تربیت کا مفہوم
تربیت کا مفہوم بیاں کرتے ہوئے امام راغبؒ نے لکھا ہے کہ ٰ کسی چیز کو دھیرے دھیرے درجہ کمال تک پہنچانا ،تربیت کے مفہوم پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بامقصد عمل ہے ۔محققین نے درج ذیل عناصر سے تربیت کے عمل کو سمجھنے میں مدد لی ہے ۔
۱۔نو خیز انسان کی فطرت کا تحفظ اور اسکی نگہداشت ۔
۲۔اسکی تمام فطری ووہبی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا۔
۳۔اسکی تمام فطری و وہبی صلاحتیوں کو مناسب کمال و درستگی کی جانب متوجہ کرنا ۔
۴۔اس کی رہنمائی میں تدریجی انداز اختیار کرنا ۔(اصول تربیتہ اسلامیہ ص ۱۲)
قرآن و سنت کی تعلیمات پر نظر رکھنے والے اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام میں تربیت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے دین حق نازل ہی اسی لئے ہوا ہے کہ انسان کو بھلائی کی تعلیم دی جائے ۔ اس پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے اور برائی سے روکا جائے قرآن کریم نے رسولؐ کا جو منصب بیاں کیا ہے اس میں یہ چیزیں بنیادی حیثیات رکھتی ہے۔تربیت کا عمل محدود نوعیت کا کوئی مذہبی فریضہ نہیں جسکا دائدہ اس کے مذہب کے ماننے والوں تک محدود ہو بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کی طرح ایک ہمہ گیر مثبت عمل ہے جس کے بغیر انسانیت کو کامیابی کی راہ حاصل نہیں مل سکتی آجکا انسانی معاشرہ مختلف قسم کے مصائب اور الجھنوں کا شکار اسی لئے ہے کہ اس نے تربیت سے گریز کی راہ اختیار کرلی ہے اگر نئی نسل کو اور عمر کے تام مراحل میں زندگی بسر کرنے والوں کو ہلاکت و بربادی اور اضطراب و بے چینی سے بچانا مقصود ہو تو اس کے لئے دین و اسلام کے اصولوں کے مطابق تربیت کے عمل کو اختیار کرنا ضروری ہوگا ۔ انسان طبیعت کا خاصہ ہے کہ جب تک وہ کسی بات پر مطمئن نہ ہو ۔ اس پر عمل نہیں کرتی ۔قرآن کریم میں اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے انسان کی عقل اور اس کے شعور کو مخاطب کیا ہے اپنی و حدانیت و رسالت کے نظام اور آخرت کی جزاو سزا کے لئے عقلی طور پر اسے مطمین کرنے پر کوشش کی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ تربیت حاصل کرنے والے انسان کے دل میں یہ یقین پیدا ہو کہ جو کچھ اسے بتایا جارہا ہے وہ بر حق اور زندگی کو صیحح راہ پر ڈالنے کے لئے اس پر عمل ضروری ہے۔ ہمارا معاشرہ عملی طور پر آج جس مقام پر پہنچ گیا ہے اس کا اصلی سبب یہی ہے کہ جو باتیں ہماری بھلائی کے لئے بنائی جارہی ہیں ان پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں اور عمل کی ضرورت پر ہمارا یقین کم ہو گیا ہے ۔
تربیت مغربی موقف کی نظر میں
دنیا کی انسانی آبادی کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک مشرق دوم مغرب اس تقسیم کی بنیادبظاہر جغرافیائی ہے لیکن غور کیجئے تو افکار و اقدار کے لحاظ سے بھی دونوں حصوں کے باشندے بڑی حد تک مختلف ہیں مغرف کا دعویٰ ہے کہ وہ نصرانیت پر عمل پیرا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ نصرانیت محرف ہے اس کے پردے میں مغرب والوں نے اپنی خواہشات و خیالات کی پیروی کا ایک طریقہ ایجاد کرلیا ہے ۔ بلاشبہ اس تہذیب میں خوبیاں ہیں لیکن ساتھ ہی اس کے بہت سے اصول و اقدار مشرق سے کلی طور پر متصادم ہیں اور اس تامل کی وجہ عناد و تعصب نہیں بلکہ مغرب کا وہ مزاج ہے جو مشرق کے مزاج سے اکثر امور میں مختلف ہے ۔اولاد کی تعلیم و تربیت سے متعلق نظریات و مقاصد میں بھی مغرب و مشرق کا بنیاد ی اختلاف ہے مشرق والے جن اقدار کو عزیز سمجھتے ہیں او ر جس کی بنیاد پر سماج کی تعمیر چاہتے ہیں وہ مغرب کیلئے اہم نہیں اسی لئے دونوں جگہ کے سماجی حالات اور باشندوں کی اخلاقیات میں نمایاں فرق نظرآتا ہے ایسی صورت میں کسی ایک طرز کی تربیت کو دوسری نوعیت کی تربیت پر فضلیت دنیا صحیح نہ ہوگا۔ البتہ اگر تربیت کاکوئی نظام اﷲ تعالیٰ کے نازل کے ہوئے دین پر مبنی ہو تو اس کا کوئی جزئیہ خراب نہیں ہوسکتا اسلام نے تربیت اولاد کا جو نظام مقرر کیا ہے اسے اسی لئے ہر طرح کے دنیوی نظام سے بہتر مانا جاتا ہے۔ اسی نظام کے معیار سے جب ہم مغرب کے نظام تربیت کو دیکھتے ہیں تو اس میں کچھ خرابیاں نظر آتی ہیں ۔
تربیت کا سر چشمہ
تربیت کی اہمیت و ضرورت سمجھے لینے کے بعد ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اسلامی تربیت کے بنیادی ماخذ اور اصل سرچشمہ کیا ہے ۔علماء اسلام نے اسی لئے ایسی اس بات پر ذور دیا ہے کہ تربیت کے مواد و مضامین میں کتا ب و سنت سے اخذکئے جائیں اور بنیؐ کے اسوۃ حسنہ اور تریقہ مبارک کو اس باب میں مشعل راہ بنایا جائے ۔قرآن کریم کلام الہٰی ہے عرب و عجم کے نامور بلغاء اور تعبیر و بیاں کے رمزشناس اس کی نقل پیش کرنے سے عاجز ہیں اس کتاب مقدس کا تربیتی اسلوب بھی معجز انہ ہے جس طرح سے اس نے انسانی ذہین کو مخاطب کیا ہے اور اسے مطمئن کرنے کے لئے مثالیں پیش کی ہیں اسکی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی اسی لئے بڑے بڑے ماہر شعراء اور ادباء قرآنی اسلوب کے سامنے سرنگوں نظر آتے ہیں ۔اسلامی تربیت کا دوسرا ماخذ سنت نبوی ہے سنت میں کتاب اﷲ کی تشریح و بیاں اور تربیت کے باب میں نبی ؐ کا طریقہ مذکور ہے انسانی نفوس و طبائع کو صیحح معلومات سے ہرہ ور کرنے اور سیدھی راہ کی جانب ان کی رہنمائی کرنے میں پیغمبر سے ذیادہ کس کو واقفیت ہوسکتی ہے اﷲ تعالیٰ نے ان نفوص قدسیہ کو ہدایت و تربیت کے لئے تخلیق فرمایا ہے اور اس عظیم ذمہ داری کو انجام دینے کے لئے ان کو مکمل طور پر تربیت دی ہے ۔
اسلامی تربیت کے امتیازی اوصاف
تربیت کو تعلیم کا مدخل اور بنیاد مانا گیا ہے تربیت کے بغیر تعلیمی ڈھانچہ نہیں ہوسکتا تربیت کا اصل کا م یہ ہوتا ہے کہ وہ افراد کو نفسیاتی ،اخلاقی ، عملی، اور اعتقادی طور پر اس بات کے لئے تیار کرے کہ وہ عملی مادہ کو قبول کرسکے۔ تعلیمی مرحلہ میں انسان کو جو علم سکھا یا جاتا ہے اسے بعد کے مرحلے میں میں بار آورعملی شکل دینا مقصود ہوتا ہے اس طرح ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے مابین ایک گہرا ربط ہے اور یہ دونوں ایک عظیم مقصد کے لئے وسیلہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔آج کے معاشرے میں جو انتشار پھیلی ہوئی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ تعلیم و تربیت کے مابین فصل پیدا کردیا گیا ہے تعلیم کو ترقی دی جارہی ہے اور تربیت کو پہلو کو نظر انداز کیا جارہا ہے علم و تربیت کے مابین فصل کی وجہ سے یہ افسوسناک و مضحکہ خیز منظر سامنے آتا ہے کہ اخلاقیات و نفسیات کا مدرس کبھی کبھی ان تمام رذائل میں ملوث نظرآتا ہے ۔ جن کے خلاف وہ اپنے طلبہ کو درس دیتا ہے ۔تربیت سے متعلق اصول و نظر یات پر اگر تقابلی نظر ڈالی جائے تو اسلامی اور غیر اسلامی اصولوں کے مابین ایک واضح فرق نظر آتا ہے جس کی وجہ سے غیر اسلامی اصولوں مین ایک بھیانک خلا پیدا ہوگیا ہے ۔ اسلامی نظر یہ یہ کہتا ہے کہ انسان صرف جسم یا عقل یا روح کا نام نہیں بلکہ ان تینوں کے مجوعے سے انسان کا وجود قائم ہوتا ہے اس وجود کے اجزاء کو باہم منفصل نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر جسم کو روح و عقل سے یا عقل کو جسم و روح سے یا روح کو عقل و جسم سے علیحدہ کردیا جائے تو اس وجود کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہ سکتی ۔ ان اجزاء یا ان طاقتوں کو ایک ساتھ کا م میں لگانے سے صالح انسان و جودپزیر ہوگا۔
اسلامی تربیت کو ممتاز کرنے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ اسلامی زندگی کے ہر مرحلے میں تربیت و توجیہ کا قائل ہے یعنی تربیت کا عمل صرف تعلیمی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی جس مرحلہ مین بھی ہو اسے تربیت کی ضروعت ہے اسلئے اسلام نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کازریں اصول وضع کیا ہے یہ ہر مسلمان کا فرض منصنی سے اور تربیت کے لئے عمر کے کسی مرحلہ کی قید نہیں ہے ۔مختصر طور یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام نے روح عقل اور جسم کی تربیت کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا ہے تاکہ شمولیت کے دعویٰ کی حقیقت واضح ہوسکے ۔ اسلام نے روح کی ایک غایت اور اس کا ایک وسیلہ ٹھہریا ہے غایت یہ ہے کہ انسان کا اﷲ سے ایسا زندہ تعلق ہو جس کا اثر انسان نفسوس پر منعکس ہو اور وسیلہ یہ ہے کہ کے تاروں میں حرکت پیدا کی جائے اور کائنات کی عظیم مخلوقات کے مطالعہ سے عقل کو مصقل اور احساس کو بیدار کیا جائے تاکہ ﷲ تعالیٰ کی حثیت و انابت پیدا ہو ۔اسلام نے روحانی تربیت کے سلسلہ میں انسانی قلب کو درج ذیل امور کی جانب متوجہ کیا ہے ۔
اول :۔ یہ کہ انسان اس وسیع و عریض کائینات پر غور کرے اور پھر اﷲ تعالیٰ کی طاقت و قدرت کا تصور کرے تاکہ دل اﷲ کی تسبیع تمحید کی جانب مائل ہو ۔
دوم :۔ یہ کہ انسان دل کو اﷲ تعالیٰ کے وسیع علم کی طرف متوجہ کرے ۔
سوئم:۔ یہ کہ دل میں اﷲ تعالیٰ کا تقویٰ اور خشوع پیدا کرے اور دل کو دنیا سے ہٹا کر اخروی نعمتوں کی طرف راغب کرے ۔
عقل کی تربیت کے سلسلہ میں اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ عقل کو ایسا ملکہ قرار دیتا ہے جس کے ذریعہ اﷲتعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کیا ہے انسانی عقل میں خالق کائنات نے غیر معمولی قوت و دیعت رکھی ہے لیکن عقل کو ہمیشہ الہیٰ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بغیر عقل کی آواز اور اس کی پسند و ناپسند پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اسلام اس رہنمائی کا کام انجام دیتے ہوئے عقل اور دیگر طاقتوں کے مابین تو ازن پیدا کرتا ہے اور اسے عمل کی صیحح و مفید راہ پر لگاتا ہے اسلام عقل کو جسم و روح سے متلق و مربوط ایک جز کی حثیت سے دیکھتا ہے اور روح کو عقل پر غالب رکھتا ہے کیونکہ روح ہی عقل کی رہنما ئی کا کام انجام دیتی ہے ۔ جسم انسانی وجود کا تسیرا حصہ ہے جس کی تربیت پر اسلام کی توجہ ہے اسلام کی توجہ ہے اسلام جسم اور روح و عقل کے مابین ربط برقرار رکھ کر اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے اسکا مطالبہ یہ ہے کہ جسم کو جس طرح مادی مضرات سے محفوظ رکھا جاتا ہے اسی طرح معنوی مضرات یعنیٰ بے حیائی اور بد عملی سے بھی محفوظ رکھا جائے تاکہ ہدایت ربانی کے مطابق وہ اپنی ذمہ داری ادا کرسکے ۔اسلامی نقطہ ونظر سے تربیت کا مفہوم یہ نکلتاہے کہ انسان کے ظاہر و باطن پر اثر ڈالا جائے اور اس اثر سے اسکا جسم وروح اور عقل ہر چیز متاثر ہو اس مثالی تربیت کے لئے اسلام نے درج ذیل و سائل اختیار کئےہیں۔
اسوۃ حسنہ ، تاریخی واقعات ، عبادت الہیٰ ، ضمیر کی بیداری و عظ و نصیحت، ترغیب و تربیت اور تادیب سزاوغیرہ۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2017