نقد و تبصرہ

لکھنؤ کچھ ماضی ، کچھ حال

مصنف:    رضوان احمد فاروقی

صفحات:    ۱۲۸         ٭           قیمت:       100/=روپے

ناشر:        بزم صفی ﴿جدید﴾ 238/98کٹرہ ابوتراب خاں، یحییٰ گنج، لکھنؤ

جناب رضوان احمدفاروقی کا نام لکھنؤ کے ادبی حلقے کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ وہ اپنی ذہانت وفطانت، علمی و ادبی سرگرمیوں، قوت عمل، جرأت و بے باکی اور صاف گوئی و معاملہ فہمی کی وجہ سے وہاں کے ہر طبقے میں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور جہاں یاجس مجلس میں جاتے ہیں، وہاں اپنی شخصیت و صلاحیت کا نقش ثبت کرکے آتے ہیں۔ اُنھیں لکھنؤ اور لکھنؤ سے باہر متعدد محفلوں، مشاعروں اور نجی مجلسوں میں دیکھااور سُنا، اُنھوںنے ہمیشہ متاثر کیا۔

’لکھنؤ: کچھ ماضی ،کچھ حال‘، دراصل جناب رضوان فاروقی کا وہ طویل مضمون ہے، جو انھوں نے لکھنؤ کے ارباب علم ودانش سے متعلق قلم برداشتہ لکھاتھا اور وہ لکھنؤ کے کثیرالاشاعت اخبار روزنامہ ’آگ‘ میں کافی دنوں تک بالاقساط شائع ہوتا رہا۔اِس میں رضوان فاروقی نے اپنے عہد کے لکھنؤ کے تقریباً تمام شعرا، ادبا اور دانش وروں کو ’قلم بند‘ کردیا ہے۔ مضمون کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ اِسے ہم نہ خاکہ نگاری کے خانے میں رکھ سکتے ہیں اور نہ تذکرہ نویسی، تاریخ یا تنقید کے خانے میں۔ لیکن ہم اسے خواہ کسی بھی خانے میں رکھیں یا اِسے کوئی بھی نام دے لیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ قاری کو مسلسل اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ بل کہ مضمون ختم کرلینے کے بعد بھی وہ دیر تک اس کے اثر میں رہتا ہے۔ کسی بھی لکھنے والے کی یہ ایک ایسی کام یابی ہے، جو بڑی مشق ومزادلت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کی اِسی خوبی کی وجہ سے کسی نے اسے ’تیزرفتارکتاب‘ سے تعبیر کیاہے تو کسی نے صداقت اور ایمان داری کی چمک سے۔ حکیم عبدالقوی دریابادی کے بارے میں لکھتے ہیں:

’جسمانی اعتبار سے دھان پان،مگر دل و دماغ میں ایسی تازگی و توانائی کہ مولانا عبدالماجد دریابادی کے ’صدق جدید‘ کونہ صرف زندہ رکھا بل کہ اس کی تب و تاب میں کمی نہ آنے دی۔ معیار صحافت کو پیش نظر رکھ کر کاروان صحافت کو آگے بڑھایا۔ برسوں ’سیاست‘ کانپور کو اداریے لکھ کر سجاتے سنوارتے رہے۔ قابل ذکر ہے کہ صحافتی مصروفیات کے باوجود مخلوق خدا کی خدمت میں بھی منہمک رہے اور ایک کام یاب و خدا ترس حکیم کی حیثیت سے مختلف امراض میں مبتلا اشخاص کا علاج کرتے رہے۔‘ ﴿ص:۳۲﴾

جناب والی آسی مرحوم کے بارے میں لکھاہے:

’والی  آسی بڑے شاعر، بڑے ادیب مولاناعبدالباری آسی کے فرزند تھے۔ انھوںنے کسی دوسرے کی شاگردی کی بہ جاے ورثے میں ملی شاعرانہ خوبیوں پر ہی اکتفا کیا۔اسی کو کل متاع بنایا۔ ’شہد‘ اور ’موم‘ دو شعری مجموعے دنیاے ادب کو دے گئے۔ ہندستان بھر میں مشاعرے پڑھے۔ امریکا ،پاکستان ، سعودی عرب اور خلیج کا سفر کیا۔ خوب شہرت بٹوری اور اپنے پیچھے رئیس انصاری، منور رانا، خوش بیر سنگھ شاد اور بھارت بھوشن پنت جیسے قابلِ ذکر نام چھوڑے۔ ان میں منوررانا ہر اعتبار سے نمایاں ہیں۔ شاعری میں انھوںنے کسی کا اثر قبول کرنے کی بہ جاے اپنی راہ بنائی۔ ﴿ص:۱۵﴾

احسان نان پاروی کے بارے میں کہتے ہیں:

’بڑے ذی علم انسان ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ شاعری کے ساتھ نثرنگاری کی دولت سے مالامال ہیں۔ فارسی پر انھیں خصوصی دست رس ہے۔ یہی فارسی ان کی شاعری پر اس طر ح اثرانداز ہوئی کہ عوام وخواص کو متاثر نہ کرسکی۔ ﴿ص:۶۵﴾

حضرت ہمسر  قادری لکھنؤ کے ایک البیلے اور استاذ شاعر تھے۔ نعت و غزل دونوں میں منفرد تھے۔ ان کے بارے میں لکھاہے کہ’ان کا نام نعت گو شاعر کی حیثیت سے سامنے آیا اور یہ راتوں رات مذہبی جلسوں، خانقاہوں کے سجادگان اور علما کی محافل کی جان بن گئے۔ مگر وہ خود کو سنبھال نہ سکے۔ تمکنت نے آگھیرا اور حاسدین اپنا کام کرگئے۔‘ رضوان فاروقی نے اسی طرح سے ایک سو پچاس شعراو ادبا کا تعارف چند لفظوں میں کرایا ہے۔ مگر انھی چند لفظوں میں تنقید بھی ہے اور تذکرہ بھی اور تاریخ بھی۔ بعض جملے تو تاریخی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ بلاشبہ رضوان فاروقی نے ’لکھنؤ:کچھ ماضی، کچھ حال‘ کے ذریعے اُردو دنیا کو نثر کی ایک نئی صنف سے متعارف کرایا ہے۔ یقینا اس سے نثری ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ ﴿تابش مہدی﴾

مولانا محمد عثمان فار قلیط: حیات وخدمات

مولف:    سہیل انجم

صفحات:    ۲۵۲   ٭    قیمت:       -/۲۰۰روپے

ناشر:        سہیل انجم 370/6Aذاکر نگر، نئی دہلی-۵۲۰۰۱۱، سیل:9818195929

مولانا محمد عثمان فارقلیط ﴿۱۸۹۷-۱۹۷۶﴾ گزشتہ صدی کے نہایت معتبر و معروف صحافی تھے۔ انھیں اِس دنیا سے رخصت ہوئے کم و بیش ۳۶ برس کا عرصہ گزر گیا، لیکن علمی و صحافتی حلقوںمیں اب بھی ان کا تذکرہ سننے کو مل جاتاہے۔ تحریکی حلقوں کے لیے ان کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ اپنی صحافت کے ابتدائی دور میں وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ  کے اسسٹنٹ رہے ہیں۔ جمعیۃ العلماء ہند کے ترجمان روزنامہ الجمیعۃ میں مولانا مودودی کا نام محرر خصوصی ﴿مدیراعلیٰ﴾ کی حیثیت چھپتاتھا اور فارقلیط صاحب کا معاون مدیر کی حیثیت سے۔

مولانا محمد عثمان فارقلیط  ایک بے باک، نڈر اور ژرف بیں صحافی کے ساتھ ساتھ ایک فارغ التحصیل عالمِ دین بھی تھے۔ بیسویں صدی عیسوی کے ربع اوّل کے معروف محدث حضرت مولانا احمد اللہ پرتاپ گڑھیؒ  کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ ان سے صحاح کی تمام کتابیں انھوںنے پڑھی تھیں۔ میں سمجھتاہوںکہ ان کے اسی علمی تبحر کی وجہ سے ان کی صحافت کا رنگ زیادہ نکھر کر سامنے آیا۔ اُنھوںنے بے شمار آریوں، عیسائیوں اور قادیانیوں سے مناظر ے بھی کیے۔ قلمی بھی اور زبانی بھی۔ جب اور جہاں بھی مقابلہ آرائی ہوئی ان کو فتح و ظفرمندی حاصل ہوئی۔ لیکن جب عمر کے ساتھ ساتھ علم اور مطالعے میں اضافہ ہوا اور مزاج وطبیعت میںسنجیدگی آئی تو انھوںنے بے سود سمجھ کر مناظروں کی دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔

زیرنظر کتاب ’مولانا محمد عثمان فارقلیط :حیات وخدمات‘ ان مضامین پر مشتمل ہے، جو مختلف اوقات میں مولانا محمد عثمان فارقلیط سے متعلق اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان لکھنے والوں میں مولاناعبدالماجد دریابادی ، مولانا اخلاق حسین قاسمی، پروفیسر نثار احمد فاروقی، پروفیسر ضیائ الحسن فاروقی،پروفیسر عبدالحق اور پروفیسر اخترالواسع جیسے علما و دانش وربھی ہیں اور مولانا امداد صابری، محمدسلیمان صابر، عادل صدیقی، احمد ابراہیم علوی، ڈاکٹر سید منور حسن کمال اور اے یو آصف جیسے صحافی و اہل قلم بھی۔ اس کتاب کی اہمیت میںاس وجہ سے مزید اضافہ ہوجاتاہے کہ اس میں مولانا فارقلیط کی نامکمل خودنوشت اور ان کے بعض اہم اداریوں کو بھی منتخب کرکے شامل کیاگیا ہے۔

جناب سہیل انجم  ہمارے عہدکے نہایت ذہین و سرگرم صحافیوں میں ہیں؛ ارباب علم و قلم کی قدر افزائی او ر ملت اسلامیہ کی ہم دردی و غم گساری ان کی سرشت میں داخل ہے۔ بلاشبہ انھوںنے یہ کتاب مرتب کرکے ملت کو ایک بڑے سرمایے سے آشنا کیا ہے۔ اِن شائ اللہ اس سے نئی نسل کو روشنی ملے گی۔ ﴿تابش مہدی﴾

سامان تسکیں

مصنف:    سیّد شاہ حسین نہری

صفحات: ۹۶   ٭  قیمت: -/۱۷۵روپے

ناشر:   نواے دکن پبلی کیشنز، اورنگ آباد ﴿مہاراشٹر﴾

جناب سیّد شاہ حسین نہری اسلام پسند حلقے کے لیے گم نام و غیرمعروف نہیں ہیں۔ انھوںنے اپنے تعمیری وروحانی افکار اور اپنی سادہ و شگفتہ شاعری سے شعرو ادب سے دل چسپی رکھنے والے ایک بڑے طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’سامان تسکیں‘ ان کی پرسوز حمد ومناجات اور کیف پرور نعت ومناقب کا مجموعہ ہے۔ حمدکے طورپر سب سے پہلے سورۂ فاتحہ کے دو منظوم ترجمے ہیں۔ ایک لفظی ترجمانی پر مشتمل ہے اور دوسرا کسی حد تک آزاد ہے۔ کتاب میں اس قسم کے نعتیہ اشعار اپنے شاعر کی وسعت ِ مطالعہ ، طہارتِ فکر ، حسنِ عقیدت اور فنی و لسانی رکھ رکھائو کی غمّازی کرتے ہیں:

قرآن بھی ہیں اور ہیں قرآن سرا بھی

ہر قول و عمل اِن کا ہدایت کی ادا بھی

اللہ کا ہو ذکر تو ہوذکر محمدﷺ

یہ ذکر ہے وہ ذکر کہ خوش اس سے خدا بھی

آپ کے ساتھ جو ہے ، ساتھ خدا ہے اس کے

کیسے ناکام ہو پھر کیوں ہو زیاں آپ کے ساتھ

امید ہے کہ یہ کتاب اہلِ ذوق کے لیے سامان تسکین ثابت ہوگی اور تعمیری ادب کے شائقین اس کی خاطرخواہ پزیرائی کریںگے۔  ﴿تابش مہدی﴾

انسانی جسم ایک معجزہ

مصنف:    ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی ﴿علیگ﴾

صفحات: ۸۴     ٭      قیمت: -/۴۰روپے

ناشر:        مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،دعوت نگر،ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی-۲۵

ہمارا جسم، اس کی بناوٹ اور اس میں جاری و ساری مختلف نظام قدرت ِ الٰہی کے عظیم شاہکار ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچا، جو دوسو سے زائد چھوٹی بڑی ہڈیوں سے مل کر بنا ہے۔ ان کے درمیان لچک دار جوڑ، پھیپھڑوں کے ذریعے سانس لینے کا نظام، جسم کے اندر پھیلی ہوئی بے شمار رگیں اور ان میں ہر وقت گردش کرتا ہوا خون، دل، دماغ، گردے، جگر اور دیگر اندرونی قوتیں اور ان کی کارکردگی کا دقیق نظام، ان چیزوں پر اگر کوئی شخص غور کرے اور ان کی تفصیلات کا مطالعہ کرے تو بے اختیار پکار اٹھے گا: ’پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھاکا ریگر‘ ﴿المومنون:۴۱﴾ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کو اپنی نشانی قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے: ’اور خود تمھارے اپنے وجود میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ کیا تم کو سوجھتا نہیں؟‘﴿الذاریات:۲۱﴾

زیرنظر کتاب میں اللہ کی ان نشانیوں سے بہرہ ورکرنے کے لیے جسم انسانی کی ساخت اور اس کی کارکردگی کو آسان اور عام فہم انداز سے بیان کیاگیا ہے۔ اس کے مطالعے سے بہ خوبی علم ہوجاتاہے کہ کس طرح ایک خُردبینی خلیہ ترقی کرکے ایک تندرست و توانا جسم کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اس میں موجود کروڑوں خلیّات غیرمحسوس طورپر اپنے کارہائے مفوضہ انجام دیتے ہیں۔ کتاب میں کثرت سے طبّی اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے۔ ان کی تفہیم کے لیے آخر میں فرہنگ شامل کردی گئی ہے۔امید ہے کہ اس کتاب سے نہ صرف قارئین کی معلومات بڑھیںگی، بلکہ ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوگا۔  ﴿محمد رضی الاسلام ندوی﴾

مشمولہ: شمارہ اگست 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223