عائلی زندگی کی اسلامی قدریں

عائلی زندگی خوشی اور خوش اسلوبی کے ساتھ گزاری جائے، یہ اسلام کے اہم مقاصد میں شامل ہے، دین میں اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن مجید میں اسے اللہ کے حدود کی اقامت قرار دیا گیا ہے۔

شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے محبت کا پیکر بنیں، دونوں ایک دوسرے کے لیے ہم درد اور غم گسار ہوں، دونوں ایک دوسرے کے پاس سکون اور چین پائیں، دونوں ایک دوسرے کے ذریعے اپنی تکمیل کریں، یہ انسانوں کے خمیر میں رکھا گیا، یہ نہیں ہو تو اس کا مطلب کوئی خرابی ہے، جسے دور کرنا ضروری ہے۔ فرمایا:

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔[الروم:21]

(اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان مودت اور رحمت رکھ دی، بلاشبہ اس میں نشانیاں ہیں غور وفکر کرنے والوں کے لیے)

عائلی زندگی کی بہترین صورت گری کے لیے قرآن مجید میں بہت سے احکام دیئے گئے، اور احکام کے پہلو بہ پہلو بہت سی قدریں بھی سجا کر رکھ دی گئی ہیں۔

حقیقت میں عائلی زندگی کی خوش گواری قانونی احکام سے کہیں زیادہ قدروں کی پاس داری پر منحصر ہوتی ہے۔ عائلی زندگی میں قدروں کا دخل جتنا زیادہ ہوگا، زندگی اتنی ہی زیادہ پرلطف اور سہج گزرے گی۔ اور اگر عائلی زندگی قدروں سے خالی رہے گی، تو رشتے اور تعلقات اندیشوں اور خطروں سے دوچار رہیں گے، اور زندگی مشکلات ومسائل میں گرفتار ہو کر رہ جائے گی۔ عائلی زندگی کو موضوع بنانے والے کسی نظریہ حیات کی خوبی اس میں ہے کہ وہ عائلی زندگی کو کتنی زیادہ قدروں سے آراستہ کرتا ہے۔ یہی نہیں، درحقیقت قانونی احکام بھی اسی وقت خوبی سے متصف ہوتے ہیں جب وہ اعلی اقدار سے ہم آہنگ، اور ان کی نمود کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

اس مضمون میں دکھایا گیا ہے کہ اسلام نے عائلی زندگی کو متعدد اعلی قدروں سے مالا مال کیا ہے۔ اور یہ اسلام کی بہت بڑی خوبی ہے۔

باہمی رضا مندی

باہمی رضا مندی بہت اعلی قدر ہے، یہ انسان کو احساس دلاتی ہے کہ اس کے وجود اور اس کے ارادے کا احترام کیا جارہا ہے۔ جو معاملات باہمی مصالح اور مفادات پر مشتمل ہوں، انھیں یک طرفہ طور سے کسی ایک کا انجام دینا اور دوسرے فریق کو یکسر غیر متعلق رکھنا بنیادی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ قرآن مجید عائلی زندگی کے ضمن میں اس قدر کو بہت اہتمام کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔

باہمی رضا مندی کی یہ قدر نکاح کے عمل میں کارفرما نظر آتی ہے۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِر[البقرة:232]

(جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم نکاح پر راضی ہوں تمہیں یہ نصیحت کی جاتی ہے، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو)

باہمی رضا مندی کی یہ قدر نکاح کے بعد کی زندگی میں بھی قائم رہتی ہے۔

فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا [النساء:24]

(پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے طے شدہ مہر ادا کرو، البتہ مہرطے ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ علیم اور دانا ہے)

باہمی رضا مندی کی یہ قدر نکاح ٹوٹ جانے کے بعد بھی کارفرما رہتی ہے۔

فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا[البقرة:233]

(اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔)

اس طرح قرآن مجید میں باہمی رضا مندی کی عظیم قدر کا تذکرہ تینوں زمانوں کے لیے ہوا۔ نکاح کا باہمی عمل باہمی رضامندی سے انجام پائے، نکاح کے بعد ازدواجی زندگی میں بھی باہمی معاملات باہمی رضامندی سے انجام پائیں، اور نکاح ختم ہونے کے بعد پیش آنے والے باہمی معاملات بھی باہمی رضا مندی سے انجام پائیں۔

معاملات میں باہمی رضامندی تک پہنچنے کا عمل بہت سے خوش گوار تجربوں اور کیفیتوں سے گزرنے کا موقع دیتا ہے۔

آزادی وکشادگی

آزادی کا ابتدائی مطلب یہ ہے کہ انسان کا جسمانی وجود آزاد ہو، اور وہ کسی دوسرے انسان کے قبضہ ملکیت میں نہ ہو۔ اس کے لیے اسلام نے آزادی کی تحریک برپا کی اور غلامی کے دروازوں کو بند کیا۔ آزادی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنے ارادوں اور فیصلوں میں آزاد ہو، اور یہ بھی ہے کہ انسان آزاد اور کشادہ فضا میں سانس لے، اسے محسوس ہو کہ زندگی کے سفر میں رکاوٹیں نہیں کھڑی ہیں، اور زندگی کا راستہ تنگ نہیں ہوگیا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آزاد شخص بھی اپنی زندگی میں خود کو آزاد محسوس نہیں کرتا ہے، اسے لگتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کی زندگی مشکل بنارہے ہیں۔ قرآن مجید نے عائلی زندگی کے حوالے سے آزادی وکشادگی کی اس قدر پر خصوصی زور دیا ہے۔

وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ[النساء:19]

(اورانھیں تنگ نہ کرو تاکہ اُس مہر کا کچھ حصہ اڑا لو جو تم انھیں دے چکے ہو)

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ[البقرة:232]

(جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو ان پر پابندی نہ لگاؤ کہ۔۔۔)

وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ [الطلاق: 6]

(اور انھیں تنگی سے دوچار کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ)

ان آیتوں میں عضل اور تضییق کے الفاظ آئے ہیں۔ عضل کے معنی سختی سے روکنے کے ہوتے ہیں، اور تضییق کے معنی تنگ کرنے کے ہوتے ہیں۔ جبر اور تنگی میں مبتلا کرنے والے کسی بھی رویے کو کسی بھی حال میں شریعت میں روا نہیں رکھا گیا ہے۔ نہ نکاح کرنے کے سلسلے میں، نہ ازدواجی زندگی کے دوران، اور نہ ہی طلاق کے بعد کے معاملات میں۔ زوجین کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے کشادگی کا سامان کریں، اور اسے تنگی کے احساس سے بچائیں۔ تنگ کرنا کسی بھی وجہ سے اور کسی بھی مقصد سے جائز نہیں، خواہ وہ مقصد جائز ہو یا جائز نہیں ہو۔

اسلام میں طلاق اور خلع کی حکمت ضیق والی زندگی سے بچانا ہے۔ یہ نہ ہوں تو زندگی عذاب بن جائے، محض ان راستوں کے موجود ہونے سے زندگی میں سے ضیق نکل جاتا ہے، کیوں کہ زوجین میں سے ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے زیادتی کی تو اس کے شریک حیات کے سامنے جدائی اور تفریق کا راستہ موجود ہے، اور اسی لیے وہ خود ضیق میں نہیں پڑتا ہے اور دوسرے کو ضیق میں ڈالنے سے بچتا ہے۔

مشاورت

باہمی رضامندی کا حصول مشاورت کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔ قرآن مجید میں مشاورت کو عائلی معاملات کے حوالے سے خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے،فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا[البقرة:233]

(لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں)

وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ [الطلاق:6]

(اور باہم مناسب طور پر مشورہ کر لیا کرو)

گو کہ یہ آیتیں طلاق کے بعد رضاعت سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ہیں، لیکن اس قدر کے تذکرے نے تمام مشترک مسائل میں مشاورت کے ذریعہ بہتر نتیجے تک پہنچنے کے لیے راہ دکھائی ہے، اور پوری عائلی زندگی میں اس قدر کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔

مشاورت کا تعلق صرف اسلام کے سیاسی نظام سے نہیں ہے، بلکہ زندگی کے ان تمام میدانوں سے ہے، جہاں مصالح مشترک ہوں۔ فرمایا:

وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ[الشورى:38]

(ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں)

یہ مکی دور کی آیت ہے، جب اسلامی نظام کی اجرائی تفصیلات سے پہلے اسلام کی بنیادی قدروں کو پیش کیا جارہا تھا۔ اس آیت کے دائرے میں عائلی زندگی ضرور شامل ہے، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک گھر اور خاندان میں مشاورت کی قدر اچھی طرح نہیں برتی جائے، ریاست کی سطح پر اس کے لیے راہ ہموار نہیں ہوسکتی ہے۔

عائلی زندگی میں مشاورت کی قدر کو برتنے سے معاملات میں حسن پیدا ہوتا ہے، تعلقات کو استحکام حاصل ہوتا ہے، ساتھ ہی مل جل کر جینے کے لیے درکار ذہانت کا ارتقا بھی ہوتا ہے۔

صلح پسندی

عائلی زندگی کے استحکام کی خاطر کچھ ناگوار باتوں کو گوارا کرنا، کچھ حقوق سے دست بردار ہونا، کچھ جائز خواہشات کو دبالینا، بسا اوقات کار آمد ہوجاتا ہے۔ یہ دست برداری اگر نہیں چاہتے ہوئے، دوسروں کی زبردستی سے ہو تو یہ ظلم سہنے کی ایک صورت بن جاتی ہے، جس میں کسی کا پڑے رہنا مناسب نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر صلح پسندی نیکی کے جذبے سے ہو، دست برداری کے اچھے نتیجے سے دل کو خوشی محسوس ہوتی ہو، رضائے الہی کے حصول کا جذبہ اسے فرحت بخش بناتا ہو، تو یہ بہت اعلی قدر قرار پاتی ہے۔

قرآن مجید عائلی زندگی میں صلح پسندی کو کار خیر بنا کر پیش کرتا ہے، تاکہ اس سے کسی کدورت کے بجائے خوب مسرت حاصل ہو۔

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا[النساء:128]

(جب کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی آپس میں صلح کر لیں صلح بہر حال بہتر ہے نفس تنگ دلی کے طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرز عمل سے بے خبر نہ ہوگا)

اس آیت میں زوجین میں سے ہر کسی کو اپنی عائلی زندگی کی سازگاری اور برقراری کے لیے صلح اور دست برداری کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ صلح پسندی کے لیے خود غرضی کی قید سے آزاد ہونا ضروری ہے۔

سخاوت وفیاضی

سخاوت وفیاضی سے انسان کو خوشی حاصل ہوتی ہے، تاہم جب سخاوت کا دریا گھر کے اندر بہتا ہے، تو گھر خوشی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ اپنی فیملی کے ساتھ سخاوت کرنا فوری نتیجے کے لحاظ سے بھی اپنے اوپر سخاوت کرنا ہے۔ قرآن مجید نے سخاوت کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے، تاہم سخاوت کو عائلی زندگی کی ایک اہم قدر کی حیثیت سے بھی پیش کیا ہے۔

وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ[البقرة:237]

(اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہے، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دیدے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے)

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ[البقرة:229]

(یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روک لینا ہے، یا بہترین طریقے سےرخصت کردینا ہے)

وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا[النساء:4]

(اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اُسے تم مزے سے کھا سکتے ہو)

وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا[النساء:20]

(اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں سے کسی کو تم نے خزانے کا خزانہ دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے)

لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ [الطلاق:7]

(کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جسے نپی تلی روزی لی ہو،اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے دے)

ان آیتوں میں سخاوت کی قدر کو عائلی زندگی کے تعلق سے مختلف تعبیروں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سخاوت کی قدر کو شوہر کے ساتھ مخصوص نہیں کیا گیا ہے بلکہ شوہر اور بیوی دونوں کو اس سے متعارف کرایا گیا ہے۔ سخاوت کی یہ قدر نکاح کے وقت سے شروع ہوتی ہے، اور نکاح والی پوری زندگی میں کارفرما رہتی ہے۔ شوہر مہر طے کرنے میں فیاضی سے کام لے، شوہر بیوی کے اوپر خرچ کرنے میں فیاضی سے کام لے، اور بیوی شوہر کے مشکل حالات میں فیاضی سے کام لے، یہ سب مطلوب اور پسندیدہ ہے۔

بہت خاص بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں طلاق ہوجانے کے بعد کے حالات میں سخاوت کی اس قدر پر زیادہ زور ملتا ہے۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جب سخی اور فیاض لوگ بھی سخاوت کے تمام تقاضے بالکل بھلا دیتے ہیں، اور نہایت کنجوسی اور تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے طلاق ہوجانے کی صورت میں طلاق دینے والے شوہر کو ترغیب دی کہ وہ زیادہ سے زیادہ دے کر مطلقہ بیوی کو رخصت کرے، مطلقہ بیوی کو بھی ترغیب دی کہ طلاق دینے والے شوہر کی تنگ حالی دیکھتے ہوئے واجب مہر میں سے چاہے تو کچھ معاف کردے۔ یہ ترغیب بہت لطیف انداز سے دی گئی کہ اس کی حیثیت ایک قدر کی رہے جو دل کے اندر نشوونما پائے، ناکہ ایک حکم کی شکل اختیار کرلے۔ اس قدر کی کارفرمائی کسی جبر کے تحت نہیں ہونی چاہیے، سخاوت کی قدر بہت نازک ہوتی ہے، اسے جبر بالکل راس نہیں آتا ہے، خواہ جبر قانون کا ہو، یا سماج کا یا رواج کا۔

سب کی دل جوئی

یہ قدر دل کی کشادگی، زبان کی شیرینی، مزاج کی شگفتگی اور ہاتھوں کی فیاضی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے۔ جو اسے حاصل کرلے وہ پورے خاندان کے لیے شجر سایہ دار بن جاتا ہے۔ افراد خانہ اس کے قریب آکر سکون اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔ اس عظیم الشان قدر کا تذکرہ اللہ کے رسول ﷺ کو مخاطب کرکے آپ کی پاک ازواج کے ساتھ آپ کے رویے کے حوالے سے ملتا ہے۔ فرمایا:

ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ[الأحزاب:51]

(اس طرح زیادہ امکان ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں، اور وہ غمگین نہ ہوں، اور آپ انھیں جو دیں اس سے وہ سب راضی اور خوش ہوجائیں۔)

تمام نزاکتوں کے باوجود ساری بیویوں کو خوشی سے سیر کردینا اگر ممکن اور مطلوب ہے، تو سادہ عائلی زندگی میں یہ قدرے آسان بھی ہے اور بلاشبہ مطلوب بھی ہے۔

جب سب کی خوشی کا خیال کرنا، سب کو غموں سے بچانا اور سب کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانا کسی خاندان کا شعار بن جائے تو وہاں خوشیوں پر کبھی خزاں نہیں آتی ہے، ہمیشہ مسرتوں کی بہار رہتی ہے۔

خاندان کے کسی فرد کو خوش رکھنے اور کسی کو نظر انداز کرنے کی روش خاندان کے کچھ افراد کو راس آسکتی ہے، مگر پورے خاندان کو خوشی کا گہوارہ نہیں بناتی ہے۔

پاکیزگی وطہارت

عائلی زندگی کے حوالے سے طہارت وپاکیزگی کی قدر کا تذکرہ بھی خصوصیت کے ساتھ ہوا ہے۔

فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ[البقرة:222]

(پھر جب وہ پاک ہو جائیں، تو اُن کے پاس جاؤ اُس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں)

پاکیزگی کی قدر پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ اور پاکیزگی کا ذوق عائلی زندگی کو سازگار بنانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔

حسن انتظام

عائلی زندگی ایک اجتماعی زندگی ہے، اور حسن انتظام کا تقاضا کرتی ہے، قرآن مجید میں اس قدر کو نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ[النساء:34]

(مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں)

اس آیت میں مردوں سے مراد شوہر اور عورتوں سے مراد بیویاں ہیں، یہ آیت عائلی نظام کا ایک ٹھوس تصور پیش کرتی ہے۔ لفظ قوام کا ترجمہ جو بھی کیا جائے، تاہم اس کے اندر حسن انتظام کی ذمہ داری سنبھالنے کا مفہوم شامل ہے۔ قرآن مجید میں عائلی زندگی کے ضمن میں نشوز کا لفظ بھی آیا ہے، جس کے اندر بد انتظامی پیدا کردینے کا مفہوم بھی موجود ہے۔

عورتوں کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے، مالی کفالت کی مکمل ذمے داری مردوں پر ڈالی گئی، عورت کے ضعف کا خیال کرتے ہوئے مرد کو ان کا محافظ بنایا گیا، اور پھر کفالت وحفاظت کی ان ذمے داریوں کو بحسن وخوبی انجام دینے کے لیے انھیں گھر کا ذمہ دار بنادیا گیا، مرد کے قوام ہونے سے عورت کی آزادی مجروح نہ ہو، اس کے لیے مشاورت اور باہمی رضامندی کی قدروں کو اجاگر کیا گیا۔ یہ حسن انتظام کی بہت اچھی صورت ہے۔ جو ہر زمانے میں ہر خاندان کو راس آسکتی ہے۔

حسن انتظام کی یہ قدر تقاضا کرتی ہے، کہ پوری عائلی زندگی میں اس قدر کی کارفرمائی رہے۔ باہمی رضامندی سے مختلف حالات میں گھریلو ذمہ داری کے تعلق سے شوہر اور بیوی کے رول مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن حسن انتظام (کہ عائلی زندگی بحسن وخوبی چلتی رہے) کو بہرحال یقینی بنانا اللہ کے یہاں مطلوب ہے، اور انسانوں کی ایک بڑی تمدنی ضرورت ہے۔ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حقوق وواجبات کی کشمکش کہیں بد انتظامی سے دوچار نہ کردے۔ کتنا اچھا ہو اگر عائلی زندگی کے تمام فریق مل کر ہر موقع پر بہتر انتظام کی جستجو کریں۔

اصلاح پسندی

عائلی زندگی میں آنے والی ہر خرابی کی فوری اصلاح ہوتی رہے، اسی میں اہل خانہ کی بہتری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے خاندان اور اس سے متعلق دونوں بڑے خاندانوں میں اصلاح پسندی کی سوچ حاوی رہے۔ اصلاح کا لفظ عائلی تعلیمات کے ضمن میں بار بار آیا ہے۔

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا[النساء:35]

(اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے)

وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا[البقرة:228]

(اُن کے شوہر تعلقات درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، تو وہ اِس عدت کے دوران انھیں پھر سے اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں)

عائلی مسائل کا حل بہت آسان نظر آتا ہے جب شوہر اور بیوی اصلاح پسند ہوں اور ان دونوں کے گھر والے بھی اصلاح پسند ہوں۔ خاندانوں کی نمائندگی کے لیے ان کو آگے بڑھانا چاہیے جو اصلاح پسند ہوں، نہ کہ انھیں جو بے حکمتی اور بدزبانی سے اصلاح کے عمل کو مشکل بنادیتے ہوں۔

اصلاح پسندی کا جذبہ عائلی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو بر وقت حل کردیتا ہے، خاندان کو خوش گوار رکھتا ہے اور اصلاح پسند فرد کو رب کی رحمت کا مستحق بناتا ہے، عائلی امور کے ذیل میں فرمایا:

وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا[النساء:129]

(اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے)

ثبات واستحکام

اسلام میں ازدواجی رشتے کے دوام پر مجبور نہیں کیا گیا، مگر ثبات واستحکام کے اسباب اختیار کرنے کی تلقین کی گئی۔

زوجین میں سے ہر فریق کو ناگزیر حالات میں اس معاہدے سے نکلنے کا اختیار دیا گیا ہے، مگر اس معاہدے کو مضبوط بنانے، اور بے سبب ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش دونوں کی ذمہ داری ہے۔

وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا[النساء:34]

(اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور ان کی تادیب کرو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اللہ بلند اور بالا تر ہے)

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا[النساء:35]

(اور اگر تم لوگوں کو میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے)

وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا[النساء:128]

(اگرکسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا گمان ہو تو کوئی حرج نہیں اگر میاں بیوی آپس میں صلح کر لیں، صلح بہر حال بہتر ہے،خود غرضی نفس میں رچی بسی ہوتی ہے،، لیکن اگر تم لوگ احسان کی روش اختیار کرو اور خدا ترسی سے کام لو تو اللہ تمہارے اس عمل سے بے خبر نہ ہوگا)

ازدواجی رشتے کا استحکام مطلوب ہے، اس کے لیے مناسب تدبیریں اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ تاہم زندگی کی خوش گواری کی قیمت پر رشتے کی برقراری مطلوب نہیں ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کا ایک دوسرے کے لیے سازگار رہنا ضروری ہے۔ گھٹ گھٹ کر ساتھ رہنے کے بجائے الگ ہوجانا ایک بہتر راستہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں رشتے کے ثبات واستحکام کی قدر کو ذکر تو کیا گیا، مگر طلاق کو ناخوش گواری کی حالت سے نکلنے کے لیے ایک آسان راستے کے طور پر رکھا گیا۔

آسان روی

آسانی اسلام کی نمایاں خوبی ہے، یہ آسانی صرف عبادات میں ملحوظ نہیں ہے، زندگی کے ہر باب میں نظر آتی ہے، اور عائلی زندگی میں تو آسانی کی قدر کو کھلے طور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام جس عائلی زندگی کا تصور پیش کرتا ہے، اس میں کہیں کسی مرحلے کو دشوار نہیں رہنے دیا گیا ہے۔

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ[الطلاق:6]

(انھیں بھی اسی طرح رکھو جس طرح تم رہو، اپنی حیثیت کے مطابق)

لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا [الطلاق:7]

(خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے، اور جس کا رزق نپا تلا ہووہ اُسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے اللہ نے جس کو جتنا دیا ہے اس سے زیادہ کا اُسے مکلف نہیں کرتا بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخی عطا فرما دے)

اسلام میں نکاح سے متعلق معاملات بہت آسان، ازدواجی زندگی سے متعلق معاملات بہت آسان، طلاق کا عمل بہت آسان، اور طلاق کے بعد کے معاملات بھی بہت آسان بناکر پیش کیے گئے ہیں۔

یہاں تک کہ طلاق واقع ہونے کے نتیجے میں جن بڑی پریشانیوں اور مشکلوں کا اندیشہ ستاتا ہے، ان کے سلسلے میں بھی تسلی دی گئی۔

وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا[النساء:130]

( اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہی ہو جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے سے بے نیاز کر دے گا، اللہ کا دامن بہت کشادہ ہے اور وہ دانا و بینا ہے)

عائلی زندگی کے باب میں جہاں جہاں دشواریاں نظر آتی ہیں، وہ سب انسانوں کی اپنی پیدا کی ہوئی ہیں، اسلامی تعلیمات میں تو رحمت ہی رحمت ہے، زحمت کا گزر نہیں ہے۔

ضررسے دوری

کسی کو ضرر نہ پہنچے، یہ اسلام میں مطلوب ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ضرر پہنچانے سے بچے، یہ عائلی نظام کی ایک اہم قدر ہے۔

وَلَا تُضَارُّوهُنَّ[الطلاق:6]

(اور انھیں ضرر نہ پہنچاؤ)

لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ[البقرة:233]

(ماں اپنے بیٹے کو ضرر نہیں پہنچائے، اور نہ ہی باپ اپنے بیٹے کو ضرر پہنچائے)

وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ[ا لبقرة:231]

(انھیں روکو نہیں ضرر رسانی کی غرض سے کہ ان پر ظلم کرو، اور جس نے ایسا کیا، اس نے دراصل اپنے اوپر ظلم کیا)

قرآن مجید میں ضرر رسانی سے منع کیا گیا ہے، اور یہ ممانعت عائلی تعلیمات کے ضمن میں زیادہ تاکید کے ساتھ آئی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ عائلی زندگی کے کسی بھی گوشے میں ضرر نہیں رہے۔

ضرر بیزاری نفع پسندی کو مہمیز کرتی ہے، ضرر پہنچانے سے روکنے کا مطلب نفع پہنچانے کی ترغیب دینا ہے۔ مومن سراپا خیر اور ہر پہلو سے نافع ہوتا ہے۔

نرمی اور نصیحت

وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ[النساء:34]

(اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا احساس ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور ان کی تادیب کرو)

معاملات خراب ہونے لگیں تو ان کے حل کے لیے نرمی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، نرمی کو ترجیح دینا، اور نرمی سے بتدریج سختی کی طرف بڑھنا، ایک حکیمانہ رویہ ہے، جس کی طرف اس آیت میں نشان دہی کی گئی ہے۔

بگاڑ کو درست کرنے کی پہلی تدبیر نصیحت کو قرار دیا ہے،نصیحت کو اولیت دینا عائلی زندگی کی خوب صورت قدر ہے۔ عائلی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلا اقدا م نصیحت کا ہونا چاہیے۔نصیحت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا مثبت اثر خود اپنی ذات پر بھی پڑتا ہے، آدمی کی توجہ اپنی غلطی کی طرف بھی ملتفت ہوتی ہے،نصیحت کے راستے سے پوری بات سمجھنے کی راہ ہموار ہوتی ہے،اس سے بہت سے مسائل جڑ سے ختم ہوجاتے ہیں، اور بات بگڑنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ نصیحت کی راہ اختیار کرنے والا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ رشتے کی پائیداری کے سلسلے میں سنجیدہ ہے۔ نصیحت کے اندر نرمی کا مفہوم ہوتا ہے، نرمی عائلی زندگی کا زیور ہے۔

عدل پسندی

عائلی زندگی میں عدل وانصاف کو ملحوظ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ تعدد ازدواج کو عدل کی قید کے ساتھ مشروط رکھا گیا ہے۔

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً[النساء:3]

( جو عورتیں تمہارے لیے حلال ہوں، اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفاکرو)

جہاں عدل کے تمام تقاضے پورے کرنا ممکن نہ ہو، وہاں عدل کے ضروری تقاضوں کو پورا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔

وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ[النساء:129]

(تم سے یہ تو کبھی نہ ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو، گو تم اس کی کتنی ہی خواہش رکھتے ہو، تو بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھڑ لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو)

عدل کی قدر اگر پوری عائلی زندگی میں کارفرما رہے، تو عائلی زندگی با وقار ہوجائے، ورنہ نا انصافی تو زندگی کا سارا وقار ختم کر کے رکھ دیتی ہے۔

قیام عدل کی فکرمندی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آنی چاہیے۔ بچوں کے درمیان بھی، والدین اور بیوی بچوں کے درمیان، بھائی بہنوں کے درمیان بھی۔ غرض تعلقات کے کسی بھی زاویے میں چھوٹی سے چھوٹی نا انصافی سے بچیں۔

ایک طرف پورا جھکاؤ ایک بڑی خامی ہے، جو بڑی ناانصافی کی بھی دلیل ہے۔

ایفائے عہد

قرآن مجید میں نکاح کو میثاق غلیظ (مضبوط عہد) قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعبیر عائلی زندگی میں ایفائے عہد کی قدر سے متعارف کراتی ہے۔ نکاح کو ایک مضبوط عہد ماننے والے افراد زندگی بھر اس عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ عائلی زندگی کی بہت سی ذمہ داریوں کا احساس ایفائے عہد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ شوہروں سے کہا گیا کہ اپنی بیویوں کو جو کچھ بھی دیا ہے، وہ طلاق دینے کی صورت میں واپس نہ مانگو، اور اس ممانعت کی وجہ یہ بتائی گئی:

وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا[النساء:21]

(اور آخر تم اُسے کس طرح لے لو گے جبکہ تم آخری حد تک قریب ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں؟)

احسان شناسی

شوہر اور بیوی اگر ایک دوسرے کے لیے زندگی کے کسی مرحلے میں محسن رہے ہیں، تو تعلقات بگڑنے کی صورت میں بھی اس احسان کی قدر اور پاسداری ہونی چاہیے۔ اسی طرح والدین کے اپنی اولاد کی پرورش کے احسان ہوتے ہیں، اولاد کو زندگی بھر ان احسانات کا قدر داں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ان دونوں حوالوں سے اس قدر کو ابھارا گیا ہے۔

زندگی کے کسی ایک مرحلے یا موقع کے احسان کو اگر یاد رکھا جائے تو زندگی کے باقی مرحلوں اور مواقع پر اس کے ایجابی اثرات ظاہر ہوکر انسان کو نامناسب اور خلاف مروت رویوں سے بچاسکتے ہیں۔

ضعیفوں کے ساتھ ہم دردی

ضعیفی کی حالت رحم دلی اور ہم دردی کا تقاضا کرتی ہے۔ والدین بڑھاپے میں ضعیف ہوتے ہیں، دودھ پیتے بچے بھی ضعیف ہوتے ہیں، عورتیں بھی ضعیف ہوتی ہیں، اور یتیم عورتیں اور زیادہ ضعیف ہوتی ہیں، یتیم بچے بھی ضعیف ہوتے ہیں۔

سماجی اور عائلی زندگی میں ضعیفوں سے سابقہ پڑتا ہے، قرآن مجید میں ضعیفوں کے ساتھ ہم دردی کو ایک قدر کے طور پر پیش کیا گیا۔ جب عائلی زندگی میں ضعیفوں کے ساتھ ہم دردی اور رحم دلی کا چلن ہوتا ہے، تو گھر اللہ کی رحمت کا گہوارہ محسوس ہوتا ہے۔

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا[بني إسرائيل:23]

(اور تمہارے پروردگار کا صاف صاف حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگرتمہاری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سےاف تک نہ کہنا، نہ انھیں جھڑکنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا)

وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْيَتَامَى بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا[النساء:127]

(تم سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں، کہہ دو! کہ اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنھیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے اور انھیں اپنے نکاح میں ﻻلانے کی رغبت رکھتے ہو اور کم زور بچوں کے بارے میں اور اس بارے میں کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کرو۔ تم جو بھی نیک کام کرو گے، بے شبہ اللہ اسے پوری طرح جاننے والا ہے)

سماجی ذمہ داریوں کا احساس

قرآن مجید میں عائلی زندگی کے ضمن میں سماجی ذمہ داریوں کو بھی یاد دلایا گیا ہے۔ یتیموں کی بہتر سرپرستی کے لیے ضروری محسوس ہو تو یتیموں کی ماں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں تعدد ازدواج کو سماجی مسائل کے حل کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے، اور اس کے لیے وہی آگے بڑھ سکتا ہے، جسے سماجی ذمہ داریوں کا قوی احساس ہو۔

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ[النساء:3]

(اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے حقوق ادا نہیں کرسکو گے، تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہارے لیے حلال ہوں)

ایجابیت پسندی

قرآن مجید کی تمام عائلی تعلیمات مل کر ایجابی سوچ کی تشکیل کرتی ہیں۔ عائلی زندگی سے متعلق وہ تمام مسائل ومعاملات جن پر نزاع ہوسکتا ہے، یا جن کے راستے سے کسی قسم کی زیادتی کا اندیشہ ہوتا ہے، قرآن مجید میں ان سب کے سلسلے میں تعلیمات دی گئی ہیں۔ ان تعلیمات کا ایک مقصد یہ ہے کہ نزاعی معاملات میں ہر فریق کو اور خاص طور سے کم زور فریق کو زیادتی اور حق تلفی سے محفوظ رکھا جائے، ساتھ ہی ان تعلیمات کے لیے اسلوب بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے کہ ایجابی سوچ اور رویے کو فروغ حاصل ہو۔

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا[النساء:19]

(ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو)

وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا[النساء:130]

(لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہی ہو جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو غنی کر دے گا اللہ بہت وسعت والاہے اور وہ حکمت والاہے)

قرآنی تعلیمات سے روشنی ملتی ہے کہ نکاح والی زندگی ہو یا طلاق والا انجام ہو، منفی سوچ اور تخریبی رویے کا کہیں گزر نہیں ہونا چاہیے۔

لچک داری

اسلام کے عائلی نظام کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں باہمی رضامندی سے بہت سے معاملات خود طے کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ قدروں کا تذکرہ زیادہ ہے، تفصیلی احکام کا ذکر کم ہے۔ مختلف لوگوں کو مختلف حالات درپیش ہوسکتے ہیں، اس لیے متعین تفصیلی احکام دشواری اور زحمت کا سبب بن سکتے ہیں۔ مشترک خاندان ہو یاعلیحدہ خاندان، یا دونوں کے درمیان کی کوئی شکل؟ عورت گھر کے باہر کی ذمہ داری سنبھالے یا نہ سنبھالے؟ ایسے بہت سے سوالوں کا جواب مختلف لوگوں کے یہاں مختلف ہوسکتا ہے۔ مشاورت اور باہمی رضامندی سے کچھ بھی طے کیا جاسکتا ہے، البتہ اسلامی قدروں کی پاس داری ضروری ہے۔

اسلام کے عائلی نظام میں لچک کا پایا جانا، اور ہر ہر باب میں متعین تفصیلی احکام سے گریز کرنا، ہمیں لچک داری کی اہم قدر سے مانوس کرتا ہے۔ کسی خاص طرز پر اڑنے، اور کسی خاص رواج کو دانتوں سے دبانے کے بجائے، اور اپنی ہی پسند کو سب سے منوانے کے بجائے جہاں تک ممکن ہو، لچک داری اختیار کرنی چاہیے۔ اسی میں راحت اور عافیت پوشیدہ ہے۔

قرآن مجید میں “لا جناح” یعنی “کوئی مسٗلہ نہیں ہے” کی تعبیر سب سے زیادہ عائلی احکام وتعلیمات کے سلسلے میں آئی ہے۔ لاجناح بہترین عائلی پالیسی ہے۔

تقوی اور احسان، دو شاہ قدریں

عائلی زندگی سے متعلق تمام قدروں، تمام احکام، اور تعلیمات پر خوش اسلوبی کے ساتھ عمل کرنے کے لیے، اور انھیں ہر طرح کے عیبوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قرآن مجید میں دو بڑی قدریں دی گئی ہیں، اور وہ ہیں تقوی اور احسان۔

تقوی کا تقاضا ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس کے کرنے سے اللہ ناراض ہوجائے، اور ایسا کوئی کام نہ چھوڑا جائے جسے چھوڑنے سے اللہ ناراض ہوجائے۔

اور احسان کا تقاضا ہے کہ ایسے سارے کام کیے جائیں جن سے اللہ خوش ہوجائے، اور ہر اچھے کام کو اتنی خوبی کے ساتھ کیا جائے کہ وہ اللہ کو پسند آئے۔

یہ دونوں شاہ قدریں بے حد خوب صورت، مسرتوں سے بھرپور، ہر طرح کے عیب سے پاک،اعلی درجے کی مثالی عائلی زندگی کی ضمانت دیتی ہیں۔

بہت زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عائلی تعلیمات سے متعلق آیتوں میں تقوی اور احسان کا ذکربہت کثرت سے، اور بڑے اہتمام اور تاکید سے آیا ہے۔

وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا[النساء:128]

(اور اگر تم احسان اور تقوی کی روش اختیار کرو گے، تو اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے)

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا[الطلاق:2]

(جو کوئی اللہ کی ناراضی سے بچے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا)

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا[الطلاق:4]

(اور جو کوئی اللہ کی ناراضی سے بچے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا)

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا[الطلاق:5]

(جو کوئی اللہ کی ناراضی سے بچے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا)

آخری بات

عائلی زندگی سماجی زندگی کے لیے قاعدے (Base) کا کام کرتی ہے۔ عائلی زندگی میں جن قدروں کی پرورش ہوتی ہے، انہی پر سماجی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے، اور وہی قدریں عائلی زندگی سے سماجی زندگی تک ہر جگہ برگ وبار لاتی ہیں۔یہ قدریں ایک مسلمان زندگی کو حسین بناتی ہیں، اوراسلام کے عائلی قوانین کے حسن کی حفاظت بھی کرتی ہیں۔

ایک بہتر سماج کی تعمیر کے لیے، اور سماج میں بہتر قدروں کے فروغ کے لیے، عائلی زندگی کا بلند قدروں سے مالا مال ہونا ضروری ہے۔

عائلی زندگی کی قدروں کا بہت زیادہ ذکر اسلام کی امتیازی خصوصیت ہے، ان قدروں کو مسلمانوں کی امتیازی خصوصیت بن جانا چاہیے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223