عدل و انصاف کا ہونا ایک فطری مطالبہ بھی ہے اور ایک اسلامی فریضہ بھی۔ عدل وہ قدر ہے جو انسانوں کے تمام معاملات کی سب سے اہم بنیاد بھی ہے۔ نہ صرف انسانوں کے معاملات بلکہ کائنات کا پورا وجود ہی عدل پر قائم ہے اور عدل سے تھوڑی بھی بے توجہی پورے نظام کائنات کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ کائنات میں ہر چیز کے درمیان نظر آنے والا غیر معمولی توازن دراصل عدل ہی کا مرہون منت ہے۔ اسی طرح انسانوں کے درمیان ہونے والے تمام معاملات چاہے وہ انفرادی زندگی سے متعلق ہوں، عائلی زندگی سے متعلق ہوں، سیاست، معیشت یا معاشرت سے متعلق ہوں ان تمام معاملات اور تعلقات کی اساس عدل ہی ہے۔ بلکہ انسانوں کے اپنے خالق کے ساتھ تعلقات ہوں یا انسانوں کے غیر انسان کے ساتھ تعلقات ہوں ان سب کی بنیاد عدل ہوتی ہے۔ گویا عدل صرف قانون سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ قانون سے بھی پہلے ایک ثقافت اور انسانی مزاج کا نام ہے۔ عدل ایک فطری آواز اس لیے ہے کہ عدل کی بازگشت ہر قوم، ہر ثقافت اور ہر معاشرے کی بنیاد میں سنائی دیتی ہے۔ اصولی طور پر انسانوں کے بیچ عدل کی ضرورت کا انکار پایا جانا بہت حد تک نا ممکن ہے۔ البتہ عدل کا مفہوم کیا ہے اور عدل کا قیام کیسے ممکن ہے اس سلسلے میں اختلاف کا پایا جانا فطری بھی ہے اور حقیقت بھی۔ چناں چہ قبل اس کے کہ عدل کے اسلامی نظریے اور عدل سے متعلق اسلامی تعلیمات پر گفتگو ہو، جدید دنیا میں عدل کے نظریہ پر ہونے والے ڈسکشن کا ایک ہلکا سا خاکہ پیش کرنا مفید ہوگا۔
عدل سے متعلق جدید نظریات
اس حوالے سے دیکھا جائے تو جدید دنیا میں یا علوم و فلسفے کی جدید تاریخ میں عدل کے حوالے سے دو بڑے نقطہ ہائے نظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ دونوں کا ارتکاز بہت حد تک بالکل مختلف اور ایک دوسرے سے جداگانہ (mutually exclusive) ہے۔
پہلا نظریہ وہ ہے جس کا تعلق بڑی حد تک سماجی معاہدہ (social contract) کے نظریہ سے ہے اور اسی مناسبت سے اس کو عدل کا معاہداتی نظریہ بھی (contractarian theory) کہتے ہیں۔ سوشل کنٹریکٹ کے حوالے سے یہ بات سامنے رہنی ضروری ہے کہ یہ نظریہ سماج میں موجود بدامنی اور انارکی کو ختم کرنے کے حوالے سے ہی پیش کیا گیا تھا اور اس کا پورا فوکس اداروں کی تشکیل اور قانون کی تنفیذ پر تھا۔ چناں چہ اسی وجہ سے عدل کے اس نظریہ میں بھی اداروں پر ہی پوری توجہ نظر آتی ہے۔ اس نظریے کے علم برداروں میں تھومس ہوبس، جان لوک، جان جاک روژو، کانٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ عدل کے اس نظریہ کو بعد میں جان رولز نے باقاعدہ عدل کے ایک مکمل نظریہ کے طور پر بہت تفصیل سے پیش کیا اور عدل کو باقاعدہ ایک مکمل موضوع بنا کر لکھنے والے بھی غالباً رولز پہلے فلسفی ہیں۔ ان کے اس موضوع پر کیے گئے کاموں میں سب سے اہم اور شہرت یافتہ ان کی کتاب A Theory of Justice ہے۔ یہ نظریہ عدل کے مثالی تصور پر قائم ہے۔ ساتھ ہی اس نظریہ والوں کا ماننا یہ ہے کہ عدل کا تعلق اصلاً اداروں اور قانون سے ہے۔ چناں چہ ان کے یہاں پورا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ کس طرح اداروں (institutions) اور نظام کو عدل کے مثالی تصور پر قائم کیا جائے۔ اس نظریہ کی دو اہم خصوصیتوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس نظریہ کے حاملین عدل کے مثالی تصور پر یقین رکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ مثالی تصور قابل عمل بھی ہے یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ نظریہ عدل کے حوالے سے اپنی پوری توجہ صرف قانونی اور سیاسی اداروں کی اصلاح پر رکھتا ہے۔ لوگوں کے عملی اور واقعی طرز زندگی اور ان کی ثقافت اور رویوں سے قطع نظر یہ نظریہ اس مفروضے پر قائم ہوتا ہے کہ لوگ اداروں کے ذریعے تجویز کردہ طرز زندگی اور طرز معاشرت کو لازما قبول کرلیں گے۔ مثال کے طور پر ہوبس اور رولز کا یہ دعوی ہے کہ عدل کے اصول کو نافذ کرنے کے لیے ایک با اقتدار ریاست کا وجود ضروری ہے تاکہ بہترین اداروں کے مجموعے کے ذریعے عدل کا قیام ممکن ہوسکے۔چناں چہ اس نظریے کے حاملین کے سامنے عدل کے حوالے سے اصل سوال یہ سامنے آتا ہے کہ مکمل طور سے عدل پر مبنی اداروں کی شکل کیا ہوسکتی ہے؟ اس نظریہ کو اس کی مثالیت اور اداروں پر مرکوز ہونے کے باعث ماور ائی ادارتی نظریہ (transcendental institutionalism) بھی کہتے ہیں۔ یہی نظریہ جدید فلسفے بالخصوص سیاسی فلسفے کی دنیا میں زیادہ رائج بھی ہے۔ البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ نظریہ مکمل طور سے یک رخی (monolithic) نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بھی کافی اختلافات اور اس کی مختلف شکلیں موجود ہیں۔ مثال کے طور سے ہوبس (Hobbes) اور لوک (Locke) کے یہاں زور صرف اداروں اور نظام پہ ہے جب کہ کانٹ اور رولز کے یہاں اگرچہ اصل زور تو اداروں ہی پہ ہے لیکن کچھ توجہ انسانی سلوک اور عادتوں پر بھی ہے۔
اس کے بالمقابل جدید فلسفے میں عدل کا جو دوسرا نظریہ موجود ہے وہ اداروں (institutions) اور عدل کے مثالی تصور کے برخلاف سماجی حقائق اور عدل کے عملی پہلوؤں پر مبنی ہے۔ اس نظریے کے علم برداروں اور نظریہ سازوں کا اصل فوکس سماجی حقائق، انسانوں کے طرز زندگی، ثقافت اور رسم و رواج کو سمجھنا اور اس میں موجود بڑی کمیوں یا نا انصافیوں کو دور کرنا ہے۔ ان کے یہاں عدل کے کسی مثالی تصور کے بجائے موجودہ رویوں میں موازنہ کرتے ہوئے بہتر رویے کی نشان دہی کرنا یا صورت حال کا پورا جائزہ سامنے رکھتے ہوئے جس میں حکومتی اداروں کی صورت حال، سماجی رویے اور سماجی تعلقات کی نوعیتیں اور سماجی ڈھانچہ وغیرہ شامل ہیں، ممکنہ حد تک قابل عمل بدل تجویز کرنا ہے۔ چناں چہ اسی مناسبت سے اس اپروچ کو حقائق پر مرکوز موازناتی (realization۔focussed comparison) اپروچ کہتے ہیں۔ اس اپروچ کے علم برداروں میں آدم اسمتھ، کونڈورسٹ (Condorcet)، کارل مارکس، جان مل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس اپروچ کو باقاعدہ ایک نظریہ کے طور پر پیش کرنے والوں میں ہندستانی نسل کے مشہور ماہر معاشیات اور فلسفی امرتیہ سین ایک اہم نام ہے۔ ان کی کتاب The Idea of Justice اپنے موضوع پر ایک وقیع کتاب مانی جاتی ہے۔
جدید نظریات کا ایک مختصر جائزہ
یوں تو ان دونوں نظریات کی اپنی اپنی خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی اور اس مختصر تحریر میں دونوں میں سے کسی پر بھی تفصیلی گفتگو کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم ان دونوں کا ایک سرسری جائزہ پیش کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔
دونوں کے یہاں ایک کمی جو قدر مشترک کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ہی عدل کے ہمہ گیر اور ہمہ جہت (comprehensive) تصور کو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک کا رجحان حکومتی اداروں اور قانونی نظام کی طرف ہے تو دوسرے کا رجحان پوری طرح سماجی رویوں اور سماجی سلوک کی طرف ہے۔ اسی طرح اول الذکر نظریے کی پوری توجہ اس بات پر رہی ہے کہ عدل کے مثالی تصور پر اداروں کو قائم کیا جائے لیکن عدل کا مثالی تصور کیا ہوگا اس سلسلے میں اس نظریہ کے حاملین کے درمیان کبھی کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔ بلکہ اس تصور کو لے کر مختلف پس منظر رکھنے والوں کے بیچ شدید ٹکراؤ اور تنازعہ پایا جاتا رہا ہے۔ امرتیہ سین نے ایک مثال کے ذریعے بہت وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا ہے کہ عدل کے مثالی تصور کو لےکر کس طرح افادیت پسندی (utilitarian)، معاشی مساوات (economic egalitarian)، نظریہ حقوق مزدور (labour right theory) اور آزاد خیالی (libertarian) کے درمیان شدید ٹکراؤ اور نا اتفاقی واقع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ کیا عوامی سلوک اور ثقافت اور رویوں سے بالکل بے پرواہ ہوکر نظام اور قانون کے محدود دائرے میں عدل کا قیام ممکن بھی ہو سکتا ہے یا نہیں۔دوسری طرف دوسرے نظریے کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے یہاں عدل کے کسی مثالی تصور کی سرے سے کوئی جگہ ہے ہی نہیں، حالاں کہ اگر عدل کا مثالی تصور سرے سے نظر انداز کردیا جائے تو عدل کے عملی تصور کا وجود بھی نا ممکن ہوگا اور عدل کی پوری کوششیں بے سمت اور بے نتیجہ ثابت ہوں گی۔یہی وجہ ہے کہ اس نظریے کے علم برداروں کے یہاں پوری توجہ صرف اسی حد تک محدود رہتی ہے کہ موجودہ صورت حال میں سے موازنہ کرکے کس کو زیادہ پسند کیا جائے اور کس کو ترجیح دی جائے۔ یعنی اس نظریے میں سماج کو عدل سے آراستہ کرنے کے لیے کسی باقاعدہ نئے اور انقلابی پروگرام کی گنجائش مشکل ہے۔
اسلام کا نظریہ عدل
اسلام نے عدل پر غیر معمولی زور دیا ہے۔ بلکہ بعض علما کا خیال ہے کہ اگر اسلام کی کسی اور بھی دوسرے لفظ میں صحیح ترجمانی کی جاسکتی ہے یا کسی ایک قدر کو اسلامی تعلیمات کا جوہر قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ یہی عدل ہے۔ دوسرے لفظوں میں عدل کا قیام اور ظلم کا خاتمہ ہی اسلام کا سب سے جلی اور جامع عنوان ہے۔ عدل شریعت کے مقاصد میں سے اہم ترین بلکہ پہلا مقصد بھی ہے۔ اسلام کا نظریہ عدل بہت ہمہ گیر اور جامع ہے۔ اس میں مثالیت بھی ہے اور عملیت بھی۔ اس میں اخلاقیت بھی ہے اور قانونیت بھی۔ اس میں حکومتی اداروں پر بھی توجہ ہے اور سماجی سلوک اور انفرادی رویے پر بھی۔قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ ظلم کے خلاف اور عدل کے قیام کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ عدل سے متعلق قرآن مجید میں تقریباً پانچ سو سے زائد آیتیں وارد ہوئی ہیں جس میں یا تو عدل اور اس کے مترادف الفاظ کے ذریعے عدل قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا عدل کی ضد “ظلم” کے خلاف ایک زبردست ڈسکورس کھڑا کیا گیا ہے۔اسلام میں عدل کا قیام بلا استثنا ہر ہر فرد اور ہر ہر شخص سے مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید میں خود نبی ﷺکو اس بات کا صریح حکم ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ عدل کا معاملہ کریں۔ ارشاد ہے وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [الشورى: 15] ( اور مجھے یہ حکم ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل کروں )۔ اس سے آگے بڑھ کر اللہ تعالی نے خود اپنے سلسلے میں بار بار یہ اعلان کیا کہ وہ ہرگز کسی پر ظلم نہیں کرسکتا۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ [غافر: 31] (اللہ بندوں پر ظلم بالکل نہیں چاہتا)۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ [آل عمران: 108] (اللہ انسانوں پر ظلم بالکل پسند نہیں کرتا۔) وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [آل عمران: 182] ( اور اللہ بندوں پر بالکل بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔) إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ [النساء: 40] (اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔) وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا [الكهف: 49]۔ ( اور تمھارا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے)۔ اسی طرح ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ‘‘بلاشبہ میں نے اپنے اوپر اور اپنے بندوں کے اوپر ظلم حرام کردیا ہے۔ تو سنو! آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔’’ اللہ تعالی نے عدل کو انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے لازمی حکم کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ [النحل: 90] (اللہ (مکمل طور سے)عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔) اس آیت میں عدل کا یہ عموم عدل کی جامعیت اور شمولیت کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔ یہاں مناسب ہوگا کہ اسلامی نظریہ عدل کی اہم خصوصیات کی طرف مختصر اشارہ کر دیا جائے۔
اسلامی نظریہ عدل کی خصوصیات
اسلامی نظریہ عدل کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عدل نہ تو محض حقوق انسانی میں سے ایک حق ہے اور نہ وہ کچھ مخصوص لوگوں کی عنایت ہے۔ بلکہ اسلام نے عدل کو ایک فریضہ اور شریعت کا بنیادی مقصد قرار دیا ہے۔ اسلام میں عدل کا مقام ہر ادارے اور ہر شخص سے اوپر ہے۔ یہاں تک کہ عدل کے قیام کے لیے جنگ جیسی چیز کو بھی اسلام نے جائز قرار دیا ہے۔ اسلام میں جہاد جیسا اہم ترین حکم عدل کے قیام اور ظلم کے خاتمہ ہی سے متعلق ہے۔ یوں تو اس بات پر تمام علما کا اتفاق ہے کہ جہاد کے اہم ترین مقاصد اور اہداف میں سے ایک ظلم کا خاتمہ اور عدل کا قیام ہے۔ البتہ بعض علما کا خیال یہ ہے کہ جہاد اصلاً ہے ہی ظلم کے خاتمے اور عدل کے قیام کے لیے، یعنی جہاد کا مقصد اور سبب صرف یہی ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہو جائے اور عدل قائم ہو۔ یہ رائے پیش کرنے والوں میں امام حمید الدین فراہیؒ، علامہ یوسف قرضاوی اور مولانا محمد عنایت اللہ سبحانی کے نام قابل ذکر ہیں۔
اسلامی نظریہ عدل کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ عدل کا بہت جامع اور وسیع مفہوم پیش کرتا ہے۔ چناں چہ عدل کے ہر پہلو کو اس میں شامل کیا گیا ہے اور اس کی نوعیت کے مطابق اس کو جگہ دی گئی ہے۔ عدل کے کچھ معاملات قانونی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کو قانون اور نظام کے تحت قائم کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اسی طرح عدل کے کچھ معاملات اخلاقی ہوتے ہیں چناں چہ ان کی حد درجہ اہمیت کے باوجود وہ لوگوں کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ معاملات میں عدل بہت واضح اور دو دو چار کی طرح سے ہوتا ہے جب کہ کچھ معاملات میں عدل کا مفہوم پیچیدہ یا لچکدار ہوتا ہے۔ اسلام نے ان تمام پہلوؤں کو ان کی مناسب حیثیت کے ساتھ قبول کیا اور اس کے مناسب تعلیمات فراہم کریں جس کی تفصیل آگے کی کچھ مثالوں سے مزید واضح ہو جائیں گی۔
اسلامی نظریہ عدل کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عدل کے بنیادی اور آفاقی اصولوں اور وقت کے ساتھ بدلنے والے آلات اور صورتوں کا بہترین امتزاج ہے۔ چناں چہ اس میں ایک طرف تو آفاقی اور ناقابل تبدیل اصولوں اور تعلیمات کا حصہ ہے جس میں نہ کبھی بدلاؤ قابل قبول ہوسکتا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف عدل کو قائم کرنے کے لیے اس میں ہر نئی صورت اور نئے طریقے کی پوری گنجائش بھی ہے۔ مشہور اسلامی مفکر ڈاکٹر عمارہ کہتے ہیں کہ عدل اسلامی اقدار میں سب سے اہم قدر ہے اور یہ شریعت کا مقصد اوّل ہے۔ چناں چہ ہر وہ طریقہ جو عدل کے قیام کا ذریعہ بنے وہ اسلامی اور شرعی طریقہ مانا جائے گا گرچہ کہ نہ نصوص میں اس کا ذکر ہو اور نہ ہی اسلامی تراث میں اس کا ذکر ہو۔ عدل کی اسلامی خصوصیات کی چند عملی جھلکیاں بھی پیش ہیں :
عدل اور خالق و مخلوق کا تعلق
عدل کا اصل بنیادی مفہوم یہ ہے کہ جو چیز جس کا حق ہے اس کو دیا جائے اور پورا پورا دیا جائے۔ ایسے میں انسان کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس ذات کو جس نے اس کو اور اس پوری کائنات کو تخلیق کیا وہ اسی کی بندگی کرے اور اس کی پرستش کرے۔ اگر انسان اس ذات کے سوا کسی اور کو بندگی میں شریک کرتا ہے تو وہ عدل کو پامال کر رہا ہوگا اور ایک بڑے اخلاقی جرم کا مرتکب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے شرک کو ظلم یعنی عدل کی ضد قرار دیا ہے۔ گویا عدل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے ساتھ توحید کے رشتے سے بندھ جائے اور اس رشتے میں کسی کے لیے بھی کسی طرح کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھے۔ چناں چہ قرآن مجید میں حضرت لقمان کی زبانی اس پہلو کو بہت خوب صورت پیرایہ میں پیش کیا گیا ہے جہاں حضرت لقمان اپنے فرزند کو وصیت کرتے ہوئے کہتے ہیں : يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [لقمان: 13]۔ (اے میرے پیارے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا۔ بلا شبہہ شرک ایک بڑا ظلم ہے۔) یہیں سے اسلامی نظریہ عدل کی ابتدا ہوتی ہے۔ عدل کی یہ قسم اخلاقیات کے دائرے میں آتی ہے اور اس کا تعلق پورے طور سے انسان اور اس کے رب کے درمیان محدود ہے۔ کسی کو قانونی طور پر اس عدل کو قائم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔
عدل اور فرد کا اپنی ذات سے تعلق
اسلامی نظریہ عدل کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنی ذات کے ساتھ بھی عدل کی بنیاد پر معاملہ کرے۔ چناں چہ کوئی بھی ایسا عمل جو اس کے لیے مضر اور نقصاندہ ہو اس سے اجتناب کرنا عدل ہے۔ یہ نقصان مادی نوعیت کا بھی ہوسکتا ہے جیسے کہ صحت کو نقصان پہنچانے والی چیزوں کو استعمال کرنا، دولت کو بے جا ضائع کرنا وغیرہ اور روحانی نوعیت کا بھی ہوسکتا ہے جیسے کہ شرک کرکے اپنی عاقبت خود خراب کرنا وغیرہ۔ چناں چہ قرآن مجید نے عدل کے اس پہلو کو ابھارنے کے لیے تین بار ظالم لنفسہ (جو اپنی ذات کے ساتھ ظلم کا معاملہ کرے) کی تعبیر کا استعمال کیا ہے۔
عدل اور عائلی معاملات
اسلام نے عدل کو جس طرح انسان اور رب کے درمیان کے رشتے کی بنیاد بنایا، انسان کے اپنی ذات سے رشتے کی بنیاد بنایا اسی طرح اسلام نے عدل ہی کو عائلی نظام کی بھی بنیاد اور عائلی تعلقات کی اساس کے طور پر پیش کیا۔ اللہ کے رسولﷺنےفرمایا: اپنے بچوں کے درمیان عدل کا معاملہ کرو۔ والدین کے ساتھ معاملات کے حوالے سے عدل پر مبنی معاملے کی کیسی خوب صورت تعلیم پیش کی کہ اگر والدین شرک میں مبتلا ہوں اور بچوں پر بھی شرک کے لیے زبردستی کریں، تو اسلام نے ان کا شرک کا مطالبہ نہ ماننے کا حکم دیا، لیکن ساتھ ہی والدین کے ساتھ رہنے اور حسن سلوک کرنے کی تاکید بھی فرمائی۔
عدل اور معاشرت
اسلام نے عدل کو معاشرتی پہلو سے غیر معمولی اہمیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ عدل کے معاشرتی پہلوؤں میں ایک بہت ہی اہم اور قابل ذکر پہلو جس پر قرآن نے بہت زور دیا ہے وہ یہ کہ دشمنوں کے ساتھ بھی اور دشمنی کے باوجود بھی سامنے والے کے ساتھ عدل کا معاملہ کرنا۔ اللہ کا ارشاد ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى [المائدة: 8] (اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے۔) ایک اور بہت اہم پہلو یہ ہے کہ اپنی ذات کے نفع نقصان سے اوپر عدل کے اصول کو رکھا جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا [النساء: 135] (اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ (اس میں ) تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچ دار شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔) گویا اسلام ایسے سماج کا خاکہ پیش کرتا ہے جو عدل پر قائم ہو اور وہ بھی ایسا عدل جو ہر طرح کے تعصب سے بالا تر ہو یہاں تک کہ دشمن بھی اس عدل کے سایے سے محروم نہ ہوسکے۔ ایسا سماج جہاں ذاتی مصلحتیں اصولوں کو بالکل بھی متاثر نہ کرسکیں۔
عدل اور سیاست
اسلام نے سیاست کے حوالے سے جو بنیادی اصول اور تعلیمات پیش کیے ہیں ان میں عدل سر فہرست ہے۔ اہل حکم اور اہل سیاست کو خصوصی خطاب کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [النساء: 58] (اللہ تم کو حکم فرماتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچادو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل کے ساتھ فیصلے کرو۔) اللہ کے رسولؑ کا ارشاد ہے: ‘‘عدل قائم کرنے والے قیامت کے دن رحمان کے دائیں جانب نور کے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں، اپنے گھر والوں میں اور اپنے ماتحتوں میں عدل کرتے ہیں۔’’ سید قطب شہیدؒ اسلامی سیاسی نظام کے خدو خال کے حوالے سے تین اہم خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں۔ جس میں پہلی عدل، دوسری شورائیت اور تیسری ولی امر کی اطاعت ہے۔ مولانا مودودیؒ بھی اسلام کے نو (۹) اصول ہائے حکمرانی میں عدل کو دوسرے نمبر پر اور ایک اہم ترین اصول کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ سیاست میں عدل کو بہ روئے کار لانے کے لیے انسانوں نے مختلف تجربات کیے اور وہ تجربات جاری ہیں۔ مشہور اسلامی مفکر ڈاکٹر محمد عمارہ ان تجربات کے حوالے سے بڑا قیمتی نکتہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ عدل اسلامی اقدار میں سب سے اہم قدر ہے اور یہ شریعت کا مقصد اوّل ہے۔ چناں چہ ہر وہ طریقہ جو عدل کے قیام کا ذریعہ بنے وہ اسلامی اور شرعی طریقہ مانا جائے گا گرچہ کہ نہ نصوص میں اس کا ذکر ہو اور نہ ہی اسلامی تراث میں اس کا ذکر ہو۔ مثال کے طور سے عدل کو یقینی بنانے کے لیے اقتدار کی تقسیم (separation of power) ایک بہت ہی اہم اور قابل تحسین تجربہ ہے جس کے تحت عدلیہ کے ادارے کو طاقت کےدوسرے اداروں کے دباؤ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تجربہ باقاعدہ اس شکل وصورت میں گرچہ نصوص میں موجود نہ ہو لیکن عدل کے قیام کے لیے یہ ایک مفید اور اہم تجربہ ہے۔ اسلام کے سیاسی عدل میں اس تجربے کا خاطر خواہ استقبال کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کی سیرت اور طرز حکمرانی میں سیکھنے کا بڑا سامان ہے۔ آپؓ نے اس زمانے میں موجود تمام انسانی تجربات سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عدلیہ کے اداروں کو بہت مؤثر اور مفید بنادیا تھا جس کی تفصیل شبلی کی الفاروق میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
عدل اور معیشت
اسلام میں معیشت کے حوالے سے عدل کا بہت غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے۔ ایسا اہتمام جس میں نہ غیر عملی مثالیت ہے اور نہ ہی نا انصافی کی مکمل چھوٹ۔ اسلام کے معاشی عدل کی روح یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ ایسا بند وبست کرتا ہے کہ دولت کا ارتکاز ایک مخصوص طبقے میں نہ ہو سکے۔ اسلامی تعلیمات کی یہ بنیادی روح ہے جسے قرآن کی تعبیر میں کہا گیا ہے: كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ [الحشر: 7] یعنی ایسا نہ ہو کہ دولت کچھ مال داروں ہی کے درمیان گردش کرنے والی چیز ہو جائے۔ اس کے لیے اسلام نے بہت سے انتظامات کیے۔ زکوۃ کو واجب کیا۔ وقف کا انتظام کیا۔ غریبوں پر خرچ کرنے پر خوب خوب ابھارا۔ آخرت کا فلسفہ پیش کرکے دنیا کی دولت جمع کرنے کی خواہش سے دلوں کو خالی رکھنے کا انتظام کیا۔ ساتھ ہی معیشت میں عدل کے حوالے سے بہت سی بنیادی اہمیت کی چیزوں کو تمام لوگوں کی ملکیت کا تصور قرار دیا تاکہ ہر کوئی نفع بھی اٹھاتا رہے اور کسی کی بھی اجارہ داری نہ ہوسکے۔ چناں چہ رفاہ کے نام پر بہت سے ممالک نے جو بنیادی ضروریات کو مفت فراہم کرنے کا فیصلہ لیا ہے یہ دراصل سنت رسول کی اس تعلیم کے عین مطابق ہے جس میں آپ ﷺ نےفرمایا: چارہ، پانی اور آگ پر کسی کی ملکیت نہیں ہوگی بلکہ یہ سب کی مشترکہ ملکیت ہوگی اور سب اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ تین چیزیں دراصل اس ابدی اصول اور تعلیم کی تاریخی تطبیق تھی جو زمانے کے ساتھ ساتھ مختلف شکلیں اختیار کرسکتی ہیں، لیکن اصل اسلامی معاشی عدل یہ ہے کہ بنیادی ضروریات کی چیزیں تمام لوگوں کو مفت فراہم ہونی چاہیے۔
آخری بات
عدل کے حوالے سے جو عام نظریات انسانوں کے یہاں ارتقا پذیر ہوئے، ان میں ایک بہت بڑی کمی یہ تھی کہ ہر مخصوص طرز فکر یا آئیڈیالوجی کے بیک گراؤنڈ والے افراد اپنے مخصوص اور محدود زاویے ہی سے عدل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزادی پسندوں کے لیے عدل کا صرف وہی مفہوم قابل قبول ہوتا ہے جو ان کی آزادی پسندی کے عین مطابق ہو۔ اسی طرح حقوق مزدوراں والوں کو عدل کا بس وہی مفہوم پسند آئے گا جو حقوق مزدوراں کے بنیادی فریم ورک میں پوری طرح فٹ ہو۔ اس کے برخلاف اسلام ایک طرف تو اپنی بنیاد میں جامعیت اور ہمہ گیریت کے زیور سے پوری طرح آراستہ ہونے کے باعث آئیڈیالوجی کے حوالے سے ایک متوازن اور معتدل فکر کا حامل ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اسلام کسی ایک محدود اصول اور قدر کے ذریعے انسانی زندگی اور سماج کے تمام مسائل کے حل کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ اسلام کے پاس اصولوں اور اقدار کا ایک پورا مجموعہ ہے جو باہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زندگی کے مسائل کو حل کرتے ہیں اور انسانی سماج کو ایک خوب صورت سماج بناتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جہاں عدل کا عام حکم دیا وہیں فوراً احسان کا بھی حکم دیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ احسان عدل کا اگلا مرحلہ یا عدل سے ایک منزل اوپر کا مقام ہے۔ جہاں ایک انسان اپنے اوپر عائد ہونے والے صرف حق کو ادا نہیں کرتا جو کہ عدل کا تقاضا تھا بلکہ اس سے بڑھ کر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح تصور مساوات کا معاملہ ہے جو عدل سے قریب لیکن بڑی حد تک مختلف تصور ہے اور دونوں کے دائرہ کار اور محل جدا ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے جدید فکر میں عدل اور مساوات کے مابین بھی ایک قسم کا خلط مبحث دیکھنے کو ملتا ہے۔ عدل کے موضوع پر اسلامی نظریے کے خدو خال کسی حد تک پیش کردینے کی کوشش اس مضمون میں کی گئی ہے۔ اگلے مضمون میں مساوات کے تصور پر تفصیلی گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مراجع
A Theory of Justice by John Rawls
The Idea of Justice by Amartya Sen
Women and Islam by Azizah al۔Hibri
العدالة الاجتماعية في الإسلام سيد قطب
خلافت وملوکیت سید ابوالاعلی مودودی
الاسلام وحقوق الانسان محمد عمارۃ
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2020