مسجد اقصی پر صلیبیوں کا حملہ ہوتا ہے اور ایک ہزار عورتیں ان کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جاتی ہیں۔ کون تھیں یہ ایک ہزار عورتیں جو مسجد اقصی میں موجود تھیں اورجنہوں نے خوں خوار مسلح صلیبیوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت کی تھی؟
علامہ ابن عربی مالکی اپنی کتاب سراج المریدین میں لکھتے ہیں: 492 ہجری کی بات ہے بیت المقدس میں کچھ ایسی خواتین تھیں جو قیامت تک اس امت کے لیے فخر کا باعث ہوں گی۔
یہ عورتیں حلقہ درس میں شرکت کرتی تھیں یہ حلقہ درس علامہ شیرازیہ کا تھا، ایک فقیہ نیک صالح عبادت گزار و تہجد گزار داعی خاتون۔ جب رومیوں نے بیت المقدس پر حملہ کیا تو یہ خاتون اپنے حلقہ درس کی جماعت لے کر مسجد اقصی میں موجود گنبد صخرہ میں جم کر بیٹھ گئیں۔ جب رومی مسجد اقصی میں داخل ہو ئے تو ان لوگوں نےمسجد کے دفاع کی پوری کوشش کی لیکن سفاک رومیوں نے اپنی ناپاک تلواروں سے وہاں مذبح خانہ بنا دیا۔ مسجد اقصی کی چھت سے دیکھنے والے ایک عینی گواہ نے بتایا کہ مقابلہ کرنے والی عورتوں کی تعداد تقریبًا ایک ہزار تھی۔ ان سب نے مسجد اقصی کی حفاظت کی خاطر جام شہادت نوش کرلیا۔
یہ ایمان افروز منظر جو ہم اس تحریر میں دیکھ رہے ہیں، صرف اسی وقت کا نہیں بلکہ مسجد اقصی کے حرم میں یہ ہر دور میں نظر آنےوالا منظر ہے۔ اقصی کی حفاظت کی تحریک میں آج بھی خواتین پیش پیش رہتی ہیں۔
کچھ باتیں ایسی ہیں جو مسجد اقصی کی تعمیر و ترقی کے منصوبے سے جڑی ہوئی ہیں پہلے تو یہ کہ مسجد اقصی میں قبة صخرة کی تعمیر خلیفہ وقت نے شورائی نظام پر کی تھی۔ ایک دوسری بات جو مسجد اقصی کی تاریخ میں بہت نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ اس کا مقام رباط کے مفہوم سے جڑا ہوا ہے رباط اصلا وہ جگہیں ہیں جہاں عبادت اور جہاد دونوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ جو دشمنوں کے سامنے حدود کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے قائم کی جاتی ہیں اللہ کے نیک بندے راتوں کو وہاں پہرہ دیتے ہیں اور اس حدیث میں مذکور صفات کے مصداق ہو جاتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہ رات کے عابد اور دن کے شیر ہیں۔ صلیبی استعمار کے مذبح خانے میں بہت سے مرابطین شہید ہوئے مذکورہ بالا حملے میں ایک ساتھ تین ہزار علما اور صالحین صلیبیوں کی سفاکی کا نشانہ بنے۔
متعدد احادیث اور بے شمار آثار کے ذریعے مسجد اقصی کی فضیلت ثابت ہے۔ لیکن اس مضمون میں ہم یہ بتائیں گے کہ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں ایسے شواہد ملتے ہیں جو مسلمانوں کے دل میں اس مسجد کی عظمت کی دلیل ہیں۔
اگر آپ کو علمی اعتبار سے اہل اسلام کے دلوں میں مسجد اقصی کا مقام دیکھنا ہے تو یہ دیکھیے کہ مسجد اقصی کی فضیلت میں علما نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ کتنی قدیم ہیں۔ جب اسلامی تاریخ میں تصنیف و تالیف کا کام شروع ہوا اسی وقت سے مسجد اقصی پر لکھی گئی کتابیں سامنے آئیں۔ اس موضوع کی پہلی کتاب بشر ابن اسحاق بلخی متوفی 206 ہجری کی ہے جس کا عنوان ہے فتوح بیت المقدسیہ کتاب ازرقی متوفی 250 ہجری اور فاكہی متوفی 272 ہجری نے مکہ کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی ہیں ان سے بھی پرانی ہے۔ فضائل بیت المقدس کے نام سے تحریر کی جانے والی پہلی کتاب ولید ابن حماد ارملی متوفی سن 300 ہجری کی ہے یہ صحاح ستہ کے مولفین کے ہم عصر ہیں اور امام ذہبی نے اپنی کتاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ حافظ اور ربانی تھے۔ اس کے بعد پھر بیت المقدس کے فضائل اور اس کی تاریخ پر پے در پے کتابیں لکھی جاتی رہیں۔
عملًا بھی دیکھا جائے تو مسجد اقصی کی تعمیر، اصلاح،آرائش و زیبائش کے لیے خلفا کی کوششیں بہت ممتاز نظر آتی ہیں۔
ابتدا ہوتی ہے، جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ كو سن 16 ہجری میں بیت المقدس کی چابیاں سونپی گئی تھیں۔ وه ایک فاتح کی حیثیت سے وہاں داخل ہوئے گنبد صخرہ کی جگہ پہنچے وہاں انھوں نے بہت زیادہ گندگی اور کوڑا دیکھا جو رومیوں نے بنی اسرائیل سے بغض و حسد اور شدید نفرت کی بنا پر پھینکنا شروع کر دیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنی چادر اتاری اور اسی سے کوڑا صاف کرنے لگے اور ان کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بھی صفائی كی۔ مشہور مورخ العلیمی متوفی 928 ہجری نے اپنی کتاب الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔
یوسف ابن جوزی گنبد صخرہ کی تعمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خلیفہ عبدالملک نے اس کی تعمیر کے بجٹ کے لیے گنبد کے مشرقی حصے میں ایک کمرا بنوایا جس کو مال سے بھر دیااور یہ فرمان جاری کیا کہ بلا تکلف خرچ کریں اور تعمیراتی کام میں کسی بھی طرح کے پس و پیش میں نہ پڑیں۔ اس طرح سے گنبد صخرہ کی تعمیر کا کام انجام کو پہنچا جو آج بھی موجود ہے ۔علامہ علیمی اپنی کتاب الانس الجلیل میں اس کے خرچ کا اندازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خلیفہ عبدالملک نے اس کی تعمیر کے لیے بے شمار دولت جمع کر دی تھی کہا جاتا ہے کہ یہ رقم ملک مصر سے سات سال تک آنے والے خراج کے برابر تھی۔
مسجد اقصی اور گنبد صخرہ کی تعمیر کے لیے جو بھی مال جمع کیا گیا تھا وہ سب اسی پر لگا دیا گیا کچھ بھی بیت المال میں واپس نہیں گیا بلکہ خلیفہ نے اپنے عمال کو یہ حکم دیا کہ یہ ہزاروں دینار جو تعمیر کی تکمیل کے بعد باقی بچے ہیں ان کو اسی گنبد اور اس کے دروازوں پر انڈیل دو اور لوگوں نے انڈیل دیا۔ کہتے ہیں کہ گنبد کی سنہری چمک کی وجہ سے اس پر نگاہیں نہیں ٹکتی تھیں۔ مسجد کا یہ سونا کئی دہائیوں تک وہیں جمارہا۔ اس کے بعد پھر دوبارہ مسجد اقصی کی تعمیر و تجدید کے لیے کام آگیا۔
مشہور مؤرخ یوسف ابن جوزی لکھتے ہیں کہ سنہ 131 ہجری میں جب القدس میں زلزلہ آیا تو مسجد اقصی بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ اس زلزلے کے 10 سال کے بعد جب عباسی خلیفہ منصور متوفی 185 ہجری نے 141 ہجری میں وہاں کا دورہ کیا تو لوگوں نےان سے اس تباہی کا شکوہ کیا انھوں نے کہا تم جانتے ہو اس وقت تنگی کے حالات ہیں اور میرے ہاتھ میں کچھ نہیں جس سے میں اس کی تعمیر کر سکوں لیکن اس گنبد اور اس کے دروازوں پر سونے کی جو پرتیں چڑھی ہوئی ہیں ان کو نکال لو اور انھی سے اس کی تعمیر کا کام کر لو۔ چناں چہ لوگوں نے ایسا ہی كیااور اسی مال سے اس کی بہترین ترمیم و اصلاح کا کام ہو گیا۔
مسجد اقصی کی دیکھ بھال اور اس کا اہتمام تاریخ کے ہر دور میں رہا ہے۔ علیمی نے حتمی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ مسجد اقصی اپنی تمام ہم عصر مساجد میں رقبے اور تعمیر کے اعتبار سے اول نمبر پر ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اس وسیع آسمان کے نیچے مسجد اقصی اپنی نظیر نہیں رکھتی ہے روئے زمین پر خوب صورتی اور وسعت میں اس کی جیسی کوئی مسجد تعمیر ہی نہیں ہوئی۔
ڈیڑھ سو سال پہلے مشہور سیاح ابن بطوطہ متوفی 789 ہجری نے اسی بات کی تائید کی تھی۔ اس نے جب بیت المقدس کی زیارت کی تو مسجد اقصی کے بارے میں لکھا کہ روئے زمین پر اس سے بڑی کوئی مسجد نہیں ہے۔
ان دونوں کے اس دعوے پر حیرت کی کوئی بات نہیں ہے دراصل مسجد اقصی کا رقبہ پرانی چہار دیواری کے اندر 144 ہزار میٹر مربع ہے ۔
بیسویں صدی کی 50 دہائیوں تک اس کا رقبہ حرمین شریفین کے رقبے کا کئی گنا تھا۔
سعودی عرب کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 1956 عیسوی میں مسجد الحرام کا رقبہ 28 ہزار میٹر مربع اور مسجد نبوی کا رقبہ 10 ہزار میٹر مربع سے کچھ زیادہ تھا اس کے بعد مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں توسیع کا کام چلتا رہا جب کہ مسجد اقصی صیہونی قبضے کے تحت جیسی تھی ویسی ہی رہ گئی۔ آج ان دونوں مسجدوں کا رقبہ مسجد اقصی سے زیادہ ہو گیا۔
مسجد اقصی کی آرائش و زیبائش کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ ابتدائی تعمیر کے وقت سے ہی مسجد اقصی میں سونے اور چاندی کے فانوس اور ان فانوسوں کو لٹکانے کے لیے مختلف وزن اور مقاس کی زنجیروں کی ناقابل یقین تعداد بتائی جاتی ہے اور یہ تعداد تقریبا 15 ویں صدی تک باقی تھی۔
شمس الدین اسیوطی متوفی 88 هجری اپنی کتاب اتحاف الاخصا بفضائل المسجد الأقصى میں لکھتے ہیں کہ فانوسوں کو لٹکانے کے لیے 385 زنجیریں ہیں جس میں سے 230 زنجیریں مسجد میں ہیں اور باقی گنبد صخره میں زنجیروں کی لمبائی تقریبا چار ہزار گز اور ان کا وزن 1900 گرام اور پانچ ہزار فانوس جو سونے اور چاندی کے بنے ہوئے ہیں۔ یہ فانوس محض روشنی یا زینت کے لیے نہیں تھے بلکہ یہ مسجد اقصی کے لیے مالیت سمجھے جاتے تھے اور اسی وجہ سے اقصی کے محافظ کبھی اس کی مالیت، قیمت اور اہمیت سے غافل نہیں ہوئے اور جب بھی مسجد اقصی اور القدس الشریف پر کسی قبضے کی آزمائش آئی تو انھوں نے اس کی حفاظت کا خاص خیال رکھا۔ ابو الفرج ابن جوزی متوفی 597 ہجری اپنی کتاب المنتظم میں لکھتے ہیں کہ صلیبیوں نے جب سن 492 ہجری میں بیت المقدس اور مسجد اقصی پر قبضہ کیا تو اس وقت وہ گنبد صخره سے 40 سے زیادہ چاندی کے فانوس لے گئے۔ ہر فانوس کی قیمت تقریبًا 3600 درہم تھى آج کے اعتبار سے تقریبا 4500 ڈالر اور وہ چاندی کا ایک تندور بھی لے گئے تھے جس کا وزن شامی پیمانے سے 40 رطل تھا اور 20 سے زیادہ سونے کے فانوس لے گئے تھے۔
رہی بات گنبد صخره کی تو اس کی تعمیر کے بعد سے ہی اس کو اس کے شایان شان دیکھ بھال بہترین نگرانی اور بڑی خدمات میسر رہیں حتی کہ جن آتش دانوں اور سنسروں سے اس میں بخور اور دھونی دی جاتی تھی یا خوشبو کی جاتی تھی وہ خود بہت ہی نایاب اور بے انتہا خوب صورت ہوتے تھے۔
گنبد صخره کی دھونی اور خوشبو کی کیفیت بیان کرتے ہوئے یوسف ابن جوزی لکھتے ہیں کہ وہ لوگ پہلے گنبد صخره پر خوشبو ملتے تھے اس کے بعد پھر سونے چاندی کے سنسر میں خوشبو رکھتے جس میں مشک ملی ہوئی عود بھی ہوتی تھی اس کے بعد تمام پردے گرادیتے تھے جب خوشبو پورے گنبد صخره کے اندر پھیل جاتی اورہر چیز میں جذب ہو جاتی تو پردے اٹھا دیے جاتے جس سے خوشبو باہر نکل کر پھیل جاتی یہاں تک کہ پورے شہر میں خوشبو آنے لگتی پھر اعلان کرایا جاتا کہ گنبد صخره کھول دیا گیا ہے جس کو آنا ہو آجائے۔ شوق سے لبریز لوگ تیزی سے وہاں جاتے نماز پڑھتے اور معطر ہو کر باہر نکلتے۔ جس کے پاس سے بھی عود اوربخور کی وہ خاص خوشبو آتی لوگ سمجھ جاتے کہ اچھا آج یہ گنبد صخره میں تھا۔ اسی طرح گنبد صخره اور مسجد الاقصی بعد میں آنے والے بادشاہوں کے اہتمام کا مرکز رہی۔جب اس کو صلیبیوں سے آزاد کرایا گیا تو اس کی دیکھ بھال اور بڑھ گئی۔ عباد الدین اصفہانی متوفی 597 ہجری اپنی کتاب الفتح القسی میں لکھتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی متوفی 589 ہجری نے گنبد صخره میں ایسے امام مقرر کیے تھے جن کی تلاوت سب سے بہترین، گلا سب سے اچھا،آواز سب سے تیز،سماج میں اچھی شناخت، دینداری میں سب سے اعلی نیز ساتوں یا دسوں قراءت کی معرفت ہو۔ پھر ان کے لیے گھر زمین اور باغ وقف کیا، ان کی بہترین تنخواہ مقرر کی اور ان کے ساتھ بہت خیر واحسان کا سلوک کیا۔ اس کے بعد علامہ اصفہانی لکھتے ہیں کہ صلاح الدین نے کس طرح کی چیزیں اور کس طرح کا سامان گنبد صخره اور مسجداقصى کے لیے جمع کر رکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسجد اقصی کی محراب میں بہت سارے مکمل قران پاک اور پاروں میں تقسیم شدہ قران پاک کے نسخے پہنچائے گئے اور گنبد صخره کے لیے بطور خاص اور بیت المقدس کے لیے بطور عام ایسے رضا کاروں کو تنخواہ پر رکھا جو ہر وقت اس کی صفائی ستھرائی دیکھ بھال پر مامور ہوں اور جن کو رکھا تھا وہ وہی لوگ تھے جو معروف عالم عبادت گزار تہجد گزار اور نیک لوگ تھے۔ وہاں کی راتیں کتنی خوب صورت ہوتی تھی جب جوق در جوق لوگ تہجد پڑھتے تھے اور شمعدانوں میں موم بتیاں روشن ہوتی تھیں، ہر طرف عاجزی و انکساری کا سماں ہوتا، بزرگوں کے آنسو بہہ پڑتے اور عارفین کی سسکیاں شروع ہو جاتیں۔ گنبد صخره میں لوگوں کی بے انتہا دل چسپی اور شوق کی وجہ سے بہت بھیڑ ہو جاتی تھی۔ مسجد میں زیادہ تر لوگ ایسے ہوتے تھے جنھیں دو رکعت ملتی تھی، کم ایسے ہوتے تھے جنھیں چار رکعت مل جاتی تھی۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023