بخدمت امیر جماعت اسلامی ہند، سید سعادت اللہ حسینی
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
خاکسار کا تعلق تو پاکستان سے ہے لیکن ساری عالمی اسلامی تحریکوں سے قلبی تعلق ہے اور ان کے احوال پر غور کرتا رہتا ہوں۔
اختصار کے ساتھ یہ عرض کر رہا ہوں کہ بر صغیر پاک و ہند میں سید ابوالاعلی مودودیؒ کی صورت میں علم و فکر کا جو سورج طلوع ہوا تھا، اس کے غروب ہو جانے کے بعد اس کی شعاعیں علامہ یوسف القرضاویؒ میں جمع ہو گئی تھیں اور وہ فکری و اجتہادی روشنی بانٹنے لگے تھے۔ پاکستان میں علمی و فکری سرمایہ سیاست کی گرد میں دب گیا اور یہ چمن ویرانی کا شکار ہو گیا۔ اب اس کی ویرانی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
اس دوران میں آپ کے ملک میں تحریک اپنے چراغ جلاتی رہی۔ امرائے جماعت اور ان سے وابستہ اہل علم نے اس چمن کو ویران نہ ہونے دیا۔
علامہ قرضاوی کے بعد اب وہ شعاعیں آپ کی ذات اور آپ کے فکری قافلے کے متعدد افراد میں سمٹ آئی ہیں۔
اللہ تعالی آپ کی فکری جولانیوں کو ہزار چند کرے اور تحریکی فکر کی تابندگی و توانائی فزوں تر رہے۔ ’زندگی نو‘ میں آپ کے فکر انگیز مقالات پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔
وقت کے ساتھ افکار میں اجتہادی ضرورتیں نمودار ہوتی ہیں اور کاروانِ فکر کے سفر کے ساتھ سید مودودیؒ اور علامہ یوسف قرضاویؒ کے کئی خیالات میں بھی ترمیم و اضافہ کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس ضرورت کا تعلق تمام تر اہل فکر کے اپنے اجتہادی افکار سے ہو گا۔ نصوصِ قرآن و سنت میں کسی ترمیم و اضافہ کی گنجائش نہیں ہو گی۔
کچھ فکری دھارے ایسے ظاہر ہوئے ہیں جن کا شجرہ تو کلاسیکل روایتی اسلامی تحریکوں سے ملتا ہے لیکن انھوں نے اسلامی تعلیمات کی ایسی ’مرمت‘ اور تشکیل نو شروع کر دی ہے جس کا مقصد مغربی یا دیگر تجدد پسند افکار کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے اسلام کو مغربی تہذیبی اور فکری سانچے میں ڈھالنا بن گیا ہے۔ گویا وہ اہلِ مغرب کی خوشنودی کے لیے یا شاید نیک نیتی سے اہلِ مغرب میں اسلام کی قبولیت کے دروازے کھولنے کی نیت سے اسلامی اصول و قواعد میں ترمیم کر کے اہلِ مغرب کے ایما یا مرضی کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ جس علمی و فکری لہر سے وابستہ ہیں اس کی جڑیں قرآن و سنت کے ساتھ سید مودودیؒ کی نہر سے بھی ہے۔ ان کی حفاظت لازم ہے۔
یہ سارے خیالات میرے ذہن میں ’زندگی نو‘ کے ایک بہت اہم مقالہ بعنوان ’اسلامیانِ مغرب کے چند مسائل‘ از ڈاکٹر جیفری لینگ کو پڑھ کر آئے۔ صاحبِ مقالہ نے مغربی تہذیب کے تناظر میں جن الجھنوں کا ذكر كیا ہے وہ بجا لیکن سوال یہ ہے کہ محض مغربی تہذیب کے تقاضے اور عورتوں مردوں میں مساوات کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کیا ایسا اجتہاد کیا جا سکتا ہے کہ نماز میں عورتیں مرد سب اختلاط کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر نماز میں کھڑے ہوں یا عورتیں مخلوط صفوں میں کھڑے مردوں عورتوں کی امامت کرانے لگیں۔
ہمیں مغربی سوچ کو اپنے اسلامی معیار پر لانا ہے یا اسلامی معیارات کو مغربی معیارات میں ڈھالنا ہے۔ یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر کسی جگہ رکے گا نہیں۔ اس صورت میں جو ’اسلام‘ وجود میں آئے گا وہ محمد مصطفٰی ﷺکے لائے ہوئے اسلام سے کتنا مختلف ہو گا؟
اتنی طویل تحریر پڑھنے کی زحمت میں ڈالنے پر معذرت خواہ ہوں۔
خاکسار
منیر احمد خلیلی
جواب
’زندگی نو‘ کے مضمون پر آپ کے تبصرے کے لیے ہم آپ کے ممنون ہیں اور کچھ وضاحتی کلمات پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
’زندگی نو‘ میں مختلف نقاط نظر کی اشاعت کی روایت رہی ہے تاکہ صحت مند تبادلہ افکار ہوسکے۔ جماعت اور ادارے کی فکر سے مختلف مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔
جیفری لینگ کا مقصود بھی یقیناً وہ قطعی غیر شرعی اختلاط نہیں ہوگا جس کا ذکر آپ نے اپنی تحریر میں فرمایا ہے۔ حجاب اور شرعی پابندیوں کے ساتھ سماجی و سیاسی امور میں خواتین کی فعال شرکت کے ہم سب قائل رہے ہیں اور اس پر عامل بھی ہیں۔ اس کی بعض تفصیلات پر ہر دور میں مختلف آرا رہی ہیں۔ایک رائے مولانا مودودیؒ کی ہے جس پر ہندوپاک کی جماعتیں بالعموم عمل پیرا ہیں اور ایک رائے تحریکی حلقے ہی میں علامہ قرضاویؒ اور علامہ غزالیؒ کی ہے جو آج بھی اخوان میں عملاً رائج ہے۔ مذکورہ مصنف کا اسی دائرے میں اپنا ایک نقطہ نظر ہے۔ ہمارا اور آپ کا اس نقطہ نظر سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ایسی آرا پر سنجیدہ گفتگو کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔
’زندگی نو‘ میں بیس پچیس سال پہلے اسی طرح کا ایک مضمون ڈاکٹر حسن الترابی کا شائع ہوا تھا۔ جماعت کے ایک صاحبِ علم بزرگ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ نے اپنی ایک کتاب میں بھی اس طرح کے بلکہ ’رواج و روایت سے اور زیادہ متصادم‘ خیالات ظاہر کیے تھے۔ ان پر بھی ’زندگی نو‘ کے صفحات میں مباحث ہوئے تھے۔ ’زندگی نو‘ میں اس وقت یہ موضوع اصلاً زیر بحث نہیں لایا گیا ہے بلکہ جیفری لینگ کی کتاب کا مکمل ترجمہ قسط وار شائع ہو رہا ہے جس میں یہ بحث بھی آگئی ہے۔
بہرحال، علمی آرا پر سنجیدہ مباحث کے بغیر فکر کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
والسلام
مدیر
مشمولہ: شمارہ اگست 2024