حسد اور اُس کا علاج

’حسد‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لُغوی معنیٰ کینہ، جلن، ڈاہ، بدخواہی یاکسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اِصطلاحِ عام میں حسد اُن خداداد نعمتوںاور ترقیات و بلندی مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف مُنتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہُنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوے ہوں۔ یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔ یہ بیماری کمینوں اور پست ذہن وفکر رکھنے والوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔ یہ خصلت کسی کی ترقی و شہرت، کام یابی ومقبولیت مقام ومنصب کی بلندی اورعام انسانوںمیں اس کی عزت و نام وری کے نتیجے میں پروان چڑھتی ہے۔ اِس لیے کہ حاسداپنے یا اپنے متعلقین کے علاوہ کسی کی عزت و سرخ روئی یا ترقی وبلندی کو برداشت نہیں کرپاتا۔ وہ ہر قسم کی عزت و سرخ روئی یا ترقی و سربلندی کامستحق صرف اور صرف خود کو سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے وہ محسودمیں طرح طرح کے عیب نکالتا ہے، اس کی خوبیوںاور ہنرمندیوں کو خامیوں سے تعبیر کرتاہے۔ اس کی نیکی، تقویٰ اور حسنِ اخلاق وکردارکو ریاکاری، خودپسندی اور نام ونمود کامظہر قرار دیتا ہے۔ اس کے علمی وفکری کارناموںاور قومی وملّی خدمات کے حوالے سے لوگوں کو طرح طرح سے بدگمان کرتاہے۔ اس کے بارے میں ان لوگوں کی رائیں خراب کرتا ہے۔ اس لیے کہ خود وہ ان اعلیٰ محاسن وفضائل تک نہیں پہنچ پاتا۔ وہ چاہتاہے کہ محسود کے سلسلے میںایسی فضا بنادے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں اور چھوٹا یا بڑا جو مقام و مرتبہ اس کو ملاہے، وہ چھِن جائے۔ وہ ہر وقت اپنی تمام تر صلاحیتوںکو محسود کوزیروپست کرنے میں صرف کرتاہے۔ وہ یہ بھول جاتاہے کہ عزت وذلت اور ترقی و تنزل اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت صاف اور واضح طورپر ارشاد فرمایاہے:

قُلِ اللّٰہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِیْ الْمُلْکَ مَن تَشَآئ وَتَنزِعُ الْمُلْکَ مِمَّن تَشَآئ وَتُعِزُّ مَن تَشَآئ وَتُذِلُّ مَن تَشَآئ بِیَدِکَ الْخَیْْرُ اِنَّکَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْْئ ٍ قَدِیْرo        ﴿آل عمران:۲۶﴾

’کہو: خدایا! ملک کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘

حسد کامرض انسان میں اُس اعتقادی کم زوری کے نتیجے میں پیداہوتاہے، جو اسلامی زندگی کی روح اور اساس ہے۔ وہ یہ کہ تمام تر خوش حالی و بدحالی اور پستی و بلندی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہی انسان کو بدحالیوں سے نجات دیتا ہے اور خوش حالیوں ، مسرتوں اور شادکامیوں سے ہم کنار کرتا ہے۔ اِسے قرآنِ مجید میں اس طرح بیان کیاگیا ہے:

وَاِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہ‘اِلاَّ ہُوَ وَاِن یَمْسَسْکَ بِخَیْْرٍ فَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْْئ ٍ قَدِیْرo ﴿الانعام:۱۷﴾

’اگراللہ تمھیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں، جو تمھیں اس نقصان سے بچاسکے اور اگر وہ تمھیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘

حسد اور رشک

کبھی کبھی لوگ اپنی کم فہمی اور ناقص العلمی کی وجہ سے حسد اور رشک کو ایک ہی خانے میں رکھ کر طرح طرح کی بے جا اور بعیداز فہم تاویلیں کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں وہ حسد نہیں ہے۔ حالانکہ حسد ایک روحانی بیماری ہے، جو انسان کے اندر بزدلی ، پست ہمتی، کم ظرفی اور پست وارذل ماحول میں رہنے، پلنے ،بڑھنے اور پروان چڑھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ رشک ایک صالح اور پاکیزہ جذبہ ہے، جو کسی کے اندر صالح و پاکیزہ تربیت، ذہنی وفکری بلندی اور معیاری خاندانی اثرات سے پیدا ہوتااور پروان چڑھتا ہے۔ اِسے ہم چراغ سے چراغ جلنے یا جلانے سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ رشک وہ اعلیٰ جذبہ ہے، جس کی وجہ سے انسان کسی پڑوسی، ہم سایے، ہم پیشہ یا ہم عصر کی ترقی و بلندی اور رفعت وعظمت کو دیکھ کر خوش ہوتاہے اور وہ یہ جاننے کے لیے بے چین اور مضطرب ہوجاتاہے کہ اُسے جو ترقی اور خوش حالی نصیب ہوئی ہے، اس کے لیے اُسے کیا کیاکرنا پڑا ہے اور وہ کن مراحل سے گزرکر اس مقامِ بلند تک پہنچا ہے۔ یہ سب جان لینے کے بعد وہ بھی محنت ومشقت اور سعی و کاوش کرکے خوشی و مسرت، شہرت و نام وری اور خوش حالی و نیک نامی کے اس مقام بلندتک پہنچتا یا پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کسی کو پست و ذلیل یا زوال پزیر کرنے کا نہیں، بل کہ اعلیٰ ظرفی، بلند ہمتی اور روحانی طہارت وپاکیزگی کاجذبہ ہے۔ اسلام نے اِس جذبے کی تحسین بھی کی ہے اور ترغیب بھی دی ہے۔ قرآنِ مجید میں اِسے تنافس سے تعبیر کیاگیا ہے:

وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُون ﴿المطففین:۶۲﴾

جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں، وہ اس چیز کو حاصل کرنے کی بازی لے جانے کی کوشش کریں۔

فَاسْتَبِقُواالخَیْرَاتِ ﴿البقرہ:۱۴۸﴾ ’پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو‘

سَابِقُوآ اِلَی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم    ﴿الحدید:۲۱﴾

’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک بہت مشہور حدیث ہے کہ ایک بار غریب و مفلس مہاجرین کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ عرض کی: یارسول اللہ! مال دارو خوش حال لوگ مرتبے میں ہم سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ لوگ ہماری ہی طرح نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح روزے رکھتے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ چوں کہ وہ ارباب ثروت ہیں، اس لیے وہ حج بھی کرلیتے ہیں، عمرہ بھی کرلیتے ہیں اور جب جہادکا وقت آتاہے تو وہ مال و دولت سے بھرپور مدد کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیںاور ضرورت پڑنے پر غریبوں،مفلسوں اور حاجت مندوں کی بھی امداد کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ہم ان پر سبقت نہیں حاصل کرسکتے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی اُس جماعت کی بات سنی اور ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتادوں، جس سے تم بھی ان سب کے برابر ہوجائو، تم اپنے پیچھے رہنے والوں سے بہت آگے بڑھ جائو اور تمھاری برابری اُن لوگوں کے سوا کوئی نہ کرسکے جو وہی عمل کریں، جو میںتمھیںبتانا چاہتاہوں؟ سب نے خوشی خوشی بہ یک زبان کہا: کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول! ضرور ارشاد فرمائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوق وطلب کو دیکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہر فرض نماز کے بعد تینتیس ﴿۳۳﴾ تینتیس ﴿۳۳﴾ مرتبہ سبحان اللہ،الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔

یہ حدیث اپنے عہد کے نام ور عالم حدیث امام محی الدین ابوزکریا یحییٰ ابن شرف النوویؒ نے صحیحین کے حوالے سے اپنی مشہور کتاب ریاض الصالحین میں کتاب الاذکار کے باب ِ فضل الذکر و الحث علیہ میں نقل کی ہے ۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں سیکڑوں ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتا چلتاہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں صدقات وخیرات اور نیکی و تقویٰ کے سلسلے میں باہم رشک و تنافس پایاجاتاتھا اور وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ سیدناحضرت ابوبکرصدیق اورسیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہما بھی اکثر خیراور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ مذکورِ بالا آیات، احادیث اور واقعات سے اِس نتیجے تک پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ اچھائی اور نیکی کے کاموں میں رشک و تنافس اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا جذبہ، ایک محمود واَحسن جذبہ ہے۔ اِس سے انسان کے بلندیِ درجات کا اندازہ ہوتا ہے۔

جب کہ حاسد دوسروں کو حاصل شدہ دولت و نعمت کا بدخواہ ہوتاہے۔ اس دولت و نعمت کے سلسلے میں وہ لوگوں میں طرح طرح کی بدگمانیاں اور شکوک وشبہات پھیلاتاہے۔ حتّٰی کہ وہ اِس سلسلے میں فرضی اور من گھڑت واقعات بھی عام کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ اس کی ساری کوشش صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ محسود ذلیل و خوار ہو، اس کی شہرت و نام وری میں بٹّا آجائے، اس کی عزّت و عظمت مشکوک اور اس کی شخصیت و خاندانی شرافت داغ دار ہوجائے۔ خواہ خود حاسد کو وہ دولت ونعمت، عزت و عظمت اور شہرت و نام وری مل سکے یا نہ مل سکے۔ حاسد کایہ رویہ دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت ومصلحت پر عدم اعتماد ویقین کامظہر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اُسے نعوذبااللہ اللہ تعالیٰ کا حریف ومدمقابل بھی کہہ سکتے ہیں۔

اسلام میں حسد کی مذمت

اسلام امن وسکون اور خیر وخیرخواہی کا علم بردار ہے۔ وہ انسانی معاشرے کو سعید و خوش گوار دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس نے انسان کو اخلاقیات اور معاشرتی آداب سے آشنا و باخبر کیاہے اور پوری انسانی برادری کو لاضرر ولاضرار﴿ کوئی بھی انسان کسی انسان کو چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا نقصان نہ پہنچائے﴾ کا درس دیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک اِنسان کو دوسرے انسان کے لیے رنج وغم اور درد دکھ کا علاج، اس کے آرام و راحت کاسامان اور ایک دوسرے کے لیے محبت واخوت کاپیکر ہوناچاہیے۔ اسلام اس بات کو قطعی پسند نہیں کرتا کہ معاشرے میں حسد یا جلن کی آگ بھڑکے اور اس کے اثر سے پورا سماج یا معاشرہ نفرت وتعصب اور توڑ جوڑ کی آماج گاہ بن جائے۔

اسلام نے حسد کی اخلاقی برائی اور اس کی شناعت کو واضح اور واشگاف انداز میں بیان کرکے انسان کو اس کی ہلاکتوں اور تباہیوں سے خبردارکیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لاتحاسدوا ولاتقاطعوا ولاتباغضوا ولاتدابروا وکونوا عبادللہ اِخوانا ﴿بخاری کتاب الادب، باب ماینھیٰ عن التحاسد﴾

’آپس میں بغض و حسد، قطع تعلق اور ترک معاونت نہ کرو۔ اللہ کے بندو! تم اخوت ومحبت کے ساتھ رہو۔‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

دب الیکم دائ الامم قبلکُم الحسدوالبغضائ… الا أُنبئکُم بشیٔ اذا فعلتموہ تحاببتم افشوالسلام بینکم ﴿ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ، باب: ۵۶﴾

’تم سے پچھلی امتوں کی بیماریوں میں سے بغض و حسد کی بیماری تمھارے اندر سرایت کرگئی ہے۔ کیا میں تمھیںکوئی ایسی چیز نہ بتائوں، جو تمھارے اندر محبت پیداکردے؟ وہ یہ ہے کہ تم باہم سلام کو عام کرو۔‘

اللہ تعالیٰ نے جب پہلے انسان ابوالاٰبأ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی، اُنھیں نبوت کے اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا اور جن وملک کو حکم دیا کہ سب اُنھیں سجدہ کریں تو سب نے حکم الٰہی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔ بس ایک ابلیس تھا جو حسد کی آگ میں جل اُٹھا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اللہ کی نافرمانی پر اترآیا۔ اُسے یہ بات نہ بھائی کہ ایک مٹی کے پیکر کو اتنا بلند مقام ملے کہ اُسے جن و ملک سجدے کریں۔ اس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل، رسوا اور راندۂ درگاہ قرار پایا۔ اس کابیان قرانِ مجید میں بہت واضح طورپر آیاہے:

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآَئِکَۃِ اسْجُدُواْلِاٰدَمَ فَسَجَدُوآْ اِلآَّ اِبْلِیْسَ أَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَo  ﴿البقرہ:۳۴﴾

’پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم کے آگے جھک جائو،تو سب جھک گئے، مگرابلیس نے انکار کیا، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔‘

ابلیس نے جو رویہ اختیارکیا، حسد، جلن اور اپنے آپ کو آدم کے مقابلے میں اعلیٰ وبرتر سمجھنے کے ہی نتیجے میں اختیار کیا۔ وہ اِس مقامِ بلند کا مستحق خود کوسمجھتاتھا۔ دراصل انسان جب کسی کی عظمت و بلندی، عزت و شہرت یا ترقیِ درجات سے جلتاہے تو اس میں یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ یہ شخص اس کامستحق نہیں ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتاہے کہ اِسے جو کچھ بھی حاصل ہے، وہ محض اللہ کا عطیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے جو کچھ دیاہے، وہ مستحق و حق دار سمجھ کر ہی دیاہے۔ وہ جس کومناسب سمجھتا ہے ، دیتاہے اور جسے نہیں چاہتا، اُسے نہیں دیتا۔ اس کے ہاں سورس، سفارش کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی ترقی وکام یابی سے جلتا یا حسد کرتاہے گویا وہ خود کو ﴿نعوذباللہ﴾ اللہ تعالیٰ سے زیادہ عقل و فہم والاسمجھتا ہے۔

حسداسلامی مزاج کے منافی ایک شیطانی جذبہ ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کی خصلتوں میں سے ہے۔ یہ انسانیت سے گری ہوئی ایسی خصلت ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا اور بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ حسد بڑی خاموشی سے دلوں میں گھر کرلیتا ہے۔ حسد کا مریض کبھی کبھی یہ باور کرلیتاہے کہ وہ جو کچھ کررہاہے، اظہار حق کے طورپر اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے پیش نظر کررہاہے۔ لیکن اگر وہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو حاضر وناظر اور آخرت میں اس کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ سوچے اور غور کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح اور منکشف ہوجائے گی کہ وہ بڑی مہلک روحانی بیماری کاشکار ہے۔

حسد احساس کم تری، متعلقہ میدان میں حاسد کی ناکامی و نامرادی اور کسی دیرینہ کدورت کی وجہ سے جنم لیتاہے۔ احساسِ برتری، کبرو نخوت اور خودپسندی وخودبینی بھی حسد کا مظہر ہے۔ انسان کی تنگ نظری وبخل مزاجی بھی حسد کاسبب بنتا ہے۔ تنگ نظر و بخیل کسی کو اچھے حال میں نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنے ہم سفروں، ہم جماعتوں اورپڑوسیوں کی پریشانی و بدحالی پردل ہی دل میں شادو مسرور ہوتاہے۔

کبھی کبھی یہ بھی دیکھاگیاہے کہ لوگ کسی بھوکے کو کھانا کھلادیتے ہیں اور اگر اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں تو کپڑوں کاانتظام کردیتے ہیں، لیکن جب اُس شخص کی خستہ حالی، پریشانی اور مفلسی ختم ہوجاتی ہے، وہ خود کفیل ہوجاتاہے اورمعاشرے میں سراٹھاکر چلنے کے لائق ہوجاتاہے تو وہی لوگ اس سے جلنے اور اس پر شکوک و شبہات کی انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور سماج میں اس کی تصویر خراب کرنے لگتے ہیں، جو کبھی اس کی بھوک کی حالت میںاُسے کھانا کھلاچکے ہوتے ہیں اور بے لباسی کی صورت میں اسے لباس فراہم کرچکے ہوتے ہیں۔

یہ بات ہمیں، آپ کو اور ہر اہلِ ایمان کو یاد رکھنی چاہیے کہ محسود کے ساتھ حاسد کی بدخواہی، اس کے زوال و تنزل کی خواہش، اس کی مصیبت و پریشانی پرمسرت وشادمانی اور اس کی خوش حالی و شادمانی پرکبیدہ خاطری منافقین کی خصلت ہے۔ حاسد کو محسود سے قطعِ تعلق ، ترک تعاون اور نفرت وبُعد اسلامی مزاج کے منافی اور اظہارِ محبت و اخوت کرتے ہوے دل میں جلن، بغض اور کینہ رکھنا سراسر نفاق ہے۔ یہ عمل ایمان سے دور کردیتا ہے۔ محسود کی غیبت، چغلی، اس پر کسی قسم کااتہام، اس کی ہتکِ عزت یا اس کے کسی راز کاافشا اور اس کااستخفاف و استہزا یا اس کے حقوق سے بے نیازی غیرمومنانہ اور ناجائز رویہ ہے۔

انسانی زندگی پر حسد کے اثرات

حسد کے روحانی مرض میں مبتلاشخص گرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوںسے بہرہ ورافراد کی تصویربگاڑنے کی کوشش کرکے اپنے نفس کی تسکین محسوس کرتا ہے اور بسااوقات محسود کو وہ کچھ نقصان پہنچانے میں کام یاب بھی ہوجاتاہے ۔ تاہم محسود کا یہ نقصان یاکسی قسم کی تکلیف و پریشانی وقتی و عارضی ہوتی ہے۔ اس نقصان یا تکلیف وپریشانی کی تلافی اس کے صبرو تحمل اور ایمانی استقامت کے ذریعے سے بہت جلد ہوجاتی ہے۔ جب کہ حاسد کی زندگی ہمیشہ دکھ، درد، اضطراب اور بے چینی سے دوچار رہتی ہے۔ اس کے حالات وکیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرحت وانبساط، مسرت وشادمانی اور بشاشت و تازگی کی دولت سے محروم ہوچکا ہے۔ بعض حکما نے حسد کو جسمانی مرض بھی بتایاہے۔ الحسد دائ الجسد ﴿حسد جسم کی بیماری ہے﴾ کا عربی مقولہ بہت مشہور ہے۔ حاسد کاوقار گرجانا، لوگوں کا اس سے منحرف ومتنفرہوجانا اور اس کو مشکوک و مشتبہ نگاہوں سے دیکھنا حسد کے لازمی اثرات میںسے ہے۔ یہ اثرات حسد کرنے والے کی زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ وہ کبھی باعزت و سرخ رو نہیںہوسکتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شرّالناس من یبغض الناس ویبغضونہ

’سب سے برا وہ شخص ہے، جو لوگوں سے بغض و کینہ رکھے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے بغض و کینہ رکھیں‘

اُخروی زندگی پر حسد کے اثرات

اب تک کی کسی قدر تفصیلی گفتگو سے یہ بات واضح اور منکشف ہوجاتی ہے کہ حسد ایک انتہائی قبیح، رذیل اور ذلیل خصلت ہے، اس کے اندر بے شمار دینی، اعتقادی، سماجی، معاشرتی، روحانی اور جسمانی مفاسد ہیں اور اس کااُخروی انجام نہایت خطرناک اور تباہ کن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

ایاکم والحسد فان الحسد یأکل الحسنات کماتاکل النار الحطب   ﴿ابودائود کتاب الادب، باب فی الجسد﴾

’تم اپنے آپ کو حسد سے بچائو، اس لیے کہ حسد نیکیوںکو اس طرح جلادیتاہے، جس طرح کہ آگ لکڑی جلادیتی ہے‘

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شب و روز کی زندگی کاجائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بیماری ہمارے اندر سرایت کرکے ہمارے خرمنِ دین و ایمان کو جلاکر راکھ کررہی ہو۔ تاکہ ہم جو کچھ چھوٹی بڑی نیکیاں کررہے ہیں اور جو ہم سے تھوڑے بہت کار خیر انجام پارہے ہیں، وہ ہمارے لیے اُخروی فلاح وکام یابی اورحصولِ جنت کا وسیلہ بن سکیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے طریق سے ایک حدیث بیان کی ہے:

’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی رسول کے سلسلے میں جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ نے اُن صحابی کے اعمال کابہ غور مطالعہ و مشاہدہ کیا تو اُنھیں اعمال کے اعتبار سے کسی اعلیٰ و بلند مقام پرنہیں پایا۔ اُن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی بشارت کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایاکہ میرے حق میں جنت کی بشارت کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں نے آج تک کسی بھی مسلمان سے بغض و حسد کا معاملہ نہیں کیا۔‘ ﴿مسند احمد ،ج :۳، ص:۱۶۶﴾

حسد کا علاج

حسد کا علاج کسی دو ا دارو، جھاڑپھونک یا شیخ و مرشد کی توجہ سے ممکن نہیں۔ بل کہ یہ علم و عمل دونوں کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیرحسد کا علاج نہیںہوسکتا۔ یہ بات ہم سب پر واضح رہنی چاہیے کہ حسد سے محسود کا نہ کوئی دنیوی نقصان ہوتا ہے اور نہ اخروی۔ بل کہ اخروی طورپراس کے لیے یہ مفید اور باعث اجرو ثواب ہے۔ اس لیے کہ حاسد غیبت، چغلی اور لگائی بجھائی کے ذریعے سے محسود کی آخرت کے لیے ہدیہ و توشہ فراہم کرتا ہے۔ میں نے کبھی کہاتھا:

مری ذات ہی اس کا موضوع تھی

وہ میرے گناہوں کو دھوتا رہا

اِس شعر میں اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ترجمانی کی گئی ہے، جس میں حاسد کو محسود کے گناہوں کا دھوبی کہاگیاہے۔ جب کوئی کسی کی غیبت کرتاہے یا اس کی شبیہ بگاڑنے کا کام کرتاہے تو گویا وہ اس کے گناہوں اور خرابیوں کا صفایا کرتاہے۔

حسد کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بہترین علاج یہی ہے کہ جس سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا جسے ہم کسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں اور اس کی فلاح و کام یابی ہمیںایک آنکھ نہ بھاتی ہو، ہم اپنے آپ کو اس سے راضی کریں، اس کی ترقیِ درجات سے خوش ہونے کی عادت ڈالیں، اس کی عزت و شہرت سے تنگی و کوفت محسوس کرنے کی بہ جائے دل سے مسرت وشادمانی کا اظہار کریں، اگر ممکن ہوتو اس کی عزت و شہرت میں کچھ نہ کچھ اضافے کی کوشش کریں،جس محفل و مجلس میں اس کا تذکرہ ہورہا ہو، اس میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں اور اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ حسب موقع اس کی دعوت کریں اور تحائف وہدایا کااہتمام کریں اور اس کے دکھ درد اور خوشی و مسرت میں شریک ہوں۔ یہ علاج ہے تو تلخ مگر اس میں نہایت موثر و مفید شفاپوشیدہ ہے۔ اگر یہ طریقۂ علاج ہم نے اختیارکرلیا تو اس میں ہمارے لیے غیرمعمولی سکون و راحت کا سامان ہے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223