یہ نظم ۱۹۶۷ کے اجتماع عام میں شرکت نہ کرپا نے کی حسرت میں لکھی گئی تھی
میری امیدوں کا گلشن، آرزوؤں کی بہشت | ساحلِ موسی[1] پہ اترا ہے جو پھر اک کارواں |
جس کی عظمت سے مسخر میری فکر و عقل و روح | جس کی دعوت سے منور میرا قلب ناتواں |
ایک ہی سودا ہے سر میں ایک ہی دل میں لگن | پر خطر راہیں ہیں لیکن جانبِ منزل رواں |
جادہ حق میں بڑھے ہیں باندھ کر سر سے کفن | نذرِ آتش کر چکے ہیں واپسی کی کشتیاں |
کر نہ پائے جن کو مقصد سے جدا زنداں و دار | پائے استقلال جن کا صورت کوہِ گراں |
ایک معبود حقیقی کے پرستار و نقیب | ایک دینِ حق کے داعی و امین و پاسباں |
دینِ حق کی جھلکیاں گفتار میں کردار میں | جلوہ حق و صداقت جن کے چہروں سے عیاں |
آزمائش کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوئے | ابتلاؤں سے یہ نکلے سرخ رو و کامراں |
راوی و موسی[2] کے دامن میں جلا تھا اک چراغ | آج اس کے نور سے معمور ہے سارا جہاں |
گلستاں میں جس طرف ہے یورشِ برق و شرر | ان کو یہ ضد ہے بنائیں گے وہیں ہم آشیاں |
دین و ملت کی زبوں حالی کے نازک دور میں | ملتِ بیضاء کے خادم، دینِ حق کے پاسباں |
جادہِ حق سے بھٹکنے کا نہیں خوف و خطر | پیچ و خم سے راہ کے واقف ہے میرِ کارواں |
اول و آخر رضائے حق تعالی کی طلب | زر، زمین و زن سبھی تولے چکے ہیں امتحاں |
کیف اپنی بدنصیبی اور محرومی پہ | آج جی بھر آیا اور آنکھوں سے ہوئے آنسو رواں |
[1] حیدرآباد کی موسی ندی
[2] دو ندیوں کے نام
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024