اختلافات کے بندوبست اور تصفیے (differences management) کےکچھ خاص ضابطے ہیں۔ یہ ایک باقاعدہ خاص علم ہے۔ اسے بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ اس پر وسیع لٹریچر ہے۔ قدیم و جدید ہر دور کے اہل نظر نے اس پر کافی کچھ لکھا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس موضوع کے اہم مباحث درج ذیل ہیں:
۱۔ قرآن و سنت کی بالادستی ہو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیهِ مِن شَیءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّه[الشوری آیت 10]
(اور جس چیز میں تمھارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے)
دوسری جگہ فرمایا فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ [سورة النساء آیت 59]
(اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمھیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے)۔
قرآن بہترین رہ نمائی کا سرچشمہ ہے، فرمایا:
إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ یهْدِی لِلَّتِی هِی أَقْوَمُ [سورة الإسراء آیت 9]
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے
اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے، فرمایا:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ یرْجُو اللَّهَ وَالْیوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِیراً [سورة الأحزاب آیت 21]
یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے
۲۔ بحث و مباحثہ سلیقے سے ہونا چاہیے
بحث و مباحثہ ایسے افراد کے درمیان ہوتا ہے جن کی رائیں ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ اللہ تعالیٰ بحث و مباحثہ اچھے اور مناسب انداز میں کرنے کی ہدایت کرتا ہے، چاہے یہ بحث یہود و نصاری سے کیوں نہ ہو۔ فرمان الہی ہے [وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ[سورة العنكبوت آیت 46]
(اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے، سوائے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں)
مخالف فرد اپنے عقیدے کے اعتبار سے چاہے یہودی ہو، چاہے عیسائی ہو، چاہے بدعتی ہو، چاہے جو ہو،اس سے بحث کرنے والے شخص پر لازم ہے کہ وہ مناسب انداز میں گفتگو کرے، اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں خود اپنے اور ابلیس کے درمیان ہونے والے مباحثے کا ذکر فرمایا ہے:
قَالَ یا إِبْلِیسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیدَی ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِینَ ﴿٧٥﴾ قَالَ أَنَا خَیرٌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِینٍ [سورة ص: آیت 75..76 ]
رب نے فرمایا “اے ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو تکبر کر رہا ہے یا سرکشی کرنے والوں میں ہے؟‘‘
اُس نے جواب دیا “میں اُس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے‘‘)
بحث و مباحثے کے کچھ آداب ہوتے ہیں جنھیں سیکھنا اور جن کا خیال رکھنا لازمی ہے۔
یہ مباحثے مختلف سطح کے ہوسکتے ہیں مثلاً
- جماعتوں اور پارٹیوں کے درمیان
- ملکوں کے درمیان
- عوام کے درمیان
ہر سطح پر صحت مند مباحثے کا اولین اصول یہ ہے کہ لوگوں کو کھلی فضا میں آزادی کے ساتھ بحث کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اورمباحثہ کھلے ماحول میں آزادی کے ساتھ ہو۔ اس طرح منحرف افکار دم توڑدیتے ہیں اورآخر کاراسی بات کی صحت پر اتفاق ہوتا ہے جو واقعتاً صحیح ہو۔
صحت مند مباحثے کے ذریعے غیر مہذب اور جھگڑالو قسم کے افراد کو بھی پر سکون اورامن پسند معاشرے کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [سورة آل عمران 159 ]
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔
بیشک پرسکون علمی مناظرہ حقیقت کی دریافت اور مخالفین کےآپسی تقرب کا بہترین ذریعہ ہے۔ جہاں تک مختلف ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحثوں کا تعلق ہے، چاہے وہ سیاسی مسائل، نظریاتی اورفکری مباحث، یا دیگرسوالات سے متعلق ہوں، ان میں سے بعض میں تو سکون، نرمی، شائستگی، حق پسندی اور اعتدال جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ جن سے ہم دوسرے کی بات سننا اور صحیح ثابت ہونے پر اسے قبول کرنا سیکھتے ہیں۔
لیکن افسوس اب بیشتر مباحثوں کا ہدف دوسروں کو سمجھنا اور حق کی جستجو کرنا نہیں ہوتا ہے۔ ہم ان میں درج خرابیاں دیکھتے ہیں:
ان کی پشت پر اصل محرک اپنے پیروؤں(followers)کا ہجوم بڑھانے کی خواہش ہوتی ہے۔
ان مباحثوں میں غلط دلائل، بے نتیجہ گفتگو اور متعین اہداف کا فقدان ہوتا ہے۔
لوگوں کا وقت ضائع کرنا اور دوسروں کی مثبت چیزوںمیں سے بہت سی اہم چیزوں کو نکارنا، ان مباحثوں کی بڑی خامی ہے۔
ان مباحثوں سے باہمی مفاہمت کی طرف بڑھنے کے بجائے لوگوں کی ضد، ہٹ دھرمی اور آپسی نفرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان مباحثوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مخالفین میں قربت پیدا نہ ہونے پائے بلکہ دوری اور بڑھ جائے۔
یہ مباحثے باطل کو بے نقاب کرنے اور حق کو غالب کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتے ہیں۔
میڈیا کے پلیٹ فارموں پر ہونے والے ان مباحثوں کے بارے میں ایک جملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آگ بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔انھیں اپنے اس رویے کو سدھارنا چاہیے اور اپنے مباحثوں کو بامقصد اور پرسکون انداز میں چلانا چاہیے۔
۳۔ شوری اور مشاورت کی روح کارفرما رہے
باہم مشورہ کرنے کا حکم اللہ نے قرآن کریم میں دیا ہے: فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ [سورة آل عمران159]
(اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو)
فرمان الٰہی ہے: وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَینَهُمْ
(اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں)
نبی اکرم ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے بدر، احد، خندق اور دیگر مواقع پر مشاورت فرمائی۔خاندان، اسکول، ریاست ہر سطح پر شوری کے نظم کو مستحکم بنا نا ضروری ہے۔ دور حاضر میں عوام کے اہم معاملات اور ان کا حال و مستقبل طے کرنے میں، ان کی شرکت اہم اور ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ خاص کر جن معاملات کا تعلق نوجوانوں سے ہو ان میں مشوروں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ آج نوجوانوں کو اپنانے، ان کے قریب رہنے، ان کے دکھ درد اور امیدوں کو محسوس کرنے، ان کے مسائل سننےکی سخت ضرورت ہے۔ ہم ان پر اپنی سوچ اور اپنی رائے مسلط نہ کریں اور نہ ہی انھیں کم تر سمجھیں۔
بلکہ آج کے حالات میں انھیں ان کے مقام سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اور جہاں ان کی بات غور سے سننا فرض ہوگیا ہے وہاں بلا تردد اور بے تکلف ہوکر ان کے سامنے واضح دوٹوک انداز میں حقیقت کو پیش کرنا بھی بڑوں کی ذمہ داری ہے۔
۴۔ جن باتوں پر سب کا اتفاق ہے ان کا دائرہ وسیع کیا جائے
عرب دنیا میں یہ فکر شیخ رشید رضاؒ کی طرف منسوب ہے۔ وہ مجلہ ’المنار‘کے ایڈیٹر تھے، رشید رضاؒ لکھتے ہیں: ہم اُن امور میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے جِن میں ہم ایک دوسرے سے اتفاق کرتے ہیں اور جِن امور میں ہماری رائے ایک دوسرے سے الگ ہے اُن میں ہم ایک دوسرے کے لیے گنجائش رکھیں گے۔
ممکن ہے اس جملے پر بہت سے لوگ اعتراض کریں اور شور مچائیں، لیکن اگر کوئی شخص اعتدال، توازن اور میانہ روی سے غور کرے تو اسے احساس ہوگا کہ یہ اصول بالکل درست ہے۔
ضروری نہیں کہ اس بحث میں ہم اپنے ان دشمنوں کی بات کریں جن سے ہمارا اختلاف بنیادی نوعیت کا ہے۔ قرآن و سنت کی پیروی کرنے والوں کی حد تک تو یہ بات بالکل درست ہے۔
امام ابن تیمیہؒ نے متعددمقامات پر یہ وضاحت فرمائی ہے کہ: کفار کے اسلام کو تسلیم کرلینا گرچہ کسی صاحب بدعت کے ہاتھوں انھوں نے اسلام کا اعلان کیا ہو اس سے بہتر ہے کہ انھیں کفر پر چھوڑ دیا جائے اور اسی طرح عادی گناہ گاروں کی توبہ کو تسلیم کرناگرچہ کسی ضعیف حدیث کی رو سے ہی کیوں نہ ثابت ہو، اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر باقی رہیں، اسی طرح صاحب بدعت کے پیچھے نماز پڑھ لینا نماز چھوڑنے سے زیادہ بہتر ہے۔
آج مسلمانوں کو اس فکر پر عمل کرنے کی کتنی سخت ضرورت ہے !– جب کہ وہ نہایت کم زوری کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ان کا عالمی کردار پچھڑ رہا ہے۔ دشمن ان پر مسلط ہو رہے ہیں۔ ان کے بہت سے ممالک پر الگ الگ شکل میں قبضہ کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں اس فکر پر توجہ کرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
۵۔ اجتہاد کی حوصلہ افزائی اور اس کے لیے موزوں ماحول فراہم کیا جائے
جہاں قانون آزادی کی فضا فراہم کرتاہو وہاں مثبت افکار نشوو نما پاتے ہیں،لیکن گر ماحول اتنا تنگ ہوجائے کہ انسان بولنے سے پہلے ہزار بار سوچے کہ کہیں اسے کسی کیس، کسی الزام، کسی مصیبت یا حکومت کے کسی چھاپے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے تو ایسے گھٹن والے ماحول میں تخلیقی افکار کا دم گھٹ جاتا ہے۔
یاد رہے، ہم تخلیقیت کی بات کر رہے ہیں، نہ کہ بدعت کی۔ دنیا کے وہ معاملات جن میں لوگوں کی آرامختلف ہوں اور نصّ صریح موجود نہ ہو، ایسےمعاملات میں پیش کیے گئے افکار تخلیقیت کے زمرے میں آئیں گے اور نصّ صریح سے ثابت خالص دینی معاملات میں نئی چیز پیش کرنا بدعت کے زمرے میں آئے گی۔ اس لیے تخلیقی ذہن کی ہمت افزائی کی جائے گی ۔
۶۔تعمیری تنقید کی ہمت افزائی اور حالات سے آگہی
وہ ملک کے سیاسی حالات ہو ں، لوگوں کے قدیم رسم ورواج سے متعلق سماجی حالات ہوں یامبلغین کی تجاویز اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کار اور ان کے اسلوب بیان سے متعلق دعوتی و تبلیغی معاملات ہوں، ان سب میں اس اصول کا لحاظ رکھا جائے۔
ان سبھی امور کا غیر جانب دارانہ اور بتدریج جائزہ لیتے رہنا ہوگا۔ کیوں کہ اس وقت ہم جن حالات کا سامنا کر رہے وہ بالکل بھی اطمینان بخش نہیں ہیں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہمارے آج کے حالات بہت بہتر اور مستحکم ہوگئے ہیں، مزید سَروے کی ضرورت نہیں، درحقیقت ہم سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے حالات کو اصلاح کی ضرورت ہے اور اصلاح کا پہلا مرحلہ تعمیری علمی تنقید ہے۔
بہت سے لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آمرانہ تسلط خواہ سیاسی ہو، جو لوگوں کی اظہار رائے کی آزادی ضبط کرکے انھیں بولنے اور اظہار خیال سے روکتا ہو، یا علمی اجارہ داری، جو ایک مکتب فکر کی فقہی آراکو سب پر بزور مسلط کرتا ہواور یہ زعم رکھتا ہو کہ اس طرح سے لوگوں میں اتحاد پیدا ہوجاتا ہے۔ درحقیقت اس طرح کوئی اتحاد نہیں ہوتا ہے، بلکہ جب اس اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، تبھی آمرانہ تسلط سے وجود میں آنے والا یہ اتحاد دھوکا دے دیتا ہے۔
۷۔بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، یہ مؤمنین کا طرہ امتیاز ہے: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِیاءُ بَعْضٍ ۚ یأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔[سورة التوبة 71]
یاد رہے کہ علما، طلبہ، مبلغین، عوام الناس اور اہم شخصیات ہر ایک کے درمیان یہ کام بار بار کیا جانا ضروری ہے۔ مندرجہ ذیل چیزیں اس کے لیے ضروری ہیں:
ان اجتہادی مسائل میں انکار نہ کیا جائے جن میں علما کے درمیان الگ الگ رائے پائی جاتی ہو
اس طرح کے مسائل میں کوئی فرد دوسرے فرد پر نکیر نہ کرے۔ ہر مجتہد کی اپنی رائے ہے، ہر مجتہد کی اجتہاد کے میدان میں حصہ داری ہے، گرچہ ان میں سے صحیح رائے تک پہنچنے والا ایک ہی ہو۔ اسی طرح اجتہادی مسائل اور اختلافی مسائل ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔
بہت سے اختلافی مسائل ایسے ہیں جن میں راجح قول یا دلیل بالکل واضح لگتی ہے
جو دلیل اور قول راجح ہو اسے دوسروں کو سمجھایا اور سکھایا جا سکتا ہے اسی طرح ضرورت متقاضی ہو تو اس کے مدمقابل قول و دلیل کا مناسب انداز میں انکار کیا جاسکتا ہے۔
یک مقلد دوسرے مقلد پر نکیرنہ کرے
اگر کوئی شخص اس طرح مقلد ہو کہ وہ علما یا مسالک میں کسی متعین کی ہی تقلید کرتا ہو تو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے مقلد پر جو کسی اور کی تقلید کرتا ہو نکیر کرے۔
نکیر نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ سلیقے سے سمجھایا بھی نہ جائے
قدرتی طور پر خالص علمی مسائل میں نصیحت کی ضرورت نہیں، جیسا کہ امام شافعیؒ اپنی کتاب “الام”میں فرماتے ہیں کہ: ایسا شخص جو کسی فقہی علمی مسئلہ میں مجھ سے اختلاف کرتا ہو میں اسے کبھی نہیں کہتا کہ اس مسئلے کے لیے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو ؛ کیوں کہ توبہ گناہ کے سرزد ہونے پر کیا جاتا ہے اور جہاں تک مجھ سے اختلاف کرنے والے شخص کی بات ہے وہ ایک اجر یا دو اجر میں سے کسی ایک کا حقدار ہے۔ ( ایسا شخص جو اچھے سے اجتہاد کرے اور خطا کر جائے اسے اس کے اجتہاد کا ایک ثواب اور جو اجتہاد کرے اور حقیقت کو پالے اسے اجتہاد کرنے کا ایک ثواب اور حقیقت تک پہنچنے کا ایک ثواب یعنی دو ثواب ان شاء اللہ ملیں گے)۔
کسی برائی پر نکیر کرنے میں مصالح کا لحاظ
کیوں کہ انکار کرنے کا بنیادی مقصد برائی سے بچنا اور نفع پہنچانا ہوتا ہے۔
ممانعت بتدریج نافذ کی جائے
لوگ جس چیز پر عمل کررہے ہوتے ہیں، اس سے نکال کر کسی اور چیز پر ان سے عمل کرانا ایک صبر آزما اور مشکل کام ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر یہ واضح ہوجائے کہ بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا نہ کوئی فائدہ ہوگا نہ اس سے کوئی نفع متوقع ہو تو ایسی صورت میں بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، فرض نہیں رہتا۔ جیسا کہ عز بن عبدالسلامؒ نے ذکر کیا ہے اور اس رائے کو زیادہ بہتر قرار دیا ہے، اسی طرح سورہ اعلی ٰ کی آیت فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ (لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو) کی تفسیر میں امام شنقیطی نے یہ بات کہی ہے، بہت سے علمانے اس رائے کو زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔
مصالحت اور جنگ بندی کا ذوق پروان چڑھائیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ یؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ یحْكُمَ اللَّهُ بَینَنَا ۚ وَهُوَ خَیرُ الْحَاكِمِینَ) اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لاتا، تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے” سورہ الاعراف آیت 87
سیرت اور فقہ میں بہت سے عناوین کے تحت گفتگو کی گئی ہے، ہر ایک سے سبق لینا چاہیے، جیسے فقہ کی کتابوں کے مختلف ابواب کے حوالے سے : جنگ بندی کے اسباق، صلح کے اسباق، مصالحت کے اسباق، عہد و پیمان کے اسباق، ان کے علاوہ بہت سے مباحث ایسے ہیں جن کو سامنے رکھ کر انسان کو غور کرنا چاہیے کہ درپیش صورت حال اور موجودہ مقام و جگہ میں کون سی چیز زیادہ مناسب ہوگی، کیوں کہ اکثر انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپسی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی ایک ساتھ پرسکون، پرامن، جنگ اور لڑائی کی سوچ سے دور مصالحانہ زندگی گزارے۔
اختلاف کی نوعیت کو واضح کیا جائے
ہوسکتا ہے کہ بعض افراد ہمدردی کے جذبے سے اختلاف کے ہوتے ہوئے بھی، اختلاف کو نظر انداز کریں یا اس کی نوعیت کو کم کرکے پیش کریں، اس کی مثال اس مریض کی سی ہے جو ہاسپٹل جائے، لیکن اس کی طبی جانچ کے فرضی نتائج اور ایکسرے کی فرضی کاپی تیار کرکے اسے بتایا جائے کہ فکرمندی کی کوئی بات نہیں،تم بالکل صحت مند ہو جب کہ اندرون سے مرض اس کے جسم کو نڈھال کر رہا ہو۔
اختلاف کی نوعیت واضح کرنے اور اس کی اصل کو منکشف کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم آپس میں دوران بحث پوری توانائی کے ساتھ اپنی رائے رکھیں لیکن اہم یہ ہے کہ یہ آپسی مباحثہ نتیجہ خیز ہو اور اختلاف کی وجہ سے پائی جانے والی منفی سوچ و متشدد رویہ ختم ہوجائے۔ ہمیں ایک دوسرے کو سننے اور مختلف رائے رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرنے اور اپنے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہوگا۔
مسئلے کو صحیح سے سمجھنا اور صاحبِ معاملہ سے ربط کرنا
آپ تک پہنچنے والے بہت سے اختلافات ہوسکتا ہے کسی نے بدنیتی اور خودغرضی کی وجہ سے پھیلائے ہو، یا جس شخص کی طرف وہ بات منسوب کی جارہی ہے اس نے وہ بات نہ کہی ہو، یا بغیر کسی صحیح جانکاری کے غلط فہمی میں وہ بات پھیلادی گئی ہو، اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں جو مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کدورت و نفرت کا پیدا کرتی ہیں، اسی طرح یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے کسی شخص کے بارے میں کوئی تحریر یا کوئی خاص موقف پڑھ کر اسے صحیح سے نہ سمجھا ہو، جب کہ حقیقت اس پھیلائی گئی بات سے یا آپ کی سمجھ سے بہت دور ہو۔
ایک دوسرے سے اختلاف کر نے والوں کو چاہیے کہ وہ پہلے ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھ لیں اور رد عمل میں جلد بازی نہ کریں اور ان تصورات اور مفروضوں سے دوری بنائے رکھیں، جن میں حقیقت، دلائل اور ثبوت کا فقدان ہو۔
اخیر میں ہم کہیں گے کہ بحث و مباحثہ کے بندوبست سے متعلق علوم اور اس سے متعلق خصوصی تحقیقات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔آج افراد، جماعتوں اور کمپنیوں وغیرہ کے درمیان ہونے والے تنازعات کو کیسے حل کیا جائے اور اس کا تصفیہ کس طرح کیا جائے اس سے متعلق بہت سی کتابیں موجود ہیں، تو ان سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے ؟
اس موضوع پر، ایک مفید اور جامع کتاب ہے جس کا نام ’فقه الاختلاف قواعد التعامل مع المخالفین بالإنصاف‘ ہے۔
اس کے مصنف محمود محمد الخازندار ہیں، اس کتاب میں بہت مفید اخلاق و آداب کی نشان دہی کی گئی ہے، جن کا اختلاف کرنے والوں کو لحاظ رکھنا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2024