غیر معمولی مشکل حالات میں بھی حسب استطاعت دین پر عمل پیرا رہنے کوشریعت میں رخصت کہا گیا ہے۔[
“ محمد بن منکدر سے روایت ہے، کہتے ہیں: میں نے امیمۃ بنت رقیقۃ کو کہتے سنا: میں کچھ عورتوں کے ساتھ نبی ﷺ کے پاس بیعت کرنے آئی، آپ ﷺ نے ہم سے بیعت لیتے ہوئے فرمایا: فيما استطعْتُنَّ وأطقْتُنَّ (جس کی تم استطاعت اور طاقت رکھو) میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہمارے ساتھ اس سے زیادہ مہربان ہیں جتنا خود ہم اپنے ساتھ ہیں” (سنن ابن ماجہ(
اطاعت کا عہد لینے والا جب خود یہ شرط لگائے کہ اسی حد تک اطاعت کرنا جس حد تک استطاعت ہو، تو یہ ضرور تعجب خیز مسرت کی بات ہے۔
استطاعت کے حدود کے اندر حکم جاری کرنا ایک بڑی مہربانی ہے، اور حکم کی اطاعت کے ساتھ استطاعت کی شرط اپنی طرف سے لگادینا ایک اور بڑی مہربانی ہے، قرآن وسنت کا مطالعہ کرتے ہوئے دین کے احکام میں اللہ تعالی کی یہ دونوں مہربانیاں بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔
اسلام کا بہت نمایاں امتیاز ہے کہ وہ دین رحمت ہے، اور قرآن مجید کی بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ از اول تا آخر کتاب رحمت ہے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے ہر لحظہ انسان اپنے آپ کو رحمت کے آغوش میں پاتا ہے۔ اللہ کی کتاب اللہ کی بے پایاں رحمت کا حسین وجمیل اظہار ہے، اس میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ سب احکام رحمت ہیں، ان احکام کو جس اسلوب میں بیان کیا گیا ہے، وہ اسلوب بیان خود ان احکام پر چھائی ہوئی رحمت کی عکاسی کرتا ہے، زیر نظر مضمون میں قرآن مجید کے احکام میں رحمت کے بعض پہلووں کا مطالعہ کیا گیا ہے۔
اس تحریر سے اس امر کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ قرآن مجید کے اسلوب رحمت کو ہمارے یہاں دینی تعلیم ودعوت کا اسلوب بنایا جائے، بندوں کے ساتھ جو رحمت ونرمی احکام الہی کے اصل متن میں نظر آتی ہے، اسلوب وانداز کی وہی رحمت ونرمی احکام الہی کی ترجمانی کرنے والے معلمین، مبلغین اور اہل دعوت وافتاء کے یہاں بھی عام ہوجائے۔ ایسا تضاد ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کتاب الہی کی تعلیمات رحمت کے دل نواز اسلوب میں ہوں، اور اسی کتاب الہی کی ہماری ترجمانی محبت ونرمی سے عاری اور سختی ودرشتی سے آلودہ نظر آئے۔
اس تحریر کا ایک اور مقصد دین کے ایک اہم پہلو کی طرف متوجہ کرنا ہے، وہ یہ کہ دین کی دو سطحیں ہیں، ایک سطح عام حالات میں عمل کرنے کی ہے، اور ایک سطح مخصوص حالات میں عمل کرنے کی ہے، جب عام حالات والی سطح پر عمل کرنا ممکن نہ ہو، یا زیادہ دشوار ہو۔ اسلام بے دینی کی گنجائش نہیں رکھتا ہے، وہ ہر حال میں دین پر عمل پیرا رہنا لازم قرار دیتا ہے، البتہ دشواری کی صورت میں وہ حسب حال آسان صورتیں پیش کرتا ہے، اس سے بے دینی کے لیے کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ اگر عوام میں دین کی دونوں سطحوں کا علم پختہ ہوجائے تو وہ کسی بے چینی اور اضطراب کے بغیر حسب حال دین پر عمل پیرا رہ سکیں گے۔ اور دین حق سے نہ کسی کو شکایت کا جواز ملے گا، اور نہ ہی اس پر کسی طرح کا اعتراض چسپاں ہوسکے گا۔ ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ دنیا کی تخلیق اور صورت گری اللہ نے کی ہے اور ہدایت بھی اللہ نے بھیجی ہے، دنیا کے حالات اللہ نے دو طرح کے رکھے ہیں، معمول کے حالات جن میں زندگی گزارنا آسان ہوتا ہے اورمعمول سے ہٹے ہوئے حالات جن میں زندگی گزارنا مشقت طلب ہوتا ہے، حالات کی دو قسموں کی طرح اللہ نے دین کے احکام بھی دو طرح کے دیے ہیں، معمول کے حالات میں انجام دیے جانے والے احکام اورمعمول سے ہٹے ہوئے حالات میں انجام دیے جانے والے احکام۔ زندگی کے حالات کے تناظر میںدین کے احکام کو دیکھنے سے دین پر ایمان ویقین کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی نگاہوں سے یہ پہلو اوجھل رہتا ہے، یا وہ جان بوجھ کر اس سے تجاہل برتتے ہیں، وہ کورونا جیسے حالات میں اس طرح شور مچاتے ہیں گویا دین کے خلاف کوئی بڑی حجت ان کے ہاتھ آگئی۔
درحقیقت یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے اور اس کے دین حق کی بڑی خصوصیت ہے کہ اس نے بندوں سے اطاعت بشرط استطاعت، بقدر استطاعت اور بشکل استطاعت کامطالبہ کیا ہے۔اس طرح اس دین کوزمان ومکان اور حالات سے مکمل ہم آہنگی کی صفت حاصل ہوجاتی ہے اوروہ قیامت تک آنے والے تمام حالات کے لیے قابل عمل رہتا ہے۔موجودہ حالات میں دین کے اس روشن پہلو کولوگوں کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ لانا بہت ضروری ہوگیا ہے، تاکہ حالات سے مایوسی اور دین سے بے تعلقی پھیلنے کے بجائے دین سے رغبت اور رب رحیم کی طرف انابت بڑھے۔
اس تحریر کے ذریعہ قرآن مجید کے قلبی مطالعے کی راہیں روشن کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ جن آیتوں میں خاص طور پر اللہ کی رحمت کو دکھانا مقصود ہوتا ہے وہاں تو اللہ کی بے پایاں رحمت کے جلوے دل ونگاہ کو خوشی اور مسرت سے معمور کرتے ہی ہیں، تاہم جن آیتوں میں اللہ کی اطاعت کا حکم ہوتا ہے، ایسی خالص احکام کی آیتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی اللہ کی رحمت کو کس قدر قریب محسوس کیا جاسکتا ہے، اور اس سے ایک مومن کتنا زیادہ لطف اندوز ہوسکتا ہے، یہ قرآن مجید کے قلبی مطالعہ کا ایک خاص پہلو ہے۔ قرآن مجید کا عقلی مطالعہ احکام الہی میں پنہاں حکمتوں کو دریافت کرنے کی راہیں دکھاتا ہے، اور قرآن مجید کا قلبی مطالعہ احکام الہی میں موج زن اللہ کی رحمت کو محسوس کرنے کا موقع دیتا ہے، کہ ہمارا رحمان ورحیم رب ہم سے قریب، ہم پر مہربان اور ہماری ان کم زوریوں اور مجبوریوں کا علم اور خیال رکھنے والا ہے جن کا خیال کبھی خود ہمیں نہیں ہوتا۔
دین کے احکام کا سب سے نمایاں پہلو تو یہ ہے کہ تمام احکام انسانوں کے لیے اللہ کی طرف سے انمول تحفے ہیں، ان میں سارے اطاعت گزار انسانوں کے لیے خیر ہی خیر ہے، ہر حکم الہی انسانوں کی کسی بڑی ضرورت کی تکمیل کرتا ہے، اور ساتھ ہی دنیا میں ترقی اور آخرت میں نجات وفلاح کی راہ پر چلاتا ہے، جو انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر ذاتی تدبر وتفکر کے علاوہ ان کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا جو اسرار شریعت اور مقاصد شریعت کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔
دین کے احکام میں اللہ تعالی کی رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دین کا ہر حکم بندوں کی مجموعی استطاعت کے مطابق ہے۔ نماز روزہ زکات وصدقات اور حج اور اس قبیل کی تمام جسمانی اور مالی عبادتیں اپنے آپ میں بندوں کی استطاعت کے عین مطابق ہیں۔ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا [البقرة: 286] (اللہ کسی شخص پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتا) اور لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا [الطلاق: 7] (اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اُسے مکلف نہیں کرتا) دین کے دو ممتاز جامع اصول ہیں، جو اللہ تعالی کی رحمت کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں، پہلے اصول کا تعلق انسان کی عمومی استطاعت سے ہے، اور دوسرے اصول کا تعلق انسان کو میسر سامان زندگی سے ہے۔ ان دونوں اصولوں کا پرتو دین کے تمام احکام پر نظر آتا ہے۔
دین کے احکام میں اللہ تعالی کی رحمت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ دین کے ہر حکم کے ساتھ یا تو استطاعت کی قید لگی ہوئی ہے، یا تیسیر کا انتظام ساتھ ہی منسلک ہے۔ یعنی یا تو حکم دینے کے ساتھ ہی یہ کہہ دیا گیا ہے کہ استطاعت ہو تبھی عمل کرنا، یا یہ بتادیا گیا ہے کہ اس صورت کی تعمیل نہ ہوسکے تو آسانی کی یہ صورت اختیار کرلینا۔
پہلی بات حج کی مثال سے سمجھ میں آتی ہے، فرمایا: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا [آل عمران: 97] (اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جووہاں تک پہونچ سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے) اللہ تعالی نے حج کی عبادت فرض کی جومجموعی طورپر بندوں کی استطاعت میں داخل ہے، دور دراز کے سفر کرنا اس دنیا میں انسانوں کا معمول ہے۔ البتہ حج کا سفر ہر انسان کی استطاعت میں نہیں ہوتا ہے اس لیے استطاعت کی قید بھی لگادی۔
دوسری بات نماز کی مثال سے سمجھی جاسکتی ہے، ایک موقع پر عمران بن حصین ؓنے رسول اللہ ﷺ سے اپنی بیماری کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ. صحیح بخاری (کھڑے ہوکر نماز پڑھو، نہیں کھڑے رہ سکو تو بیٹھ کر، اور بیٹھ بھی نہیں سکو تو کروٹ پر) نماز بہت آسان عبادت ہے، عام طور سے انسانوں کی استطاعت کے اندر ہوتی ہے، تاہم اگر کوئی نماز کا آسان عمل بھی انجام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہو تو تیسیر کے عمل کے ذریعے آسان نماز کو اور زیادہ آسان بنادیا جاتا ہے۔ غرض عمل کو استطاعت کے ساتھ مشروط کردیا جائے، یا تیسیر کے ذریعہ اسے اور زیادہ آسان کرنے کا انتظام کردیا جائے، ہر دو صورتوں میں اللہ کی رحمت انسانوں پر سایہ فگن نظر آتی ہے۔
دین کے احکام میں اللہ کی رحمت کا ایک حسین مظہر یہ ہے جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے، جس کی انجام دہی میں انسانوں کے لیے کبھی کوئی مشقت کا پہلو نکل سکتا ہو، تو اس سلسلے میں استثنائی رخصت بھی حکم کے ساتھ ہی نازل ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے تمام احکام کا استقرائی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عمومی حکم نازل ہوا ہو، بندوں کو اس کی انجام دہی میں مشقت پیش آئی ہو، ان کی طرف سے رخصت کا مطالبہ ہوا ہو، اور پھر استثنائی رخصت نازل ہوئی ہو۔ بلکہ ہمیشہ ایسا ہوا کہ عمومی حکم کے ساتھ ہی اور زیادہ تر اسی ایک آیت میں، اور کبھی کبھی اسی مجموعہ آیات میں استثنائی حالات کا تذکرہ بھی اللہ کی طرف سے ہوا، اور ان حالات کے لیے رخصت بھی اللہ کی طرف سے آئی۔ اس طرح کی بہت سی آیتوں کو آگے نقل کیا جائے گا۔ درحقیقت یہ اللہ کی رحمت کا بہت ہی لطیف اور دل موہ لینے والا انداز ہے، کہ وہ بندوں کے حالات کو بندوں سے زیادہ جانتا ہے، اور بندوں سے زیادہ بندوں پر مہربان ہوتا ہے۔
ہم یہاں قرآن مجید کی کچھ نمایاں مثالوں کے حوالے سے دین کی ان خوبیوں کو مزید واضح کریں گے۔
روزے کا حکم اور رخصت کا بیان
درج ذیل تین آیتوں کے ترجمے پر غور فرمائیں جو ایک ساتھ نازل ہوئیں:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ قدرت رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا فدیہ دیں اور جو اپنی خوشی سے بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے، روزہ رکھنا تمھارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانو۔ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے، وہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، پریشانی میں ڈالنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ [البقرة: 183 – 185]
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ روزے کی فرضیت کا حکم آتا ہے اور اسی آیت میں اس حکم کے ساتھ ہی بیماروں اور مسافروں کے لیے خصوصی رعایت بھی ذکر کی جاتی ہے، کہ وہ بعد میں تعداد پوری کرسکتے ہیں، اگلی آیت میں پھر رمضان کے مہینے کی خصوصیت کا حوالہ دے کر روزہ رکھنے کی دوبارہ تاکید کی جاتی ہیں، اور ساتھ ہی بیماروں اور مسافروں کے لیے رخصت کو بھی دوبارہ ذکر کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ رخصت کا ذکر پہلے گزر چکا اور انسانوں کی ضرورت کے لیے بظاہر وہ تذکرہ کافی محسوس ہوتا ہے، لیکن اللہ کی رحمت کا ظہور بار بار ہو اس کا تقاضا تھا کہ دوبارہ اس رخصت کو اسی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جائے۔ اعادہ رخصت کے اس اسلوب میں اللہ کی رحمت کا جو دل نواز اظہار ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ اس جملے کے مفہوم میں مفسرین میں اختلاف ہوگیا ہے، ہمارے نزدیک اس کی راجح تفسیر یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو خطاب کرکے ان سے کہا گیا کہ جو رمضان کے روزے رکھتے ہوئے ہمدردی اور مواسات کے اس مہینے میں مسکینوں کو کھانا بھی کھلاسکیں وہ کھلائیں یہ ان کے لیے نجات کا سامان (فدیہ) قرار پائے گا۔ رب رحیم نے اس حکم میں بھی استطاعت کی قید لگادی، کہ یہ حکم سب کے لیے نہیں بلکہ صاحب استطاعت مسلمانوں کے لیے ہے۔
روزے کا حکم بظاہر ایک پرمشقت حکم ہے، لیکن اسی کے سیاق میں رب رحیم نے اپنی رحمت سے معمور ایک بڑا اصول بیان کیا: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۔ دو چھوٹے جملوں پر مشتمل یہ بہت بڑا اصول ہے، دو عدسوں کی طرح دو جملوں سے عبارت یہ وہ بے بہا عینک ہے جس سے شریعت کے کسی بھی حکم کو دیکھا جائے اس میں اللہ کی رحمت کا جلوہ نظر آئے گا، کہیں کسی مشقت کا شائبہ نظر نہیں آئے گا۔
حج وعمرے کا حکم اور رخصت کا بیان
درج ذیل آیت کے ترجمے پر غور کریں۔
اور حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی آسانی سے میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اُسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے، اگر تم امن کی حالت میں ہو، تو جو شخص تم میں سے حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ قربانی دے جو آسانی سے میسر آئے، اور ا گر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اِس طرح پورے دس روزے رکھ لے یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر مسجد حرام کے قریب نہ ہوں اللہ کے اِن احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ [البقرة: 196]
اس آیت میں حج اور عمرے کا عمومی حکم تو شروع کے ایک مختصر جملے میں مکمل ہوگیا، اور اس کے بعد پوری آیت میں صرف رخصتوں اور سہولتوں کا بیان ہے، اور وہ بھی رحمت سے لبریز مختلف طرح کے اسلوب بدل بدل کر۔ جیسے اس آیت میں دو جگہ قربانی کرنے کا حکم آیا اور دونوں جگہ یہ حکم فما استیسر (جو آسانی سے مل جائے) کی دل نواز تعبیر کے ساتھ آیا ہے۔ اس طرح ہم حج وعمرہ کے مختصر حکم کے بعد دیر تک اللہ کی بے پایاں رحمت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
تہجد گزاری کا حکم اور رخصت کا بیان
درج ذیل آیت کے ترجمے پر غور کریں:
اے نبی، تمہارا رب جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور آدھی رات اور ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اسے نباہ نہ سکو گے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، تو جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کریں گے، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے، پس جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔[المزمل: 20]
سورۃ مزمل کے شروع میں اللہ کے رسول ﷺ کو رات کے قیام کا حکم دیا گیا، کہ وہ کم وبیش آدھی رات پر محیط ہو۔نبی ﷺ کے اتباع میں صحابہ کرام نے بھی اس حکم کی تعمیل کی، پھراسی سورت کے آخر میں انھیں مدینے کے مخصوص حالات کے لیے رخصت دی، یہ رخصت انھیں اپنے علم کا حوالہ دے کر انھیں مذکورہ حالات پیش آنے سے پہلے ہی دے دی۔ اور اس کے لیے ایک دل موہ لینے والی بات کو دو مرتبہ کہا گیا، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ اور فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ان دونوں جملوں میں اللہ کی رحمت کو محسوس کرنے اور اس سے لطف اٹھانے کا بھرپور سامان ہے۔ اللہ کی طرف سے یہ پیغام کس قدر فرحت بخش ہے کہ جب اس کے بندے رات کے اندھیرے میں نماز کے لیے اٹھتے ہیں، تو ان کی ایک ایک پریشانی کی اسے خبر ہوتی ہے، اور اسے ان بیماروں، مسافروں اور مجاہدوں کا بھی خیال ہے جو آنے والے دنوں میں راتوں کو طویل عبادت نہیں کرسکیں گے۔ مہربان رب کا سب کے لیے یہ پیغام کہ حالات کے لحاظ سے آسانی سے جتنا پڑھ سکو پڑھ لو، اس سے محبت اور اس کی عبادت کے شوق کو کس قدر بڑھادیتا ہے۔ اس آیت میں اللہ سے قریب ہونے کے شوق کو بڑھانے کا بہت سامان ہے۔
چار بار حکم اور چاروں بار رخصت کا بیان
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے کھانے کے لیے انعام کی قبیل کے جانور پیدا کیے ہیں۔ اور پھر چار مقامات پر تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا کہ انعام کی قبیل کے جانوروں میں سے کیا کھانا حرام ہے۔
اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مُردار نہ کھاؤ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [البقرة: 173]
تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلاگھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سےپسند کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ اس کا خواہش مند ہو، یا حد سے تجاوز کرنے والا ہوتو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ [المائدة: 3]
اے محمد ﷺ! ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مُردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یاسور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز اِن میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقیناً تمہارا رب در گزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ [الأنعام: 145]
اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے وہ ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو البتہ بھوک سے مجبور ہو کر اگر کوئی اِن چیزوں کو کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ اس کا خواہش مند ہو، یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقیناً اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ [النحل: 115]
قرآن مجید میں ان چار مقامات پر چار آیتوں میں ملتی جلتی تفصیل سے اور ایک ہی ترتیب سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ کیا کھانا حرام ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہے کہ ان چاروں آیتوں کے اختتام پر زور دے کر کہا گیا ہے کہ اللہ غفور اور رحیم ہے۔
ان چاروں آیتوں کے اندر اللہ کی مغفرت ورحمت کا بہت نمایاں مظہر نظر آتا ہے، وہ یہ کہ چار بار مذکورہ حرام چیزوں سے پرہیز کرنے کا حکم دیا تو چاروں بار رخصت ورعایت کا ذکر بھی کیا گیا۔ ہر آیت میں حرام چیزوںکی تفصیل کے بعد کہا گیا کہ جو شخص اضطراری حالت سے دوچار ہوجائے اس کے لیے بقدر ضرورت رخصت ہے۔ اضطراری حالت کا اعتبار کرنا اور اس کے لحاظ سے رخصت دینا، اور بار بار اس کا تذکرہ کرنا اللہ تعالی کی رحمت کی روشن دلیل ہے۔ اور پھر ایسا نہیں ہوا کہ رخصت کا یہ مطالبہ بندوں کی طرف سے کیا گیا ہو، بلکہ جب پابندیوں پر مشتمل حکم نازل ہوا تو اس کے ساتھ ہی اسی ایک آیت میں رخصت کا بیان بھی نازل ہوا۔ یہ روشن دلیل ہے اس بات کی کہ یہ احکام اس ذات کی طرف سے نازل ہوئے ہیں جو علیم وحکیم بھی ہے اور غفور ورحیم بھی ہے۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ان آیتوں میں جن حرام چیزوں کا ذکر ہے ان کا تعلق انعام سے ہے، یعنی وہ نرم ملائم گوشت والے گھاس خور جانور جو اللہ نے انسانوں کے کھانے کے لیے بنائے ہیں، جن میں سور بظاہر آتا ہے لیکن اللہ نے اسے حلال گوشت کی فہرست سے خارج رکھا ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے خاص طور سے انعام کو انسانوں کی غذا کے طور پر پیدا کیا ہے۔
جہاں تک انعام کے علاوہ دوسرے جانور اور پرندے ہیں ان کے سلسلے میں قرآن مجید میں یہ تو نہیں کہا گیا کہ وہ انسانوں کے کھانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، تاہم ان کی حرمت کا بھی کوئی صریح بیان نہیں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں ان سے پرہیز توکرنا ہے، تاہم وہ اس درجے کے حرام نہیں ہیں جس درجے کی حرام ان آیتوں میں مذکور چیزیں ہیں۔ضرورت کے وقت انھیں کھالینے کی کسی قدر گنجائش ضرور ہے۔
بہرحال اوپر کی چاروں آیتوں میں جن چیزوں کو حرام کیا گیا ان کے جسم وروح پر کیا برے اثرات پڑتے ہیں یہ ابھی گفتگو کا موضوع نہیں ہے، تاہم جس اسلوب میں ان کی حرمت کا بیان ہوا وہ یہ یقین عطا کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ مہربان رب کی طرف سے بھیجے ہوئے احکام ہیں۔
وضو کا بیان ایک بار تیمم کا بیان دو بار
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ، نماز اُس وقت تک نہ پڑھو جب تک تم یہ نہ جانو کہ کیا کہہ رہے ہو اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، الا یہ کہ تم مسافر ہو، اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے ملامست کی ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے۔ [النساء: 43]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لو، اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں سے ملامست کی ہو، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے کام لو، اُس پر ہاتھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیر لو اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔[المائدة:6]
دل موہ لینے والی بات یہ ہے کہ وضو کا حکم تو قرآن مجید میں ایک بار آیا ہے لیکن تیمم کی رخصت اور طریقے کا بیان دو بار آیا ہے۔ پہلی آیت میں مسجد میں جانے کے لیےغسل کا حکم بیان ہوا تو بیماروں اور پانی نہیں پانے والے مسافروں کے لیے تیمم کی رخصت ذکر کی گئی، اور دوسری آیت میں وضو کا طریقہ بیان ہوا تو پھر بیماروں اور پانی نہیں پانے والے مسافروں کے لیے تیمم کی رخصت ذکر کردی گئی۔
نیز دوسری آیت میں اللہ تعالی نے اپنی ایک عظیم سنت سے آگاہ کیا، جو اللہ کی رحمت کی شان دار ترجمانی کرتی ہے مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ شریعت کے تمام احکام کا جائزہ لے لیں کہیں بھی کسی حرج ومشقت کا سایہ نہیں مل سکتا ہے۔ جہاں بھی کوئی مشکل حکم ہے تو وہ ان کے لیے ہے جو اس پر عمل کرسکتے ہیں اور ان حالات کے لیے ہے جن میں اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
یہ اللہ کی لطیف رحمت ہے کہ وضو اور غسل کے مسائل جو عام انسانی نگاہ میں چھوٹے نظر آتے ہیں اس قدر اہتمام کے ساتھ کتاب الہی میں بیان کیے گئے، کہ یقین ہوجائے کہ اللہ کے نزدیک انسانوں کے عظیم مصالح کے حصول کے لیے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اور پھر یہ بھی اللہ کی دل نواز مہربانی ہے کہ اپنے بندوں کی بیماری اور سفر میں پیش آنے والی دشواری کا خیال کرکے تیمم کی رخصت دی اور اسے اہتمام کے ساتھ دو بار ذکر کیا۔ اور رخصت بھی اس قدر آسان کہ اس سے زیادہ آسانی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پاک مٹی پر تیمم کرنے والے کو محسوس کرنا چاہیے کہ اس عمل سے پاکیزگی اس کے اندر سرایت کرگئی، ساتھ ہی اسے اللہ کی رحمت سے محظوظ بھی ضرور ہونا چاہیے۔
کفارے کے احکام میں استطاعت کا لحاظ
قرآن مجید میں بعض جرائم کی سزائیں بیان ہوئی ہیں، اور کچھ غلطیوں کے کفارے بیان ہوئے ہیں، ان کفاروں کی تفصیل کے لیے جو اسلوب بیان ہے وہ اللہ کی رحمت کی عکاسی کرتا ہے، ہم ایسی کچھ آیتیں یہاں ذکر کریں گے:
کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، الا یہ کہ غلطی سے قتل ہو جائے، اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو خو ں بہا دے، الا یہ کہ وہ خوں بہا معاف کر دیں لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی غیرمسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خوں بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے، یہ اللہ کی طرف سے رحمت ہے اور اللہ علیم و دانا ہے۔ [النساء: 92]
جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے رہے ہیں، اوراب پھر اسے کریں، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اِس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔[المجادلہ: 3، 4]
اللہ تمھاری گرفت نہیں کرتا، ان قسموں پر جو تم کالعدم کردو، مگر جن قسموںپر تم قائم رہو اُن پر ضرور تم سے مواخذہ کرے گا (ایسی قسم کو کالعدم کرنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہناؤ، یا ایک غلام آزاد کرو، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑ دو اپنی قسموںکا خیال رکھا کرو اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہےامید ہے تم شکرگزار ہوگے۔ [المائدة: 89]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ کرو، اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر ے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اِس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، یااس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے، تاکہ وہ اپنے کیے کا مزہ چکھے پہلے جو ہو چکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔[المائدة: 95]
پہلا نکتہ: کفارے کی ایک سے زائد صورتیں ہوتی ہیں
ان آیتوں میں ہم دیکھیں کہ کسی غلطی کا کوئی ایک متعین کفارہ نہیں رکھا ہے، بلکہ کفارے کے قابل ہر غلطی کی ایک سے زیادہ صورتیں بتائی گئی ہیں، اور ایک سے زائد صورتیں بتانے کی حکمت بھی واضح کی گئی ہے کہ ہوسکتا ہے کوئی ایک صورت انسان کی استطاعت سے باہر ہو، یا اس کے پاس وہ میسر نہ ہو۔ غلام کو آزاد کرنا، مسکینوں کو کھانا کھلانا انھیں پہناوے دینا، یا قربانی کرنا وہ صورتیں ہیں جو ضروری نہیں کہ ہر شخص کو میسر ہوں، جب کہ روزے رکھنا، خاص طور سے دو ماہ مسلسل روزے رکھنا طاقت پر منحصر ہے اور ہر شخص کی استطاعت میں نہیں ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کفارے اس طرح رکھے گئے ہیں کہ مختلف معاشی حالت اور مختلف جسمانی حالت کے لوگ ان پر عمل کرسکیں۔
دوسرا نکتہ: کفارے کی ہر صورت مفید ہوتی ہے
انسان کی غلطی پر کفارے کی ایسی صورتیں تجویز کی گئیں، جو فرد اور معاشرے کے لیے افادیت سے بھرپور ہوتی ہیں، غلام کو آزاد کرنا بہت بڑی سماجی نیکی ہے، مسکینوں کو کھانا کھلانا اور انھیں پہناوے فراہم کرنا بہت بڑی سماجی خدمت ہے، اور روزے رکھنا انسان کی تربیت کے لیے بے حد مفید ہے۔ غرض ایک انسان کی غلطی اور پھر اس پر ندامت وتوبہ سارے انسانوں کے لیے رحمت کا سامان بن جاتی ہے۔
تیسرا نکتہ: کفارہ اللہ کا محبوب عمل ہوتا ہے
کفارے کے لیے وہ اعمال رکھے گئے جو اپنے آپ میں اللہ کو بہت زیادہ پسند ہیں، قرآن میں جگہ جگہ ان اعمال کی ستائش کا بیان ہوا ہے، غلام کو آزاد کرنا، مسکینوں کو کھانا کھلانا اور روزے رکھنا اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ اعمال ہیں، غلطی کا ارتکاب کرنے والا جب ان اعمال کو بطور کفارہ انجام دیتا ہے تو اسے غلطی پر ندامت اور افسوس کے ساتھ یک گونہ خوشی بھی محسوس ہوتی ہے کہ غلطی سے توبہ کرنے کے بعد اسے یہ توفیق ملی کہ وہ اللہ کے محبوب اعمال انجام دے رہا ہے، اور ان اعمال کی انجام دہی کے دوران اس کے درجات بلند ہوجائیں اس کی بجا طور پر وہ توقع کرتا ہے۔
چوتھا نکتہ: ہر غلطی سے توبہ میں کفارہ مطلوب ہے
ان کفاروں میں یہ اشارہ موجود ہے کہ مذکورہ غلطیوں کے علاوہ بھی انسان سے اگر کوئی غلطی ہوتی ہے تو وہ توبہ اور انابت کے ساتھ کفارے کی ایسی بعض شکلوں کو حسب استطاعت اپنے لیے بطور نفل کفارے کے اختیار کرسکتا ہے۔ قرآن وسنت سے ہمیں یہ عمومی رہ نمائی ملتی ہے کہ نیکی کے کام برائیوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں، اگر توبہ کے ساتھ وہ بھی شامل ہوجائیں۔
دین کے بنیادی تقاضوں میں رخصت
اللہ کے مومن بندے اگر ایسی جگہ ہوں جہاں وہ دین پر قائم نہ رہ سکیں، تو ان کے لیے لازم ہے کہ وہ وہاں سے نکل جائیں، اور اللہ کی کشادہ زمین میں مناسب جگہ جاکر سکونت اختیار کریں۔ جو لوگ استطاعت کے باوجود ایسا نہ کرکے دین چھوڑنا قبول کرلیں گے ان کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے، تاہم اللہ کی رحمت ان لوگوں کو ڈھانپ لیتی ہے جو چاہنے کے باوجود ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ فرمایا:
جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے. ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے. بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔[النساء: 97 – 99]
جب اللہ کے دین کا تقاضا ہو تو اپنی جان ومال کے ساتھ حاضر ہوجانا لازم ہے، جو ایسا نہ کرے اس کے لیے سخت وعیدیں ہیں، تاہم جن کے پاس راہ خدا میں نکلنے کی طاقت نہ ہو، اور جن کے پاس راہ خدا میں نکلنے کے لیے سامان سفر نہ ہو، ان کے لیے اللہ کی رحمت بس اتنا ضروری قرار دیتی ہے کہ ان کی زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں گزرے، اور ان کے دل اللہ اور اس کے رسول کی محبت وخیر خواہی سے آباد رہیں۔ ذیل میں درج دونوں آیتوں میں ایسے غیر مستطیع لوگوں کا تذکرہ جس پیار سے کیا گیا ہے وہ دیر تک محسوس کرنے والی بات ہے۔
اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔ [الفتح: 17]
ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جن کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے وفادار ہوں، محسنین پر گرفت نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے. اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی گرفت نہیں ہے جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ ان کے پاس کچھ نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ کرسکیں۔[التوبہ: 91، 92]
منکر اور برائی کو مٹانے کی کوشش کرنا دین کا بنیادی فریضہ اور مسلمان ہونے کا اہم تقاضا ہے، تاہم وہ بھی استطاعت کے اصول کے تحت ہی رکھا گیا ہے، رسول پاکﷺ کا فرمان ہے:
تم میں سے جو برائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے، اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھے تو اپنی زبان سے بدل ڈالے، تو اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھے تو اپنے دل سے بدل ڈالے، اور یہ کم زور ترین ایمان ہے۔ [صحيح مسلم]
اس دینی فریضے کی ادائیگی میں حسب استطاعت تخفیف تو ہوجائے گی لیکن اس سے خلاصی اور بے تعلقی کبھی بھی جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ رخصت دینی تقاضوں سے فرار کا نام نہیں ہے، بلکہ ہر طرح کے مشکل اور غیر معمولی حالات میں بھی دین پر حسب ہدایت عمل پیرا رہنا ہے۔
بیان رخصتوں کا، فروغ جذبہ اطاعت کا
اوپر ذکر کی گئی بہت سی مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید میں رخصتوں اور رعایتوں کا بیان بڑے اہتمام کے ساتھ کیا گیا ہے، تاہم یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ رخصتوں اور رعایتوں کا یہ بیان جذبہ اطاعت کو بڑھانے والے اسلوب میں ہے۔ ان آیتوں کو پڑھتے ہوئے اطاعت سے فرار کے راستے دکھانے والی رخصت پسندی فروغ نہیں پاتی ہے، بلکہ اللہ سے محبت اور اللہ کی اطاعت کا جذبہ قوت پاتا ہے۔ بندہ اچھی طرح سمجھ لیتا ہے کہ اس سے مطلوب تو اعلی درجے کی اطاعت ہے، البتہ اس کو درپیش مشکل حالات کی رعایت کرتے ہوئے رخصت والا طریقہ بھی دیا گیا ہے، اس لیے وہ مشکل حالات میں رخصت پر عمل تو کرتا ہے، مگر اس کا دل آمادہ اور تیار رہتا ہے کہ جیسے ہی یہ حالات گزرجائیں گے وہ اللہ کے ان احکام کی طرف لوٹ آئے گا جو اصل میں اسے مطلوب ہیں، اور جو اس نے عام انسانوں کے لیے دیے ہیں۔
رخصت ورعایت کے سلسلے میں اصل مفتی تو انسان کا دل ہوتا ہے۔ مطلوب کام کی استطاعت نہیں ہونا، مطلوب چیز کا میسر نہیں ہونا، اضطرار ہونا، بیمار ہونا، یہ سب وہ کیفیتیں ہیں جن کے سلسلے میں کوئی دوسرا شخص فتوی نہیں دے سکتا ہے، بندہ اپنی کیفیت خود بہتر سمجھتا ہے، اور اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ اس کی کیفیت سے پوری طرح باخبر ہے، اس لیے رخصت ورعایت پر عمل کرنے کا معاملہ خالص اللہ اور بندے کے بیچ کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بندے کا یہ احساس فیصلہ کن ہوتا ہے کہ اس کا رب اس سے کیا چاہتا ہے۔
رخصت میں رہتے ہوئے عزیمت کو پانے کی آرزو
قرآن مجید میں اللہ تعالی کے احکام بیان کیے گئے ہیں، اور ساتھ ہی رخصتوں اوررعایتوں کا بیان بھی اہتمام کے ساتھ ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مومن کی نگاہ میں دونوں یکساں ہوتے ہیں، اور وہ رخصت ورعایت پر ہرطرح سے مطمئن رہتا ہے۔قرآن مجید میں احکام الہی کو جن حکمتوں بشارتوں اور ثمرات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ان سے آگاہ ہونے کے بعد بندہ مومن کی اصل خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ وہ انھیں ان کی مثالی صورت میں انجام دے، اور ان کےبہترین ثمرات وبرکات سے بہرہ مند ہو، اگرچہ وہ حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے اور رخصت ورعایت پر عمل کرے۔ حج کی آیتیں پڑھنے والے کے دل میں مستطیع بن کر حج کرنے کی خواہش پیدا ہوجانا فطری بات ہے، زکات وانفاق کے سلسلے کی بشارتیں سن کر دل میں یہ خواہش ضرور اٹھتی ہے کہ مال داری نصیب ہو، اور اللہ کی راہ میں مال لٹانے والوں کا مقام حاصل ہوسکے، ہر طرف منکر کو پھیلتے ہوئے دیکھ کر ناتواں مومن کے دل میں یہ جذبہ ضرور پیدا ہونا چاہیے کہ اسے طاقت حاصل ہوجائے اور وہ منکر کو بدل سکے، اضطراری حالت میں حرام چیز کھاکر اپنی جان بچانے والے کے دل میں اس حرام چیز کی ذرہ برابر خواہش نہیں ہوتی ہے، خواہش تو بس اضطراری حالت سے نکل کر حلال چیزوں سے لطف اندوز ہونے کی ہوتی ہے، قرآن مجید میںایسے ایمان والو ں کو زار وقطار روتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو جہاد کے سفر پر نکلنے کا سامان نہیں پاتے۔اس لیے اگر کبھی انفرادی یا اجتماعی حالات کے جبر کی وجہ سے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی صورت میسر نہیں ہو تو گھر میں نماز ادا کرتے ہوئے بھی مسجد میں حاضری کی تمنا ایک مسلم کے دل کو ضرور بے چین رکھے، اور موقع ملتے ہی وہ بے تابی سے مسجد کی طرف دوڑ پڑے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2020