازی اور فوری منفعت کے محرکات کے تابع ہوچکی ہے اور ہمارے ملک میں میڈیکل پریکٹس سب سے زیادہ غیر منضبط (unregulated)شعبوں میں سے ایک ہے۔ مسلمان اسپتالوں کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اگر حکومتیں انھیں جواب دہ نہ بھی بناسکیں تب بھی بہرحال وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہیں اور اس مقدس پیشے کو پورے احساس ذمے داری، حساسیت اور توجہ کے ساتھ نبھانا ان کا شرعی فریضہ ہے۔ مسلمان اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی یہ شبیہ بننی چاہیے کہ ان کے یہاں معیاری علاج ہوتا ہے اور سب سےز یادہ احتیاط و توجہ کے ساتھ تمام متعلق اصولوں کی پابندی ہوتی ہے۔

 جذباتی و روحانی پہلو: یہ بھی ضروری ہے کہ علاج کے جذباتی اور روحانی پہلوؤں کو بھی باقاعدہ نظام علاج کا حصہ بنایا جائے۔علاج کرنے والے صبر،شکر اور توکل کی تلقین کے ذریعے مریض کو جذباتی لحاظ سے مضبوط و مستحکم بنائیں۔ دوا اور علاج کے مروج طریقوں کے ساتھ دعا،تلاوت قرآن، دم وغیرہ کے مستند طریقوں کو بھی باقاعدہ برتیں۔یہ سب طریقے شرعی نصوص سے ثابت ہیں اور اب میڈیکل سائنس کی معاصر تحقیقات سے بھی ان طریقوں کی افادیت ثابت ہورہی ہے۔[60]

صحت و علاج کے کلی تصور کا تقاضا ہے کہ علاج ہی میں نہیں بلکہ مرض کی تشخیص میں بھی روحانی و جذباتی پہلوؤں کا لحاظ ہو۔ اس لیے کہ مرض کے اسباب میں صرف جسمانی اسباب ہی کا دخل نہیں ہوتا بلکہ روحانی اور جذباتی اسباب بھی اسلامی تصور کے مطابق اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سمت میں مسلمان ڈاکٹروں کوبہت کچھ کام کرنا بھی باقی ہے اور جو کچھ کام ہوسکا ہے اس کے عملی استعمال اور اطلاق کی راہیں بھی ڈھونڈنی ہیں۔

نفسیاتی معالجین (psychologists)اکثراسپتالوں میں موجودہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں عام طور پر ان کا رول بہت محدود ہوتا ہے۔ صرف خالص ’دماغی‘ یا ’نفسیاتی‘ امراض کے شکارمریضوں سے ان کا واسطہ ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ان کا کردار زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ ہر بیماری کے علاج میں وہ ڈاکٹروں کی ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہمارے خیال میں صحت و علاج کے اسلامی کلی تصور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر بڑے اورکہنہ مرض کے علاج میں تربیت یافتہ ماہرین نفسیات معالجین کی ٹیم کا حصہ ہوں اور اسلامی نقطہ نظر سے جذباتی علاج کوعلاج کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ اب اسلامی نفسیاتی علاج (Islamic psychotherapy)ایک مستقل شعبے کے طور پر ابھررہاہے۔اس کی پریکٹس عام ہو تو اس شعبے میں اور زیادہ تیز رفتار ترقی ممکن ہوسکتی ہے۔

مذہبی مشیروں کی خدمات: مغربی ملکوں میں اسپتالوں میں باقاعدہ مذہبی مشیر (hospital chaplains)مقرر کرنے کی روایت رہی ہے۔ اس کااستعمال کرتے ہوئے برطانیہ، آسٹریلیا،امریکہ،کناڈا وغیرہ ملکوں میں مسلمانوں نے اسلامی مشیروں(Muslim hospital chaplain) کا بھی رواج عام کیاہے۔[61] یہ مشیر اسپتال کے عملے کا باقاعدہ حصہ ہوتے ہیں اور مریضوں کی دینی تربیت کرتے ہیں۔ باجماعت نماز پڑھاتے ہیں۔ جو مریض جماعت میں نہیں آسکتے ان کی بھی نمازکی ادائیگی میں مدد کرتے ہیں۔ تلاوت قرآن اور دعاؤں کے ذریعے ان کے جذباتی اور روحانی علاج میں تعاون کرتے ہیں۔خودانہیں تلاوت، ذکر وغیرہ کے سلسلے میں رہ نمائی کرتے ہیں۔ صبر، توکل،شکر وغیرہ کی تذکیر کرتے رہتے ہیں۔[62] متعدد میڈیکل تحقیقات موجود ہیں کہ ان مشیروں کی خدمات نے آئی سی یومیں شرکت کی شرح کم کردی ہے، علاج کی رفتار بڑھادی ہے اور مریض کوسکون فراہم کرکے اس کی قوت مدافعت میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔[63] کوئی بری خبر سنانی ہو تو یہ کام بھی عام طور انھیں مشیروں کے ذمے ہوتا ہے۔کسی کی موت کا وقت قریب آجائے تو یہ مشیر پورا چارج لےلیتے ہیں اور قبل از مرگ کی اسلامی تعلیمات کو برتنے میں مریض کی مددکرتے ہیں۔[64]  اکثر ایسے مشیر علمائے دین ہوتے ہیں۔ [65] مغربی ملکوں میں ان کی ٹریننگ کے باقاعدہ کورس جاری ہیں۔ [66] ہمارے ملک میں بھی، مسلمانوں کے اسپتالوں میں اس طرح کی خدمات فراہم کی جاسکتی ہیں۔

 اسلامی طبی اخلاقیات پر عمل:  صحت و علاج کے سلسلے میں اسلام کے اپنے اخلاقی اصول ہیں۔ ان اخلاقی اصولوں پر اسپتالوں میں سختی سے عمل ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں سب سے اہم مطلوب اصول تو صحت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر مروج کرپشن سے پرہیز کا اصول ہے۔ مسلمانوں کے اسپتالوں کی معاشرے میں یہ تصویر بننی چاہیے کہ یہاں ڈاکٹر کسی صورت میں فارمیسی کمپنیوں سے، ڈائگناسٹک سینٹروں سے، ایم آر وغیرہ سے نہ کمیشن لیتے ہیں اور نہ مشروط تحفے قبول کرتے ہیں۔ [67] اسپتال میں نہ کوئی غیر ضروری جانچ کرائی جاتی ہے نہ غیر ضروری سرجری کرائی جاتی ہے نہ غیر ضروری طور سے کسی مخصوص برانڈ کی مہنگی دوائیں کسی مخصوص فارمیسی سے لینے پر اکسایا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی ڈاکٹر اپنے مریض کو اپنے ذاتی اسپتال کی طرف متوجہ نہیں کرتا۔غرض ایسے تمام اخلاقی اصولوں کا خیال کیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ طب و صحت کے شعبے میں اسلام کے اپنے امتیازی اخلاقی اصول اور اقدار بھی ہیں۔ان کی پابندی بھی ان اسپتالوں کا امتیاز بننا چاہیے۔ مریضوں، نرسوں، ڈاکٹروں،اسپتال کے عملے وغیرہ سب میں صنفین کے درمیان رابطے کے اسلامی حدود کی پابندی ہو اور اس کے معقول انتظامات اسپتال میں میسر ہوں۔ مریضوں کے ستر کا ممکنہ حد تک احترام ہو۔اسقاط حمل،مصنوعی تولید،اعضاکے ڈونیشن اور ٹرانسپلانٹیشن، مشینوں کی مدد سے زندگی جاری رکھنے کا نظام (life support system)کاسمیٹک سرجری وغیرہ جیسے متعدد امور ہیں جن میں اسلامی شریعت کےبعض احکام مروجہ طریقوں سے ٹکراتے ہیں۔ مسلمانوں کے اسپتالوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان سب معاملات میں اسلام کے احکام سے واقف بھی ہوں اور ان کی پابندی بھی کریں۔[68]

 ڈاکٹروں اور اسٹاف کی مسلسل تربیت کا اہتمام: مسلمانوں کے شفاخانوں میں اسٹاف کی مسلسل ٹریننگ کا نظام ہونا چاہیے۔انھیں صحت و مرض کے اسلامی تصورات سے روشناس کرایا جانا چاہیے۔ مروج مغربی بایو میڈیکل ماڈل اور دیگر طریقہ ہائے علاج کے مثبت و منفی پہلوؤں اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کی خامیوں سے باخبر کرایا جانا چاہیے۔اس وقت علاج کے جو بہتر سے بہتر طریقے موجود ہیں ان کے اچھے پہلوؤں سے استفادہ ضروری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اسلامی نقطہ نظر سے تحقیق و ریسرچ اور نئے بہتر طریقوں کی دریافت و ایجاد کے لیے مسلسل کوشش بھی مسلمان ڈاکٹروں کی ذمے داری ہے۔ ہمارے طبی مراکز اس سمت میں نئی دریافتوں اور نئی ایجادات کے بھی مراکز بنیں، اس کی کوشش ہونی چاہیے۔اسٹاف کی اس پہلو سے بھی ٹریننگ ہونی چاہیے کہ طبی خدمت ایک مقدس کام ہے۔اسےمحض آمدنی کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ انسانوں کی بے لوث خدمت، ان کی دعاؤں کے حصول اور اللہ کی خوشنودی کا بھی وسیلہ ہونا چاہیے۔اس جذبے کی وجہ سے ہمارے اسپتالوں کے اسٹاف کی لگن، جذبہ خدمت،ہمدردی وغیرہ دوسرے اسپتالوں سے ممتاز ہونی چاہیے۔ ڈاکٹروں اور اسٹاف کو بھی مرض و علاج کے روحانی و جذباتی پہلوؤں کی ٹریننگ ملنی چاہیے تاکہ وہ بھی مسلسل تذکیر و تلقین اور ذکر و دعا جیسے ذرائع کو بھی استعمال کریں۔

 اسپتال کا مجموعی ماحول: اسپتال کامجموعی ماحول، آرکٹیکچر، ڈیزائن،سہولیات وغیرہ بھی اسلامی تہذیب، اسلامی اقدار اور اسلامی شریعت کی نمائندگی کرنے والے ہونے چاہئیں۔مثلاً اسپتال میں نماز گاہ ضرور ہونی چاہیے۔وضو کی سہولت ہونی چاہیے۔ قرآن کے نسخے ہر وارڈ میں آسانی سے دستیاب ہوں۔قبلے کی سمت کی نشان دہی ہو۔ مردوں اور عورتوں کے انتظامات الگ الگ ہوں اور کسی بھی جگہ ان کے غیر محتاط اختلاط اور باہم دھکم پیل کی نوبت نہ آئے۔جگہ جگہ ایسے دیدہ زیب چارٹ آویزاں کیے جاسکتے ہیں جن سے اسلامی تصورات کی مسلسل یاددہانی ہوسکے۔مسلمان مریضوں کے لیے دھیمی آواز میں قرآن کی تلاوت اور فرحت بخش نغموں کی آواز کا اہتمام ہوسکتا ہے۔تذکیر و تلقین کے اجتماعی پروگراموں کا سلسلہ ہوسکتا ہے۔ صفائی کا انتظام بہت بلند معیار کا ہو۔[69]

 احتیاطی تدابیر: اسلامی نظام صحت میں علاج کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے زیادہ زورحفظان صحت اور احتیاطی تدابیر پرہے۔ اسلامی تاریخ میں بیمارستانوں نے معاشرے میں نہ صرف حفظان صحت اور صحت عامہ (public health)کے شعور کو عام کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے بلکہ اس سلسلے میں پورے سماج کی مدداور سماج کے لیے سہولت کنندہ (facilitator)کا بھی کردار ادا کیا ہے۔[70] افراد تحریک کی جانب سے چلائے جارہے متعدد اسپتال یہ کردارموجودہ زمانے میں بھی ادا کررہے ہیں اور میڈیکل کیمپوں، بیداری مہمات اور خصوصی لیکچروں وغیرہ کےذریعے عوام میں بیداری لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اس کوشش میں اور وسعت اور تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ متوازن غذا، جسمانی ورزش، سونے جاگنے میں مناسب ڈسپلن، صحت کی بروقت جانچ اور علاج پر توجہ وغیرہ جیسے امور کے سلسلے میں مسلمانوں میں کافی غفلت اور لاپروائی عام ہے۔ اسپتال اس حوالے سے ٹھوس سماجی تبدیلی کو اپنا ہدف بناسکتے ہیں۔سب سے زیادہ ضروری صفائی اور طہارت سے متعلق سماجی تبدیلی ہے۔طہارت و پاکیزگی اسلام کے امتیازی اصولوں کا حصہ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے مطابق اسلام کے چار بنیادی اخلاقی اصولوں (اخلاق اربعہ) میں سے ایک ہے۔ [71]لیکن اس وقت مسلمانوں کی عام تصویر اس اصول کے بالکل علی الرغم ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام تو یہی ہونا چاہیے کہ خود اسپتال کا ماحول اسلام کے تصور طہارت کا مظہر ہونا چاہیے۔ اسلام عبادت کے لیے مطلوب طہارت (حدث اصغر و اکبر سے پاکی، استنجا کے اصول، مسواک اور منھ کی صفائی، ہاتھ دھونے کے اصول وغیرہ) پر بھی زور دیتا ہے اور ظاہری عام نظافت  (فرش کی صفائی، راستوں کی صفائی، کپڑوں کا پاک ہونا، جسم میں یاماحول میں کہیں بدبو نہ ہونا بلکہ خوشبو ہونا وغیرہ) پر بھی اصرارکرتا ہے۔[72]  اسپتال کے جملہ افعال (SOPs)اور اس کے ماحول میں ان باتوں کا لحاظ ہونا چاہیے۔ اس سے اسلام کے اس اہم اصول کی شہادت بھی ہوگی اور عوام کی تربیت اور سماجی تبدیلی میں بھی مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ عوامی بیداری کے موضوعات میں بھی اسی اہمیت کے ساتھ اسے شامل کیا جانا چاہیے۔

 فیضان عام ہو:  ان اسپتالوں کو ہر فرقے اور طبقے کے لیے نہ صرف کھلا ہونا چاہیے کہ بلکہ ہر ایک کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہاں ان کا پورا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کے جذبات و احساسات اور ان کی پسند ناپسند کاخیال رکھتے ہوئے ان کے علاج کا انتظام ہوتا ہے۔ غیر مسلموں کو نہ تو کسی تفریق کا سامنا کرنا پڑے اور نہ کسی اجنبیت کا احساس ہو۔ دلتوں،آدیباسیوں اور سماج کے کم زور اور پسماندہ سمجھے جانے والے طبقات سے متعلق مریضوں کو بھی برابری اور عزت و احترام اور تکریم آدمیت کا منفرد احساس ان اسپتالوں میں ہونا چاہیے۔ اوپر اسلامی اصولوں کی جو بحث کی گئی ہے وہ اسپتال کا امتیاز ضرور بنیں لیکن ان اصولوں کو زبردستی کسی پر تھوپنا نہ اسلام میں مطلوب ہے اور نہ یہ کبھی اسلامی اداروں کا طریقہ رہا ہے۔ غیر مسلموں کو مناسب حدود میں اپنی قدروں اور طرز زندگی کے مطابق کھانے پینے کی سہولت حاصل رہنی چاہیے(مثلاً جولوگ ویجیٹیرین کھانا چاہیں)۔ انفرادی طور پر وہ اپنے عقیدے کےمطابق عبادت کرنا چاہیں یا دعا وغیرہ کرناچاہیں تو جیساکہ واضح کیاگیا،اس کے مواقع بھی اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے اسپتالوں میں فراہم کیے جاتے رہے۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں کا کوئی اسپتال اپنی جانب سے کیا سہولتیں فراہم کرسکتا ہے؟ اور اس کے کیاحدود ہوسکتے ہیں؟ اس پر فقہا مزید تفصیلی رہ نمائی فراہم کرسکتے ہیں اور اس کی روشنی میں ضروری ضوابط بنائے جاسکتے ہیں۔

 اسپتال کا رفاہی اور فلاحی کردار:  اسلامی اسکیم میں اسپتال اصلاً ایک فلاحی اور رفاہی ادارہ ہے اور علاج ہر انسان کا حق ہے۔ اسے کمرشیل ادارہ بنانا اور سرمایہ کاری اور نفع کی اساس پر اس کےقیام کامعاصر رجحان، اسلامی تہذیب کےلیے ایک اجنبی تصور ہے لیکن بہر حال موجودہ دنیا میں تدریج کے ساتھ ہی آئیڈیل کی طرف بڑھا جاسکتا ہے اور کمرشیل اسپتالوں سے مکمل گریز یا فلاحی اسپتالوں کو مکمل طور پر مفت کردینا نہ تو ممکن ہے اور نہ تمدنی امور میں ایسی اچانک تبدیلی اسلام کا منشا رہی ہے۔ لیکن اس آئیڈیل کی سمت آگے بڑھنے کے لیے موجودہ دور میں کم سے کم دو باتیں ہونی چاہییں۔ پہلی بات تو یہ کہ فیس اور خرچ کم سے کم ہو، بس اس حد تک کہ معیاری سہولتوں اور خدمات کی فراہمی ممکن ہوسکے اورارکان عملہ اور سرمایہ کاروں (اگر کمرشیل ہاسپٹل ہو تو) کو ضروری معاوضہ مل سکے اور اسے بے پناہ نفع خوری کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے اور دوسرے یہ کہ اس بات کے انتظامات ضرور موجود ہوں کہ کوئی انسان بھی محض غربت کی وجہ سے علاج سے محروم رہنے نہ پائے۔اس کے لیے اوقاف کی تشکیل، چیریٹی فنڈ کا قیام اور کمرشیل ہاسپٹلوں میں منافع کا ایک حصہ مختص کردینا، ہر اسپتال کے پروگرام میں لازماًشامل ہو۔ موجودہ دور میں علاج کے خرچ کی تکمیل کاایک آسان راستہ ہیلتھ انشورنس ہے۔ کمرشیل انشورنش کی مروج سرمایہ دارانہ شکل اسلامی تصورات سے میل نہیں کھاتی۔ تکافل کے اسلامی تصورکے مطابق انشورنس کی بعض شکلوں کو عام کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔مناسب شرعی رہ نمائی میں ایسی مستند اسکیمیں سامنے آتی ہیں تو ان کا بھرپور تعاون ہونا چاہیے۔لیکن ہمارے خیال میں اصل اسلامی ماڈل وقف کی بنیادوں پربننے والا مکمل مفت خدمات کا ماڈل ہے۔ اس ماڈل کی سمت جس حد تک بھی اور جہاں بھی پیش رفت ممکن ہوسکے اس کی لازماً کوشش ہونی چاہیے۔

اسپتال سمیت تمام فلاحی اداروں کے مطلوب مالیاتی ماڈل کی بحث پرایک مستقل مضمون لکھنے کا ارادہ ہے۔اس وقت ان شاء اللہ اخراجات اور مالی امور پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔

اس بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان اسپتالوں کو اسلام کے نظام صحت سے خود کو ہم آہنگ کرنے اوراسلام کی عملی شہادت کا ذریعہ بننے کی سمت میں بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔ بلکہ تحریک اسلامی کے زیر انتظام شفاخانے بھی اس مطلوب معیار سے کئی پہلوؤں سے کافی فروتر ہیں۔ اس سلسلے میں یقینا بہت سی عملی مشکلات، دشواریاں اور رکاوٹیں بھی درپیش ہیں۔ لیکن بہر حال یہ ان اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس رخ پر آگے بڑھنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔ اگر مطلوب ماڈل کا تصور ذہن میں واضح ہو تو عملی رکاوٹوں پر قابو پانے اور ا س اسپرٹ کو بروئے کار لانے کے نئے اور انوکھے طریقے اورقابل عمل حل بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے زیر انتظام اسپتالوں کا وژن یہی ہونا چاہیے کہ ہمارے دور میں بھی ‘ بیمارستان’ کے اُس تصور کا احیا ہوسکے جس کے تحت اسپتال مریض کی ’پناہ گاہ‘ اور اس کو مکمل ذہنی، قلبی، روحانی، اور جسمانی سکون و آرام فراہم کرنے والا مرکز تھا۔ ایسے چند مراکز بھی قائم کرنے میں ہم کام یاب ہوجائیں تو یہ اسلامی نظام زندگی کی بہت طاقت ور شہادت ہوگی۔

 حواشی و حوالہ جات

[1] اس موضوع پر کچھ مفید مقالات کا مجموعہ جس سے صحت و علاج اوراسپتالوں کے اسلامی تصور سے متعلق اب تک کی تحقیقات اور تصورات کے بارے میں مفید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

Athar, Shahid. 1996. Islamic Perspectives in Medicine: A Survey of Islamic Medicine, Achievements and Contemporary Issues. Indianapolis: Kazi Publications.

[2] صحیح البخاری: کتاب المرضی اور کتاب الطب،صحیح مسلم: كتاب السلام؛ سنن ابوداود،سنن ابن ماجه،سنن ترمذی: كتاب الطب

[3] صحیح البخاری ؛ کتاب الطب؛ ( 5678) رواہ ابوہریرۃ

[4] صحیح البخاری ؛ کتاب الرقاق؛ ( 6412) رواہ ابن عباس

[5] أحمد (٤/ ٢٧٨)ابن ماجه (٣٤٣٦)؛صححه الألبانی فی غایة المرام (١٧٩)

[6] صحیح مسلم (5741) کتاب السلام،باب باب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابُ التَّدَاوِی؛ رواہ جابر

[7] صحیح البخاری(5705)؛ کتاب الطب،باب من اکتویٰ۔۔؛ رواہ عمران بن حصین

[8] صحیح البخاری(5675)؛ کتاب المرضی،باب دُعَاءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِیضِ ؛روتہ عائشۃؓ

[9] تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو: ابن قیم الجوزیۃ; زاد المعاد؛ دارالکتاب العربی؛بیروت؛ 2005

[10] صحیح البخاری(5643) کتاب المرضی،باب: باب ما جاء فی کفارۃ المرض؛ ؛ رواہ کعبؓ

[11] صحیح البخاری(5648) کتاب المرضی،َاشَدُّ النَّاسِ بَلاَءً الأَنْبِیاءُ ;رواہ عبد اللہ بن مسعودؓ

[12] صحیح البخاری(5645) کتاب المرضی،باب: باب ما جاء فی کفارۃ المرض؛ ؛ رواہ ابوہریرہؓ

[13] اس موضوع پرایک مفید کتاب: مولانا سید جلال الدین عمری؛ صحت ومرض اوراسلامی تعلیمات؛مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی؛ 2015

[14] ابن ماجه (2340)، البیهقی (11999) صححہ الالبانی (صحیح ابن ماجہ 1909)

[15] سنن الترمذی (1784) باب الْعَمَائِمِ عَلَى الْقَلاَنِسِ؛ حسنہ الالبانی “الإرواء” (5/329)

[16] عصری تناظر میں اسلام کے کلی تصور صحت کو سمجھنے کے لیے ایک مفید مقالہ:

Rahman, Mohammad Tariqur. 2023. “Health and Healing in Islam: Links and Gaps with (Post)modern Practices.” Health and Healing in Islam: Links and Gaps with (Post)modern Practices.

[17] World Health Organization. “Constitution.” https://www.who.int/about/governance/constitution.

[18] Ibid.

[19] Stefanicka, et al. 2023. “Personalised Medicine: Implementation to the Healthcare System in Europe.” Journal of Personalized Medicine 13 (3): 380.

[20] أبو حامد محمد بن محمد الغزالی;إحیاء علوم الدین;دار المعرفة – بیروت ج 1 ص16-17 ;بیان العلم الذی هو فرض كفایة

[21] سنن ابو داود(4586) سنن ابن ماجہ(3466) حسنہ الالبانی (سلسلة الاحادیث الصحیحة 635)

[22] قاہرہ اعلامیہ برائے اسلام اور حقوق انسانیCairo Declaration of Human Rights in Islam CDHRI 1990جو اسلام میں حقوق انسانی کے تصور کے بارے میں مسلمان ملکوں کے عالمی اتفاق رائے کوظاہر کرتا ہے، اس میں صحت و علاج کو ہر فرد کابنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

Organization of Islamic Cooperation. 1990. Cairo Declaration of Human Rights in Islam (CDHRI). Articles 18, 6(b), 6(d). Accessed February 15, 2025. https://www.oic-oci.org/upload/pages/conventions/en/CDHRI_2021_ENG.pdf.

نیز اسلام میں صحت کے ایک حق ہونے کے تصور پر ایک اہم مقالہ:

https://al-furqan.com/ar /الصحة-حقاً- من-حقوق-الإنسان/

[23] ابن سعد ; الطبقات الكبرى; جزء: 8 بیروت: 1990 دار الكتب العلمیة، ص 226–227 ؛ وصححہ الألبانی (السلسلة الصحیحة، 1128)

[24] أحمد شوقی الفنجری؛رفیدة (أول ممرضة فی الإسلام)؛دار القلم؛کویت؛ 1925

[25] Dawer, Aleena. 2020. “The First Female Surgeon: Rufaida Al-Aslamia.” MedSoc Talk, July.

[26] Farag, F. R. 1978. “Why Europe Responded to the Muslims’ Medical Achievements in the Middle Ages.” Arabica 25 (Fasc. 3): 292.

[27] المعجم العربی الجامع؛ البِیمارَسْتانُ

[28] Ragab, Ahmed. 2015. The Medieval Islamic Hospital: Medicine, Religion and Charity. Cambridge: Cambridge University Press. 22-23.

[29] Hamarneh, S. K. 1983. Health Sciences in Early Islam. 2 vols. Edited by M. A. Anees. Vol. I. Noor Health Foundation and Zahra Publications. 102.

[30] Hamarneh, S. K. 1983. Health Sciences in Early Islam. 2 vols. Edited by M. A. Anees. Vol. I. Noor Health Foundation and Zahra Publications. 101-02.

[31] الدُّكْتُور أَحمد عِیسى؛ تاریخ البیمارستانات فی الإسلام؛دار الرائد العربی، بیروت – لبنان ص 224-229

[32] Youssef, Mona. 2015. “Bimarstan al-Mansouri.” Hektoen International, Winter.

[33] Porter, Roy. 1997. The Greatest Benefit to Mankind. London: Harper Collins. 103.

[34] Miller, A. C. 2006. “Jundi-Shapur, Bimaristans, and the Rise of Academic Medical Centres.” Journal of the Royal Society of Medicine 99 (12): 615–617.

[35] امریکہ کے مختلف شہروں میں اسپتالوں اوراہسپتال بستروں کی تعداد کے ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی دورمیں تمدن ترقی کے کس مقام پر تھا:

https://advisorsmith.com/data/cities-with-the-most-and-least-icu-beds

[36] اس دور کے اسلامی اسپتالوں کی تفصیلات کے لیے درج ذیل دوکتابیں بہت مفید ہیں اور بڑی چشم کشامعلومات فراہم کرتی ہیں:

  • Hamarneh, S. K. 1983. Health Sciences in Early Islam. 2 vols. Edited by M. A. Anees. Vol. I. Noor Health Foundation and Zahra Publications.
  • Ragab, Ahmed. 2015. The Medieval Islamic Hospital: Medicine, Religion and Charity. Cambridge: Cambridge University Press.

[37] Tschanz, David W. 2022. “Bimaristan and the Rise of Modern Healthcare System.” Aspetar Sports Medicine Journal 3 (2): 438-443.

[38] Iskandar, Iskanar. 2023. “Waqf Substantial Contribution Toward the Public Healthcare Sector in the Ottoman Empire.” Journal of Critical Realism in Socio-Economics (JOCRISE), April: 275-293.

[39] اس وقف نامے کا ریکارڈ مصر کے نیشنل آرکائیوز (دارالوثائق القومیة مصر) میں موجود ہے اور اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

الدكتور / أحمد عوف عبد الرحمن؛أوقاف الرعایة الصحیة؛كتاب الأمة – قطر؛جلد 1ص112-117

[40] Al-Ghazal, Sharif Kaif. 2007. The Origin of Bimaristans (Hospitals) in Islamic Medical History. Manchester, UK: Foundation for Science, Technology and Civilization (FSTC). 4-5.

[41] Miller, Andrew C. December 2006. “Jundi-Shapur, Bimaristans and the Rise of Academic Centres.” Journal of the Royal Society of Medicine (JRSM): 615–617.

[42] Tschanz, David W. 2017. “The Islamic Roots of the Modern Hospital.” Aramco World 68 (2): 22-29.

[43] Al-Ghazal, Sharif Kaf, and Marium Husain. 2021. “Muslim Female Physicians and Healthcare Providers in Islamic History.” Journal of the British Islamic Medical Association 7 (3): April.

[44] الدُّكْتُور أَحمد عِیسى؛ تاریخ البیمارستانات فی الإسلام؛دار الرائد العربی، بیروت – لبنان ص 164

[45] ایضاً ص 51-53

[46] Maravia, Usman, and Sharif Kaf Al-Ghazal. 2021. “Bimaristans: Services and Their Educational Role in Islamic Medical History and Their Influence on Modern Medicine and Hospitals.” Journal of the British Islamic Medical Association 8 (3): August.

[47] Ibid۔

[48] شمس الدین الذهبی؛ سیر أعلام النبلاء؛ مؤسسة الرسالة; ج 19 ص 501-503

[49] دكتور بول غلیونجی: ابن النفیس، سلسلة أعلام العرب، مطبوعات علما المسلمون، سوریا والدار المصریة للتألیف والترجمة، طبع مكتبة مصر بالفجالة، ص 78-80

[50] شمس الدین الذهبی؛ سیر أعلام النبلاء؛ مؤسسة الرسالة; ج 14 ص 355-356

[51] ایضاً ج 17 ص 532-536

[52] “The Influence of Islamic Thought on Maimonides.” In Stanford Encyclopedia of Philosophy, Spring 2010 Edition.

[53] Maravia, Usman, and Sharif Kaf Al-Ghazal. 2021. “Bimaristans: Services and Their Educational Role in Islamic Medical History and Their Influence on Modern Medicine and Hospitals.” Journal of the British Islamic Medical Association 8 (3): August.

[54] مثلاً المنصوری بیمارستان میں عیسائی مریضوں کی عبادت کی سہولتوں کے بارے میں ملاحظہ ہو:

Miller, A. C. 2006. “Jundi-Shapur, Bimaristans, and the Rise of Academic Medical Centres.” Journal of the Royal Society of Medicine 99 (12): 615-617.

[55] El-Kadi, Ahmed. n.d. “What is Islamic Medicine.” Accessed February 15, 2025. https://ppim.tripod.com/intro1.htm

[56] Yahaya, R. R. 2018. “What is Shariah Compliant Hospital Criteria and Scope?” International Journal of Academic Research in Business and Social Sciences 8 (5): 1057–1065.

[57] Hosen, H. M. Nadratuzzaman. 2024. “Regulation on Shariah Compliance for Hospitals in Indonesia.” International Journal of Human and Health Sciences (IJHHS), May: S29.

[58] ارشادات للمستشفیات الاسلامیۃ؛ الاتحاد العالمی للجمعیات الطبیۃ الاسلامیہ (فیما) available at https://fimaweb.net

[59] اس اہم جرنل کے شمارے درج ذیل لنک پر دستیاب ہیں: https://www.jbima.com

[60] Mayberry, John F. 2020. “Health, Prayer and Spirituality: A Review of the Muslim Contribution.” Journal of the British Islamic Medical Association 5 (2): August.

[61] امریکہ اور برطانیہ میں اس طرح کے مشیروں کے رواج کے سلسلےمیں ملاحظہ ہو:

Kowalski, M., and W. S. Becker. 2014. “A Developing Profession: Muslim Chaplains in American Public Life.” Contemporary Islam 9.
Mayberry, John F. 2019. “The Role of Muslim Chaplains in Health Care.” Journal of the British Islamic Medical Association 3 (9): London, December.

[62] Mayberry, John F. 2019. “The Role of Muslim Chaplains in Health Care.” Journal of the British Islamic Medical Association 3 (9): London, December.

[63] اس موضوع پرچند ٹھوس سائنسی تحقیقات:

Mat-Nor, M. B., Ibrahim, N. A., Ramly, N. F., and Abdullah, F. 2020. “Physiological a
nd Psychological Effects of Listening to Holy Quran Recitation in Intensive Care Unit Patients: A Systematic Review.” IIUM Medical Journal of Malaysia 18 (1): 145–155.

Elcokany, N. M., and Abd El Wareth, M. S. 2019. “The Effect of Holy Quran Recitation on Clinical Outcomes of Patients Undergoing Weaning from Mechanical Ventilation.” International Journal of Innovative Research in Science, Engineering and Technology 4 (7): 461–467.
Yadak, M., Ansari, K. A., Qutub, H., Al-Otaibi, H., Al-Omar, O., Al-Onizi, N., and Farooqi, F. A. 2019. “The Effect of Listening to Holy Quran Recitation on Weaning Patients Receiving Mechanical Ventilation in the Intensive Care Unit: A Pilot Study.” Journal of Religion and Health 58 (1): 64–73.

[64] Lahaj, M. 2011. “End-of-Life Care and the Chaplain’s Role on the Medical Team.” Journal of the Islamic Medical Association of North America 43: 173–178.

[65] Riaz, Maryam. n.d. “What is a Hospital Chaplain?” Journal of the British Islamic Medical Association, London, 2 (1).

[66] اس طرح کے کچھ ٹریننگ پروگراموں کی تفصیل ملاحظہ ہو:

https://www.albalaghacademy.org/course/advanced-hospital-chaplaincy/

https://madinainstitute.com/course/islamic-chaplaincy-and-leadership

[67] اس قسم کے تحفوں کی جائز و ناجائز صورتوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتویٰ:

https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4961/#gsc.tab=0

[68] طب و صحت سے متعلق اسلام کے فقہی ضوابط اور اخلاقی اصولوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،فقہ اکیڈمی کے اس موضوع پر ہوئے اجلاس کی تفصیل:

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی؛ طبی اخلاقیات: دائرے اور ضابطے فقہ اسلامی کی روشنی میں؛ 2010 ایفا پبلیکیشنز نئی دہلی

نیز درج ذیل انگریزی کتاب (جو اصلاًعربی کتاب کا ترجمہ ہے) سے بھی اس موضوع پرضروری رہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

[69] تفصیل اس تحقیقی مقالے میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے

Shaharom, Md Shariff. 2024. Shari’ah-Compliant Hospital: From Concept to Reality. Kuala Lumpur: IIUM Press.

[70] Tschanz, David W. 2017. “The Islamic Roots of the Modern Hospital.” Aramco World 68 (2): 22-29.

[71] شاہ ولی اللہ الدھلوی (2005) حجۃ اللہ البالغۃ، دارالجیل، الجزءالاول، ص : 106-109

[72] مثلاً ملاحظہ ہو: سنن الترمذی، أبواب الأدب، باب ما جاء فی النظافۃ اورصحیح البخاری؛ بَابُ مَا یسْتَحَبُّ مِنَ الطِّیبِ

مشمولہ: شمارہ مارچ 2025

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223