اسلام کا عائلی نظام
مصنف: مولانا سید جلال الدین عمری
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔۲۵
سن اشاعت: ۲۰۱۷ ء (چوتھا ایڈیشن)صفحات: ،۲۰۰ قیمت: /- 105روپے
اجتماعیت میںرہ کر زندگی گزارنے کا تصور ہر عہد میں پایا جاتا تھا۔اگرچہ جغرافیائی حالات اور خطے و علاقے کے لحاظ سے اس کی مختلف شکلیں رہی ہیں۔ بلاشبہ ہرانسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے پورا تحفظ حاصل ہو، تاکہ بے فکر ہوکر افراد خاندان کے ساتھ زندگی گزارے، لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہے جب اصول، ضابطے اور قوانین کا اپنے آپ کو بھی پابند بنایا جائے۔اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ سسٹم کے صحیح نفاذ سے ہی خاندان کو منتشر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس کی اہمیت کو ہمیشہ محسوس کیا گیا ہے۔ مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہر خاندان اور قبیلے کا کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہوتاہے ۔ چنانچہ پوری دنیا میں بےشمار مذاہب اور ان کے ماننے والے موجود ہیں، لیکن ان سب کی تعلیمات پر غور کرنے کے بعد ہر انصاف پسند اسی نتیجے پر پہنچے گاکہ صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں انسانوں کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اس نے خاندان کی اصلاح اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے ایسامکمل خاکہ پیش کیا ہے جس سے بے نیاز ہوکر کسی مستحکم نظام کے قیام کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ مولاناسیدجلال الدین عمری نے، جو معاشرتی مسائل پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں، پیش نظر کتاب میں خاندان کی ضرورت و اہمیت ، زمانۂ نزولِ قرآن میں عرب کے خاندانی اور قبائلی نظام، نیز اسلامی خاندان کے خدوخال پر قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں عالمانہ گفتگو کی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کایہ چوتھا ایڈیشن ہے۔اسے علمی حلقوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ اس کا انگریزی ترجمہ ‘The Family System of Islam’ کے نام سےحال میں شائع ہوا ہے۔کتاب کے شروع میں خاندان اور قبیلے پر گفتگوہوئی ہے۔ اس میںخاندان کی اہمیت، انسانی زندگی میںاجتماعیت کی ضرورت، جان، مال اور عزت و آبرو پر حملے سے خاندان کی حفاظت ، خاندان سے تعلق برقرار رکھنے کے فائدے جیسے کئی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔مولانا نے خاندان کی تین شکلیں بتائی ہیں: مختصر خاندان، نیوکلیر خاندان اور مشترک خاندان۔پھر ہرایک کی اہم خصوصیا ت پر روشنی ڈالی ہے۔پدری خاندان اور مادری خاندان کے تعلق سے ان دنوںجودستور رائج ہوگیاہے وہ فطرت کے عین مخالف ہے، اسے کوئی مہذب معاشرہ قبول نہیں کرسکتا۔
یہ بھی المیہ ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں خاندان کی ضرورت و اہمیت محسوس ہی نہیں کی جاتی ۔ اسی لیے مرد اور عورت آزادانہ طو ر پر جنسی تسکین حاصل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن ممالک میں جنسی بے راہ روی عام ہے وہاں کاخاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔انسان باشعور ہوتا ہے، اچھے برے کا فرق بھی محسوس کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ حیوان کے مقابلے میں اس کا اپنی نسل سے تعلق محض وقتی اور عارضی نہیں ہے۔اب تو خاندان کے نظام پر ہی اعتراضات کیے جاتے ہیں، یہ کہہ کرکہ اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ مولانا نے خاندان کے خلاف اس قسم کے تمام دلائل کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔
خاندانی نظام پر جو بھی مواد پیش کیا جاتا ہے اس میں عرب کے خاندانی اور قبائلی نظام کا عام طور پر ذکر نہیں ہوتا، لیکن زیر تبصرہ کتاب میں اس موضوع پر بھی مولانا نے اظہار خیال فرمایا ہے۔ اس میں قبائلی نظام کے طبقات، معاہدے کے ذریعے خاندان میں شمولیت،کسی کو حلیف بنانے کا دستور، متبنیٰ بنانے کا رواج،قریب کے رشتے داروں کو زیادہ اہمیت دینا،قبائل میں فجار نام کی چار جنگوں کا تذکرہ ، حلیف قبائل کی تاریخ اور حلف الفضول نامی معاہدہ پر روشنی ڈالی گئی ہے، تاکہ عرب کا قدیم معاشرہ اور اس کا تہذیبی و ثقافتی پس منظر سامنے رہے۔اس سے اس دور کی قبائلی زندگی کے خدوخال نیز اس کی خوبیوں اور خرابیوں کو بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔اسلام کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے ان قبائل کو اتحاد و اتفاق اور بھائی چارہ کی نعمت سے نوازا۔ خاندان کی صحیح نہج پر تعمیر کے لیے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔
خاندان کے ماحول کو خوش گوار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام حقوق و واجبات کی ادائیگی میں اسلامی اصولوں اور ضابطوں کی پیروی کی جائے۔ کتاب میں ایک عنوان اسی سے متعلق ہے ۔ اس میں ہم جنسیت کے رجحان اور اس کے غلط اثرات پر گفتگو ہوئی ہے۔ جنسی تعلق کی اہمیت بتاتے ہوئے مولانا نے رہبانیت کے تصورپر سخت تنقید کی ہے۔ جنسی تسکین کے لیے جائز ذریعہ صرف نکاح ہے،اس کی مشروعیت اور حدود و آداب سے متعلق بہت سی تفصیلات کتاب میں آگئی ہیں۔
مسائل و مباحث کے ذیل میں خطبۂ نکاح میں پڑھی جانے والی آیات کی معنویت پر گفتگو ہو ئی ہے۔ لڑکی سسرال میںکس طرح خوش گوار زندگی گزار سکتی ہے، اس کی بہت سی عملی تدابیر بتائی گئی ہیں۔ شادی میں لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جو شرعاً درست نہیں ہے۔ مولانا نے اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے اس مسئلے میں اسلام کے موقف کی وضاحت کی ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں دینی رجحان رکھنے والی خواتین کو شریعت کے دائرے میں رہ کرزندگی گزارنے میں کتنی مخالفتوں کا سامنا کرتا پڑتا ہے۔ مولانا نے ان مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کی حکمت بتاتے ہوئے عورتوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اللہ سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں، اس سے پریشانیاں دور ہوں گی اور مسائل بھی حل ہوں گے۔آخر میں سوال جواب کی شکل میںخواتین سے متعلق بعض مسائل، مثلاً عورتوں کی ملازمت، طلاق کے بعد نفقہ، عورتوں کے لیے ہی پردہ کیوں؟ مساجد میں خواتین کی حاضری، مملکت کی سربراہی اور منصبِ قضا وغیرہ پر مدلل گفتگو ہوئی ہے۔ موجودہ حالات کے پس منظر میں ان موضوعات کا مطالعہ اہمیت کا حامل ہے۔
مسجد میں عورتوں کے باجماعت نماز پڑھنے پر بھی اکثر سوال اُٹھایا جاتاہے۔ بعض اوقات میڈیا کی طرف سے اس معاملے میں غیر معمولی دل چسپی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مولانا نے اس مسئلہ پر فقہ کی روشنی میں دلائل دیے ہیں۔ اسلام میں عورت کی قیادت کا شرعی حکم کیا ہے ؟ نکاح میں ولی کی شرط ، کفاء ت کا مسئلہ،غیر مسلم عورت سے نکاح،محرم کے بغیر سفر حج، حضانت کا حق، زمانۂ عدت میں ملازمت کا مسئلہ،عدت میں رجوع کی مشروعیت،مہر ادا کرنے کی صورتیں،کاروبار میں اولاد کی شرکت اور دوسرے بہت سے فقہی و معاشرتی مسائل سے متعلق اطمینان بخش جواب دیا گیا ہے۔ مسلم خاندان کے ہر فرد روزمر ہ کے شرعی مسائل سے واقف ہونا ضروری ہے، تاکہ مخالفین کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہو۔اس وقت، جب کہ مسلمانوں کے عائلی نظام اور معاشرتی مسائل پر ہر طرف تنقید ہورہی ہے، اس کتاب کا مطالعہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ (ڈاکٹر عبدالرحمن فلاحی)
انچارج شعبۂ ادارت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
یہ ملک کدھر جارہا ہے (نظرثانی شدہ ایڈیشن)
مصنف: مولانا سید جلال الدین عمری
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ ۲۵
سنہ اشاعت: (چوتھا ایڈیشن) : دسمبر۲۰۱۶ء ،صفحات: ۶۴ قیمت:۳۵روپے
ہمارے ملک میں اس وقت امن و امان کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ بڑھتے ہوئے تشدد اور لاقانونیت کی وجہ سے ہر طرف خوف وہراس کا ماحول ہے۔ مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کرکے ان کے دینی و تہذیبی تشخص کو ختم کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔ ا ن کے خلاف تعصب اور نفرت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ پوری دنیا میں ملت مختلف النوع مسائل سے دوچار ہے۔ ان حالات میں دینی جماعتوں کے قائدین اور ذمے داران کا مضطرب ہونا فطری ہے۔مولانا سید جلال الدین عمری تحریک اسلامی کے ذمے دارانہ مناصب پر فائز رہے ہیں۔ اس لیے وہ ملکی و عالمی حالات و مسائل پر بھی غور و فکر کرتے ہیں۔زیرتعارف کتاب اسی موضوع سے متعلق ہے ۔اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر مولانا کی کتنی دور رس نگاہ ہے۔مضمون کسی بھی عنوان پر ہو، وہ اپنے موقف کی وضاحت خالص قرآن و سنت کی روشنی میں کرتے ہیں۔
پیش نظر کتاب دراصل مولانا کے ان مضامین کا مجموعہ ہےجو انھوں نے ماہ نامہ’ زندگی نو‘ اور ’تحقیقا ت اسلامی ‘کے لیے تحریر فرمائے تھے۔ نظرثانی اور حذف واضافے کے بعد اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے ، جس کے ا ب تک چار ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس کا ہندی اڈیشن ’یہ دیش کدھر جارہا ہے؟ ‘ بھی موجود ہے، جو تین بار طبع ہوچکا ہے۔اس میں کل آٹھ مضامین شامل ہیں،جن میں سے پانچ کا تعلق اہل ملک سے ہے۔ اس کے بعد کے مضامین میں مسلمانوں سے گفتگو ہوئی ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیسے پیدا ہوگی؟ غلط فہمیوں سے معاشرے پر کیا اثرات پڑتے ہیں؟ یہ ملک کدھر جارہا ہے؟ اہلِ مذاہب اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟جیسے موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔مضامین کے آخر میں تاریخ اشاعت بھی درج ہے، جس سے بیان کیے گئے واقعات کا صحیح تناظر سمجھنا آسان ہوگا۔ یہ مضامین اگرچہ بہت پہلے تحریر کیے گئے ہیں، لیکن حالات و مسائل آج بھی ویسے ہی ہیں، لہٰذا اس میںجو بھی تجزیہ پیش ہوا ہے وہ اس وقت بھی اہمیت کاحامل ہے۔
آغاز کتاب میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے موضوع پر مسلم و غیر مسلم دانش وروں کے وہ احساسات نقل ہوئے ہیں جو انھوں نے مولانا کی صدارت میں منعقد ہونے والے متعدد سمپوزیم میں ظاہر کیے تھے۔ ان کی باتوں سے مصنف نے یہ رائے قائم کی ہے کہ ان دانش وروں کی نظر میں فرقہ وارانہ جھگڑے مذہب کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔یہ بات اورہے کہ اس کے پیچھے کچھ دوسرے محرکات و عوامل بھی کارفرما نظر آتے ہیں۔ مولانانے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اس مضمون میں زیادہ تر غیر مسلم بھائیوں کے تاثرات کو سامنے رکھ کر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ جھگڑے کیوں اور کیسے پھیلتے ہیں؟ اس کی بہت سی وجوہ بیان کی جاتی ہیں، اسباب بھی تلاش کیے جاتے ہیںاورمبصرین کی طرف سے طرح طرح کے دلائل بھی دیے جاتے ہیں، لیکن ان سب کا تجزیہ کرنے کے بعد یہی نتیجہ نکلے گا کہ یہ سب مذہب کی آڑ میں انجام دیے جاتے ہیں، حالاں کہ غور کرنے پرکچھ اور بھی اسباب سامنے آئیں گے ، جن کی طرف بالعموم ذہن نہیں جاتا ہے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کا موقف نقل کیاجائے جو ان کے الفاظ میں یہ ہے: ’’ قوم پرستی، وطن پرستی، نسل پرستی اور ایک طرف بدترین آمریت اور دوسری طرف بے قید جمہوریت نے خداکی زمین کو فتنہ و فساد سے بھر رکھا ہے۔‘‘ قارئین خود غور فرمائیں، اس اقتباس میں کتنی جامعیت ہے۔
کتاب میں ایک مضمون ان غلط فہمیوں سے متعلق ہے جن کی وجہ سے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے بدگمان نظر آتے ہیں۔ بسااوقات اس میں اتنی شدت پیدا ہوجاتی ہے کہ فساد کا موجب بن جاتی ہے۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ دونوں فرقوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے میں ذرائع ابلاغ کے علاوہ ارباب سیاست کا بھی اہم رول ہوتا ہے، جوہوس اقتدار میں کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ مولانانے بلاوجہ پھیلائی جانے والی غلط فہمی اور بدگمانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہ صرف اُس کے اسباب بیان کیے ہیں، بلکہ ان کے ازالے اورسدِّباب کی تدابیر پربھی مؤثر گفتگو کی ہے۔ ایک مضمون ’یہ ملک کدھر جارہا ہے؟‘کو کتاب کا عنوان بنایا گیا ہے۔ بلاشبہ ہمارے ملک میں بھیانک فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جارحیت پسند تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ قانون کی پروا کیے بغیر اپنے مشن کو انجام دیں۔ مقام حیرت ہے کہ یہ سب کچھ مذہب کے نام پر ہورہا ہے ، حالاں کہ دنیا کے کسی مذہب میں یہ تعلیم نہیں دی گئی ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر ظلم و زیادتی کی جائے یا ان کی عبادت گاہوں کو منہدم کردیا جائے۔انھوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ ان واقعات پر ملک کو مضطرب و بے چین ہو جانا چاہیے تھا، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔مولانا نے ہر درد مند شہری سے اپیل کی ہے کہ وہ متحد ہوکرکھلی جارحیت کامعقول جواب دے،تاکہ ملک میں امن و امان کی فضا بنی رہے ۔اہل مذاہب سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ ہر مذہب کے لیے اپنے اندر احترام کا جذبہ پیدا کریں۔دوسرے یہ کہ ہر شخص کو اپنے عقیدے و مذہب کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہو۔ تیسرے یہ کہ ہمارے ذہن سے یہ تصور ختم ہونا چاہیے کہ مذہب کا تعلق صرف انفرادی زندگی تک ہی محدود ہےاور اجتماعی زندگی کے مسائل سے اس کو سروکار نہیں ہے۔ مولانا کے الفاظ میں ’’مذہب کا رشتہ زندگی سے ٹوٹنے کے بعداس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس کی اخلاقیات معاشرہ میں باقی رہیں گی۔‘‘ مضمون میں ان تمام مسائل کے حل کے لیے اسلام کو واحد ذریعہ بتایاگیا ہے،جس کے آغوش میں آنے کے بعد ہی انہیںحل کیا جاسکتا ہے۔ جزیرہ نمائے حجاز کے حالات کی مثال پیش کرتے ہوئے یاد دلایاگیا ہے کہ اسلام سے پہلے وہ کئی قبیلوں میں بٹا ہوا تھا،وہاں نہ کوئی سیاسی نظام تھا اور نہ ہی قانون و ضابطہ،لیکن بعد میں حالات یکسر بدل گئے ۔ ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم ا اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں اور تمام مسائل اسی کی روشنی میں حل کریں۔مولانا نے مسلمانوں کے مشترکہ مسائل حل کرنے میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے پر زور دیاہے۔ ان کے خیال میں ملک کے حالات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ انفرادی طور پر ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔مولانافرماتے ہیںکہ ’’ اس ملک میں ہمارے موجودہ پریشان کن مسائل کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تقریباً پندرہ کروڑ کی تعداد میں ہونے کے باوجود ہماری کوئی ایک آواز نہیں ہے۔‘‘
کتاب میں شامل تمام مضامین ملک کے حالات اور امت مسلمہ کے مسائل سے متعلق ہیں ۔ اس وقت ،جب کہ ہر طرف اضطراب اور بے چینی کی فضا بنی ہوئی ہے ،اس کتاب کا مطالعہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔امید ہے اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔
)ڈاکٹر عبد الرحمن فلاحی(
انچارج شعبہ ادارت مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی
مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا صدر الدین اصلاحی کی تحریکی خدمات
مصنف: ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحیؒ
ناشر: ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی، شعبۂ کلیات ، اجمل خاں طبیہ کالج ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
صفحات: ۱۰۳،قیمت:۳۰۰؍روپے
۱۹۴۱ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جب اسلام کی نشا ۃ ثانیہ اوراس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے جماعت اسلامی کی تشکیل کی تو جن ذی علم شخصیات نے آگے بڑھ کر اس کی دعوت پر لبیک کہا ، ان میں مولانا امین اصلاحیؒ اور مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کا نام سر فہرست ہے ۔ ان دونوں نے تحریک اسلامی کے لیے جو قربانیاں دیں اور جوعلمی وفکری خدمات پیش کی ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ زیرِ نظر کتاب میں انہی دونوں شخصیات کی تحریکی، علمی، فکری اورتصنیفی خدمات کو بیان کیا گیا ہے۔
فاضل مصنف نے کتاب کومقدمہ کے علاوہ دو حصوںمیں تقسیم کیا ہے ۔ ایک حصہ میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے اوردوسرے میں مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کا۔ اس کے مطالعے سے مولانا مودودیؒ سے ان کے تعلقات، جماعت کی سرگرمیاں اوراس وقت کے احوال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
کتاب میں مولانا مولانا مودودیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحی کے آپسی تعلقات کوجس خاص اسلوب ا ور دل نشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے اسے پڑھ کر ایک قاری کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑتے ہیں ۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں کہ جب امین اصلاحیؒ، مولانا مودودیؒ کی دعوت پر پٹھان کوٹ پہنچےتو مولانا مودودیؒ نے ان کا پر جوش استقبا ل کیا اور فرمایا :’’ اب تک میں اکیلا تھا ، اکیلا سب کام کرتا تھا ۔ خدا کا شکر ہے اس نے مجھے ایک طاقت ور بازو مہیا کردیا ‘‘۔ ( ص ۷)
یہ محبت یک طرفہ نہیں تھی، بلکہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ بھی مولانا مودودیؒ سے بے پناہ محبت کرتے تھے ، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب مولانا مودودیؒ کوپھانسی کی سزا سنائی گئی اورانہیں پھانسی کی کوٹھری میںمنتقل کردیا گیا تو مولانا اصلاحی اپنے آنسوؤں کوضبط نہیں کرسکے۔ ان کا حال یہ تھا کہ : ’’وہ کبھی فرطِ جذبات میں مولانا مودودیؒ کی ٹوپی اورکپڑے اپنی آنکھوں سے لگاتے تو کبھی اپنے سرپر رکھتے اورکبھی سینے سے لگاتے ، زارو قطار روتےاور فرماتے جاتے کہ میں مولانا مودودیؒ کو بڑا آدمی سمجھتا تھا ، لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ خدا کے اس قدر مقرّب اورمقبول بندے ہیں‘‘۔ ( ص ۲۲)
بعد میں مولانا احسن اصلاحیؒ کوجماعت کی بعض پالیسیوں سے شدید اختلاف ہوگیا ، جو جماعت سے ان کی علٰیحدگی کا سبب بنا ۔ اس اختلاف کو مصنف نے تقریباً چھ(۶) صفحات میں بیان کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے جا بہ جا مولانا اصلاحی کے اقتباسات تو درج کیے ہیں ،لیکن کسی ایک مقام پر بھی مولانا مودودیؒ کا کوئی اقتباس نہیں نقل کیا ہے، یا مولانا اصلاحیؒ کے کسی اعتراض پر مولانا مودودیؒ کاجواب درج نہیں کیا ہے ۔ بہترہوتا کہ دونوں کا موقف انہی کے الفاظ میں بیان کردیا جاتا اورفیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جاتا۔
اسی طرح فاضل مصنف نےمولانا صدر الدین اصلاحیؒ کے احوال اور تحریک اسلامی کے لیے ان کی خدمات کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے ۔
کتاب کی ترتیب بہت عمدہ ہے ۔ تحریک سے وابستہ ہرفرد کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
(محمد اسعد فلاحی)
معاون شعبۂ تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند
چراغِ ابدی (تفسیر سورۂ فاتحہ وپارۂ عم)
مؤلف: مولانا میر عزیز اللہ ہم رنگ اورنگ آ بادی ؒ
تدوین: عنایت علی ومحمد لطیف الدین صدیقی
ناشر: محمد لطیف الدین صدیقی ، پلاٹ نمبر ۹۹ ، لین۶، اورنگ آباد ٹائمز کالونی ،
اورنگ آباد 431001، مہاراشٹر
سنہ اشاعت: مئی ۲۰۱۶ء صفحات:۴۲۴،ہدیہ:۱۲۰؍روپے
قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے۔ یہ عربی زبان میں ہے، اس لیے غیر عربی داں حضرات کی دست رس سے بعید ہے کہ وہ براہِ راست اس سے ہدایات حاصل کرسکیں۔ اس لیے قرآن مجید کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اردو زبان میں اس کا پہلا ترجمہ ۱۲۰۵ ھ میں شاہ عبدالقادر دہلویؒ نے کیا اور ان ہی تحریک رجوع الی القرآن کے باعث برصغیر میں قرآنی علوم ومعارف سے لوگوں کا شغف بڑھا اور پھر ترجمہ وتفسیر کا آغاز ہوا ۔ شاہ عبدالقادر دہلویؒ کے کیےگئے پہلے ترجمہ کے بعد ۱۲۲۱ھ میں زیرِ تفسیر کا لکھا جانا ایک انقلابی قدم تھا۔
’چراغِ ابدی ؒ ، قرآن مجید کے سورۂ فاتحہ اورپارۂ عم کی تفسیر پر مشتمل ہے ۔ یہ تفسیر زبان اردو اورنگ آبادی میں ہے ، جس میں دہلوی زبان کے علاوہ دکھنی محاورے اورمقامی زبان مرہٹی کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ اس تفسیر کے برصغیر میں نو(۹) قلمی نسخے دست یاب ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب کی تدوین مخطوطۂ اورنگ آباد اورمخطوطۂ ممبئی کے موازنہ کے بعد کی گئی ہے ۔ مخطوطوں کی تلاش وجستجو کی خدمات جناب عنایت علی اور محمد لطیف الدین صدیقی صاحبان نے انجام دی ہے۔
چراغِ ابدی کے مفسر میر عزیز اللہ ہم رنگ اورنگ آباد کے متوطن تھے۔ آپ اردو اور فارسی کے شاعر ہونے کے علاوہ ایک صوفی بزرگ بھی تھے۔ علمی قابلیت اعلیٰ درجے کی تھی ۔ اردو میں تفسیر اور دیوان کے علاوہ اور بھی کتابیں ان سے منسوب ہیں۔ چنانچہ تصو ف میں ان کی ایک سالہ ’دودھ دلیا‘ کا فی معروف ہے ۔ آپ مکہ میں چوبیس (۲۴) سال تک رہے ۔ بعد میں اورنگ آباد، حیدرآباد اورممبئی میں قیام رہا ۔ ۱۲۵۶ھ میں آپ کا انتقال ممبئی میں ہوا اور وہیں مدفون ہیں۔
یہ قرآن مجید کی کوئی مکمل تفسیر نہیں ہے ، بلکہ اس میں صرف سورۂ فاتحہ اورپارۂ عم کی تفسیر کی گئی ہے ۔ آغاز میں تعوذ اورتسمیہ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، پھر سورۂ فاتحہ سے تفسیر شروع ہوتی ہے ۔ تدوین جدید میں ہر سورہ کے پہلے مولانا محمود مدنی حسن دیوبندی ؒ کے ترجمہ کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد مؤلف کا ترجمہ وتفسیر کا ہے ۔ ترجمے کا منہج لفظی ہے ، لیکن خوبی یہ ہے کہ وہ تفسیر سے الگ نہیں ہے ، دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔ ترجمے کی عبارت کہیں تو تفسیر سے پہلےاورکہیں تفسیرکے درمیان ہے ۔ حسبِ موقع ومحل درمیانِ تفسیر یا حاصل تفسیر کے طور پر تفسیر کے مفہوم کو اپنے اشعار سے تقویت دی ہے اور کہیں قطعہ، رباعی اور مثنوی سے تفسیر کوآراستہ کیاہے۔
مفسر نے یہ تفسیر زبان اردو ، اورنگ آبادی میں تحریر کی ہے ۔ اس کی غایت وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ دکنی تفاسیر کی زبان اہل اورنگ آباد کے لیے نامانوس سی ہے ، اس لیےانہوں نے یہ تفسیر اورنگ آباد کے محاورے میں لکھی ہے ،تاکہ اس علاقے کے رہنےوالے اس کودلچسپی کے ساتھ پڑھیں اورسمجھ سکیں ۔ کسی علاقہ کے لیے کوئی خاص تحریر صرف اس دیار کے لوگوں کے لیے ہی مفید ہوتی ہے، مگر اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کا عمومی فائدہ رک جاتا ہے اوروہ چیزاسی علاقے میں محصور ہوکے رہ جاتی ہے ۔اس تفسیر کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ اتنی قدیم تفسیر ہونے کے باوجود اس کا فیض عام نہیں ہوسکا۔ تدوین جدید کے بعد بھی اسے قدیم طرز تحریر اور اورنگ آباد ی محاورے پر باقی رکھنا سمجھ سے باہر ہے ۔
تفسیر قرآن مجید سے شغف رکھنے والوں کے لیے یہ بیش قیمت تحفہ ہے ، کیوںکہ یہ تفسیر عقلی اور نقلی ہر دو اعتبار سے مستند وقابل استفادہ ہے ۔ امید ہے کہ قرآن کے خوشہ چیں اس سے ضرور استفادہ کریں گے۔
(عبدالحیّ اثری)
ایف۱۳۵، شاہین باغ ، جامعہ نگر، نئی دہلی ۲۵
مشمولہ: شمارہ جولائی 2017