اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ یہ دین دائمی عالمگیر اور ناقابل تنسیخ ہے۔پہلے نبی حضرت آدمؑ سے لے کر آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کرام نے اسی دین کی دعوت دی ہے۔اس دین کی اساس توحید، رسالت اور آخرت کے یقین کامل پر ہے۔اللہ کی عبادت اور رسول کی اطاعت اس دین کا محور ہے۔ یہی دین اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور دین قابل یقین اور قابل قبول نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے:
وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آل عمران: ۸۵)
’’اور جو کوئی دین اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گا تو وہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں برباد ہوگا‘‘۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری رسول کی حیثیت سے اس دین کی تکمیل کا فریضہ منجانب اللہ انجام دیا۔ اب اس دین میں کسی طرح کا نقص نہیں ہے بلکہ ہر طرح سے کامل اور مکمل ہے۔ اس دین میںکمی یا اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔انسان اسے سمجھنے اور اس کو تسلیم کرنے کے لیے مامور ہے۔حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’اسلام اپنی اس خصوصیت میں ممتاز ہے، یہ د یومالائی قصوں کا دین نہیں ہے، یہ قصے اور کہانیوں کا دین نہیں ہے یہ حقائق کا دین ہے، عقل انسانی کو مطمئن کرنے والا دین ہے۔ اس دین نے آکر آپ کے سامنے جو چیزیں پیش کیں ان کے دلائل بھی اتنے قائم کردئے کہ انسانی عقل اگر صحیح ہو تو اس سے انکار نہیں کرسکتی۔ اس کو قبول کرنے پر مجبور ہے ۔ اللہ نے آپ کو دین کامل دیا، دین مدلل دیا، دین مکمل عطا فرمادیا، اسی لیے اس دین کے اندراللہ نے عقل انسانی کو مطمئن کرنے والے دلائل سے آپ کو مطمئن کردیا۔ (خطبات خطیب الاسلام جلد ۱ ص۶۳ ،دیوبند، ۲۰۰۶ء)
دین کی اساس قرآن و سنت ہے
قرآن کریم اس دین کا دستور العمل ہے اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اس کا عملی نمونہ ہے۔ گویا یہ دونوں چیزیں دین اسلام کا علمی اور عملی معیار اور میزان ہیں۔ اسی لیے نبی کریمؐ نے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں ان دونوں ستونوں کو مضبوطی سے تھامنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اﷲ و سنۃ نبیہ‘‘ (مؤطا امام مالک )
’’میںنے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں اگر تم ان کو مضبوطی سے تھامے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے رسولؐ کی سنت ہے۔‘‘
قرآن کریم اور سیرت طیبہ کے باہمی رشتہ کا تقدس بیان کرتے ہوئے اور ان کو انسانیت کے لیے راہ نجات قرار دیتے ہوئے مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے فرمایا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا تھے، تو آپ نے فرمایا ’’ کان خلقہ القرآن‘‘، آپ کی سیرت آپ کا اخلاق تھا، اس کو تلاوتاً پڑھو تو یہ قرآن ہے اور عملاً دیکھو تو ذات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بن جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیرت پر کلام ہو تو ظاہر ہے کہ وہ قرآن پر کلام ہوتا ہے۔اور قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرمایا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’لا تنقضی عجائبہ ولا یخلق ولا عن کثرۃ الرد‘‘ یہ قرآن کریم وہ ہے کہ اس کے عجائبات کبھی ختم ہونے والے نہیں اور یہ کبھی پرانا ہونے والا نہیں‘‘ (خطبات خطیب الاسلام جلد۱ص۲۳)
امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن و سنت کو خود بھی مضبوطی کے ساتھ پکڑے ا ور د نیائے انسانیت کو بھی ان دونوں مصادر سے روشناس کرائے۔تمام انسانوں کو اس دین کی طرف بلائے اور اس کی روشنی میں اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کو حل کرنے کی دعوت دے۔ یعنی دین اسلام کو خود بھی اپنی زندگی کا نظام بنائے اور اہل جہاں کو بھی اس دین کو اختیار کرنے اور اسے دنیا و آخرت کی سعادت کا ذریعہ بنانے کی دعوت دے۔
دعوت دین کا اساسی موضوع ہے
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے دعوت کو دین کی اساسیات میں شمار کیا ہے اور اسے اسلام کا بنیادی موضوع قرار دیا ہے۔ انھوں نے وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے:
’’اسلام کا اساسی موضوع دعوت ہے۔ دعوت ہی وہ واحد موضوع ہے کہ انسان کی ذکر و فکر کی جوہری قوتوں کے فطری مطالبات کی تکمیل یعنی دعوتی و دینی پر مخاطب کی قوت فکر کے مطالبہ دلیل و برہان کو پورا کرنا اور قوت ذکر کے مطالبہ عروج ہی کی مکمل رہنمائی کرنا لیکن ذکر وفکر کے ان مطالبات کی تکمیل کرنے والے مکمل نظام کی تشکیل، انسانی استطاعت سے باہر ہے کیونکہ شعور ا نسانی دینی دعوئوں پر اگر عقلی دلائل و ثبوت قائم کربھی لے تب بھی اللہ کی ذات و صفات اور عالم غیب تک رسائی کے نظام کی تشکیل نبوت کی رہنمائی کے بغیر خالی ہوگی اور اس مرحلہ پر آکر نبوت کی جانب انسان کی احتیاج کسی دلیل کی محتاج نہیں رہی۔‘‘ (ایضاً ۱/۶۵ )
تحفظ دین کے طریقے
مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی نظر میں سابقہ شریعتیں اس لیے ختم ہوئیں کہ ان کے تحفظ کی ذمہ داری ان کی قوموں پر تھی۔ جب وہ قومیں منحرف ہوئیں تو شریعتیں ختم ہوگئیںمگر ا سلام کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ پر ہے، اس لیے یہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ مولانا فرماتے ہیں:
’’حق تعالیٰ نے دین کے تحفظ کے دو طریقے جاری فرمائے ہیں، پہلا یہ کہ قدیم اقوام کو ان کا محافظ قرار دیا گیا اور دین ان کے حوالہ کیا گیا لیکن ظاہر ہے کہ نہ وہ باقی رہنے کے لیے آئے تھے اور نہ باقی رہے ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ (آل عمران:۱۸۵) کے تحت ان کے ختم ہونے کے ساتھ وہ ادیان بھی ختم ہوگئے۔
یکے بعد دیگرے پیغمبر آتے رہے اور شرائع میں تبدیلیاں کی جاتی رہیں لیکن خاتم الانبیاء علیہ السلام کو جو دین دیا گیا اس کے بارے میں ’’لا تبدیل لکلمات اللّٰہ‘‘ (سورہ یونس: ۶۴) فرمادیا گیا۔ یعنی دین میں ذرہ برابر قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد ذمہ داری متبعین نبوت پر آجاتی ہے،اس لیے اب آپ حضرات ہی اس کے اصل ذمہ دار ہیں۔‘‘(دینی اور فقہی مذاہب و مسالک، ص ۶، ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۲۰۰۸ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جتنے انبیاء کرام تشریف لائے وہ سب اللہ کے دین کے داعی تھے اور اللہ کی طرف اس کی دعوت دینے کے لیے مامور تھے۔انبیاء علیہم ا لسلام کا کام دین کی دعوت دینا تھا، اور ان کی امتوں کا کام اس دین کی حفاظت کرنا تھا، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کے داعی بھی تھے اور محافظ بھی۔ آپ کے بعد یہ ذمہ داری علماء کرام پر عائد ہوئی کیوں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہیں اور وہ اپنے فرائض میںانبیاء بنی اسرائیل کے ہم رتبہ ہیں۔ اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مولانا سالم قاسمیؒ نے فرمایا:
’’ختم نبوت سے قبل دعوت کی تمام تر ذمہ داری انبیاء علیہم السلام سے متعلق تھی اور وہی یکے بعد دیگرے اس فریضے کی ادائیگی فرماتے رہے۔ لیکن خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد، آپ کے دائمی منصب نبوت سے یہ امت اس طرح مستفید ہے کہ دعوت دین جو انبیاء کرام کا وظیفہ حیات تھا ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ فرما کر اس شرف عظیم سے علماء امت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرف فرمادیا گیا۔ اور اس حدیث کے مطابق یہ خیر الامم چند صحابہ کرام سے نہ کبھی غیر معمولی علمی تبحر رکھنے والے علماء کرام سے خالی ہوئی اور نہ صاحب عرفان مربی اولیاء عظام سے کبھی محروم ہوئی۔‘‘ (خطبات خطیب الاسلام ۱/۶۴)
امت کی بقا دعوت دین سے وابستہ ہے
امت مسلمہ کی بقا کا راز اس دین سے وابستگی اور اس کی اشاعت میں پنہاں ہے۔ انسان فانی ہے اور دین باقی ہے۔ امت باقی رہ سکتی ہے تو صرف دین کے ساتھ، اس سے الگ ہو کر فنا ہوجائے گی۔ مولانا سالم قاسمیؒ نے فرمایا :’’درحقیقت ہم باقی رہنے والے نہیں لیکن دین باقی رہنے والا ہے۔ ہمیں اگر اپنی بقا چاہیے تو دین کے دامن کو تھامنا ہوگا۔ باقی کا دامن آپ نے تھام لیا تو آپ بھی باقی رہ جائیںگے اور اگر آپ نے دامن نہیں تھاما تو آپ کی بقا کی کوئی ذمہ داری موجود نہیں ہے۔‘‘ (خطبات خطیب الاسلام ۱/۱۱ )
اسلام دین فطرت ہے اور اس کی دعوت و اشاعت بھی فطری طریقہ سے ہوسکتی ہے۔ چونکہ اسلام رہتی دنیا تک اپنا فیض جاری رکھے گا اس لیے اس کے ماننے والوںکے لیے ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی دعوت کو اپنی پہچان کا ذریعہ بنائیں۔ مسلمانوں کے باقی رہنے کا راز اسلام کی دعوت میں پنہاں ہے اگر وہ دین کی دعوت سے وابستہ رہیںگے تو انشاء اللہ ان کو مٹایا نہ جاسکے گا۔ مولانا سالم قاسمیؒ فرماتے ہیں:
’’تاریخ کی انمٹ شہادتوں کے مطابق اسلام ہی وہ واحد زندہ و پائندہ دین ہے کہ ہر دور میں اس کے مٹادینے کے بدنہاد خواہشمندوں کو صرف اس کی قوتِ دعوت ہی نے ذلت ناک شکستوں سے دوچار کیا ہے، جس کی اولین بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام و دیگر مذاہب عالم کی طرح صحت و سقم اور صدق و کذب کے احتمالات رکھنے والے محض عقلی فلسفوں پر مبنی نہیں بلکہ اس کی اساس، وحی ربانی کے ان فطری اور نفسیاتی اصولی ہدایتوں پر قائم ہے کہ جو براہِ راست سلیم الفطرت انسانی پر مؤثر ہونے کے لیے کسی بیرونی مؤبد قوت کے ضرورت مند ہیں۔ (ایضاً ۱/۶۳ )
دعوت کا محور توحید ہے
عقائد عبادات، اخلاق، معاملات، معیشت و معاشرت اور تمدن تک اس دین کے بہت سے پہلو ہیں۔ مگر ان سب کا محور توحید باری یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ہے، ایک ہی خدا معبود ہے، قانون ساز ہے، خالق و مالک ہے، حاکم و فرماں روا ہے اور وہی یوم جزا کا مالک ہے، توحید اسلام کا اساسی محور ہے، اسی پر پورا اسلامی نظام قائم و دائم ہے اور اسی کی دعوت اساسی ہے۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’توحید اسلام کا محوری نقطہ ہے جس کی صداقت ، حقانیت اور واقعیت پر مخلوق کائنات کے ذرہ ذرہ کو خلاق فطرت نے گواہ پیدا کردیا ہے۔کائنات کی بے شمار مخلوقات مادہ توحید کی گواہ بنی ہوئی ہیں جبکہ مادہ اس کا خالق نہیں بلکہ واقعۂ موجود ہے۔ اور کلام وغیرہ کی کمالی صفات سے محروم ہے اور اس کی کمالی صفات سے محرومی ہی اس کو اس خالق کائنات کامحتاج بنا دیتی ہے کہ بے قدر لاشریک و واجب الوجود ہے، کی ذات واحد کو اسلام نے اللہ رب العزت کے نام نامی سے واقف بنا کر انسانیت کو معزز و مفتخر فرمایا ہے۔ اس لیے دعوت کا بنیادی نقطہ اسی خالق کائنات تک رسائی ہے جس کا وسیلہ صرف اللہ کی حاصل ہونے والی نبوت اور مظہر صفت ربانی و کلام اللہ کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ (خطبات خطیب الاسلام ۱/۶۴)
دعوت وسیع اصطلاح ہے
دعوت ایک وسیع اصطلاح ہے جس میں اساسیات دین کی دعوت سے لے کر اسلامی نظام زندگی کے ہر شعبہ کی ابلاغ و ترسیل اور اس کا نفاذ شامل ہے۔ مولانا محمد سالم قاسمی کی نظر میں دعوت اسلام کا میڈیا ہے۔ اس کے ذریعہ سے اسلام کے نظری عقائد اور عملی احکام کو انسانوں کے ذہن و قلب تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ مولانا محمد سالم صاحبؒ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(۱) قرآن کریم نے ’’میڈیا‘‘کے لیے انتہائی وسعی المعنی اور جامع ترین لفظ ’’دعوت‘‘ استعمال کیا ہے جو اس کی تمام اصول و فروع میں پیوست صادقانہ حیثیت کو واضح کرنے کے لیے ایک ایسا لفظ ہے کہ جس کا بدل کسی زبان و لغت میں موجود نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی آیت اس مفہوم پر شاہد عدل ہیں۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَجِیْبُواْ لِلّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُم لِمَا یُحْیِیْکُمْ ( اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور رسول کا جس وقت بلائے تم کو اس کام کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے) یا اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (بلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی طرح(… ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف (اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا)۔
(۲) لفظ دعوت کے وسیع مفہوم میں داعی کی یہ صفت بھی پورے طور پر شامل ہے کہ وہ اپنی دعوت پر یقین کامل رکھتا ہو، یعنی اس کے ظاہر و باطن پر اس کے آثارمدعو کو متاثر کرنے والے ہوں۔
(۳) ’’دعوت‘‘کی قرآنی تعبیر میں مدعو کے لیے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا مفہوم بھی داخل و شامل ہے اور یہ ہی چیز دعوت کی کامیابی و ناکامی کا معیار بنتی ہے۔
(۴) لفظ ’’دعوت‘‘ اس مفہوم کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ داعی اس کو پہنچائے تو وہ طاعت و عبادت ہے اور نہ پہنچائے تو کتمان علم ہے۔
(۵) ’’دعوت‘‘ نئے اور مؤثر اسالیب کے تجسس و تلاش کا بھی امکان اپنے اندر رکھتی ہے یعی مخاطبین کے اعتبار سے جدت تعبیر ہی دعوت میں پُرتاثیری کا فطری ذریعہ بنتی ہے۔ ‘‘ (خطبات خطیب الاسلام ۱/۱۰۷، ۱۰۶)
اسلام کی دعوت دینے کے لیے جہاں دین کے عقائد و احکام اور علوم کی معرفت ضروری ہے وہاں دعوت دینے کے طریقہ میں معقولیت اور حکمت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ دین کی حقانیت کو ا گر حکمت کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا تو دعوت کی ناکامی کے ساتھ دین کی بدنامی کا اندیشہ ہے۔ اسی لیے قرآن پاک نے حکم دیا ہے کہ ’’اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (النحل: ۱۲۵) اپنے رب کی راہ پر بلائو لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کرو عمدہ طریقہ سے۔
دین قبول کرنے میں آزادی ہے
اسلام کی دعوت، فکر و نظر اور اخذ و قبول کی آزادی پر قائم ہے۔ اسلام دین کے معاملہ میں زور زبردستی اور جبر و اکراہ کو پسند نہیں کرتا۔ وہ صاف اعلان کرتا ہے کہ افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین (یونس: ۹۹ ) کیا تم لوگوں کو مجبور کروگے کہ وہ ایمان لے آئیں۔ اس آزادی کی وجہ بھی معقول ہے۔ تلوار کی طاقت سے کسی کی گردن کاٹی اور جھکائی تو جاسکتی ہے مگر دل کے اندر کلمۂ توحید کو ڈالا نہیں جاسکتا۔ دعوت دین دلوں میں افہام و تفہیم اور سوز دروں کے ذریعہ سے ہی داخل ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ایک طرف تو دین سے کما حقہ واقفیت، اس کی حقانیت پر شرح صدر اور اس کو پیش کرنے کا جذبۂ بیتاب لا زم ہے۔ دوسری طرف استدلال کی قوت، فکر و نظر اور بصیرت بھی ضروری ہے تاکہ مخاطب کے ذہن و دماغ کو بھی مطمئن کیا جاسکے اور اس کے دل میں اترنے کی بھی راہ نکل سکے۔ حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے اسلام کی دعوت کے اس نکتہ کو نہایت معقول طریقہ سے بیان کیا ہے اور فکر و نظر کی آزادی کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’کسی مذہب کی دعوت یا کسی مخصوص نظریہ حیات کی پیش کش کی صورت میں مخاطب کو اس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کے مکمل اختیار کا دیا جانا ایک ایسا مسلّم اور ناقابل اختلاف متین ضابطہ ہے کہ تمام معقولیت پسند انسانی طبقات میں کبھی اور کہیں بھی یہ ضابطہ دو رایوں سے دو چار نہیں ہوا۔ اس ضابطہ مسلمہ کو جذباتیت یا غیظ و غضب یا جہالت کے تحت قبول نہ کرنا وہیں سر ابھارتا ہے کہ جہاں مدعی کا فکر و ذہن اپنے دعاوی پر دلائل قویہ سے خالی ہو یا طریق اثبات کی قوی اور مسکت صلاحیت سے عاری ہو۔‘‘ (ایضاً ۲/۴۰)
علماء کی تربیت ضروری ہے
دین اسلام کی دعوت دینے کے لیے داعیان اسلام کی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد تیار کرنے کی ضرورت ہے جو دین کے احکام اور حکمتوںسے واقف ہوں اور حالات و زمانہ کی رعایت کے ساتھ دنیاے انسانیت تک اسے ذمہ داری کے ساتھ پہنچائیں۔دینی مدارس کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا کہ اللہ کی کتاب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعت کے تفصیلی احکام کی تعلیم کا جامع نظام بنایا جائے اور ایسے علماء تیار کیے جائیں جو نہ صرف شریعت مطہرہ کے محافظ ہوں بلکہ دین کی دعوت کے حامل ہوں۔ چنانچہ دین کی دعوت مدارس اسلامیہ کے بنیادی مقاصد میں شامل رہی ہے۔ دعوت دین کے سلسلہ میں علماء سے جو کوتاہی ہورہی ہے اس کا ازالہ خود مدارس کے علماء کو کرنا چاہیے۔ حضرت مولانا سالم قاسمیؒ نے جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ کے سیمینار دعوت اسلامی اور مدارس دینیہ منعقدہ ۲۵؍ فروری ۲۰۰۵ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’دعوت اسلامی مدارس دینیہ کا ہر دور میں اہم ترین مقصد اور بنیادی موضوع رہا ہے اور آج بھی انتہائی متعصب اور مقتدر محاذوں پر شدید نبردآزمائی کے ساتھ ملت کی اسلامی ، ملی اور قومی پہچان کی برقراری کی اور دعوتِ اسلامی کے فریضہ کی متوکلاً علی اللہ ادائیگی کی عظیم خدمت بمدد خداوندی یہی مدارس انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے مطابق ثمرات و نتائج حسب توقع سامنے نہیں آرہے ہیںبلکہ ملت اسلامیہ دین و توحید کے مزاج وحدت کے برخلاف تفریق و تقسیم کے دائروں میں بٹتی ہی چلی جارہی ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کی تولید کی حقیقی وجہ بھی مدارس اور علماء کرام ہی ہیں ا ور اس کو ختم کرنے کی اہلیت و صلاحیت بھی علماء کرام کے سوا کسی دوسرے میں نہیںہے۔ اس صورت حال میں بہ سلسلہ دعوت تجربہ میںآئی ہوئی کوتاہیوں کا سد باب کیے بغیر کسی دعوتی نظام کی تشکیل احقر کے گمان غالب میں کما حقہ ثمر آور اور نتیجہ خیز نظر نہیں آتی۔‘‘ (مجموعہ مقالات سمینار منعقدہ ۲۵-۲۷؍ فروری ۲۰۰۵ء،ادارہ علمیہ ، جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ ۲۰۰۶ء)
دعوت امت کی ذمہ داری ہے
اگرچہ دین کی دعوت دینے کی ذمہ داری اصلاً علماء پر عائد ہوتی ہے جو کہ نائب رسول ہیں اور وہی اس دین کے رمز آشنا اور اولوالامر ہیں۔ مگر امت مسلمہ اس ذمہ داری سے الگ نہیں ہے۔ بحیثیت امت محمدیہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دین کو سیکھیں، سمجھیں اور دنیاے انسانیت کے سامنے اس کی دعوت پیش کریں۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں کام کرنے والے مسلمان اپنے ہم پیشہ اور ہم نشیں انسانوں کو اللہ کے دین کی طرف بلائیں۔ یہ ان کی دینی اور سماجی ذمہ داری ہے۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے پوری امت کو د عوت د ین کا مجاز اور کارکن بنایا ہے۔ حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے امت مسلمہ کی اس ذمہ داری پر روشنی ڈالتے ہوئے جامع مسجد پپرمپیٹ مدراس میں ارشاد فرمایا:
’’اس امت کی ذمہ داری تمام امتوںکے مقابلے آکر بڑھ جاتی ہے اور تمام دنیا کے انسانوں کو ذکراً و فکراً مطمئن کرنا یہ امت محمدیہؐ کی بنیادی ذمہ داری کے اندر شامل ہے۔اس ذمہ داری کو اپنے اپنے دائرے کے اعتبار سے ادا کرنا ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے، اس لیے اس دین کی عظمت کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جتنا جانتا ہو اس کو پہنچادے اور اگر تم نہیں جانتے تو فرمایا کہ : وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِیْ إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ(الانبیاء: ۳۰۷)
’’ اور پیغام نہیں بھیجا ہم نے تجھ سے پہلے مگر یہی مردوں کے ہاتھ وحی بھیجتے تھے، ہم ان کو سو پوچھ لو یاد رکھنے والوں سے اگر نہیں جانتے۔ ‘‘ (خطبات خطیب الاسلام ۲/۳۴۵)
دعوت دین کی نہ کہ مسلک کی
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی نگاہ مختلف مسالک، مذاہب اور مشارب کی دعوتی و تبلیغی کوششوں پر تھی۔ وہ امت کے مختلف گروہوں کی دعوتی سرگرمیوں سے واقف تھے اور مسلک و مشرب اور جماعت کی حد بندیوں سے آگاہ تھے۔ اس تناظر میں وہ کسی مسلک و مشرب یا جماعت کی طرف بلانے کو دعوت کا کام نہیں قرار دیتے تھے بلکہ اس کو دین کے مزاج کے منافی سمجھتے تھے۔ وہ براہ راست دین کی طرف بلانے یعنی دین کے ا صولوں کی دعوت دینے کو دعوت دین قرار دیتے تھے۔
اسلامی فقہ اکیڈمی کے سترہویں اجلاس مؤرخہ ۱۵؍ اپریل ۲۰۰۸ء بمقام برہان پور، علماء، فقہا اور مفتیانِ کرام سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے فرمایا:
’’فقہا کا مستنبط کردہ قانون اسلامی دین کے درجہ میں نہیں ہے، دین وہ ہے جو منزل من اللہ ہے، جس میں عقل انسانی قطعاً دخیل نہیں ہے، ظاہر ہے کہ جس کے اندر عقل انسانی دخیل ہو تو وہ قابل تبلیغ نہیں ہوسکتا، قابل تبلیغ صرف دین منزل من اللہ ہی ہوگا۔ بخلاف مذاہب فقہا کے کہ وہ عقلاً اجتہادی اور استنباطی ہیں۔ اس لیے ان کا درجہ ترجیحی تو ہوسکتا ہے تبلیغی نہیں ہوسکتا۔ اگر ان کو درجۂ تبلیغ دے دیا جائے تو یہ دین منزل کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ اس لیے کہ دین میں کسی اختلاف، کسی تضاد کا امکان نہیں ہوتا، بخلاف مذہب کے کہ اس میں استنباط و استدلال عقلی کی وجہ سے اختلاف کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ ‘‘ (دین اور فقہی مذاہب و مسالک،ص۱۱)
اس دور میں مسلکی تحزب و تعصب بڑھ گیا ہے۔ دین کی عظمت اور وقعت نظروںسے اوجھل ہوگئی ہے اور مسلک و جماعت سے جذباتی وابستگی نے اسے دین کی جگہ لا کھڑا کیا ہے۔ اپنے مسلک کی دعوت دینا اور اپنے فروعی مسائل کو کلی حیثیت دے کر ان کو قبول کرنے پر اصرار کرنا بعض علماء کا مشغلہ بن گیا ہے۔ وہ اپنے مسلک کی اشاعت کو فریضہ دعوت سمجھتے ہیں اوراسے تھوپنے کو جہاد سمجھتے ہیں، اس معاملہ میں تشدد سے کام لیتے ہیں جولوگ ان کے پیش کردہ تصورات کو قبول نہ کریں بسا اوقات ان کو دین کے دائرہ سے خارج کردیتے ہیں۔ مسلکی تعصب و تنگ نظری کے اس ماحول میں حضرت مولانا سالم قاسمیؒ کا یہ اصرار ہےکہ دعوت صرف دین کی دی جائے مذہب و مسلک کی دعوت سے گریز کیا جائے، یہ نکتہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور امت کو اس کے اصل سرچشمہ سے وابستہ کرنے کی عالمانہ اور حکیمانہ کوشش ہے۔ مولانا سالم قاسمی ؒعلماء سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مذہب قابل تبلیغ نہیں ہوتا صرف قابل ترجیح ہوتا ہے، ضرورت جب پیش آئے تو دلائل کی قوت پر آپ کسی بھی فقہی مذہب کو اختیار کرسکتے ہیں۔ لیکن ان فقہی مذاہب کی دعوت دینے کا آپ کوحق نہیںدیا جائے گا کیوں کہ دعوت دیے جانے کا حق دار صرف دین ہے۔ انبیاء کرام صحابۂ کرام، علماء کرام یہ سب دین ہی کی دعوت دیتے رہے ہیں۔‘‘ (دین اور فقہی مذاہب و مسالک،ص۱۱، ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی ۲۰۰۸ء)
عصر حاضر میں دین اسلام کی حقانیت اور جامعیت کا تقاضا ہے کہ علماء اور داعی حضرات دین کی اساسیات پر اپنی دعوتی سرگرمیوں کو مرتکز کریں۔ بندگانِ خدا اور تشنگانِ دین کو اسلام کی اساسیات سے روشناس کرائیں۔ مسلکی، مشربی، گروہی خیالات و روایات کی دعوت نہ دیں۔ مولانا سالم قاسمیؒ نے اس پر زور دیتے ہوئے علماء کرام سے فرمایا :
’’اللہ کی توحید کے ساتھ اس کی طرف سے آنے والی تمام ہدایات و احکامات کے اقرار و اعتراف کا نام دین ہے اور اسی دین کو حق تعالیٰ نے شرع لازم قرار دیا ہے۔ اسی کے لیے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا اور اسی کے لیے اولیاء اللہ ذریعہ اثبات بنتے ہیں۔ اس کے برخلاف نہ کوئی چیز لائق قبول ہے اور نہ اس کے سوا کسی چیز پر اجر و ثواب دیا جاتا ہے۔‘‘ (مجموعۂ مقالات سیمینار ۲۵،۲۷فروری ۲۰۰۵ء، جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ)
دین کی دعوت امت کی وحدت کا ذریعہ ہے
مسلک و مشرب و مکتب فکر کے بجائے صرف دین حنیف کی دعوت دینا دین اسلام کی حفاظت و اشاعت کا موثر ذریعہ ہے اور امت مسلمہ کے اندر وحدت پیدا کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ امت مسلمہ اگر اپنی ترجیحات میں دعوت دین کو شامل کرلے تو وہ داخلی انتشار سے محفوظ رہ سکے گی اور دین اسلام کی اشاعت و ترقی کو بھی یقینی بنا سکے گی۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے ان مقاصد کے حصول کے لیے امت مسلمہ کے بالغ نظر افراد سے فرمایا :
’’دعوت اسلامی ایک حتمی ضرورت ہے اس کی تکمیل کے لیے عصر حاضر میں منجملہ فرائض یہ بھی ہے کہ مذاہب فقہیہ کی اور مسالک و مکاتیب فکریہ کی تبلیغ کی ممنوعیت کو علماء کرام ایک مستقل حیثیت دیں اور اس ذوق شرعی کی زیادہ سے زیادہ ہمت افزائی فرمائیں کہ علماء کرام ا سٹیج پر صرف تبلیغ دین منزل کو اپنائیں۔ یہ طرز ملت میںفکری وحدت کی بنیاد پر قبول دعوت اسلامی کا واحد وسیلہ بن سکے گا اور کار دعوت کو خیر القرون کے بابرکت و مؤثر طرز و طریق سے باہر نہ ہونے دیا جائے، اسی طرز نبوت نے فطرت اور شعور انسانی پر اپنی پر تا ثیری کو کسی حجت و برہان کا ضرورت مند نہیں رہنے دیا ۔‘‘ ( ایضاً)
دعوت کے لیے میڈیا کا استعمال
اس زمانہ میں ذرائع ابلاغ اور وسائل نشر و اشاعت نے وسعت، سرعت ا ور قوت حاصل کرلی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ عوام کوبنانے اور بگاڑنے میں ، اطلاعات اور معلومات کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانے میں اور انسانی ذہن سازی میںمیڈیا کا رول بڑھ گیا ہے۔ باطل قوتیں اس کا استعمال کررہی ہیں، مشرکانہ اور ملحدانہ خیالات کی اشاعت میں اس سے کام لے رہی ہیں۔ مگر مسلمان اس میڈیا کا اسلام کی دعوت اور دین حق کی اشاعت کے لیے استعمال نہیں کر پارہے ہیں۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے اسے محسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’بصد افسوس اس ناقابل انکار حقیقت کا اظہار بھی ناگزیر ہے کہ یہ ضروری ذرائع ابلاغ دنیا کے سب سے پہلے اور سب سے آخری بین الا قوامی دین فطرت اسلام کو کما حقہ میسر نہیں ہیں اور جس درجہ میں میسر بھی ہیں تو ان کا استعمال اسلام کے لیے برمحل نہیں ہورہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلم ارباب فکر ا کیسویں صدی کے استقبالیہ ا یجنڈے میں اسلامک میڈیا کو اسی اہمیت کے ساتھ شامل فرمائیں کہ اسلام جس کا بجاطور پر ہی نہیں بلکہ لازمی طور پر مستحق اور ضرورت مند ہے۔‘‘ (خطبات خطیب الاسلام ۱/۳۵۸ )
باطل ہتھیاروں سے لیس ہو کرحق کو مغلوب کرنے اور انسانی دل و دماغ کو مفتوح کرنے کی کوشش کررہا ہے، تو دعوت حق کے علمبرداروں کو بھی ابلاغ کے وسائل کا استعمال کرنا چاہیے۔ دین حق کو ہرفرد بشر تک پہنچانے کی سعی کرنی چاہیے۔اور معاصر ذہن کو اسلام کا مخاطب بنانا چاہیے۔
نئے مدارس کی ضرورت
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے موجودہ زمانہ میں عصری اسلوب میں اسلام کی دعوت کے لیے روایتی دینی مدارس کے علاوہ ایسے مدارس کے قیام پر زور دیاہے جہاں قدیم علوم اور جدید علوم کا امتزاج داخل نصاب ہو۔ وہاں مدعو قوم کی زبان اور ثقافت کو سکھانے کا اہتمام ہوتاکہ ایسے افراد تیار ہوسکیں جو مخاطب قوم کے ذہن اور زبان سے واقف ہوں۔ عصری تقاضوں کے مطابق ان کو دین کی طرف بلا سکیں اور ان کے قلب و ذہن پر اسلام کی حقانیت کا نقش مرتسم کرسکیں۔ مولانا سالم قاسمیؒ نے ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو دہلی کی حج کانفرنس میں اپنے صدارتی خطبہ میں ارشاد فرمایا:
’’پیش آنے والے اس دشوار ترین مرحلے کا کامیاب حل اس کے سوا دوسرا نہیں ہے کہ عصری اور دینی علوم کی جامع نئی درس گا ہیں قائم کی جائیں اور قدیم صالح اور جدید نافع کے حامل ایسے علماء تیار کیے جائیں کہ جو اکیسویں صدی کی متوقع زبردست مادی ترقی سے نئی مسلم نسل کے سامنے آنے والے نئے سوالات، نئے شبہات، نئے اعتراضات اور نئی تلبیسات کے نہ صرف جوابات دے سکیں بلکہ مانوس افکار و نظریات کو ملحوظ رکھ کر ان کی محبوب زبان و اصطلاحات کے ذریعہ انہیں مطمئن بھی کرسکیں اور نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کتاب و سنت کی روشنی میں معقول دلائل کے ساتھ ان کے تار پود بکھیر سکیں۔‘ ‘(خطبات خطیب الاسلام ۱/۳۵۶)
خلاصۂ کلام
حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ دین کی دعوت کے محرم راز تھے۔ اس کے اصولی اور فروعی مسائل کے رمز آشنا تھے۔ اس راہ کی مشکلات سے آگاہ تھے۔ ان کے دل میں دین کی محبت اور اس کی اشاعت کی تڑپ تھی۔ وہ دین اسلام کو غالب دیکھنا چاہتے تھے۔ د عوت دین کا مؤثر طریقہ سنت رسول اور سلف صالحین کے منہج کو سمجھتے تھے۔مسلک و مذہب کے اختلاف سے بلند ہو کر صرف دین کی دعوت کے قائل تھے دعوت کا محور توحید کو قرار دیتے تھے۔ مولانا محمد سالم قاسمیؒ دین کی دعوت دینے کے لیے نئی نسل کو نصیحت کرتے تھے۔ مدارس کے نظام ا ور نصاب میں دعوت دین کا عنصر شامل کرنے کی تلقین کرتے تھے اور دعوت دین کے لیے جدید ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کرنے پر زور دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی فکر اور درد سے نئی نسل کو آشنا کردے۔
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
مشمولہ: شمارہ نومبر 2018