اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر اس قدر احسانات ہیں کہ ان کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ وہ رات کے اندھیرے کو دن کے اُجالے سے اور دن کے اُجالے کو رات کے اندھیرے سے بڑی تیزی سے ڈھانپتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا برق رفتاری سے پیچھا کرتے ہیں۔ ان دونوں کے بیچ ایک سیکنڈ تک کا وقفہ نہیں ہوتا۔ یہی وہ گردشِ لیل و نہار ہے جس میں سانس لے کر انسان اپنی زندگی کی ضرورتیں اللہ تعالیٰ کے پُرنعمت خزانے سے حاصل کرکے پوری کررہاہے:
انَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لاٰیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِoالَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَّعَلَیٰ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاًo ﴿آل عمران: ۱۹۰-۱۹۱﴾
‘بلاشبہ آسمان و زمین کی خلقت میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اربابِ دانش کے لیے ﴿معرفتِ حق کی﴾ بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ وہ اربابِ دانش جو کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔ کھڑے ہوں، بیٹھے ہوں، لیٹے ہوں ﴿لیکن ہرحال میں اللہ کی یاد ان کے اندر بسی ہوتی ہے﴾ جن کا شیوہ یہ ہوتاہے کہ آسمان وزمین کی خلقت میں غورو فکر کرتے ہیں ﴿اس ذکر وفکر کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ان پر معرفتِ حقیقت کا دروازہ کھل جاتاہے۔ وہ پکار اٹھتے ہیں﴾ خدایا یہ سب کچھ جو تو نے پیدا کیاہے سو بلاشبہ بے کار و عبث پیدا نہیںکیا۔ ﴿ضروری ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی جو اس حکمت و خوبی کے ساتھ بنایاگیاہے کوئی نہ کوئی مقصد و غایت رکھتا ہو﴾ یقینا تیری ذات اس سے پاک ہے کہ ایک بے کار کام اس سے صادر ہو۔’
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی رحمت و شفقت و قدرت سے تاریکی کو روشنی سے، ظلمت کو نور سے اور خزاں کو بہار سے بدلتاہے، ویران زمین کو اوپر سے بارش بھیج کر سرسبز و شاداب بناتاہے تاکہ اس کابندہ اپنی زندگی کا سامان فراہم کرسکے، بالکل اسی طرح جب ظلم وستم، کفرو ضلالت اور عدوان و سرکشی کی تاریکی دنیا پر چھاجاتی ہے تو وہ اپنے بندوں کو کفر و ضلالت اور جہل و گم راہی کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے ایمان و عرفان کے آفتاب کو ظاہر کرکے ہر طرف روشنی پھیلاتاہے اور بارانِ رحمت نازل کرکے اپنے بندوں کے دلوں کی پژمردہ کھیتیوں کو سیراب کرتاہے۔ یہ بھی اس کا اپنے بندوں پر ایک زبردست احسان ہے۔ چناںچہ وہ خود یہ دعویٰ کرتا ہے:
ہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلَیٰ عَبْدِہٰٓ اٰ یَاتٍ بَیِّنَاتٍ لِیُخْرِجَکُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّورِ وَانَّ اللَّہَ بِکُمْ لَرَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ o ﴿الحدید:۹﴾
‘وہی اللہ ہے جو اپنے بندے ﴿رسول﴾ پر واضح آیتیں اتارتا ہے تاکہ تم کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے اور بے شک اللہ تم پر شفقت کرنے والا مہربان ہے۔’
وہیں یہ بھی ارشاد ہوتاہے کہ دنیا میں عدل و توازن قائم رکھنے کے لیے ہم نے رسولوں کو بھیجا:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ﴿حدید:۲۵﴾
‘ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو اتارا تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوں۔’
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور کی ضرورت کے پیش نظر اپنی حکمت کے موافق نبیوں کو مبعوث فرمایا۔ یہی وہ مقدس و برگزیدہ ہستیاں ہیں، جن کے ربانی نور سے دنیا منور ہوئی۔ کفرو ضلالت کی تاریکیاں مٹیں، ایمان و یقین کی روشنی پھیلی اور وحیِ الٰہی کے اس عالمِ آب وگِل میں مسلسل بارش ہوئی۔ قرآن شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی کسی قوم کو اس احسان ونعمت سے محروم نہیں رکھا:
ولکل قوم ھاد ﴿الرعد:۷﴾ ‘اور ہر قوم کے لیے ایک راہ دکھانے والا ہے۔ ’
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولٌ فَ اذَا جَآئ رَسُولُہُمْ قُضِیَ بَیْْنَہُم بِالْقِسْطِ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُون ﴿یونس:۴۷﴾
‘اور ہر امت کے لیے ایک رسول ہے ﴿جو ان میں پیدا ہوتاہے اور انھیں دین حق کی طرف بلاتاہے﴾ پھرجب کسی امت میں اس کارسول ظاہر ہوگیا تو ﴿ہمارا قانون یہ ہے کہ﴾ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیاجاتاہے اور ایسا نہیں ہوتاکہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو۔’
قرآن کا صاف صاف لفظوں میں یہ بھی دعویٰ ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ فَمِنْہُم مَّنْ ہَدَی اللّہُ وَمِنْہُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْْہِ الضَّلالَۃُ فَسِیْرُواْ فِیْ الأَرْضِ فَانظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْن ﴿النحل:۳۶﴾
‘اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے ﴿دنیاکی﴾ ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول ضرور پیدا کیا﴿تاکہ اس پیغام حق کا اعلان کردے﴾ کہ اللہ کی بندگی کرو اور سرکش قوتوں سے بچو۔ پھر ان امتوں میں سے بعض ایسی تھیں جن پراللہ نے ﴿کامیابی کی﴾ راہ کھول دی۔ بعض ایسی تھیں جن پر گم راہی ثابت ہوگئی۔ پس ملکوں کی سیر کرو اور دیکھو جو قومیں ﴿سچائی کی﴾ جھلانے والی تھیں انھیں بالآخر کیا انجام پیش آیا۔’
انَّآ أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیْراً وَنَذِیْراً وَ ان مِّنْ أُمَّۃٍ الَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ ﴿فاطر:۲۴﴾
‘ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجاہے۔ خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر۔ اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں ڈرانے والا نہ آیا ہو۔’
اتنا ہی نہیں بل کہ اس نے جس قوم میں بھی اپنا رسول بھیجا وہ اسی قوم کی بولی بولنے والا اور اسی معاشرے کا منتخب ایک پسندیدہ فرد تھا۔ تاکہ وہ اس کے احکام اور پیغام کو انھیں آسانی سمجھاسکے۔
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ الاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ ﴿ابراہیم:۴﴾
‘اور ہم نے کوئی پیغمبر دنیا میں نہیںبھیجا مگر اس طرح کہ اپنی قوم ہی کی زبان میں پیامِ حق پہنچانے والا تھا تاکہ لوگوں پر مطلب واضح کردے۔’
گویا اللہ تعالیٰ نے کسی بھی قوم و ملت اور کوئی بھی زبان بولنے والوں کو ہدایت سے محروم نہیں رکھا۔ اس نے کفرو ضلالت کی تاریکی سے اپنے بندں کو نکال کر ایمان وعرفان کی دولت سے سرفراز کرنے کا یہ اہتمام وانتظام حضرت آدم علیہ السلام سے پیغمبر آخرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک موقع ومحل کے لحاظ سے کیا۔ یہ اس کا اپنے بندوں پر عظیم احسان ہے۔ لیکن نبوت کا یہ منصب معمولی نہیں بل کہ غیرمعمولی ہے۔ حضرت امام غزالیؒ کے قول کے مطابق: ‘نبوت انسانیت کے رتبے سے بالاتر ہے، جس طرح انسانیت حیوانیت سے بالاتر ہے۔ یہ عطیۂ الٰہی اور موہبتِ ربانی ہے۔ یہ سعی و محنت اور کسب و تلاش سے نہیں ملتی۔’ یہ اللہ کا فضل ہے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتاہے عطا کرتا ہے:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ اٰ یَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ ان کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ o وَاٰ خَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ oذٰلِکَ فَضْلُ اللَّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَآئ ُ وَاللَّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِo ﴿الجمعہ:۲-۴﴾
‘وہی اللہ ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول انھی میں سے اٹھایا۔ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتاہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ اس سے پہلے کھلی گم راہی میں تھے اوردوسروں کے لیے بھی ان میں سے جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے اور وزیر زبردست ہے، حکمت والا ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ دیتا ہے جس کو چاہتاہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔’
قرآن بار بار یہ اعلان کرتاہے کہ اللہ جس کو پسندکرکے منتخب کرتاہے اسی کو نبوت سے سرفراز کرتاہے۔ چناں چہ ایک جگہ عام پیغمبروں کے متعلق ارشاد ہوتاہے:
اللَّہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَآئِکَۃِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ انَّ اللَّہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ ﴿حج:۷۵﴾
‘اللہ نے فرشتوں میں سے بعض کو پیام رسانی کے لیے برگزیدہ کرلیا، اسی طرح بعض انسانوں کو بھی ﴿لیکن اس برگزیدگی سے انھیں معبود ہونے کا درجہ نہیں مل گیاجیساگم راہوں نے سمجھ رکھا ہے﴾ بلاشبہ اللہ ہی سننے والا،دیکھنے والا ہے۔’
اس پسند و انتخاب کے متعلق مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ایک مضمون فلسفۂ احتساب میں بہت ہی وقیع اورجامع بات کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
‘جس طرح دھندلی روشنی کو ہر آنکھ نہیں دیکھ سکتی، اسی طرح آفتاب کے قرص پر بھی ہر نگاہ نہیں ٹھہرسکتی۔ جب علما کی قوتِ احتساب سے متاثر ہوجاتی ہے تو فطرتِ محتسبہ تمام دنیا کا احتساب براہِ راست نہیں کرسکتی۔ اس وقت خدا اپنے ایک کامل بندے کو چن لیتاہے جو نورِ الٰہی کو جذب کرسکتاہے۔ جس کی بصیرت میں آفتابِ الٰہی کے دیکھنے اور اکتسابِ نورانیت کی طاقتِ کامل موجود ہوتی ہے اور وہ دوسروں کے اندر بھی اس روشنی کی کرنوں کو نافذانہ پہنچاسکتاہے۔ یہی درجہ مقامِ اعظمِ نبوت ہے۔
﴿مضامین البلاغ، مرتبہ محمودالحسن صدیقی، ناشر:ہندستانی پبلشنگ ہاؤس دہلی،۱۹۴۴،ص:۶۳﴾
پھر یہ بھی ایک ٹھوس سچائی ہے کہ منصب نبوت پر سرفراز کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ اپنے ان پسندیدہ اور منتخب بندوں کی حفاظت و نگہبانی کرتاہے۔ اس کو قرآن مجید میں موجود حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمعیل علیہ السلام، حضرت اسحق علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعات و حالات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلِ نبوت کے حالات بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی سورہ والضحیٰ اس کا بین ثبوت پیش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
‘انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتوں پرغور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ جب سے عرصۂ وجود میں قدم رکھتے ہیں، اسی زمانے سے آنے والے وقت اور ملنے والے منصب کے آثار ان سے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ وہ حسب و نسب اور سیرت وصورت میں ممتاز ہوتے ہیں۔ شرک و کفر کے ماحول میں ہونے کے باوجود اس کی گندگی سے بچائے جاتے ہیں۔ اخلاق حسنہ سے آراستہ ہوتے ہیں۔ ان کی دیانت، امانت، سچائی اور راست گفتاری مسلم ہوتی ہے اور یہ تمہیدیں اس لیے ہوتی ہیں تاکہ منصب ملنے کے بعد ان کے دعواے نبوت کی تصدیق اور لوگوں کے میلانِ خاطر کا سامان پہلے ہی سے موجود ہے۔’ ﴿سیرۃ النبیﷺ جلد:چہارم، مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۹۷۴، ص:۵۱-۵۲﴾
منصبِ نبوت سے سرفراز کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت ونگہبانی کرتاہے۔ انھیں برگزیدہ بناتاہے اور سیدھی راہ چلاتاہے:
وَاجْتَبَیْْنَاہُمْ وَہَدَیْْنَاہُمْ الَیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم ﴿الانعام: ۸۷﴾
‘ہم نے ان کو برگزیدہ کیا اور ﴿فلاح و سعادت کی﴾ سیدھی راہ چلایا۔’
انبیاے کرام علیہم السلام، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہوتے ہیں اور وہ اس کی حفاظت ونگہبانی میں رہتے ہیں، اس لیے گناہوں سے معصوم، ضلالت و گمراہی سے پاک، ہواے نفسانی سے مبّرا، بے انتہا نیک اور صالح ہوتے ہیں ﴿کل من الصالحین:الانعام:۵۸﴾ انھیں دنیا کے تمام لوگوں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ ﴿وکلا فضلنا علی العالمین:الانعام:۶۸﴾ ۔ ان کے علم و ہدایت کا سرچشمہ عالم ملکوت سے ہوتا ہے۔ وہ ان بے شمار علوم و کمالات کو شکرگزاری اور قدر شناسی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ جن کا افاضہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں حکمت و نعمت سے بھی سرفراز فرماتاہے اور شرحِ صدر کی دولت سے بھی مالامال کرتا ہے۔ انھیں عقل و تعقل کی ایسی زبردست قوت دیتا ہے جو عام انسانوں میں نہیں ہوتی۔ ان سب کے باوجود وہ اپنے اندر اختیارِ مستقل نہیں رکھتے اور نہ علمِ محیط۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے خزانے سے انھیں جو کچھ ملتاہے وہ اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ وہ ان باتوں کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس سے اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی مصلحت کی بنا پر روک لیا ہو۔ نہ یہ ان کے اختیار میں ہے کہ جو چاہیں کوشش کرکے معلوم کرلیا کریں:
ِ وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْْبِ وَلَکِنَّ اللّہَ یَجْتَبِیْ مِن رُّسُلِہِ مَن یَشَائ ُ ﴿آل عمران: ۱۷۹﴾
‘مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کردے۔ غیب کی باتوں کی اطلاع دینے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتاہے منتخب کرلیتاہے۔’
انبیاعلیہم السلام اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے اور نہ خواہشِ نفس سے کلام کرتے ہیں۔ بل کہ اپنے ہر امر میں اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرماں بردار ہوتے ہیں۔ اسی کے حکم کی پیروی کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے لوگوں کو راہِ ہدایت دکھاتے ہیں:
وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ o انْ ہُوَ الَّا وَحْیٌ یُوحَیٰ o ﴿النجم:۳،۴﴾
‘بنی خواہشِ نفس سے کلام نہیں کرتے بل کہ وہ وحی ہوتی ہے جو ان کو کی جاتی ہے۔’
ایک جگہ فرمایا:
وَجَعَلْنَاہُمْ أَئِمَّۃً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا ﴿انبیاء :۷۳﴾
‘اور ہم نے ان پیغمبروں کو ایسا رہ نما بنایاہے جو ہمارے حکم سے راہ دکھاتے ہیں۔’
دوسری جگہ ارشاد ہوتاہے:
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ الاَّ لِیُطَاعَ بِ اذْنِ اللّہ ﴿النساء :۶۴﴾
ہم نے کوئی نبی نہیں بھیجا لیکن اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔’
ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا:
یَآ أَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّہَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ انَّ اللَّہَ کَانَ عَلِیْماً حَکِیْماً oوَاتَّبِعْ مَا یُوحَیالَیْْکَ مِن رَّبِّکَ انَّ اللَّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً oوَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ وَکَفَیٰ بِاللَّہِ وَکِیْلاً o ﴿الاحزاب:۱-۳﴾
‘اے نبی اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرو۔ بے شک اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے اور پیروی کرو اس چیز کی جو تمھارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جارہی ہے۔ بے شک اللہ باخبر ہے اس سے جو تم لوگ کرتے ہو اور اللہ پر بھروسارکھو اور اللہ کارساز ہونے کے لیے کافی ہے۔’
انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی اوّلین غرض روزالست کے بھولے ہوئے ازلی عہدو پیمان کی یاد دہانی ہے۔ ان کی تعلیم کابنیادی اصول اور ضروری جز توحید اور ان کی دعوت کاحقیقی محور اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کا اعلان رہاہے۔ وہ لوگوں کو اپنا نہیں بل کہ خدا کاپرستار بناتے ہیں۔ قرآن کہتاہے:
مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُؤْتِیَہُ اللّہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُواْ عِبَاداً لِّیْ مِن دُونِ اللّہِ وَلَ کِن کُونُواْ رَبَّانِیِّیْنَ ﴿آل عمران:۷۹﴾
‘کسی انسان کو یہ بات سزاوار نہیں کہ اللہ اسے ﴿انسان کی ہدایت کے لیے﴾ کتاب اور حکم و نبوت عطا فرمائے اور پھر اس کا شیوہ یہ ہوکہ لوگوں سے کہے: خدا کو چھوڑکر میرے بندے بن جاؤ ﴿خدا کے احکام کی جگہ میرے حکموں کی اطاعت کرو﴾ بل کہ یہی کہے گا کہ تم ربانی بنو۔’
قرآن کہتاہے کہ انبیا علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے پیغام و احکام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اپنے فرض منصبی کو پورا کرنے میں ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہتے ہیں:
الَّذِیْنَ یُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّہِ وَیَخْشَوْنَہُ وَلَا یَخْشَوْنَ أَحَداً الَّا اللَّہَ
﴿الاحزاب:۳۹﴾
‘انبیا اللہ کے پیغاموں کو پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔’
چوں کہ انبیا علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہوتے ہیں اورامور نبوت وامور دین میں ان کی کوئی رائے غلط نہیں ہوتی اس لیے صاف لفظوں میں کہہ دیاگیاکہ ہر شخص کو چاہیے کہ بغیر کسی بحث ومباحثے کے ان کے احکام کو تسلیم کرے۔ اس سلسلے میں چوں و چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہے:
َمَآ اٰ تَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا ﴿حشر:۷﴾
‘رسول جو کچھ تم کو دے اس کو لے لو اور جس چیز سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔’
یہی حقائق منصب کاتعین کرتے ہیں، اس منصب پر فائز ہوکر انبیاء علیہم السلام اپنے قدسی نفوس اور ایمانی قوت سے امر بالمعروف ونھی عن المنکرکافریضہ انجام دیتے ہیں، باطل طاقتوں کے خلاف تنہا اعلان حق کرتے ہیں، کفرو شرک کے مضبوط قلعے پر یلغار کرتے ہیں، بے ہودہ رسوم ، رواج اور اوہام وخرافات کے طلسم کو توڑتے ہیں، ظالم حکمرانوں کی غلامی سے مظلوم انسانو ں کوچھڑاسکتے ہیں، پژمردہ دلوں میں ایمان و یقین کی روح پھونکتے ہیں، لوگوں کو امن وسکون کی دولت عطا کرتے ہیں، انھیں اخلاق حسنہ سے آراستہ کرتے ہیں، معبودان باطل سے نجات دلاکر ایک عبادت وبندگی کا طوق ان کی گردن میں ڈالتے ہیں اور ان تمام روحانی بیماریوں کا علاج کرتے ہیںجن میں مبتلاہوکر انسان خداے وحدہ لاشریک کو فراموش کردیتاہے۔ ان کاچشمہ فیض عام ہوتاہے۔ ان کا دریاے خیرو برکت سب کے لیے رواں ہوتاہے۔ لیکن اس سے استفادہ کرنا حسنِ استعداد پر موقوف ہے۔ جو لوگ استفادہ نہیں کرپاتے انھیں اپنی سوے استعداد پر ماتم کرنا چاہیے اور خون کے آنسو بہانا چاہیے۔ لیکن جو لوگ ان کی تعلیمات سے متنفع ہوتے ہیںدنیا وآخرت کی سعادت ونعمت ان کے قدم چومتی ہے۔ ان اہلِ ایمان کو اپنی جان سے زیادہ ان مقدس اور مطہر ہستیوں سے لگاؤ ہوتاہے۔ قرآن مجید اس کی شہادت ان الفاظ میں دے رہاہے:
النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنفُسِہِم ﴿الاحزاب:۶﴾
‘ایمان والوں کو اپنی جان سے زیادہ نبی سے لگاؤ ہے۔’
حضرت علاّمہ شبیراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی جو تفسیر لکھی ہے وہ بڑی جامع اور معنی خیز ہے۔ وہ منصب نبوت اور حقیقت نبوت کو بہت ہی خوبی اور صفائی کے ساتھ نمایاں کرتی ہے۔ علاّمہ عثمانیؒ لکھتے ہیں:
‘مومن کا ایمان اگر غور سے دیکھاجائے تو ایک شعاع ہے اس نور اعظم کی جو آفتاب نبوت سے پھیلتاہے۔ آفتاب نبوت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوئے۔ بنابریں مومن ﴿من حیث ہومومن﴾ اگر اپنی حقیقت سمجھنے کے لیے حرکت فکری شروع کرے تو اپنی ایمانی ہستی سے پیشتر اس کو پیغمبر علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نبی کا وجود مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور اگر اس روحانی تعلق کی بنا پر کہہ دیاجائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ باپ بلکہ اس سے بھی بمراتب بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہوگا۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں انما انالکم بمنزلۃ والوالدۃ اور ابی بن کعب وغیرہ کی قرأت میں آیت ہذا النبی اولیٰ بالمومنین ﴿الخ﴾ کے ساتھ وھو اب لھم کا جملہ اس حقیقت کوظاہر کرتا ہے۔’
باپ بیٹے کے تعلق میں غورکروتو اس کاحاصل یہ ہی نکلتاہے کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے جسم سے نکلا ہے اور باپ کی تربیت و شفقت طبعی اوروں سے بڑھ کر ہے۔ لیکن نبی اور امتی کاتعلق کیا اس سے کم ہے؟ یقینا امتی کاایمانی و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبریٰ کا ایک پرتو اور ظل ہوتاہے۔ جو شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پزیر ہوتی ہے، ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ ماں باپ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری وہ ہمدردی و خیرخواہی، شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کرسکتا۔
﴿قرآن مجید مترجم و محشی مطبوعہ مدینہ پریس، بجنور، ص۵۴۲﴾
ان تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم اور اس کا احسان ہے کہ اس نے ہماری مادی ترقی واصلاح کی طرح ہماری روحانی ترقی و اصلاح کا بھی اہتمام و انتظام کیا۔ اگر انبیاے کرام علیہم السلام دنیا میں تشریف نہ لاتے تو یہ دنیا ایک ظلمت کدۂ ہلاکت بن جاتی۔‘‘
مشمولہ: شمارہ جون 2011