اس وقت پوری دنیا میں مادیت اور شہوانیت کا جو سیلاب آیا ہوا ہے ، اس نے تمام اخلاقی قدریں تہ وبالا کرڈالی ہیں، معاشرتی نظام بے حیائی، بدکاری اور عریانیت کا مرکب بن چکا ہے ، اخلاقیات کے نظام کو بے کرداری اور نفع پرستی کے مزاج نے زیر وزبر کردیا ہے ،معاملات کو سود اورحرام کی زنجیر وں نے کچھ اس طرح چوطرفہ جکڑ رکھا ہے کہ امانت و دیانت، صداقت وراستی، اور خیر خواہی کے اوصاف آخری سانس لے رہے ہیں۔
انحراف اور بگاڑ کا یہ سیلاب پورے عالم میں آیا ہوا ہے ،اور مشرق و مغرب، عرب وعجم، شہرو دیہات، کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں ہے ، انہیں حالات میں جب پچھلے دنوں کشمیر کے جنت نظیر خطے میں پانی کا طوفانی سیلاب آیا تواس نے تباہی او ربربادی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے، یہ قدرت کی طرف سے ’’الجزاء من جنس العمل‘‘( جیسی کرنی ویسی بھرنی) کا معاملہ تھا، دوسرے لفظوں میں قدرت کی طرف سے یہ وارننگ تھی کہ:
تم نے گناہوں اور بگاڑ کا طوفان برپاکیا، اس کی سزا میں میں نے پانی کا سیلاب تم پر مسلط کردیا ہے ۔جن خطوں تک ابھی اس جیسا عذاب وقہر نہیں آیا ہے ان کے لیے ایک بار پھر اللہ نے ’’امھال‘‘( ڈھیل دینے ، مہلت و موقعہ دینے) کے قانون کا استعمال کیا ہے ، اوریہ آگاہی دے دی ہے کہ ابھی بھی موقع ہے کہ اللہ کی طرف پلٹ آؤ ، گناہوں سے باز آجاؤ، ورنہ برے انجام کے لیے تیارر ہو۔احادیث کی صراحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی خطے یا معاشرے پر اللہ کی طرف سے اجتماعی قہر وعذاب کا نزول تین گناہوں کے رواج عام کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ (۱) سود خوری (۲) زنا اوربدکاری(۳) زکوۃ کی ادائیگی میں مجرمانہ کوتاہی۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
إذا ظہر الربا والزنا فی قوم فقد احلوا أنفسہم عذاب اللہ۔(المستدرک:۲/۳۷)
جب کسی قوم میں سود اورزنا عام ہوجائیں تووہ اپنے کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنالیتی ہے۔
آج یہی صورت حال ہمارے سامنے ہے، سود کے لین دین اور بدکاری کے فروغ نے وہ شکلیں اختیار کرلی ہیں کہ ان کا تصور بھی لرزہ طاری کردیتا ہے ، اسی طرح زکوۃ کے تعلق سے مجرمانہ غفلت اورکوتاہی کی عام فضا بنی ہوئی ہے، ہماری انہیں بداعمالیوں کا خمیازہ قدرتی آفات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔
سود خوری کی وباء عام
احادیث کی صراحت کے مطابق کسی قوم، خطے اورمعاشرے پر اجتماعی آفت وعذاب کے آنے کا ایک بنیادی سبب سودی کاروبار اور سودی لین دین کا عام چلن ہے ۔
شریعت نے حرام کاموں اورگناہوںکی جوتفصیل بتائی ہے اس میں سود کاگناہ سر فہرست ہے ، قرآن و حدیث میں سودکی شناعت وقباحت کے تعلق سے ایسے ایسے الفاظ و حقائق بیان ہوئے ہیںجو لرزہ طاری کردیتے ہیں۔
سورۃ البقر ہ میں سود کی حرمت اوراس سے اجتناب کے حکم کے بعد ارشاد فرمایا گیا:
فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ ورسولہ۔( البقرۃ/۲۷۹)
اگر تم سود کا کاروبار نہیںچھوڑوگے توتم اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔
غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے شرک کے بعد بڑے سے بڑے گناہ کے بارے میں بھی اتنے سخت الفاظ او راتنا سخت لب و لہجہ استعمال نہیں کیا جتنا سخت لب و لہجہ و لفظ سودکے بارے میں استعمال کیا ہے، ’’اعلان جنگ‘‘ کے الفاظ انتہائی سخت وعیداور بدترین شناعت کے اظہار کے لیے ہیں۔روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص امام مالک بن انسؒ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا:میں نے شراب کا ایک ایسا رسیا اورنشہ میں چور شخص کودیکھا جو چاند کو پکڑنے کی کوشش کررہا تھا، اس پر میں نے کہا:اگرانسان کے پیٹ میں شراب سے بھی بدتر کوئی چیز اترنے والی ہو تو میری بیوی کو طلاق، آپ نے فرمایا: ابھی لوٹ جاؤ کہ میں تمہارے مسئلہ میں غور کرلوں، و ہ دوسرے دن آیا تو بھی فرمایا: ابھی لوٹ جاؤ کہ میں تمہارے مسئلہ میں غور کرلوں، وہ تیسرے دن آیا تو فرمایا : تمہاری بیوی کو طلاق پڑگئی، اس لیے کہ میں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انتہائی غور وتدبر کیا مگر سود سے بدتر کوئی چیز نظر نہ آئی، اس لیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہے ۔( الجامع لاحکام القرآن :۳/۳۶۴)
سود کی بے برکتی اور نحوست کے وبال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:
یمحق اللہ الربا ویربی الصدقات۔( البقرۃ/۲۷۶)
اللہ سود کومٹاتاہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔
سود اور صدقہ تودونوں کی حقیقت، نتائج ، اغراض اور کیفیات سب متضاد ہوتے ہیں، صدقہ میں اپنا مال بلامعاوضہ دوسرے کو دیا جاتا ہے ، اور سود میں دوسرے کامال بلا مالی معاوضہ کے لیا جاتا ہے ، صدقہ کی غرض رضائے الٰہی اور ثواب آخرت ہوتی ہے جب کہ سود کی غرض اللہ کے غضب سے نڈر ہوکر اپنی موجودہ دولت میں ناجائز اضافے کی ہوس ہوتی ہے ، نتیجہ کا فرق قرآن کی اسی آیت نے بتادیا کہ اللہ سود سے حاصل ہونے والے مال کی برکت وخیر مٹادیتا ہے جب کہ صدقہ کرنے والے کے مال کو اوراس کی برکت کو بڑھا دیتا ہے، کیفیات کا فرق یہ ہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کو متنوع اعمال خیر کی توفیق عطا ہوتی ہے اورسود خور بالعموم محرومی میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا :
الربا و إن کثر فإن عاقبتہ تصیر إلیٰ قلٍّ۔(ابن ماجہ/۱۶۵، المستدرک:۲/۳۷)
سود کا مال اگرچہ بڑھ جائے مگر اس کا انجام ہمیشہ بے برکتی اور کمی کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔
سود خور کے مال میں سود کی وجہ سے بظاہر کتنا ہی اضافہ کیوں نہ نظر آتا ہو لیکن:
(۱) سود خور کے مال میں برکت نہیںہوتی ۔(۲) ایسے مال میں عام طور سے آفتیں لاحق ہوتی ہیں، ناجائز مصارف میں خرچ ہوجاتا ہے یا کسی ناگہانی آفت وحادثے کی نذر ہوجاتا ہے ۔(۳) سود خور مال کے اصل فوائد یعنی عزت و راحت سے محروم رہتا ہے ،اسے اسباب راحت چاہے جس قدر حاصل ہوجائیں ، حقیقی راحت و اطمینان و سکون کی کیفیات حاصل نہیں ہوتیں، پھر اس کی طبیعت میں سودخوری کی وجہ سے شقاوت،تنگ دلی، بزدلی ، مجنونانہ حرص و ہوس اور دناء ت اور بے رحمی کے جراثیم جڑ پکڑلیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے دلوں میں اس کی کوئی قدر ومنزلت اور عزت ومقام باقی نہیں رہ جاتا ۔
سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے:
یا ایہا الذین آمنوا لا تأکلو الرباأضعافا مضاعفۃ، واتقوا اللہ، لعلکم تفلحون۔ ( آل عمران/۱۳۰)
اے ایمان والو: کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈروتا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
اس آیت میں زمانہ جاہلیت میںمروج سود کی ایک خاص صورت کا ذکر بطور مثال ہے ، ورنہ سود کی حرمت کا حکم عام ہے ، وہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر ہو یا نہ ہو۔
سود کی حرمت و شناعت کے تعلق سے احادیث نبویہ میں بہت مواد موجود ہے ، بخاری ومسلم کی ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سات ہلاک و برباد کرنے والی چیزوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، اور ان سات چیزوں میں شرک ، جادو، قتل ناحق، میدان جنگ سے فرار، تہمت طرازی، یتیم کا مال ناحق کھانے کے ساتھ سودخوری کا ذکر صریح الفاظ میں آیا ہے۔ (بخاری:۱/۳۸۸)
حضرت جابررضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں :
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا و موکلہ وکاتبہ و شاہدیہ، وقال: ہم سواء ( مسلم:۲/۲۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے، سود کی تحریر لکھنے والے، اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ ان کوجنت میںداخل نہیں کریںگے اور نہ ان کوجنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے (۱) عادی شرابی(۲) سود کھانے والا(۳) ناحق یتیم کا مال اڑانے والا(۴) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا۔ (المستدرک:۲/۳۷)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی حدیث نبوی میں سخت وعید کے الفاظ آئے ہیں:
الربا ثلاث و سبعون بابا،أیسرہا مثل أن ینکح الرجل أمّہ (المستدرک:۲/۳۷)
سود کے وبال۷۳؍ قسم کے ہیں، سود کے ۷۳؍ باب ہیں، سود کی خرابیوں کی۷۳؍ قسمیں ہیں، ان خرابیوں میں سے ادنیٰ اور کمتر قسم ایسی ہے جیسے کوئی شخص( معاذ اللہ) اپنی ماں کے ساتھ منھ کالا کرے۔
حضرت عبد اللہ بن سلامؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
الدرہم یصیبہ الرجل من الربا أعظم عند اللہ من ثلاثۃ و ثلاثین زنیۃ یزنیہا فی الإسلام( ایضاً)
ایک درہم کوئی سود سے حاصل کرے، اللہ کے نزدیک مسلمان ہونے کے باوجود ۳۳؍ بار زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے ۔
دوسری روایت میں وارد ہوا:
الربا اثنان وسبعون حوبا، اصغرہا حوبا کمن أتیٰ امہ فی الإسلام، ودرہم من الربا أشد من بضع و ثلاثین زنیۃ۔(شعب الایمان للبیہقی:۴/۳۹۲)
سود کے ۷۲؍ گناہ ہیں، ان میں سب سے چھوٹا گناہ اس شخص کے گناہ کے برابر ہے ، جو مسلمان ہوکراپنی ماں سے زنا کرے، اورایک درہم سود کا گناہ کچھ اوپر ۳۰؍ زنا سے زیادہ بدتر ہے ۔
حضرت حنظلہ (شہید اسلام، غسیل الملائکہ ،جن کو فرشتوںنے غسل دیاتھا) کے صاحبزادے حضرت عبد اللہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں:
درہم ربا یأکلہ الرجل وہو یعلم أشد من ستۃ و ثلاثین زنیۃ۔( مسند احمد:۵/۶۹،مجمع الزوائد:۴/۱۱۷)
سود کا ایک درہم جسے کوئی جانتے ہوئے استعمال کرلے۳۶؍ مرتبہ زنا سے بھی زیادہ شدید جرم ہے ۔
حضرت ابوہریرہؓ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شب معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پر پہونچے تومیں نے اوپر کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تواچانک گرج، بجلی اور کڑک محسوس کی، پھر ایک ایسی قوم پر میرا گزر ہوا جن کے پیٹ بڑے بڑے مکانوں جیسے تھے، جن میں سانپ بھرے ہوئے تھے، جوباہر صاف طور سے نظرآرہے تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا: یہ سود خور لوگ ہیں۔ (ابن ماجہ/۱۶۴، مسند احمد:۲/۲۵۶)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں:
ماظہر فی قوم الزنا والربا إلا أحلوا بأنفسہم عذاب اللہ۔ (مجمع الزوائد:۴/۱۱۸)
جس قوم میں زنا اور سود پھیل گیا انہوں نے یقینا اللہ کاعذاب اپنے اوپر اتار لیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
إذا أراد اللہ بقوم ہلاکا فشا فیہم الربا۔ (مسند الفردوس الدیلمی:۲/۲۱۳)
جب اللہ کسی قوم کوہلاک کرنا چاہتا ہے تو ان میںسود پھیل جاتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ایک حدیث میں انتہائی چشم کشا حقیقت کا بیان ہے :
لیأتین علی الناس زمان لا یبقیٰ منہم أحد إلا أکل الربا، فمن لم یأکل أصابہ من غبارہ۔( ابن ماجہ)
ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا کہ کوئی بھی سود سے نہ بچ سکے گا، اور کوئی شخص سودخوری سے بچ بھی گیا تو بھی سود کے دھویں اورغبار سے نہیں بچ سکے گا۔
مذکورہ احادیث اور بطور خاص اس حدیث کے تناظر میںہم اگر موجودہ صورت حال کا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق ۹۸؍ فیصد افراد سود کی لعنت میں گرفتار ہیں،پورا تجارتی نظام سود پر منحصر ہوچکا ہے ، دو فی صد باتوفیق بندے ایسے ہیںجو سود خوری سے بچے ہوئے ہیں لیکن سودی نظام کی زنجیر نے عالمی معیشت و تجارت کواس طرح جکڑ رکھا ہے اور سماج میں سود اس طرح سرایت کرگیا ہے کہ ان باتوفیق اور حلال کاروبار کرنے والوں کا حلال مال بھی پورے طور پر سود کے دھویں اور غبار سے محفوظ اور بچا ہوا نہیں رہ جاتا ۔
اب جب کہ دنیا سودی لعنت میں جکڑے ہوئے تجارتی و معاشی نظام کا تجربہ کرچکی ہے، اور اس کے اخلاقی، روحانی، تمدنی، اجتماعی اور معاشرتی نقصانات کا سامنا بھی کرچکی ہے ، اور اس کے نتیجہ میں باربار مختلف شکلوں میں آنے والے قہر الٰہی سے بھی دوچار ہوچکی ہے، دنیا کے لیے سود سے بالکل پاک اسلامی نظام معیشت (جو تمام انسانی طبقات کے لیے سراپارحمت و خیر ہی ہے ) کو اپنانے کے سواکوئی اور متبادل اور چارۂ کار باقی نہیں بچا ہے ۔
سود کے تعلق سے آپ ؐکا یہ ارشاد بھی پوری ملت کے لیے انتہائی فکر انگیز ہے :
إن من أربیٰ الربوا الاستطالۃ فی عرض المسلم بغیر حق۔ (ابو داؤد: کتاب الادب)
سب سے بڑا سود یہ بھی ہے کہ کوئی کسی مسلمان کی آبرو پر ناحق دست درازی کرے۔
مزید ارشاد ہوا:
إن أربیٰ الربا عرض الرجل المسلم۔( المستدرک :۲/۳۷)
بلاشبہ بدترین سود کسی مسلمان کی آبروریزی ہے۔
واضح ہوا کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ، بے جا تہمت طرازی، ناحق دست درازی اسی سود کا ایک حصہ ہے جس کو ماں کے ساتھ زنا سے بدتر اور خدا کے غضب و عذاب کا موجب بتایا گیا ہے ۔
موجودہ آفات وحوادث کی صورت حال پوری ملت کے لیے مقام عبرت ہے ، اوراس کا پیغام یہی ہے کہ سود کی تمام شکلوں اور قسموں سے خلوص دل کے ساتھ توبہ کی جائے، اور اس روحانی و اخلاقی جذام سے کوسوں دور رہا جائے، اس کے بغیر اللہ کے قہر سے حفاظت ممکن نہیں ہے۔
بے حیائی کا سیلاب بلا خیز
بے حیائی، بے پردگی اور بدکاری کی لعنت اللہ کے قہر و عذاب کودعوت دیتی ہے، شریعت نے حیا اور پردے کا انتہائی معقول نظام انسانیت کودیا ہے ، اور ہر وہ سوراخ بند کردیا ہے، جہاں سے بے حیائی کے جرثومے ابھر کر آسکتے ہوں، قرآن نے زنا کو صاف الفاظ میں بے حیائی کا عمل اور ناپسندیدہ اور براچلن بتاکر اس کے قبح شرعی، قبح عقلی، اور قبح عرفی کا ذکر کیا ہے (النساء/۲۲) اوراسے بے حیائی کا کام اوربری راہ قرار دے کر اس کے قریب تک جانے سے منع کردیا ہے ( الاسراء/۳۲) اس طرح بے حیائی ، بے پردگی اور فحاشی کے تمام قولی ، فعلی، تقریری و تحریری، لباسی وتصویری مظاہروںپرکڑی بندش عائد کردی ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں فحاشی کاجو سیلاب بلاخیز آیا او ر چھایا ہوا ہے وہ قرب قیامت کی علامت ہے جس کی پیش گوئی احادیث میں جا بجا فرمائی گئی ہے ، ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ایسی عورتیں کثرت سے ہوں گی جو بظاہر لباس میں ہوں گی مگر لباس اتناباریک ہوگا اور اس سے جسمانی خدوخال اس درجہ نمایاں ہوں گے کہ درحقیقت وہ برہنہ ہوںگی،وہ خود مردوں کی طرف مائل ہوںگی اورمردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی، ایسی عورتیں جنت کی خوشبو سے بھی محروم کردی جائیں گی۔(مسلم/۳۹۴۱)
بے حیائی کے اس طوفان کے تین اسباب بالکل نمایاں ہیں
(۱)نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں بے انتہا تاخیر(اس کے اسبا ب کچھ بھی ہوں)
(۲)مخلوط نظام تعلیم و معاشرت
(۳)موبائل اور ٹی وی اور نیٹ کے ذریعہ فحاشی کا فروغ
زنا اور عریانیت میں مبتلا سماج پر احادیث کے مطابق عذاب الٰہی اور امراض وآفات کا نزول ہوکر رہتا ہے ، ان آفات سے حفاظت کی تدبیر صرف یہ ہے کہ ملت کا ہر فرد خود بھی عفت آب بنے اور اپنے گھر، خاندان، اور سماج کو بے حیائی اور بے حجابی کی لعنت سے پاک کرنے کی مہم میں لگ جائے۔
زکوۃ کے تعلق سے عمومی کوتاہی
اسلام کے ارکان میں نماز کے بعد دوسرا مقام’’ زکوۃ‘‘ کو حاصل ہے، قرآن مجید میںاکثر مقامات پر نماز کے ساتھ زکوۃ کا ذکراور تاکید موجود ہے ،یہ وہ فریضہ ہے جسے اسلام میں ستون و بنیاد کا درجہ دیا گیا ہے ، کسی انسان کے صاحب ایمان ہونے کی شناخت کے لیے جومعیار قرآن نے طے کیا ہے، اس میں توحید و رسالت کے اقرار اور نماز کے بعد زکوۃ ہی کا ذکر ہے۔(التوبہ/۱۱)
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کے لیے جوشرطیں متعین فرمائی ہیں، ان میں بھی زکوۃ کا ذکر ہے۔(الحج /۴۱)
جو لوگ اس فرض کو ادا نہیں کرتے ان کیلئے آخرت میں دردناک عذاب کی دھمکی قرآن وحدیث میں موجود ہے ، دنیا میں بھی اس جرم کی نقد سزا کے طور پر بے برکتی، مال کاغلط مصارف میں ضیاع اور نقصان جیسی آفات مسلط کردی جاتی ہیں۔
ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے تحریر فرمایا ہے:
’’ زکوۃ و صدقات کی برکت سے مال کا بڑھنا اوران کے روکنے کی نحوست سے مال کا گھٹنا ایک ایسی روشن حقیقت ہے جس سے کسی منصف مزاج کافر کو بھی مجال انکار نہیں،مگر افسوس رنگ و بو کی ظلمت نے آج کے مسلمان کی نظر سے اس روشن اور چمکتی حقیقت کو بھی اوجھل کردیا،اس مسلمان معاشرے میں کتنے مسلمان ہیں جو فریضۂ زکوۃ کے تارک ہیں، انہیںاپنے مال کا چالیسواں حصہ نکالنا گوارہ نہیںمگر دوسری طرف یہ گوارہ ہے کہ امراض ناگہانی آفات و حوادث یا ناجائز مصارف میں اس سے بھی دس گنا زائد مال نکل جائے
خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
ذیل میں ایک دشمن اسلام انگریز کا واقعہ درج کیا جارہا ہے، شاید کسی غافل مسلمان کی چشم عبرت وا ہو۔
حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہ فرماتے ہیں:
’’ میں نے اپنے بچپن میں اپنے والد صاحب سے اور دوسرے کئی لوگوں سے بھی یہ قصہ سنا کہ ضلع سہارنپور میں قصبہ بہٹ سے آگے انگریزوں کی کچھ کوٹھیاں تھیں،جن میں ان انگریزوںکے کاروبار ہوتے تھے اور ان کے مسلمان ملازم کام کیا کرتے تھے اور وہ انگریز دہلی کلکتہ وغیرہ بڑے شہروںمیں رہتے تھے،کبھی کبھی معائنہ کے طورپر آکر اپنے کاروبار کو دیکھ جاتے تھے،ایک مرتبہ اس جنگل میں آگ لگی جوکبھی کبھی مختلف وجوہ سے لگتی رہتی تھی اوروہاں کے باغات وجنگلات کو جلادیتی تھی، ایک دفعہ اس جنگل میں آگ لگی اور قریب قریب ساری کوٹھیاں جل گئیں، ایک کوٹھی کاملازم اپنے انگریز آقا کے پاس دہلی بھاگا ہوا گیا اور جاکر واقعہ سنایا کہ حضور سب کوٹھیاں جل گئیں،آپ کی بھی جل گئی، وہ انگریز کچھ لکھ رہاتھا، نہایت اطمینان سے لکھتا رہا، اس نے التفات بھی نہیں کیا، ملازم نے دوبارہ زور سے کہا کہ حضور سب جل گیا، اس نے دوسری دفعہ بھی لاپرواہی سے جواب دیدیا کہ میری کوٹھی نہیں جلی اور بے فکری سے لکھتا رہا، ملازم نے جب تیسری دفعہ کہا تو انگریز نے کہا کہ میں مسلمانوں کے طریقہ پر زکوۃ ادا کرتا ہوں اس لیے میرے مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، وہ ملازم توجواب دہی کے خوف کے مارے بھاگا ہوا گیا تھا کہ صاحب کہیں گے کہ ہمیں خبر بھی نہیں کی، وہ انگریز کی اس لاپرواہی سے جواب سن کر واپس آگیا، آکر دیکھا تو واقعی سب کوٹھیاں جل چکی تھی مگر انگریز کی کوٹھی باقی تھی۔
فائدہ :-اللہ کی شان : کہ اسلام احکام پر عمل کر کے غیر مسلم تو فائدہ اٹھائیں اور ہم لوگ زکوۃ ادا نہ کر کے اپنے مالوں کونقصان پہنچائیں کہیں چوری ہوجائے کہیںڈاکہ پڑجائے کہیں کوئی آفت مسلط ہوجائے۔( سود خور سے اللہ اور اس کے رسول کا اعلان جنگ/۱۲-۱۳، بحوالہ آپ بیتی:۲/۸۸)
اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے، اگر اجتماعی طور پر کسی معاشرے یا خطے میں زکوۃ کااہتمام ختم ہونے لگتا ہے، لوگ زکوۃ کی ادائیگی سے لاپرواہ ہوجاتے ہیں،یا پائی پائی کے مطلوب حساب کے بجائے تخمینی طور پر زکوۃ ادا کر دیتے ہیں،توان کوتاہیوں کا وبال اجتماعی وبال و آفت ( مثلاً قحط سالی ودیگر حادثات) کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، آج یہی صورت حال سامنے ہے ، احادیث کی صراحت کے مطابق ایک دور ایسا آئے گا کہ زکوۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جائے گا، آج کامنظر نامہ اس کی تصدیق کرتا ہے ۔ہمیں موجودہ آفت و مصیبت کے عوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے زکوۃ کے تعلق سے عمومی کوتاہی کے اس پہلو کو ضرور پیش نظر رکھ کر اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور پوری ملت کا یہ مجموعی مزاج بننا چاہئے کہ ہر صاحب نصاب شریعت کے اصول کے مطابق مکمل حساب کے بعد زکوۃ کی رقم نکالے اور واقعی مستحقین تک اسے پہنچائے۔
کشمیر کا حالیہ سیلاب خود اہل کشمیر کے لیے احتساب خویش کا موقع ہے ،اور دوسرے تمام افراد کے لیے مقام عبرت وموعظت ہے ، یہ حالات ہمارے لیے خدائی تنبیہ اور آگاہی ہیں ، اور ان کا خاموش پیغام یہ ہے کہ:اجتماعی عذاب کا باعث بننے والی مذکورہ تینو ں چیزیں(۱) سود خوری کی وبائے عام، (۲) بدکاری اور بے حیائی کا سیلاب بلا خیز ،(۳) زکوۃ کے تعلق سے عمومی کوتاہی) سے امت کا ہر فرد بصدق قلب تائب ہواور مستقبل میں کبھی ان لعنتوں کے قریب نہ جانے کا پختہ عہد کرے، قرآنی بیان کے مطابق اللہ کی رحمت اور آفتوں سے حفاظت نیکو کاروں ہی کے قریب ہوتی ہے ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2014