دین، عقل اور مستقبل
اس باب اور اس کتاب کے زیادہ تر حصے کا لہجہ پرجوش نہیں رہا ہے، ویسے بھی امریکی نژاد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا اپنی کمیونٹی سے دور ہونا تشویش کا باعث ہے۔ میں یہاں کسی ایسے بحران کی بات نہیں کر رہا ہوں جس کا خدشہ ہو، بلکہ یہ تو پہلے سے جاری ایک بحران ہے۔ امریکہ کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ رہی ہے اور ان کے بچے، جو اَب ادھیڑ عمر کے ہوچکے ہیں، ملک کی مساجد اور دیگر اسلامی مقامات سے غائب ہیں۔ یہی بات پچھلی نصف صدی کے نومسلموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، جن کی کمیونٹی پروگراموں میں نمائندگی بے حد کم ہوتی ہے۔ ان دونوں گروپوں کی نئی نسل کی کم حاضری اس بات کی غماز ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اب تک کی جانے والی کوششیں یا تو غیر مؤثر رہی ہیں یا ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔
مسلم اکثریتی معاشروں میں مذہبی اداروں سے اجتناب اسلام کے پوری طرح ترک کرنے کا باعث شاذ و نادر ہی بنتا ہے، کیوں کہ عقیدہ آس پاس کی ثقافت میں جذب ہوسکتا ہے، لیکن امریکہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے، اور اگر کمیونٹی سے کٹے ہوئے کچھ لوگ محض نام کے مسلمان ہی رہیں، تو ان کے بچوں کے مذہبی شناخت کو اپنائے جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ یقیناً میں جانتا ہوں کہ خدا جب اور جہاں چاہے مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں کی مدد کے بغیر ہدایت دے سکتا ہے، جیسا کہ افریقی امریکی مسلمانوں کے تجربے سے حیرت انگیز طور پر ظاہر ہوا ہے، لیکن اس سے امریکہ کے مسلمان اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوجاتے کہ وہ اپنے مقامی مسلمانوں تک رسائی کی ہر ممکن کوشش کریں۔ کیوں کہ خدا نے ہم پر فریضہ عائد کیا ہے کہ ’’خود کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘
روایت اور مذہب مسلم ممالک میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جہاں روایت کی جڑیں اس قدر گہری، ہمہ گیر، تقدس مآب اور اندیشہ ناک ہیں کہ کوئی بھی ان کو کھلم کھلا نظر انداز نہیں کرسکتا، کیوں کہ ایسا کرنے سے خود اسے اور اس کے خاندان کو انتہائی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں تک کہ وہ مسلمان جو اپنے عقیدے پر سنجیدگی سے سوال اٹھاتے ہیں وہ بھی اس کا اعتراف صرف چند قابل اعتماد ساتھیوں کے سامنے کریں گے، ورنہ اپنے عقیدے کا دکھاوا ہی کریں گے۔ تاہم امریکہ ایک غیر روایتی معاشرہ ہے۔ یہ ایک عظیم تہذیبی کٹھالی ہے جس میں بدیسی روایات پگھلا کر ’’آزادی‘‘ کے نام پر ایک ملغوبے میں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔ انفرادی آزادی کے حصول کے لیے یہاں معاشرے کی پشت پناہی سے روایات کو ترک کیا جاسکتا ہے، خصوصاً جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، جس کا ذکر ہی یہاں کے لوگوں میں خوف اور الجھن کا باعث بن جاتا ہے۔
امریکہ میں آزادی کا مطلب، خاص طور پر فکری آزادی، شک کرنے کا ناقابل تنسیخ حق ہے، اور امریکہ میں آج ہر روز اسلام کی کھلے عام چھان بین کی جاتی ہے اور اس پر مختلف طریقوں سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ کاش یہاں پرورش پانے والے مسلمان اپنے مذہب کے بارے میں سوالیہ رویہ اختیار کر لیتے۔ یہ بات یقینی ہے کہ روایت بہت سے غیر تارکین وطن مسلمانوں کو اپنے دائرے میں نہیں رکھ پائے گی۔ خاندان سے محبت کچھ لوگوں کے لیے کافی مضبوط تعلق ہوسکتا ہے، تاہم امریکہ کے یوتھ کلچر میں زیادہ تر افراد خودمختاری کی جدوجہد میں اسے آزمانے کے لیے تیار ہیں۔
ایمان کا تعلق دل اور دماغ سے ہے، لیکن دماغ اسے ختم کرنے کا دروازہ ہے۔ اگر اندرون ملک پیدا ہونے والے مسلمان مذہب سے دور ہو رہے ہیں تو یہ بہرحال ایک علمی مسئلہ ہے۔ ایمان اور عقل کے درمیان ایک ٹکراؤ ہے۔ اگر یہ کوئی اور مذہب یا کوئی اور ملک ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ روایت، روحانیت یا جذبات کی مضبوط اپیلیں شک کو مؤثر طریقے سے دور کرلیتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسیحی انجیلی تحریک کا یہی کام یاب طریقہ کار ہے اور امریکہ میں کچھ نوجوان مسلمان روحانیت کی تلاش میں تصوف کا رخ کر رہے ہیں۔
مگر امریکہ میں پیدا ہونے والے بہت سے مسلمانوں کے لیے مذہب پر سوال اٹھانے کی بہت سی وجوہ ہیں، دنیاوی، منطقی، اخلاقی اور روحانی۔ مذہب میں بہت سے سوراخ ہیں، بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ’’اسلامی‘‘ بتائی جاتی ہیں، لیکن نہیں ہیں۔ یہ اپروچ کام نہیں کرے گی، اگر کیا بھی تو بہت کم لوگوں پر اس کا اثر ہوگا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ برگشتہ دوسری نسل اور نومسلموں میں سے زیادہ تر نے طویل عرصے سے اپنے مسائل کے حل کے لیے مسجد کلچر کو ترک کر رکھا ہے، چاہے وہ دیندار ہوں یا نہ ہوں۔ اگر کچھ نہ کچھ تعلق ہے بھی تو بس یہ احساس کہ مسجد خدا اور مسلمانوں سے تعلق کا ایک واسطہ ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ غیر مسلموں کے ذریعے پھیلائی گئی غلط معلومات نہیں ہیں جو مسجد کے بارے میں ان کے رویے میں زہر گھولتی ہیں، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ خود کو مسجد کلچر سے وابستہ کرکے نہیں دیکھ سکتے جو ان کے نزدیک اجنبی، دقیانوسی اور غیر منطقی ہے۔
اگر امریکہ میں مسجد کلچر ان منحرف نسلوں اور نومسلموں تک پہنچنا چاہتا ہے، یا کم از کم ان کے بیشتر نوجوانوں کے فرار کو روکنا چاہتا ہے، تو مسلمانوں کے روایتی فکر و عمل کا تنقیدی اور مکمل جائزہ لینا ضروری ہے، نہ صرف مذہب میں حقیقی طور پر ضروری چیزوں کو الگ کرنے کے لیے، بلکہ فیصلوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور پہنچانے کے لیے بھی۔ ماضی کے علما کی تشریحات اور بصیرت اگر ضروری نہ ہوں پھر بھی اہم ضرور ہیں اور شاید آج بھی درست ہیں۔ مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بس ضروری امور کو اخذ کیا جائے اور باقی تمام کو مکمل طور پر ترک کردیا جائے، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ ماضی کی کوششوں کو آگے بڑھایا جائے۔ مسلمانوں کو سابق علما کے افکار، اثرات اور محرکات کے بارے میں جتنی اچھی سمجھ ہوگی، اتنا ہی ان کے لیے اچھا ہوگا کہ وہ اس بات کا اندازہ لگا سکیں گے کہ ان میں تشریح اور تطبیق کی کتنی گنجائش ہے۔
حقیقت پسندی سے کام لیں تو کون ہے جو روایتی مسلم افکار پر گہری بصیرت افروز تنقید کرے گا اور کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ مذہبی اسٹیبلشمنٹ اس پر توجہ دے گی؟ میں دوسرے نکتے سے آغاز کروں گا، جس کے لیے اسلام میں عقل کے استعمال کے بارے میں مرکزی دھارے کے مسلمانوں کے اندر فکری ہلچل کی ضرورت ہے۔
بہت سے قدیم مسلم فلاسفہ کا خیال تھا کہ حقیقی ایمان صرف عقل کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ عقل نے میرے قبول اسلام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، لیکن میں اس نقطہ نظر سے متفق نہیں ہوں۔ ہمارے روحانی ارتقا میں خدا کی بے پناہ کارسازی اتنی پیچیدہ ہے کہ اجزا کو عناصر میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا کہ ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکیں کہ کس لمحے وجدان، بصیرت، الہام، عقل، جذبات یا ضمیر میں سے کون سا کردار اپنا کام کر رہا تھا۔ پھر بھی مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی طرف میری اپنی پیش رفت کا عقل ایک لازمی جزو تھی۔ اگرچہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں، لیکن میں نے اندھی گلیوں اور ضرر سے بچنے کے لیے مستقل ایک متنبہ کرنے والے کی طرح اس پر انحصار کیا۔ آبائی دین کو چھوڑ کر ملحد بننا میرے انتخاب کا لازمی جزو تھا۔ میں نے اپنے ارد گرد جو دہشت اور بربریت دیکھی تھی، اس سے متاثر ہو کر میرا واسطہ بھی انھی سوالات سے پڑا جس نے بہت سے لوگوں کو کفر کی سمت دھکیل دیا تھا۔ ایک کامل خدا ایسی نامکمل دنیا کیوں بنائے گا؟ وہ انسان جیسی مجرم اور متشدد مخلوق کیوں پیدا کرے گا؟ اس نے ہمیں جنت میں فرشتے کیوں نہیں بنایا؟ وہ ہمیں فتنے میں مبتلا کیوں کرتا ہے؟ اس نے ہمیں تکلیف اٹھانے کے لیے کیوں پیدا کیا؟
دوسرے مذاہب کے بارے میں میری اگلے دس بارہ برسوں کی تحقیق میں بھی عقل کا کام نمایاں تھا۔ یہ بڑی حد تک وہ علمی تجسس تھا جس نے مجھے پہلی بار قرآن کھولنے کی تحریک بخشی۔ جب میں نے سورہ بقرہ کی تیسویں آیت پڑھی:
پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘ انھوں نے عرض کیا: ’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خوں ریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔‘ فرمایا: ’میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔‘
مجھے عقل اور جذبات نے گرفت میں لے لیا تھا۔ وہ سوال جو میری زندگی کی روشنی تھا، وہی عین میرے سامنے تھا اور میں کسی بھی طرح اب اس سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔ یہ مطالعہ اکیڈمک سے کہیں زیادہ ثابت ہوا، لیکن عقل اس تجربے کے مرکز میں رہی۔ جیسے جیسے قرآن نے بتدریج خدا کے وجود کے خلاف میرے دلائل کو رد کیا، میرے اور اس کے درمیان جو عظیم رکاوٹ کھڑی تھی وہ کم ہونا شروع ہو گئی، حتی کہ میں خدا کے وجود کے امکان کا قائل ہوگیا۔ اور جتنا زیادہ میں اپنے الحاد پر سوال اٹھاتا، اتنا ہی مجھے ایک زبردست رحمت کی موجودگی کا تجربہ ہوتا، جس نے باقی ماندہ مزاحمت پر بھی قابو پا لیا، اور ایک ایسی روح کو زندہ کر دیا جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ برسوں پہلے مردہ ہوچکی۔ اور اس طرح، آخر کار، میں رو پڑا اور ایک بے پناہ سہارے کو مضبوطی سے تھام لیا، اور بہت، طویل عرصے میں پہلی بار، جہاں تک مجھے یاد ہے، محبت کو اپنے اندر سرایت ہونے دیا۔
یہ سچ ہے کہ یہ صرف عقل ہی نہیں تھی جس نے مجھے خود سپردگی کی طرف راغب کیا، تاہم یقینی طور پر وہ اس عمل کے مرکز میں تھی۔ ایمان اور عقل کے درمیان تعلق کو میں اسی طرح دیکھتا ہوں۔ میں عقل کو ایمان سے ہم آہنگ اور اس کی خادم سمجھتا ہوں۔ عقل حق کی تلاش میں معین اور رہبر ہے۔ یہ خدا کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جو ہمیں غلطیوں سے بچنے اور اپنی اصلاح کرنے میں مدد کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغرب میں یہ عقل کا تصور موجود نہیں ہے، تاہم مجھے یقین تھا کہ مسلمانوں میں ضرور موجود ہوگا۔
قرآن مجید کے مطالعے سے میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ میں جس معاشرے میں داخل ہونے والا ہوں وہ دینی مسائل کی عقلی تحقیق پر بہت زور دیتا ہوگا۔ اس وقت تک جن مسلمانوں سے میری ملاقات ہوئی تھی وہ اسلام کے بارے میں بات کرتے وقت زیادہ واضح نہیں تھے، لیکن وہ ابھی نوجوان تھے اور ظاہر ہے محدود دینی تعلیم کے حامل تھے۔ مجھے یقین تھا کہ جب میں مزید تعلیم یافتہ مسلمانوں سے ملوں گا تو وہ مجھے اپنی منطق، معروضیت اور فلسفیانہ انداز سے ضرور متاثر کریں گے۔
ہو سکتا ہے کہ نوواردین ہمیشہ اپنی نئی کمیونٹیوں کو آئیڈیالائز کرتے ہوں، لیکن مجھے احساس ہوا کہ میں صریح طور پر غلط تھا۔ میرے اسلام قبول کرنے کے بعد سے، تقریباً ہر مسلمان نے، جس سے میں نے دینی مسائل پر تبادلہ خیال کیا، اس کی علمی سطح سے قطع نظر، دینی تصورات کے عقلی تجزیے کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا۔
بات صرف یہ نہیں ہے کہ مسلمان مسلمہ مذہبی نظریات پر سوال اٹھانے میں بہت زیادہ مزاحم ہیں- اگرچہ میں نے اس کے برعکس توقع کی تھی، یہ تقریباً عالمگیر دینی جذبہ ہے- بلکہ، وہ دینی مسائل پر عقلی غور و خوض کے بارے میں ایک واضح بے چینی اور بعض اوقات حقارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دینی گفتگوؤں میں صرف عقلی موضوعات سے وابستہ بعض الفاظ کا ذکر، جیسے ’’فلسفہ‘‘، ’’الہیات‘‘، ’’منطق‘‘، یہاں تک کہ ’’عقل‘‘، ان کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ میں نے متعدد مواقع پر مختلف مسلم دانش وروں کی آرا کو اس بنیاد پر نظر انداز کرتے ہوئے سنا ہے کہ وہ ’’نرا فلسفی‘‘ یا ’’مفکر محض‘‘ ہے، گویا یہ تضحیک آمیز اصطلاحات ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک مسلمان نے مجھے متنبہ کیا، ’’بھائی، آپ فلسفے کی کتابیں تو نہیں پڑھتے؟ آپ کو ان سے دور رہنا چاہیے۔‘‘
مسلم کمیونٹی میں اول اول آنے کے بعد سے، میں نے اپنے مسلم بھائیوں کو مذہب کے دفاع میں بھی عقل و منطق کے بارے میں بہت محتاط پایا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار مسجد میں تین حصوں پر مشتمل تقریر کرنے کی کوشش کی تھی۔ خدا کے تصور پر مجھے جو اعتراضات تھے اور جو جوابات مجھے قرآن پڑھنے سے ملے تھے، میں نے ان پر گفتگو کی۔ میرے اعتراضات پیش کرنے کے بعد سامعین کی ایک بڑی تعداد لڑنے پر آمادہ نظر آئی اور مطالبہ کیا کہ مجھے تقریر جاری رکھنے کی اجازت نہ دی جائے، کیوں کہ ان کی سمجھ کے مطابق اس طرح کے معاملات کے بارے میں سوچنا بھی حرام ہے۔ بہت سے نوجوان مسلمان جو مجھے اپنے شکوک و شبہات کے بارے میں لکھتے ہیں، اپنے سوالات پیش کرنے پر معذرت کا اظہار کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایسا سوال پوچھنا بھی حرام ہے۔
اسلام قبول کرنے کے کچھ سال بعد، ایک مقامی رہ نما کے ساتھ، کمیونٹی کی عورتوں کے ساتھ ہمارے رویے پر میری ایک طویل بحث ہوئی۔ جب انھیں لگا کہ میں اس بحث میں غالب آرہا ہوں، تو انھوں نے چیخ کر کہا: ’’اسلام میں کوئی عقل یا دلیل نہیں چلتی! ہم اسے تفسیر (قرآن) میں دیکھیں گے!‘‘ گویا وہ خاص تشریح، جو بعد میں ان کے موقف کی مؤید ثابت نہیں ہوئی، اس معاملے میں حرف آخر تھی۔
کمیونٹی کے رواجوں (norms) پر سوال اٹھانے میں میری ثابت قدمی نے اکثر تشویش پیدا کی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ایک سرجن نے بڑے صاف لفظوں میں اس بات کا اظہار کیا جو بہت سے دوسرے لوگ محسوس کرتے ہیں: ’’بھائی، یہ اچھی بات ہے کہ عقل آپ کو اسلام کی طرف لائی، لیکن اب جب کہ آپ مسلمان ہیں تو آپ کو علما کی باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔’’میں نے جواب دیا کہ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو شاید میں جہالت کی ایک شکل کے بدلے دوسری شکل کو اختیار کروں گا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر میں نے پہلے بھی یہی رویہ اپنایا ہوتا تو شاید میں اب بھی رومن کیتھولک ہوتا۔‘‘
یہ آخری دو واقعات دینی مسائل کے تعلق سے عقل کے استعمال کے بارے میں رائج رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔ مسلمان مسلّمہ مواقف کے لیے عقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔ درحقیقت، وہ عملی طور پر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں. وہ قرآن، حدیث، فتاوی، مختلف مضامین میں معاصر تحقیقی مقالات، اعداد و شمار اور کسی بھی ایسے شواہد کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کے موقف کی تائید کرتے ہوں۔ وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے استقرائی، استخراجی، نظیری اور قیاسی طرز پر دلائل بھی دیں گے۔ لیکن جب یہی طریقے کسی تسلیم شدہ رائے پر شک پیدا کرتے ہیں تو یہ طریقہِ استدلال ناجائز ٹھہرتا ہے۔ جب آپ کے شواہد اور دلائل کسی روایت کو کالعدم قرار دیتے نظر آتے ہیں، تو آپ عقل کے استعمال میں ’’بہت دور‘‘ نکل جانے والے بن جاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بسا اوقات دونوں فریق دلائل کے ایک جیسے طریقے استعمال کرتے ہیں، لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ رواج و روایت کا دفاع کرتے ہیں ان کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ قرآن و سنت پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور ان کی مخالفت کرنا تعقل زدگی ہے۔
میں نے کئی بار اس بات پر لیکچر دیا ہے کہ قرآن ایمان کے حصول میں عقل کے استعمال کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور وہاں موجود مسلمان بلا جھجک یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں عقل کے استعمال میں لکیر کہاں کھینچنی چاہیے۔ ابتدائی دنوں میں مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس لکیر کے بارے میں بات کر رہے تھے، لہذا میرا جواب ہوتا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اچھے استدلال اور خراب استدلال کے درمیان کوئی ’’لکیر‘‘ ہے۔ ’’تو، اکثر میرے رد میں کہا جاتا: اگر مجھے قرآن کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے، جیسے ہم نماز کیوں پڑھیں یا روزہ کیوں رکھیں یا شراب سے اجتناب کیوں برتیں؟‘‘۔ اس پر میرا عمومی جواب ہوتا کہ ان سب میں حکمت پائی جاسکتی ہے، لیکن بہر صورت، صرف اس وجہ سے کہ فرد کسی چیز کو نہ سمجھتا ہو، غلط فہمی علم کو غلط ثابت نہیں کرتی۔ بہت سے لوگ کیلکولس کو نہیں سمجھ سکتے، لیکن یہ بات ریاضی کے اس شعبے کو کالعدم نہیں کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کا اس بنیاد پر انکار کرتا ہے کہ وہ اسے نہیں سمجھتا تو وہ خراب استدلال کر رہا ہے۔ دوسری طرف اگر کسی رائج مسلّم روایت یا معتقدات کی ضرورت کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہوں تو ان پر سوال اٹھانا عقل کا اچھا استعمال ہے۔ پھر بھی یہیں پر بہت سے مسلمان ایمان اور عقل کے درمیان ’’لکیر کھینچتے ہیں‘‘، یعنی عقل اس وقت تک جائز ہے جب تک کہ وہ روایت کو چیلنج نہ کرے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024