آج کی مادی دنیا میں لوگ اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ انھیں سوائے دولت اکٹھی کرنے، اسی کے لیے بھاگ دوڑ کرنے اورزندگی کی ساری راحتیں اس خیالی راحت کوحاصل کرنے میں تج دینے کے سوا کسی اوربات کے سوچنے کی فرصت ہی نہیں رہی۔ درحقیقت ہماری زندگی حقیقی لذت، سرور اور لطافت کا احساس کھوچکی ہے اور افسوس اس پر ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں۔ حرکت وسکون کا مزاج رکھنے والی اس دنیا میں انسان کی سب سے قیمتی چیز اس کا وقت ہے۔ وقت ایک متحرک شئے ہے، محنت وحرکات کا فطری اور کائناتی تعلق ہے، اسی محنت پر دنیاوی ترقیاں ملتی ہیں اور محنت ہی (جب کہ وہ ایمان لاکر توحید وعبادات اور صالح اعمال کے لیے ہو) آخرت میں کام یاب کرتی ہے۔ اس محنت میں اللہ تعالی برکت ڈالتے ہیں بشرطے کہ وقت کسی طرح ضائع نہ ہو۔
وقت افراد اور قوموں کا سرمایہ ہے۔ اس سرمایہ کے ٹھیک استعمال سے ہی قومیں ترقی کی راہ طے کرسکتی ہیں۔ اس پونجی کا صحیح استعمال معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ کسی قوم کے زوال کی پہلی علامت یہ ہے کہ اس کے افراد ضیاع وقت کی آفت کا شکار ہوجائیں۔ آج مغرب کی مادی ترقی جن شاہراہوں پرگامزن ہے اور سائنس اور ٹیکنولوجی میں اس قوم نے ترقی کے جن میناروں کو چھواہے اس کی بنیادی وجہ محض وقت کی قدر ہے۔ صرف وہی قوم اور معاشرہ ترقی کرسکتا ہے جو محنت کا عادی ہو اور وقت کی قدر کرتا ہو۔
وقت کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی تیز رفتاری ہے۔ وقت کسی سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑتا رہتا ہے، نہ کبھی رکتا ہے اور نہ زندگی کبھی پیچھے لوٹتی ہے۔ ایک محاورہ بہت مشہور ہے اور وہ بر حق ہے: “ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔”
امام حسن البناؒ کے بقول: وقت ہی زندگی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان کی زندگی اس وقت سے عبارت ہے جسے وہ پیدائش کی پہلی گھڑی سے لے کر آخری سانس تک گزارتا ہے۔
قرآن و سنت کی رہ نمائی
قرآن ایسے دوموقعوں پر انسان کی حسرت اور ندامت کا ذکر کرتا ہے جب وہ اپنے وقت کے ضیاع پرپچھتائے گا اور اس کا پچھتانا اس کے کوئی کام نہ آئے گا۔ پہلا موقع: موت کے وقت جب انسان دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف روانہ ہوتاہے۔ اس وقت وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش اسے تھوڑی سی مہلت دے دی جاتی اور تھوڑی مدت کے لیے موت ٹال دی جاتی تو وہ اپنی بگڑی بنالیتا اورتلافی مافات کرلیتا۔ دوسرا موقع: جب آخرت میں سب کا پورا پورا حساب چکادیا جائے گا ہر آدمی کو اپنی کمائی کا بھرپور بدلہ مل جائے گا۔ جنت والے جنت میں داخل ہوں گے اور جہنم والے جہنم میں داخل ہوں گے اس وقت اہل جہنم تمنا کریں گے کہ کاش ایک بار پھر دنیا میں بھیجے جائیں تاکہ نئے سرے سے نیک عمل کا آغاز کریں۔ مگر افسوس کہ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی۔
دین اسلام نے انسان کو یہ بتایا ہے کہ اس کا ہرہر چیز پر حساب ہوگا اور اسے اپنے ہر ہر قول و فعل کا حساب دینا ہوگا۔ کراماً کاتبین اس کے قول و فعل کو جو لکھتے رہتے ہیں اسے اعمال نامے کی شکل میں قیامت کے دن انسان کو تھمادیں گے اور اس کے اعمال کے حساب سے اسے جنت یا جہنم میں بھیج دیا جائے گا۔ ایسانہ ہو کہ آج غفلت میں پڑے رہ جائیں اور قیامت میں رسوا وذلیل ہونا پڑے۔ اس لحاظ سے انسان کی زندگی کا ہر ایک لمحہ اس کے لیے نہایت قیمتی اور بیش بہا ہے۔ اسے کسی حال میں ضائع نہ کیا جائے۔ اگر وقت ضائع ہوگیا تو انسان کو اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور اعمال کو درست کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
رب ذوالجلال والاکرام نے قرآن کریم میں متعدد جگہ انسان کو وقت کی قدر و قیمت کی طرف متوجہ کیا ہے اور عصر کے وقت کی قسم بھی کھائی ہے۔ وقت کا کوئی لمحہ اور لمحہ کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں ہے جو کام میں نہ آنے والاہو۔ کسی بھی لمحے میں کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام کیا جاسکتاہے خواہ وہ خیر کا کام ہو یا شر کا۔ فرمایا گیا ہے:
وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ -إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ –
زمانے کی قسم کہ انسان گھاٹے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔(العصر:۱-۴)
امام رازیؒ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے سورہ العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا ہے جو بازار میں آواز لگارہاتھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلاجارہاہے۔رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہاہے۔میں نے کہا کہ یہ سورہ العصر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عمر کی مدت جو انسان کو دی گئی ہے و ہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزررہی ہے۔اس کو اگر ضائع کردیاگیایاغلط کاموں میں صرف کرڈالاجائے تو بھی انسان کا خسارہ ہے۔
وقت اللہ کی ایک ایسی عام نعمت ہے جو امیر و غریب، عالم و جاہل اور چھوٹے بڑے سب کو یکساں ملتی ہے۔ جو قومیں وقت کی قدر کرناجانتی ہیں وہ صحراؤں کو گلشن میں تبدیل کرسکتی ہیں۔ وہ فضاؤں پر قبضہ کرسکتی ہیں، وہ عناصر کو مسخر کرسکتی ہیں، وہ پہاڑوں کے جگر پاش پاش کرسکتی ہیں، وہ ستاروں پر کمندیں ڈال سکتی ہیں، وہ زمانہ کی زمام قیادت سنبھال سکتی ہیں۔ لیکن جو قومیں وقت کو ضائع کرتی ہیں وقت انھیں ضائع کردیتاہے۔ ایسی قومیں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبورہوجاتی ہیں۔ وہ دین اور دنیا دونوں اعتبار سے خسارے میں رہ جاتی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے نبی کریمؐ کا ارشاد مروی ہے: دونعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ دھوکہ میں پڑجاتے ہیں ایک صحت اور دوسری فرصت۔ (بخاری کتاب الرقاق، ترمذی کتاب الزہد)۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کے لیے ایک وقت مقرر کررکھا ہے۔ پیدائش سے پہلے ہی جہاں اس کی تقدیر لکھ دی وہیں پر اس کو کتنے وقت کے لیے اس دنیا میں رہناہے اس کو بھی لکھ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہم اپنی زندگی کی بات کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی کہ زندگی وقت سے عبارت ہے۔ اگر وقت نہیں تو زندگی بھی نہیں۔ صحت بھی ڈھلتی چھاؤں کی طرح وقت کے تدریجی عمل کے تحت ہاتھوں سے نکلتی جاتی ہے اور جب ہاتھوں سے نکلتی ہے تو داغ مفارقت دے جاتی ہے۔ نعمت کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے وقت کی اہمیت اوراس کی قدروقیمت پر کس قدر زور دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے: قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے نہیں ہل سکے گا جب تک کہ وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے لے: عمر کہاں گزاری، جوانی کس کام میں کھپائی، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اوراپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔(سنن ترمذ ی)
صحیح بخاری میں حضر ت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے، بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے میرا کندھا پکڑا اور ارشاد فرمایا: تم دنیا میں مسافر کی طرح ہوجاؤ یا راہ گیر کی طرح۔شام ہوجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو۔اپنی صحت کو مرض سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو۔
حضرت عمر فاروقؓ یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! ہم آپ سے زندگی کی گھڑیوں کی بہتری اورعزیزعمر کے اوقات میں برکت کا سوال کرتے ہیں۔ وقت کے ضیاع پر آپؓ کا افسوس ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں: جب میں کسی کو بالکل فارغ دیکھتا ہوں کہ جو نہ دنیا کے کسی کام میں مشغول ہو اور نہ آخرت کے کسی کام میں تو اس سے میری طبیعت پر بڑی گرانی ہوتی ہے۔
حضرت علیؓ وقت کی ایک انوکھی قدر کی وضاحت کرتے ہیں: حیات مستعار کے یہ ایام تمھاری عمروں کے صحیفے ہیں۔ انھیں نیک اعمال کا دوام بخشو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: میں اس دن سے زیادہ کسی چیز پر نادم نہیں ہوتاجو میری عمر میں سے کم ہوجائے اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہو۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ سے کسی نے کسی کام کی نسبت کہا کہ یہ کام کل کردیں۔ آپ نے فرمایا: میں ایک دن کا کام بمشکل کرتاہوں۔ آج کا کام کل پر چھوڑدوں گا تو دو دن کا کام ایک دن میں کیسے کروں گا۔
برکت زیادتی، بڑھوتری اور خوش نصیبی کو کہتے ہیں۔ جب تھوڑے وقت اور کم اسباب میں انسان کے زیادہ کام نکل آئیں اور زیادہ منافع حاصل ہوں تو اس کو وقت میں یا اسباب میں برکت کہتے ہیں۔
وقت کے ضیاع پر حضرت فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں کہ جب میں کسی کو بالکل فارغ دیکھوں کہ جو نہ دنیا کے کسی کام میں مشغول ہے اورنہ آخرت کے کسی کام میں تو اس سے میری طبیعت پر بڑی گرانی ہوتی ہے۔
زندگی کی قدروقیمت شب و روز کے ضائع ہونے والے اوقات کے احتساب پر دل میں ندامت و حسرت کی ایک کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یہی کیفیت ایک نشان منزل بنتی ہے اور انسان کو آئندہ وقت کے ضیاع سے بچاتی ہے۔ وقت کے سلسلے میں احتساب سے مقصود یہی ندامت کا احساس پیدا کرنا ہے جو اس کے دل میں آئندہ کے اوقات کی حفاظت اور ان کے صحیح استعمال کا عزم جواں پیدا کرے۔
ایک اور دھوکہ ہے جو انسان کو وقت ضائع کرنے پرندامت اور افسوس سے دور رکھتا ہے وہ ہے لفظ کل۔ انسان کی زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو کل کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں، اتنی غفلتوں، اتنی بے پروایوں، اور اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کے لیے جواب دہ ہو۔ آنے والا کل فرداً کبھی نہیں آتا۔ پچھلے کل کو تو ہم نہیں لاسکتے اور قیامت والا کل بہت دور ہے۔ اسی لیے بہتر یہی ہے کہ انسان کوئی بھی کام کل کے لیے نہ چھوڑے بلکہ اسی دن یا اسی وقت اس کو انجام دے دے۔ وقت کا ضائع کرنا ایک طرح کی خود کشی ہی ہے۔
قرآن کریم خیر اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنے کا حکم دیتا ہے قبل اس کے کہ دوسری مشغولیات اور دشواریاں ان کاموں سے غافل کردیں۔ اس کی تائید سورہ البقرۃ کی اس آیت میں ملتی ہے:
وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَیٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے۔وہ اسی کی طرف رخ کرنے والا ہے تو تم نیکیوں کی راہ میں سبقت کرو۔ جہاں کہیں بھی تم ہوگے، اللہ تم سب کو جمع کرے گا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ۱۴۸)
اللہ جنت کی نعمتوں کی طرف رغبت دلاتے ہوئے سورہ آل عمران میں فرماتا ہے:
وَسَارِعُوا إِلَیٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
اوراپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کے لیے مسابقت کرو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے عرض کی طرح ہے۔یہ پرہیزگاروں کے لیے تیار ہے۔ (آل عمران: ۱۳۳)
مومن کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اورمختلف کاموں کے درمیان اپنے اوقات کو منظم اور منضبط کرے۔ وہ کام چاہے دینی ہوں یا دنیوی۔ اورجوکام جس اہمیت اور ترتیب کا حامل ہو اس کو اسی اہمیت اورترتیب سے انجام دینا چاہیے۔ بعض کاموں کا وقت معین ہوتا ہے اور بعض کا نہیں۔ اس لیے انھیں کسی وقت بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔ جو کام عجلت کا طالب ہوتا ہے اسے فوراً انجام دینا چاہیے۔ وقت کی اس تنظیم اور ترتیب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف کاموں کے درمیان تصادم کا اندیشہ ختم ہوجاتا ہے۔
جب آدمی اپنے اوقات کی تنظیم کررہا ہو تواس کے لیے ضروری ہے کہ ایک حصہ اپنے آرام و راحت کے لیے بھی فارغ کرے۔ اس لیے کہ نفس دیر تک محنت کرنے سے اکتا جاتا ہے۔ اس لیے وقت کا کچھ حصہ جائز کھیل اور تفریح کے لیے بھی نکالنا ضروری ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے دل کو آرام پہنچاتے رہو۔ اس لیے کہ جب دل پر جبر کیا جاتا ہے تووہ اندھا ہوجاتا ہے۔
مومن کو چاہیے کہ وقت کے مطالبات کو پہچانے کہ اس کی زبان و قلب اوراعضاء و جوارح کس عمل کے طالب ہیں؟ اس کی جستجو میں رہے اور اس کو بروقت انجام دینے کی کوشش کرے تاکہ مناسب طریقے سے اپنے مقصود کو حاصل کرسکے اور اللہ تعالی کے نزدیک قبولیت کا درجہ بھی پاسکے۔ اسی لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ کواپنا جانشین مقرر کرتے ہوئے یہ وصیت فرمائی کہ جان لو! اللہ کے لیے کچھ کام دن میں کرنے کے ہیں جن کو وہ رات میں قبول نہیں فرماتا۔ اور کچھ کام رات میں کرنے کے ہیں جن کو وہ دن میں قبول نہیں فرماتا۔ اس نصیحت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان جب چاہے جو عمل کرے۔ بلکہ اہم بات یہ ہے کہ مناسب کام مناسب وقت پر انجام دے۔
اگرکسی کے دل میں خواہش ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو تو وہ اسلامی نظام کے مطابق چلے۔ اس نظام الاوقات کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی سویرے بیدار ہو اور رات کو جلدی سوجائے۔ اس طرح مسلمان صبح تڑکے اپنے دن کا استقبال کرتا ہے اوراپنے دن کا آغاز اللہ کی بندگی اور نیک کاموں سے کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جس میں نبیؐ نے اپنی امت کے لیے برکت کی دعا کی:
اَللھْمّ بَارِکْ لِاْمَّتِی فِی بْکْورِھَا
اے اللہ!میری امت کے لیے صبح صادق میں برکت دے(ابن ماجہ ۲۲۳۶، سنن ابی داؤد ۲۶۰۶، سنن ترمذی ۱۲۱۲)
آج کا انسان بہت سی آفتوں کا شکار ہے ان کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ رات کو دیر تک جاگتا ہے اور صبح اتنی دیر تک سوتا ہے کہ فجر کی نماز چھوٹ جاتی ہے۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا : اعمال صالحہ میں جلدی کروکیوں کہ عنقریب ایسے فتنے سراٹھانے والے ہیںجو تاریک رات کے ٹکڑوں کے مانند ہوں گے۔اوران فتنوں کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اورشام کو کافر بن جائے گا۔ اورشام کو مومن ہوگا تو صبح کافر کی حالت میں بدل چکا ہوگا اور اپنے دین کو دنیا کی متاع حقیر کے عوض بیچ ڈالے گا۔ (صحیح مسلم)
وقت کے جائز اور صحیح استعمال کے ضمن میں ہر مسلمان کو چاہیے کہ ہر روز رات کو سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کرلے کہ دن بھر میں اس نے کیا کام کیا اور کیا کام چھوڑا اور کیوں چھوڑا؟ اس سے اس کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس نے جان بوجھ کر یا انجانے میں کتنی کوتاہیاں کی ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں: لوگو! اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمھارا حساب لیا جائے، اور اپنے اعمال کو تولو قبل اس کے کہ وہ اللہ کی میزان میں وزن کیے جائیں۔ اس شخص کا حساب قیامت کے دن ہلکا ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب خود کرلے (سنن الترمذی حدیث ۲۴۵۹)
ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو۔اور ہرشخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔(الحشر: ۱۸)
اس آیت میں میں کل کا اشارہ قیامت کی طرف ہے۔ یہاں یہی نصیحت کی گئی ہے کہ میدان حشر میں پہنچنے سے پہلے اپنااحتساب کرلیا کریں تاکہ وہاں پہنچنے کے بعد پچھتانا نہ پڑے۔
وقت کو برباد کرنے والی آفتیں
بہت سی ایسی آفات ہیں جو انسان کے وقت کو برباد کردیتی ہیں۔ وہ آفات یہ ہیں:
غفلت: یہ ایسا مرض ہے جو انسان کے دل و دماغ کو اس طرح لگ جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات اور شب وروز کی آمد ورفت کے سلسلے میں بیدار حسی کو کھو بیٹھتا ہے اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ انسان کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اس نے کتنا قیمتی وقت ضائع کیا ہے۔
ٹال مٹول کی عادت: ٹال مٹول کی عادت انسان کے اوقات کو برباد کردینے والی انتہائی خطرناک آفت ہے اور یہ عادت انسان کو اپنے قیمتی اوقات سے فائدہ اٹھانے نہیں دیتی۔ اسی لیے یہ محاورہ کہا گیا ہے کہ آج کا کام کل پر نہ ڈال۔
زمانے کو برا کہنا : زمانے پر لعن طعن کرنا اور ہمیشہ اس کے ظلم وستم اور گردش ایام کا شکو ہ کرنا عمل کی راہ کی ان آفات اور رکاوٹوں میں سے ہے جن سے چوکنا رہنا ضروری ہے۔ بعض لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ زمانے کو ایسا مخالف تصورکرتے ہیں جو ان پر ظلم ڈھاتا رہتا ہے یا ایسا دشمن جو ہمیشہ ان کے چکر میں پڑا رہتا ہے۔
وقت گزاری: آج کل مجلسوں اور کلبوں میں ہر ایک کی زبان سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم وقت کاٹ رہے ہیں۔ اس فراغت کی سنگینی اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے جب اس کے ساتھ جوانی بھی شامل ہوجائے۔
جدید آلات میں انہماک: جدید آلات و وسائل میں کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون، سوشل میڈیا اورٹیلی ویژن بہت اہم اور نہایت ہی مفید چیزیں ہیں۔ ان کے صحیح استعمال سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان کا غیر ضروری استعمال بہت سا قیمتی وقت ضائع کرتا ہے اور ان کے ناجائز استعمال سے گناہوں میں بھی اضافہ اوراخلاق کا بگاڑ بھی ہوتاہے۔ اس لیے بچوں پرخصوصاً کڑی سے کڑی نظر رکھیں تاکہ ان کے غلط استعمال پر آگے چل کر بچے کسی آفت کا شکارنہ ہوجائیں۔
دو قیمتی باتیں
یاد آتا ہے راقم السطور سعودی آرامکو کی ملازمت کے دوران دو دن کے ایک کورس میں شریک ہوا تھا جس کا موضوع تھا وقت کا صحیح استعمال۔ اس میں ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ اگر کئی کام ایک ساتھ آگئے ہوں تو انھیں کیسے سلجھایا جائے کیوں کہ بسا اوقات بہت سارے کام ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں اور انسان پریشان ہوجاتا ہے کہ ان کو کیسے انجام دے۔ اس کورس میں بتایا گیا کہ روزانہ کام شروع کرنے سے پہلے اپنے کاموں کی فہرست بنالیں اور ان کے اہمیت کے لحاظ سے ان کی ترتیب بنالیں اور ان کو انجام دیتے جائیں تاکہ سب سے اہم کام اولین وقت میں انجام کو پہنچے۔ اس پر کئی لوگوں نے عمل کیا اور وہ اپنے مقصد میں کام یاب رہے۔ کم مدت میں کئی کام انجام پہنچانے لگے۔
دوسری بات یہ بتائی گئی کہ جب بس یا ٹرین یا ہوائی جہاز سے سفر کررہے ہوں تو وقت کا جائز استعمال کرنے کے کیا طریقے ہیں؟ یا مثال کے طور پر کسی اسپتال میں ڈاکٹر سے ملاقات کے لیے انتظار کرتے ہوئے وقت کو کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ مثال کے طور پر انتظار کے دوران کوئی کتاب چاہے وہ قرآن مجید یا اس کی تفسیر یا کوئی حدیث کی کتاب، یا کوئی دینی رسالہ لے لیں اور اس کا مطالعہ کریں۔ یا کسی عالم کا درس یا تقریرسنیں۔ اس طر ح وقت بھی آسانی سے گزر جائے گا اوراپنی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا اور ہماری شخصیت بھی سنورتی رہے گی۔ بعض ہمارے بھائی قرآن کو حفظ کرنے یا معنی کے ساتھ یاد کرنے کی غرض سے کسی تفسیر کے ایک صفحہ کی زیراکس بنالیتے ہیں جسے و ہ یاد کرنا چاہتے ہیں۔ اس صفحہ کو وہ اپنی کار کے ڈیش بورڈ پر چپکا دیتے ہیں۔ جب کبھی کار کسی سگنل پرزیادہ دیر کھڑی ہوتی ہے تو سگنل کے آن ہونے تک اس صفحہ کو پڑھتے رہتے ہیں اور یاد کرتے رہتے ہیں۔ جب وہ صفحہ یاد ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرے صفحہ کی کاپی لگادیتے ہیں۔ اس طرح یہ تدبیر بہت کارآمد ثابت ہوئی۔
چند مفید نسخے
میرے مطالعے میں ایک کتاب آئی (How to Get Control of Your Time and Your Life) اس کا مصنف ایلن لیکین (Alan Lakein)ہے ۔ وقت کی بہتر تنظیم کے تعلق سے اس کتاب سے کچھ قیمتی نسخے پیش ہیں:
وقت زندگی ہے۔ وہ واپس نہیں آسکتی ہے نہ اس کا کوئی بدل ہے۔ وقت کا اسراف کرنا زندگی کو برباد کرنا ہے۔
ہر آدمی کو ہر ایک دن کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ آج کیا کام کرنا ہے؟ کس سے ملنا ہے؟ کیا خریداری کرنی ہے؟ دفتر میں کون کون سے کام کرنے ہیں؟ بچوں کے لیے کون سی کتابیں یا کپڑے یا کھلونے خریدنے ہیں؟ کسی عزیز کے لیے کیا تحفہ خریدنا ہے۔ اپنی زندگی کا کنٹرول وقت کی منصوبہ بندی سے ہی ہوسکتا ہے۔ منصوبہ بندی مستقبل کو حال میں لے آتی ہے اور سارے کام وقت کے صحیح استعمال کے ساتھ انجام پاتے ہیں۔
منصوبہ بندی میں ترجیحات (priorities) کا جاننا ضروری ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک وقت میں بہت سارے کام سامنے آجاتے ہیں تو انسان بہت ہی الجھن میں پڑجاتا ہے کہ کون سا کام پہلے شروع کرے؟ اس کے لیے ترجیحات کا استعمال نہایت ہی مفید ہوتاہے۔ سب سے پہلے کاموں کی فہرست بنا لیجیے اور ان کے مقابلے میں ان کی ترجیح نقل کیجیے۔ عموماً تین قسم کی ترجیحات ہوتی ہیں۔ پہلی قسم سب سے شدید ترین ضرورت کی ہوتی ہے جس کودو یا تین گھنٹوں یا اس سے بھی کم وقت میں ختم کرنا پڑتا ہے۔ ان کاموں کو سب سے پہلے شروع کریں۔ دوسری قسم اس سے کم ترجیح کی ہوتی ہے۔ یعنی دن کے ختم ہونے تک یا دوسرے دن کے اولین وقت میں انجام دینا ہوگا۔ تیسری قسم معمولی ترجیح کی ہوتی ہے جس کو فرصت کے وقت تک ٹالا جاسکتا ہے۔ اس طرح بہت زیادہ کام ہونے سے ان کی ترجیحات پر غور کریں اور ان کی اہمیت کے حساب سے اولین ترجیحات کو پہلے، پھر دوسری قسم کی ترجیحات کو بعد میں اور معمولی ترجیحات کوآخر میں انجام دیں۔ اس سے وقت بھی صحیح استعمال ہوگا اور کام بھی آسانی سے ہوگا اور الجھن دور ہوجائے گی۔ اسی طرح زندگی کے دوسرے معاملات بھی طے کرتے رہیں۔
اکثر لوگ زندگی گزارنے کے لیے وقت کی کمی اور کام کے شدید بوجھ کی بنا پر اپنے اہل وعیال کے حقوق کو داؤ پرلگا دیتے ہیں۔ اور پھر پچھتاتے رہتے ہیں۔ اپنے کام کاج کے ساتھ اپنے اہل وعیال کے حقوق بھی ادا کرنا ضروری ہے۔
کام اور کھیل یا تفریح میں توازن قائم کرناچاہیے۔ انسان کو کچھ نہ کچھ تو راحت کا وقت چاہیے تاکہ اس کے ذہن پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ جب بھی کافی یا چائے پینے کا وقفہ ہوتا ہے تھوڑا سا آرام کرلیں یا نہیں تو ڈکشنری اٹھاکر اس میں سے کچھ نئے الفاظ سیکھنا شروع کردیں۔ اس طرح ذہن کام سے تھوڑی دیر کے لیے ہٹے گا، اس میں دل چسپی پیدا ہوگی اور دماغ کو بھی راحت ملے گی۔
جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا ہے اور انسان پیٹ بھر کر کھاتا ہے تو سستی پیدا ہوتی ہے اورغنودگی ابھر آتی ہے۔ اس لیے دوپہر کا کھانا آدھا پیٹ کھائیں تاکہ بدن کی چستی باقی رہے۔ ہلکی غذا کھانے پر اکتفا کرنے سے سستی دور ہوجاتی ہے اور دن کے سارے کام آسانی سے مکمل ہوسکتے ہیں۔
انسان کو راحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دن بھر کے کام نپٹانے کے بعد جسم و دماغ کی تھکان کے لیے اس کا سونا نہایت ہی ضروری ہے۔ انسان اپنا یہ معمول بنائے کہ رات کو جلدی سوئے اور صبح سویرے اٹھے جس سے اس کی نیند بھی پوری ہوگی اور جسمانی اور دماغی تھکان بھی دور ہوگی۔ کام کے دوران کچھ لمحات کے لیے بیٹھے ہیں تواٹھ کھڑے ہوجائیں، کھڑے ہوئے ہیں تو بیٹھ جائیں۔ اگر کمپوٹر پر مسلسل کام کررہے ہیں تو کمپیوٹر سے اپنی نظریں کچھ دیر آس پاس دوڑائیں تاکہ آپ کے اعضا کا تناؤ نہ بڑھنے پائے۔
کچھ لوگوں کو نہ کہنے کی عادت نہیں ہوتی۔ وہ بہت نرم دل ہوتے ہیں۔ جو بھی کوئی کام لے آتا ہے تو اسے کرنے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں مگر وقت کی قلت انھیں مجبور کردیتی ہے۔ ایسے اوقات میں وہ اپنے کاموں کی فہرست پر نظر ڈالیں۔ اگر گنجائش ہے تو ہاں کہ دے ورنہ صاف انکار کردے۔ اگر کام لے لیا مگر کام نہ کرپائے یا حد سے زیادہ تاخیر ہوجائے تو پریشانی ہوگی اور آپس کے رشتے میں کشیدگی ہوجائے گی۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں وقت کے صحیح استعمال کی توفیق عطا فرمائے اور غفلت و کاہلی اور سستی سے ہمیں محفوظ فرمائے۔ آمین۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2024