آثار قدیمہ ، علم الانسان اور جغرافیائی تحقیقات نے یہ واضح کردیا ہے کہ انسانوں کی کوئی تہذیبی زندگی ایسی نہیںرہی ہے جو مذہب سے یکسر عاری رہی ہو ۔یہ چیز اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مذہب انسان کی بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر اس کی زندگی بحران کا شکار ہوجائے گی ۔ مذہب کی مرکزیت اور انسانی زندگی سے اس کا گہراتعلق ایک حقیقت ہے۔ اس کا اظہار عقیدوں ،اعمال ، رسومات ، فنون لطیفہ ، قوانین اور اخلاقی ضوابط کی صورتوں میں ہوتا ہے ۔ (۱)
انسانی تہذیب میں بہت سے مذاہب اور اخلاقی نظام موجود ہیں ۔ عسائیت ، اسلام ، ہندومت اور بدھ مت کا شمار دنیا کے بڑے مذاہب میں ہوتاہے ۔دنیا میں انہیں کے پیروکار و متبعین بڑی تعدادمیں پائے جاتے ہیں۔ انسان نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنی تخلیق کا مقصد جان سکے اور کائناتی مخلوقات میں اپنا رتبہ متعین کرسکے ۔
ٓٓآرنلڈ نائن بی نے انسانیت کے مختلف ادوار کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا کہ ’’مذہب تاریخ انسانی میں درمیان میں کھڑا نظر آتا ہے۔ ‘‘(۲)
مذاہب کاموضوع خدا کی عبادت ، اس کے قرب کاحصول اور ذکر کے طریقۂ سے عبارت ہے ۔عبادت اور ریاضت کےبعض رجحانات کومتصوفانہ کہا جاسکتا ہے۔ دنیا کے مذاہب میںیہ رجحانات پائے جاتے ہیں ۔
تصوف
صوفی اور تصوف کے لغوی اشتقاق کے بارے میں محققین کے یہاں اختلاف رہا ہے ۔ قرآن اور صحاح ستہ میں یہ لفظ موجود نہیں ہے ۔ قدیم عربی لغات نیز جاہلی ادب کا وسیع ذخیرہ بھی اس سے خالی نظر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف کی اصل کے بارے میں مختلف آراء ہیں ۔
زمانہ جاہلیت میں سب سے پہلے صوفی کی اصل کی تلاش کرنے کی کوشش حافظ محمد بن طاھر القدسی (۱۱۱۳۴م) کی بیان کردہ روایت میں کی گئی ہے ۔ ان کی بیان کردہ روایت کے مطابق کوفہ کے ایک محدث ولید بن قاسم (م ۷۰۳ء ) سے صوفی کی نسبت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا۔
’’قوم فی الجاھلیۃ یقال لھم صوفۃ انقطعوا فی اللہ عز وجل و قطنوا للکعبۃ فمن تشبھہ بھم فھم الصوفیۃ ۔‘‘ (صفوۃ التصوف ،طاھر المقدسی)
’’جاہلیت میں صوفہ کے نام سے ایک قوم تھی جو اللہ کے لیے یکسو ہوگئی تھی اور جس نے خانئہ کعبہ کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا تو جن لوگوں نے ان سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے ۔ ‘‘(۳)
ابوالنصر سراج طوسی نے نقل کیا ہے کہ صوفی کا لفظ اصل میں صفوی تھا یہ لفظ چوں کہ تلفظ میں ثقیل اور مشکل تھا اس لیے صفوی کے بجائے صوفی کا لفظ استعمال کیا گیا ۔(۴)
ابولحسن الکناد سے بھی منقول ہے کہ صوفی کا لفظ صفا سے ماخوذہے (۵) ابو بکر محمد الکلاباذی جو مشہور صوفی ہیں انہوں نے اس لفظ کے بارے میں بہت سے اقوال نقل کئے ہیں ۔ ان کے مطابق صوفی اس کو کہتے ہیں کہ اس کے معاملات صفا اور صاف ہوتے ہیں تو صفا کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے اس کو صوفی کہا جاتا ہے ۔ (۶)
ایک گروہ کا خیال ہے کہ صوفیوں کو صوفی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ وصف اول میں ہوتے ہیں یعنی بلند خیال اور مشقت و محنت کی وجہ سے اللہ کے انتہائی قریب ہوتے ہیں اور اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کردیتے ہیں صف اول میں ہونے کی وجہ سے ان کو صوفی کہاجاتا ہے بعض کا خیال ہے کہ ان کو صوفی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ صوف (اون) کا لباس پہنتے ہیں اس لئے ان کو صوفی کہا گیا ہے ۔ بعض نے اصحاب صفہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان کو صوفی کہا ہے۔ لفظ صوفی کے بارے میں بعض متقدمین کی رائے مختلف بھی ہے جیسے البیرونی ، عبد لعزیز السلام اور لطفی وغیرہ ،ان کا کہنا ہے کہ صوفی کی نسبت یونانی زنان کے لفظ سوفی ہے جس کے معنیٰ حکمت کے ہیں ۔ (۷)
ظاہرہے کہ لفظ صوفی کے اشتقاق کے بارے میں اختلافات بہت ہیں ۔
تصوف کی تعریف
تصوف کی اصل اور اشتقاق کی طرح اس کی تعریف بھی مختلف کی گئی ہے ۔ قشیری نے پچاس سے زائد تعریف بیان کی ہیں۔ (۸) مشہور مستشرق نکلسن نے ۷۰ سے زیادہ ۔ (۹) سہروردی عوارف المعارف میں لکھتے ہیں کہ تصوف کی تعریف پر مشائخ کے ایک ہزار سے زائد اقوال ہیں ۔(۱۰)
التصوف ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس و تصفیۃ الاخلاق و تعمیر الظاھر والباطن لنیل السعادۃ الابدیۃ ۔(سیخ الاسلام زکریا یحیٰ انصاری )
’’یعنی تصوف ان کیفیات کا علم ہے جن کے ذریعہ نفس کا تزکیہ اور اخلاق کا تصفیہ اور ظاہروباطن کی تعمیر ہوتی ہے تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے‘‘۔ (التصوف ترک کل حظ للنفس ‘‘(ابو الحسن نوری)
تصوف خداسے ملنے یا اسے دریافت کرنے یا اسے دیکھنے کی شدید ترین آرزو کا نام ہے ۔
التصوف تصفیۃ القلوب واتباع البنی فی الشریعۃ (الطبقات الکبیریٰ۔ج۔۱)
علم التصوف تفرع من عین الشریعۃ (۱۱)
تصوف کی ابتدا
چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں مذہب اپنی اصل ہیئت پر نہ تھا۔ انبیاء کرام کی تعلیمات مسخ ہوچکی تھیں انسانیت جاں بلب تھی، اشرف المخلوقات کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر رحمت حق نے دنیا کی اصلاح کے لیے مصلح اعظم کو مبعوث فرمایا آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جو تمام علوم کا منبع اور معدن ہے اور جس سے بڑھ کر اخلاقی تعلیم دنیا کی کسی تعلیم میں موجود نہیں ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے ۔’’انما بعثت لمکارم الاخلاق‘‘ (بخاری ، کتاب الادب) ارشاد باری تعالیٰ ہے : انک لعلیٰ خلق عظیم (سورۃالقلم:۴) ۔
جب آپ ﷺ کاانتقال ہوا تو اسلام ہند ، شام، مصر،چین اور افریقہ میں پہنچ گیا تھا تمام عرب حلقئہ بگوش اسلام ہوچکا تھا ۔ وہ عرب جہاں دختر کشی ، شراب نوشی ، قمار بازی رائج تھی اسلام کے بعد امن ، تہذیب ، اخلاق اور علم و عمل کا گہوارہ بن چکا تھا (۱۲)اس دور کے بعدمسلمانوںمیں تصوف کا آغاز ہوا اگر چہ تصوف قبل از اسلام بھی تھا مگر وہ تصوف رہبانیت کی تعلیم دیتا تھا ۔ خلفاء راشدین کے بعد جب دینی جذبہ تنزل کی طرف آیا اور لوگوں میںغفلت آئی تو وہ طبقہ جو احکام شریعت کا پابند تھا اُس نے لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ کیا ۔ حکمرانوں کو ظلم سےروکا۔ یہ تھے وہ حالات جن میں صوفیاء کا پہلا طبقہ وجود میں آیا ۔
تصوف کی ضرورت
عصر حاضر کا مشہور فلسفی ’’رسل ‘‘ کہتا ہے کہ دنیا میں جو قدر عظیم فلسفی گزرے ہیں سب نے فلسفے کے ساتھ تصوف کی ضرورت کا بھی اعتراف کیا ہے ۔ تصوف کی بدولت انسان اللہ سے ربط پیدا کرسکتا ہے جسے وہ اپنا معبود مانتا ہے۔
انسانی زندگی پر تصوف کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا تصوف کا کیا ثمرہ ہے یہ ایک طویل بحث ہے ۔ یہاں پر چند اشارات ملاحظہ ہوں ۔
(۱) صوفی اگر حقیقت میں تصوف پر عامل ہے تو رذائل اخلاق سے پاک ہوجاتا ہے کیوں کہ تصوف انسانی عیوب کا ازالہ کرتا ہے ۔ (۱۳)
(۲) تصوف کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان خلق خدا سے محبت کرنے لگتا ہے ۔ (۱۴)
سب انسان اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیںگویا مجازاً اللہ کا کنبہ ہیں ۔چنانچہ حدیث میں ’’الخلق عیال اللہ ‘‘۔(الطبرانی، باب مکارم الاخلاق)
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا (حالی) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تصوف انسان کو عیوب سے پاک کرتا ہے ۔
اسلام اور تصوف
دین و شریعت کے دو بنیادی جزو ہیں (۱) ظاہر ی احکام جو آگے چل کر فقہ کے نام سے مدون ہوئے ۔ (۲) روحانی و باطنی ترقی کے لیےتعلیم یہ دوسری صدی ہجری میں زہد اور تصوف و طریقت کے نام سے معنون ہوئی ۔تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیہ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں ۔ تصوف کے اجزائے ترکیبی( توحید خالص ، تبلیغ دین ، اتباع شریعت ، خدمت خلق اور حیاء ) عہد رسالت اور دور صحابہ میں عملا موجود تھے یہ سب قرآن و سنت کی ابدی تعلیمات کا حصہ ہیں ۔ تصوف محض روحانی اور باطنی کیفیات اور روحانی اقدار و اطوار کا مجموعہ نہیں بلکہ دین کی علمی ، فکری ، عملی ، معاشرتی اور تہذیبی و عمرانی تمام جہتوں میں اخلاص و احسان کا رنگ دیکھنا چاہتا ہے ۔ تصوف کی بہت سی اصطلاحات قرآن وحدیث سے مستنبط ہیں ۔
اہلِ علم ائمہ تصوف نے اپنے تصورات اور معمولات کی بنیاد قرآن و سنت کو ٹھہرایا ہے ۔ سید الطائفہ جنید بغدادی فرماتے ہیں ۔ ’’یہ راہ یعنی تصوف صرف وہی پاسکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن اور بائیں ہاتھ میں سنت رسول ہو اور وہ ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شک و شبہ کے گھڑوں میں گرے اور نہ ہی بدعت کے باعث اندھیروں میں پھنسے ۔
اسلامی تصوف کے مآخذ
اسلامی تصوف قرآن وسنت سے ماخوذ ہے ۔
تصوف کی اصل لقاء رب کی آرزو ہے سالک تمام مجاہدات ، اسی لیے کرتا ہے کہ وہ رب کا قرب حاصل کرسکے۔ یہ قرآنی آیت :فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاء رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَد۔‘‘(۱۸:۱۱۰) سے ماخوذ ہے ۔
تصوف کے عناصر ترکیبی تین ہیں۔ کامل توحید ، کامل تقویٰ اور کامل محبت ۔ (۱۵)
(۱) کامل توحید ۔ قرآن توحید کی تعلیم سے معمور ہے ۔
(۲) کامل تقویٰ ۔ توحید کے بعد سارا قرآن میں تقویٰ کی تاکیدہے ۔
(۳) کامل محبت ۔ تصوف کا دارو مدار محبت اِلٰہی پر ہے ۔ محبت حصول مقصد کا واحد ذریعہ ہے ۔ قرآن میںہے۔ ’’وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً للّہِ ۔ ‘‘(۲:۱۶۵)
اسلامی تصوف کا دستور العمل
تصوف کا دستور العمل یا طریق جسے اصطلاح میں تزکیہ تفس کہا جاتا ہے قرآن سے ماخوذ ہے ۔ ’’ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْن‘‘۔ (۶۲:۲)
شیخ طریقت سالک کو آخر شب میں اٹھنے ، نماز تہجد پڑھنے، ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ تبتل،توکل ، صبر، مخالفین سے بحث و مباحثہ سے کنارہ کشی کا حکم دیتا ہے۔ یہ سب قرآن سے ماخوذہے ،تزکیہ نفس کے علاوہ اسلامی تصوف کے دیگرامور بھی ہیں جیسے بیعت ، صحبت مرشد ، خلوت ، اعتکاف ،یہ سب قرآن یا حیات مبارکہ سے اخذ کیے گئے ہیں ۔ پابندشریعت، تصوف اسلام کی روح اور ایمان کا جوہر ہے۔ اسلام کا مقصد محض اخلاقی تعلیم یا سیاسی نظام کاقیام قائم نہیں ہے بلکہ خدا سے رابطہ پیدا کرناہے ۔ اللہ کے ساتھ تعلق نہ ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ۔
تصوف کے ارکان ثلاثہ
(۱) محبت اِلٰہی (۲) مکارم اخلاق (۳) خدمت خلق ۔
(۱) صوفی کی زندگی کا آغاز اور انجام محبت اِلٰہی ہے۔
(۲) ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘۔ (الحدیث) صوفیا ء کرام نے سلوک کو تمام تر مکارم اخلاق کی تحصیل پر موقوف کیا ہے ۔
(۳) خدمت خلق کی جوصورتیں ممکن ہیں ان پر صوفیا نے عمل کرکے دکھلا یاہے ۔ ان کی زندگیاں خدمت خلق کے لیے وقف تھیں ۔
ہندومت میں متصوفانہ رجحانات
ہندو مذہب دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ہے ۔ قدیم زمانے سے ہندو مذہب کے ماننے والےموجود رہےہیں۔ اس کے پیروکاروں نے عبادت کے مختلف طریقے اپنا ئے ہیں۔ ہندو مت میں دیوی دیوتاؤوں کی تعداد بہت ہے گویا زندگی کے ہرپہلو کے لیے دیوی دیوتا ایجاد کرلیے گئے ہیں ۔
ہندو مذہب میں متصوفانہ روایت زیادہ پرانی نہیں ہے ۔ ۱۲ ویں اور ۱۳ ویں صدی میںذریعہ قائم کی گئی بھکتی تحریک کایہ مزاج تھا۔ ہندو ادب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رجحانات موجو د رہے ہیں بھکتی تحریک میں نمایاں نظرآتے ہیں۔
اپنشد میں متصوفانہ رجحان
محققین کہتے ہیں کہ اپنشد قدیم تصانیف ہیں جن میں متصوفانہ مزاج کے خصائص بیان کردئے گئے ہیں پروفیسر روئس کے مطابق صوفیانہ عقائد کی داستان ان کتابوں میں قلم بند ہے ۔ (کائنات اور فرد ، ج۱ :ب، ۴:ص،۱۵۹)۔
اپنشد کا زمانہ تصنیف ۸ویں صدی قبل مسیح ہے۔ کچھ اپنشد بعد میں بھی تصنیف ہوئے ہیں ،اپنشد کی تعداد ۱۰۸ہے، شنکراچاریہ کے مطابق ۱۱اپنشد اہم ہیں ۔ اپنشد کی تعلیمات ہیں کہ (۱) حقیقت الواحد ہے اور یہ کائنات اس ذات یکتا و یگانہ کا مظہر ہے (۲) وہ حقیقت سیتم (حق ، سچ ) ہے (۳)وہ حقیقت مختارکل ہے ۔ (۴) عرفان ذات حق اس کے فضل وکرم پر موقوف ہے(۵) دنیا میں رہو مگر اس سے دل مت لگاؤ (۶) انسان کا حقیقی دشمن باہر نہیں اندر ہے ۔ (۷) جب تک ان دشمنوں کو مغلوب نہیں کروگے برھم گیان ( عرفان ) حاصل نہیں ہوسکتا (۸) جسے برھم گیان حاصل ہوجاتا ہے اس میں اطمینان ، ہمت ،جذبہ،خدمت خلق ، یہ صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ (۱۶)
خلاصۂ کلام یہ کہ اپنشدوں میں اس بات پر زور دیاگیا ہے کہ برہمن یا آتمن کی معرفت انسان کو ابدی زندگی عطاکرتی ہے جو ہر طرح کے غموں سے آزاد ہوتی ہے (۱۷)
گیتا اورمتصوفانہ رجحان
شری کرشن نے مہابھارت کی جنگ میں ارجن کو اپدیش ( حکم ) دیاتھا رشی وید ویاس نے اسے کتابی شکل میں قلمبند کیا اس کو بھگوت گیتا کہتے ہیں ۔ گیتا میں ( فلسفہ) بھی ہے اور یوگ شاشتسر بھی ہے یعنی یہ بتا یا کہ حقیقت ( خدا) کیا ہے اور یہ بتایا کہ انسان اس تک کیسے پہنچ سکتا ہے ۔
گیتا کے اسرار و رموز کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص یوگ اختیار کرکے شرائط کی پابندی کرتا ہے ( ریاضت کرتا ہے ) تو اسے خدا کا دیدار نصیب ہوتا ہے جسے برھم استتھ سے تعبیر کیا گیا ۔ گیتا کہتی ہے کہ یہ عارف ہی انسان کامل کا مصداق ہے عارف کو ابدی مسرت اور سعادت حاصل ہوجاتی ہے یہی گیتا کا اپدیش ہے ۔(۱۸)ہندو مت میںاس رجحان کا باضابطہ آغاز بھکتی تحریک سے ہو ا جس کی چند وجوہات تھیں (۱) شنکراچاریہ کے فلسفے سے لوگ تنگ آچکےتھے۔ (۲) ورن سسٹم نے بھکتی کی راہ ہموار کی۔ (۳) اونچے طبقات کے ظلم سے تنگ آکر نیچے طبقات نے اسلام قبول کیا ۔
ہندو نظریہ کے مطابق موکش حاصل کرنے کے لیے بھکتی اہم ذریعہ ہے اس نے انسان کواپنی شخصیت کو خدا کے لیے وقف کرنے پر زور دیا اس کے لیے چار درجات متعین کئے ۔ (برہم چاریہ آشرم ، گرہست آشرم ، ون پرستھ آشرم اور سیناس آشرم ) جن کو عبور کرکے انسان موکش حاصل کرتا ہے اور اسے معرفت حاصل ہوتی ہے ۔
بدھ مت میں متصوفانہ رجحان
بدھ مت میں نروان کو اعلیٰ مقام حاصل ہے معرفت کی آخری منزل ان کے یہاں نروان ہے ۔ گوتم بدھ نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ نروان حاصل کرنے کی کوشش کریں نروان کے لیے بدھ مت میں چار عظیم صداقتوں پر عمل کی تعلیم دی گئی۔ دکھ کا استیصال ممکن ہے۔ راستہ یہ ہے۔ سمیک درشن (صحیح نظریہ ) سمیک سنکلپ (صحیح نیت) سمیک واک (صحیح قول ) سمیک کر مانتا (صحیح عمل ) سمیک اجیوا (حلال رزق ) سمیک وھام (صحیح کوشش) سمیک سمرتی (صحیح ہوشیاری ) سمیک سمادھی ( صحیح مرتبہ )(۱۹)
کہا گیا کہ بدھ مت کا پیروکار ان تعلیمات پر عمل کرے گاتو اسے معرفت (نروان ) حاصل ہوگا جو معرفت اِلٰہی ہے۔
عیسائیت میں تصوفانہ رجحان
عیسائی مذہب دنیا کابڑا مذہب ہے پوری دنیا میں عیسائی مذہب کے پیروکار و متبعین کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ عیسائی مذہب کے ماننے والے حضرت عیسی ٰ علیہ والسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرکے خود کو عیسائی کہتے ہیں ۔
قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا قرب ، اس کی معرفت حاصل کرنے کے لیے جو تعلیمات حضرت عیسی ٰ علیہ السلام نے بیان کی تھیں ان میں عیسائیوں نے تحریف کر دی ۔ پادریوں نے معرفت اِلٰہی کے حصول کے لیے جو تعلیمات بیان کی ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
(۱) ایک حواری کہتا ہے ’’کہ جس بات کا تم نے مجھ سے سوال کیا اس کے بارے میں یہی کہوں گا کہ مرد کی خوبی یہ ہے کہ وہ عورت کو نہ چھوئے ‘‘ آگے کہتا ہے ’’ کہ میں غیر شادی شدہ اور کنواروں سے کہتا ہوں کہ وہ بھی میری طرح اس کنوارے پن کے لباس کو ہمیشہ پہنے رہیں ۔ ‘‘( ۲۰)
عیسائی تعلیمات کی رو سے قرب خدا وندی درکار ہے تو شادی سے پرہیز ضروری ہے۔ عیسائی پادری اور راہبائیں شادی نہیں کرتی ہیں ان کا ماننا ہے کہ غیر شادی شدہ لوگ رضائے اِلٰہی اچھے طریقے سے حاصل کرسکتے ہیں ۔ جب کہ شادی شدہ لوگ اپنی بیویوں کی رضامندی کے زیادہ خواہش مند ہوتے ہیں ۔
عیسائی تعلیمات میں سے ایک تعلیم مال و دولت سے دوری اختیار کرنا ہے ۔ دنیا سے قطع تعلق ، بھوکے پیاسے ، برہنہ رہنا ، دنیا کی لذتوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا پسندیدہ ہے۔ کہا گیاکہ اپنی زمین ، جائداد سب کچھ بیچ ڈالو تاکہ اس کے بدلے میں آسمان میں خزانہ مل سکے۔
عیسائیت میں رہبانیت کی تعلیم دی گئی۔جس میں جسمانی تکالیف کو برداشت کرنا ، عورتوں سے دوری اختیار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ کیوں کہ جب انسان خدا کے بجائے دنیا ( زن ، زر ، زمین ) کو اپنا مطلوب بنا لیتا ہے تو قلب اور نظر کی قوتیں رنجور ہوجاتی ہیںچنانچہ رہبانیت کے طریقے کو عیسائیت میں قرب خدا وندی اور نجات کا راستہ قرار دیا گیا ہے (۲۲)
دنیا کے بڑے مذاہب میں تصوف کے جو رجحانات ہیں ان کا محرک معرفت اِلٰہی کاحصول ہے۔یہ رجحان ہر قدم پر ، سالک کو متنبۂ کرتا رہتا ہے کہ دیکھنا مقصود اصلی (اللہ ) نگا ہ سے اوجھل نہ ہوجائے اگر اللہ سے غافل ہوگیا تو اس غفلت کی تلافی نہ ہوسکے گی ۔
حوالہ جات
(۱) دنیا کے بڑے مذاہب ، عماد الحسن آزاد فاروقی ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (۲۰۱۲)ص ۶،۷
(۲) یہودیت ، عیسائیت اور اسلام ، شیخ احمد دیدات ، ترجمہ محمد اکرام ، آر ، آر ، پرنٹرز ، لاہور (۲۰۱۰) ص
(۳) تصوف قرآن و حدیث کی روشنی میں ، غالم قادر لون ، مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ہند ص ۱۹
(۴) تصوف تاریخ و حقائق ، احسان الہی ظہیر ـؒ،ادارہ ترجمان القرآن ،لاہور (۲۰۱۰) ص۳۱
(۵)کتاب اللمع ، تحقیق ڈاکٹر عبد الحلیم محمود ، دارالکتب الحدیثہ مصر (۱۹۶۰)،ص۴۶
(۶) التعرف لمذھب اھل التصوف ، ابو بکر محمد الکلا باذی ، تیسرا ایڈیشن ، تحقیق محمود امین النواوی ، مکتبہ الکلیات الازھریہ ، (۱۴۰۰ھ )ص ۳۴
(۷) تصوف تاریخ و حقائق ، ص ۳۲
(۸) حوالہ مذکور ، ص ۴۸
(۹) الرسالۃ القشیریہ ، القشیری ، ج ۲، ص ۵۵۱۔
(۱۰) التصوف الاسلامی و تاریخہ عربی ابو العلاء العفیفی (القاھرۃ ) ص ۲۸
(۱۱) عوارف المعارف ، سہروردی ، ص ۵۷۔
(۱۲) ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ، ثروت صولت ، مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ہند۔
(۱۳) تاریخ تصوف ، پروفیسر یوسف سلیم چشتی ، علماء ایکڈمی ، لاہور (۱۹۷۶) ص ۹،۸۔
(۱۴،۱۵،۱۶)مذکورہ بالاحوالہ ، ص ۱۲،۱۳،۱۰۴،۱۰۵۔
(۱۷)دنیا کے بڑے مذاہب ، عماد الحسن آزاد فاروقی ، ص۳۶۔
(۱۸) تاریخ تصوف ، ص ۱۹ ، دنیا کے بڑے مذاہب ، ص ۳۱۔
(۱۹) تاریخ تصوف ، ص۶۱۔
(۲۰) دنیا کے بڑ ے مذاہب ۔ ص ۹۳ تا ۹۷۔
(۲۱) یہودیت ، عیسائیت اور اسلام ،شیخ احمد دیدات
(۲۲) مذکورہ بالا حوالہ ، ص ۴۹۶۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2018