رسول کریم ؐ کا ارشاد ہے کہ :
الا کلّکم راع و کلّکم مسئول عن رعیّتہ فالامام الذی علی الناس راع و ہو مسئول عن رعیّتہ (بخاری، کتاب الاحکام، مسلم، کتاب الامارۃ عن عبداللہ بن عمرؓ)
’’خبردار رہو ، تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ اور مسلمانوں کا سب سے بڑا سردار جو سب پر حکمراں ہو وہ بھی راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ ‘‘
’’کوئی حکمراں جو مسلمانوں میں سے کسی رعیت کے معاملات کا سربراہ ہو، اگر اس حالت میں مرے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکہ اور خیانت کرنے والا تھا، تو اللہ اس پر جنّت حرام کر دیگا۔ ‘‘ (بخاری)
’’کوئی حاکم جو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی منصب سنبھالے، پھر اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے جان نہ لڑائے اور خلوص کے ساتھ کام نہ کرے وہ مسلمانوں کے ساتھ جنّت میں قطعاً داخل نہ ہوگا۔ ‘‘(مسلم)
’’ جو شخص ہماری حکومت کے کسی منصب پرہو ،وہ اگر بیوی نہ رکھتا ہو تو شادی کرلے، اگر خادم نہ رکھتا ہو تو ایک خادم حاصل کرلے، اگر گھر نہ رکھتا ہو تو ایک گھر لے لے، اگر سواری نہ رکھتا ہو تو ایک سواری لے لے۔ اس سے آگے جو شخص قدم بڑھاتا ہے وہ خائن ہے یا چور۔ ‘‘ (کنزالعمال)
ریاست کی حیثیت
اسلامی نظامِ حکومت کی جو تفصیلات اوپر بیان کی گئی ہیں، ان سے یہ بالکل واضح ہے کہ اسلامی ریاست ایک اصولی اور نظریاتی ریاست Ideological State) )ہوتی ہے۔
اسے چلانا فطری طور پر اور دنیا کے مسلّمہ قاعدے کے مطابق ان ہی لوگوں کا کام ہے جو اس کے بنیادی اصولوں و نظریات کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہوں۔ چنانچہ اس کے تمام کلیدی مناصب(یعنی سربراہِ ریاست منتظمہ، مقننہ، عدلیہ اور فوج کے اہم مناصب ، مجلس وزراء، مجلسِ شوریٰ یا قانون ساز و پالیسی ساز اداروں کی ممبری نیز مختلف محکموں و شعبہ جات (مثلاًتعلیم، معاش و اقتصاد، ذرائع ابلاغ ) کی سربراہی پرصرف اہلِ ایمان ہی فائز ہو سکیں گے۔ لیکن ان بنیادی اصولوں اور نظریات کو تسلیم نہ کرنے والے یعنی غیر مسلم باشندےتمام مدنی اور بنیادی حقوق، جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، کے مستحق ہوںگے۔ ان کے مختلف گروہوں کے مسائل کے سلسلے میں ان کے معتمد و منتخب نمائندے مجلسِ شوریٰ یا پارلیمنٹ کے ممبر بن سکتے ہیں۔
حکومت یا عوام کی مطلق العنانی کو روکنے کا انتظام
اس نظام میں نہ عوام نہ حکمراں دونوں میں سے کسی کے لیے بھی مطلق العنان بننے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بے لگام آزادی نہ فرد کو حاصل ہے نہ حکومت کو۔ ایک طرف افراد کو اپنے میں سے کسی بھی اہل اور مستحق فرد کو اولی الامر منتخب کرنے کا حق و اختیار حاصل ہےبنیادی حقوق دے کر اور حکومت کو بالاتر قانون اور شوریٰ کا پابند بنا کر حکومت کو مطلق العنان بننے پر روک لگادی گئی ہے تو دوسری طرف فرد کو بھی ضابطۂ اخلاق میں کستے ہوئے اس کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شریعتِ خدا وندی کے مطابق کام کرنے والی حکومت کی مخلصانہ اطاعت کرے، بھلائی میں اس کے ساتھ بھرپور تعاون کرے ، نظم میں خلل نہ ڈالے ، فساد برپا کرنے سے باز رہے اور اس کی حفاظت کے لیے جان و مال کی قربانی سے پوری مدد کرے۔
اسلامی حکومت یا اسلامی نظام حکومت کا قیام امت پر فرض وواجب ہے
اسلامی نظام حکومت کے سلسلے میں قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ کے جو حوالے دیے گئے اور جو تفصیلات پیش کی گئیں، ان کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اسلامی نظام حکومت یا اسلامی حکومت کاقیام مسلمانوں پر فرض وواجب ہے۔ اس لیے کہ زمین پر صالح معاشرے کی تعمیر اور عدل وقسط کا قیام (جو اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر قطعاً ناممکن ہے) انبیاء کرام، بالخصوص خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا مقصد اور آپ ﷺ کے بعد رہتی دنیا تک امت مسلمہ کا مقصد و مشن ہے۔
چنانچہ فقہائے اسلام نے اسلامی حکومت کے قیام اورتقررِ خلیفہ کو فرض وواجب کہا ہے۔ بطور نمونہ چند فقہاء کے اقوال ذیل میں درج ہیں:( ’’اسلامی سیاست ‘‘از مولانا گوہر رحمانؒ)
۱۔ امام ابوالحسن الماوردی الشافعیؒ المتوفی ۴۵۰ھ اور (۲) قاضی ابوالیعلی الحنبلی المتوفی ۴۵۸ھ فرماتے ہیں:’’ریاست کی سربراہی کے لیے اس شخص کاتقرر ، جو یہ فرض انجام دے سکتا ہو، بالاجماع واجب ہے۔ ‘‘(الاحکام السلطانیہ للماوردی ولابی یعلی)
۳۔ امام عبدالقاہر البغدادیؒ المتوفی ۴۲۹ھ فرماتے ہیں:’’ہمارے اساتذہ میں سے جمہور علمائے علم العقائد اور فقہاء نے ، اسی طرح شیعہ ، خوارج اور کثیر معتزلہ نے بھی کہا ہے کہ امام یا خلیفہ کا تقرر فرض وواجب ہے۔ ‘‘(اصول دین)
۴۔ علامہ ابن حز م ظاہری متوفی ۴۵۶ھ فرماتے ہیں:’’امام یا خلیفہ کی موت کے بعد دوسرے امام یا خلیفہ کے انتخاب میں تین دن سے زیادہ دیر کرناجائز نہیں ہے۔ ‘‘(المحلّیٰ الابن حزم)۔ ایک اور جگہ علامہ موصوف تقررِ خلیفہ کے وجوب پر اہل سنت ، مرجیہ، خوارج اور شیعہ کا اجماع نقل کرتے ہیں۔ ‘‘ (الفصل بین الملل و النحل)
۵۔ علامہ ابوالشکور السالمیؒ فرماتے ہیں : ’’خلافت اور امارت شریعت میں ثابت ہیں اور لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے اوپر ایک امام کو حکمرانی کرتا ہوا دیکھیں، اس کی دلیل قرآن وسنت اور اجماع امت ہے۔ ‘‘(التمہید فی بیان التوحید)
۶۔ علامہ ابن الہمام حنفی متوفی ۶۸۱ھ فرماتے ہیں : ’’امام یا خلیفہ کا تقرر شرعاً واجب ہے۔ ‘‘(المسابیرہ)
۷۔ امام ابن تیمیہؒ متوفی ۷۲۸ھ فرماتے ہیں:’’حکومت اسلامیہ دین کا بلند ترین فرض اور واجب ہے بلکہ اس کے بغیر دین قائم نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ (السیاسۃ الشریعۃ)
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہوگاکہ اصول دین کا ایک متفقہ مسئلہ یہ ہے کہ شریعت میںجو چیز فرض وواجب ہے ، اگر اس پر عمل کرنا بحالت موجودہ ممکن نہیں ہے تو اس کے لیے موافق حالات پیدا کرنا واجب ہے۔ یعنی شریعت کے جن احکام کی حیثیت مطلق احکام کی ہے، اگر ان پر بالفعل عمل کرنا اسباب پر موقوف ہے تو اسباب یا موقوف علیہ کو حاصل کرنا واجب ہے۔ چوںکہ حدود وتعزیرات اور شریعت کے دوسرے اجتماعی احکام (جن کا مقصد صالح معاشرے کی تعمیر اور عدل وقسط کا قیام ہے جو انبیاء کرام کی بعثت اور امت مسلمہ کے وجودکا مقصد ہے) مطلق احکام ہیں اور ان پر عمل کرنے کے لیے نصب امام کی حیثیت سبب اور موقوف علیہ کی ہے، اس لیے علمائے اسلام نصب امام ، یعنی اسلامی حکومت کے قیام کو فرض وواجب کہتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد آپ سے آپ واجب قرار پاتی ہے۔ (’’امّتِ مسلمہ کا نصب العین ‘‘از مولانا سیّد احمد عروج قادریؒ)
کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جب اور جہاں(مثلاً ہندوستان میں اس وقت) بالفعل اسلامی حکومت قائم نہیں ہوسکتی، وہاںاس فریضے کے مسلمان مکلف ہی نہیں ہیں، یعنی یہ فریضہ ہی ساقط ہوجاتاہے۔ ہرگز نہیں ، اسلامی حکومت کاقیام فرض وواجب ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے بالفعل قائم کردیں خواہ مسلمان ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہوں یا نہ ہوں۔ دین کا ایک اور مسلمہ اصول یہ ہے کہ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر حکم کے سلسلے میں بندے کی اصل ذمہ داری یہ قراردی ہے کہ وہ اسے انجام دینے کی بس مخلصانہ اور بھرپورسعی کرے۔ اس لیے یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ انسان جب تک کسی حکم کی تعمیل میں کامیاب نہ ہوجائے اور بالفعل اس پر عمل نہ کرلے، اس وقت تک وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآنہیں ہوسکتا، اس لیے اس صورت میں حکم یا فریضے کا مکلف ہی نہیں ہے۔ (صحیح بات یہ ہے کہ )اس کا وہ مکلف ہے، لیکن اس میں اس کی ذمہ داری اپنی حد استطاعت تک مخلصانہ سعی کرنے کی ہی ہے۔ (ایضاً)
واضح رہے کہ اسلامی حکومت یا اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کےلئے کسی بھی ملک میں جو طریقۂ کار اختیار کیا جائے گا وہ مسلح و خفیہ تحریک کا نہیں ہوگا بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ کھلم کھلا اعلانیہ تحریک کے ذریعے، ملک کے آئین، قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر عام دعوت و تبلیغ کا اور اذہان و افکار کی اصلاح کرکے لوگوں کے خیالات بدلنے کی کوشش کا ہوگا۔ حالیہ دور کی تحریکِ اسلامی کے داعیِ اوّل مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا بھی یہی موقف تھا۔
مشمولہ: شمارہ جون 2015