اس ماہ (نومبر 2024) جماعتِ اسلامی ہند کے ارکان کا کل ہند اجتماع حیدرآباد میں منعقد ہونے جارہا ہے۔ اپنے قیام کے بعد ہی سے جماعت اجتماعات منعقد کرتی رہی ہے۔ قیام کے فوری بعد پہلے اجتماع (اگست 1941) ہی میں یہ بات طے ہوگئی تھی کہ:
”جماعت کےارکان کا اجتماع ہر سال کیا جائے، جس کے لیے موسم اور دوسرے اعتبارات سے مارچ کا مہینہ موزوں رہے گا“۔[1]
جماعت کے اجتماعات مختلف دورانیوں سے مسلسل منعقد ہوتے رہے۔ بعض اوقات یہ اجتماعات عوامی ہوتے یعنی ان میں عام لوگوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی اور بعض دفعہ ارکان جماعت کے مخصوص اجتماعات ہوتے۔ جماعت اور اُس کی افرادی قوت بڑھتی گئی تو ان اجتماعات کا دورانیہ بھی بڑھتا گیا۔ یعنی کل ہند سطح کے اجتماعات کو مختصر وقفوں کے ساتھ کرنا آسان نہیں رہا ۔ علاقائی، ریاستی، ضلعی وغیرہ سطحوں کے اجتماعات کا رواج زیادہ بڑھ گیا، لیکن مختلف صورتوں میں کل ہند اجتماعات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اجتماعات کیوں؟
کسی خاص مقصد و نصب العین کی خاطر اٹھنے والی ایک نظریاتی تحریک کی ایک بڑی بنیادی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے وابستگان میں ہم آہنگی ہو، فکر وخیال ،سمت و نصب العین اورجذبات و احساسات کا اشتراک ہو اورمشترک مقصد ان کے اندر مشترک ذمے داری کا احساس پروان چڑھائے۔ سب کی آرزوئیں اور تمنائیں ایک ہوں۔ حالات و واقعات کو دیکھنے کے زاویوں میں زیادہ سے زیادہ یکسانیت ہو۔ ایک مضبوط اور ناقابل تسخیرٹیم کی مانند، سب لوگ ایک ہی خواب پلکوں میں سجائے، ایک ہی جذبے کی لہروں کو سینوں میں موجزن کیے، ایک دوسرے کے لیے رفاقت کے گہرے جذبات کے ساتھ ، اشتراک عمل اور قدموں کی غیر معمولی ہم آہنگی کے ساتھ ، ایک منظم فوج کے مارچ کی مانند اپنی مشترک منزل کی طرف آگے بڑھتے رہیں۔
یہ بات غور کرنے سے آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ اس ہدف کا ایک پہلو فکری و نظریاتی ہے اور ایک پہلو روحانی و جذباتی ہے۔فکری ونظریاتی جزو کی تکمیل میں دیگر ذرائع (کتابیں اور مضامین، سرکلر اور ہدایت نامے ، تقاریر اور آڈیو ویڈیو پیغامات، چھوٹے تربیتی پروگرام وغیرہ) بھی کردار ادا کرتے ہیں لیکن روحانی و جذباتی پہلو کی تکمیل کے لیے اجتماعات اور ارکان جماعت کا اپنے پورے وجود کے ساتھ جمع ہونا بھی ضروری ہے۔
اجتماعات کے ذریعے ارکان جماعت کو اپنے فکرو نظریے اور مقصدو نصب العین کی یاددہانی ہوتی ہے۔ یہ یاددہانی دیگر ذرائع سے مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ کل ہند اجتماع میں بے شک کوئی نئی بات نہیں کہی جاتی لیکن ساری جماعت کا اکٹھا ہونا اور اس اجتماع میں بنیادی امور کی پیش کش اور یاددہانی ایک گہرا جذباتی اور نفسیاتی اثر رکھتی ہے۔ملک کے الگ الگ علاقوں سے، الگ الگ زبان بولنے والے، مختلف تہذیبی ، سماجی، معاشی اورتعلیمی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ جب ایک جمع ہوتے ہیں اور مل کراپنے مقصد و نصب العین اور اپنے اصولوں اور قدروں کاذکر کرتے اور سنتے ہیں تو ان کااشتراک بہت زیادہ گہرا ہوجاتا ہے۔
مجمع کی نفسیات (crowd psychology) اور گروہوں کی حرکیات (Group Dynamics)علم نفسیات کی مستقل شاخیں ہیں۔ ان علوم میں اس بات سے بحث کی جاتی ہے کہ جب لوگ کسی ہجوم یا منظم مجمع کی شکل میں جمع ہوتے ہیں تو ان کے خیالات، احساسات اور رویوں پر اس اجتماع کا کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ بات نفسیاتی تحقیقات و مشاہدات کی اساس پر تسلیم کرلی گئی ہے کہ جب افرادکسی مجمع کا حصہ بنتے ہیں تو ان کےرویوں پراس کا اثر پڑتا ہے۔ ایک فرد اکیلے رہ کر جس رویے کا مظاہرہ کرتا ہے،مجمع کا حصہ بننے کے بعد اس سے مختلف رویہ ظاہر ہونے لگتا ہے ۔[2] رویوں میں آنے والی کچھ بڑی تبدیلیاں ذیل میں درج کی جارہی ہیں۔ ان میں سے بعض تبدیلیوں کے منفی پہلو بھی ہیں اورخصوصاً ہجوم کی نفسیات (crowd psychology) کے لٹریچر میں ان منفی پہلوؤں پر ہی زیادہ بحث ملتی ہے لیکن یہ بات بھی ہر جگہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوتی ہے کہ اس نفسیات کے مثبت پہلو بھی ہیں اور جب کوئی بامقصد اور اصول پسند گروہ اپنے اصولوں کی روشنی میں ملتا ہے تو مثبت پہلووں ہی کا غلبہ ہوتا ہے۔ ذیل میں درج تبدیلیوں کوپڑھتے ہوئے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے ہر تبدیلی ایک منظم اجتماعی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی قوت اور اثر پذیری میں اضافے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
پہلی بڑی تبدیلی وہ ہے جسے اصطلاح کی زبان میں ازالہ انفرادیت پسندی (Deindividuation)کہا جاتا ہے یعنی مجمع کا حصہ بن کر لوگ ، جذباتی اور نفسیاتی طور پر ’فرد‘سے’جماعت‘بننے لگتے ہیں ۔[3] ان کا لاشعور انفرادی تشخص (individual identity) کے مقابلے میں اجتماعی تشخص (group identity)کا احساس مضبوط کرنے لگتا ہے ۔ وہ خود کوایک کُل کے حصے کے طور پر تصور کرنے لگتے ہیں اور جذباتی سطح پر اس کُل کے مقاصد اور اس کے مفادات ذاتی مقصد اور مفاد کے تصور پر غالب آنے لگتے ہیں ۔
دوسری بڑی تبدیلی وہ ہے جس کی وضاحت گروپ ڈائنامکس کے ایک اہم نظریے، نظریہ مرکوزیت[4] (Theory of Convergence)سے ہوتی ہے۔اس نظریے کے مطابق نظریہ، فکر، مقصد یا اقدار میں اشتراک رکھنے والے لوگ کسی جگہ جمع ہوتے ہیں تو ان کی مشترک خصوصیات ہر ایک کے اندر مرکوز (converge) ہوکر اور مستحکم ہونے لگتی ہیں۔ یعنی ہر فرد کا اپنے فکر و نظریے، مقصد و نصب العین اور قدروں سے تعلق مزید مستحکم ہونے لگتاہے۔
تیسری بڑی تبدیلی وہ ہے جسے علم نفسیات کی اصطلاح میں ظہور پذیر معمولات[5] (emergent norms)کہا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب فکر ومقصدکا اشتراک رکھنے والے لوگ جمع ہوتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی مقصد رکھنے کے باوجود ان کے درمیان کاموں کے طریقوں اور کلچر کے حوالوں سے بہت سے تنوعات (diversities)بھی پائے جاتے ہیں۔ ان تنوعات کا مجمعوں میں غیر محسوس باہم تبادلہ ہوتا ہے اور نئے معمولات ، نئے طور طریقے اور نیا کلچر فروغ پاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں اور ہر جگہ کے بہتر تجربات پورے مجمع میں عام ہونے لگتےہیں۔
چوتھی بڑی تبدیلی کو اصطلاحی زبان میں سماجی سہولت کاری (social facilitation)كہتے ہیں ۔[6] یعنی افراد کی کارکردگی اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب وہ کوئی کام بہت سے ہم خیال لوگوں کی موجودگی میں کرنے لگتے ہیں۔اس کام کو کرتے ہوئے وہ بہت سے لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اس کی تفصیل راست اپنے کانوں سے سنتے ہیں۔ اس سے ان کاموں کے تئیں ان کا اعتماد اور یقین بڑھ جاتا ہے۔ انہیں انجام دینے کی تحریک اور ترغیب بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح ایک رواں دواں کارواں کے سست رفتار مسافروں کو بھی کارواں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اپنی رفتار بڑھانی پڑتی ہے ،مجمعوں میں بھی سست گام لوگ دوسروں کی تیزی اور فعالیت کا اثر قبول کرنے لگتے ہیں۔ اگر کسی علاقے میں کسی پہلو سے کارکردگی کم زور ہے،تو دوسرے فعال علاقوں کا اثر ان پر پڑنے لگتا ہے۔
پانچویں بڑی تبدیلی ایک اہم نظریے سے ماخوذ ہے جسے متعدی جذبات (emotional contagion)کا نظریہ کہاجاتا ہے۔ [7] اس کے مطابق بعض جذبات بھی وبا کی طرح ہوتے ہیں۔جس طرح مجمعوں میں وبائیں تیزی سے پھیلتی ہیں، اسی طرح جب لوگ کسی مجمع میں جمع ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے جذبات کا اثر تیزی سےاور غیر محسوس لاشعوری طریقے سے قبول کرتے ہیں۔ کسی اچھے جذبے کا ان کے درمیان تیزی سے عام کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ چنانچہ جدوجہد کے لیے موٹی ویشن، قربانی کا جذبہ، لگن اور جان نثاری، عزم و ہمت، استقامت و پامردی، ارادے کی بلندی جیسے متعدد صالح جذبات مختلف طریقوں سے کسی بڑ ے مجمع میں تیزی سے عام کردینا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
ان تبدیلیوں کے حوالے سے یہ خطرہ بھی پیش نظر رہنا چاہیےکہ لوگوں کے اجتماع کی صورت میں یہ تبدیلیاں منفی رخ پر بھی ہوسکتی ہیں۔ جس طرح اچھے جذبات متعدی ہوسکتے ہیں اسی طرح منفی جذبات (مثلاً مایوسی، جمود،شک و شبہ وغیرہ )بھی وبا بن کر سب کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ناقص اور مضر تجربات بھی عام ہوسکتے ہیں۔ غیر صحت مند رجحانات اور نامناسب روایات کی بھی ترویج ہوسکتی ہے۔اپنے غلط رویوں کو دوسروں کے اندر بھی دیکھ کر ان میں مزید استحکام بھی پیدا ہوسکتا ہے۔یقیناً یہ اجتماعات کا ایک منفی پہلو ہے۔منظم اجتماعات میں اس پہلو کا ازالہ منظم پروگراموں سے کیا جاتا ہے۔یعنی ایسے مجمع میں مسلسل اللہ کاذکراوراس کی یاد، ہونے والی تقریریں ، اعلامیے، قراردادیں اور نظم و ضبط سے متعلق اصول و ضوابط، مجمع کو مثبت مشترک خصوصیات کی طرف متوجہ رکھتے ہیں اور ان خصوصیات کو سند دے کرانہیں نئی زندگی اور حرارت فراہم کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جو اجتماعات اپنی شریعت میں رکھے ہیں ان میں بھی اس پہلو سے خاص طور پرہدایات دی ہیں۔ تمام اجتماعی عبادتوں میں ظاہر ی و باطنی طہارت کا ، عبادت گاہوں کے احترام اور ان میں لایعنی گفتگو سے پرہیز کا حکم دیا گیاہے۔ حج کے حکم کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے۔ فَمَن فَرَضَ فِیهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیرٍ یعْلَمْهُ اللَّهُ (جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو، اور تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔البقرہ 197)آگے حج کے دوران خاص طور پر کثرت سے اللہ کے ذکر کی اور توبہ و استغفار کی تاکید کی گئی ہے۔
عام مجلسوں کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ان کی ابتدا حمد و درود سے ہونی چاہیے[8] اور اختتام پر کفارہ مجلس کی دعا ہونی چاہیے ۔ [9] صوفیانہ روایات میں ایک غلط فرد کی موجودگی کی وجہ سے پورے مجمع پر ناپاک اثرات، سب کی دعاؤں کی عدم قبولیت وغیرہ کی حکایتیں بیان کی جاتی ہیں۔ جماعتِ اسلامی ہند کے اجتماعات میں بھی ہمیشہ اللہ کے ذکر کی اور اپنے جذبات کو پاکیزہ رکھنے کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ان اجتماعات میں ہم میں سے ہرایک کو اُسی طرح محتاط رہنا چاہیے جس طرح وبا کے زمانے میں احتیاط برتی جاتی تھی کہ ہماری کسی بے احتیاطی سے کوئی ناپاک جذبہ اور تخریبی رجحان اس بڑے عام مجمع میں ہمارے لیے وبال کا ذریعہ نہ بن جائے۔
اجتماعات اسلامی تعلیمات میں
غالباًانسانی اجتماع کی اسی اہمیت اور اس کے گہرے اثرات کے پیش نظر ، خود اللہ تعالیٰ نے متعدد اجتماعات اور اجتماعی کاموں کو اپنی شریعت کا حصہ بنایا ہے۔ نماز اصلاًبندے اور خدا کے درمیان مکالمہ ہے اور اللہ سے تعلق کا اہم ذریعہ ہے ۔ بظاہر یہ بندے کا خالص ذاتی معاملہ ہے جو اُس کے اور خدا کے درمیان ہے۔ چنانچہ اکثر مذاہب میں عبادت و پرستش اور دیگر روحانی اعمال کے لیے خلوت ، خاموشی اورتاریکی کو پسند کیا گیا ہے لیکن اسلام میں جہاں نفل نمازوں اور تہجد وغیرہ کے لیے اخفا اور انفرادی عبادت کو ترجیح دی گئی ہے وہیں فرض نمازیں جماعت کے ساتھ واجب کی گئی ہیں۔ دیگر اہل ایمان کے ساتھ جب ایک بندہ مومن صف بستہ ہوکر خدا کے دربار میں سجدہ ریز ہوتا ہے تو ایک امت واحدہ ہونے کا احساس پختہ تر ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی تقویت پاتا ہے کہ اس واحد امت کا اصل مقصد رب کائنات کی بندگی ہے۔نمازی مل کر جب قرآن پڑھتے ہیں اور اذکارِنماز کا ورد کرتے ہیں تو مشترک پاکیزہ جذبات مستحکم ہونے لگتے ہیں۔نبی کریم ﷺ جب نماز کی صف بندی فرماتے تو ارشاد فرماتے تھے کہ : استووا، ولا تختلفوا، فتختلف قلوبكم[10] (صفوں میں برابر کھڑے رہو، آگے پیچھے نہ ہو ورنہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑ جائے گی ۔)
ہفتے میں ایک دفعہ مسلمان ایک زیادہ بڑے مجمع کا حصہ بنتے ہیں۔ جمعہ کا واضح حکم خود قرآن مجید میں بڑی تاکید کے ساتھ موجود ہے۔ (سورہ جمعہ آیت 9) جمعہ کے دن کے نام ہی میں مسلمانوں کے اجتماع کی طرف اشارہ موجود ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جمعرات کے بعد آنے والے دن کا نام ’عروبہ‘ تھا لیکن اس دن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہفتہ وار اجتماع کے لیے مختص فرمایا تو اس کانام یوم الجمعة رکھا گیا[11] اور جونماز مسلمان اس دن جمع ہوکر ادا کرتے ہیں وہ صلوۃ الجمعۃکہلائی۔ احادیث میں جمعہ کے لیے خصوصی اہتمام و تیاری کی ، جمعہ میں جمع ہونے اور خاموشی سے خطبہ سننے کی تاکید آئی ہے اور جمعہ کے سلسلے میں لاپرواہی پر سخت وعیدیں بھی آئی ہیں۔[12]
عیدین میں عیدگاہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہونے کا حکم ہے۔[13] خواتین کو عام حالات میں مسجد جانے اور جماعت سے نماز ادا کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدین میں ان کو بھی عید گاہ میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ امرنا ان نخرج العواتق وذوات الخدور (ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں) [14] حتی کہ حائضہ خواتین سے بھی کہا گیا کہ وہ عید گاہ جائیں البتہ نماز سے دور رہیں۔ [15]عیدین میں مسلمانوں کے اجتماع کو اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ رویت ہلال کے اختلاف کی صورت میں اگر کسی مسلمان نے چاند دیکھ لیا لیکن اس کی رویت اجتماعی طور پر قبول نہیں ہوئی تو چاند دیکھنے کے باوجود اسے عید کی اجازت نہیں ہے۔ر وزوں کے سلسلے میں تو الگ الگ رائے ہے کہ انفرادی رویت کے مطابق روزے رکھے جائیں یا اجتماعی فیصلے کے مطابق، لیکن عید کے متعلق اتفاق ہے کہ عید اجتماعی فیصلے کے مطابق ہی ہونی چاہیے، محض انفرادی رویت کی اساس پر نہیں۔ [16]
پنچ وقتہ نمازوں میں محلے کے مسلمانوں کا اجتماع مقصود ہے، جمعہ میں ایک بڑی آبادی کا اجتماع اور عیدین میں پورے شہر کے مسلمانوں کا اجتماع مقصود ہے تو حج کے ذریعہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے اجتماع کا انتظام کیا گیا ہے۔ حج کا جو حکم قرآن میں آیا ہے، اسی سے اس اجتماع کی طرف صاف اشارہ ملتا ہے۔ وَأَذِّن فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ یأْتِینَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ لِّیشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ (اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں۔ الحج 28)
اقبال فلسفہ حج پر روشنی ڈالتے ہوئے کیا خوب کہتےہیں :[17]
طاعتے، سرمایۂ جمعیتے
ربطِ اوراقِ کتابِ ملتے
[حج اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا مظہر ہے، امت کی جمعیت کا سرمایہ ہے۔ ملت کےالگ الگ اوراق (یعنی افراد اور الگ الگ گروہ) اس کے ذریعے مل کر ایک مجلد کتاب میں ڈھل جاتے ہیں]
بڑی مصیبتوں کے مواقع پر، دشمن سے بچاؤ اور امن و امان کی خاطر[18]، بارش نہ ہونے کی صورت میں ، [19] سورج گرہن ، چاند گرہن [20] وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں کو جمع ہونے اور مل کر اجتماعی دعا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
ان عبادات کے علاوہ بھی اسلام کی تعلیمات میں نیک مقاصد کے لیے مسلمانوں کے جمع ہونے کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔ مثلاً ایک مشہور حدیث میں کہا گیا کہ اللہ کی یاد کے لیے جو مجلسیں قائم ہوتی ہیں ان پر رحمت و سکینت کا نزول ہوتا ہے۔[21] ایک حدیث قدسی میں کہا گیا ہے:قال اللهُ عزَّ وجلَّ وجبت محبتی للمتحابِّین فی والمتجالسین فی والمتزاورین فی والمتباذلین فی.( میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر مجلسیں قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہو گئی)۔[22]
ان احكام دین پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اوپر ،اجتماعات کیوں؟ کی ذیلی سرخی کے تحت جو نفسیاتی اسباب ہم نے گنائے ہیں، شارع کے پیش نظر بھی یہ سب مقاصد ہیں۔ یعنی یہ چاہاجارہا ہے کہ مسلمانوں کے اندر ایک امت واحدہ ہونے کا احساس تقویت پائے۔ ایک جگہ جمع ہوکر ،ایک دوسرے کے ایمان اور تقویٰ کا اور مجموعی مثبت روحانی و جذباتی کیفیات کا وہ اثر قبول کریں۔نیک اعمال کے لیے اور دینی جدوجہد کے لیے تحریک اورترغیب پائیں اور صالح و پاکیزہ جذبات و داعیات ان مجمعوں کے ذریعے متعدی بن کر سارے شرکاکے قلب و روح میں جاگزیں ہوں۔
اسلام کی اسی اسپرٹ کا نتیجہ ہے کہ مشروع اجتماعات کے علاوہ بھی، علم و فکر کے لیے، تلاوت قرآن و تدبر کے لیے، ذکر الہی کے لیے، تزکیہ و تربیت کے لیے، اللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے، غرض یہ کہ مختلف دینی اغراض کے لیے بڑے بڑے اجتماعات کی روایت اسلامی تاریخ میں ہمیشہ رہی ہے۔محدثین نے حدیث کی روایت اور تعلیم کے لیے بڑے بڑے حلقے قائم کیے۔ احادیث کا علم رہنے کے باوجود اور ان کی ساری روایت معلوم ہونے کے باوجود، محض کسی مخصوص بڑے محدث کی زبان سے، اس کے حلقے میں بیٹھ کر کسی مخصوص حدیث کو سننے کے لیے ہزاروں کلومیٹر کا پر مشقت سفر لوگ کرتے رہے۔ بڑی مساجد اور جامعات میں ،احادیث کے علاوہ بھی مختلف علوم کی ترویج کے لیےبڑے مجمعے لگتے رہے۔ خواتین تک ان مجمعوں میں شریک بھی ہوتی رہیں اور درس بھی دیتی رہیں۔[23]صوفیا نے خانقاہوں میں تزکیے کی خاطر بڑے اجتماعات کی روایت قائم کی تو مجاہدین کی تاریخ میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب و تشویق کے لیے بڑے مجمعوں کے اجتماع اور ان سے خطاب کی ہمیشہ روایت رہی ہے۔
کیا ٹکنالوجی کے دور میں بھی اجتماعا ت کی کوئی افادیت ہے؟
ایک بات یہ عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ٹکنالوجی کے اس دور میں جب کہ افکار و خیالات کے تبادلے کے آسان متبادل ذرائع دستیاب ہیں، اس طرح کے اجتماعات کی ضرورت و افادیت باقی نہیں رہی ہے۔ یہ شرکاکو غیر ضروری مشکل میں ڈالنا ہے یا اضافی خرچ ہے جس کا کوئی اور بہتر و مفید تر مصرف ہوسکتا ہے۔ یا یہ کہ اجتماعا ت کرنے ہی ہوں تو مقامی سطح پریا قدرے چھوٹے جغرافیے کے لیے کرنے چاہئیں، وغیرہ۔یوں تو اوپر کی بحث اس موقف کی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن ہم اس حوالے سے کچھ اور تفصیلات پیش کررہے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ ٹکنالوجی نے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے لیے اجتماع کی ضرورت کم کردی ہے۔ اوپر بیان کیے گئے مقاصد میں سےبھی بعض مقاصد جزوی طور پر آن لائن نشستوں سے اور میڈیاپلیٹ فارموں سے پورے کیے جاسکتےہیں۔ لیکن اس کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ انسانی سرگرمیاں صرف آن لائن سرگرمیوں کے ذریعے مکمل نہیں ہوسکتیں۔ اوپراجتماعات کی ضرورت کے حوالے سے جو باتیں بیان کی گئی ہیں،ان کی صحیح معنوں میں تکمیل صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب لوگ اپنے حسّی وجود کے ساتھ جمع ہوں۔
انسانوں کے درمیان جو باہم کمیونکیشن ہوتا ہے یا ایک دوسرے پرانسان جب اثر انداز ہوتے ہیں تو اس کاذریعہ صرف الفاظ اور جملوں کا تبادلہ(verbal communication) نہیں ہوتا۔ باڈی لینگویج، چہرے کے تاثرات، آنکھوں کے اظہاریے (eye expressions) و غیرہ جیسی چیزیں تو باقاعدہ کمیونکیشن کاحصہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ہر انسان اپنے اردگرد توانائی کا ایک خاص ہالہ(aura)تشکیل دیتا ہے۔ (یہاں وہ رنگ برنگا ہالہ (aura of colours)مراد نہیں ہے جس کا قدیم مشرقی ومغربی روحانی فلسفوں، جعلی نفسیات (parapsychology)اور سیلف ہیلپ کے معاصر مشکوک ماڈلوں(pseudoscientific models)میں مبالغے کے ساتھ ذکرہوتا ہے بلکہ وہ غیر مرئی اثرات ہیں جو انسانی وجود پیدا کرتا ہے اور جس کے واضح اشارے اسلامی نصوص و روایات میں بھی ملتے ہیں اور آگے مذکور ٹھوس سائنسی تحقیقات سے بھی ان کی تائیدہوتی ہے) یہ بات اب سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہورہی ہے کہ انسان کے دل اور دماغ اپنے اردگرد برقی مقناطیسی میدان (electromagnetic field)تخلیق کرتے ہیں ۔ [24] دل کا پیدا کردہ فیلڈ تو کئی فٹ کی دوری تک متحرک رہتا ہے اور دوسرے انسانوں کے فیلڈ سے تعامل بھی کرتا ہے۔ اس تعامل کے نتیجے میں ایک دوسرے کے جذبات و احساسات پر اثراندازی بھی ہوتی ہے۔ طبی تحقیقات کے مطابق آس پاس کچھ دیر رہنے سے لوگوں کے جسموں کی فعلیاتی حالتیں(physiological states)،دلوں کے دھڑکنے کی شرح، سانس لینے کا عمل، دماغی لہروں کی کیفیات(brainwave patterns)بلکہ بعض کیمیائی تعاملات میں تک ہم آہنگی پیدا ہونے لگتی ہے ۔[25] اس عمل کو میڈیکل سائنس کی اصطلاح میں فعلیاتی تجاوب (physiological resonance OR Empathic Resonance)کہتے ہیں۔[26] علم الاعصاب (neuroscience)کی بعض اہم تحقیقات سے بھی اس طرح کے تعامل کی تائید ہوتی ہے۔ پچیس تیس سال پہلے نیوروسائنس میں ایک بڑی اہم دریافت ہوئی جسے عصبات مرآتی (mirror neurons)کہاجاتا ہے ۔ [27] جب انسان کسی دوسرے انسان کے قریب ہوتا ہے اور اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتا ہے تو دونوں کے دماغ ایک خاص قسم کے عصبات (neurons)خارج کرتے ہیں جنہیں عصبات مرآتی کا نام دیا گیا ہے۔ ان کے نتیجے میں دونوں انسانوں کا ایک خاص تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات اور خیالات و افکار کا تاثر قبول کرنے لگتے ہیں۔ جب بڑے مجمع میں بڑی تعداد میں لوگ اس طرح کے عصبات خارج کرنے لگتے ہیں تو وہ ایک مشترک جذباتی کیفیت، مشترک احساس اور مشترک آرزو کی سمت بڑھنے لگتے ہیں۔ مجمع میں تقریر ، نعرے، نغمے وغیرہ کی مدد سے کوئی خاص جذبہ یا سوچ پیدا کی جارہی ہوتو پورے مجمع میں اور مجمع کے ہر فرد میں ایک دوسرے کے عصبات مرآتی (mirror neurons)کی مدد سے ، اس خاص جذبے کی پرورش ہونے لگتی ہے اور وہ جذبہ اپنی انتہائی کیفیت کوپہنچنےلگتا ہے۔
جب ہم اپنے عزیزوں کے قریب ہوتے ہیں تو اطمینان و سکون کی خاص کیفیت محسوس کرتے ہیں۔اپنے والدین سےیا بیوی بچوں سے محض فون پر بات کرکے یا ویب کانفرنس کرکے مکمل اطمینان نہیں ہوتا ۔ ہم جلد سے جلد ان کے قریب پہنچنا چاہتے ہیں۔کچھ عرصہ لوگوں کے قریب رہ لیں تو ان سے جذباتی انس پیدا ہوجاتا ہے۔ ملک کے بعض علاقوں میں ‘عرفاتی ساتھی’کی اصطلاح کا رواج ہے یعنی وہ شخص جو حج میں ساتھ رہا، اس سے بھی ایک خاص تعلق اورقرب پیدا ہوجاتا ہے۔یہ مکانی قربت (physical proximity)کبھی کبھار ہی سہی ، مشترک مقصد رکھنے والے ایک کارواں کی بھی اہم ضرورت ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں مجالس قانون ساز اور دیگر مقتدرہ مجالس کے باقاعدہ اجلاس ضروری ہیں۔متعدد عالمی ادارے ہیں جو اپنی سالانہ کانفرنسیں کرتے ہیں جن میں شرکت کے لیے مختلف ممالک کے مصرف ترین سربراہ لمبا وقت صرف کرکے اور بے پناہ خرچ کرکے جمع ہوتے ہیں۔ مثلاً سابق امریکی صدر اوباما نے اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں تقریباً 200 دن بین الاقوامی کانفرنسوں اور اجلاسوں کے لیے صرف کیے۔[28] دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ٹکنالوجی وسائل سے مالامال ادارے اور تنظیمیں بلکہ و ہ کمپنیاں بھی جو مواصلاتی ٹکنالوجی کی ایجاد و تخلیق اور اس کو دنیا میں عام کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں، وہ بھی بالمشافہ اجلاسوں(physical meetings)کو بھی ضروری سمجھتی ہیں۔
پرتگال کے شہر لسبن میں منعقد ہونے والی سالانہ ویب سَمِت (web summit) بنیادی طور پر ان ماہر ین ہی کا اجتماع ہوتا ہے جو ساری کمیونکیشن ٹکنالوجیوں کودنیا میں فروغ دے رہے ہیں ۔[29] یہ لوگ دنیا کے گوشے گوشے سے لمبا سفر کرکے تقریباًایک لاکھ کی تعداد میں ہر سال جمع ہوتے ہیں۔ ٹکنالوجی کی ساری بڑی کمپنیاں سالانہ کانفرنسیں کرتی ہیں۔سافٹ ویر ٹکنالوجی میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی مائکرو سافٹ سالانہ دو بڑی عالمی کانفرنسیں کرتی رہی ہے۔ ایک مائکروسافٹ اگنائیٹ(Microsoft Ignite)جس میں انجینئر ، آئی ٹی پروفیشنل اور ڈیویلپر شرکت کرتے ہیں اور وہ چار پانچ روز چلتی ہے [30] اور دوسری مائکرو سافٹ انسپائر (Microsoft inspire)جو مائکرو سافٹ کے بزنس سے وابستہ کمپنیوں اور افراد کی سالانہ کانفرنس ہوتی ہے ۔[31] اس سال دونوں کانفرنسوں کو ملاکر رکھا جارہا ہے اور اتفاق سے اجتماعِ ارکان ہی کی تاریخوں میں شکاگو میں یہ پانچ روزہ کانفرنس منعقد کی جارہی ہے ۔[32] اسی طرح،اڈوبی[33] (Adobe Summit)آئی بی ایم ، [34] (IBM Think)، سسکو [35](Cisco Live)وغیرہ کے سالانہ اجتماعات کا ٹکنالوجی کی دنیا میں بے چینی سے انتظار ہوتا ہے۔ اوریکل (oracle) کے سالانہ اجتماع [36](Oracle Cloud World) میں اس سال ڈیڑھ سو ملکوں سے تیس ہزار سے زیادہ لوگ شریک ہوئے۔ یہ سب و ہ کمپنیاں ہیں جو دنیامیں ڈیجیٹل انقلاب کی روح رواں سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی کانفرنسوں کے شرکا سارے کے سارے جدید ترین کمیونکیشن ٹکنالوجیوں کے ماہرین ہی نہیں بلکہ ان کے موجد، ان کو عام کرنے والے، انہیں تکنیکی سپورٹ فراہم کرنے والے اور دنیا بھر کے صارفین کوان کی ٹریننگ دینے والے ماہر ترین افرادہیں ۔ان کے پاس آن لائن میٹنگوں کے اعلیٰ ترین اور سب سے ترقی یافتہ وسائل نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ وہی انہیں بناتے اور بیچتے ہیں۔ لیکن اس کے باجود انہیں آن لائن پروگراموں کے علاوہ باقاعدہ بالمشافہ اجتماعات کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔اور یہ سب ماہرین ان کانفرنسوں کا انتظار کرتے ہیں اور ساری دنیا سے سفر کرکے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا بہت سطحی بات ہے کہ ٹکنالوجی کے فروغ کے زمانے میں اجتماع کی ضرورت باقی نہیں رہی اور اجتماع کامقصدیوٹیوب کے ویڈیو یا زوم میٹنگ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ علاقائی اجتماعات کافی ہیں۔تنظیم کی وسعت کی وجہ سے یہ بات تو کہی جاسکتی ہے کہ تسلسل اور مختصر وقفوں کے ساتھ بار بار پوری جماعت کوجمع کرکے لوگوں کو زحمت میں نہیں ڈالنا چاہیے۔بعض سالانہ ضرورتیں ٹکنالوجی کے وسائل کے ذریعے اور بعض علاقائی اجتماعات کے ذریعے پوری کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اگر جماعت ایک ہے، اس کامقصدو نصب العین ایک ہے اور اسے مل کر مشترک کازکے لیے جدوجہد کرنا ہے تو بہر حال کبھی کبھار ہی سہی، پانچ دس سال میں ایک دفعہ ہی سہی، لیکن پوری جماعت کا ایک ساتھ جمع ہونا اور اثرات کا باہم تبادلہ کرنا ایک اہم فکری، جذباتی اورتحریکی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کم سے کم عمرمیں ایک دفعہ عالمی اجتماع (حج) میں شرکت کو شریعت میں رکھا ہے۔ جماعت میں آنے والے ہر فرد کو یہ موقع فراہم کرنا کہ وہ پوری جماعت کے ساتھ دو تین روز گزارے،یہ اس کی اور جماعت کی دونوں کی ضرورت ہے۔تجربات بتاتے ہیں کہ ایسے اجتماعات کی یادیں ، ایک فرد کے لیے زندگی بھر سرمائے کا کام کرتی ہیں اور اسے انسپائرکرتی رہتی ہیں۔
اجتماع کے مقاصد
اوپر کی بحث سے اجتماع کے مقاصد کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے اجتماعات کااصل مقصد یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کی معلومات میں اور علم میں اضافہ کیا جائے یا انہیں وہ باتیں بتائی جائیں “جو مقامی اجتماعات میں سننے کو نہیں ملتیں”، یا ایسے نادر و نایاب موضوعات چھیڑے جائیں جن پر لوگوں نے نہ کبھی کچھ پڑھا ہے اور نہ کبھی سنا ہے۔ یہ مقاصد تحقیقی سیمیناروں کے ہوتے ہیں۔ان اجتماعات کا اصل مقصد مکمل تزکیہ و تربیت بھی نہیں ہوتا کہ تین دنوں کے اندر ایک بڑے مجمع میں فکری واخلاقی انقلابات برپا کردیے جائیں۔ بڑے اجتماعات کا مقصد یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ہزروں لوگ دو تین دن میں بحث و مباحثہ کرکے کسی اتفاق رائے تک پہنچ سکیں یا فیصلہ سازی و پالیسی سازی میں کوئی کردار اداکرسکیں۔ نہ ان میں ہر ایک کو بولنے کا موقع دینا ممکن ہوتا ہے اور نہ ہر ایک کا خیال سب کے سامنے لایا جائے، اس کا کوئی امکان ہوتا ہے۔ یہ باتیں ذیلی طور پر اور امکانی حد تک ضرور پیش نظر رکھی جانی چاہئیں اوررکھی جاتی ہیں لیکن اس طرح کے اجتماعات کے مقاصد اصلاً درج ذیل ہوتے ہیں۔
مقصد وعمل کااشترک(Strategic Alignment): اس طرح کے اجتماعات کایہ سب سے اہم مقصدہوتا ہے۔ تحریکوں میں سب سے زیادہ اہمیت ،مقصد و نصب العین کی ہوتی ہے اور پھر مقصد ونصب العین کے لیے جو طریقہ ، لائحہ عمل اور راستہ متعین کیا گیا ہے وہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔افرادِ تحریک میں اس حوالے سے ہم آہنگی ہو یہ بہت ضروری ہے۔ اوپر کے مباحث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم خیال لوگ جب جمع ہوتے ہیں، ان کے اجتماع کے سامنے جب مقصد وسمت سفر، طریق کار اور لائحہ عمل کو واضح کیا جاتا ہے اور اس کی تکرار ہوتی ہے تو ایک دوسرے پر اثر اندازی کے ذریعے، جذباتی تعامل کے ذریعے اور پیدا شدہ اجتماعی توانائی کے اس تکرار سے تعامل کے نتیجے میں پورے مجمع کی فکر و سوچ اور لاشعور میں ہم آہنگی پیدا ہونے لگتی ہے۔ کوئی مسافر کسی رواں دواں کارواں کا حصہ بن جائے تو نقشوں اور جی پی ایس سے کہیں زیادہ آسانی سے سمت سفر اورراہ سفر کاشعور حاصل کرلیتا ہے۔ یہی معاملہ بڑے اجتماعات کے شرکا کاہوتا ہے۔ اس لیے اس طرح کےاجتماعات میں نئے اور انوکھے موضوعات نہیں چھیڑے جاتے بلکہ تحریک کے اصل افکار، طے شدہ لائحہ عمل اور پالیسیوں کی مکرّر اور پرزور انداز میں یاددہانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
تنظیمی کلچر کی تعمیر و ارتقا: کسی تنظیم کی مشترکہ اساسی قدریں (shared core values) اس کے معمولات (norms) اور طور طریقے، زبان، اصطلاحات اور علامات (symbols) روایات اور رسوم ان سب کے مجموعے سے تنظیم کا کلچر تشکیل پاتا ہے۔ نظریاتی تحریکوں کے لیے اس کلچر کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ بڑی کانفرنسیں اس کلچر کی تعمیر، تشکیل، ترمیم و اصلاح اور استحکام میں حد درجہ مددگار ہوتی ہیں۔ ان اجتماعات میں جو الفاظ اور اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں وہ بالآخر پوری تحریک میں تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔ جن اچھی مثالوں سے لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ عام ہوجاتی ہیں۔ تحریک کی اساسی قدروں کی تکرار و یاددہانی اور ایک بڑی جماعت کی اس سے اٹوٹ وابستگی کا چشم دید نظارہ ہر ایک کی خاص طور پرنئے آنے والوں کی ان قدروں سے وابستگی کو مستحکم کرتا ہے۔ ہماری جماعت میں نظم و ڈسپلن، ایثار و خلوص، وقت کی پابندی، امیرکی اطاعت، سنجیدگی و متانت اور ان جیسی متعدد قدریں ہیں جو اجتماعات ہی کے ذریعے جماعت میں عام ہوئیں۔
نیٹ ورکنگ(Networking): اس طرح کی کانفرنسوں کا ایک اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ مختلف علاقوں سے آنے والے طرح طرح کے افرادباہم ایک دوسرے سے مربوط ہوں اور اشتراک ، ارتباط اور تعاون (collaboration) کی شکلیں نکالی جائیں۔ ہر بڑی تحریک میں متعدد شعبے، الگ الگ دلچسپیاں، مہارتیں، اور طرح طرح کے درپیش احوال ہوتے ہیں۔ ایک طرح کی دلچسپی رکھنے والے (مثلاً ملک بھر میں علمی و تحقیقی کام کرنے والے) ایک طرح کا تخصص یا پیشہ رکھنے والے (مثلاً ملک بھر کے ڈاکٹر یا وکیل) ایک طرح کے احوال رکھنے والے (مثلاً بڑے شہروں سے تعلق رکھنے والے، دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے، فرقہ وارانہ تشدد سے متاثر علاقوں کے وابستگان وغیرہ) افراد کےلیے یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ ایک ساتھ جمع ہوں، ایک دوسرے سے متعارف ہوں، ایک دوسرے کے تجربات سے واقف ہوں،ایک دوسرے کے مشوروں سے فائدہ اٹھائیں اور مشترک کاموں میں تعاون و اشتراک کی راہیں تلاش کریں۔ اس لیے متوازی اجلاسوں کا انعقاد ایسے تمام بڑے اجتماعات کی لازمی خصوصیت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی اجتماعات میں ابھی یہ روایت کمزور ہے اس لیے کہ تعاون و اشتراک کا مزاج ہی بہت کم زور ہے لیکن اوپر جتنی کانفرنسوں کی مثالیں دی گئی ہیں اور اب خود مسلمانوں کے جو منظم اور منصوبہ بند اجلاس عالمی سطح پر ہورہے ہیں،ان کے پروگراموں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب میں پروگرام کابڑا حصہ متوازی اجلاسوں پرمشتمل ہوتا ہے۔
اجتماعات مختلف نسلوں کو بھی باہم جوڑتے ہیں۔ہماری تحریک میں اس وقت کئی نسلیں بیک وقت سرگرم ہیں۔ دور جدید کی ایک بڑی لعنت نسلوں کے درمیان بڑھتے فاصلے ہیں۔ مقامی سطحوں پر یہ عین ممکن ہے کہ لوگوں کو مختلف نسلوں سے تعامل کے مواقع نہ ملیں (مثلاً کسی مقامی جماعت میں صرف بزرگ ہوں،صرف نوجوان ہوں یا صرف نوجوان اور بزرگ ہوں اور درمیانی عمر کے لوگ نہ ہوں وغیرہ) بڑے اجتماعات میں بڑی تعداد میں ہر نسل کے لوگ ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ ان کی خوبیاں اور کمزوریاں سب کے سامنے نمایاں ہوتی ہیں۔ ہر ایک کی سوچ، اور حساسیتیں (sensitivities)سب کے سامنے واضح ہوجاتی ہیں۔ اس سے بھی بہتر تال میل میں مدد ملتی ہے۔
تجربات کی شراکت اور اچھے نمونوں سے استفادہ: بڑی تحریکوں میں مختلف جگہ مختلف تجربات ہوتے رہتے ہیں۔ جو اجتماعی فیصلے کیے جاتے ہیں ان میں سے بھی بعض فیصلے بعض جگہوں پر زیادہ بہتر طور پر نافذ ہوپاتے ہیں اور بعض فیصلے بعض دوسری جگہوں پر۔ کام کے دوران جومسائل اور رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں ان کے مقابلے اور سدّ باب کے لیے مختلف تدابیر لوگ اختیار کرتے ہیں۔ اجتماعات ان سب متنوع تجربات کو دیکھنے اورسمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ کام یاب تجربات (success stories)سب لوگوں کے سامنے آتے ہیں۔ اچھے اور زیادہ موثر طریقوں (best practices) کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ اس طرح اچھی باتیں ،اچھی تدابیر اور اچھے طریقوں کو متعدی (contagious)ہونے کا موقعہ یہ اجتماعات فراہم کرتے ہیں۔
اختراع اور نئے خیالات کی تشکیل(Innovation and Ideas’ Creation): موجود اچھے اور زیادہ موثر طریقوں( best practices)کو سامنے لانے کے علاوہ ایسے اجتماعات نئے اور مفید آئیڈیاز کو وجود بخشنے میں بھی اہم کردارادا کرتے ہیں۔ جب لوگ جمع ہوتے ہیں، مشترک مقصد کے لیے ان کے قلب و ذہن میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے،ان کے دماغوں سے عصبات مرآتی (mirror neurons)کا انعکاس شروع ہوتا ہے،اجتماعی توانائی کی افزائش ہوتی ہے تو سب کے ذہن اور اجتماعی ذہنی توانائی بہتر راستوں اور طریقوں کی تلاش و جستجو میں مصروف ہونے لگتی ہے۔ مختلف خیالات اور عملی نمونوں کے تعامل باہمی سے بالکل نئے اور انوکھے آئیڈیاز جنم لینے لگتے ہیں۔ معاصردنیا کی متعدد کانفرنسوں نے غیر معمولی تخلیقی آئیڈیاز جنم دیے اور خود ہمارے اجتماعات کی تاریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ بہت سی مفید تدبیریں ان اجتماعات کے ماحول سے نکل کرسامنے آئیں اوربالآخر ا ہم اجتماعی فیصلوں کا سبب بنیں۔آئندہ کے صفحات میں اس کی متعدد مثالیں ملیں گی۔
قیادت اورکارکنوں کے درمیان بہتر تال میل اور تعلق و ربط: اجتماعات پوری جماعت اور اس کی ساری افرادی قوت کو بیک وقت قائدین کی نگاہوں کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ اس سے ان کو جماعت کی مجموعی قوت کا زیادہ بہتر اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔ بہت سے لوگوں کی صلاحیتیں جو عام حالات میں نمایاں نہیں ہوپاتیں، اس موقع پر ذمہ داروں کے سامنے نمایاں ہوجاتی ہیں۔ کمزوریاں بھی بیک نگاہ سامنے آجاتی ہیں۔ ان سب سے انہیں بہتر فیصلوں میں مدد ملتی ہے۔ لوگوں کا اجتماعی ذہن اور ان کی آرا کو جاننے اور سمجھنے میں کچھ نہ کچھ مدد ملتی ہے۔ عام کارکنوں کو اپنے تمام قائدین سے ملنے اور متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ پوری قیادت کو بیک نگاہ دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔متحد اوراپنے مقصد کے لیے یکسو قیادت، جاں نثار اور اطاعت شعار کارکنان اور ایک ہی سمت رواں دواں حوصلہ مند کارواں،یہ پورا منظر بیک وقت نگاہوں کے سامنے آکر جو تاثر قائم کرتا ہے اس کا شعوری اورجذباتی اثر بہت گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔ ایک مقرر اگر تحریک کے نصب العین اور اس کی سمت کار کو واضح کررہا ہو اور ساری قیادت اسٹیج پر اسے سنتی ہوئی اور اس کی باتوں کی تائید و ستائش کرتی ہوئی نظر آرہی ہو تو اس سے نظریاتی ہم آہنگی اور سمت سفر اور طریق کار کے سلسلے میں اتحاد و اتفاق کا پیغام طاقتور طریقے سے کمیونکیٹ ہوتا ہے۔ اس لیے ان اجتماعات میں اسٹیجوں کی اہمیت اوران کی مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت بھی متعلقہ فنون میں تسلیم شدہ ہے۔
اجتماعی قوت کا احساس ، اجتماعی خود اعتمادی کا فروغ اور ترغیب و تحریک: ہر رکن کو جماعت کی افرادی قوت سے متعلق اعدادوشمارمعلوم ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہزاروں لوگوں کو بیک نگاہ سامنے دیکھ کر اجتماعی قوت کا جو احساس پیدا ہوتا ہے وہ گہرا جذباتی تاثر رکھتا ہے۔ ان ہزاروں لوگوں کا تحریک کے پیغام کومل کر سننا اور اپنی آنکھوں اور لطیف اشاروں (subtle cues)سے اس کی تائیدکرنا، اپنے مقصدو اقدار کے لیے وسیع اور ملک گیر تائید و حمایت کے تاثرکو تقویت دیتا ہے۔اجتماعی قوت کا منظرنامہ خوف، جھجک، شک، تذبذب ، مایوسی،وغیرہ جیسے منفی جذبات کو کمزور کرتا ہے۔ہزاروں لوگوں کی مشترک لگن (shared commitment) مشکلات اور چیلنجوں کے احساس کو کم زور کرکے خود اعتمادی بڑھاتی ہے۔ اس طرح یہ اجتماعات نہ صرف اجتماعی توانائی کو فروغ دیتے ہیں بلکہ اجتماعی خود اعتمادی بھی بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پھر ان میں ہر ایک کا جذبہ عمل اور ذوق وشوق بڑھ جاتا ہے۔ اچھے کاموں کی وسیع پسندیدگی اور ستائش کی نگاہیں کام کرنے والوں کا مورال بڑھاتی ہیں۔ دوسرے لوگوں کے اندر ان کاموں کا شوق اور ارادہ پیدا کرتی ہیں۔ ان سب کے نتیجے میں مجموعی کارکردگی کے بڑھنے اور ہر ایک کی رفتار کار میں اضافےکے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔
ایکو چیمبروں سے نکل کر وسیع تر دنیا کاایکسپوژر:ٹکنالوجی اور ٹکنالوجی پر مبنی مواصلات کا ایک بڑا نقصان جس کا خاص طور پر نئی نسل شکار ہورہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ایکو چیمبروں (echo chambers)کے کنووں کے مینڈک بن رہے ہیں۔ یہ موضوع ان صفحات میں زیر بحث آچکا ہے ۔[37]سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور یوٹیوب وغیرہ، آدمی کو اپنے مخصوص افکار اور دل چسپیوں کے اور ہم خیال و ہم مزاج لوگوں کے ایکو چیمبروں میں قید کردیتے ہیں۔اگر کوئی ادیب ہے تو سارے بر اعظموں میں رہنے والے ادیبوں سے تو وہ جڑجاتا ہے لیکن پڑوس میں رہنے والے سائنس داں کی فکری و ذہنی دنیا سے مکمل بےخبر ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے اپنے ہم خیال لوگوں سے تو روزانہ مکالمہ ہوتا رہتا ہے لیکن گھر میں موجود مخالف خیال رکھنے والے فرد کے خیالات سے تبادلے کی نوبت بہت کم آتی ہے۔سوشل میڈیا،خود تحریک کے اندر ایسے مصنوعی حلقے اور غیر حقیقی’ کنویں ‘ تشکیل دینے کا ذریعہ بن رہا ہے جہاں قید ہوکر لوگ حقیقت سے دور ہوسکتے ہیں۔بڑے اجتماعات میں تحریک کے اندر موجود ایسے ایکو چیمبروں کی دیواریں کم زور ہوتی ہیں اور دلچسپیوں، مزاجوں، خیالات اور رجحانات کی پوری وسیع و عریض اور حقیقی دنیا بیک وقت نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ اس لیے ٹکنالوجی کی پیدا کردہ غیر حقیقی دنیا (virtual world) نے اس طرح کے اجتماعات کی ضرورت کم نہیں کی ہے بلکہ اور زیادہ بڑھادی ہے۔
ان مقاصد کوکیسے حاصل کیا جائے؟
ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ شریک ہونے والے ارکان جماعت ان مقاصد کے استحضار کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ممکنہ تیاری سے اس میں شریک ہوں۔ اس حوالے سے کچھ اصولی باتیں ذیل میں درج کی جارہی ہیں۔
اجتماع میں آنے سے پہلے دستور جماعت ، میقاتی منصوبہ اوربنیادی لٹریچر کو تازہ کرلیں۔موجودہ احوال اور اس میں ہماری مطلوب حکمت عملی وغیرہ کے حوالے سے جو مضامین شائع ہورہے ہیں یا جو تقریریں اپ لوڈہورہی ہیں ، انھیں بھی دیکھ اورسن لیں۔ یہ سارے مضامین ذہن میں تازہ رہیں گے اور تحریک کے اساسی فکر، مقصد و نصب العین ، طریق کار، اقدار اور موجودہ حکمت عملی کا استحضار رہے گا تو مذکورہ بالا سارے فائدے زیادہ بہتر طریقے سے حاصل ہوسکیں گے۔
اجتماع کا تفصیلی پروگرام جاری کردیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے عنوانات پر خاص طور پر تیاری کرلیں۔جو مختلف ہدایات اجتماع کے سلسلے میں ارکان جماعت کو دی گئی ہیں، ان ہدایات پر بروقت عمل آوری کو یقینی بنائیں۔ اجتماع کے لیے بنائی گئی خصوصی اپلی کیشن سے مربوط رہیں اور اس میں جوہدایات دی جارہی ہیں ان کے مطابق بغیر کسی سستی اور ٹال مٹول کے بروقت متعلق کاموں کو انجام دیں۔ مقامی اجتماعات میں ان امور پر گفتگو اور مذاکرات کا اہتمام کریں۔ ہوسکے تو اس مضمون کی بھی مقامی اجتماعات میں خواندگی اور اس پر گفتگو و تفہیم کا اہتمام کریں۔
اجتماع کے اوقات کی اچھی طرح منصوبہ بندی کرلیں۔ پروگرام کے اوقات میں تو پروگرام میں شرکت کرنی ہے۔ ان کے علاوہ ‘تحریک شوکیس’ جس میں مختلف حلقوں کے اہم کاموں کی تفصیل سامنے لائی جارہی ہے، اس کا تفصیلی مشاہدہ بھی پروگرام کااہم حصہ ہے۔ اس مشاہدے کو بھی پروگرام کا اہم جز سمجھیں ۔ مشاہدے کے دوران اچھی چیزوں کو نوٹ کریں۔
اجتماع کے دوران کن لوگوں سے ملنا ہے؟ کن ریاستوں کے کن کاموں کو اچھی طرح سمجھنا ہے؟ ان سب کے سلسلے میں بھی ذہن کو اچھی طرح تیار کرلیں۔پہلے سے منصوبہ بندی کرلیں۔ متعلق افرادکے فون نمبر حاصل کرلیں۔ ان سے ملاقات کے اوقات طے کرلیں۔ کوشش کریں کہ فارغ اوقات زیادہ سے زیادہ ملاقاتوں اور نفع بخش روابط میں گزریں۔
یہ بھی کوشش ہو کہ اجتماع میں طبیعت کی پوری شادابی اور یکسوئی کے ساتھ مکمل شرکت کریں اور اس کے اوقات کا بھرپور استعمال کریں۔ اس کے لیے جسمانی و ذہنی تیاری پر توجہ دیں۔حج کوجاتے ہوئے جس طرح قبل از وقت ضروری طبی جانچ کرالی جاتی ہے، چھوٹی موٹی بیماریوں کا قبل از وقت علاج کرلیا جاتا ہے، کھانےپینے کی ضروری احتیاط ، ورزش وغیرہ کا اہتمام کیاجاتا ہے، اس قسم کی تیاری اس موقع پر بھی ہو تو اجتماع میں بھرپور شرکت آسان ہوگی۔
سارے پروگراموں کو بغور سنیں۔ ترجمے کی جو سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں ان سے خوب فائدہ اٹھائیں۔ اجتماع کے اچھے تاثرات اور یادوں کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔ سب سے زیادہ اچھے تاثرات تو ہمارے قلب کے نہاں خانے میں اور ذہن کی لوح پر محفوظ ہونے چاہئیں۔ ان کے علاوہ اپنی ڈائری میں اہم باتوں کو نوٹ کرتے رہیں۔ اہم مناظر کو اپنے کیمرے اور ویڈیو میں بھی قید کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکرآچکاہے، اجتماع میں جس طرح مثبت کیفیات فروغ پاسکتی ہیں، اسی طرح منفی کیفیات کے فروغ کا بھی امکان ہوتا ہے۔ خودکو اس پہلو سے حساس اور محتاط رکھیں۔ اپنی ذات کو اجتماعیت میں کسی غلط رجحان کے فروغ کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ غیبت ، چغلی،بدگمانی و بدگوئی،آبروریزی، مایوسی و قنوطیت ،فتنہ پردازی وغیرہ جیسی برائیاں کہیں خدا نخواستہ نظر بھی آئیں تو ایسی محفلوں اور تذکروں سے خود کو محفوظ رکھیں اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ کے ذکر کا ، تسبیح و تہلیل ، درود و استغفار ، مسنون دعاؤں اور مناجات کا دل ہی دل میں مسلسل اہتمام کرتے رہیں۔ ہر برائی اور شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہیں۔جماعت کے ہراجتماع میں ہمارے بزرگ اس طرح کی ہدایات دیتے رہے ہیں۔
زندگی نو کے اس خصوصی شمارے کا مقصد یہی ہے کہ ارکانِ جماعت کی اجتماع میں شرکت سے پہلے بہتر انداز میں ذہن سازی ہوجائے۔ وہ جماعت کے اجتماعات کی پوری تاریخ ، ان کے مقاصد اور ان کی اقدار و روایات سے آگاہ ہوجائیں۔ ہمارے اسلاف نے اجتماعات کو جس اہمیت اور اہتمام سے انجام دیا اور جس جوش و خروش سے اس کی تیاری اور اس سے استفادے میں حصہ لیا ، اس سے ہم واقف ہوجائیں۔ امید کی جاتی ہے کہ تمام ارکانِ جماعت اجتماع سے پہلے اس شمارے کا مطالعہ کرلیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے اجتماع کی کام یابی اور بہتر نتائج کے لیے مسلسل دعا کرتے رہیں۔ علامہ اقبال کے خوب صورت اشعار جومسجد قرطبہ کی تعریف میں کہے گئے ، ہمارے اجتماعات پربھی صادق آتے ہیں۔ ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا یہ اجتماع صحیح معنوں میں ان اشعار کا مظہر بن جائے۔
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل
تجھ سے ہُوا آشکار بندۂ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپِش، اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم
اس کا سُرور اس کا شوق، اس کا نیاز اس کا ناز
اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز
نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
حواشی و حوالہ جات
[1] شعبہ تنظيم جماعتِ اسلامي ہند( 2023)؛ روداد جماعتِ اسلامي (حصہ اول)؛ مرکزي مکتبہ اسلامي پبلشرز؛ نئي دہلي؛ ص28
[2] اس موضوع پر ايک مفيد کتاب
Paul B. Paulus ؑ Ed. (2015)Psychology of Group Influence: Second Edition. United Kingdom: Taylor & Francis, 2015.
[3] درج ذيل حوالے ميں deindividuation کے مثبت و منفي دونوں پہلو تفصيل سے زير بحث لائے گئے ہيں:
Forsyth, D. R. (2014). Group Dynamics (6th ed.). Belmont, CA: Wadsworth, Cengage Learning.
[4] Miller, D. L. (1985). Collective Behavior. Prospect Heights, IL: Waveland Press
[5] McCarthy, J. D., & McPhail, C. (2006). Collective Behavior and Social Movements: Process and Structure. New York, NY: Waveland Press. Pages 133-136
[6] Myers, D. G., & Twenge, J. M. (2019). Social Psychology (13th ed.). New York, NY: McGraw-Hill Education. Pages 252-256
[7] Ibid pages 210-215
[8] ما جلس قوم مجلسا لم يذكروا الله فيه ولم يصلوا على نبيهم إلا كان عليهم ترة (لوگ کسي مجلس ميں بيٹھيں اور اس ميں نہ اللہ کا ذکر کريں اور نہ نبي ﷺ پر درود بھيجيں تو يہ ان کے ليے قيامت کے دن باعث حسرت ہوگا۔ رواہ ابو ھريرة؛الترمذي (3380)صححہ الالباني
[9] رواہ ابوہریرۃ؛ الترمذي (3433) أحمد (10415)؛صححه الألباني سلسلة الأحادىث الصحيحة 1/74
[10] صحیح مسلم؛ کتاب الصلوۃ؛ باب تسویۃ الصفوف؛ رواہ عبد اللہ بن مسعود؛ حدیث 972
[11] أبو عبد الله القرطبی (1963)؛الجامع لأحكام القرآن؛ دار الكتب المصرية – القاهرة؛ ج 18ص97-98
[12] صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ۔۔۔ صحیح مسلم ؛ کتاب الجمعۃ
[13] صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب الخروج إلی المصلی بغیر منبر؛ رواہ ابو سعید الخدری،حدیث نمبر956
[14] صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب خرُوجِ النِّسَاءِ وَالْحُيَّضِ إِلَى الْمُصَلَّى ؛ روتہ ام عطیۃ،حدیث نمبر:974
[15] حوالہ سابق
[16] اس مسئلے پر مختلف فقہي مسالک اور آرا کي تفصيل کے ليے ملاحظہ ہو:
وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية –اكويت (2019) الموسوعة الفقهية الكويتية؛ ج 28ص18—19
[17] ڈاکٹر شيخ محمد اقبال (1915) مثنوي اسرار خودي؛ (ناشر) حکيم فقير محمد صاحب چشتي؛ يونين اسٹيم پريس؛ لاہور؛ ص80
[18] صحیح مسلم؛كتاب المساجد ومواضع الصلاة ؛باب استحباب القنوت في جميع الصلاة
[19] أبو داود (1165) الترمذي (558)، أحمد (2039)، حديث ابن عباس؛ حسنه الالباني (صحيح وضعيف سنن أبي داود 1165)
[20] صحيح البخاري؛ كتاب الكسوف..صحيح مسلم؛ كتاب الكسوف
[21] روایۃ ابوہریرۃ و ابو سعید الخدری؛ سنن ابن ماجہ؛ صححہ الالبانی؛ صحیح سنن ابن ماجہ (3073) [ج 3 ص242]
[22] أحمد (المسند 22030)، ومالك( الموطأ۔2/953)؛ صححه الألباني )صحیح الترغیب الترغیب والترہیب: 2581)
[23] تفصيل کے ليے ملاحظہ ہو ڈاکٹر محمد اکرم ندوي (2022) محدثات: علم حديث کے ارتقا ميں خواتين کي خدمات؛ ہدايت پبلشرز اينڈ ڈسٹري بيوٹرز؛ نئي دہلي
[24] اس موضوع پر مختلف مضامين سے تعلق رکھنے والے ماہرين کے ليکچروں پر مشتمل ايک دلچسپ کتاب
Williamson SH, Romani GL, Kaufman L, Modena I, editors. (2013) Biomagnetism: An Interdisciplinary Approach; Springer-Verlag; New York
[25] Gary G. Berntson, John T. Cacioppo Ed. (2013)Social Neuroscience: Key Readings. United Kingdom: Taylor & Francis…See Part 6 pages 131-152
[26] Jean Decety, William Ickes Ed (2011) The Social Neuroscience of Empathy. United States: MIT Press; Pages 125-138
[27] اس موضوع کوسمجھنے کے ليے ايک بڑا دلچسپ ريسورس، سوشل نيورولوجي جرنل کا خصوصي شمارہ
The Mirror Neuron System: A Special Issue of Social Neuroscience. United Kingdom: Taylor & Francis Group, 2016.
[28] ملاحظہ ہو امريکي وزارت خارجہ کي ويب سائٹ پر صدر اوبامہ کے عالمي دوروں کي تفصيل
https://history.state.gov/departmenthistory/travels/president/obama-barack
[29] تفصيل کے ليے ملاحظہ ہو کانفرنس کي ويب سائٹ
[30] https://ignite.microsoft.com/en-US/home
[31] https://news.microsoft.com/inspire-2023/
[32] https://ignite.microsoft.com/en-US/home
[33] https://summit.adobe.com/na/
[34] https://www.ibm.com/events/think
[35] https://www.ciscolive.com/
[36] https://www.oracle.com/cloudworld/
[37] سيد سعادت اللہ حسيني (2024)اشارات: رائے عامہ اور اس کي تبديلي؛ زندگي نو؛ نئي دہلي؛ اگست 2024 ص 13-14
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024