صحافت یا اخبار نویسی یا صحیفہ نگاری اس اعتبار سے ایک مقدس اور بابرکت مشغلہ ہے کہ اس کا سلسلہ صحیفے سے استوار ہے جو کتاب رسالہ اور اخبار کے ساتھ خدا کی طرف سے نازل کردہ کتب کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اخبار نویسی کو ہم تما م علوم کا محور قرار دے سکتے ہیں اس لئے کہ صحافی معاشرے کا سب سے زیادہ باخبر انسان ہوتا ہے اور تمام جدید رجحانات اور علمی انکشافات پر اس کی نگاہ ہوتی ہے ۔ اس کا قلم عوام کے ذہن ودماغ کو کسی رخ پر موڑنے اور ان کی روزانہ کی زندگی میں گردو پیش کے احوال پر اپنے ردعمل کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صحافی ایک طرف زبان پر قدرت رکھتا ہے دوسری طرف معیشت، سیاست ، تمدن، عمرانیات، صنعت و حرفت ، تجارت واقتصاد پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اخبار نویسی اس عہد میں بے حد مؤثر سماجی عمل بن گیا ہے۔ صحافی اپنے ماحول کا نگراں ہوتا ہے۔ وہ منفی وتخریبی رجحانات سے ٹکر لیتا ہے۔ افراد اور اداروں کی لغزشوںو کوتاہیوں پر ان کی گرفت کرتا ہے اور سماجی اداروں کو صحتمند رجحانات اور اعتقادات کی بنیاد پر ایک فکری نہج اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ کبھی کبھی اخبار نویس جاری کرنے والے ادارے کا ترجمان محض بن جاتا ہے تو اس کی ’’وابستہ صحافت‘‘ میں بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک باقی نہیں رہ جاتی۔ ماضی میں ہمارے عظیم صحافیوں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، عبدالماجد دریابادی وغیرہ نے صحافت کو ایک انقلاب آفریں قوت اور طوفاں خیز لہر بنا دیا اور ہر طرح کی بندشوں سے آزاد رہ کر صحافت کی راہ کو فکر وخیال کی ایک نرالی کہکشاں میں تبدیل کردیا اور اسے معاشرے کی تعمیر وتشکیل نو اور اصلاح وتطہیر کاایک وسیلہ بنا دیا۔ کلکتہ کے جام جہاں نما ۱۸۲۲ سے ۱۹۴۷ء میں مولانا عبدالماجد دریابادی کے سچ، حیات اللہ کے قومی آواز تک بے باکی و حق گوئی کا سلسلہ جاری رہا ، پھر آزادی کے بعد بھی اردو صحافت ہزار دشواریوں کے باوجود ہندوستان میں رائے عامہ کی تشکیل اور معاشرے کی صحت کے لئے مصروف جہد وعمل رہی۔
اس وقت صحافت یا میڈیا ذرائع ابلاغ عالمی افق پر ایک غیرمعمولی توانائی کی لہر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ قوموں کے مقدرات کو بنانے وبگاڑنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت کچھ عالمی طاقتیں پوری دنیا پر حاوی ہونے کا خواب دیکھ رہی ہیں یعنی اس کے لئے اپنے خطرناک اسلحوں سے زیادہ میڈیا کے ہتھیار کو استعمال کر رہی ہیں۔ اس کے ذریعے وہ اپنے حریفوں کی صورت بگاڑنے اور دنیا کے کسی ایک علاقہ یا تہذیب کو ذلیل کرنے میں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ میڈیا سے متعلق لوگ اگر خوددار، خودنگر، دیانتدار اور صاحب بصیرت نہیں تو وہ میڈیا کا استحصال کرنے والی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں اور ان کا حال اس بندر کا ہوجاتا ہے جو نقالی کے شوق میںہاتھ لگ جانے والے کسی استرے سے اپنی ناک کاٹ لیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں ہماری صحافت کے ایک بڑے حلقے کے یہی انداز و اطوار ہیں کہ وہ مغرب کی اندھی تقلید میں معاشرے کو تباہ کرنے والی ہرلہر کا استقبال کرتے ہیں اور صاف وشفاف و پاکیزہ صحافت کے بجائے زرد صحافت کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ ۱۸۸۰ء میں امریکہ میں اس اصطلاح کو اشتعال انگیز صحافت کے معنوں میں استعمال کیاگیا تھا۔ اب سیاسی ومعاشرتی اشتعال انگیز صحافت کے ساتھ جنسی ہیجان پیدا کرنے والے فکشن کو بھی زرد صحافت میں شمار کیاجاتا ہے۔ بعض انگریزی و ہندی کے ممتاز اخبارات کایہ شیوہ بن گیا ہے کہ وہ ہر روز چند صفحات نوجوانوں کے جذبات سے کھیلنے، ان کو جنسی جرائم کی ترغیب دینے اور عورتوں کی عریاں ونیم عریاں اور کبھی کبھی بے حد فحش تصویروں کے لئے وقف کرتے ہیں گویا صحافت بھی فحش لٹریچر (Pornography) کاایک حصہ بن گئی ہے۔ اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ صحافت کو کچھ خود غرض و بے شعور لوگوں نے کہا ںسے کہاں پہنچا دیا ہے۔ صحافت جس کا سارا دارومدار حقیقت نگاری ، صدق مقالی اور بے کم وکاست اظہار حق پر تھا اس وقت افسانہ طرازی (فکشن) کا حصہ بن گئی ہے اور سنی سنائی باتوں کی تشہیر اور کبھی کبھی نہایت سنگین مراحل میں دو فرقوں کو لڑانے اور جھوٹی وغیر مصدقہ خبروں کے ذریعے نفرت و انتقام کے جذبات پرتیل چھڑکنے کا کام ہمارے کچھ صحافی بڑی مستعدی سے کرتے ہیں اس لئے کہ اس میں ان کو خاصی منفعت نظر آتی ہے۔ گجرات کے فسادات کے وقت گجراتی اخبارات کا تقریباً یہی کردار رہا ہے۔
ایک صالح معاشرے کی تعمیر کے لئے اقدار کے ایک نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقدار سچائی کو جھوٹ سے، بھلائی کو برائی سے خیر کو شر سے ممیز و ممتاز بنانے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے مغربی تہذیب اور اشتراکی نظام فکر دونوں نے ہماری مشرقی تہذیب کی مسلمہ اقدار کے وقارو اعتبار کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ مغرب نے اچھائی وبرائی کو ناپنے کا پیمانہ مادیت یعنی ٹھوس مادی فوائد کوقرار دیا۔ اشتراکیت نے تو صاف کہہ دیا کہ وقت کے تقاضوں اور جذبات کی لہروں کے ساتھ قدریں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ دائمی اور ناقابل تغیر نہیں یعنی کل جو سچ تھا وہ آج جھوٹ قرار پاسکتا۔کل حیا اچھی چیز تھی تو آج ننگا پن اور بے حیائی اچھی چیز کہی جاسکتی ہے۔ طبقاتی کشمکش میں بورژوا کے خلاف ہر حربے کا استعمال عین اخلاق ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے ہمارا ہندوستانی معاشرہ متضاد افکار و رجحانات کے درمیان سخت ہیجان و اختلال کا شکار ہے۔ نوجوانوں کے سامنے کوئی نصب العین اور کوئی قابل اعتبار راہ عمل نہیں رہ گئی ہے۔ ان کے پاس اچھائی اور حق کو جانچنے کی کوئی کسوٹی نہیں رہ گئی ہے۔ وہ اپنے سارے آدرشوں سے ہاتھ دھوتے جارہے ہیں۔ مغرب کے تہذیبی سامراج اور اباحیت و ٹھیٹ مادہ پرستی کی یلغار کے سامنے ان کا قد م جمانا مشکل ہورہا ہے۔ مگر خدا کا شکار ہے کہ ابھی ان افکار وعقایدکی بنیادیں منہدم نہیں ہوئی ہیں جن پر ماضی میں ایک بارونق خاندان اور پرسکون معاشرہ اور باہمی خیرسگالی رکھنے والی اجتماعیت کی تشکیل ہوئی تھی۔ میرا خیال ہے کہ ہماری اردو صحافت ان بنیادوں کی بازیافت کا تاریخی کردار ادا کرسکتی ہے۔ ابھی اس میں صاحب ضمیر افراد موجود ہیں جو ہمارے معاشرے کے موجودہ انتشار واختلال کو ختم کرنے اور حیوانی خصلتوں سے اسے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مغرب نے دیگر علوم وفنون کی طرح صحافت کو بھی انسانی شخصیت اور معاشرے کی بہبود اس کے اخلاقی وجود کے استحکام اور تہذیب و ضبط نفسی کے بجائے آسائش حیات میں اضافہ اور حیوانی طاقتوں میں اضافے کا وسیلہ بنا دیا ہے۔ مغربی تہذیب کی کھائو پیو عیش کرو اور کمزوروں کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرو کے اصول پر عمل پیرا ہے۔ حقوق انسانی، عدل وانصاف اور انسان کی روحانی بالیدگی اور ضمیر کی توانائی کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ علم کے خزائن جو مغرب میں پھٹ پڑے ہیں مادی شان وشوکت اور دوسروں کے استحصال کے سوا کس کام آرہے ہیں۔ خبروں کی برق رفتاری کی تکنیک اس وقت صحافت کے عروج کا ذریعہ بن سکتی ہے جب صداقت اور خیر کی ترسیل ہو اور شر سے نفرت پیدا ہو۔ سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک عفریت نے پلک جھپکتے ملکہ سبا کا تخت لاکر رکھ دیا تھا لیکن سلیمان ؑ کی عظمت اس میں تھی کہ وہ معمولی سے معمولی مخلوقات کے درد کو محسوس کرتے اور اس کا مداواکرتے تھے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ اس لئے ٹوٹ بکھر رہا ہے کہ ہر شخص خواہشات نفس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہا ہے۔ اگر ہماری صحافت اس دیوانگی کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکے تو وہ اس فتنہ ساماں دور کی تاریخ میں یادگار بن جائے گی۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جبکہ صحافی حق گوئی اور بے باکی کو اس روایت کو برقرار رکھے جو ہماری صحافت کے شاندار ماضی قریب سے وابستہ عظیم صحافیوں نے قائم کی تھیں۔ انہیں صحافیوں میں محمد عثمان فارقلیط اور محمد مسلم سرفہرست ہیں۔ فارقلیط اور مسلم صاحب ہمعصر تھے اور اردو کے دو ممتاز اخبارات کے مدیر تھے اور دونوں کے طرز فکر اور جرأت گفتار میں کافی مماثلت تھی۔
مسلم صاحب کے عہد یعنی بیسویں صدی کے نصف آخر میں ممتاز اردو صحافیوں کی ایک کہکشاں طلوع ہوئی جنھوں نے ماحول کو منور کردیا۔ مسلم صاحب کے ہمعصر بلکہ ان کے پیش رو محمد عثمان فارقلیط (مدیر الجمعیۃ ،دہلی) نے مولانا عبدالماجد دریابادی وغیرہ کی روشن روایات کوفروغ دیا۔عثمان فارقلیط کا دور ہندوستان کی تاریخ کا نہایت پرآشوب دور تھا جبکہ ہندو فاشسٹ قوتیں مسلمانوں کے سر پر عذاب بن کر مسلط ہوگئی تھیں۔ سیکولرزم کی نہایت غلط تاویلیں کی جارہی تھیں اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بن کر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ اس وقت کچھ نیشنلسٹ قسم کے اخبارات بھی مسلمانوں کو اسلامی شناخت ترک کرنے اور مذہب کو برائے نام اپنی ز ندگی میں باقی رکھنے کی تلقین کر رہے تھے جن میں لکھنؤ کا قومی آواز پیش پیش تھا۔ دہلی اور پنجاب کے کچھ آریہ سماجی اخبارات مسلسل تیشہ زنی کر رہے تھے۔ اس ماحول میں مولانا عبدالماجد دریابادی ’صدق جدید‘ میں اور عثمان فارقلیط ’الجمعیۃ‘ میں بڑی خود اعتمادی اور جرأت اظہار کے ساتھ اس طبقے کی خبر لے رہے تھے۔ اس وقت الجمعیۃ کے ۲۵؍ دسمبر ۱۹۴۷ء کے شمارے میں مولانا فارقلیط رقمطراز ہیں: ’’اس وقت مسلمانوں کے دلوں پر خوف وہراس ، دہشت و سراسیمگی چھائی ہوئی ہے معمولی خوف وہراس نہیں بلکہ وہ خوف وہراس جس کی لپیٹ میں ان کا مستقبل آچکا ہے اور جو وراثتاً ان کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہے گا۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ان کے دلوں پر سکون وطمانیت کا مرہم رکھا جائے اور انہیں خوف وہراس سے نجات دلائی جائے‘‘۔ مولانا فارقلیط نے صاف گوئی اور بے لاگ تنقید کو اپنی صحافت کا محور قراردیا۔ لکھتے ہیں جہاں تک صاف گوئی اور بے لاگ تنقید کا تعلق ہے ہم دنیا کی ہرطاقت کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ حق اورسچائی کے مقابلے میں ہم کسی کی رعایت نہ کریں گے۔ اسی روایت پر مولانا اگلے پچیس سال تک اخبار کے صفحات پر قائم رہے۔ جب ملک میں خوفناک فسادات ۱۹۶۰ء کے بعدشروع ہوئے تو مولانا عثمان کے قلم سے جوئے خوں رواں ہوگئی اور انھوں نے ۱۹۶۱ء میں مسلسل ایسے اداریے لکھے جن کو پڑھ کر کلیجہ شق ہوجاتا ہے۔ انھوں نے پنڈت نہرو کو تلقین کی کہ وہ اس شمشان گھاٹ کو جاکر خود آنکھوں سے دیکھیں۔ انہیں افسوس تھا کہ صدر کے خطبے میں لولمبا کی موت کا توذکر ہے لیکن جبل پور و ساگر کے مقتولین کا کہیں حوالہ نہیں۔ اسی طرح ۶۰ء سے ۷۰ ء تک فسادات کا ان کے اداریوں میںمسلسل ذکر ملتا ہے۔ مولانافارقلیط کی سادگی قلندری اور بے نیازانہ زندگی کی گزشتہ صدی کے اکثر دانشوروں اور ملت کے رہنمائوںاور مفکروں نے توصیف کی ہے۔ نثار احمدفاروقی لکھتے ہیں: ’’سب سے بڑی خوبی ان کی سادگی ،درویشی اور قناعت کی صفت تھی۔ دہلی کی گلی قاسم جان میں احاطہ کالے صاحب کے عین مقابل ایک دوکان میں ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ بڑی سی پرانی ٹوٹی پھوٹی میز تھی اس کے دونوں جانب پرانی بنچیں، ایک چائے کی کیتلی اور چائے بنانے کا دوسرا سامان ‘‘ یہی مولانا کی شام کی نشست گاہ تھی، اتفاق ہے کہ میں جب ۱۹۶۳ء میں تعلیم مکمل کرکے دہلی ریڈئینس کے ادارے میں کام کرنے کے لئے ایک سال کے لئے گیا تو اس ہوٹل میں کئی بار مولانا فارقلیط سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہ قابل قدر انسان کس درجہ قناعت پسند اور گوشہ گیر تھا ان کی پوری شخصیت سے اس کا اظہار ہوتا تھا جبکہ وہ نہایت منجھا ہوا پختہ کار صحافی تھا جس کی آواز کان لگاکر پورے ملک میں سنی جاتی تھی۔
اسی عہد میں دہلی میں ایک دوسرا قلندر محمد مسلم بھی موجود تھا جو اخبار دعوت کا مدیر تھا جس کا پہلا دفتر کشن گنج میں تھا پھر جامع مسجد کے سامنے سوئیوالان میں منتقل ہوا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے مسلم صاحب سے قرب اور دہلی و دیگر مقامات پر استفادے کا موقع حاصل ہوا۔ اخبار دعوت جب دہلی سے شائع ہوا تو اس کے مدیر اول اصغر علی عابدی تھے جن سے ادب وتنقید کے رشتے سے میں بے حد مانوس تھا۔ وہ ادارہ ادب اسلامی ہند کے اہم ذمے داروں میں تھے۔ پھر وہ بعض وجوہ سے جب بمبئی چلے گئے تو دعوت کی ادارت کی ذمے داری محمد مسلم صاحب نے اٹھائی۔ مسلم صاحب کا تعلق بھوپال سے تھا۔ نوجوانی کاایک دور انھوں نے خاکسار تحریک کی ہمسفری میں طے کیا پھر تحریک اسلامی کے ہم سفر بنے۔ مزاج میں خاکساریت آخر تک برقرار رہی۔ ایسی قیامت کی سادگی ، ایثار اور خدمت خلق کا جذبہ جسے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ میں نے ۱۹۶۰ء میں ثانوی درسگاہ رام پور میں تعلیم کے بعد مسلم صاحب کی پرکشش شخصیت کی بنا پر دہلی ان کے ساتھ جاکر دعوت اخبار میں کام کرنے کا ارادہ کرلیا مگر وہاں کی پرمشقت زندگی دیکھ کر دو ماہ بعد ہی واپس وطن چلا گیا اور یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کا فیصلہ کرلیا۔ دہلی میں جو دوماہ مسلم صاحب کے ساتھ گزرے اسے بھول نہ سکا۔ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ دعوت اخبار کی پوسٹنگ کے دن کارکنوں کی کمی کے سبب وہ اخبار پر ٹکٹ چسپاں کرنے کے کام میں چپراسیوں کے ساتھ بیٹھ کر شریک ہوجاتے تھے ایک دوبار مجھے بھی اس کام میں شریک کیا۔ پھر ایک بار دہلی میں وفات شدہ افراد کے کپڑوں اور جوتوں کی بازار میں مجھے لے گئے اس لئے کہ میرے جوتے پھٹ گئے تھے اورسستے جوتے کی تلاش تھی اور واقعی ایک دو روپے میں اچھا خاصا جوتا میرے پائوں میں فٹ ہوگیا۔ بعد میں موصوف مسکراکر بولے کہ خدا کاشکر ہے کہ مرحوم آپ ہی کے قدوقامت کے تھے۔ میں یہ معلوم کرکے سخت پریشان ہوا کہ ایک وفات شدہ انسان کا جوتا پہنے ہوئے ہوں۔ معلوم ہوا کہ موصوف کی اکثر خریداری اسی کوڑیوں کے بھائو ملنے والی اشیاء کے بازار میں ہوا کرتی تھی۔ یہ ان کی خاکسارانہ تربیت تھی کہ اپنی ذات پر کم از کم خرچ کرو اور خلق خدا کیلئے جو بھی ہو قربان کردو۔
پھر جب میں ایک سال کے لئے ۱۹۶۳ء میں ریڈئینس میں کام کرنے دہلی گیا تو اکثر موصوف کا سوئیوالان سے جامع مسجد کی سیڑھیوں تک ساتھ رہتا۔ کبھی کبھی مرحوم کے گھر بھی جاتا اور ان کی دال روٹی میں ان کا شریک ہوتا۔ مگر ضرورت مندوں کا ہجوم انہیں کھانے کے وقت بھی چین نہ لینے دیتا۔ اس زمانے میں مرکز جماعت میں امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کے علاوہ دیگر ذمے داروں اور کارکنوں کا انداز رہائش قلندرانہ تھا۔ ایک نہایت اعلیٰ مقصد کے لئے نہایت حوصلہ مندی سے ایثار وقربانی کا لوگ مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس کااثر یہ تھا کہ ملت کے تمام حلقوں میں مسلم صاحب اور جماعت کے اکابرین کا غیرمعمولی احترام تھا اسی زمانے میں جب مسلم مجلس مشاورت کی تشکیل ہوئی تو اس کے روح رواں محمد مسلم تھے جنھوں نے ایک نہایت پرآشوب دور میں پوری ملت کی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔ سید محمود صاحب مسلم صاحب سے بہت قریب تھے۔ یاد آتا ہے کہ جب میں ’دوام ‘(ٹانڈہ فیض آباد) کے لئے سید محمود صاحب سے انٹرویو لینے کے لئے فیض آباد سے دہلی آیا تو وہ مجھے خود اپنے ساتھ لے کر سید محمود کے دولت کدہ تک گئے اور میں نے کئی گھنٹے تک ان سے انٹرویو لیا جو بعد میں کافی مقبول ہوا۔ پھر میں نے ۱۹۷۰ء میں مسلم قیادت کا مرکزی نقطہ بنے ہوئے مدیر دعوت سے دہلی میں انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا عنوان میں نے علامہ اقبال کے اس شعر کو قرار دیا تھا ؎
حضور ملت بیضا پیدم
نوائے دل گدازے آفریدم
اس انٹرویو میں مسلم صاحب نے اپنی زندگی کے ابتدائی اوراق بھی الٹے اور بتایا کہ ان کا خاندان سید سالار مسعود غازیؒ کے باقیات میں سے ہے اور غدر ۱۸۵۷ء میں حصہ لینے کی وجہ سے ریواڑی سے ترک وطن کرکے ۲۹ آدمیوں کا قافلہ بھوپال پہنچا۔ مسلم صاحب بچپن ہی میں خاکسار تحریک میں شامل ہوگئے۔ ۱۹۴۲ء میں جب علامہ مشرقی مدراس میں قید تھے تو دوماہ ان کے پاس جاکر رہے اور مالابار وغیرہ کا پیدل سفر کیا وہ اس تحریک کا مقصد غلبہ اسلام قرار دیتے تھے۔ پھر آزادی کے بعد وہ جماعت اسلامی سے منسلک ہوئے اس لئے کہ یہ تحریک ملت کو اپنا بنیادی اثاثہ تصور کرتی ہے اور ملی اتحاد کے ہر مثبت تصور کو اس نے خوش آمدید کہا ہے اور ملک کی تمام خیرپسند جماعتوں کی تعمیری خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور خود کو ساری ملت کی واحد ترجمان سمجھنے کے غرور میں مبتلا نہیں۔ مسلم صاحب نے مشاورت کے تحت معاہداتی سیاست کا تخیل پیش کیا۔ انہیں شکایت تھی کہ مشاورت میں شامل جماعتوں نے تن من دھن سے اس کیلئے کام نہ کیا۔ انہیں یقین تھا کہ مشاورت اگر مزید سرگرم ہوتی تو ملک کی اخلاقی قیادت اپنے ہاتھ میں لے سکتی تھی۔ ان کا خیال تھاکہ جو مسائل اس وقت ہماری امت کے سامنے ہیں وہ ایسے نہیں جو کسی ایک جماعت کے بس کے ہوں۔ انہیںسب کو مل کر اٹھانا ہوگا۔ ان کی آرزو تھی کہ ایثار، قربانی اور کسر نفسی کا جذبہ لوگوں میں پیدا ہو اور خود پسندی و خود نمائی کے جذبات سے ہم نجات حاصل کرسکیں۔ وہ قومیت کی تباہ کن کشمکش اورقومی برتری کے مرض قبیح سے نجات کے لئے دعا کرتے تھے۔ میں نے ۱۹۸۶ء میں ان کی وفات کے وقت لکھا تھا کہ اپنے عہد کے انسانوں کی فلاح وبہبود کی فکر میں انھوں نے پوری عمر گزار دی۔ شہرت ، عزت وناموری کی تمنا سے اس درویش خدامست کا سینہ ہمیشہ خالی رہا۔ انھوں نے بحیثیت صحافی اس وقت بڑا اہم کردار ادا کیا جب جبل پور، جمشید پور اور راوڑکیلا جیسے فسادات سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ ملک حیوانوں میں تبدیل ہوتا جارہا ہے جہاں انتظامیہ، پولیس اور سیاستداں سب بے قصور انسانوں کے بہتے ہوئے لہو کا کوئی مداوا کرنے کو تیار نہ تھے۔
جناب محمدمسلم نے اردو صحافت کی وادی میں جس وقت قدم رکھا وہ اردو صحافت کاایک روشن دور تھا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں بے شمار قدآور صحافی پیداہوئے جنھوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور اپنی نسلوں کو اپنی تہذیب وتاریخ سے روشناس کرانے اور ان کے دل میں خود اعتمادی و حوصلہ مندی پیدا کرنے کی شاندار کوششیں کیں۔ ابوالکلام آزاد کے ’الہلال‘و ’البلاغ‘ نے اردو صحافت کو آسماں کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ وہ ایک صاحب طرز انشا پرداز اور اعلیٰ درجے کے مبصر ومفکر بھی تھے۔ خدا نے ان کو خطابت کے ساتھ اعلیٰ درجے کی نثر لکھنے کی قوت عطا کی تھی جو دلوں میں چنگاریاں پیدا کردیتی تھی۔ وہ ملک وملت کی تعمیر اور اصلاح کا غیر معمولی ولولہ رکھتے تھے پھر محمد علی جوہر جیسا دلیر و بے باک رہنما اور صحافی منظر عام پر آیا جس نے ٹھہرے ہوئے پانی میں طوفان خیز لہریں پیدا کردیں۔ کامریڈ ’ہمدرد‘ کے بعد ظفر علی خاں کا ’زمیندار‘ طلوع ہوا جس نے تہذیب مغرب کے منھ پر وہ تھپڑ رسید کیا جس نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ملک کی آزادی کے بعد مولانا عبدالماجد دریابادی کے ’صدق جدید‘ نے بڑا انقلاب آفریں کردارادا کیا۔
محمد مسلم نے اخبار دعوت کو ایک اعلیٰ مشن کی تکمیل کاذریعہ بنایا۔اس جریدے نے صاف ستھری صحافت اور ذہنوں کی مثبت انداز سے تعبیر کرنے والے شذرات کے ذریعے ایک شکستہ دل ملت کو ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کاپیغام دیا۔ ان کے شذرات میں بڑی نشتریت درار کی اور حکیمانہ نظرکی جھلک ملتی تھی۔ اگرچہ دعوت کے شذرات پر کسی کا نام نہیں ہوتا تھا۔ صرف پہلے صفحے کے خبرونظر کے کالم کو وہ خاص طور پر خود تحریر کرتے تھے۔ اس کالم کا اگر جائزہ لیاجائے تو مولانا عثمان فارقلیط اور مولانا عبدالماجد دریابادی جیسے حالات حاضرہ پر چبھتے ہوئے تبصرے ہوا کرتے تھے۔ اس کالم کے چند عنوانات اورمحاکموں اور جائزوں کو دیکھئے تو ان کی جرأت گفتار اور اسلامی غیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پنڈت نہرو کی شوخ کلامیوں کی گرفت کرتے ہوئے گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں وہ ’’عقل پر پردہ‘‘ کے عنوان سے رقمطراز ہیں:
’’ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لال نہرو ہر مسئلے پر بولنا ضروری سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے عورتوں کے پردے کے خلاف اظہار خیال فرماتے ہوئے کہا جو لوگ عورتوں کو پردے میں رکھتے ہیں ان کے دماغ پنجرے میں بند ہیں۔ نہروجی کے خیال پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہے۔ جب یہاں ہر تہذیب اپنی اپنی حدود میں زندہ رہ سکتی ہے تو پھر انھوں نے دوسری تہذیب یا مذہب کے لوگوں پر غیر اخلاقی اورغیرقانونی حملہ کس طرح کیا۔ کیا وہ قول وعمل کے تضاد میں مبتلا ہیں۔ کیا وہ حکومت کے وزیراعظم اور سیاسی لیڈر کے علاوہ اپنے آپ کو سماجی مصلح اور مذہب میں تبدیلی کا ذمے دار بھی خیال کرتے ہیں؟ کیا کسی جمہوری ریاست کے وزیراعظم کو یہ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے؟… سچ تو یہ ہے کہ بے پردگی جس کے لئے وزیراعظم زور لگا رہے ہیں بقول اکبر الہ آبادی اس پردے کا نتیجہ ہے جو اچھے اچھے مردوں کی عقل پرپڑگیا ہے‘‘۔
اپنے ایک اور شذرے میں وہ پھر مسٹر نہرو کی خبر لیتے ہیں۔ ’’کانگریس راج کے بہت سے پاپ ہیں مگر یہ پاپ سب سے بڑا ہے کہ اس نے ہندوئوں مسلمانوں کو دور دور رکھا۔ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا یہ آپ کیا سن رہے ہیں۔ ابھی تک تو یہی معلوم تھا کہ کانگریس ہندو مسلم اتحاد کی علمبردار ہے۔ پنڈت نہرو متحدہ قومیت کے نشان ہیں، لیکن یہ معتبر راوی کیا کہہ رہا ہے کہ یہ صرف راج گدی کے بھوکے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ الیکشن کے موقع پر تقریباً سو تقریریں ایسی کیں جن سے ہندوئوں مسلمانوں کے درمیان نفرت کا جذبہ بڑھ گیا‘‘۔ اپنے اکثر شذرات میں مسلم صاحب نے موجودہ مغربی تہذیب کو جس کی نقالی ہندوستان میں ہورہی ہے موضوع بنایا ہے اوراسلامی تہذیب واخلاقی اقدار کی فضیلت پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’کاش یہ تمنائیں برآئیں کے عنوان سے مسلم صاحب اپنے ایک شذرے میں رقمطراز ہیں : ’’الحادی مادی تہذیب کے علمبردار لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان (اخلاقی) بنیادوں کو اپنانے کی جو لوگ دعوت دے رہے ہیں وہ رجعت پسند ہیں۔ لوگوں کو اس جوہری دور میں اونٹ اور بیل گاڑی کے دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔ اب ان دانشوروں سے کون کہے کہ زندگی کی ان بنیادوں کے بارے میں یہ تاثر سراسر باریک مغالطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ توحید رسالت اور آخرت اونٹ اور بیل گاڑی کا نام نہیں ہے۔ نہ یہ تصور کھیت میں ٹریکٹر چلانے سے اور نہ جوہری طاقت کے تعمیری استعمال سے منع کرتا ہے۔ ہاں یہ عریانی اور بے حیائی کی راہ اپنانے سے منع کرتا ہے۔ اس راہ پر چل کر دنیا کو کنواری مائوں اور بن باپ کے نونہالوں کا تحفہ ملتا ہے۔ اگر یہی رجعت پسندی ہے تو اس پر شرمانے کی ضرورت نہیں بلکہ فخر سے ہم کہتے ہیں کہ ہم رجعت پسند ہیں‘‘۔
مسلم صاحب اپنے رشحات میں سماج کے مختلف طبقات اور مختلف مذاہب کے افراد کے اخلاقی زوال اور اپنی مثبت تعمیر سے بے فکری پر بار بار اظہار خیال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی طرح وہ برادران وطن کو اپنے داخلی بگاڑ اور ان کی نئی نسلوں کی بے راہ روی پر متنبہ کرتے ہیں۔ اپنے ایک شذرے میں ’’ہندوئوں میں مذہبی قیادت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں: ’’ہندوئوں میں مذہبی قیادت عرصے سے ناپید ہے۔ یوں تو ہمارے ہندو برادران میں ڈیڑھ سو سال سے مذہبی بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اس زمانے میں نئی نئی تحریکیں اور ادارے وجود میں آئے ہیں لیکن آج تک ہندوئوں میںاپنی مذہبی قیادت نہ ابھر سکی جس کے مقابلے میں لامذہبی قیادت کا سورج غروب ہوگیا ہو، ایک طویل عرصے سے ہندو قوم کی رہنمائی اور سربراہ کاری مذہب سے بے پروا لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ ایک طرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو قوم کا عام مزاج مذہبی قیادت کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ہندوئوں میں مذہب کو زندگی کی رہنمائی اور سربراہ کاری کی حیثیت حاصل نہیں۔ مذہبی قیادت کی تعمیر کے لئے مثبت لائنوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے او ریہ وہ چیز ہے جس سے آج تک ہندوئوں کی مذہبی تحریکیں بے خبر ہیں۔ کبھی کبھی اگر وہ اس طرف توجہ بھی کرتی ہیں تو وہ ادھوری اور نیم دلانہ توجہ ہوتی ہے۔ مثبت جدوجہد زندگی کے صرف چند ایک شعبوں ، چند عبادتوں، معاشرتی سدھار اور عورتوں اوربچوں کی اصلاح کی چند باتوں تک محدود ہوتی ہیں اور وہ بھی بیشتر مادی نقطۂ نظر پر مبنی ہوتی ہے‘‘۔ مسلم صاحب کے اس شذرے سے ان کی وسعت نظر اور انسانی ہمدردی اور ملک کی خیرخواہی کا جذبہ منعکس ہوتا ہے۔ اس طرح کے قائدانہ اور دردمندانہ شذرے کم اخبارات میں اس وقت نظر آتے تھے ۔ اب حال یہ ہے کہ ملک کی اکثریت اور انہیں کے ساتھ مسلمان اور ملک کے سیاسی قائدین سب مذہب اور اخلاق کو نہایت فرسودہ اور غیر ضروری شئے سمجھ رہے ہیں ، خاص طور پر ہندو قوم نے اپنی قدیم اخلاقی تعلیمات کو ایک دم فراموش کردیا ہے۔ ان کے اندر جو لوگ مذہب کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ بھی رسمی اور زیادہ ترقومی کشمکش اور مسلمانوں کو نیچا دکھانے میں انہیں دلچسپی ہوتی ہے۔ باقی مغربی تہذیب اور مادہ پرستی پر پورا ملک سارے سیاستداں اور نوجوان نسل دل و جان سے فدا ہورہے ہیں اور اس سے جو خوفناک برائیاں جنم لے رہی ہیں ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
مسلم صاحب اپنے شذرات میں صرف سیاسی مسائل اور امو رپر اظہار خیال نہیں کرتے بلکہ اپنی اقدار وعقائد پر مضبوطی سے قائم رہنے کی بھی تلقین کرتے ہیں۔ ’’ مسلمانانِ ہند کو ایک بات ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اپنی نئی نسلوں کو مسلمان بناکر رکھنے کی ذمے داری خود انہیں کو ادا کرنا ہے۔ یہ کام کوئی حکومت ادا نہیں کرے گی۔ ان نسلوں کو انھو ںنے اگر مسلمان بناکر اٹھایا اور ایک لائق اور صاحب صلاحیت شہری کی حیثیت سے اپنا جانشین بناکر چھوڑ گئے تو دنیا اور آخرت دونوں ہی جگہ ان کایہ کارنامہ وزنی شمار ہوگا‘‘۔
مسلم صاحب نے صحافت کو اعلیٰ درجے کی حکیمانہ گفتگوئوں کا محور بنایا۔ وہ واقعات و حوادث سے اعلیٰ نتائج برآمد کرتے ہیں اور انسان کو اس کے اصل مقصد حیات کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ شاید ایسی عارفانہ گفتگوئیں صحافت کی دنیا میں کم صحافیوں نے کی ہوں گی۔ ایک شذرے میں غلط راہ کے عنوان سے لکھتے ہوئے ایک ریل انجن کی مثال دیتے ہیں ، ’’جس طرح ریلوے انجن پٹری سے اتر جانے کے بعدمفید ہونے کے بجائے مضر ہوجاتا ہے اسی طرح انسانی زندگی کا بھی معاملہ ہے۔ اگر انسان اپنی اصل راہ خدا پرستی کی راہ چھوڑدیتا ہے تو وہ اس دنیا کیلئے مفید ہونے کے بجائے مضر ہوجاتا ہے۔ جتنا آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی اس کا وجود خطرات سے گھر جاتا ہے‘‘۔
مادہ پرستی کے عنوان سے لندن کے اخبار دی ٹائمز کا حوالہ دیتے ہوئے روس میں بعض حیوانی رجحانات کا ذکر ہے اور تازہ واقعات کا حوالہ دے کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں۔ ’’بڑی خوشی ہوئی کہ افادیت پرستی کی فضا میں جس گروہ نے پرورش پائی تھی اور جس کے دلوں میں رحم شفقت اور محبت کے جذبات کو کوئی جگہ ہی نہیں پانی چاہئے تھی اس سماج میں انسان کی خیر پسندی اپنا اثر دکھانے لگی ہے اور تجسس و تحقیق کا جذبہ پھر سے یہ راہیں تلاش کرنے لگا ہے کہ کھانے پینے خوش رہنے اور مرجانے کے علاوہ بھی اس زندگی کے کچھ اور پہلو ہیں۔ باہر جانے والے روس کی بلند و بالا عمارتیں دیکھتے ہیں یا عالیشان کارخانے، انہیں مزدوروں کے آرام دہ مکانات اور کاشتکاروں کے خوشنما باغات کی سیر کرائی جاتی ہے لیکن کاش سیاحوں کی کچھ ٹیمیں اس خیال سے بھی اس ملک کا سفر کریں کہ مارکس کے فلسفے نے جس انسان کو گم کردیا تھا اس انسان کو کس طرح پھر سے ڈھونڈ نکالا جائے اور انسانیت اپنی بکھری ہوئی تسبیح کے دانوں کو کس طرح ایک لڑی میں پروسکے‘‘۔
اس طرح کہ شذرات کے ذریعے مسلم صاحب صحافت کو ایک قائدانہ رول ادا کرنے کا اہل بنانے کی کو شش تاعمر کرتے رہے۔ افسوس کہ اب دیگر زبانوں میں صحافت ایک بازاری کاروبار بن گئی ہے اور یہاں اپنے ضمیر کو فروخت کرنے اور خبروں کو فروخت کرنے اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں لوگ مصروف رہتے ہیں۔ کچھ صحافی ضرور دیگر زبانوں بالخصوص انگریزی زبان میں موجود ہیں جو اب بھی حق کی حمایت میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ ہماری موجودہ اردو صحافت میں ماضی کی روایات بڑی حد تک برقرار ہیں خواہ قوت اظہار اور اسلوب کی دلکشی میں بہت انحطاط ہوا ہو۔ مسلم صاحب کے اخبار دعوت کے شذرات میں خدا کا شکر ہے کہ ان کے اخلاف نے ان کی روایت کو قائم رکھا ہے اور حق کو حق کہنے اور ناحق پر تنقید کرنے کی روش برقرارہے مگر مسلم صاحب جیسا سوزوگداز نہیں۔ مسلم صاحب کی اس ندرت اور ہمہ گیر صلاحیت کو کبھی فراموش نہ کیا جاسکے گا کہ وہ ملکی و ملی مسائل میں عملی طور پر قائدانہ رول ادا کر رہے تھے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا قیام بڑی حد تک ان کی کوششوں کا مرہون منت تھا، انھوں نے ملت کے قائدین کو باہم مربوط کرنے اور عوام کے قریب آکر ان کی رہنمائی کرنے کی بھرپور جدوجہد کی، بیسویں صدی کی تاریخ ملت میں ان کا یہ اہم کارنامہ روشن حروف سے لکھا جائے گا۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2013