مرکزی درس گاہ رام پور کی رپورٹ

برائے کل ہند سالانہ اجتماع منعقده ۲۰ تا ۲۲ اپریل ۱۹۵۱

(یہ رپورٹ تعلیم کے عملی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے بہت سے نقوشِ راہ روشن کرتی ہے۔ ملت کو ایسے بہت سے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے جہاں شخصیت سازی کا کام انجام دیا جائے۔ مدیر)

اپنے نظریہ تعلیمی کے مطابق ایک درس گاہ کے قیام کی ضرورت تو ہماری جماعت کو ابتدا سے محسوس ہو رہی تھی لیکن مختلف اسباب سے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی طرف اقدام نہ کیا جاسکا۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں جو حالات رونما ہوئے ان کی وجہ سے ہمارے موانع میں کچھ اور اضافہ ہی ہو گیا۔ لیکن چوں کہ تعلیمی اسکیم کے جلد از جلد بروئے کار لانے کی ضرورت روز بروز بڑھتی جارہی تھی اور تقسیم کے بعد کے حالات میں اس کا جلد از جلد قیام از بس ضروری معلوم ہونے لگا اور ساتھ ہی ہمارے ایک رفیق منشی ہدایت علی صاحب ملیح آبادی نے درس گاہ کے لیے اپنے ایک باغ واقع محمود نگر ملیح آباد کی آمدنی اور ایک عمارت کی پیش کش فرما کر ایک حد تک مالی اور مکانی دشواریوں کو آسان بنا دیا اس لیے تشکیل جدید کے بعد امیر جماعت مولانا ابو اللیث صاحب نے کم از کم ابتدائی درس گاہ کے قیام کا ارادہ فرمایا اور مجلس شوری منعقدہ ۲۷ تا ۲۹ اگست ۱۹۴۸ء کے سامنے درس گاہ کا مسئلہ پیش کیا۔ جس میں تھوڑی دیر کی بحث و گفتگو کے بعد بالاتفاق طے پایا کہ ابتدائی تعلیم کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جائے اور عارضی طور سے باغ کی موجودہ عمارت کو ضروری اور مناسب تبدیلیوں کے بعد درس گاہ اور طلبہ کی اقامت گاہ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے پایا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے محمد شفیع صاحب مونس اور افضل حسین صاحب یا ایسے ہی کسی اور شخص کی خدمات حاصل کی جائیں جو بچوں کی تعلیم و تربیت کا عملی تجربہ بھی رکھتے ہوں اور تعلیم اطفال سے متعلق جدید معلومات اور نظریات کے مطابق تیار بھی ہوں۔

اسی اجتماع میں دو کمیٹیاں بھی بنا دی گئیں۔ ایک دستور کمیٹی دوسری نصاب کمیٹی۔ دستور کمیٹی نے دستور العمل مرتب کرکے مجلس شوری کے ختم ہوتے ہوتے پیش کردیا۔ نصاب کمیٹی نے ایک ماہ بعد نصاب مرتب کر کے تعلیمات سے دل چسپی رکھنے والے صاحب الرائے حضرات کے پاس مشورہ کے لیے بھیج دیا اور مناسب ترمیم و اضافہ کے بعد عام معلومات کے لیے سہ روزہ الانصاف الہ آباد میں ۲۰،۲۱ مارچ کی اشاعت میں شائع کرا دیا۔

قیام

باغ کی مجوزہ عمارت میں اواخر صفر ٦۸ھ تک ضروری تبدیلیوں سے فراغت ہو سکی۔ افضل حسین صاحب اور محمد شفیع صاحب مونس کو بھی اواخر صفر میں بلا لیا گیا۔ درس گاہ کے افتتاح کا اعلان سہ روزہ الانصاف میں پہلے ہی شائع ہو چکا تھا چناں چہ اس کے مطابق یکم ربیع الاول ۱۳٦۸ھ کو اکیس طلبہ سے درس گاہ کا افتتاح عمل میں آیا۔ یہ طلبہ اپنی استعداد کے مطابق درس گاہ کے چار درجات میں داخل کر لیے گئے۔

مقصد

ابتدائی درس گاہ کے قیام کا مقصد روز اول سے یہی تھا کہ اس درس گاہ میں طلبہ کی تعلیم و تربیت اس نہج پر ہو کہ علمی، عملی، ذہنی و اخلاقی نیز جسمانی غرض تمام حیثیتوں سے ان میں وہ ضروری قابلیتیں اور صفات پیدا ہو جائیں جو مہذب انسانوں اور ہماری اس تحریک کے کارکنوں میں بہرحال ناگزیر ہیں اور جو طلبہ اس ابتدائی منزل سے آگے بڑھنے والے نہیں ہیں انھیں بنیادی تعلیم و تربیت سے اس حد تک آراستہ کردیا جائے کہ جوہر انسانیت اور جوہر اسلامیت کے اعتبار سے وہ ناقص نہ رہ جائیں اور مہذب زندگی کے فعال عنصر ہونے کے لیے جو قابلیتیں ضروری ہیں وہ ان میں پیدا ہوجائیں۔ اور گو اس منزل میں طلبہ کو کسی خاص پیشہ کے لیے تیار کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ پھر بھی یہ کوشش کی جائے کہ عملی و اخلاقی تربیت سے بچوں کی تمام اندرونی صلاحیتوں، پیدائشی قابلیتوں اور فطری استعدادوں کی اس حد تک نشو و نما ہو جائے اور انھیں عملاً اس حد تک تجربہ اور مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کہ وہ آٹھ سال کی تعلیم و تربیت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اندر یہ طاقت محسوس کرنے لگیں کہ خدا کی زمین میں ہر طرف ان کے لیے کام کرنے اور اپنی ضروریات حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نیز محنت و مشقت اور سادہ زندگی کے اتنے عادی بنا دیے جائیں کہ وہ ہر جسمانی کام پر بلا جھجک قادر ہوسکیں، اور ضروریات زندگی کو ناگزیر ضروریات ہی تک محدود سمجھنے لگیں۔

مختصر روداد

افتتاح کے بعد محسوس ہوا کہ جن طلبہ کو داخل کیا گیا ہے ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت انتہائی غیر متوازن ہوئی ہے۔ چناں چہ کئی ماہ ان کی لیاقت سابقہ کے جانچنے، ان کی فطری صلاحیتیں سمجھنے، ایک نیا ماحول پیدا کرنے اور اس میں ان کو کھپانے میں صرف ہو گئے اور ابھی ہم ٹھیک سے جماعت بندی بھی نہ کر سکے تھے کہ رمضان المبارک کی تعطیلات کے سلسلے میں درس گاہ ایک ماہ دس دن کے لیے بند کر دی گئی۔ طلبہ گھروں سے واپس نہیں آئے تھے کہ مرکز کے رامپور منتقل ہونے کا مسئلہ درپیش ہو گیا۔ جگہ کی قلت اور قیام کی دشواریوں کے پیش نظر تعطیلات میں دس دن کا اضافہ کر دیا گیا اور نیا داخلہ بھی کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ ۱۷ ذی الحجہ ٦۸ھ کو مرکز کے ساتھ درس گاہ بھی ملیح آباد سے رامپور منتقل ہو گئی۔

رام پور میں ایک مقامی ذیلی درس گاہ پیشتر سے موجود تھی۔ اس کو بھی مرکزی درس گاہ میں ضم کر لیا گیا۔ پانچویں درجہ کا اضافہ کر کے کچھ نئے طلبہ بھی داخل کیے گئے اور اس طرح ان کی مجموعی تعداد ۵۵ ہو گئی۔ رام پور کی مقامی درس گاہ میں شوکت علی صاحب اور عبد الوحید صاحب استادوں کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اس لیے اب اساتذہ کی تعداد چار ہو گئی۔ طلبہ کی نگرانی اور ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے دو نگراں حضرات حفیظ الظفر خاں صاحب اور اسلام اللہ صاحب پریمی کا تقرر بھی عمل میں لایا گیا۔ جن کا مشاہرہ بچوں کے سرپرستوں سے وصول کیا جاتا ہے۔ شعبان میں امتحانات کے بعد درس گاہ پھر ایک ماہ دس دن کے لیے بند کر دی گئی۔ شوال ۶۹ھ سے نئی میقات شروع ہوئی۔ قدیم طلبہ میں سے تیرہ طالب علم واپس نہ اس کے جن میں زیادہ تعداد ایسے طلبہ کی تھی جو اپنے سرپرستوں کی معاشی مجبوریوں کے سبب درس گاہ میں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ باوجود کوشش ہم ان کے لیے کچھ نہ کر سکے، مجبورا اس میقات میں تیرہ طلبہ کا جدید داخلہ کر کے ۵۵ کی تعداد پوری کرلی گئی۔ مجلس مشاورت اپریل ۱۹۵۰ء نے طے کیا تھا کہ اگلی میقات میں جماعت اول توڑ کر جماعت ششم کا اضافہ کیا جائے کیوں کہ طلبہ کی رہائش اور ایک نئے استاد کے تقرر کا انتظام مشکل ہے مگر عملاً ایسا نہ ہوسکا۔ جماعت ششم کا اضافہ تو فطری تدریج سے ضروری تھا۔ جماعت اول کے کچھ فیل طلبہ اور جماعت دوم کے نئے داخلہ کے کم زور طلبہ کے باعث امیر جماعت کے مشورہ سے جماعت اول بھی برقرار رکھی گئی اور اس جماعت کی تعلیم و تربیت کا بار نگراں حضرات میں سے ایک کے سپرد ہوا۔ اس طرح امسال کل چھ جماعتیں ہیں جن کی تعلیم کے لیے ناظم سمیت کل چار اساتذہ اور دو نگراں۔

طلبہ کا روزانہ پروگرام

نماز فجر سے ایک گھنٹہ قبل اُٹھ جاتے ہیں۔ حوائج ضروریہ سے فراغت کے بعد دانت مانجھ کر وضو کرتے ہیں۔ جماعت سے نماز فجر ادا کر کے تلاوت کرتے ہیں۔ سردیوں میں ہلکا ناشتہ کرکے تفریح کے لیے باہر جاتے ہیں اور واپس ہو کر کھانا کھاتے ہیں۔ گرمیوں میں واپس آکر ناشتہ کرتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں۔ ایک گروپ باری باری تفریح کے اوقات میں درس گاہ کی صفائی اور ناشتہ کرانے کا انتظام کرتا ہے۔ ناشتہ کے بعد درس شروع ہوتا ہے۔ بارہ بجے کھانے، نماز اور آرام کا وقفہ ملتا ہے۔ پھر سہ پہر کو تعلیم اور حرفہ کا کام ہوتا ہے۔ نماز عصر کے بعد کھیل، مغرب کے بعد کھانا، قراءت اور کبھی کبھی اظہار خیال کی مشق ہوتی ہے۔ عشاء کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹہ آزاد مطالعہ اور آموختہ ہوتا ہے۔ سونے سے قبل دن بھر کی مصروفیات کا جائزہ لینے اور محاسبہ نفس کے لیے طلبہ ڈائریاں مرتب کرتے ہیں پھر سو جاتے ہیں، تعطیلات میں تعلیمی سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے طلبہ باہر جاتے ہیں کبھی کبھی دیگر مدارس اور کارخانوں وغیرہ کا بھی مشاہدہ کرایا جاتا ہے۔ دنیا سے باخبر رہنے اور بچوں کے پروگراموں سے استفادہ کرنے کے لیے ریڈیو پروگرام بھی ہوتا ہے۔

تعلیمی کام

درس گاہ کے اوقات: عام طور پر صبح ۳۰: ۸ سے ۱۲ بجے تک اور سہ پہر کو ظہر اور عصر کے بیچ کے دو ڈھائی گھنٹے درس و تدریس اور حرفہ کا کام ہوتا ہے۔ درمیان میں کھانا نماز اور آرام کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ موسم اور نماز ظہر و عصر کے اوقات میں تبدیلی سے ان اوقات میں بھی جزئی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

مضامین کی تفصیل:  خالص اسلامی علوم یعنی قرآن، حدیث، فقہ، عقائد، اخلاق، معاشرت، تاریخ اسلام اور سیر انبیا وصحابہ و صلحا امت کے علاوہ عربی، اردو، ہندی، انگریزی زبانوں اور دیگر معلوماتی مضامین مثلاً تاریخ هند، جغرافیہ عالم، ریاضی، عام سائنس، آرٹ، کرافٹ وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور ان مضامین میں ہمارے یہاں کا معیار سرکاری مدارس سے بلند ہے، خالص اسلامی علوم کی تعلیم و تدریس میں بھی ہم تعلیم کے جدید ترین طریقوں کو کام میں لاتے ہیں اور بچوں کی دل چسپی، عمر، ذہن کی رسائی وغیرہ کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہیں۔ دیگر علوم کی تدریس میں بھی اسلامی روح کارفرما ہوتی ہے اور ان مضامین کے عنوانات، مباحث اور اسباق کو اسلامی نظریات پر منطبق کر کے ذہنوں میں اُتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض جہاں تک ہمارے وسائل ساتھ دیتے ہیں ہم تعلیم کے جدید ترین طریقوں سے استفادہ کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ مختلف تعلیمی طریقوں کو سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے لیے ہم دوسرے سرکاری و غیر سرکاری ماڈل اسکولوں اور تعلیمی اداروں کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔

قرأت کلاس: ماہ ربیع الاول ٦۹ھ سے درس گاہ کے طلبہ کو قرأت و تجوید سکھانے کا کام قاری عبد الواحد صاحب کے سپرد ہے۔ قاری صاحب موصوف اس کام کو نہایت دل چسپی اور تندہی سے انجام دیتے ہیں۔ سوم، چہارم، پنجم و ششم کے تمام طلبہ اور اول اور دوم کے منتخب طلبہ قرأت سیکھتے ہیں۔

حرفے اور دستکاریاں

تعلیم و تربیت میں حرفوں کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے اس کے لیے اپنے نظام الاوقات میں دو گھنٹے رکھے ہیں۔ اول و دوم میں پھٹے پرانے کپڑوں کی مرمت معمولی سینا پرونا، بٹن ٹانکنا، رومال اور ازار بند سینا، جوتے کی مرمت کاغذ کے پھول اور کھلونے بنانا۔ کتابوں پر کاغذ چڑھالینا وغیرہ رکھا ہے۔ سوم سے ششم تک مخصوص حرفوں اور دستکاریوں میں مہارت پیدا کرنے اور کچھ مفید و نفع بخش کام سکھانے کی طرف توجہ دی ہے۔ فن کتب سازی یعنی جلد سازی، لفافہ، پیڈ، فائل وغیرہ بنانا درجہ سوم میں سکھایا جا رہا ہے۔ چہارم، پنجم، ششم کے طلبہ فی الحال تین گروپ میں تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ باغبانی گروپ، نجّاری گروپ، لانڈری وسلائی گروپ۔ ان تمام کاموں کے ذمہ دار بھی اساتذہ ہیں۔ ان میں بتدریج باقاعدگی آتی جا رہی ہے اور بچے دل چسپی اور آمادگی کے ساتھ ان کو انجام دینے لگے ہیں۔

لکڑی کے کام میں ضروری اوزاروں کی کمی کے باعث ابھی کم بچے ہیں۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ رفتہ رفتہ ضروری سامان بہم پہنچایا جائے۔ بہرحال کام شروع کر دیا گیا ہے اور طلبہ مختلف قسم کی روز مرہ استعمال کی اشیاء مثلا ریک یعنی دیوار گیر، بیٹھنے کی پیڑھیاں اور بچوں کے کھلونے گڑیوں کی کرسیاں اور فرنیچر وغیرہ بنانے لگے ہیں۔ فریٹ ورک سکھانے کا بھی اہتمام کر لیا گیا ہے، اس کی دستی مشینیں تو ہمارے پاس ہیں مگر ان سے پلائی ووڈ کے علاوہ موٹے تختے نہیں کاٹے جا سکتے اور پلائی ووڈ آج کل نایاب ہے۔ اگر پیر کی مشین فراہم ہوگئی تو یہ کام ان شاء اللہ زیادہ نفع بخش ہو گا۔

 ۲- باغبانی

درس گاہ سے تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ایک احاطہ مل گیا ہے جس کا کچھ حصہ طلبہ نے محنت کرکے قابل کاشت بنا لیا ہے اس میں فصل و موسم کے اعتبار سے مختلف سبزیوں مثلا آلو، ٹماٹر، بینگن، پیاز، لہسن، میتھی، پالک، خرفہ وغیرہ اور کچھ پھولوں کی کاشت ہوتی ہے۔ پانی کی کچھ عرصہ دقت رہی لیکن اب نل لگ جانے سے یہ دشواری رفع ہو گئی ہے۔ احاطہ کا بیشتر حصہ ابھی کام کا نہیں بن سکا ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش ہے ان شاء اللہ وہ بھی کام کا ہو جائے گا۔

۳۔ لانڈری سلائی

لانڈری کا کام اچھی طرح چل رہا تھا۔ درس گاہ کے طلبہ کے کپڑے یہی گروپ دھوتا استری کرتا اور ان کا حساب کتاب رکھتا تھا۔ مگر وقت اور جگہ نیز نگراں کی دقت کے باعث کچھ دنوں کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ مشین نہ ہونے کی وجہ سے سلائی کا کام باقاعدہ شروع نہ ہو سکا تھا۔ بچوں کو کٹنگ وغیرہ کاغذ کاٹ کر سکھائی جا رہی تھی۔ اب ایک مشین کا بھی انتظام ہوگیا ہے امید ہے جلد ہی اس کام میں بھی باقاعدگی پیدا ہو جائے گی۔

۴- دیگر مشاغل

انگریزی مٹھائی اور موم بتی بنانے اور انھیں باقاعدگی سے پیک کرکے طلبہ کے ذریعے فروخت کرا کے بچوں کو خرید و فروخت کا تجربہ اور کاروبار چلانے کی مشق بہم پہنچانے کا خیال ہے۔ مٹھائی بنانے کی ایک مشین ایک رفیق کی عنایت سے حاصل ہو گئی ہے۔ نمونہ کے لیے کچھ مٹھائی بنوا دی گئی ہے مگر شکر کی قلت کے باعث ابھی یہ کام منصوبہ کے مطابق نہیں ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں چار پائی بننا، سائیکل چلانا، تیرا کی، صابن بنانا وغیرہ بھی ہم وقتاً فوقتاً سکھاتے رہتے ہیں اور بھی بہت سے مشاغل ہمارے پیش نظر ہیں مگر کام کی وسعت، وسائل کی محدودیت، فنی مہارت اور اسٹاف کی کمی کے باعث تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اس قسم کے کاموں کا باقاعدگی کے ساتھ سکھانا فی الحال دشوار نظر آتا ہے۔ خدا کرے ہماری یہ دشواریاں جلد رفع ہوں۔

جسمانی تربیت

درس گاہ کے وسط شہر میں واقع ہونے کے سبب ہمارے طلبہ کو کھلی ہوا بہت کم نصیب ہوتی ہے نیز ہمارے پاس کھیل کے لیے کوئی کشادہ میدان نہیں ہے اور نہ ہم کھیل کے سامان کی فراہمی کا خاطر خواہ انتظام کر سکے ہیں۔ تعلیم و تربیت میں کھیل کی اہمیت کے پیش نظر بہرحال یہ بہت بڑی کمی ہے، تاہم اپنے وسائل کو دیکھتے ہوتے طلبہ کی جسمانی تربیت کی بحد امکان ہم کوشش کر رہے ہیں۔ بعد نماز فجر طلبہ کو پابندی سے تفریح کے لیے شہر سے باہر لے جاتے ہیں جہاں ڈیڑھ دو گھنٹے کھلی ہوا میں انھیں آزادی سے کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ اگرچہ دن کے بیشتر اوقات میں محدود اور بند جگہ رہنے کے سبب طلبہ کی صحت کچھ معیاری نہیں ہے پھر بھی بفضلہ عام صحت اچھی رہتی ہے۔ نماز عصر کے بعد کھیل اور P.T کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ مطبخ سے ملحق مکان کا صحن ہم وار کر کے والی بال اور رنگ کی دو فیلڈیں بنادی گئی ہیں جن سے کھیل ایک حد تک منظم ہو گیا ہے۔ کبڈی، دوڑ، کود، کرکٹ اور جمعہ کو چھوٹے بچوں کی کشتی نیز موسم کو ملحوظ رکھ کر تیراکی کا بندو بست کیا جاتا ہے۔ وقتًا فوقتًا مچھلی کا شکار اور پکنک کا بھی انتظام کرتے ہیں۔

اخلاقی تربیت

اسلام میں اخلاق کو جو اہمیت حاصل ہے وہ ہم سب پر عیاں ہے۔ چناں چہ ہم اس پر تعلیم سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ اخلاقی تربیت کے سلسلے میں صالح معاشرہ اساتذہ اور بڑے طلبہ کا بہترین عملی نمونہ، طلبہ میں اخلاقی نقطہ نظر سے حساس رائے عامہ، اچھا ماحول، درسگاہ کی فضا، بچوں میں ندامت کے جذبہ کی نشو و نما، محاسبہ نفس اور ایسے ہمہ وقتی منصوبے جو طلبہ کو فرصت کے اوقات میں لغو ولایعنی ہاتوں اور کاموں سے محفوظ رکھ سکیں ان سب کو بہت بڑا دخل ہے۔ ہم ان میں سے کسی طرف سے غافل نہیں ہیں۔ طلبہ میں ندامت کا جذبہ پیدا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں، خود اپنی طرف سے بہتر نمونہ پیش کرتے ہیں۔ نگرانی کے لیے اساتذہ اور نگراں دونوں کو ذمہ دار بنا دیا گیا ہے۔ فرصت کے اوقات کو مناسب کاموں پر صرف کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ محاسبہ نفس کے لیے دن بھر کی مصروفیات پر روزانہ ڈائریاں لکھواتے ہیں۔ درس گاہ کی فضا ہم وار اور مناسب رکھنے کے لیے طلبہ کے اجتماعات خصوصی کرتے ہیں، حاضری کے بعد ضروری ہدایات دی جاتی ہیں اور اچھی عادتوں کی تشویق اور بُری عادتوں سے احتراز کے لیے طلبہ کو مستقل اخلاقی درس دیتے ہیں۔ ایک دوسرے پر ہمدردانہ تنقید کا موقع دیتے ہیں اور سوالات کر کے نیز بچوں کے کردار کا جائزہ لے کر اپنی مساعی کے نتائج جانچتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں کھیل کود، اقامتی زندگی کے مختلف مواقع اور درس کے اوقات میں اخلاقی اصولوں کی پابندی اور عملی تربیت پر خاص زور دیتے ہیں تاکہ طلبہ کے ذہن نشین ہو جائے کہ اخلاقی اصول محض زبانی تعلیم دینے اور یاد کرنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ روزانہ کی عملی زندگی میں برتے جانے کے لیے ہوتے ہیں۔ تعاون، ہمدردی، خدمت، صفائی و پاکیزگی وغیرہ کے لیے طلبہ پر انفرادی و اجتماعی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں۔ اپنے معاشرہ کی اصلاح کے لیے طلبہ کا خصوصی اجتماع ہوتا ہے جن میں وہ اپنی معاشرتی و اجتماعی زندگی کو اخلاقی اصولوں پر ڈھالنے کے اور کم زوریوں کو دُور کرنے کے منصوبے سوچتے ہیں۔ ان کی جمعیة بھی ہے جو ایک دوسرے کو برے کاموں پر ٹوکتی اور بھلے کاموں پر ابھارتی ہے۔

صحت و صفائی

بیمار طلبہ کی دیکھ بھال، تیمارداری اور دوا علاج کے لیے نگراں حضرات میں سے ایک صاحب ذمہ دار بنا دیے گئے ہیں جو ان کی صحت کا جائزہ بھی لیتے رہتے ہیں۔ اونچی جماعت کے طلبہ روزانہ اور نیچی جماعت کے ایک دن ناغہ دے کر غسل کرتے ہیں۔ جمعہ کو درس گاہ کی عام صفائی کے بعد طلبہ غسل کرتے ہیں۔ طلبہ کی وقتی اور فوری طبی امداد کے لیے درس گاہ میں ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویہ موجود رہتی ہیں تاہم ہفتہ میں ایک بار کے لیے ایک مشہور مقامی طبیب کی خدمات اعزازی طور پر حاصل کی گئی ہیں۔ آپ جب تشریف لاتے ہیں تو طلبہ کو حفظانِ صحت کے اصول بھی بتاتے ہیں اور دل چسپ انداز سے خطاب بھی کرتے ہیں۔ بیمار طلبہ کے علاج کے سلسلے میں ہمارے شفیق اور خوش مزاج حکیم صاحب کی خدمات تو بفضلہ ہمہ وقت حاصل رہتی ہیں بوقتِ ضرورت ڈاکٹری علاج کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ غذا سادہ اور وقت پر دی جاتی ہے اس میں بھی صحت کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔

عملی تربیت

دستکاریوں اور حرفوں کے علاوہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے عملاً واقف ہونے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ جسمانی محنت کا عادی بنانے اور ہر کام پر بے جھجک قادر ہونے کے لیے بچوں کے گروپ بنا دیے گئے ہیں۔ ہر گروپ باری باری ہفتہ میں ایک دن اقامتی زندگی کے تمام کاموں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ کمروں اور احاطہ کی صفائی، بچوں کے ناشتہ اور کھانے کا انتظام، نالیوں کی صفائی، تیمار داری، درس گاہ اور سامانوں کی معمولی مرمت، سفیدی کرنا، چار پائی بُننا وغیرہ طلبہ کو سکھایا جاتا ہے۔ طلبہ کی قوتوں کو مفید اور نفع بخش کاموں میں لگانے سے جہاں درسگاہ کے نظم و ترتیب میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے وہیں خود ان میں اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے اور ہر کام پر بے جھجک قادر ہونے کی صلاحیت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ ان کے اس طرح گروپ بنا دینے سے طلبہ کے کاموں کا جائزہ لینے اور ان کی علمی، اخلاقی اور عملی ارتقا پر نظر رکھنے میں یک گونہ سہولت پیدا ہو گئی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اس قدر کم اسٹاف کے ہوتے ہوئے ایک ادارہ کو باقاعدہ چلانا ہمارے لیے از بس دشوار ہوجاتا۔ بیش ازیں یہ کہ طلبہ کو مختلف کاموں کا ذمہ دار بنا دینے سے ان میں شوق کارکردگی، جذبہ اعتمادی اور احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ عمومی ذمہ داریوں کے علاوہ بعض طلبہ پر خصوصی ذمہ داریاں بھی ڈالی گئی ہیں مثلاً چھوٹے بچوں کو نماز پڑھوانا، بستر لگوانا، سامانوں کی دیکھ بھال، سیر و تفریح کے لیے لے جانا، عام صفائی وغیرہ جسے بچے نہایت تندہی سے انجام دیتے ہیں۔

اظہار خیال کی مشق

تحریری و زبانی اظہار خیال کی مشق کے لیے ہفتہ میں چار پریڈ درس کے اوقات میں رکھے گئے ہیں اور مغرب وعشاء کے درمیان بھی اس کا موقع دیا جاتا ہے۔ خود طلبہ کے اجتماعات ہوتے ہیں جن میں انھیں تقریر کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

 دار المطالعہ

ایک استاد کی زیر نگرانی بچوں کا دارالمطالعہ قائم کیا گیا ہے جس میں الحسنات، فردوس، زندگی، وغیرہ رسائل آتے ہیں جن سے طلبہ استفادہ کرتے ہیں۔

بچوں کے قلمی رسائل و اخبارات

بچوں کے حلقہ ادب کا بھی اجتماع وقتاً فوقتاً ہوتا ہے جس سے انھیں … افسانہ، ڈرامہ، مقالہ وغیرہ لکھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض بچوں کے کام قابل تحسین ہیں۔ طلبہ کے دو قلمی رسالے تحفہ اور صبح نو نکلتے ہیں۔ ایک بچہ ہفتہ وار جمعہ جمعہ ایک دو ورقی اخبار نکالتا ہے جس کی پر لطف اور سنسنی خیز گرم گرم چیزیں بچوں کی دل چسپی کا باعث بنتی ہیں۔ الحسنات میں بچوں کی نظمیں وغیرہ بھی شائع ہوتی ہیں۔

کام کا جائزہ

اساتذہ سے ڈائریاں لکھوائی جاتی ہیں اور ہفتہ وار انفرادی ملاقاتوں میں ان کے کاموں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مناسب مشورے اور ضروری ہدایات دی جاتی ہیں۔ طلبہ کے ششماہی اور سالانہ امتحانات ہوتے ہیں جن میں علمی کام کے علاوہ عملی، اخلاقی، ذہنی و جسمانی نشو و ارتقا کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کی رپورٹ سر پرستوں کو بھیج دی جاتی ہے۔

لائبریری

طلبہ کی درجہ وار لائبریری قائم کی گئی ہے۔ مختلف مضامین کی تقریباً تیس تیس کتابیں منتخب کر دی گئی ہیں جن کے مطالعہ کا طلبہ میں شوق پیدا کرایا جاتا ہے۔ کتابوں اور طلبہ کے ناموں کی فہرست درجہ میں آویزاں رہتی ہے جس میں بچے اپنی پڑھی ہوئی کتاب کے سامنے نشان کر کے تاریخ اختتام لکھ دیتے ہیں اور اختتام کے ایک ہفتہ کے اندر اس پر سوالات کرکے مطالعہ سے استفادہ کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔

عجائب خانہ

درس گاہ کا اپنا ایک چھوٹا عجائب خانہ بھی ہے جو تعلیمی ضروریات کے پیش نظر ناگزیر ہے۔ اس میں پرانے اور مختلف ممالک کے سکے، ٹکٹ، طبقات الارض سے متعلق پتھروں کے نمونے، سمندر کے بعض نباتات و حیوانات وغیرہ فراہم کی گئی ہیں۔

تعلیمی سامانوں کی تیاری و فراہمی

مختلف مضامین سے متعلق توضیحی و تشریحی چارٹوں، نقشوں اور دیگر تعلیمی سامانوں کی فراہمی و تیاری بھی درس گاہ کے کاموں کا ایک اہم جز ہے ہم اس طرف توجہ دے رہے ہیں۔ ان شاء اللہ آہستہ آہستہ یہ کام بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ فی الحال کچھ نقشے، چارٹ، ماڈل تیار ہو گئے ہیں۔ کچھ خرید کر فراہم کیے گئے ہیں جو ہیں تو ناکافی مگر بچوں کے لیے مفید ہیں۔

درسی کتب

تعلیم و تربیت کے بارے میں ہمارا جو نظریہ رہا ہے اس کے لحاظ سے مروجہ درسی کتب ہمارے لیے مفید نہیں ہو سکتیں اس لیے ابتدا ہی سے یہ مقصد ہمارے پیش نظر رہا ہے کہ اپنے نصاب کے مطابق درسی کتابیں ہم خود تیار کریں۔ ملیح آباد ہی کے قیام میں ہم نے رمضان کی تعطیلات میں جماعت کے ایسے رفقاء کو مرکز طلب کیا جو درسیات کی تیاری میں ہماری مدد کر سکتے تھے مگر ایک ماہ کے قیام کے باوجود کچھ زیادہ کام نہ ہو سکا۔ گذشتہ سال صرف چند کتابیں شائع ہو سکی تھیں۔ امسال مجلس شوری منعقدہ جنوری ۱۹۵۱ء نے طے کیا کہ ناظم درس گاہ کو کچھ عرصہ فارغ کر کے درسی کتب اور نصاب مکمل کرایا جائے۔ چناں چہ اس کے پیش نظر تقریبًا ایک ماہ کے لیے ناظم درس گاہ کو فارغ کیا گیا اور اب گذشتہ مطبوعات کو بھی نظر ثانی اور کافی ترمیم و اضافہ کے بعد نیز مزید کتب مرتب کر کے پورا سیٹ شائع کیا گیا ہے۔ یہ سیٹ مندرجہ ذیل کتب پر مشتمل ہے۔

(۱) قاعده نسخ و نستعلیق (۲) ہماری کتاب پہلا حصہ (۳) ہماری کتاب دوسراحصہ (۴) ہماری کتاب تیسرا حصہ (۵)ہماری کتاب چوتھا حصہ (۶) ہماری کتاب پانچواں حصہ (۷) ہماری کتاب چھٹا حصہ۔

اردو کے اس سیٹ کے ساتھ ساتھ سرسری مطالعہ کے لیے تاریخی اخلاقی کہانیوں کا بھی ایک سلسلہ شائع کیا گیا ہے جو ذیل کی کتب پر مشتمل ہے : –

(1) اخلاقی کہانیاں حصہ اول (۲) اخلاقی کہانیاں حصہ دوم (۳) اخلاقی کہانیاں حصہ سوم (۴) اخلاقی کہانیاں حصہ چہارم۔ آسان کہانیاں ہندی کے سیٹ میں بھی ہماری پوتھی پرائمر حصہ اول وحصہ دوم اور حصہ سوئم تیار ہیں۔ چہارم بھی زیر طبع ہے، نصاب بھی جماعت ششم تک مکمل کر کے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ 

 (روداد اجتماع رامپور جماعت اسلامی ہند ۱۹۵۱، ص ۱۵۴۔۱۷۰)

مشمولہ: شمارہ جون 2023

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau