رَبَّـنَـا (قرآن کی دعائیں(
مصنف: عبدالرحمٰن کوندو
ناشر: جموں اینڈ کشمیر اسلامک ریسرچ سنٹر، سری نگر (کشمیر(
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء l صفحات: ۱۱۲ l قیمت: ۵۰ روپے
اس کتاب میں قرآن کریم کی وہ چالیس دعائیں جمع کی گئی ہیں ، جن میں رَبَّنَا (اے ہمارے رب) کا لفظ آیا ہے۔ ابتدا میں فاضل مرتب کے قلم سے مبسوط پیش لفظ (۵۵؍ صفحات) ہے، جس میں دعا کی فضیلت، دعا کے دست یاب مجموعوں کا تذکرہ ، لفظ ’رب‘ کی لغوی واصطلاحی تشریح ، قرآن میں مذکور انبیائے کرام کی دعائیں اور آخر میں احادیث کی روشنی میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی چند دعائیں بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد مصحف کی ترتیب سے چالیس دعائیں مع ترجمہ نقل کی گئی ہیں۔ آخر میں اردو تفاسیر کی مدد سے ان کی تشریح کی گئی ہے، جس سے ان کے موقع ومحل اور معانی کی وضاحت ہوجاتی ہے۔
یہ ایک مفید کتاب ہے ، جس سے دعا کی اہمیت وفضیلت بھی واضح ہوتی ہے اور قرآن کریم میں مذکور دعائوں کے معانی کا بھی علم ہوتا ہے۔ یوں تو دعا کسی بھی زبان میں مانگی جاسکتی ہے اور مومن بندہ اپنے رب سے کچھ بھی مانگ سکتا ہے، لیکن اگر قرآنی دعائوں کو یاد کرلیا جائے اور بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ پھیلاکر ان کو دہرایا جائے تو ان کی تاثیر اور مقبولیت شبہ سے بالاتر ہے۔
افکار ابنِ تیمیہ
انتخاب وترتیب: پروفیسر محمد عبدالحق انصاریؒ
ترجمہ: مولانا ضمیر الحسن خاں فلاحی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء l صفحات: ۱۷۴ l قیمت: ۹۰ روپے
ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری (م ۲۰۱۲ء) کا اختصاصی میدان فلسفہ اور تصوف تھا۔ انھوں نے متعدد مسلم مفکرین اور فلاسفہ کے افکار کا تفصیلی اورتجزیاتی مطالعہ کیا تھا۔ علامہ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸ھ؍ ۱۳۲۸ء) کے مجموعۂ فتاویٰ اور بعض دیگر تصنیفات کا بالاستیعاب مطالعہ کرکے انھوں نے بہت سے اقتباسات جمع کیے تھے اور مختلف موضوعات کے تحت انہیں سلیقے سے مرتب کرکے ان کا انگریزی ترجمہ کیا تھا۔ یہ ترجمہ Ibn Taymiyyah Expounds on Islam کے نام سے ۲۰۰۰ء میں ’’جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض سے شائع ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کی خواہش اس کتاب کا اردو ترجمہ کروانے کی بھی تھی۔ اس کے تحت ڈاکٹر محمد مشتاق تجاروی سابق استاد اسلامی اکیڈمی وحال اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے اس کا ترجمہ شروع کیاتھا۔ اس کے مبسوط مقدمے کا ترجمہ پہلے سہ ماہی فکر ونظر، ادارۂ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شائع ہوا۔ بعد میں ’شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اور تجدید فکر اسلامی‘ کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے اس کی اشاعت ہوئی۔ بعد ازاں مولانا ضمیر الحسن خاں فلاحی جب اسلامی اکیڈمی سے بہ حیثیت استاد وابستہ ہوئے تو ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر انھوں نے ازسرنو اس کتاب کا ترجمہ کیا اور ڈاکٹر صاحب نے اس پر نظرثانی کرکے اسے قابل اشاعت بنایا۔
یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول اساسیاتِ علم کے عنوان سے ہے۔ اس میں انسانی فطرت، عقل کا مقام،توحید، اصولِ دین، تاویلِ قرآن، محکم ومتشابہ، صحیح طریقۂ تفسیر جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب دوم (اسلامی عقائد) میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، نبوت، معجزات، عصمتِ انبیاء اورآخرت کے مختلف پہلوئوں سے بحث ہے۔ باب سوم میں اصطلاحات :ایمان، اسلام، کفر، شرک،فسق، ظلم اور نفاق کی تشریح قرآن وحدیث کی روشنی میں کی گئی ہے۔ باب چہارم اسلامی زندگی کے عنوان سے ہے۔ اس میں روح، جسم، زندگی، تقدیر، انسانی سلوک، ذکر اور دعا سےمتعلق اسلامی نقطۂ نظر پیش کیاگیا ہے۔ پانچواں با ب حکومت اور معاشرے پر ہے۔ اس میں خلافت وملوکیت، شوریٰ، اطاعتِ امیر، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، دعوت اور جہاد جیسے موضوعات سے بحث ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ اپنے دور کے مجدد تھے۔ انھوںنے قرآن وسنت اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں دین کا جامع تصو ر پیش کیا ہے، بدعات و خرافات کا رد کیا ہے اور اسلام کے چشمۂ صافی کو تمام آمیزشوں سے پاک کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ان کی تحریروں کا ایک خوب صورت انتخاب ہے،جس سے ان کے افکار کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
خواتین کے فقہی احکام
مصنف: شیخ صالح بن فوزان الفوزان
مترجمہ: ساجدہ ابواللیث فلاحی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء l صفحات: ۸۸ l قیمت: ۵۰ روپے
اسلامی احکام کے مرد اور خواتین دونوں مخاطب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو مکلف بنایا ہے، صحیح طریقے سے زندگی گزارنے پر دونوں سے اجر وانعام کا وعدہ کیا ہے اور غلط روی پر دونوں کو سزا کی وعید سنائی ہے۔ اس نے دونوں کے درمیان مساوات برتی ہے اور انہیں یکساں حقوق عطا کیے ہیں۔ البتہ دونوں کا دائرۂ کار مختلف رکھاگیا ہے اور ان کو الگ الگ ذمے داریاں تفویض کی گئی ہیں۔ اسی وجہ سے دین کے بعض احکام میں ان کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں ان احکام کی وضاحت موجود ہے اور فقہ کی کتابوں میں ان کی تفصیلات و جزئیات فراہم کردی گئی ہیں۔ زیر نظرکتاب میں خواتین سے متعلق فقہی احکام کو یکجا بیان کیا گیا ہے۔
شیخ صالح الفوزان عالم عرب کے مشہور عالم ،فقیہ اور مفتی ہیں۔ ان کی متعدد تصانیف ہیں، جن میں انھوں نے عام فہم انداز میں مسلمانوں کو دینی رہ نمائی فراہم کی ہے۔ان کتابوں کو عالم عرب میں بہت مقبولیت حاصل ہے اور بڑےپیمانے پر ان سے استفادہ کیاجارہا ہے۔ موصوف نے مسلم خواتین کو عبادات و معاشرت سے متعلق مسائل میں رہ نمائی فراہم کرنے کے لیے ایک کتاب ’تنبیہات علی أحکام تختصّ بالمؤمنات‘ کے نام سے تصنیف کی تھی۔ زیر نظر کتاب اسی کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ خدمت محترمہ ساجدہ فلاحی نے انجام دی ہے۔ موصوفہ جماعت اسلامی ہند کے پہلے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ کی صاحبزادی ہیں۔ انھوںنے شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعۃ الفلاح ،بلریا گنج ، اعظم گڑھ سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کے بعد عرصے سے وہیں تدریس کی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ تحریر وتصنیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتی ہیں۔ان کی بعض تصانیف اس سے قبل شائع ہوچکی ہیں۔ شیخ صالح الفوزان کی مذکورہ کتاب کا انھوں نے بہت سلیس اور عام فہم ترجمہ کیا ہے، البتہ کہیں کہیں، جہاں فاضل مصنف نے اطناب سے کام لیا تھا اور قدیم مصنفین اور اصحاب افتاء کے طویل اقتباسات نقل کیے تھے، انھوںنے تلخیص سے کام لیا ہے اور پوری عبارت کا مفہوم اختصار سے بیان کردیا ہے۔ امید ہے، یہ کتاب عام مسلم خواتین کے لیے بہت مفید ہوگی اور وہ اس سے بھرپورفائدہ اٹھائیں گی۔ (محمد رضی الاسلام ندوی(
تحقیقات اسلامی کے فقہی مباحث
مصنف : مولانا سید جلال الدین عمری
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی،
صفحات : ۱۸۳،قیمت مجلدمع ڈسٹ کور:۔؍۱۰۰ روپے
فقہ کے معنی کھولنے اور پھاڑنے کے ہیں، یعنی کوئی چیز کسی پردے میں لپٹی ہوئی ہے، اس سے پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ کسی کلام کے لیے اس لفظ کااستعمال ہو تو مفہوم ہوگا اس بات کی تہہ اور حقیقت تک پہنچ جانا اور اس کے مقصد کو جان لینا۔ کسی بات کی حقیقت اور روح تک رسائی ایک دشوار اور دقت طلب کام ہے۔ ہر شخص میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی اور ہر کسی سے اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی، بلکہ اس کے لیے کچھ لوگ مخصوص ہوتے ہیں،جو لعل و گہر کی طرح کم یاب ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ مختلف قبیلوں اور گروہوں میں سے کچھ منتخب لوگ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں رہ کر’ دینی فقہ‘ حاصل کریں او رجب ان کی قوم کے لوگ جہاد سے واپس آئیں تو یہ ان کے درمیان ’ انذار‘ کا کام کریں۔ (التوبۃ: ۱۲۲) اور حدیث میں ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔ میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم سے بہرہ ور فرمایا ہے ،میں کسی تفریق کے بغیر اسے سب کو سنا دیتا ہوں، البتہ فقہ و بصیرت کی دولت اللہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے او رجسے یہ دولت مل گئی اس کے اندر بہت سی خوبیاں جمع ہوگئیں۔
مولانا سید جلال الدین عمری کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے فقہ و بصیرت کی دولت عطا ہوئی ہے۔ میرے علم کی حدتک جماعت اسلامی ہند میں وہ مولانا مودودی کی طرح ہمہ جہت علمی شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایک دینی درس گاہ کے فارغ ہیں۔ انھیں عربی زبان و ادب پر دست رس حاصل ہے۔ کتاب و سنت کا وسیع اور گہرا علم رکھتے ہیں اور فقہی مذاق ومزاج کے حامل ہیں۔ اس کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں گریجویٹ ہیں،جس کی وجہ سے جدید افکار پر بھی ان کی اچھی نظر ہے۔وہ اسلام کے مخالف خیالات سے بہ خوبی واقف ہیں اور اپنی تحریروں کے ذریعہ دفاع بلکہ اقدام کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت میرے زیر مطالعہ ان کی ایک ایسی کتاب ہے جو فقہی مباحث پر مشتمل ہے۔ یہ مجلہ تحقیقات اسلامی میں لکھے گئے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں اجتہاد، ہندوستان کی شرعی و قانونی حیثیت، دارالحرب اور دار الاسلام، اسلامی ریاست میں غیر مسلموں پر اسلامی قانون اور حدود کا نفاذ، غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات ، اسلام کا قانون قصاص اورقذف و لعان جیسے اہم عنوانات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
مولانا موصوف کی اس کتاب اور دیگر کتابوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی مسئلے کو جاننے اور سمجھنے کے لیے براہ راست کتاب و سنت سے رجوع کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ وہ فقہا ء کی تحقیقات سے بھی رہ نمائی حاصل کرتے ہیں اور بعض جدید محققین کی طرح ان کی کاوشوں کو نظر انداز کردینے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ کسی مسئلے کی تحقیق میں سلف کی رایوں کو پیش نظر رکھتے ہیں ، ان کی مساعی سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں ، احترام کے ساتھ ان سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور ایسی رائے کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کی نظر میں کتاب و سنت، مقصد شریعت اور اس کے عمومی مزاج سے قریب تر اور ہم آہنگ ہو۔ اس سلسلے میں وہ کسی مسلکی عصبیت کو راہ دینے کے قائل نہیںہیں۔ نام آوری اور نمایاں ہونے کے لیے وہ شاذ رایوں کو پسند نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ان کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے فقہاء و محدثین اور سلف صالحین کے احترام کا جذبہ اور پورے فقہی ذخیرے سے استفادہ کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ کتاب و سنت کے بعد اس (اجتہاد) سلسلے میں اس زبردست فقہی ذخیرے سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا جو ہمارے پاس موجود ہے اور جس پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ انسانی فکر کا نتیجہ ہے ، اس لیے اس میں خامیاں ہوسکتی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ذخیرہ بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے وجود میں آیا ہے اور تحقیق وتنقید کے مختلف مراحل سے گزر کر اس نے ایک خاص شکل اختیار کی ہے۔اس پر جن لوگوں نے اپنی قوتیں اور صلاحیتیں صرف کی ہیں، ان کے علم و فہم، فقہ و بصیرت، تقوی اور اخلاص پر امت کو اعتماد ہے۔‘‘ (ص:۲۴)
اس ہمہ گیری کی صفت نے ان کی تحریروں میں متانت اور سنجیدگی پیدا کردی ہے۔ ان کی کتابوں میں بعض فقہی رایوں پر تنقید ضرور ملتی ہے، مگر اس میں وہ بے اعتدالی نظر نہیں آتی جو عام طور پر ایسے لوگوں کے مضامین میں ملتی ہے جنھیں فقہی کتابوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، جو بے سمجھے بوجھے فقہ اسلامی کو ہدفِ تنقید بناتے ہیںاور جن کے نقد و اعتراض کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہوتی۔
مولانا عمری ایک دینی درس گاہ کے فارغ ہیں، جو علم حدیث کے سلسلے میں بڑی شہرت رکھتی ہے۔ وہاں کے فارغین عام طور پر اسی فن سے تعلق اور شغف رکھتے ہیں، لیکن موصوف کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے بار بار حیرت کا شکار ہونا پڑتا ہے کہ جس طرح سے حدیث کے مراجع و مصادر اورموقع و محل سے وہ واقف ہیں،اسی طرح فقہی مآخذ اور ان میں زیر بحث مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس مسئلے پر کتبِ فقہ میں اصلاً اور ضمناً کس جگہ بحث ہے؟وہ موقع بہ موقع فقہی کتابوں میں بکھرے ہوئے مسائل کو اس طرح بیان کرتے ہیں، گویا سالہا سال انھیں ان کتابوں کے درس و تدریس کا موقع ملا ہے اور مسئلے کے تمام گوشے ان کے سامنے ہیں۔ وہ جزئیات پر نظر رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے کوئی پہلو تشنہ نہیں رہ جاتا اور ایک ماہر فقہ کی طرح اس کی ہر جانب کا احاطہ کرلیتے ہیں اور معمولی سے معمولی شق بھی ان کی دور رس نگاہ سے اوجھل نہیں ہو پاتی۔
فقہی اصطلاحات پر بھی ان کی بڑی اچھی گرفت ہے اور انھوں نے ممکن حد تک فنی اصطلاحات کو آسان تر اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں ہندوستان کی شرعی حیثیت اور دارالاسلام و دارالحرب کی بحث خاصے کی چیز ہے، جس میں دارالحرب وغیرہ کے تصورات پر اعتراضات اور دور حاضر کے سیاسی مسلّمات پر بڑی عمدہ اور تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب اربابِ فقہ اور باحثین کے لیے خصوصی طور پر مطالعہ کے لائق ہے۔
)مولانا ولی اللہ مجید قاسمی)،استادجامعۃ الفلاح ،بلریا گنج اعظم گڑھ (یوپی(
نورِ حرا (مجموعۂ نعت(
شاعر : دانش نورپوری
ناشر : ادارہ ادب اسلامی ہند،D-321، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی ۔۲۵
سن اشاعت: ۲۰۱۴ء، صفحات۱۲۸، قیمت۲۰۰روپے
نعت درحقیقت اپنی محبت کو فنا سے بقا تک اور سطحیت سے ارتقا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ شاعر جب نعت کہتا ہے تو وہ اپنے فن کو اعتبار و دوام بخشنے کا ذریعہ اختیار کرتا ہے۔ ایسا ذریعہ جو اس کے کلام کو مختلف انسانی حد بندیوں سے نکال کر وسعتِ کائنات عطا کردیتا ہے۔ جناب عبدالغفار صدیقی دانش نور پوری بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہیں، جنھوں نے اپنی شاعری کو یہ وسعت و ہمہ گیری عطا کرنے کی فکرکی۔ عام طور پر شعراء اپنے مجموعوں کے شروع میں ایک دو نعت دے کر ان کا مبارک آغاز کرتے ہیں، مگر دانش نور پوری ایک مکمل مجموعۂ نعت کے ذریعہ اپنے پورے شعری ذخیرے اور شعری زندگی کامبارک آغاز کررہے ہیں۔ چنانچہ زیر نظرکتاب کی صورت میں ان کی پچاس نعتوں کا خوب صورت مجموعہ ’’نورحرا‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔
غار حرا ایک دو گز کا کوئی غار نہیں، بلکہ شر کے مقابلے میں خیر، باطل کے مقابلے میں حق اور ظلمت کے مقابلے میں نور کا روشن ترین استعارہ ہے۔ جب انسانیت کی ناؤ تاریک سمندر میں بھٹک رہی تھی تو اس مینارۂ نور سے نکلنے والی روشنی نے اسے صحیح سمت سے آشنا کیا تھا۔ آج پھر وہی صورت حال ہے۔ انسانیت کو بربادی کی طرف لے جانے والے راستے بے شمار ہیں، لیکن نجات کا راستہ صرف ایک ہے۔ وہی راستہ جو ہمیں حرا سے طلوع ہونے والے آفتابِ جہاں تاب کی روشنی میں نظر آیا تھا۔ دانش نور پوری نے اپنے مجموعۂ نعت کا نا’م نور حرا ‘‘رکھ کر بڑی حکمت اور دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے شعری رویے کی بھی تعیین کردی ہے اور دنیا کو کام یابی کا سیدھا سچا راستہ بھی دکھایا ہے۔ انھوں نے اس نام کے ذریعہ یہ واضح کردیا ہے کہ ان کا سارا شعری ذخیرہ اسی لافانی نور میں ترتیب دیا گیا ہے، جس کو کوئی فنا نہیں کرسکتا۔ ساتھ ہی دنیا کے لیے یہ پیغام بھی ہے؎
تمام اِزم تو ناکام ہوگئے دانش
نظام سید ابرارؐ ہی کی بات کرو
دانش نور پوری کی نعتوں کو پڑھ کر واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے حرا کو صرف ایک عقیدت گاہ کے طور پر نہیں دیکھا ہے، بلکہ اسے ذات سے لے کر کائنات تک پھیلنے والے نور کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ان کی نظر میں اصلاحِ فرد اور اصلاحِ کائنات دونوں کا طریقہ یہ ہے کہ نور حرا کی مبارک ضو میں اپنا سفر آگے بڑھایا جائے۔ وہ کہتے ہیں:
میرے سینے میں کوئی چاند چھپا ہو جیسے
یوں منور ہے یہ دل غار حرا ہو جیسے
وہ نور جو تھا حرا سے اترا، اسی سے سارا جہاں ہے روشن
ہے ظلمتوں کو یہ مشورہ اب، ارادہ کرلیں وہ خودکشی کا
اہل مغرب تیرگی کو روشنی سمجھا کیے
نورِ حق نورِ خدا نورِ حرا کچھ اور ہے
بس یہی دیکھ کر تیرگی جل اٹھی
جل رہا ہے چراغ حرامصطفی
تیرگی کے بہت حوصلے بڑھ گئے
کوئی لائے چراغ حرا آپ کا
دانش نور پوری کی نعتوں میں سہل ممتنع کی کیفیت بھی ملتی ہے۔ اس مجموعۂ نعت کو پڑھتے ہوئے آپ کو ایسے اشعار بڑی تعداد میں ملیں گے، جن کا ہر لفظ روز مرہ اور عام بول چال کا معلوم ہوگا، لیکن شاعر نے ان کو کچھ اس طرح ایک لڑی میں پرو دیا ہے کہ آپ زبان و دل سے کلماتِ تحسین ادا کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ اس ضمن میں ان کی صرف ایک نعت کے کچھ شعر دیکھیے:
فیصلہ جب سنگ اسود کا کیا
آپ کی حکمت کے چرچے ہوگئے
پا گئے جو ان کی صحبت کا اثر
ذرے وہ مہتاب جیسے ہوگئے
چھوڑ کر ہم ان کا درسِ اتحاد
ایسے بکھرے فرقے فرقے ہوگئے
دانش نور پوری کا تعلق اُس ادبی حلقے سے ہے، جہاں عام طور پر پیغام نبوت کو عام کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس حلقے کے ادباء و شعراء میں یہ رجحان اتنا عام ہوا کہ ذاتِ رسالت مآب سے اظہارمحبت و عقیدت اور آپ کی ذات سے والہانہ لگاؤ کی کیفیت کہیں دب کر رہ گئی۔ دانش نور پوری اس حلقے کے ان معتدل اور منصف نعت گوشعراء میں ہیں، جنھوں نے اظہار عقیدت اور دعوتِ اتباع، دونوں کے درمیان ایک حسین امتزاج قائم رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ایک ہی نعت کے یہ دو شعر ان کے اس وصف کا مظہر ہیں:
میری نظر میں وہی زندگی بناتا ہے
گلی میں ان کی دل و جان جو لٹاتا ہے
وہ منزلوں پہ پہنچتا ہے بالیقین اک دن
جو ان کے نقش قدم رہ نما بناتا ہے
مختصر طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دانش نور پوری کا شمار موجودہ عہد کے ان شاعروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی نعتوں کو کسی خاص مسلک و منہج کا نمائندہ بنانے کے بہ جائے سیدھے سادے انداز میں شاعری کی ہے۔ ذات رسالت مآبؐ سے اپنی عقیدت ومحبت کا بھی اظہارکیا ہے اور آپؐ کے پیغام کو عام کرنے کی بھی کوشش کی ہے، یعنی حقیقی نعت کی طرف قدم بڑھایا ہے۔
)شاہ اجمل فاروق ندوی(
ریسرچ اسکالر، مولانا ابوالکلام آزاد نیشنل اُردو نیورسٹی
تنزیل (شعری مجموعہ(
مصنف: عبدالحفیظ انظر فرقان آبادی
ناشر: ادارۂ ذکر وادب جموں وکشمیر
l صفحات: ۱۶۴ l قیمت: ۵۰ ۱روپے
’تنزیل‘ عبدالحفیظ انظر فرقان آبادی کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس میںحمد، نعتیں، دعائیں، غزلیات، نظمیں ،مراثی اورقطعات شامل ہیں۔ بہ الفاظ دیگر تقریباً تمام ہی اصناف میں طبع آزمائی کی گئی ہے۔ حمد کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
اِک نظرِ کرم یارب ! تری ذات ہے لافانی
اب تک تو تِری عظمت ہم نے نہیں پہچانی
نعت کا ایک شعر دیکھیے:
تو جو آیا آدمی کو پھر سکونِ دل ملا
مردہ چہرے کھل اُٹھے اور جادۂ منزل ملا
غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
یہ ارض و سما سے صدا آرہی ہے
کہ تہذیبِ حاضر مٹا چاہتی ہے
نمونے کے ان اشعار سے شاعر کے شعری ذوق ، فن اور فکر وخیال کی جہتوں کا بہ آسانی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ کربلا اور شہادت حسینؓ کے واقعات پر ہر دور کے شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔ اس موضوع پر عبدالحفیظ انظر فرقان آبادی نے کیا ہی خوب صورت شعر کہا ہے ؎
جان دے کے نئی زندگی پائی حسینؓ نے
دینِ خدا کی شان بڑھائی حسینؓ نے
اس مجموعے سے شاعر کی دینی وفکری صلابت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنا بنیادی ماخذ قرآن کریم اور احادیث رسولؐ کو بنایا ہے۔ اس سے ان کی شعوری بیداری، مقصد کی پاکیزگی اور فکر ونظر کی صالحیت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے سے شاعر اعلیٰ قدروں ، پاکیزہ اخلاق اور تعمیری ذہن وفکر کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ امید کہ اس شعری مجموعے کو دینی حلقوں میں اور بالخصوص ادب نواز حلقوں میں مقبولیت حاصل ہوگی۔ (محمد رضوان خاں فلاحی(
مشمولہ: شمارہ مارچ 2015