اصلاح معاشرہ

یہ روشن حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں خوش حالی بڑھی ہے، معاشی ترقی میں اضافہ ہوا ہے وسائل میں تیز رفتاری آئی ہے، اوسط آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور عام طور پر لوگوں کا معیار ِ زندگی بلند ہو گیا ہے، لہذا جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کے لئے بھی ترقی کے راستے کھلے ہیںاور ان کو بھی روشنی کی کرنیں نظر آتی ہیں۔

برائیوں كا ظهور

اصلاح معاشرہ خالق کائنات کے نزدیک مستحسن عمل ہے، اور فساد وفتنہ انگیزی نہایت قبیح فعل ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر مختلف پیرایوں میں فساد کرنے والوں کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، ارشاد باری ہے:

ولا تبغ الفساد فی الارض ان اللّٰہ لا یحب المفسدین سورۃ القصص :۷۷

(اورزمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر،اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا)

ایك دور تھاجب ہمارا معاشرہ اسلامی اقدار پر گامزن تھا،ایک دوسرے کے اندر مدد اور نصرت کا جذبہ بدرجہ اتم تھا،مفاد پرستی خود غرضی سے کوسوں دور تھا،مگر پھر قرآن و سنت اور رسالت کی کرنوں سے دور ہوتا گیا،فی زمانہ حالت یہ ہے کہ اب برائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔آج ہم جس معاشرے میں زندگی گزر بسر کر رہے ہیں،اس میں برائیاں پھیلی ہوئی ہیں انسان انسان کے خون کا پیاسا ہے،ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے،زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں ہر شخص دوسرے سے سبقت لینے کی خاطر تمام انسانی حقوق کو پس پشت ڈالنے پر آمادہ ہے۔

اس دور ِ ترقی میں ہر شخص ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے،ہر طرف بے مروتی اور اجنبیت کا دور  دورہ ہے،ہر فردو بشر بے اطمینانی کا شکار ہے،معاشرہ کا امن و سکون مفقود ہو چکا ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ،بندوں کے حقوق ضائع ہو رہے ہیں کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں، پوری قوم رحمت خداوندی سے محروم اور غضب الہی میں مبتلا ہو رہی ہے، معاشرہ کا چین و سکون  ختم ہوتا جا رہاہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ـ:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (سور ۃالروم :۴۱)

(خشکی اور تری میںفساد برپا ہوگیا ہے،لوگوں  کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزاچکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا،شاید کہ وہ با ز آئیں)

اصلاح كی ضرورت

اگرمعاشرہ میں لوگ چین و سکون کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور معاشرہ کو تباہی و بربادی کے گڑھے سے بچانا چاہتے ہیں تو وہ ایک ہی صورت ہے،اور وہ ہے’’ اصلاح معاشرہــ‘‘

انسانیت ہر روز نئے مسائل اور چیلنج سے دو چار ہے،اور ان مسائل کو حل کرنےکے لئے مادی طاقت كافی نهیںہے۔لہذا عصر حاضر میںمعاشرہ کو ایسے وقت میں روشن ہدایات و تعلیمات کی ضرورت ہے ۔ضرورت هے كه ہم ربّ کائنات کی جانب سے نازل کی ہوئی تعلیمات میں غوروفکر کریں ۔

وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون (سورۃآل عمران:۱۰۴)

(تم میںکچھ لوگ تو ایسے ضرور رہنے چاہئییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کاحکم دیں،اور برائیوںسے روکتے رہیں،جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے)

دین اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسانی کوحقیقت سے آگاہ کرے،اور فلا ح و کامیابی سے روشناس کرائے تاکہ ہر شخص ایک دوسرے کے کام آسکے،اور حقوق وفرائض کا پورالحاظ ركھےجس سے معاشرہ کی اصلاح ہو، او ر ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔

اسلام کی تعلیمات ہیں جن کو اللہ رب العالمین نے اپنے نبی محمد عربی ﷺ پر نازل کیا تھا ،اور جن کا مقصد معاشرے کی تشکیل نو ہےان میں حقوق و فرائض کی پاسداری کا خاص خیال رکھا گیا هے۔اخلاق و حقوق و فرائض کی پاسداری فرض اولین ہے۔

تكمیل و ترقی

اسلا م تمام شعبہ ہائے زندگی کی تکمیل اور ترقی چاہتا ہے، اسلام کی بعثت کا مقصد ہی انسانیت کی فلاح و بہبود ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّ اللّہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ وَّالَّذِیْنَ ہُم مُّحْسِنُون( سورہ النحل :۱۲۸)

(اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے،جو تقوی سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں)

تقوی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے ،بدعنوانیوں سے دور رہنے اور اس کے احکام کو نافذ کرنے کانام ہے،تقوی   اختیار کرنے سے انسان برائیوں  سے بچ جاتا ہے اور رشد و ہدایت کی راہ کو اپناتا ہے۔

عصر حاضر میں ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو منصہ مشہود پر لایا جائے تاکہ ایسا معاشرہ وجود میں آسکے جس میں مساوات، عدل و انصاف اور امن و سکون  ہو،جس میں ہر شخص کو طمانیت قلب کے ساتھ اپنے فرائض کو انجام دینے کی آزادی ہو اور وہ چین وسکون کے ساتھ زندگی گزارنے پر قادر ہو۔

غالب مغربی تہذیب کا بنیادی روگ مادہ پرستی ہے  جس نے انسان کو زندگی کے اقدارسے دور کر دیا ہے دنیا کا کوئی بھی خطہ اس خرابی سے آزاد نہ رہ سکا۔ اعلیٰ انسانی اقدار ختم هوئیں اور بگاڑنےپوری انسانیت کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ۔

عصر حاضر اس کا متقاضی ہے کہ معاشرہ میں امن کی بقا،قیام امن وسلامتی،عدل و مساوات، كے لیے كوشش كی جائے۔ اعلی انسانی اقدار، مذہب و عقیدہ کی آزادی،رواداری پر توجه هو۔ انسانی جان کا تحفظ،انسانی جذبات کا احترام،تعلیم و تربیت كا اهتمام کیا جائے۔

تنوع كا لحاظ

اصلاح معاشره ہماری دینی و اخلاقی ذمہ دار ی ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تشكیل پانے والا معاشرہ  بڑی کشادگی اور گنجائش رکھتا ہے، اور تنوع کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتاہے۔معاشرہ کو اس حقیقت سے آشنا ہونا چاهیے كه انسانی اقدار کی حامل انسانی تہذیب کا احیاء مطلوب ہے جس میں افراد قوموں اور گروہوں کومعقول حدود كے اندر فكر و عمل كی آزادی حاصل هو۔ باہم تعاون كی فضا قائم هو۔  یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو امن و سلامتی تک پہنچا سکتا ہے۔

تشویش ناك بات یه هے كه اخلاقی بگاڑ زندگی کے ہر شعبہ میں گھر کرچکا ہے امانت ،دیانتداری، صدق و عدل ایفائے عہد جیسی اعلیٰ اقدار دن بہ دن کمزور پڑ رہی ہیں۔

دور حاضر میں اصلاح معاشرہ سے متعلق عائد ذمہ داریوں سے لوگ غافل هیں۔ اس لیے مسائل حل نہیں ہوتے فرد کو اس کی ذمہ داری کے سلسلے میں باشعور بنانا ضروری ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

وَالْعَصْرِإِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ  (سورہ العصر: ۱۔۳)

(زمانے کی قسم، انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے)

خلاصہ بحث

عصر حاضرکے چیلینجیز ہمارے سامنے ہیں،ان کامقابلہ ،اور اصلاح عصر حاضر کی اہم ضرورت ہے، اگر ہم وقت کے تقاضہ کو نہیں سمجھیں گے اورجو چیلینجیز ہیں ان کا مقابلہ نہیں کرینگے تو معاشرہ کا امن و سکون مفقود ہو جائیگا۔اسلامی تعلیمات کی راہ میں  جو چیزیں سدراہ بنی ہوئی ہیں ان کا خاتمہ کرنا لازم ہے۔

قرآن کریم کی تعلیمات اور رسولﷺ کی پاکیزہ زندگی کا مکمل اسوہ ہماری اصلاح اور رہنمائی کے لئے کافی ہے اس حقیقت پر تاریخ گواہ ہے کہ یہی دونوں سرچشمے انسانیت کی فوز و فلاح  کے ضامن ہیں۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2019

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau