نام كتاب : ہدایت القرآن (قرآن مجید کا آسان ترجمہ وتفسیر) پارۂ عم
ترجمہ وتفسیر : مولانا حبیب حامد عبدالرحمٰن الکاف اصلاحی
ناشر : گڈ ٹری پبلی کیشن ، ٹولی چوکی، حیدرآباد ، موبائل :9246545117
سنۂ اشاعت : ۲۰۱۷، صفحات: ۱۶۴، ہدیہ:۱۲۰/روپے
جناب حامد عبدالرحمن الکاف تعلیماتِ قرآن کی اشاعت سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ وہ قرآن مجید میں مستقل غور وتدبر کرتے ہیں اوراپنے مطالعہ وتحقیق کا حاصل تحریری شکل میں بھی پیش کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوںنے The Simplified Quran کے نام سے انگریزی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اورتفسیر شائع کی تھی۔ اب احباب کے تقاضے اوراصرار سے مجبور ہوکر اسی طرز پر اردو ترجمہ وتفسیر کا کام شروع کیا ہے ۔ زیر نظر کتاب کی صورت میں انہوںنے پارۂ عم(تیسواں پارہ) کا ترجمہ اورتفسیر شائع کی ہے ۔ اس کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔
۱۔ یہ ترجمہ براہِ راست عربی متن سے پوری احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے نظم قرآن اوراسلوب قرآن کی روشنی میں کیا گیا ہے ۔
۲۔ ترجمہ اورتفسیر اصلاً ہائی اسکول اور کالج کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے تیار کیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی عام مسلمان بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
۳۔ کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید کوصرف نظری حیثیت سے نہ پیش کیا جائے، بلکہ عصر حاضر کے مسائل میں اس سے روشنی حاصل کی جائے۔
۴۔ سوالات کے ذریعے طلبہ وطالبات اوردیگر قارئین کے ذہنوں میں ہرسورت کا مرکزی مضمون (محور/عمود) اورموضـوعات کوجاگزیں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہر سورہ کے شروع میں مختصر تمہید ہے ، پھر ترجمہ اور تفسیر بیان کی گئی ہے ، اس کے بعد چند سطروں میں خلاصہ درج کیا گیا ہے ۔ آخرمیں طلبہ وطالبات کے لیے سوالات دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سورۂ اخلاص کے ضمن میں درج ذیل سوالات درج ہیں:
(۱) اس سورت کا نام سورۃ الاخلاص کیوں رکھا گیا ہے؟
(۲) اس کا سورۃالفاتحہ ، سورۃ الہب اورسورۃ النصر سے تعلق بیان کیجئے۔
(۳) اس سورت کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کیجئے۔
یہ ایک مفید اورقابل قدر کاوش ہے ۔ امید ہے ، اس سے بھر پورفائدہ اُٹھایا جائے گا۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : حج اور ہم
مصنف : حاجی شیخ لعل پٹیل (ایڈوکیٹ ہائی کورٹ اورنگ آباد)
ملنے کاپتہ : مدنی لائٹ الیکٹریکل ، نزد چمپا چوک، اورنگ آباد ، موبائل نمبر:8308758819
سنۂ اشاعت دوم : ۲۰۱۸، صفحات: ۳۱۳،قیمت:۱۲۵/روپے
اسلام کے اہم رکن حج پر مختلف اہل علم نےاپنے تاثرات قلبی اوراحساسات کوقلم بند کیا ہے ۔ ان مختلف واردات قلبی کوپڑھ کر آدمی نہ صرف محظوظ ہوتا ہے، بلکہ اُس کے اندر حج بیت اللہ اور زیارتِ مدینہ کا شوق وذوق ابھرتا ہے۔
اردو زبان میں سب سے پہلا حج نامہ ۱۸۴۸ء میں سید شاہ عطا حسین فانی نے لکھا ہے ۔ لیکن اس سے پہلے عربی اورفارسی میںحج ناموںکا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ۔ چنانچہ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے (۱۳۵۵ء) میں سفر حج کی روداد بھی لکھی ہے ۔ ڈاکٹر محمد شہاب الدین نے ’اردو میںحج کے سفرنامے ‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے ۔ ان کی تحقیق کے مطابق اردومیں لگ بھگ چار سوسے زیادہ حج نامے اب تک تصنیف کیے جاچکے ہیں۔ موصوف نے اپنی کتاب میں اُن کی ایک جامع فہرست بھی شائع کی ہے ۔ یہ کتاب یونیورسل بک ہاؤس ، شمشاد مارکیٹ، علی گڑھ سے شائع ہوئی ہے ۔ انہوںنے اپنی کتاب میں گزشتہ ایک صدی کے حج کے سفرناموں کا جائزہ لیا ہے ۔ اورنگ آباد کے معروف ایڈوکیٹ جناب شیخ لعل پٹیل صاحب نے بھی ’ حج اورہم ‘ کے نام سے ۲۰۱۱ء میںایک کتاب تصنیف کی تھی۔اُن سے پہلےاورنگ آباد کی معروف ادیبہ، شاعر ہ اورمعلّمہ سیدہ مہر صاحبہ نے بھی’سفرتابندہ‘ کے نام سے حج کے مشاہدات اورتاثرات کوکتابی صورت میں شائع کیا ہے۔
یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے ۔ کتاب کا عنوان ہی ظاہر کرتا ہے کہ مصنف نے حج کے مشاہدات اور تاثرات اورطریقۂ حج وغیرہ کے ساتھ امت مرحومہ کا عالمی سطح پر اورامت مسلمہ ہند کا ملکی سطح پر جوکچھ حال ہے اُس کو بھی بڑی درد مندی اوردل سوزی کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ موصوف نے صرف امت کی زبوں حالی ہی کاتذکرہ نہیں کیا، بلکہ حج کی روح اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں اُس کا حل بھی پیش کیا ہے ۔ حج کی روح اوراس کے بعد کے تقاضوں کوبھی جگہ جگہ اپنی تحریروں میںنمایاں کیا ہے ۔ مصنف کا احساس ہے کہ دین سے دوری ، تعلیم سے محرومی ، مقصد زندگی کے شعور کی کمی ، آپس کا عدم اتفاق ، یہ سب وہ روگ ہیں جنہوں نے امت کو موجودہ مقام پر پہنچادیا ہے۔ علامہ اقبالؔ نےبھی ملت کی اس کیفیت کو بہت پہلے درج ذیل اشعار میں پیش کیا تھا ؎
نماز وروزہ وقربانی وحج
یہ سب باقی ہیں توباقی نہیں ہے
صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق
کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے
مصنف کا اس بات پرزور ہے کہ حج کی روح کوسمجھا جائے اوراس کے مطابق اپنی زندگی میں تبدیلی لائی جائے تو امت مرحومہ اپنے سابق مقام اور منصب کوپہنچ سکتی ہے ۔ اسی لیے مصنف نے کتاب میںجگہ جگہ حج مبرور اور اس کے تقاضوں کواجاگر کرنے کا اہتمام کیاہے ۔ مصنف موصوف نے ہر صفحہ کوزرّین اقوال سے مزّین کیا ہے ۔ ان اقوال کی حیثیت روشن قندیلوں کی ہے جوامت مرحومہ اور افرادِ امت کوپستی سے عروج کی طرف اوردنیا و آخرت میں کام یابی کی راہ پر گام زن کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ اشعار کے استعمال سے تحریر کی شگفتگی میںاضافہ ہوگیا ہے۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ نثر ونظم کسی بھی ذریعے سے نئی نسل اُن کے درد کوسمجھ لے۔
اللہ کرے، مصنف موصوف کی یہ کوشش شرفِ قبولیت حاصل کرے اورامت کی بیداری کا ذریعہ بنے ۔ آمین (محمد اشفاق احمد)
سابق سکریٹری شعبۂ تعلیم، جماعت اسلامی ہند
نام كتاب : میرے مربی میرے محسن، مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ
مصنف : سراج الدین ندوی
ناشر : مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی، جامعہ آباد روڈ ، پوسٹ بکس نمبر 30،
بھٹکل ، کرناٹک 581320
سنہ اشاعت : ۲۰۱۸، صفحات: ۲۷۲، قیمت:۲۰۰/روپے
مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ(۱۹۱۳۔ ۱۹۹۹) بیسوی صدی کے جید عالم دین ، معروف مصنف و انشا ء پرداز اورمستند مؤرخ تھے۔انہوںنے مختلفِ میدانوں (علم وتحقیق ، تقریر وتحریر، تعلیم وتربیت، درس وتدریس ، دینی وسیاسی رہ نمائی) میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ پیش نظر کتاب میں معروف عالم دین اورکئی کتابوں کے مصنف مولانا سراج الدین ندوی نے ان کو، جنہیں وہ اپنا مربی ومحسن کہتے ہیں ، خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اوران کی حیات وخدمات کا ایک حسین گلدستہ سجا کر ہدیۂ قارئین کرنے کی کا م یاب کوشش کی ہے۔
یہ کتاب دومقدموں کے علاوہ چھ ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا مقدمہ مولانا سید رابع حسنی ندوی اور دوسرا مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کے قلم سے ہے ۔ ان دونوں مقدموں نے کتاب کو اعتبار اور وقار بخشاہے ۔ پہلے باب میں مولانا علی میاں ندویؒ کے گھریلو حالات، تعلیم وتربیت ، اخلاق واوصاف، عادات و معمولات، ملفوظات، مناصب، زندگی کے اہم واقعات ، ان کے پسندیدہ اشعارجیسے موضوعا ت کےتحت ان کی جامع شخصیت کا ا حاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس باب کا سب سے اہم اورمعلوماتی مضـمون مولانا مرحوم کی مختصر سوانح عمری ہے ، جوپیدائش سے لے کر وفات تک سال بہ سال ان کی خدمات کی تفصیلات پرمشتمل ہے ۔ دوسرے باب میں ان کی ہمہ جہات خدمات اور کارناموں کا ذکر ہے۔ مثلاً : ملی خدمات، دعوتی واصلاحی خدمات، تعلیمی خدمات اور تصنیفی وصحافتی خدمات۔ چوتھے باب میںمولانا محترم کے پیغام کوہر سطح اور ہرطبقہ کے لوگوں کوسامنے رکھ کر واضح کیا گیا ہے ۔اس میں عالم اسلام اوراس کے جید علماء ، سیاسی لیڈران اورقائدین ملت کے احساسا ت و جذبات کوجگہ دی گئی ہے ۔ کتاب میں مولاناؒ کے اساتذہ وشیوخ ، اورہم جولی اوران کے تربیت یافتہ حضرات کی ایک فہرست بھی موجود ہے۔ اسی طرح کی کچھ فہرستیں اوربھی ہیں جن میں ان حضرات کے نام ہیں جن سے حضرت مولانا کی ملاقات ہوئی یا کسی اورطرح کا تعلق تھا۔ آخر ی باب منظوم خراجِ عقیدت پر مشتمل ہے، جوکتاب کے ۶۱ صفحات پرپھیلا ہوا ہے ۔ اس میں ۴۱ ؍شعراء نے حضرت مولانا کوخراج عقیدت پیش کیا ہے۔
مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی حیات وخدمات پر سو سے زائد کتابیں اورمجلات ورسائل کے خاص نمبر منظر عام پر آچکےہیں ۔ ان سب میں یہ کتاب ایک خاص اہمیت وافادیت کی حامل ہے ۔ مولاناؒ کی جامع شخصیت کا مختصر طور پر جوتعارف اس کتاب میں ہے وہ شاید کئی کتابوں کے مطالعہ کے بعد حاصل ہو۔ الغرض ان کی ہمہ جہت خدمات ا ور ان کی فکر اور اہم کارناموں کوجاننے اورسمجھنے کے لیے یہ کتاب مفید ثابت ہوگی ۔ ان شاء اللہ (عبدالحیّ اثری)
ڈی ۳۰۷، ابوالفضل انکلیو،جامعہ نگر ، نئی دہلی۔۲۵
نام كتاب : رجب طیب اردغان
مصنف : ڈاکٹر راغب السرجانی
مترجم : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، F-155، فلیٹ نمبر 204، ہدایت اپار ٹمنٹ ،
شاہین باغ، جامعہ نگر نئی دہلی۔ 110025
ترکی میں احیائے اسلام کے میدان میں اللہ کے جن بندوں نے غیر معمولی خدمات انجام دیں ان کی طویل فہرست ہے۔ اس سلسلۃ الذہب میں ایک نمایاں نام ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان کا ہے ۔ [صدرِ ترکی کے نام کے تلفّظ میں اختلافات ہیں:اردوغان،اردوگان، اردوجان، اردوان وغیرہ۔ راقم نے ’اردوان‘ کو ترجیح دی ہے ۔ ] اردوان نے سیاسی سطح پر کام یاب حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے اسلام سے اپنی وابستگی چھپانے کی کوشش نہیں کی، لیکن اسلام کے غلبے کے لیے اقداما ت بہت دانش مندی کے ساتھ کیے۔ انہوں نے سیکولر ازم کے محافظوں اور علم بردارو ں سے معرکہ آرائی کی اور دھیرے دھیرے کام یابی حاصل کی۔ انہوں نے خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے ذر یعہ ترک عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی اور انھیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ انھوں نے ترکی معیشت کو استحکام بخشا ، اسے قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائی ۔ اردوان ایک ایسے لیڈر کی حیثیت سے ابھرے جس کی آواز بین الاقوامی پلیٹ فارم پر سنی جاتی ہے اور اس پر توجہ دی جاتی ہے۔ انہوں نے متعدد مواقع پر اسلام کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں کو للکارا ۔ ان کا تعارف ایک ایسے مسلم حکم راں کے طور پر ہوا جو دیگر ممالک میں ظلم و ستم کا شکار مسلمانوں کی حالت زار پر کُڑھتا ہے، ان پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور مظلوم اور بے یار مددگار مسلمانوں کی داد رسی اور گلو خاصی کے لیے اپنا دستِ تعاون دراز کرتا ہے۔
رجب طیب اردوان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے ، لیکن یہ اخبارات و رسائل کی حد تک ہے۔ ان کی شخصیت کو بنیاد بنا کر کتابیں کم ہیں ۔ اس صوت حال میں زیر نظر کتاب کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہ اردوان کی شخصیت اور ان کی کارکردگی کا عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر راغب السِر جانی (ولادت ۱۹۶۴ء) کا تعلق مصر سے ہے۔ انہوں نے قاہرہ یونی ورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کے بعد وہیں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ اسلامی تاریخ کے ممتاز اسکالر بھی ہیں۔ انہوںنے ۵۶؍ کتابیں تالیف کی ہیں، جن میں اسلامی تاریخ میں قصۃ الأندلس، قصۃ تونس، قصۃ التتار، قصۃ الحروب الصلیبیۃ اور فلسطین و واجبات الأمۃ اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کی کتاب أردوجان کا ترجمہ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی نے کیا ہے ، جو پیش نظر ہے۔
یہ کتاب صدر ترکی رجب طیب اردوان کے بارے میں صرف سوانحی معلومات ہی فراہم نہیں کرتی، بلکہ اس سے ترکی کی تاریخ پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ وہ ترکی کے درخشاں ماضی کو بیان کرتی ہے، بیسویں صدی کے ربع اول میں اس کے خلاف مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کو واشگاف کرتی ہے، خلافت ِاسلامیہ کے سقوط اور قومی حکومت کے قیام کی تفصیل پیش کرتی ہے، جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی خلافِ اسلام سرگرمیوں پر روشنی ڈالتی ہے، سیکولر حکومت اور فوج کے درمیان اسلامی تحریک کی پیش رفت بیان کرتی ہے، جن حضرات نے اسلام کے تحفظ اور احیا کے لیے کوششیں کیں ان کی خدمات کا تعارف کراتی ہے۔ اردوان کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے، سیاسی میدان میں پرو فیسر نجم الدین اربکانؒ کے تجربات اور ان کے ساتھ سیاسی جدو جہد میں اردوان کی شمولیت سے بحث کرتی ہے، اردوان کے علیٰحدہ سیاسی پارٹی بنا کر انتخابات میں شرکت اور ان میں کام یابی حاصل کر کے حکومت کی تشکیل پر روشنی ڈالتی ہے۔ اردوان کے حکومت میں آنے سے قبل ترکی کے کیا احوال تھے؟ اردغان کے بعد ان میں کیا تبدیلی آئی؟ اردوان کی پارٹی حزب العدالۃ والتمنیۃ کے مختلف ادوار ِحکومت میں ترکی کی داخلی اور خارجی سیاست میں کیا ارتقا ہوا؟ اردوان کی سربراہی میں مستقبل میں ترکی سے کیا امید یں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ کتاب میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
مدرسۃ العلوم الاسلامیۃ علی گڑھ کے مہتمم اور ماہ نامہ ’ندائے اعتدال‘ کے مدیر ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے عربی زبان کی اس قیمتی اور اہم کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے ترجمے میں روانی اور سلاست ہے۔ اس پر طبع زاد تحریر کا گمان ہوتا ہے اور یہی ایک کام یاب مترجم کی پہچان ہے۔
فاضل مترجم نے مقدمۂ مترجم میں ، جو سولہ (۱۶) صفحات پر مشتمل ہے، ترکی کے موجودہ حالات پر اظہار ِخیال کیا ہے۔ ترکی کے خلاف عالمی طاقتوں کی جانب سے کس طرح سازشوں کا جال بُناجا رہا ہے؟ اردوان کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے وہ کیا تدابیر اختیار کر ہے ہیں؟ ان سے مستقبل میں کیا امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔
عربی کتاب پہلی مرتبہ ۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی تھی۔ مترجم کے پیش نظر کتاب کا چوتھا ایڈیشن رہا ہے، جو ۲۰۱۲ء میں منظر عام پر آیا ۔ پانچ برس کے عرصے میں عالمی حالات تیزی سے بدلے ہیں اورترکی میں بھی بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اس لیے فاضل مترجم نے بہ طور ضمیمہ اپنی ایک تحریر [۴۶ صفحات] بھی شامل کر دی ہے، تاکہ ۲۰۱۲ء کے بعد سے اب تک ترکی کی صورت حال، اردوان کی کارکردگی اور مختلف موضوعات پر ان کا نقطۂ نظر واضح ہو جائے۔ یہ دراصل مترجم کی وہ تحریریں ہیں جو وہ مجلہ ـ’ندائے اعتدال‘ میں وقتاً فوقتاً لکھتے رہے ہیں۔
اردو زبان میں یہ کتاب اپنے موضوع پر معلومات فراہم کرتی ہے۔ یہ محض ایک شخص کی سوانح حیات نہیں ہے، بلکہ ایک ملک کی تاریخ ہے۔ اس میں ماضی کا تذکرہ ہے، حال کے اقدامات کا بیان ہے اور مستقبل کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ترکی کا تجربہ دیگر ممالک میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں رہ نما ئی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔ امید ہے ، اس کتاب کو علمی و دینی حلقوں میں قبول عام حاصل ہوگا۔
(محمد رضی الاسلام ندوی )
مشمولہ: شمارہ اگست 2018