المصطفیٰ
شاعر : مولا ناقاسم حبیبی
صفحات : ۱۶۰ ٭قیمت : Rs. 200/-
پتا : مولانا قاسم حبیبی، جامع مسجد شفیع آباد،۵۰۳/۸۸،چمن گنج، کان پور، یو-پی
شعر وادب کی تاریخ میں نعت گوئی کی اہمیت کو ہمیشہ تسلیم کیاگیاہے۔ لیکن ہمارے شعرائ کی یہ عجیب کم نصیبی رہی ہے کہ اُنھوں نے اس صنف پر وہ توجہ نہیں دی، جس کی یہ مستحق تھی۔ زیادہ تر انھوں نے دوسری ہی اصناف سخن میں مشق وممارست کی اور انھی میںاپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا۔ بعض کم نصیبوں نے تو اِسے محض تبرک و تیمّن کی صنف قرار دے کر نظرانداز کردیا۔ حضرت قاسم حبیبی ہمارے اُن خوش بخت سخن وروں میں ہیں، جنھوں نے اِس پاکیزہ صنف کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور پوری یک سوئی و سنجیدگی کے ساتھ اِسی میں مشق وممارست کی اور اسی میں درجۂ کمال حاصل کیا۔ اِس پاکیزہ ومقدس صنفِ سخن میں اپنی طویل مشق ومہارت کے سبب وہ اس وقت ملک کے ان عالی مرتبت شعرا اور سخن وروں میں شمارہوتے ہیں، جنھوں نے نعت گوئی میں اپنی ایک شناخت بنائی ہے۔
’المصطفیٰ‘ جناب قاسم حبیبی کی نعتوںکا تیسرا مجموعہ ہے۔ اِس سے پہلے ان کے دو مجموعے شائع ہوکر مشاہیر علما اور ناقدین فن سے خراجِ تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ زیرنظرمجموعہ بھی اپنے عہد کے نام ور اور معتبر علما اور دانش وروں کی قیمتی آرا سے مزین ہے۔ مولانا قاسم حبیبی چوں کہ ایک شاعر اور فن کارہونے کے ساتھ ساتھ عالمِ دین بھی ہیں، دین و شریعت کے احکام و مسائل اور ان کی نزاکتوں اور باریکیوں پر ان کی نگاہ ہے، اس لیے ان کی نعتوں میں فنّی و لسانی رکھ رکھائو کے ساتھ عقیدت و محبت کی شرعی و اسلامی حدود اور اس کی تاب ناک قدروں کی پوری پاس داری بھی ملتی ہے۔
مولانا قاسم حبیبی کاایک امتیاز یہ ہے کہ اُنھوں نے بالعموم غزل کی زمینیں استعمال کی ہیں اور تعبیرات و تشبیہات بھی بالکل منفرد اور جداگانہ ہیں، جو عام طور سے نعتوں میں نہیں ملتیں۔ ان چیزوں نے ان کی نعت گوئی کو ایک منفرد اور امتیازی حیثیت دے دی ہے۔
بہت سیاہ تھیں ذکر رسولﷺسے پہلے
غریق ِ نور ہوئیں، اب عمارتیں میری
میانِ جنگ وجدل، تیغ وتیر کی صورت
اُنھی کے واسطے چمکیں عداوتیں میری
جزیرۂ وفا ملا سمندروں کے درمیاں
نبیﷺکا نام گونج اُٹھا شناوروں کے درمیاں
دیکھ کے مجھ کو زلفِ نبیﷺکے سایے میں کہتے ہیں لوگ
تپتے صحرا میں بھی تونے خُلد کا منظر ڈھونڈ لیا
اب تو سکونِ قلب کے موتی مجھ پہ نچھاور ہوتے ہیں
جس کی طلب تھی میری طلب کو، میںنے وہ در ڈھونڈ لیا
جبینِ کون و مکاں پر شکن ضروری ہے
ترے حضور جو لہجہ کرخت ہوجائے
سایہ فگن ہوئی ہے رداے غم رسولﷺ
دل اِس لیے حریفِ غمِ روزگار ہے
پہلے شعر میں ذکررسولﷺکی برکت سے گھروں کی تاریکیوں کو ختم کرکے انھیں پُرنور بنانے کی بات کی گئی ہے، دوسرے شعر میں جنگ و جدل کے موقعے پر اللہ کی مرضی و خوش نودی کو ملحوظ رکھنے کی بات ہے، تیسرے شعر میں محبت رسول کی روشنی میں سمندروں میں وفا و خلوص کے جزیرے کی تلاش کی گئی ہے، چوتھے شعر میں شاعر نے رسول کائناتﷺکی محبت و عقیدت کو تپتے صحرا میں خُلدکے حصول سے تشبیہہ دی ہے، پانچویں شعر میں طلب رسول یا بہ الفاظ دیگر محبت رسول کو درِ سکون قلب قرار دیاگیاہے، چھٹے شعر میں شاعر نے قرآن مجید کی آیت کا سہارا لے کر رسول کی آواز سے اپنی آوازبلند کرنے کو پوری کائنات کے لیے عار قرار دیاہے اور ساتویں شعر میں محبت رسول کی چادر کو پالینے کے بعد دنیا کے ہر رنج وغم کو اپنا حریف بنانے کی بات کی ہے۔ اِن تشبیہات و تعبیرات سے جہاں قاسم حبیبی کی قدرتِ کلام اور وسعتِ مطالعہ کا اندازہ ہوتاہے، وہیں ان کے ذہن وفکر کی بلندی اور رسائی کابھی پتا چلتاہے۔ بلاشبہ ‘المصطفیٰ’ کی نعتیہ شاعری اپنی ایک منفرد اور امتیازی شان رکھتی ہے۔ اس کی اشاعت سے نعت گوئی کی پاکیزہ صنف ِ سخن میںایک گراں قدر اضافہ ہواہے۔
٭
پیغامِ عمل
مولف : محمدخواجہ عارف الدین
صفحات : ۳۵۶ ٭قیمت : Rs. 160/-
ملنے کاپتا : مکتبہ علم و ادب، جامعۃ الصفۃ، ورنگل ﴿آندھراپردیش﴾
جناب محمد خواجہ عارف الدین تحریک اسلامی کے ایک فعال وسرگرم خادم ہیں۔ ملّت اسلامیہ ہند کی اخلاقی ومعاشرتی زبوں حالی پرسوچنا اور اس سلسلے میں مناسب علاج و تدابیر کی سعی وکاوش ان کے مزاج کاحصّہ ہے۔ آندھرا پردیش کے اہم شہر ورنگل میں ‘جامعۃ الصفۃ’ کا قیام ان کی اسی سوچ اور دردمندی کاکامظہر ہے، جس کی شہرت و نام وری ملک میں دور تک پہنچ چکی ہے۔
زیر نظرکتاب ‘پیغام عمل’ جناب محمد خواجہ عارف الدین کی کوئی مستقل تصنیف یا تحقیقی کاوش نہیں، بل کہ یہ ان کی اُن مختصر تقاریر کا دل کش ودل پزیر مجموعہ ہے، جو وہ مختلف اوقات میں اپنی نظامت میں چلنے والے ادارے ‘جامعۃ الصفۃ’ کے طلبہ واساتذہ کے سامنے ان کی تعلیمی و تربیتی ضرورت کے پیشِ نظر وہ پیش کرتے رہے ہیں۔
محمدخواجہ عارف الدین کی یہ کتاب ‘پیغام عمل’ قرآن کا نسخہ ہدایت، قرآن کافیصلہ، قرآن کاچیلنج رہتی دنیاتک، محسنِ انسانیت کی بعثت کامقصد ، سیرت النّبیﷺاور عملی تقاضے، اسلام کے علاوہ کوئی راستا نہیں، نظام زندگی میں صبر کی اہمیت، استقامت: کام یابی کا نقیب، اخلاص:اعمال کی قبولیت کاراز، اخلاص کے کرشمے، داعی ڈاکٹر کی طرح ہے، داعی اور صبر، صحابہ کرام کا جذبۂ عمل، قرض دینے کی ترغیب، انسانیت کو عام کیجیے، غیرمسلموں سے تعلقات اور جہیز کا لین دین جیسے پچاس عناوین پر مشتمل ہے۔ خوبی یہ ہے کہ ہر تقریر دس سے پندرہ منٹ کے اندر مکمل ہوجاتی ہے جسے قاری یا سامع کسی گرانی یا اُکتاہٹ کے بغیر بڑی دل چسپی سے پڑھ یا سن سکتاہے۔ اندازِ بیان نہایت عام فہم اور سادہ و شیریں ہے۔ ان تقاریر سے انداز ہ ہوتاہے کہ جناب عارف الدین پر تعلیم و تربیت کے اصول پوری طرح واضح ہیں اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور ذہنی وفکری رہ نمائی کے لیے وہ پورے طورپر یک سو ہیں۔
امید ہے کہ اس کتاب سے دعوت و تربیت کا کام کرنے والوں خصوصاً اساتذہ و معلّمین کو کافی مدد ملے گی۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2011