مردوں اور خواتین کے مشترکہ اجتماعات کے تعلق سے وقتا ًفوقتا ً سوالات اُٹھتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے مشترکہ اجتماعات کا رواج پورے ملک میں ہوتا جا رہا ہے ۔اِن مشترکہ اجتماعات کی ضرورت کیا ہے اور مردذمہ داروں کے سا تھ اسٹیج پر خواتین کو بٹھانے کی کیا ضرورت اس پر غور کرنا چاہئے۔ اِس ضمن میں دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کی کوئی ضرورت ہے کہ خواتین، عورتوں اور مردوں کے مشترکہ اجتماعات میں خطاب کریں چاہے خطاب اسٹیج سے ہو یاپس پردہ؟
اکثراِن سوالات پر جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اس کا جواز ملتا ہے اور یہ کہ سہولت کے لیے ایسا کیا جارہا ہے۔ لیکن اقامتِ دین کے نقطہ نظر سے کسی ٹھوس وجہ کا ذکر نہیں آرہا ہے ۔﴿صرف فقہی گنجائش کا ذکر ہوتا ہے﴾یوں توبہت سی باتوں کا جواز ملتا ہے، لیکن اُس سہولت و گنجائش کا استعمال مفید ہے یا مضر، یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ اِس وقت مرد و خواتین کے درمیان بنا پردہ (Curtain)کے مشترکہ اجتماعات کے اِس اقدام پر بے اطمنانی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اِس بے اطمینانی کی چند وجوہات کا تذکرہ کیاجارہا ہے۔
مشترکہ اجتماعات کا آغاز
ابتداً مرد و خواتین کے مشترکہ اجتماعات کا طریقہ یہ ہوا کرتا تھا کہ خواتین کسی دوسرے ہال میں بیٹھتیں اور مائک کا انتظام کردیا جاتا یا ایک ہی ہال میں مردو خواتین کے بیٹھنے کا انتظام ہو تا لیکن پردہ درمیان میں ہوا کرتااور آنے جانے کے راستے بھی الگ ہوتے بسااوقات خواتین کے اجتماع کے مقام پر ٹی وی (T.V) کا انتظام کردیا جاتا تاکہ وہ کاروائی سننے کے ساتھ ساتھ دیکھ بھی سکیں۔ یہ ابتدائی نقشہ ہے۔لیکن رفتہ رفتہ مشترکہ اجتماعات نے ایک مختلف شکل اختیار کرلی۔کچھ سال قبل خواتین کو یہ ذمہ داری دی جانے لگی کہ وہ بھی مردوں کے ساتھ مذ اکرات میں حصہ لیں اور دئے گئے عنوان پر مائک پر پس پردہ تقریر کریں جسکو خواتین اور مرد دونوں سنیں گے۔اس طرح ایک قدم آگے بڑھا۔ اِس کا جو از ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے عمل سے لایا گیا۔مرد بھی آکر آپ سے دین کے متعلق سوال کرتے تھے اور وہ انھیں دین بتا تیںٰٰٰٰ ۔پھر کچھ سال بعد ایسا ہواکہ ایک ہی ہال میں مرد و خواتین کے درمیان جو پردہ ہوا کرتا تھا، ہٹا دیا گیا وجہ یہ بتائی گئی کہ ڈبل پردہ کی کیا ضرورت ہے جبکہ خواتین برقعہ میں ہوتی ہی ہیں اور وہ پچھلی صفوں میں مردوں کے پیچھے بِیٹھا کریں گی ۔مثال دی گئی کہ حضورﷺ کے زمانے مبارکہ میں خواتین مسجد کے پچھلے حصہ میں صف بناتی تھیں۔یہ وضاحت بھی کی گئی کہ یہ “combined gathering”ہے یعنی مشترکہ اجتماع جس میں مرد اور خواتین کی صفیں الگ الگ ہوتی ہیں نہ کہ”mixed gathering” جو مخلوط اجتماع ہوتا ہے جس میں مرد و خواتین مل کر ساتھ ساتھ بیٹھتے ہیں۔ ان ہی اقدامات کے ضمن میں جنگوں کی بھی مثال پیش کی گئی جس میں عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں اور انھیں پانی پلاتی تھیں۔اب کچھ دن قبل یہ اقدام کیا گیا ہے کہ کچھ ذمہ دارخواتینِ کو اسٹیج پربٹھایا گیا ایک جانب خواتین تھیں اور دوسری جانب مرد ذمہ داران ِ کی نشستیں تھیں اس کے بعد ملا جلا اجتماع (mixed gathering)ہونے لگے جہاں مرد و خواتین ساتھ بیٹھیں گے اس کا جواز بیت اللہ کے طواف اور صفا ء و مروہ کی سعی سے لایا جاسکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اقامتِ دین سے ہم آہنگ عمل کیا ایسا ہوتا ہے؟ کیا یہ حدود اللہ کی حفاظت ہے؟کیا یہ غیر محسوس انحطاط نہیں ہے؟
دلائل کا جائزہ
جواز کے لیے مثالیں پیش کی جاتی ہیں کیا وہ استثنائی حالات کے لیے ہیں یا عام حالات کے لیے ؟ مثال کے طور پر جنگ کے سلسلے میں غور کیا جاسکتا ہے۔جنگ کے ماحول میں جذبات و احساسات کی جو کیفیات ہوتی تھیں کیا وہ عام اجتماعات میں بھی ہیں؟ زخموں کی تکلیف دیکھ کر رحم، ہمدردی اور خدمت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کیفیت میں اخلاص و للہیت کے ساتھ خواتین بھی زخمیوں کی خدمت میں لگی رہتیں، مرہم پٹی کرتیں اور پانی پلاتیں اس دوران کافر دشمن سے کسی حرکت کا اندیشہ بھی ہو سکتا تھا۔ایسی خطرہ سے بھرپور فضاء میں وہ انسانی ہمدردی کی بنا پر خدمت انجام دیتی تھیں۔ یقینا بہت بلند جذبات کے ساتھ یہ خدمت انجام دیتی تھیں۔کیا یہی کیفیات عام مشترکہ اجتماعات میں بھی ہوتی ہیں ؟کیا استثنائی شکلوں کو عام کرنا چائیے؟دوسری مثال حضرت عائشہؓ کی ہے۔حضرت عائشہؓ کی شخصیت استثنائی تھی —- آپ امت کی ماں تھیں نہ کہ عام خاتون۔ اس بلند حیثیت کے نتیجہ میں دلوں میں احترام و تقدس ہوتا ہے جو کہ عام خاتون کے لیے نہیں ہوتا۔ اسکے باوجود پردہ کے پیچھے سے آپ علمی خدمت انجام دیتی تھیں اور صحابہ کرام علم حاصل کرتے تھے۔آپ کی ذمہ داری و حیثیت منفرد تھی۔ جوعلم رسول ﷺ کے ذریعہ آپ کو حاصل تھا وہ کسی اور کو حاصل نہ تھا اور اس علم کا امت تک پہنچنا ضروری تھا۔ ایسی اہم اور نازک ذمہ داری انھیں امت کے لیے ادا کرنی تھی جوکہ کوئی مرد شخصیت ادا نہیں کرسکتی تھی۔
آج کل کافی خواتین عالمہ و فاضلہ موجودہیں۔ کیوں نہ یہ خواتین، خواتین میں کام کریں، خطاب کریں، تعلیم و تربیت کریں ، اپنے کام کی پلاننگ اور پروگرام بنا ئیں۔ عورتوں کی یہ خالص محفلیں سازگار ماحول دیتی ہیں ہر سیکھنے اور سکھانے کے لئے۔ ایسی محفلیں موجود بھی ہیں اور فعال بھی، پھر کیوں ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ عورتیں مردوں کو خطاب کریں اسٹیج پر سے یا پس پردہ یا مردوں کے ساتھ مذاکرات میں حصّہ لیں؟یقینا اہم مواقع پر مردوں کے ساتھ شریک اجتماع پس پردہ ضرور ہوں تا کہ وسیع نظر اور معلومات انہیں حاصل ہوں ہوگی۔ نیز علماء کا خواتین کو خطاب کرکے نصیحت و رہنمائی کرنا مناسب بھی ہے اور ضروری بھی۔ استثنائی حالات اور استثنائی شخصیات ہر زمانے اور ہر سوسائٹی میں موجود ہوتے ہیں۔ اِن استثنائی حالات کی بنا پرکیوں خاندان و معاشرہ کے عمومی و اصولی سانچہ (norms) میں خلل ڈالا جائے ؟
مسجد:
درمیانی پردہ کے بغیر مشترکہ اجتماعات کے لیے دلیل مسجد سے لائی جاتی ہے۔ کیا اجتماع گاہ میں بھی وہی کیفیات ہوتی ہیں ،جو مسجد کے اندر ہوتی ہیں، جہاں مسجد میں آنے کی اجازت ہے وہیں احادیث میں بتایا گیاہے کہ عورت کا مسجد کی بجائے اپنے گھر کے گوشہ تنہائی میں نماز ادا کرنا افضل ہے۔
حدیث : حضرت ابوحمیدؓ ساعدی کی زوجہ حضرت ام حمیدؓ ساعدی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا” یا رسول اللہ! میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ ﴿مسجدنبوی میں﴾ نماز پڑھوں” آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” مجھے معلوم ہے کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہے لیکن تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تیرا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلّہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے’’راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید نے ﴿اپنے گھر میں مسجد بنانے کا ﴾ حکم دیا چنانچہ ان کے لیے گھر کے آخری حصہ میں مسجد بنائی گئی جسے تاریک رکھا گیا اور وہ ہمیشہ اس میں نماز پڑھتی رھیں حتی کہ اپنے اللہ عزوجل سے جا ملیں۔ ﴿حسن﴾ اسے احمد، ان حبان اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
حدیث : حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے منع نہ کرو ﴿نماز پڑھنے کے لیے ﴾ لیکن ان کے گھر مساجد سے بہتر ہیں” ﴿صحیح﴾ اسے ابو داوُد نے روایت کیا ہے ﴾ جہاں مسجد میں آنے کی اجازت کے ذریعہ عورت میں بھی ملت مسلمہ کی اجتماعیت کا احساس و شعور دلایا گیا ہے، وہیں گھر پررہ کر اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کرنے کی اہمیت اور فرد کی انفرادیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ایک ہے اجازت﴿ مسجد میں آنے کی﴾ دوسراہے اہمیت﴿ گھر میں رہ کر فرائض ادا کرنے کی﴾۔ اِن احادیث سے رہنمائی ملتی ہے کہ جہاںعورت ملت کا جز ہے اُسے ملت کے مسائل کو مل کر اجتماعی طور پر حل کرنا ہے لیکن اپنے مقام سے ﴿یعنی گھر﴾ سے جہاں وہ بہتر طریقہ سے اپنا حصّہ اور رول ادا کرسکتی ہے۔
فتنہ کا دروازہ :نظر کا فتنہ اور شیطان
’’اے نبیﷺ ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتا ہے اور اے نبی، مومن عورتوں سے کہدو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں….. ‘‘ سورہ نور آیت ۳۰،۳۱ ابتد ااسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے ’’نظر ‘‘کی حفاظت ضروری ہے۔جس کو قرآن کنٹرول اور رہنمائی کرتا ہے۔ کسی بھی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ بنیادیں ہلنے نہ پائیں، اصول استثنائی شکلوں اور فروعات پر قربان ہونے نہ پائیں۔ قرآن اوپر کی آیت کے ذریعہ نظروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ مرد اور عورت ہر دو کو صاف صاف ہدایات دی گئی ہیں، اس لیے کہ فتنہ کا آغاز نظروں ہی سے ہوتا ہے۔ شرم وحیا ابتدائی مدافعت کا قدم (preventive measure) ہے جس کو قدرت نے ہر انسان کے اندر رکھا۔
حدیث کے مطابق نظرشیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جس سے وہ اللہ کی پارٹی کے افراد کو چت کر کے غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے اپنی پارٹی کے افراد کو چوکنّہ کر دیا اور اس سے ہوشیار رہنے کوکہا۔ بنا پردہ کے مشترکہ اجتماع اور خواتین کواسٹیج) (stage پر بٹھانے کا اقدام شیطان کو زیادہ موقع دے سکتا ہے۔
حدیث :عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا اللہ تعالی کا ارشادہے ’’نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جوشخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اُسے ایسا ایمان دونگا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا ﴿طبرانی﴾ ﴿حدیث قدسی﴾شیطان مذہبی لوگوں کے پاس مذہب ہی کے دروازہ سے داخل ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے چنانچہ مومن و داعی کو ہمیشہ چوکنّہ و محتاط رہنا چاہئے۔
یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے مومن مرد و عورت کو تین احتیاطی تدابیر﴿ preventive measures ﴾ سے نوازا ہے ۔شرم و حیا پہلی اہم اور مضبوط حفاظتی تدبیر ہے قدرت نے ہر انسان کو اس خوبی سے نوازا ہے تاکہ وہ اپنی آپ حفاظت کرسکے۔
حدیث : حضرت عمر ان بن حُصین ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ” حیا خیر ہی لاتی ہے “﴿ بخاری ﴾ ﴿کلام نبوت﴾
حدیث : حضرت زید بن طلحہؓ بن رکانہ سے روایت ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے ارشاد فرمایا ” ہر دین کا ایک خُلق ہوتا ہے، اسلام کا خُلق حیا ہے۔” ﴿ابن ماجہ، البیہقی فی شعب الایمان﴾ ﴿ کلام نبوت﴾اور اگر یہ بندٹوٹتا ہے جو فطرتاََ اندر ہی سے فرد کو روکے رکھتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ بے حیائی کی طرف آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔دوسری احتیاطی تدبیر اللہ تعالی نے یہ دی ہے کہ جہاں دو مخالف جنس کے افراد کا میل جول نا گزیر ہے ۔وہاں حرمت کی دیوار ﴿barrier ﴾ کھڑی کردی گئی ہے تاکہ نظریں،جذبات و احساسات اور فکر پاک رہے ﴿مثلًا بھائی بہن کا ملنا جلنا﴾
اور تیسرا احتیاطی قدم یہ کہ جہاں رشتہ کی حرمت نہیں ہے، وہاں پر پردہ کے ذریعہ رکاوٹ (barrier) لگا دی گئی اور مرد و عورت کے اجتماع کو الگ کردیا گیا۔ نا گزیر ہو تو پردہ اور محرم کے ساتھ ملاقات۔سنجیدہ مسلمان اسلامی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن خود اپنے حدود و اختیار میں اگر وہ قائم نہ ہو رہا ہو اور جو کچھ قائم ہے وہ بھی مسمار ہو رہا ہو تو کیا یہ سنجیدگی سے سوچنے کی بات نہیں ہے؟اگر اس طرح کے مشترکہ اجتماعات کا اقدام جائز بھی ہے تو کیا یہ دین حنیف کی حکمت کا تقاضا نہیں ہے کہ حدود کے کنارے نہ جایا جائے؟
نظریں اور اسٹیج
معاشرہ کا ماحول اسقدر پراگندہ ہے کہ نظریں بچانا مشکل بلکہ نا ممکن سا ہو گیا ہے چاہے سڑکیں ہوں یا دیوار،دکانیں ہوں یا ہوٹل، اخبارات ہوں یا ٹی. وی ۔الحمداللہ کچھ دیر کے لیے ایک پاک، صاف ستھرا ماحول مسجد کے علاوہ دینی اجتماعات میں میّسر آتا ہے۔ ﴿گھرمیں اخبارات بھی پیچھا نہیں چھوڑتے﴾ دل کو ایک گونہ سکون و اطمنان حاصل ہوتا ہے، اللہ کی یاد میں آدمی اپنے جذبات و احساسات اور نیت کی پاکیز گی کے ساتھ لگ جاتا ہے، اور اُسے اپنے ایمان و یقین اور جذبہ عمل و قوت عمل کو تازگی و مضبوطی بخشنے کی فضائ حاصل ہوتی ہے۔ ان تمام قیمتی چیزوں کے حصول میں مشترکہ اجتماع خلل ڈال دیتا ہے اور بسااوقات دلی و ذہنی سکون کو یہ آزمائشی ماحول بے سکونی میں بدل دیتا ہے۔عورتیں مسجد میں آتی تھیں ﴿اجازت تھی﴾ تومردوں کے پیچھے صف بناتی تھیں۔ جسکا مطلب عورتوں کی طرف مردوں کی پیٹھ ہوا کرتی تھی۔ لیکن یہاں اسٹیج پر بیٹھنے والی خواتین کی طرف مردوں کی آنکھیں ہوتی ہیں۔اب حکم ہے مرد اور خواتین دونوں کو نظریں بچانے کاسامع مرد مقرر کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسٹیج پر بیٹھی ہوئی خواتین نظروں میں آرہی ہوتی ہیں اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ نظریں نیچی کرکے بیٹھیں۔ اجتماع خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکے اِس آزمائشی ماحول اور ماحول کی بے سکونی کی وجہ سے اور یقینا مقرر کا اظہار خیال بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ایجادات اور پردہ
پردہ (curtain) کے ساتھ مشترکہ اجتماع کے لیے سہولت تو موجودہ ایجادات کے ذریعہ خاصی حاصل ہوگئی ہے پردہ کے پیچھے سنا بھی جا سکتا ہے اور کاروائی کو دیکھا بھی جا سکتا ہے، یہاں تک کہ power point presentations کو بھی۔ پھر کیوں درمیانی پردہ کو ہٹایا جا رہاہے۔پردہ (curtain) ہو تو خواتین بھی بہ سہولت آرام و سکون سے بیٹھ سکتی ہیں ۔ پردہ ہٹایا جا رہا ہے توعورت کی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ پردہ کے پیچھے وہ آزادی کے ساتھ اطمنان سے اپنے آرام دہ پوزیشن میں بیٹھ سکتی ہے۔ پردہ کے ہٹا دئے جانے کے بعد اب اس کو مجبوراََ غیر آرام دہ پوزیشن پر گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے۔
فطرت ِ انسانی
انسانی فطرت دین فطرت کی بنیاد ہے ۔انسانی فطرت کو مسنح کرکے دین فطرت قائم نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی فطرت کے اندر شرم و حیا ہے جو اسکو انسانیت کے عروج پر لے جاتی ہے یہی فطری شرم و حیا انسان کو منکرات سے بھی بچاتی ہے۔ اس لیے اس فطرت کو مسخ ہونے سے بچایا جائے۔
حد یث :حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا ” فحش اور بے حیائی کی بات جس چیز میں بھی پیدا ہو جائے وہ اُسے لازماََ عیب دار اور بدنام کردیتی ہے اورحیا جس چیز میں شامل ہو اُسے خوش نما بنادیتی ہے ” ﴿ترمذی﴾ ﴿کلامِ نبوت﴾۔ چنانچہ وہ ذرائع و وسائل اور دنیوی طریقِ کار جن سے انسانی فطرت مسخ نہ ہوتی ہو، کو اپنا کر اسلامی معاشرہ اور دینِ اسلام کے قیام کی کوشش وسیع پیمانہ پرکرتا ہے۔ اگرایسے ذرائع اور طریقے استعمال کئے جاتے ہیں جن سے فطرتِ سلیم مسخ ہوتی ہوتو پھر وہ دینِ حنیف کے لیے یا خودشکست (self defeat) کے مترادف ہوگی۔ایک مومنہ شرم و حیاکی پیکر ہوتی ہے ،اسٹیج پر بیٹھنا کیا اُس کے لیے آرام دہ ہے؟ اسلام کی تعلیمات فطری ہیں، انسانی فطرت سے میل کھاتی ہیںاس لیے حق ہیں۔ فطری چیز وہ جس میں انسان سکون اور آرام و راحت محسوس کرتا ہے۔ آرام دہ فطری تعلیمات کو چھوڑ کر غیر آرام دہ و غیرفطری تعلیمات کو اپناناکیا مناسب ہے؟ اس بات پر ذیل کی حدیث روشنی ڈالتی ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : حیا اور ایمان ساتھ ہی یکجا رہتے ہیں، جب ان میں کوئی ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرابھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ ﴿البیہقی فی شعب الایمان﴾ ﴿کلام نبوت﴾ اس طرح کی مشترکہ محفلیں برقرار رھیں گی تو شرم و حیا سے مزیّن انسانی فطرت آہستہ آہستہ دب جائے گی یعنی ایمان و ضمیر کی حساسیت ختم ہوتی جائے گی۔
عورت کا اقامتِ دین میں حصّہ
عورت کا مردوں کے اسٹیج پر آنا مناسب اور مفید نہیں ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کہاں سے اور کس طرح وہ اپنا رول ادا کرسکتی ہے ۔غور و فکر کے لیے چند حقائق اور اصول کو سامنے رکھا جائے۔
اولاً توازن (balance) : اس کائنات میںسب سے نمایاں چیز توازن ہے جس کے نتیجہ میں کائنات قائم ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی میں چاہے وہ انفرادی زندگی ہو یا گھر و معاشرہ، اگر توازن قائم رکھا جاتا ہے تو فرد کی ، خاندان اور معاشرہ کی زندگی برقرار رہتی ہے۔ اسی طرح امت مسلمہ کے وجود کی برقراری اور اسکے مقصد وجود کی ادایگی اسکے امت وسط بنے رہنے میں ہے ۔
ثانیاً عدل و اعتدال: متوازن زندگی کی پوری صحت کے ساتھ برقراری کے لیے ضروری ہے کہ اس میں عدل اور اعتدال ہو۔ عدل یہ کہ جس کا جتنا حق ہو اسکو دیا جاے اور اسکا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو جس قدر اور جس قسم کی ذمہ داری اٹھا سکتاہے وہی اسکو دی جائے اور اس سے بڑھ کر نہیں ۔اور عدل یہ بھی ہے کہ ہر ایک کو اسکے مقام پر رکھا جائے۔ عورت کو عورت کے مقام پر اور مرد کو مرد کے مقام پر اور ہر ایک کو اس کی اپنی مخصوص ذمہ داری کی ادائیگی کی سہولت فراہم کی جائے ،اس میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔” اللہ تعالیٰ عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی، بے حیائی و ظلم و زیادتی سے روکتا ہے ” ﴿النحل﴾اعتدال یہ ہے کہ ہر ذمہ داری پر توجہ دی جائے ذمہ داریوں کی زیادتی ہوتو ہو تمام ذمہ داریوں کاحق ادا نہیں کیا جا سکتا پوری زندگی ایک اکائی (unit) ہے اس کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اور توازن و عدم توازن کا اثر پوری زندگی پر پڑتا ہے۔
ثالثاََ اس حقیقت کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اقامت دین عملی زندگی میں مطلوب ہے دین حق اور ادیانِ باطلہ کی کشمکش میں عورت کیا پارٹ ادا کرسکتی ہے اور کس حیثیت میں۔یہ باتیں قابل غور و تحقیق ہیں۔
عورت کا میدانِ عمل
غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت اپنی ساخت اور فطری ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے فطری مقام گھر میں شوھر کے نائب کی حیثیت سے ہی بہترین حصّہ ادا کر سکتی ہے اس مقام اور مکان کو چھوڑ کرمردوں کے اسٹیج سے وہ اپنا حصّہ ادا کرنا چاہے گی تو کچھ کرنہ سکے گی اور حق و باطل کی اس جنگ میں وہ اپنا میدان گھر بھی کھو دے گی۔
تحریکی خاتون :ماں کی حیثیت سے
ماں جو تحریکی فہم و شعور اور احساسِ ذمہ داری رکھتی ہے، حمل کے ساتھ ہی اس کی دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جسمانی ، ذہنی اور ایمانی لحاظ سے سلیم اولاد عطا کرے۔پھر بچے کی پیدائش سے ہی اسکو اپنا رول اداکرنے کاشعور ہوتا ہے بلکہ بچہ کے جذبات و احساسات اور عادات اور مزاج بنانے کی طرف پوری توجہ کرتی ہے عمر کے ابتدائی سال بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔یہی وہ عمر ہے جس میں بچوں کی فطرت کی تربیت اصل معنوں میں ہوتی ہے۔بچہ کی فطرت ِسلیم کو سلیم رکھنے کے لیے ابتدائی عمر ہی سے بچہ پر ماں کی خصوصی توجہ ضروری ہے یقیناََ باپ کا بھی رول ہے۔ اگر ماں اور باپ دونوں کی طرف سے بچہ کو توجہ و محبت نہ ملے توبچہ جیتے جی یتیم و یسیر رہے گا۔بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مختلف عمر کے بچوں کو یک ساتھ توجہ دیتے رہنا ہوتا ہے۔ماں کے لیے یہ دن رات کی مصروفیت ہے ا گر وہ خاندان اور سوسائٹی کو بہترین انسانی تحفہ اورا سلام کو بہترین کارکن دینا چاہتی ہے توبچوں کی نہ صرف تعلیم بلکہ ایمان و اخلاق کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔بچے نہ صرف پڑھائی کے چیالنج کا سامنا کریں بلکہ ماحول کو اپنی اسٹڈیز اور اخلاق سے متاثر کریں ۔
ماں خصوصاََ فکر مند رہتی ہے اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کو ماحول کی گندگی سے بچانے کے لیے جس کے لیے وہ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو اسلامی تنظیم سے منسلک ﴿attach ﴾ کرتی ہے اور روزآنہ قرآن کا مطالعہ کا عادی بنا کر انہیں سازگار ماحول فراہم کرتی ہے ۔اور باپ کو توجہ دلاتی رہتی ہے کہ وہ بیٹوں کو اپنے ساتھ دینی اور مہذب محفلوں میں لے جاے۔یہ سارا کا سارا اہم اور غیر معمولی کام وہ گھر ہی میں رہ کر کرسکتی ہے عوامی اسٹیج پرسے نہیں۔بچے کچھ بڑے ہوجاتے ہیں کمپوٹر اور موبائل کو استعمال کرنے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، اُن چیزوں کے استعمال پر ماںنگاہ رکھتی ہے کہ انکا استعمال صحیح ہورہا ہے جو علم و صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے ۔بڑی حکمت سے وہ اُن سے گفتگو کرکے چیزوں کے صحیح استعمال کی طرف ڈالتی ہے جنت و جہنم کا نقشہ دے کر برائی سے بچنے اور اچھے کام کرنے کی ترغیب دلاتی رہتی ہے۔ بچے اسکول جاتے ہیں یا کسی فنکشن میں، تو وہ اسکی رپورٹ خود بچوں ہی سے لیتی اور صحیح اور غلط باتوں اور حرکتوں کا گہرائی سے جائزہ لیتی ہے اور صحیح کام پر ہمت افزائی اور غلط پر تنبیہ کرتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کے ذہن میں اس نظریہ اسلامی کو اچھی طرح بٹھاتی ہے کہ دنیا میں تم اللہ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے خوب دنیوی علوم حاصل کرنا اور اُن میں آگے آگے رہنا ہے۔ خلافتِ ارضی کے لیے دنیوی علوم ضروری ہیں۔گہرائی اور سنجیدگی سے غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی رول(contribution) ہے ایک تحریکی ماں کا ملت اور تحریک کے حق میں۔ اور یہ سب وہ اپنے فطری مقام سے انجام دیتی ہے۔
تحریکی خاتون: اپنے شوہر کے ساتھ
شوہر کے گھرلوٹنے پر خاتون اپنی خوش کن باتوں سے اس کی تھکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے اس کی ضروریات و آرام کا خیال کرتی ہے۔ بچوں اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں وہ توازن رکھتی ہے۔
گھر اور بچوں کے حالات و کیفیات سے شوہر کو آگاہ کرتی ہے ۔بچوں کی تعلیمی و اخلاقی حالات اور مسائل کو شوہرکے علم میں لا کر اس سے رائے مشورہ کرتی ہے۔غیرحقیقت پسندانہ ماں باپ کافوکس اجتماعات اور پروگرامس ہی ہوا کرتے ہیں، محض اُسی کو عبادت اور اقامت دین سمجھے ہوے ہیں، نتیجہ میں بچوں کی اہمیت پیچھے رہ گئی ، جس کی وجہ سے گھر مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔وقتِ ضرورت شوہر کو اسکے اپنے کاموں اور ذمہ داریوں میں ہمت افزائی کرتی اور گھر کی ذمہ داریوں سے بے فکر کرتی ہے تاکہ وہ اپنا بہترین حصّہ تحریک اور اپنی دیگر ذمہّ داریوںمیں ادا کر سکے۔
دونوں میاں بیوی اپنی ذاتی ترقی کی طرف سے بھی کبھی غافل نہیں رہتے۔ انھیں ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ تحریکی فرد ہونے کی حیثیت سے حق کو قائم کرنا اور باطل کو مٹانا انکا مقصد ہے۔ تحریکی خاتون اپنے شوھر کے ساتھ مل کر اپنے گھر کو ایک اسلامی گھر بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے اور گھر میں باطل جو گھس آرہا ہے TV ،کمپوٹر اور مبائل کے ذریعہ اسکا مقابلہ کرتی ہے اور بچوں کو بھی باطل کے حملوں سے بچاتے ہوئے اسکا مقابلہ کرنے کے لیے انکو تیارکرتی ہے، کس قدر مصروف و مجاہدانہ اسکی زندگی ہے!
شوہر اگر تحریکی اور دینی فکر و مزاج نہ رکھتا ہو تو تحریکی عورت کے لیے یہ ایک بڑی آزمائش اور چیالنج کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقابلہ کرکے کا میابی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے کچھ زیادہ ہی اپنا وقت، محنت و توجہ وہ اپنے گھر پر صرف کرتی ہے جوکہ بہرحال اسکے چوطرفہ ذمہ داریوں اور تحریکی کام کا اساس اور مرکز ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس مرکزوبنیاد کو اگر وہ عمدگی سے مضبوط اور قابو میں کر لیتی ہے تو پھر آگے کے کام آسان ہوجاتے ہیں۔
تحریکی خاتون:اپنے حلقہ اثر میں (field of influence)
اس کا حلقہ اثر اسکا حلقہ روابط ہوتا ہے یعنی اسکے خونی رشتہ دار، اسکے ننیالی و ددیالی اور سسرالی رشتہ دار، اسکی سہلیاں اور اسکے پڑوسی جن میں معاشرہ کی چھوٹی و بڑی پوزیشن رکھنے والی مسلم وغیر مسلم خواتین سب ہی شامل ہیں اور وہ انکے چھوٹی عمر کے بچوں کو اپنی محبت کے ذریعہ جیت لیتی ہے اور انکو ذریعہ بناتی ہے خاندانوں کے اندر داخل (penetrate) اور اثرانداز ہونے کا۔ مزید اسکے حلقہ روابط میں اسکے محرم مرد ہیں اور وہ بھی اسکی توجہ کا حصّہ ہیں۔اس طرح ہر فرد کے لیے حلقہ روابط تقریباََ ۵۰ سے ۱۰۰ کا بنتا ہے جو کہ اچھا خاصا میدانِ کار ہے اگر سنجیدگی سے اسکی طرف توجہ دی جائے۔ اس لیے کہ حلقہ روابط ہی حلقہ اثر ہے اور حلقہ اثر ہی حلقہ دعوت و تربیت ہے۔تحریکی خاتون یہ سمجھتی ہے کہ ابتدائی زمانے میں دعوت سے پہلے داعی کی زندگی لوگوں کے سامنے آنی چاہیے خصوصاََحلقہ روابط میں تاکہ وہ داعی کی زندگی کو قریب سے دیکھ سکیں، جانچ سکیں اور انھیں داعی اور دعوت کی سچائی کا احساس ہوچلے اور داعی کے حسنِ اخلاق و خدمت سے دل ان کے نرم ہو کر حق کی طرف مائل ہوتے چلیں۔ پھر دعوت کھل کر پوری جرائت اور قوتِ استدلال کے ساتھ سامنے آنی چاہیے۔دین فطرت کے اس تقاضے ) (demand سے بھی وہ شرح صدر کے ساتھ واقفیت اور اس پر اطمنان رکھتی ہے کہ جب دین ِ حق پر کوئی نازک (crucial) وقت آجائے تو صبر اور خوش دلی کے ساتھ حسبِ ضرورت بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے ذہن کو تیار رکھنا ہے۔ ایسی سوچ اور ذہن رکھنے والی تحریکی خواتین نازک وقت پر ) critical (خودہی مردانہ رول ادا کرلیں گی،غیر معمولی واستثنائی کام کرلیں گی، انفرادی ہو یا اجتماعی جیسا کہ سابقون کی خواتین جنگ کے موقع پر کیا کرتی تھیں ۔حالات و ضروریات خود ہی سکھا دیں گے ۔ہر عورت مرہم پٹی یا پانی پلانے کا کام نہیں کرتی تھی بلکہ صرف وہ جن کے اندر وہ قوت و طاقت اور بے خوفی و جرائت تھی ، رضا کارانہ طورپر آگے آئیں۔
حاصلِ گفتگو:
تحریکی خاتون گھر کو بنانے میں، اسلامی معاشرہ تیار کرنے میں، تحریک اور ملت کو آگے بڑھانے میں ٹھوس اور تاریخی رول ادا کرتی ہے۔وہ گھر بیٹھ کر گھر میں بھی اور گھر کے باہر کی دنیا میں بھی اپنا بہترین اور وسیع رول ادا کر رہی ہے عین اس کی فطرت و ساخت کے مطابق۔ عورت کو جہاں اختیارات حاصل ہیں وہ مقام ہے اس کے لیے اسکا اپنا گھر ۔فطری ذمہ داریوں کو فطری طریقہ سے فطری میدانوں میں فطری مقام سے ادا کرتے ہوئے ہی عورت تحریکی لحاظ سے کامیاب ترین رہے گی، موثر اور نتیجہ خیز رول ادا کرسکے گی۔ہم جس مہم میں مصروف ہیں وہ حق و باطل کی جنگ ہے۔ جنگ کے دوران پورے افراد فرنٹ (front)پر نہیں رہتے بلکہ کچھ لوگ پیچھے سے ہتھیار اور غذا مہیّا (supply)کرتے ہیں اور انکا ان مقامات پر رہنا اشد ضروری ہے بلکہ ناگزیر ہے ورنہ جنگ کا میابی کے ساتھ نہیں لڑی جاسکتی۔ اور ہرفرد اپنی صلاحیتوں کے حساب سے کام کرتا ہے اور اس سے کام بھی وہی لیا جاتا ہے جو وہ بہ آسانی اور بہ خوبی کرسکتا ہے۔عورت اگر اپنے گھر کا فطری اور اہم اسٹیج چھوڑ کر مصنوعی اسٹیج پر آئے گی تو گھر کے اسٹیج پر شیطان کا قبضہ ہوجائے گا ۔ٹی۔ وی اور کمپوٹر کے ذریعہ۔ جس طرح ایک ایک خاندان کے ملنے سے معاشرہ بنتا ہے، اُسی طرح ایک ایک خاندان کے اندر اسلامی نظام قائم ہونے سے اسلامی معاشرہ بنتا ہے ۔
تحریک اسلامی کا مقصد و طریق کار
مقصد اور طریقِ کار وہ بنیادی حقائق ہیں جو اٹل ہیں، اللہ کی طرف سے ہیں،ہر نبی کا یہی مقصد تھا اور طریق کار اخلاقی بنیاد پر تھا۔ اس میں اخلاقی لحاظ سے تبدیلی ہرگز نہیں لائی جا سکتی اور نہ ہی وہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا جو اخلاق کو متاثر کرتا ہو۔
مقصد اور طریق کارناقابلِ تغیرو تبدل ہیں ، اس لیے کہ ایک کی بنیاد ایمان ہے اور دوسرے کی بنیاد اخلاق ہے۔ اور دونوں اٹل ہیں۔
چنانچہ اللہ ا و راس کے رسولﷺ کا دیا ہو ا طریقہ ہی یقینی کامیابی کا ضامن بھی ہے اور آزمودہ بھی۔اِسی طرح اسلامی تحریک کی فطرتِ حق اس کے اپنے نصب العین اور طریقِ کار میں پنہاں ہے۔ ﴿دونوں ہی اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولﷺ سے ماخوذ ہیں اور ناقابل تغیر﴾
ان دونوں میں سے کسی ایک میں بھی خلل اسکی فطرتِ حق کو متاثر کردیتا ہے۔ احساس ِ نعمت کا تقاضا ہے کہ تحریک کی حفاظت کی جائے تا کہ یہ تحریک صدیوں اور نسلو ں تک چلتی رہے انسانیت اس لیے کہ ایسی تحریکیں صدیوں میں جنم لیتی ہیں ۔
مشمولہ: شمارہ جون 2013