رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے لڑکے، اس کے والد اور تمام لوگوںسے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔
سوچیے!کیا ہم رسالت مآب ﷺ کی محبت کادم بھرتے ہیں؟ ان کی الفت کے قصیدے پڑھتے ہیں؟ اگر ہاں! توکیاہم نے ایسی رفتاروگفتار بھی اختیار کی، جوانھیں پسند ہو؟ ایسا انداز بھی اپنایا، جو ان کے دل کوبھائے؟ ایسے اعمال بھی کیے، جن سے وہ خوش ہوں؟ ایساکردار بھی اداکیا، جس سے روئے مبارک چمک اٹھے؟ ہم نے اپنے محبوب ﷺکے طریقے پرکتناعمل کیا؟ان کے بتائے ہوئے راستے پر کہاںتک چلے؟ یا ان کے افعال واقوال کی کہاںتک قدر کی؟ہمارے محبوب ﷺ کافرمان ہے: قرۃ عینی فی الصلوٰۃ. ﴿نسائی، حدیث نمبر: ۳۳۹۱﴾‘‘میری آنکھوںکی ٹھنڈک نماز میںہے’’، ہماری مسجدیں شاندار، سنگ ِمرمرکافرش،اعلیٰ قسم کے قالین اورشان وشوکت میں یکتا،لیکن نمازیوںکی تعداد؟ ہمارے محبوب ﷺ کا حکم ہے:
قصوا الشوارب وأعفوا اللحیٰ. ﴿مسند احمد، حدیث نمبر: ۷۱۳۲﴾
’’ مونچھیں کٹائو، داڑھیاںبڑھاؤ ‘‘
محبت کے کتنے دم بھرنے والے داڑھیوںمیں نظرآتے ہیں؟ہمارے محبوب ﷺ کا ارشاد ہے:
ثلاثۃ لایکلمھم اللہ یوم القیامۃ، ولایزکیہم، ولہم عذاب ألیم، المنان، والمسبل ازارہ، والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب. ﴿ترمذی، حدیث نمبر: ۱۲۱۱﴾
’’تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہ تو نظر ِرحمت فرمائے گااور نہ ان کاتزکیہ کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے،ایک احسان جتانے والا، دوسرا ٹخنے سے نیچے ازار لٹکانے والا، تیسرا جھوٹی قسمیں کھاکھاکر اپنا سامان فروخت کرنے والا۔‘‘
کتنے ہیں جو محتاجوں کی مدد توکرتے ہیں مگرموقع ملنے پر احسان جتانے سے بھی نہیں چوکتے؟کتنے لوگ ہیں، جو اپناازار ٹحنے سے اوپررکھتے ہیں؟ پوری مسلم برادری پر نظر دوڑائیے! ایک بڑی تعداد ایسی ملے گی، جن کا ازار ٹخنے کے نیچے رہتاہے۔ بہت ہوگیاتونماز کے وقت ٹخنے سے ذرا وپر اٹھالیا۔ حالاںکہ فقہائ کی تصریح کے مطابق ازار ٹخنے سے نیچے لٹکانا حرام ہے۔﴿ عارضۃ الأحوذی: ۷/۴۷۱﴾ محبوب ِ خدا ﷺ نے فرمایا:
من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر ، فلایؤذ جارہ.﴿بخاری، حدیث نمبر: ۶۰۱۸﴾
’’جو شخص خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو، وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے‘‘
ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیجیے!کتنے لوگ اس فرمان پرعمل پیرا ہیں؟ ٹی وی تیز آواز میں چلاکر اور ریڈیوو ڈیگ فل ساؤنڈ میں بجاکردودوتین تین بجے رات تک پڑوسیوںکوپریشان کرنا ہماری Hobby ہوچکی ہے۔ سرکار ِدوعالم ﷺ کا قول ہے:
مِن حسن اسلام المرأ ترکہ مالایعنیہ.﴿ترمذی، حدیث نمبر: ۲۳۱۷﴾
’’آدمی کے اسلام کی اچھائی میں سے یہ ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو ترک کردے‘‘
ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں، چھوٹی چھوٹی باتوںکے لیے جھوٹ بولنا ہمارا شیوہ ہوچکاہے، لاف وگزاف، ہرزہ سرائی اور بے ہودہ گوئی میں کتناوقت بربادکرتے ہیں؟ چانڈو خانوں، گلیوں کے نکڑوں اور پارکوں میں جاکردیکھیے، خوش گپیوںمیں کتنے لوگ نظر آئیں گے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس، الصحۃ والفراغ. ﴿بخاری، کتاب الرقاق، حدیث نمبر: ۶۴۱۲﴾
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کے بارے میں لوگ کثرت سے دھوکے میں ہیں، ایک تندرستی، دوسری فارغ البالی۔‘‘
معاشرے کاجائزہ لیجیے! کتنے لوگ ان دو نعمتوں کے قدر داں ملیں گے؟ہمارے نوجوان ٹیلی ویژن اورانٹر نٹ پر بیٹھ کررات کو دودو تین تین بجادیتے ہیں،پھرآنکھ اس وقت کھلتی ہے، جب شاہ خاور ایک تہائی حصہ طے کرچکتاہے،حالاںکہ صبح کی ہوا خوری صحت کے لیے بہت ہی زیادہ مفید ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مخرب اخلاق لٹریچر پڑھ کر اور عریاںوفحش تصاویر دیکھ کر اپنی اچھی خاصی توانائی اورقوت کوضائع کردیتے ہیں، ایسی ہی قدردانی فارغ البالی کے ساتھ ہے، ہر شخص کے دماغ میں یہی رچ بس گیا ہے کہ ارے ! ابھی عمر ہی کیا ہوئی ہے؟ ابھی توکھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے دن ہیں،در اصل یہ ایک شیطانی سوچ ہے اورشیطان تو انسان کاکھلاہوادشمن ہے۔پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے:
المومن القوی خیروأحب الی اللّٰہ من المومن الضعیف. ﴿مسلم، حدیث نمبر: ۴۸۱۴﴾
’’طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر اوراللہ کے نزدیک محبوب ہے۔‘‘
پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
آیۃ المنافق ثلاث، اذا حدث کذب ، واذا وعد أخلف، واذاائتمن خان. ﴿مسلم، باب خصال المنافق، حدیث نمبر:۲۱۱﴾
’’منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے توجھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تووعدہ خلافی کرے، جب امانت کے طور پر کوئی چیز اس کے پاس رکھی جائے توخیانت کرے۔‘‘
محبت ِ رسول کے کتنے دم بھرنے والے ایسے ملیں گے، جوبات بے بات جھوٹ بولتے ہیں۔اب توجھوٹ بولنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ پوری دنیاجھوٹ بولنے پر اتفاق کرچکی ہے اور خاص ا س کے لیے ایک دن ’’اپریل فول ‘‘ کے نام سے متعین کردیاگیاہے۔ہم بھی جوش وخروش کے ساتھ جھوٹ بولنے کی اس دعوت میں شریک ہوتے ہیں۔ اپنے معاشرے کا جائزہ لیں! کتنے ایسے ملیںگے، جووعدہ کرنے کے بعد نباہتے بھی ہیں؟ ہم نے ‘وعدے’ کو ٹرخانے اورٹال مٹول کاایک ذریعہ بنالیاہے۔ حالانکہ قرآن ہمیں حکم دیتاہے:
یاأیہاالذینَ اٰمنوا أوفوابالعقود.﴿مائدہ: ۱﴾
’’ائے ایمان والو! وعدوں کوپوراکرو‘‘
اسی طرح امانت میں خیانت کرنا بھی ہمارے معمولات میں شامل ہوچکاہے، خاص طور سرکاری ملازمین بری طرح سے اس میںملوث ہیں۔حضور اکرم ﷺ کاارشادگرامی ہے:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ.﴿مسلم، حدیث نمبر: ۱۶۲﴾
’’﴿حقیقی﴾ مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘
ہمارے سبّ وشتم اوردُشنام طرازیوں سے کتنے مسلمان محفوظ ہیں؟ ہمارے کتنے بھائی ایسے ہیں، جن کے دل ہماری زبان کی قینچی سے کترنہیں گئے؟ معمولی معمولی بات پر میدان ِ کارزار وجود میںآجاتاہے، بھائی بھائی، چچابھتیجے؛ حتی کہ باپ بیٹے کے درمیان بھی ہاتھاپائی کی نوبت آجاتی ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے:
سباب المؤمن فسوق، وقتالہ کفر.﴿مسلم، حدیث نمبر: ۲۲۱﴾
’’ مومن کوگالی دینافسق اور اس سے لڑائی جھگڑا کرنا کفرہے‘‘
اب خود فیصلہ کیجیے! ہمیں کونسا راستہ اختیار کرناہے، فسق اور کفر کاراستہ یا ایک مومن کا راستہ؟! نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
من تشبہ بقوم فہو منہم.﴿ابوداؤد، حدیث نمبر: ۴۰۳۱﴾
’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے ، وہ اسی میںسے ہے‘‘
قوم کا مستقبل کہلانے والے نوجوان کو دیکھیے! کلائیوںمیں لال دھاگے باندھے ہوئے نظرآتے ہیں، یہ کس کا شعار ہے؟ یہ ہے آج کل ہماری حالت! اب ذرادل کے روزن کوواکیجیے اور اعتدال وتوازن کے ساتھ غور کرکے بتایئے، کیا ہمار امحبت ِرسول کادعویٰ کھوکھلا نہیں ہے؟
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010