قدیم مسیحیت کا عورت کے متعلق نظریہ انتہائی ناقص تھا ۔ عورت اور مرد کے صنفی تعلقات کو قابل نفرت قرار دیا جاتا اگرچہ جائز طریقہ پر ہی کیوں نہ ہوں۔ صرف تجرد اخلاق کا اعلی معیار تھا ۔رہبانیت کے خاتمہ ، صنف اناث کو پستی سے ترقی پر پہنچا نے اورعورت کے حقوق کی بحالی کیلئے یورپ کے فلاسفہ و اہل قلم نے شخصی آزادی ،مرد و عورت میں مساوات اورآزادی نسواںکا صور پھونکا ۔چنانچہ مسیحی اخلاقیات کی حدود وقیود کو توڑ کر نئے نظام معاشرت کی بنیاد قائم کی گئی ۔نئے نظام میں عورت کو اخلاقی و انسانی اور قانونی حیثیت سے مرد کے مساوی قرار دیا گیا ۔مذہبی تعلیمات ،اخلاقی بندشوں اور سوسائٹی کے اصول و ضوابط کو پس پشت ڈال کر نام نہاد خوشحال و ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی بنا ڈالی گئی ۔جس میں انسان کو مطلق آزاد سمجھا گیا کہ اپنی ضروریات اور خواہشات جس وقت جس طرح چاہے پوری کرے۔چنانچہ جنسی بے راہ روی عام ہونے لگی۔
آزادی نسواں کے مقاصد
اس تحریک کے تصورات موجودہ نظام سرمایہ داری ،جمہوری نظام تمدن اورجدید اخلاقی نظریات کی دَین ہیں ۔ان تین عناصر نے اس تحریک اور مطلق آزادی کے تصور کو ترقی دی۔ موجودہ نظام سرمایہ داری نے جماعت پر فرد کے مفاد کو ترجیح دی ۔اس کے لیے قانونی بندشوں کو تو ڑا گیا اور جدید اخلاقی نظریات کو پھیلایا گیا ۔ ادیبوں،شاعروں ،خطیبوں ،مصنفوں نے اس رجحان کی حمایت کی اپنی تمام توانائی اباحت مطلقہ کی تائید میں صرف کر دی ۔عورتوں کو خود کفیل بنانے کی ترغیب دی۔ مرد اور عورت کی مساوات کا نعرہ لگایا ۔اس کے لئے ڈرامہ ،افسانہ اور آرٹ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔اس رجحان کے خلاف آواز اٹھانے والوں کودقیانوس ،قدامت پرست ،تاریک خیال اور آرٹ کی ترقی کا مخالف تصور کیا گیا ۔
اس تحریک کے نقصانات
اس بے دریغ آزادی کی وجہ سے معاشرہ میں جنسی انارکی عام ہوئی۔فواحش کی کثرت اورجسمانی قوتوں کےانحطاط کی بنا پر قومی زوال و تباہی کابگل بج گیا ۔مہلک بیماریوں کا وجود اور عائلی زندگی کا انتشار اس کے نتائج تھے۔ حیوانوں کی طرح شہوانی خواہشات کو علی الاعلان پورا کیا جانے لگا ۔عائلی زندگی کے معاملات و ذمہ داریوں میں اپنے آپ کو جکڑنے کو عار سمجھا گیا ۔نکاح کو پرانا طریقہ قرار دیا گیا ۔ بے راہ روی پر کسی طرح کی ملامت نہ کی جاتی بلکہ اس کو جائز و مستحسن قراردیا جانے لگا۔ آزادانہ صنفی ارتباط کو باعث فخر سمجھا گیا ۔
اس بے جا آزادی کی راہ میں جو اخلاقی و سماجی بندشیںحائل ہوتیں،ان کو اپنی تدابیر کے ذریعہ ماہرین نے رفع کر دیا ۔منع حمل ،اسقاط حمل ، قتل اطفال اورنسل کشی کی شرح میں اضافہ ہوا ۔ مطلق شخصی آزادی کے تصور نے جسمانی و خواہش کو پو را کر نے میںاخلاق وقانون کے معیار کو ہی بدل دیا ۔ نکاح و سفاح کو برابر کا ہی نہیں بلکہ سفاح وزنا کو صواب اور نکاح کو عیب قرار دے دیا ۔مرد وزن کا آزادانہ اختلاط ، مطلق مساوات و برابری ،عورتوں کا معاشی استقلال مطلوب امور قرار پائے۔ عورت کی اصلی و فطری صلاحیتوں و قابلیتوں کا گلا گھونٹ کر اس میں مصنوعی مردانگی کا صور پھو نکا گیا ۔صنف ناز ک کو دفترو ں ، کالجوں، آفسوں،کارخانوں الغرض امور خانہ داری کے علاوہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی سے نو ازاگیا ۔ان میں اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ نظام سرمایہ دار ی نے اشیاء کی فروخت کے لیے عورت کا استحصال کیا۔ اسے جاذب نظرساڑیوں ،نیم عریاں بلائوزوں میں سڑکوں پرگھما کر اور زینت اسٹیج بناکر اس کے حسن کی نمائش کی گئی ۔تاکہ مردوں میں شہوت کی آگ بھڑکے اور ان کو فریب میں مبتلا کیا جاسکے۔
اس سے صنفی میلان و جذبا ت میں شدت بڑھی ۔نسلیںکمزور ہو ئیں،جسمانی وعقلی قوتوں کا نشونما متاثر ہوا اور فواحش کی کثرت ہوگئی ۔مردوعورت فطرت سے بغاوت کر کے اپنی بہیمیت کے ذریعہ حیوانات سے بازی لے گئے ۔
اس تحریک آزادی نسواںکے بالمقابل اسلام کے عادلانہ تصور مساوات کا جائزہ لیتے ہیں ۔جس سے یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ مسا ئل کا حل اسلامی نظام حیات میں پنہاں ہے ۔
اسلام کا تصور
دنیا میں عورت کے متعلق عموماً افراط و تفریط کا رویہ رہا ہے ۔کسی نے اس کے ساتھ نارواسختی کی اور اس کے وجود کو موجب عار سمجھا ۔کسی نے اس کو اتنی آزادی دی کہ فساد کے جراثیم قومی ہلاکت و تباہی کے باعث بنے ترقی و خوشحالی کے نام پر اس کو فطرت کے خلاف استعمال کیاگیالیکن اسلام نے نقطۂ عدل قائم کیا جس سے عورت کو اس کا کھویا ہوا مقام مل گیا۔اسلام نے عورت کو اس کی فطری صلاحیتوں و قابلیتوں کے مطابق ہر شعبہ ہائے زندگی میںموقع دیا۔ تنظیم معاشرت کے زریں اصول وقواعد منضبط کئے جس سے صالح معاشرہ و پاکیزہ تمدن وجود میں آیا ۔ صنفی میلان کواخلاقی حدود و قیو د کا پابند بنایا۔
اسلام اور مغرب کے تنظیم معاشرت کے مقاصد میںزمین و آسما ن کا فرق ہے اسلام شہوانی قوت کو اخلاقی ڈسپلن میں منضبط کر تا ہے۔ ہیجان نفس اور جنسی آوارگی سے انسان کو محفوظ رکھ کر صالح و پاکیزہ تمد ن کی تعمیرو تشکیل کر تا ہے ۔بر خلاف اس کے مغرب مرد و عورت پر تمدنی و مادی ذمہ داریاں یکسا ںٖڈال کر مادی زندگی کی رفتار تیز کرنا چاہتا ہے ۔جنسی انارکی و لذت کوشی کو ہی ترقی و خوشحالی تصور کرتا ہے ۔
مساوات کا معقول مفہوم
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان ہونے کے ناطے مر د و عورت دونوںبرابر ہیں ۔نوع انسانی کی حیثیت سے مساوی ہیں ۔تہذیب و تمدن کی تاسیس و تشکیل میں دونوںکا نمایا ںکردار ہوتا ہے ۔دل ،دماغ ، جذبات ،خو اہشات اور بشری ضروریات دونو ںرکھتے ہیں ۔ دونوں کی عقلی وفکری نشوونما ضروری ہے ۔ ایک صالح تمدن کا فرض ہے کہ وہ علم و اعلی تربیت سے دونوںکو مزین کرے ۔مردو عورت کی فطری صلاحیتوںکے مطابق ان پر ذمہ داریاںعائد کر ے۔اس طرح کی مساوات کا دعوی صحیح ہے قرآن میں ہے:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبا (النساء:۱)
’’اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو ،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑابنایا ان دونوںسے بہت سے مرد اورعورتیں پھیلادیں ،اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے حقوق مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بچو بے شک اللہ تعالی تم پر نگہبان ہے ‘‘
البتّہ اگر مردوعورت کا دائرہ عمل ایک ہی بنادیا جائے ،دونوںپر یکساں ذمہ داریاں ڈال دی جائیں ،تمدن میں عورت سے وہی خدمات حاصل کی جائیں جو مرد انجام دیتا ہے تو اس طرح کی مساوات اسلام میںروا نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جسمانی استعداد و قوت کے لحاظ سے دونوں میں مساوات نہیں ہے ۔ فطرت نے دونوں پر ایک جیسا بار نہیں ڈالا ہے نظام جسمانی، فطرت کی عائد کردہ ذمہ داریوں اور نفسانی کیفیات کی تحقیق و تنقیح کی جائے تو مطلق مساوات کا دعویٰ صحیح نہیں ثابت ہوتا۔ مصنوعی طریقہ سے نسوانی قابلیتوں واستعداد کا خاتمہ کرنا یقیناً ظالمانہ رویہ ہےیہ انسانیت کا قتل ہے مساوات کے نام پر ناانصافی وبے اعتدالی ہے۔
اسلام کا نظام معاشرت
شہوانی خواہشات کی بے راہ روی اورمعاشرت کے انتشار کو روکنے کیلئے اسلام نے مر د و عورت کے تعلقات کو حدود و قیود کا پابند بنا دیا صنفی ارتباط کیلئے پاکیزہ طریقہ نکاح کا بتایا جو صالح تمدن کی تشکیل کا ضامن ہے ۔ معاشرہ میں امن و امان ،سکون و اطمینان ، ہمدردی و غمخواری واخلاق فاضلہ کو فروغ دیتا ہے ۔ اسلام نے زنا کے قریب جانے سے بھی منع کر دیا ۔اس پر سخت سزا مقرر کی گئی ۔چوری چھپے شناسائی کی ممانعت کر دی گئی ۔: وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ کِتَابَ اللّہِ عَلَیْکُمْ وَأُحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاء ذلکم (النساء:۲۴)
’’اور( حرام کی گئیں) تم پر شوہر والی عورتیںمگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں اللہ تعالی نے یہ احکام تم پر فرض کردیئے ہیںاور ان (مذکورہ بالا محرم) عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لیے حلال کی گئیں ‘‘۔
وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاء سَبِیْلا(بنی اسرائیل:۳۲)
’’خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔‘‘
بشری اور فطری داعیات کی تکمیل کے لئے اللہ تعالی نے ایک دروازہ کھولا اور وہ جائز صورت نکاح کی ہے ۔انسانی تقاضو ں و خواہشات کوجائز طریقہ سے پورا کر نے ،انتشار وبے ضابطگی سے اجتناب کیلئے اس طریقہ کو مقدس قرار دیا تاکہ سو سائٹی میں معلوم ہو جائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے بندھن میں بند ھ چکے ۔ ارشاد ربانی ہے کہ:
فَانکِحُوہُنَّ بِإِذْنِ أَہْلِہِنَّ وَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَان۔(النساء:۲۵)
’’پس ان عورتوں کے سرپرستوں کی رضامندی سے ان کے ساتھ نکاح کرلو اور قاعدہ کے مطابق ان کے مہر ان کو دو،وہ پاک دامن ہوں نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں ،نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں‘‘ نکاح کے متعلق اسلام نے بیش بہا رہنمائی فراہم کی ۔جس سے کسی قسم کی بے راہ روی و انارکی کا خدشہ نہیں ہو سکتا ۔
نظام خاندان
مغرب نے صنفی معاملات میں مطلق آزادی کا نعرہ لگا کر عائلی نظام کو کمزور کردیا۔ لیکن اسلام صنفی میلان کو خاندان کے استحکام و استقلال کا ذریعہ قراردیتا ہے ۔خاندان میں تربیت کے ذریعے، اسلام نظم و ضبط پیدا کر تا ہے جس سے صالح خاندا ن آسانی سے اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔ اسلام،خاندان کے تمام پہلوئوں میں عدل و انصاف کی تعلیم دیتا ہے اور فطرت کی رعایت کرتا ہے ۔ دونوں صنفو ں میں جس طرز کی مساوات قائم کی جاسکتی تھی وہ اسلام کرتا ہے۔ دونوں کے حقوق و ذمہ داریاں ان کی فطری صلاحیتوں کے مطابق متعین کرتا ہے ۔زندہ رہنے کا حق پرورش ،تعلیم ،نکاح ، مہر اورنان ونفقہ کےحقوق سے عورت کو نوازتا ہے ۔ البتہ مرد کو خاندان کا قوام و نگراں بنایا کیونکہ ذمہ داری اس کی ہے جس کے لیے وہ محنت کر تا ہے ۔ارشاد باری ہے :
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘‘۔
قوامیت کی بنا وہ فضیلت ہے جو اللہ نے ان کوعطا کی ہے ۔ وہ عورتوںپر (مہر و نفقہ کی صورت میں ) اپنا مال خرچ کر تے ہیں ۔الغرض اسلام نے مرد و عورت کو مکمل انسا نی حقوق دیئے ۔مرد و عورت کا دائرہ عمل الگ الگ قرار دیا اور جس نظام معاشرت کی تاسیس کی اس کو تین طرح کے تحفظات سے بھی نوازا ۔ (۱) اصلاح باطن (۲)تعزیری قوانین (۳)انسدادی تدابیر تاکہ معاشر ہ میں کسی طرح کا انتشار و خلفشار نہ پید اہوجو فساد کا موجب بنے ۔اسلام کی اخلاقی تعلیمات و ہدایات کو علامہ مودودی اس طرح بیان کر تے ہیں کہ ـاسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت حیا کے چھپے ہوئے مادے کو فطرت انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و فہم اور شعور کی غذا سے اس کی پرورش کرتی ہے اور ایک مضبوط حاسہ اخلاق بنا کر اس کو نفس انسانی میں ایک کو توال کی حیثیت سے متعین کر دیتی ہے ۔(پردہ:ص۱۸۶)
اسلام کے معیار اخلاق اور اس کی اخلاقی اسپرٹ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ہر اس چیز کو ختم کیا جہاں دل کا چور فتنہ پر آمادہ کر سکتا تھا مثلاً صنف نازک کی آواز میں حلاوت ہے چنانچہ ارشاد ہوا :
فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَض (الحزاب:۳۲)
’’تم (اے محترم خواتین) نرم لہجے میں بات نہ کرو کہ جس کے دل میںروگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے ۔‘‘
فتنہء نظر،جذبہء نمایش حسن ،فتنہء زبان وآواز ،فتنہ عریا نی کے سلسلے میں ہدایات جاری کردیں کہ ا ے صنف نازک یہ تمام فتن تمہاری عزت و شرافت کو تارتار کر سکتے ہیں ان سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے ۔
منافقت کے مظاہر
یہ ہے اسلام کا نقطہء عدل و توسط جس کی آج دنیا کوسخت ضرورت ہے کیونکہ دنیا عورت کے مقام کا تعین کرنے میں افراط و تفریط کا شکار رہی ہے ۔ اسلام نے ایک معتدل ومتوازن نظام معاشرت دیا ۔ جس میں حقوق نسواں کا مکمل پاس و لحاظ رکھا گیامگر افسوس کہ موجودہ زمانہ میں بعض نئے تعلیم یافتہ مسلما ن فرنگی تہذیب وتمدن سے مرعوب ہوگئے ۔ اسلام نے عورت کو حسب ضرورت چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی محض اجازت دی تھی اس کو اپنے سفر کا نقطہء آغاز سمجھنے لگے۔اسلامی قوانین معاشرت کو اپنے رجحانات و نظریات کے تابع بنانے کی تگ و دو کرنے لگے ۔فرنگی عورتوں کی زینت و آرایش سے متائثر ہوکر اپنی عورتوں کو بھی مجبور کیاکہ نقالی پر اتر آئیں ۔
ستم بالائے ستم دلیل یہ دیتے ہیں کہ اسلامی قوانین میںاحوال زمانہ کے لحاظ سے تخفیف کی گنجائش ہے ۔لہٰذا موجودہ زمانہ میں تمدنی و سیاسی ،معاشرتی و معاشی مسائل کو سمجھنے کے لیےحدود شکنی درست ہے گویا اسلام کو مغربی عینک سے دیکھا جارہا ہے اوراس کو معتدل بنانے کا دعوی کیا جارہا ہے ۔صبغۃ اللہ کے بجائے مغربی رنگ لوگوں پر چڑھانے کی کو شش کی جا رہی ہے ۔ایسی تمام سازشوں سے عوام کو متنبہ کرنے اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ دور جدید کے مسلمان کو منافقت کو ترک کر دینا چاہئے ۔اس کو فریب ومکر سے نکلنا چاہئے اور کھلے دل ،سلیم فطرت ،منصفانہ نگاہ سے اسلام کے مجموعی سسٹم و نظام کا مطالعہ کر نا چاہئے محض ایک ستون کو دیکھ کر عمارت کی مضبوطی کا اندازہ نہیںلگایا جاسکتا نہ ایک ستون پر عمارت قائم ہوسکتی ہے ۔تمام مسلمانوں کو اپنی عائلی زندگی میں اسلام کا نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔
بہر حال اسلامی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں حقوق نسواں کا لحاظ ضروری ہے اگر ہم اسلامی نظام معاشرت کو پختہ طور پر قائم کرلیں تو باطل طاقتیں مسلم خواتین کی نام نہاد ہمدردی سے باز آجائیں گی ۔ ان کو اسلام پر انگلی اٹھانے کے مواقع نہیں ملیں گے۔ ہم کو خود واقفیت نہیں اس لیے وقت آگیا ہے کہ اسلامی قوانین و ضوابط کو ہم جانیں۔ اسلام میں مکمل داخل ہو جائیں ۔اپنی کم علمی کو دور کریں ۔ ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کریں۔اسلام کے عطا کر دہ عائلی نظام کو اپنے معاشرہ میں مکمل طور پر نافذ کریں ۔تو انشاء اللہ معاشرہ میںامن و امان ہوگا ۔ بھائی چارہ قائم ہو گا اور معاشرہ خطرات سے محفو ظ ہو جا ئے گا۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2019