تمہید
ابتدا ہی میں یہ واضح کر دینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اسلام اور اس کی جملہ تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کا واحد ذریعہ قرآن اور صاحب قرآن و مستند شارحِ قرآن حضرت محمد ﷺ کی سنت و احادیث ہیں۔ اور آپ ﷺکے بعد صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفاء راشدین کا قول وعمل۔ مؤخر الذکر نفوس قدسیہ اس لیے کہ آپ ﷺنے قرآن و وحی و الہام من جانب اللہ کی روشنی میں ان کی براہ راست تعلیم وتربیت فرمائی تھی۔ ان سے بہتر فہم قرآن، مزاج قرآن، روح قرآن، اور مزاج نبوت اور تقویٰ واحسان کا حامل نہ اس دور میں کوئی تھا ، نہ بعد میں کوئی ہوا اور نہ آئندہ کوئی ہوگا۔ اس لیے قرآن مجید کے علاوہ احادیث رسولﷺ اور صحابہ کرام بالخصوص خلفاء راشدین کے آثار سے استشہاد کرتے ہوئے جو بات کہی جائے گی وہ بھی قرآن کی روشنی ہی میں شمار ہوگی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ(آل عمران : ۱۹) یعنی اللہ کے نزدیک انسان کے لیے اسلام ہی ایک حقیقی اور صحیح طریق زندگی یا طرز فکر وعمل ہے۔ با لفاظ دیگر انسان کے لیے اللہ کے نزدیک صرف یہی ایک صحیح طریق زندگی ہے کہ وہ اللہ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے فکر وعمل کی اس راہ پر چلے جس کی طرف اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے۔
اسلام ایسے ہمہ گیر اور ازلی و ابدی اصول انسان کو دیتا ہے جو ہر طرح کے حالات میں اس کی رہنمائی کر سکیں ۔ اسلام بجا طور پر انسانی زندگی کو بہ حیثیت مجموعی ایک کل قرار دیتا ہے جس کا ہر شعبہ دوسرے سے گہرا ربط رکھتا ہے اور ایک دوسرے پر اثرانداز اور اس سے اثر پزیر ہوتا ہے۔ اسلام انسان کو فکر، علم، ادب ، آرٹ، تعلیم، مذہب، اخلاق ، معاشرت، معیشت، سیاست، قانون وغیرہ کے لیے الگ الگ نظامات نہیں، بلکہ ایک جامع نظام، جیسا کہ فطرۃًاسے درکار ہے، فراہم کرتا ہے، جس کی پیروی کرکے وہ کامیاب زندگی گزارتے ہوئے اپنی اصل منزل (آخرت) پر پہنچ کرکامیاب ہوسکتا ہے۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، انسانی زندگی بحیثیت مجموعی ایک کل ہونے کے سبب ،اسلام زندگی کے تمام شعبوں وپہلوئوں کے لیے ایک جامع نظام دیتا ہے اور اس نظام کا لازماً پابند رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس نظام کا ایک جز،زندگی کا ایک ناگزیر پہلو ہونے کے سبب ، تہذیب وسیاست بھی اس میں شامل ہے۔ زندگی کے اس پہلو کے لیے بھی اسلام دائمی اصول دیتا ہے اور ان کی لازمی پابندی کی ہدایت کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک تہذیب میں سیاست وطرز حکومت بھی شامل ہے، اس لیے کہ تہذیب کے جو عناصر ترکیبی (دنیوی زندگی کا تصور، زندگی کا مقصد یا نصب العین ، اساسی عقائد وافکار ، افراد کی اخلاقی تربیت اور نظام اجتماعی) بتائے جاتے ہیں، ان میںمؤخر الذکرعنصر ’’نظام اجتماعی ‘‘ (یعنی خاندان، سوسائٹی اور حکومت کی تنظیم کس طرز پر ہو) میں سیاست وطرز حکومت شامل ہے۔ یہاں ہم صرف زندگی کے مؤخر الذکر پہلو کے سلسلے میں گفتگو کریں گے کہ نظام حکومت کے سلسلے میں اسلام کیا رہنمائی کرتاہے یا یہ کہ اسلامی نظام حکومت کیا ہے۔
کسی نظامِ حکومت کو جاننے کا پیمانہ
کسی نظامِ حکومت کو جاننے کے لئے اس سے متعلق درج ذیل نکات کو جاننا ضروری ہے:
(۱) اُس کے بنیادی اصول (۲)بنیادی اصولوں پر وجود میں آنے والی اس ریاست یا حکومت کے اہم اجزاء: (الف) سربراہِ ریاست کے تقرر سے لے کر مملکت تک کے جملہ امور کس طرح طے پاتے ہیں۔ (ب) اصحابِ امر کے لئے ضروری اوصاف۔ (ج) عدل و انصاف کا نظم (د) ریاست کے مقاصد و فرائض (ہ) رعایا کے حقوق۔ (و) رعایا پر حکومت کے حقوق (ز) جنگ و صلح سے متعلق خارجہ پالیسی۔(ح) حکومت کی جوابدہی ؍ حکومت کس کو جوابدہ؟(ط)ریاست کی حیثیت۔(ی) عوام اور حکومت دونوں میں سے کسی کی بھی مطلق العنانی کو روکنے کا کیا انتظام ہے؟
ان ہی نکات پر اسلامی نظامِ حکومت کے سلسلے میں بھی یہاں گفتگو کی جائے گی۔
اسلامی نظامِ حکومت کے بنیادی اصول
۱۔ حاکمیت الٰہ یا اللہ کی حاکمیت:یعنی اللہ تعالی پوری کائنات بشمول انسان کا تنہا خالق ، رازق اور پروردگار ہی نہیں، مالک وحاکم بھی ہے۔نیز اس نے انسان کو عقل وشعور، اخلاقی حس، ارادہ و انتخاب کی آزادی اور کائنات کی بے شمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات اور قوتیں بھی عطا کی ہیں ۔ علاوہ بریں، اللہ تعالیٰ نے اسے زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا۔ اور اس کی پیدائش کا مقصد، عبادت و خلافت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اللہ کی رضا وفلاح آخرت کا حصول قرار دیا۔ چنانچہ جس طرح انسانی زندگی کے غیر اختیاری حصہ میں اللہ تعالیٰ اس کا حاکم تکوینی ہے ، اسی طرح زندگی کے اختیاری پہلو میں بھی وہی حاکم تشریعی ہے۔ یعنی انسان اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں شعور اور ارادے کے ساتھ اس کی تشریعی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس کی مکمل اطاعت میں اپنے آپ کو دے دے۔ نہ خود اور نہ کسی اور کو اس کے سوا حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کا مستحق اور حقیقی و مستقل بالذات قانون ساز اور بطور خود حکم دینے کا مجاز سمجھے۔ عقیدہ ٔ توحید کایہ لازمی تقاضا ہے:
اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (الاعراف: ۵۴)
’خبردار! اسی کی خلق ہے اور اسی کا حکم۔‘‘
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (الانعام: ۵۷)
’فیصلہ کا اختیار کسی کو نہیں ہے، سوائے اللہ کے ۔‘‘
مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا( کہف: ۲۶)
’’بندوں کے لیے اس کے سوا کوئی ولی و سرپرست نہیں اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘
یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْئٍ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ (آل عمران: ۱۵۴)
’’وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اختیارات میں بھی کچھ ہے۔ کہو، اختیار سارے کا سارا اللہ ہی کا ہے۔‘‘
وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ (الانعام: ۱۸)
’وہی اپنے بندوں پر غلبہ رکھنے والا ہے اور وہی دانا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔
لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ (الانبیاء : ۲۳)
’’جو کچھ وہ کرتا ہے، اس پر کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے، اور دوسرے سب جواب دہ ہیں۔‘‘
وَاللہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ( الرعد: ۴۱)
’’اللہ فیصلہ کرتا ہے اور کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ(التین: ۸)
’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے؟‘‘
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘(آل عمران: ۲۶)
’’کہہ دو،خدایا، ملک کے مالک ، توجسے چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کردے، ساری بھلائی تیرے اختیار میں ہے، تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓااَیْدِیَھُمَا…….
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض(المائدۃ:۳۸۔۴۰)
’’چور مرد اور چور عورت، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔۔۔۔ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘
وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرّ’‘ لَّکُمْ وَ اللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرہ: ۲۱۶)
’’ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں ناپسند ہو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو، اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیزتمھیں پسند ہو اور وہ تمھارے لیے بری ہے۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْھَا وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرۃ : ۲۲۹)
’’یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کریںوہی ظالم ہیں۔‘‘
وَ تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَاب’‘ اَلِیْم’‘ (مجادلہ: ۴)
’’یہ اللہ کی حدیں ہیں اور پابندی سے انکار کرنے والوں کے لیے دردناک سزا ہے۔‘‘
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ/ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ/ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ(مائدہ: ۴۴، ۴۵، ۴۷)
’’اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں، ظالم ہیں، فاسق ہیں۔‘‘
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِلَی اللہِ ( الشوریٰ: ۱۰)
’’تمھارے درمیان جو اختلاف بھی ہو، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔‘‘
۲۔ انسان کی خلافت: انسان کی حیثیت اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ یا نائب کی ہے۔انسان یہاں خود مالک نہیں بلکہ اصل مالک یعنی اللہ کا خلیفہ ہے۔نیز اللہ نے اسے سامان زندگی کے ساتھ اختیارات اور قوتیں بھی عطا کی ہیں۔ اس کی یہ حیثیت تقاضہ کرتی ہے کہ اپنے مالک کے منشا کو پورا کرتے ہوئے اس کے احکام اور ہدایات کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس طرح جاری وساری کرے کہ فرد کا ارتقاء، معاشرے کی تعمیراور ریاست کی تشکیل، سب کچھ اللہ کے بھیجے ہوئے طریق زندگی یعنی دین حق کے مطابق ہو ۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِل’‘ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرۃ : ۳۰)
’’اور یاد کرو جب کہ تمھارے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والاہوں۔‘‘
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ (فاطر: ۳۹)
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا۔‘‘
وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ (الاعراف:۱۰)
’’ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اورتمھارے لیے اس میں سامان زیست فراہم کیے۔‘‘
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِیْ الْأَرْضِ (الحج:۶۵)
’’کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ نے تمھارے لیے وہ سب کچھ مسخر کر دیا جو زمین میںہے۔‘‘
’’خلیفہ‘‘ کی تفسیر
’ابنِ مسعود ؓ اور ابنِ عباسؓ نے خلیفہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میں پیدا کر رہا ہوں زمین میں اپنا خلیفہ جومیری مخلوق کے درمیان فیصلہ کرنے میں میرا نائب ہوگا، اور یہ خلیفہ آدم ؑ اور ہر وہ شخص ہے جو خدا کی اطاعت اور اس کی مخلوق کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ حکم دینے میں اس کا (آدمؑ کا) قائم مقا م ہوگا۔‘‘(تفسیر ابن جریرج:۱،ص:۲۰۰، تفسیرکبیر للرازی ج:۲،ص:۱۶۵)
یہ خلافت اسی وقت صحیح اور جائز قرار پائے گی جب وہ اصل مالک یعنی اللہ تعالی کے احکام کے تابع ہو۔ محض خلافت کے نام پر خودمختارانہ نظام حکومت بنایا گیا تو وہ خلافت نہیں بلکہ اللہ سے بغاوت قرار پائے گی۔
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ اِلَّا مَقْتًا وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُھُمْ اِلَّا خَسَارًا(فاطر:۳۹)
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا، پھر جو کفر کرے (یعنی خلافت کی بجائے خودمختارانہ نظام حکومت خواہ ایک فرد یا پارٹی بنائے یا بہت سے افراد یاپارٹیاں مل کربنائیں) تو اس کا کفر اسی پر وبال ہے اور کافروں کے حق میں انکا کفر ان کے رب کے یہاں کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا مگر اس کے غضب میں اور کافروں کے لیے ان کا کفر کوئی چیز نہیں بڑھاتا مگر خسارہ۔‘‘
ثُمَّجَعَلْنٰکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ م بَعْدِھِمْ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ(یْونس:۱۴)
’’پھر ہم نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا تاکہ ان کے بعد دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘
وَعَدَاللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۔۔۔ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا (النور:۵۵)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں کوخلیفہ بنایا تھا۔۔۔ وہ میری بندگی میں میرے ساتھ کسی چیز کوشریک نہ کریں۔‘‘
اس خلافت پر کسی ایک فرد یا خاندان یا گروہ کا اجارہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں تمام اہل ایمان برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں اور وہی اپنے صاحب الرّائے و صاحب کر دار معتمد نمائندوں کے ذریعے اپنا اختیار اور حقِّ خلافت کسی شخص کو سپرد کرتے ہیںبالفاظ دیگروہی شخص خلیفہ یا سربراہ مملکت کے منصب پر فائز ہو سکتا ہے، جس کوبغیر کسی جبرو تحریص کے اپنے صاحب الرّائے و صاحب کر دار معتمد نمائندوں کے ذریعے اپنا اختیار و حقِّ خلافت سپرد کیا گیا۔
۳۔ قانونِ خدا وندی یا شریعت: انسانی زندگی کے لیے جو آئین وقانون درکار ہے، وہ حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ نے اصولی حد تک اپنے رسولﷺ کے ذریعے عطا فرما دیا ہے۔ اسے بنانے کی کسی فرد یا مجموعہ افراد یا مجلس قانون ساز کو قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قانون قرآن مجید میں اور اس کے مستند اورقولی وعملی شارح حضرت محمدﷺ کی سنت میں پوری طرح موجود اور دستیاب ہے۔ اس قانون خدا وندی کی بلا چوں و چرا اطاعت ہر انسان کو کرنی ہے اور بے کم و کاست اِس پورے مجموعہ قوانین کو اپنی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی میں نافذ کرنا ہے۔ وہ اس کے بجائے کوئی قانون بنا سکتا ہے نہ اس کی پیروی کر سکتا ہے۔ اس شریعت سے اگر وہ انحراف کرے گا تو اپنی حقیقی حیثیت (خلیفۃ اللہ) سے منحرف اور اپنے مالک (اللہ )سے بغاوت کا مجرم ٹھہرے گا۔ البتہ جس مسئلہ یا معاملے میں شریعت خاموش ہے یا نئے مسائل کے پیش نظر کوئی فروعی قانون بنانے کی ضرورت پیدا ہو جائے تو ایسا قانون ،اصولِ دین اور اسلام کی روح اور مزاج کو سامنے رکھتے ہوے باہمی مشورے سے بنایا جا سکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (المائدۃ:۴۴)
’’اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں، ظالم ہیں، فاسق ہیں۔‘‘
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ(الأعراف:۳)
’’پیروی کرو اس چیز کی جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے تمھارے رب کی طرف سے اور اسے چھوڑکر دوسرے سرپرستوںکی پیروی نہ کرو۔‘‘
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَاَلَّا تَعْبُدُوْٓااِلَّا اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(یوسف:۴۰)
’’حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی صحیح دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ (النساء: ۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا (النساء:۱۱۵)
’’اور جو کوئی رسول سے اختلاف کرے جبکہ ہدایت اس پر واضح ہو چکی ہو اور ایمان لانے والوں کی روش چھوڑ کر دوسری راہ چلے اسے ہم اس طرف پھیر دیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اس کو جہنم میںجھونک دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔‘‘
وَمَآاٰتٰئکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰئکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (الحشر:۷)
’’جو کچھ رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے روک دے اس سے باز رہو۔ اللہ سے ڈرواللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء:۶۵)
’’پس نہیں، تیرے رب کی قسم وہ ہر گز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ (اے نبی) وہ تجھے اپنے باہمی اختلافات میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں اور پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سرتسلیم خم کر لیں۔‘‘
وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا (الاحزاب:۳۶)
’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اس معاملے میں ان کے لیے کوئی اختیار رہ جائے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔‘‘
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (سورہ المائدہ)
’’اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں، ظالم ہیں، فاسق ہیں۔‘‘
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ(الاعراف:۳)
’’پیروی کرو اس چیز کی جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے تمھارے رب کی طرف سے اور اسے چھوڑکر دوسرے سرپرستوںکی پیروی نہ کرو۔‘‘
حضوراکرم ﷺ فرماتے ہیں:
علیکم بکتاب اللہ،احلواحلالہ وحرّمواحرامہ۔
(کنز العمال ج۱، ح:۹۰۶-بحوالہ طبرانی عن عوف بن مالک)
’’تم پر لازم ہے کتاب اللہ کی پیروی۔ جس چیز کو اس نے حلال کیا ہے، اسے حلال کرو، اور جسے اس نے حرام کیا اسے حرام کرو۔‘‘
انّ اللہ فرض فرائض فلا تضیّعوھاوحرّم حرمات فلا تنتہکوہا۔ وحدّ حدوداً فلاتعتدوہا۔وسکت عن اشیاء من غیرنسیان فلا تبحثوا عنہا۔(کنز العمال ج۱، ح: ۹۸۰ بحوالہ دارقطنی عن ابی ثعلبہ الخشنی)
’’اللہ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں، انھیں ضائع نہ کرو، کچھ حرمتیں مقرر کی ہیں انھیں نہ توڑو،کچھ حدود مقرر کی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے بارے میں سکوت فرمایا بغیر اسکے کہ اسے نسیان لاحق ہوا ہو، ان کی کھوج میں نہ پڑو۔‘‘
مَا اَمَرْتُکُمْ بِہِ فَخْذُ ْوہْ وَ مَا نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا۔ (کنز العمال ج۱، ح: ۸۸۵ بحوالہ ابن ماجہ عن ابی ہریرہؓ)
’’جس چیز کا میں نے تم کو حکم دیا اسے اختیار کر لو اور جس چیز سے روکا ہے اس سے رک جائو۔‘‘
خلاصہ یہ کہ اسلامی حکومت یا ریاست اللہ کی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ، جو خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق اس کی مقرر کردہ حدود (یعنی شریعت) کے اندر کام کرکے اس کے منشا کو پورا کرتی ہے۔
۲(الف) شورائیت
مذکورہ بالا بنیادوں پر قائم ہونے والی حکومت ایک شورائی حکومت ہوتی ہے ، جس کے جملہ امور عوام (اہل ایمان) کے باہمی مشورے سے چلتے ہیں، خواہ سربراہ حکومت کے انتخاب کا معاملہ ہو یا ریاست کی داخلہ و خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا یا تعلیمی ، معاشی و اقتصادی نظام بنانے کا معاملہ ہو۔ یہ مشاورت عوام کے صاحب الرَّائے و صاحب کر دار معتمد نمائندوں سے کی جائے گی۔اﷲتعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشوریٰ: ۳۸) ’’اور مسلمانوں کا کام آپس کے مشورہ سے چلتاہے۔‘‘
وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ (آل عمران: ۱۵۹)
’’اور ان سے ہر معاملے میں مشورہ کرتے رہو، پھر مشورے کے بعد جب تم نے عزم وارادہ کر لیا تو اللہ پر بھروسا کرو۔ ‘‘
ارشادات رسول ﷺ
عن علی قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نزل بنا امر لیس فیہ بیان امر ولانہی فما تأمرنی؟قال شاوروا فیہ الفقہاء والعابدین، ولا تمضوا فیہ رأیی خاصۃ (کنز العمال ج ۳ ح: ۷۱۹۱بحوالہ طبرانی فی الاوسط)
’’ حضرت علی ؓ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ ! اگرآپ کے بعد کوئی ایسا معاملہ ہمارے درمیان پیش آجائے جس کے بارے میں نہ کوئی امر ہو اور نہ نہی، تو ایسی صورت میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: ’’اس بارے میں عبادت گزار اور دیانت دار ماہرین شریعت سے مشورہ کر لیا کرو اور انفرادی رائے اختیار نہ کرو۔‘‘
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ معتمد ہوتا ہے۔‘‘ (ابو دائود، باب فی المشورۃ) یعنی اس کی امانت ودیانت پر بھروسا کیا جا سکے۔
’’جس شخص سے اس کے مسلمان بھائی نے مشورہ طلب کیا اور اس نے حق کے خلاف مشورہ دیا تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی اور جس مفتی نے تحقیق کے بغیر فتوی دیا تو گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا۔‘‘(ابو دائود، العلم، الادب المفرد ج۱، ص۳۵۲)
یعنی چونکہ مشورہ ایک امانت ہے اس لیے جس سے مشورہ طلب کیا گیا اسے مشورہ دینا چاہیے، اس میں خیانت نہیں کرناچاہیے نیز دیانت کے ساتھ اور غور و فکر کے بعد ہی مشورہ دیناچاہیے۔
’’اگرمیں کسی کو مشورے کے بغیر اپنا جانشین بناتا تو ابن ام عبدیعنی ابن مسعود ؓ کو مقررکرلیتا‘‘ (مسند احمد عن علیؓ، ح:۵۶۶،ترمذی، ابواب المناقب)
عن عائشۃؓ قالت قال رسول اﷲﷺ : ستۃ لعنتہم و لعنہم اﷲ۔ والمتسلط بالجبروت۔(مشکوۃ، ایمان بالقدر بحوالہ بیہقی فی المدخل)
’’چھ قسم کے لوگوںپر میں بھی لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ تعالی بھی لعنت بھیجتا ہے ۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو زبردستی حکومت پر قبضہ کرلیتا ہے۔‘‘
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
عن عائشۃؓ قالت ما رأیت رجلاً اکثر استشارۃ للرجال من رسول اﷲ ﷺ ۔ (ترمذی ، الجہاد، عن ابی ہریرہؓ)
’’میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو رسول اللہﷺ سے زیادہ مشورہ کرنے والا ہو۔‘‘
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: لا خلافۃ الا عن مشورۃ ۔ (کنز العمال ج : ۵،ح: ۱۴۱۳۶ بحوالہ ابن ابی شیبہ فی المصنف و ابن الانباری فی المصاحف)
’’مشورے کے بغیر کوئی خلافت نہیں۔‘‘ (جاری)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2015