اسلام کے ماننے والے دنیا کی چوتھائی آبادی سے کچھ کم ہیں جو اٹلانٹک سمندر سے پیسیفک سمندر تک لگ بھگ ساٹھ ملکوں میں اکثریت میں ہیں۔ ان کے علاوہ یہ ہندوستان، چین اور روس جیسے بڑے ملکوں میں کثیرتعداد میں آباد ہیں، اس کے علاوہ وہ بہت سے چھوٹے ملکوں میں بھی آباد ہیں، علاوہ ازیں ترک وطن کرکے امریکہ، کناڈا، یورپ اورآسٹریلیا میں بسنے والوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ تاہم مختلف تاریخی اسباب، صلیبی جنگوںو غیرہ کی وجہ سے مغربی ذرائع ابلاغ ، ماس میڈیا اور مستشرقین نیز ان کے حاشیہ بردار مشرقی میڈیا اور تحریکوں نے مشنری جذبے کے تحت اسلام و مسلمانوں کے خلاف جھوٹے و غلط پروپگنڈے کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جن کو مغربی عیسائی حکومتوں، صہیونیوں ، سنگھیوں، آریہ دانشور طبقوں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو متشدد، جنونی، ظلمت پسند، جدیدیت کے ہر پہلو کا مخالف اور غیر مسلم تمام فرقوں کے مستقل دشمن کے روپ میں پیش کرنا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو ایک ایسی مجتمع و متحد طاقت کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے جو جدید اور مہذب تہذیب کو برباد کرنے پر ہر لمحے تلی ہوئی ہے۔ یہ بات بلاشبہ درست ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان عقائد کے اعتبار سے ایک ہیں، مگر مسلم دنیا کو دوسرے اعتبارات سے ایک قرار نہیں دیا جاسکتا، وہ بہت سی تہذیبوں میں منقسم ہیں، کیونکہ اسلامی تعلیمات میں عمل تمام گروہوں کو ضم کرنے کے لئے لچک پیدا کرنے، دوسروں کے تعمیری افکار کو اہمیت دینے کی زبردست گنجائش ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہر اجنبی کلچر کے شرک، ظلم اور استحصال سے خالی ہونے پر نہ صرف یہ کہ اسے قبول کیا بلکہ اسے پروان چڑھنے کا بھرپور موقع عطا کیا۔ اسلام ایک عالمگیر، آفاقی اور دائمی خصوصیات رکھنے والا دین ہے، لہٰذا علاقائیت ، وقتی خصوصیات کی حامل اشیاء یا امور سے اس کا ٹکرائوبہت کم ہوتا ہے، کوئی بھی
عالمی مذہب یک تہذیبی نہیں ہوسکتا، اسلام ایک تبلیغی ودعوتی دین ہے، اس کی تعلیمات سادہ، عقائد واضح اور احکام فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ تمام مخالفانہ پروپگنڈے کے باوجود مسلسل پھیل اور بڑھ رہا ہے، مغربی قوتوں اور ان کے مشرقی اسلام دشمن حاشیہ برداروں کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کو سیاسی شکست دینے سے اسلام کا قافلہ تنزل کی طرف چل پڑے گا اور وہ مذہبی طور پر مسلمانوں پر غلبہ پالیں گے ، لیکن انھیں شدید مایوسی ہوئی،لہٰذا ان کے اندر حسد، بغض اور نفرت نے گھر کرلیا اور صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد تو انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک نئی طرح کی جنگ شروع کی جسے روحانی جنگ (Spritual War) کا خوبصورت نام دیاگیا ، بالآخر ہسپانیہ (اسپین اور پرتگال) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مکمل قلع قمع کے بعد (۱۴۹۲ء میں) اس طرح اس سال کو لمبس(۱۴۹۲ء) کو ملکۂ اسپین کے ذریعے ہندوستان کے قریب ترین بحری راستے کی تلاش، عیسائیت کی تبلیغ اور تجارت (مع مصالح) وغیرہ عظیم مقاصد کے ہمراہ مسلمان بحری سفر کے ماہرین کے ساتھ روانہ کیاگیا اور نئی صلیبی جنگ کی حکمت عملی ترتیب دی گئی جس کا اصل مقصدمسلمانوں، اسلام، مسلم ثقافت کے غلبے کا خاتمہ کرنا اورغیرجانبدار قوموں، مذہبوں کو مسلمانوں سے دور کرنا تھا، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے۔اپنے غلبے کے ساتھ انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر سے انھوں نے دوسری قوموں کو اپنے ساتھ جوڑنے اور مسلمانوں کو یکہ وتنہا کرنے میں کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں، عیسائی دنیا میں سب سے زیادہ اسلام دشمنی Anglo Sexan Race کے ذریعے عالم وجود میں آئی اینگلوسیکسن نسل ّّّّAnglo Sexan Race)ّ)کے غلبہ کے ممالک :(۱) برطانیہ (۲) امریکہ پوری طاقت کے ساتھ جارحیت پر عمل پیرا ہیں (۳) کنیڈا (۴) آسٹریلیا اور (۵) نیوزی لینڈ پیچھے سے انہیں مدد کرتے رہتے ہیں، برطانیہ نے ہی یہودیوں، سنگھیوں کو مسلمانوں کے خلاف منظم کیا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکہ سے بھی اِن کی دوستی کرا دی۔
آج مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈاکے لئے جن چیزوں کا نام لے کر سب سے زیادہ شور مچایا جاتا ہے وہ لفظ ’جہاد‘ ہے، حالانکہ یہ ان کا صرف طریقۂ کار ہے ورنہ وہ قرآن، محمد ﷺ ، ازواج مطہرات، بنات النبیؐ، خانۂ کعبہ اور روضۂ اقدس ہر ایک اسلام کے شعار کو باری باری نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
جہاد کی حقیقت
جہاد (ع) مادۂ ج ھ د سے ماخوذ ہے ، اس کے لغوی معنی ہیں: وہ کوشش، محنت کو کسی معین مقصد کے لئے کی جائے ۔ہجد، مجاہدہ، مجاہد اور اجتہاد بھی اسی مادے سے ماخوذ ہیں۔
قرآن پاک میں یہ لفظ کبھی لغوی اورکبھی اصطلاحی معنی میں آیا ہے۔
جہاد کے اصطلاحی معنیٰ
وہ محنت، کوشش جو اللہ کے لئے، اللہ کی راہ میں، اسلام کے لئے، نظامِ ملتِ اسلامی کے لئے، اس کے استحکام کے لئے کی جائے، اسی طرح نیکی کے فروغ اور بدی کے قلع قمع کے لئے ہو، چاہے وہ کوشش مال کے صرفہ سے ہو، یا جان کے نذرانے یا صلاحیت کے استعمال سے یا کسی اور طریقے سے— اپنے نفس سے جہاد کرنے کو بعض آثار (اورکتبِ اخلاق میں) جہاد اکبر کہا گیا۔ اگر ہم اس کی تفصیل میں جائیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ’جہاد‘ اسلام کاایک اجتماعی فریضہ بھی ہے۔ اور اس کے انجام دینے میں بطور عبادت ہر وہ کوشش اور محنت شامل ہے جو ملت کے استحکام، ملت کے تمام ہی اجتماعی امور، ملت کے معین مصالح: مثلاً حق کی سربلندی، اعلاء کلمۃ اللہ، مظلوموں کی حمایت، حملہ کرنے والوں کا مقابلہ، ان کی کمین گاہوں ، رسدگاہوں، چھائونیوں اور ان کی مرکزی قوت کو ختم کرنے تک سب امور شامل ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جہاد صرف قتال کو نہیں بلکہ ملت کے استحکام، ملت کے تمام ہی اجتماعی امور، ملت کے معین مصالح: مثلاً حق کی سربلندی، اعلاء کلمۃ اللہ ، مظلوموں کی حمایت، حملہ کرنے والوں کا مقابلہ، ان کی مکین گاہوں ، رسد گاہوں، چھائونیوں اور ان کی مرکزی قوت کو ختم کرنے تک سب امور شامل ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جہاد صرف قتل کو نہیں بلکہ ملت کے استحکام کی ہرکوشش کو کہا گیا ہے، علم نافع کے لئے جدوجہد، مال کو اسلام کے استحکام کے لئے خرچ کرنا بلکہ ظالم سلطا ن ؍امیر کے سامنے کلمۂ حق کہنا بھی جہاد میں شامل ہے۔ تاہم قتال بھی جہاد میں شامل ہے اور یہ جہاد کی ایک ناگزیر و انتہائی صورت ہے، جو دعوتی مذاہب کے لئے بھی ناگزیر بھی ہوسکتی ہے۔ اسلام پسپائی اور رہبانیت کو پسندنہیں کرتا، اس کے ساتھ ہی وہ زندگی کے حقائق کو اپنے پس منظر کے ساتھ تسلیم کرتا ہے۔ اس لئے اسلام قتال کی مجبوری سے غفلت نہیں برت سکتا، جس کے لئے ہمہ وقت مسلمانوںکوتیار رہنے کی وہ تلقین کرتا ہے۔
مستشرقین کی اکثریت ہمیشہ یہ جھوٹا پروپگنڈا کرتی رہی ہے کہ جہاد (محض تبلیغی یا ملک گیری کی اندھا دھند جدوجہد) مقدس لڑائی کا نام ہے۔ یہ خیال حقائقِ قرآنی اور تاریخی واقعات کے خلاف ہے، ان کی یہ ذہنیت اسلامی فتوحات، صلیبی جنگوں کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہے۔
قتال (جنگ) کو جہاد کہنا اپنے انتہائی پڑائو کے اعتبار سے کبھی کبھی بول دیا جاتا ہے۔ لیکن ہر قتال (جنگ) کو جہاد ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جہادایک وسیع تر اصطلاح اسلامی ہے جس کا مقصد محض اعلاء کلمۃ اللہ ، تحفظ غایات اسلامی کے لئے ہوتا ہے، یہ بے مقصد جنگ وجدال، و ملک گیری نہیں بلکہ ملی مقاصد کے لئے ایک اصولی جنگ ہے جو معین احکام، پابندیوں اور احتیاطوں کے ساتھ لڑی جاتی ہے۔ ان تمام احتیاطوں کا تذکرہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں موجود ہے۔ اس کا سب سے اہم وتعمیری پہلو یہ ہے کہ جہاد میں اگر جنگ تک نوبت پہنچ بھی جائے تب بھی صلح وآشتی کی اہمیت ہمیشہ زیادہ رہتی ہے؍ رکھی جاتی ہے۔ جنگ میں زیادتی سے بچنے کی سخت تلقین کی جاتی ہے۔ معاہدوں کی سختی سے پابندی، عورتوں ، بچوں، بوڑھوں سے درگزر، عبادت گاہوں کا پوری طرح احترام، درختوں ، فصلوں اور پانی کے چشموں کی حفاظت، زخمی ہوئے اور گرے ہوئے دشمنوں سے نرمی، قیدیوں سے حسن سلوک اور دیگر امور سب اس امر کی توثیق کرتے ہیں کہ وہ جہاد کہ جس میں نوبت قتال تک پہنچ جائے وہ ایک تعمیری اور حد درجہ اصول ختم کی جنگ ہے، اس کی اخلاقی حدود متعین ہیں، یہ تمام احکام، ہدایات قرآن ، سنت اورفقہ کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی طرح عبادت گاہوں میں الگ تھلگ رہ کر عبادت گزاروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔(ابودائود:۲۶۱۴)
بعض احادیث میں ہے کہ آپؐ جب لشکر روانہ فرماتے تو یہ ہدایت فرماتے کہ عبادت گاہوں کے خدام وعبادت گزاروں کو قتل نہ کیا جائے۔ (مسند احمد۲۷۲۳)
مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فاتح شام حضرت یزید بن ابی سفیانؓ کو فتحِ شام کے لئے روانہ کرتے وقت جو احکام دیے تھے وہ درج ذیل ہیں: (۱) عبادت کی خاطر دنیا چھوڑنے والوں سے کچھ نہ کہنا (۲) کسی عورت کو قتل نہ کرنا (۳) نہ کسی بچے کو قتل کرنا (۴) نہ کسی بوڑھے کوقتل کرنا(۵) کسی پھل داردرخت کو مت کاٹنا (۶) آبادی کو نقصان مت پہنچانا (۷) فوج کی غذائی مجبوری نہ ہوتو بکریاں یا اونٹ بھی ذبح مت کرنا (۸) کسی باغ میں آگ نہ لگانا، نہ کسی کو ڈبونا (۹) عہد شکنی مت کرنا (۱۰) مثلہ نہ کرنا (مؤطا:۸۵۸) امام بیہقی نے ۹۰۹ میں ان تمام احکام پر مبنی روایت کو حضور اکرمؐ سے نقل کیا ہے اور کثرت ِ اسانید و آثار صحابہ کرامؓ کی وجہ سے اس روایت کو قوی قرار دیا ہے۔
فتح مکہ کے واقعات میں حضور اکرمؐ کی ہدایات مسلم شریف میں ہیں: ’’جو گھر میں بیٹھ جائے اسے امان، جو بیت اللہ میں داخل ہو اسے امان جو دروازہ بند کرلے اسے امان ، جو ہتھیار ڈال دے اسے امان (مسلم: ۱۷۸) اسی طرح فتوح البلدان میں ہے: ’’زخمی کو قتل نہ کیاجائے۔ پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیاجائے‘‘۔ (فتوح البلدان۱؍۵۳)
تاریخ اور فقہ کے بعض جدید مصنفین نے اسلام میں جنگ کی جارحانہ اور مدافعانہ نوعیت کا ذکر کیا ہے، بعض نے جہاد بالسیف کا سرے سے انکار کیا ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ بحث جہاد کے صحیح مفہوم اور طریق نیز مقصد کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی احکام کی محتاط تعبیر کرنے والے محققین نے جارحانہ و مدافعانہ کے فرق کو اضافی قرار دے کر یہ نقطہ (Point) بیان فرمایا ہے کہ اصل مسئلہ جہاد کی نوعیت کا نہیں، بلکہ جہاد کے مقصد کی نوعیت کا ہے۔ (اس مقصد آفرینی سے اسلام کا قتال کے سلسلے میں جو اصل موقف ہے کہ وہ اصلاً دفاعی ہے اس کی تردید نہیں بلکہ تائید ہی پیش نظر ہے) بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاد بالقلم واللسان جب تعمیری، تذکیری اور دعوتی ہو تو اصلاً وہ اقدامی ہے اور اگر جہاد بالسیف تک نوبت آجائے تو وہ اصلاً دفاعی ہے، لیکن دفاع میں بسااوقات مخالف کی محفوظ پناہ گاہوں ، شر وفساد کی نیت سے مجتمع ہونے والوں کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہونابھی شامل ہوتا ہے بس معاملہ نیت اور رفعِ شر کا ہے بقول مولانا مودودیؒ: ’’اسلام کے مطابق جنگ کا اصل مقصد حریف مقابل کو ہلاک کرنااور نقصان پہنچانا نہیں بلکہ محض اس کے شر کو رفع کرنا ہے، اسی وجہ سے اسلام صرف اتنی قوت استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے جتنی دفعِ شر کے لئے ناگزیر ہو اور اس قوت کا استعمال صرف انھیں طبقوں کے خلاف ہونا چاہئے کہ جو عملاًبرسرِ پیکار ہوں‘‘۔ (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ: الجہاد فی الاسلام ، ص۱۷۷، لاہور)
اسلامی تاریخ میں غزوات و سرایا کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جنگ پہلا وسیلہ نہیں بلکہ اس سے پہلے کے جملہ ذرائع اور وسائل جو کلمۃ اللہ کے اعلاء اورتحفظ کے لئے ضروری ہیں وہ سب قرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔ باطل حملہ آور ہوتو ہمیشہ اس ناگزیر صورتحال کے لئے بھی تیار رہنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں استحکام کے قوت اور رباط الخیل کی تنظیم یعنی افرادی طاقت اورآلات جنگ کی فراہمی ایک بنیادی ضرورت ہے۔
مستشرقین کا ایک گروہ جو اسلام کے موقف کے بارے میں تشکیک پیداکرتا ہے وہ آپؐ کو فاتح زیادہ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے اور آپؐ کے نبی ہونے کو نظرانداز کرتا ہے ،پھر یہ بھی کہتا ہے کہ نبی کریمؐ کو صرف وعظ ونصیحت کرنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ یہ حقیقت نظرانداز کردیتے ہیں کہ اسلام صرف عقائد کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل نظام ہے جس میں ریاست وخلافت بھی شامل ہے جس کی حفاظت بھی لازمی ہے۔ غالباً انھوں نے اپنے عیسائی مذہبی تصورات کو اسلامی تصورات پر لادنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک اسلام کی اشاعت کا عالمگیر نظام کے طور پر تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ اسلام کی سادہ پرکشش اور پاکیزہ تعلیمات اور مسلمانوں کے اخلاق حسنہ دونوں طرح کے امور نے بھی اس میں نمایاں حصہ لیا ہے ۔ چنانچہ ان ملکوں میںاسلام کے ماننے والے بڑی تعداد میں بستے ہیں کہ جہاں کبھی فاتح نہیں پہنچے بلکہ عام تاجر، عالم اور صوفی ہی پہنچے جن کے حسن اخلاق سے اسلام پھیلا۔
انیسویں وبیسویں صدی میں مغربی اقوام کے مسلم ملکوں پر قبضے کے بعد بعض لوگوں نے عیسائیوں کے حاکمانہ قبضے کوتسلیم کرتے ہوئے مسلمانو ں کو یہ تلقین کی کہ مسلمان غیر مسلم حکام کی رعایا بن کر رہیں، بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت نہ کریں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے قولِ فیصل اور مسئلۂ خلافت میں اس موقف کا تجزیہ کیا ہے اور غلامی سے آزاد ہونے کے لئے جدوجہد کو فرض قرار دیا ہے۔ مولانا آزاد ، جہاد اور اسلام نامی کتاب میں نہایت وضاحت سے تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام کے متعلق یورپ کے تمام خیالات وتصورات کو ہمیشہ جہل اور غلط فہمی سے تعبیر کیاگیا ہے‘‘۔
مولانا آگے لکھتے ہیں:
’’دنیا میں قوموں کے باہمی نزاعات و اختلافات کی ایک غالب علت سوء تفہم بھی ہے ، آج یورپ کی قوموں نے نوآبادیوں کے اندر مشرقی قوموں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے۔ اسلام محکوم وحاکم دونوں صورتوں میں یورپ کے سامنے ہے۔ قسطنطنیہ میں مسجدوں کے میناروں کے ساتھ گرجوں کے کلس اس طرح مخلوط ہیں کہ کسی ہوٹل کھڑکی میں بیٹھ کر یورپین سیاح کے لئے مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ جامع احمد اور ارمنی چرچ کے کلسوں میں جلد امتیاز کرلے‘‘۔
پروفیسرتھومس آرنلڈ (Sir Thomas Arnold) اپنی کتاب The Preaching of Islam میں لکھتے ہیں:
’’بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی سلطنت میں غیر مذہب کے لوگوں کو وہ مذہبی آزادی حاصل رہی جس کی نظیر یورپ میں بھی سوائے زمانہ حال کے کبھی موجود نہ تھی‘‘۔ (دعوت اسلام،ص:۳۲۳)
جبراً مسلمان کرنے کی ممانعت خود قرآن حکیم میں موجود ہے۔
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۔ (البقرہ: ۲۵۷)
اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۔ (یونس،آیت :۹۹۔۱۰۰)
غرض مسلمانوں کی سلطنتوں میں عیسائی قوموں اور فرقوں کا صدہا برس سے آباد رہنا ہی اس بات کا صاف ثبوت ہے کہ ان کو مذہبی آزادی اورسلامتی حاصل رہی‘‘۔ (دعوت اسلام ، ص:۳۲۳)
جبرو اکراہ سے غیر مذہب کے لوگوں کو مسلمان کرنے کا حکم قرآن یا شریعت میں کہیں موجود نہیں ہے، قرآن حکیم کی وہ آیات جن میں جبراً مسلمان کرنے کی ممانعت ہے اور جن میں صرف وعظ ونصیحت کو اشاعت دین کا ذریعہ قرار دیا ہے ، اس کتاب کے پہلے باب میں نقل کی گئی ہیں اور علماء فقہ کے فیصلوں میں بھی اسی اصول کی پابندی ہوئی ہے۔ چنانچہ جس وقت موسیٰ ابن میمون یہودی نے سلاطین اسپین المرالظین کے متعصبانہ عہد میں بظاہر اسلام قبول کرلیا اور پھر مصر کو بھاگ کر وہاں اپنے تئیں یہودی بتایا تو اسپین کے ایک مفتی نے موسیٰ پر کفر کا فتویٰ جاری کیا اور چاہا کہ اس کو شرع کے مطابق سخت سے سخت سزا ملے، لیکن جس وقت یہ مقدمہ قاضی الفاضل (ابوعلی عبدالرحمٰن ۸۳۔۲۰۰ءقضات میںسب سے بڑا نامور شخص ہوا ہے، سلطان جلال الدین کاوزیر تھا۔ (دیکھیں ابن خلکان دوسری جلد ص۱۱۱۔۱۱۵حاشیہ) کے اجلاس میں پیش ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ جو شخص بجبر مسلمان کیاگیا ہو اس کو مسلمان نہیں کہہ سکتے‘‘۔ (ابوالفرج ، جلد ۲ ، ص۴۵۵) (دعوت اسلام ، ص۳۲۴۔۳۲۵)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2014