دعوت دین کے رہ نما اصول
مصنف : ڈاکٹر تابش مہدی
ناشر : مکتبہ الفاروق، G5A، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی۔۲۵
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء ٭صفحات: ۴۸ ٭ قیمت:۲۵/- روپے
امتِ مسلمہ کی اصل ذمہ داری ’دعوتِ دین‘ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانا اور انھیں سیدھے اور سچے راستے کی طرف بلانا۔ دعوتِ دین کی اہمیت اور آداب پر مختلف زبانوںمیں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ زیرنظر کتاب میںاسی موضوع پر آسان اور عام فہم انداز میں اظہار خیال کیاگیا ہے۔
ڈاکٹر تابش مہدی یوں تو علمی حلقوں میں ادیب، شاعر اور نقّاد کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اسلامیات میں بھی ان کی کئی کتابیں منظرِعام پر آئی ہیں۔ انھوںنے دعوت کے مختلف پہلوئوں پر بعض سمیناروںمیں مقالات پیش کیے تھے۔ ان مقالات کو انھوںنے اس طرح یکجاکردیاہے کہ ایک مربوط کتاب بن گئی ہے۔
ابتدا میں دعوت کے معنی و مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے، اس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس سے غفلت کے نتائج بیان کیے گئے ہیں۔ یہ بتایاگیا ہے کہ کارِ دعوت کی انجام دہی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام جس طرح مردوں پر لازم ہے اسی طرح عورتیں بھی اس کی مخاطب ہیں۔ آخر میںفاضل مصنف نے تفصیل سے داعی کےاوصاف بیان کیے ہیں۔ وہ اوصاف یہ ہیں: موعظت و خیرخواہی، فہم و معیار کی رعایت، اخلاص، معیت الٰہیہ کا احساس، صدق بیانی، نرم خوئی، خاک ساری، صبر، شجاعت اور ثابت قدمی، دنیا سے بے رغبتی، قول و عمل میں یکسانی، دعوت دین سے الفت۔ یہ بحث بہت اہم اور لائقِ استفادہ ہے۔
امید ہے، میدانِ دعوت میں سرگرم لوگوں کے درمیان اس کتاب کو قبولیت حاصل ہوگی اور وہ اس سے رہ نمائی حاصل کریںگے۔
اربعین نبوی
انتخاب وترتیب : خرّم مراد، تخریج: مجاہد شبیر احمدفلاحی
ناشر : ادارہ مطبوعات طلبہ جموںوکشمیر، سری نگر
صفحات : ۲۹۶ ٭ قیمت: ۱۶۰/-روپے
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میںسے جس نے چالیس حدیثیں حفظ کیں، میں قیامت کے دن اس شخص کی سفارش کروںگا۔‘‘ ناقدینِ حدیث نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن مسلمان اہل علم کو یہ اتنی اچھی لگی اور اس میںاتنی بڑی فضیلت نظر آئی کہ انھوںنےچالیس احادیث پر مشتمل مجموعے تیار کرنے کو اپنی سعادت سمجھا۔ امام نوویؒ شارح صحیح مسلم و مرتب ریاض الصالحین جیسے عظیم محدث بھی اپنے آپ کو اس سے نہ روک سکے۔ انھیں اس حدیث کے ضعف کا علم تھا، چنانچہ انھوںنے اپنے مجموعہ کا نام تو ’اربعین‘ رکھا (جو علمی حلقوں میں الاربعین النوویۃکے نام سے مشہور ہے) لیکن اس میں بیالیس حدیثیں جمع کیں۔ بعد میں مختلف زبانوں میں ہزاروں مجموعہ ہائے حدیث ’اربعین‘ کے نام سے مرتب کیے گئے ہیں۔ برصغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا مرتب کردہ مجموعہ مشہور ہے، جس کے اردو ترجمہ اور تشریح کی خدمت مولانا محمد فاروق خاں نے انجام دی ہے اور مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے ’چہل حدیث‘ کے نام سے اس کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔
مرحوم خرم مراد نے بھی چالیس احادیث کا ایک انتخاب شائع کیاتھا۔ زیرِ نظر کتاب کی صورت میں اس کی تشریح کی خدمت مولانا مجاہد شبیر احمد فلاحی سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ جموںوکشمیر نے انجام دی ہے۔ خرم مراد صاحب نے صرف احادیث یا ان کے بعض ٹکڑوں کو نقل کیاتھا اور آخر میں راوی کا نام لکھ دیاتھا۔ مجاہد شبیر صاحب نے ان احادیث کی مکمل تخریج کردی ہے، معروف اور رائج اسلوب میںراویوں کا نام درج کیا ہے اور احادیث کی پوری عبارتیں تحریر کردی ہیں۔
احادیث کی تشریحات عمدہ، عام فہم اور موثر ہیں۔ زیرشرح احادیث کے مضمون کی دیگر احادیث اور آیاتِ قرآنی کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ اس سے قبل ’ارشاداتِ نبویؐ‘ اور ’فرموداتِ نبویؐ‘ کے نام سے مجاہد شبیر صاحب کے قلم سے تشریحاتِ احادیث کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ نے انھیںتشریح و تفہیم کا خاص ذوق اور ملکہ عطا فرمایا ہے۔ امید ہے، اس مجموعہ کو بھی قبول عام حاصل ہوگا اور تحریکی حلقوں میں اس سے بھرپور استفادہ کیاجائے گا۔
روشنی کی جستجو
مصنفہ : ڈاکٹر ثمینہ تابش
ناشر : مکتبہ الفاروق، G5A، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی۔۲۵
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء ٭صفحات:۱۲۰ ٭ قیمت:/- ۶۰روپے
زیرِنظرکتاب ڈاکٹرثمینہ تابش کے چند دینی و اصلاحی مضامین کا مجموعہ ہے۔ موصوفہ نے شمالی ہند میں لڑکیوں کی دینی تعلیم کے مشہور ادارہ جامعۃ الصالحات رام پور سے عالمیت اور فضیلت کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور ان دنوں مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد کے شعبۂ عربی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
اس مجموعہ میں جو مضامین شامل ہیں وہ موصوفہ کے زمانۂ طالب علمی کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ وقتاً فوقتاً مختلف دینی رسائل میں شائع ہوئے ہیں یا آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں سنائے گئے ہیں۔ اس لیے بہ قول مولانا محمد یوسف اصلاحی ’’اس مجموعۂ مضامین میں وہ منطقی ربط نہ مل سکے گا، جوکسی خاص موضوع پر لکھی جانے والی کتاب کے مضامین میں ہوتا ہے، البتہ ان مضامین میںایک روشن صحیح فکر، دینی سوجھ بوجھ اور دینی تعلیمات کی معقول وضاحت کا معنوی ربط ضرور ملے گا۔‘‘ (ص۱۶، تصدیر)
مجموعہ میں شامل مضامین کے عناوین یہ ہیں: قرآن حکیم کی معجز بیانی، قرآن کا مطلوب معاشرہ، محبت رسول، آنکھوں کی ٹھنڈک، رمضان اور تزکیۂ نفس، رمضان کامہینہ رحمت و مغفرت کا خزینہ، سیرت رسول اور خدمت خلق، صبر، حلم اور عفو، ریا اور اس کا انجام، عورت قرآن کی نظر میں، ہندوستان میں عورت، خواتین اور کسبِ معاش، عورت اور اس کے فرائض، دین آسان ہے، خواتین سے متعلق احادیث کا انتخاب۔
یہ تمام مضامین اصلاحی نوعیت کے ہیں۔ زبان بہت سادہ اور عام فہم ہے، اس لیے عام افراد بھی ان سے بہ خوبی استفادہ کرسکتے ہیں۔ مزید خوبی ان مضامین کی یہ ہے کہ یہ آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی سے مدلّل بھی ہیں۔عموماً آیات و احادیث کا حوالہ دے دیاگیاہے، مگر بہت سے مقامات پر احادیث بغیر حوالہ کے بھی درج ہیں۔ کہیں کہیں عربی عبارتوں میں پروف کی غلطیاں کھٹکتی ہیں۔
امید ہے، یہ کتاب دینی حلقوں میں مقبول ہوگی اور اصلاح معاشرہ کے کام میں اس سے مدد لی جائے گی۔
لستم پوخ (روحانیوں کے عالمی پایۂ تخت استنبول میں گیارہ دن)
مصنف : راشد شاز
ناشر : ملی پبلی کیشنز، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی۔۲۵
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء ٭صفحات:۲۳۲ ٭ قیمت:/- ۲۵۰روپے ،اسٹوڈینٹس ایڈیشن ۱۵۰/- روپے
زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر راشد شاز کے قلم سے ترکی کا ایک دل چسپ سفرنامہ ہے۔ لستم پوخ استنبول کے مضافات میں ایک مقام کانام ہے، جہاں سرکردہ صوفیہ کی ، جنھیں اقطاب کہاجاتا ہے، عالمی کانفرنس ہوئی تھی، مصنفِ کتاب کو اس میں شرکت کی دعوت نہیںدی گئی تھی، لیکن انھوںنے متصوفین اور روحانیوں کا ’اسٹنگ آپریشن‘ کرنے کی غرض سے مختلف ترکیبوں سے اس کا دعوت نامہ حاصل کیا، اس میں شرکت کی اور اس سفرنامہ کے ذریعہ ان کا کچّا چٹّھا کھول کر رکھ دیا۔ انھیں دعوت نامہ شاید علماء کی عالمی انجمن کی کانفرنس میں شرکت کا ملا تھا، جو استنبول کے گرانڈ جواہر ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی اور جس کا ایجنڈا شاید نئی میقات کے لیے اس کے عہدے داروں کا انتخاب تھا۔ کتاب کے شروع میں مذکورہ کانفرنس کا بہت رواروی میں سرسری سا تذکرہ کرنے کے بعد وہ روحانیوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوتے ہیںاور اس کا سلسلہ کتاب کے آخر تک دراز رہتا ہے۔
یہ ایک نیم حقیقی اور نیم خیالی سفر نامہ ہے۔ نیم حقیقی اس لیے کہ پورے سفرنامے کو پڑھ کر بھی قاری کو یہ نہیں معلوم ہوپاتاکہ مصنف نے ترکی کا یہ سفر کب کیاتھا؟ ہاں، کتاب کے آخری حصے میں ماہ ستمبر کے دوسرے ہفتے کی بعض تاریخوں کا حوالہ ملتاہے، مگر سال مذکور نہیں ہے۔ انھوں نے ابتدا ہی میں یہ صراحت کردی ہے کہ ’’طوالت سے بچنے کی خاطر بعض کرداروں کو بعض کرداروں میں ضم کردیاگیا ہے۔‘‘ (ص ۶) بعض کرداروں کی زبانی مصنف نے جو طویل گفتگو نقل کی ہے، وہ کہیں دو دو صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ باتیں، ظاہر ہے، انھوں نے اپنی یاد داشت سے لکھی ہیں، اس بنا پر ان سے ان کرداروں کے افکار وخیالات کی حقیقی ترجمانی نہیں ہوتی، بلکہ ان میں مصنف کے اپنے احساسات کی آمیزش عین متوقع ہے۔
یہ کتاب حقیقت میں مروّجہ نام نہاد تصوف، صوفیہ کے گم راہ خیالات، فاسد خانقاہی نظام اور مختلف سلاسل تصوف کے انحرافات کا پوسٹ مارٹم ہے۔ مصنف نے استنبول اور اس کے مضافات میں گھوم گھوم کر اکابرِ صوفیہ اور مختلف سلاسل کی سرکردہ شخصیات سے ملاقات کی، ان کے افکار جانے، مختلف موضوعات پر ان سے بحث و مذاکرہ کیا اور پھر اس کی روداد کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا۔ یہ رودادِ سفر بہت دل چسپ اور موثر اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ قاری کتاب شروع کرتا ہے تو اسے ختم کرکے ہی دم لیتا ہے۔ ویسے گم راہ صوفیہ کے انحرافات اور کارستانیوں اور تصوف کے رموز و اشارات کو آشکارا کرنے کے لیے ترکی کا سفر کرنے کی ضرورت نہ تھی، یہیں ہندوستان میں اجمیر، نظام الدین یا کسی اور درگاہ میں جاکر اس کے سجّادہ نشینوں اور مجاوروں سے مل کر یہی سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سناجاسکتا ہے۔ اس سفر نامہ سے ایک منفی تاثر یہ قائم ہوتاہے کہ پورا ترکی تصوف کےسحر کااسیر، ’سلاسل‘ میں جکڑا ہوا اور ’مہدی موعود‘ کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوا نظرآتاہے، حالاںکہ یہ معاصر ترکی کی حقیقی تصویر نہیں ہے۔ یہ طبقہ وہاں کی آبادی کاایک دو فی صد ہوگا۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ خاصی بڑی تعداد میں ہیں جو حقیقی اسلام کی نمائندگی کررہے ہیں۔
ڈاکٹر راشد شاز کی گزشتہ دنوں کئی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں، جن میں ’ادراکِ زوالِ امت‘ کو شہرت ملی ہے۔ ان کتابوں کے ذریعہ اسلام کے بارے میں ان کا مخصوص تصور سامنے آیا ہے۔ وہ یہ کہ دین صرف وہ ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اور اس کی صحیح تعبیر صرف وہ معتبر ہے جو انھوں نے اپنی عقل سے سمجھی ہے۔ رہے مفسرین، محدثین، فقہاء اور دیگر علماء تو انھوںنے دین کی تشریح و تفہیم کا نہیں، بلکہ اسے مسخ کرنے کا کام انجام دیا ہے۔ ان کی یہ فکر اس سفرنامہ میں بھی جلوہ گر نظرآتی ہے۔ انھوںنے یہ باتیں مختلف مواقع پر کبھی خودکہی ہیں اور کبھی اپنے کرداروں سے کہلوائی ہیں۔ مثلاً:
’’رسالۂ محمدی و حی ربّانی کی شکل میں موجود و محفوظ تو ہے، لیکن اہل حق کی دھمال، فقہاء کی قیل وقال، مفسرین کی تاویلات و تعبیرات اور محدثین کی شانِ نزول کی تراشیدہ روایتوں نے اس کے معانی پر سخت پہرے بٹھادیے ہیں۔‘‘ (ص ۱۰۶)
’’متفقہ عقیدہ تو صرف وہ ہے جو صاف صاف طورپر قرآن مجید میں بیان کردیاگیا ہے۔ اس کے باہر جو کچھ ہے وہ لوگوں کے اپنے اندازے ہیں، جس کی بنیاد کسی اثر یا کسی روایت پر ہے، جس کی تحقیق و تنقید کا حتمی کام ابھی باقی ہے‘‘ (ص۱۴۲)
احادیث نبوی کے قبول ورد کا ان کاپیمانہ نرالا ہے، جو سراسر درایت پر مبنی ہے اور درایت بھی ان کی اپنی۔ صحیح ترین احادیث بھی اگر ان کے عقلی چوکھٹے میں فٹ نہ ہوں تو وہ بے بنیاد روایتیں، تراشیدہ اسطورہ اور سنی سنائی بے اصل خوش گپّیاں (ص ۲۱۔۲۲) قرار پاتی ہیں اور کوئی بات انھیں اچھی لگ جائے تو اسے وہ ’حدیثِ رسول‘ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، چاہے سند کے اعتبار سے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طورپر اس سفر نامہ میں وہ جابجا ان لوگوں سے بحث و مذاکرہ کرتے نظرآتے ہیں جو احادیث میں مہدی، دجال اور عیسیٰ مسیح کی آمدثانی کے تذکرہ کی وجہ سے ان کے قائل ہیں اور ان کاانتظار کررہے ہیں۔ وہ اصلاح احوال کی کوشش نہ کرنے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ان کا انتظار کرنے کو غلط نہیں کہتے، بلکہ ان تمام روایات ہی کو من گھڑت اور بے بنیاد قصے کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ ایک جگہ یہ تک کہہ جاتے ہیں کہ ’’بخاری اور مسلم کی کتابیں بھی دجال کے قصے سے خالی ہیں‘‘ (ص ۴۲) حالاںکہ دجال سے متعلق روایات صحیح بخاری و مسلم کی کتاب الفتن میں مروی ہیں۔ اسی طرح حیاتِ رسول (ص ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۸۱۔۱۸۲) سماع موتٰی ومقتولینِ بدر (ص ۱۹۹۔۲۰۰) سفر معراج (ص۲۰۰) اور دیگر موضوعات سے متعلق احادیث ان کی سخت تنقید سے، جو بسااوقات استہزا تک جاپہنچتی ہے، نہیں بچ سکی ہیں۔ دوسری طرف وہ بعض جملوں کو حدیث کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، جن کاکوئی استناد نہیں۔ مثلاً : اللھم ارنی الاشیاء کما ھی (بارالٰہا! مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسی کہ وہ ہیں) کو انھوںنے کتاب کے متعدد مقامات (ص ۹،۹۹،۱۲۳، ۱۶۵، ۲۰۷) پر حدیث قرار دیا ہے۔ یہ حکمت کی بات تو ہوسکتی ہے، لیکن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کے لیے ثبوت چاہیے، لیکن مصنف کو اس سے کیا غرض۔
کتاب کے آخر میں ایک دل چسپ بحث مصنف نے ’دَرودِ ابراہیمی‘ سے متعلق کی ہے۔ ان کے مطابق اسلام کی ابتدائی دو صدیوں میں درودِ ابراہیمی کاکوئی وجود نہ تھا، تیسری صدی میںفاطمی خلافت کے قیام کے بعد اسے گھڑا گیا (ص۲۲۶ ۔۲۲۷) یہ بات بدیہی طورپر غلط ہے اس لیے کہ درودِ ابراہیمی موطا امام مالک (کتاب جامع الصلاۃ، باب ماجاء فی الصلاۃ علی النبی) میں بھی موجود ہے اور موطا کی ترتیب دوسری صدی کے اوائل میں ہوچکی تھی اور امام مالک کے تمام اساتذہ پہلی صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے من گھڑت ہونے کی دلیل انھوںنے یہ دی ہے کہ ’’وہ تاریخ اور وحی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی ذریت پر فضل و انعام کی بارش کی دعا کی، لیکن خدا کے ہاں سے صاف جواب آگیا کہ محض ذریت کا حوالہ فضل وانعام کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ ابراہیم کی آل پر تاریخ اور وحی دونوں سے شہادت ملتی ہے، جب کہ محمدؐ کی آل کے متعلق قرآن اور تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ بہ سبب مصلحتِ خداوندی آپ کا نسلی سلسلہ آپ ہی پرختم ہوگیا۔ قرآن کااعلان ہے کہ محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ جب آل محمدؐ ہی دنیا میں موجود نہ ہوں تو پھر ان پر صلوٰۃ و سلام کے کیا معنیٰ؟‘‘ (ص ۲۲۵) پہلے موصوف نے درودِ ابراہیمی میں ’آل محمد‘ کو رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریّت اور نسلی اولاد کے معنی میں طے کردیا، پھراس کی بنیاد پر اس کے من گھڑت ہونے کا فیصلہ صادر کردیا۔ جو شخص احادیث کو وحی کی کسوٹی پر جانچنے کا دعوے دار ہو اور اپنی ہی عقل کو عقلِ کل سمجھتا ہو اسے اتنی موٹی بات تو معلوم ہونی چاہیے کہ عربی زبان میں لفظ ’آل‘ کا اطلاق صرف نسلی اولاد پر نہیں ہوتا، بلکہ حمایتیوں،مددگاروں، کارندوں اور پیروکاروں پر بھی ہوتاہے۔ قرآن بھی اس پر شاہد ہے۔ اس میں ہے کہ بنی اسرائیل کو ’آل فرعون‘ اذیتیں دیتے تھے (البقرہ:۴۹) اور اللّٰہ تعالیٰ نے ’آل فرعون‘ کو غرق کردیا (الانفال:۵۴) یہ اذیتیں دینے والے اور دریا میں غرق ہونے والے فرعونِ مصر کی نسلی اولاد نہیں تھی۔
کتاب میں بہت سے مقامات پر عربی عبارتیں درج کی گئی ہیں اور کہیں کہیں ان کے ترجمے کیے گئے ہیں۔ عبارتوں اور ترجموں دونوں میں کثرت سے غلطیاں ہیں۔ بعض جگہ آیتیں بھی صحیح نقل نہیں کی گئی ہیں(ص۲۲۵) زبان وبیان پر اچھی قدرت کے باوجود حیرت ہوئی کہ بہت سے الفاظ کااملا درست نہیں ہے۔ چند مثالیں یہ ہیں: (قوسین میں صحیح املا درج کردیاگیاہے) مسجیّٰ (مسجّع)، مشائیت (مشایعت)، غیض و غضب (غیظ )، تسبیح و تحلیل (تہلیل)، سحو (صحو)، حضرات القدس (حظیرۃ القدس)، ہجرہ (حجرہ)، گنبد خضریٰ (خضراء)، نظر (نذر)، احمدرفائی (رفاعی)، علی حمدانی (ہمدانی)، حال (ہال)، طروق (طرق)، دانستاً (دانستہ)، آلائشات (آلائشیں)، امانیات (امانی) وغیرہ
ایک جگہ رات کے پچھلے پہر نماز پڑھنے کاتذکرہ ان الفاظ میں کیاہے: ’’وہیں فرش پر دو رکعت نماز داغی‘‘ (ص۷۲) ادائی نماز کے لیے یہ سوقیانہ تعبیر بڑی تکلیف دہ ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس سفرنامہ کے ذریعہ فاضل مصنف نے جہاں اپنے قارئین کو بہت سی گم راہیوں سے آگاہ کیاہے اور ان سے بچانے کی کوشش کی ہے، جس پر وہ شکریے کے مستحق ہیں، وہیں انھوںنے بہت سے فکری انحرافات والتباسات میں انھیں مبتلا کرنے کی شعوری کوشش کی ہے، جو باعثِ افسوس ہے۔
سالانہ مجلّہ حیّ علیٰ الفلاح اعظم گڑھ
مصنف : مولانا انیس احمد مدنی
ناشر : اساتذۂ جامعۃ الفلاح، بلریا گنج اعظم گڑھ
شمارہ : ۲۰۱۳ء ٭صفحات:۲۳۲ ٭ قیمت: درج نہیں
یوں تو انجمن طلبۂ قدیم جامعۃ الفلاح کے ترجمان کی حیثیت سے مجلہ حیاتِ نو اعظم گڑھ عرصہ سے شائع ہورہاہے، لیکن خاص اساتذۂ جامعہ کے ترجمان کے طورپر مجلہ ’حیّ علی الفلاح‘ کا اجراء عمل میں آیا ہے اور یہ اس کا پہلا شمارہ ہے۔
اس مجلہ میں قرآن، سیرت، فقہ، تعلیم و تعلّم اور دعوت واصلاح کے کالمس کے تحت چودہ مقالات شامل ہیں۔ مولانا نعیم الدین اصلاحی نے چندقرآنی الفاظ کے ترجمہ کے ذیل میں بعض تراجم قرآنی کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ مولانا اعجاز احمد قاسمی نے قرآن کریم کی روشنی میں بین مذاہب علمی مذاکروں کی اہمیت واضح کی ہے اور ان کے اصول و ضوابط بیان کیے ہیں۔ مولانا محمد اسماعیل فلاحی نے قرآن کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داعیانہ اوصاف بیان کیے ہیں۔ مولانا انیس احمد مدنی نے آزادی کے بعد اردو زبان میں لکھی جانے والی کتب سیرت کا جائزہ لیا ہے اور ان کے امتیازی پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مولانا ولی اللہ مجید قاسمی نے ’قتل بہ جذبۂ رحم‘ کے عنوان سے عصری اہمیت کے حامل موضوع کے مختلف پہلوئوں پر مدلّل بحث کی ہے۔ دیگر مضامین بھی اہمیت کے حامل اور علمی نوعیت کے ہیں۔
مدیر مجلہ مولانا انیس احمد فلاحی مدنی جامعۃ الفلاح کے شعبۂ اعلیٰ میں صدر مدرس ہیں۔ اس سے قبل انھوںنے عرصہ تک حیات نو کی ادارت کے فرائض انجام دیے ہیں۔ کئی اہم موضوعات پر علمی و تحقیقی کتابیں ان کے قلم سے نکلی ہیں۔ ابھی حال میں ان کی کتاب ’مذاہب عالم۔ ایک تقابلی مطالعہ‘ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ امید ہے، ان کی ادارت میں یہ مجلہ آئندہ پابندی سے نکلے گا اور اس کے ذریعہ اساتذۂ جامعۃ الفلاح کی علمی کاوشوں سے استفادہ عام ہوگا۔
آیات علی گڑھ
مدیر : محمد ذکی کرمانی
ناشر : سینٹر فار اسٹڈیز آن سائنس
جلد : ۱۱ ٭شمارہ: جولائی۔دسمبر ۲۰۱۳ء ٭صفحات:۱۲۸
٭ قیمت فی شمارہ :/- ۱۵۰روپے ، سالانہ : ۲۵۰؍ روپے
گزشتہ صدی کے ربع آخر میں دنیا کے محتلف حصوں میں اسلامائزیشن آف نالج کا جو نعرہ بلند کیاگیا تھا اس کے نتیجے میں بہت سے علمی و تحقیقی ادارے قائم ہوئے، جن میں مغربی سائنس کے نقد و تجزیہ اور اسلامی سائنس کے احیاء کا کام انجام دیاگیا ۔ انہی میں سے ایک ادارہ سینٹر فار اسٹڈیز آن سائنس ہے، جس کی تاسیس مارچ ۱۹۸۲ء میں علی گڑھ میں ہوئی تھی۔ اس ادارہ کے ذریعہ عصری اہمیت کے حامل متعدد سائنسی موضوعات پر تحقیقی کام ہوا، انگریزی اور اردو میں طبع زاد اور ترجمہ کردہ کتابیں شائع ہوئیں، اس کے علاوہ جنوری ۱۹۹۰ء سے اس کی زیرنگرانی ایک سہ اشاعتی مجلہ آیات کے نام سے نکلنا شروع ہوا۔ اس میںاسلامی تصور علم، سائنس میںاقدار اور منہاجیات، مغربی سائنسی تصورات پر نقد، اسلامی سائنس کی تشکیل کی بنیادیں، قرونِ وسطیٰ میں طبیعیاتی علوم کی مختلف شاخوں میں مسلم سائنس دانوں کی خدمات اور دیگر متعلقہ موضوعات پر انگریزی اور عربی مجلات میںشائع ہونے والے مضامین کے تراجم اور اردو میں لکھے گئے طبع زاد مضامین شائع کیے جاتے تھے۔ ایک کالم ’اسلام اور سائنس معاصر رسائل میں‘ کے عنوان سے تھا، جس میں دیگر رسائل میں اسلام اور سائنس کے موضوع پر شائع ہونے والے مضامین کاتعارف کرایا جاتاتھا۔ پانچ چھ سال تک اس مجلہ کے، پابندی اور تسلسل کے ساتھ، سال میں تین شمارے شائع ہوتےرہے، بعد میں رفتار دھیمی پڑتی گئی اور کبھی سال میں دو اور کبھی سال میں ایک شمارہ شائع ہوا، چند سال کے لیے موقوف بھی ہوگیا۔ اب ۲۰۱۳ء سے دوبارہ اس کا اجراء عمل میں آیا ہے اور زیرنظر شمارہ سال رواں کا دوسرا شمارہ ہے۔
یہ شمارہ پانچ مقالات پر مشتمل ہے، جن میں سے تین طبع زادہیں اور دو ترجمے۔ طبع زاد مضامین یہ ہیں: سائنس بہ طور کائنات کے ارتباطی رشتوں کامطالعہ اور قرآن حکیم کا نقطہ ٔ نظر (سید مسعود احمد) قرآنی فیضان اور سائنسی جدوجہد (محمد معین فاروقی) مدارسِ اسلامیہ میں سائنس کی فکریات کی تعلیم (محمد ذکی کرمانی)۔ اور انگریزی مضامین کے ترجمے یہ ہیں: مغربی ثقافت پر اسلامی اثرات (باسط کوشل)، عہد اسلامی میں تعلیم، سائنس اور ٹکنالوجی کا زوال (محمد عمر چھاپرا)۔ مدیر مجلہ کا اداریہ ’توحیدِ فکری کی طرف سائنس کی مراجعت‘ کے عنوان سے ہے۔ اس کے علاوہ مجلہ کی مجلس ادارت کی رکن ڈاکٹر بازغہ تبسم نے سینٹر فار اسٹڈیز آن سائنس کے زیراہتمام ۲۰۱۲ء میں منعقدہ ایک سمینار کی رپورٹ تحریر کی ہے۔
ڈاکٹر بازغہ نے رپورٹ کی ابتدا میں لکھا ہے: ’’آیات کوئی پندرہ سال تک شائع ہوکر چندبرسوں سے موقوف تھا‘‘ (ص ۱۱۵) اپنے گھر سے ان کی یہ بے خبری حیرت انگیز ہے۔ آیات کا اجراء ۱۹۹۰ء میں ہواتھا۔ ۲۰۱۲ء تک تئیس (۲۳) سال کے عرصے میں صرف دس سال نکل سکا ہے۔ اب ۲۰۱۳ء سے اس کی گیارہویں جلد کا آغاز ہوا ہے۔
سنجیدہ علمی رسائل میں کمپوزنگ کی تصحیح کا اہتمام ہونا چاہیے۔ مجلہ کا یہ پہلو کم زور ہے۔ پروف کی غلطیاں کھٹکتی ہیں۔ آیاتِ قرآنی کی کمپوزنگ میں بھی بہت سی غلطیاں موجود ہیں۔
امید ہے، علمی حلقوں میں اس مجلہ کا استقبال کیاجائے گا اور اس کے اجراء و تسلسل کو باقی رکھنے کے لیے بھی ہرممکن تعاون کیاجائے گا۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2013