وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ
قوموں کا عروج و زوال کوئی حادثاتی عمل نہیں ، یہ الله تعالیٰ کی اس عظیم سنت کے تحت ہوتا ہے جو بدلا نہیں کرتی۔ زوال کی مختلف شکلوں میں ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی ظالم اور جابر قوم کو کسی گروہ پر مسلط کر دیا جائے اور اس کے لئے زندگی کی راہیں تنگ کر دی جائیں، جیسا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا ۔ اور جس کا مشاہدہ تاتاریوں کی شکل میں خود یہ امّت بھی کر چکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان خواب غفلت میں سوئی ہوئی قوم ہیںجسے نہ اپنا مشن یاد رہ گیا ہے نہ اپنا منصب، ملک میں ہونے والی تبدیلیوں پر حیران وپریشان قوم یہ فیصلہ کر پانے سے بھی قاصر نظر آ رہی ہے کہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرے ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
افراتفری کا عالم
ایک گروہ یہ باور کرانے میں لگا ہے کہ تشویش کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سیاسی تبدیلیاں تو ہر ملک میں آتی ہی رہتی ہیں، سب کچھ ویسے ہی چلتا رہے گا اور اگلے انتخاب میں کوئی دوسری پارٹی اقتدار میں آ جائےگی۔
ایک دوسرا گروہ یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ برسراقتدار جماعت اور اس کی حلیف تنظیموں کی اسلام دشمنی محض اقتدار حاصل کرنے کا ایک حربہ تھا اور اب اپنی منزل مقصود پا لینے کے بعد ان کی توجہ ترقیاتی کاموں پر ہی مرکو ز رہے گی، ہمیں گھبرانے اور فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
ایک تیسرا گروہ ہے جو بڑے ہی پرزور انداز میں یہ کہتا سنا جا رہا ہے کہ ہمیں آگے بڑھ کر ان لوگوں سے ہاتھ ملا لینا چاہیے۔اس سے ہمارے اور ان کے درمیان کی دوریاں بھی ختم ہو جائیں گی اور نتیجے میں ہمیں کچھ مراعات بھی حاصل ہو ںگی۔
ان تینوں کے مقابلے میں ایک چوتھا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ برسراقتدار جماعت اور اس کی حلیف تنظیمیں جس ایجنڈے پر طویل عرصے سے کام کرتی رہی ہیں،اپنے دیرینہ ایجنڈے پر دھیرے دھیرے عمل درآمد شروع کریں گی اور ان کا اولین ہدف اسلام اور مسلمان ہی ہوں گے۔ ہمیں خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے اپنے دفاع کے لئے کوئی راہ متعین کر کے اس پر گامزن ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مختلف انواع کی اٹھتی ہوئی ان آوازوں سے امّت کے بارے میں دونتیجے با آسانی اخذ کئے جا سکتے ہیں:
۱) امّت کا ایک بڑا حصّہ خواب غفلت کی نیند سے بیدار ہونے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ موجودہ تبدیلیوں پر اس کا رد عمل اس منظر کی یاد دہانی کراتا ہے جس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے : قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا هَذَا(یا سین : ٥٢)
۲) امت کی قیادت فسطائی قوتوں کو روکنے کے لئے بنائی گئی اپنی پالیسی پر مطمئن تھی اس نے یہ سوچنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی کہ خدا نخواستہ فیصلہ اس کی منشاکے برخلاف ہوا تو اس کے تدارک کی کیا تدبیر اختیار کی جائے گی اب جب پانی سر سے او پر جا چکا ہے ،توقیادت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے-
گزارشات
فسطائی طاقتیں اقتدارمیں آتی ہیں، تو عوام کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے اور آپس میں لڑانے کی سازشیں کرتی ہیں اپنے نظریے اور عقاید کو بہ جبرمسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ منفی طاقتوںکے عزائم کا تجزیہ اور ان کے تدارک کے طریق کار کا فیصلہ کرتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے :
۱) امت مسلمہ کے خلاف اس وقت عالمی سطح پر سازشوں کا بازار گرم ہے۔ اس کی نمایاں مثال مصر اور بنگلہ دیش ہیں۔ عراق کی خانہ جنگی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اپنے ملک میں ہو رہی تبدیلیوں کو ان سے علاحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ جو فیصلہ ہو وہ وسیع تناظر میں ہو۔
۲) ایک کمزوری جو مسلمانوں میں آگئی ہے وہ ہے ردعمل پر قانع ہوجانا۔ (reactionary) کردار۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان تعمیری اقدام کریں اور دنیا اس پر رد عمل ظاہر کرے ،اب مسلمان محض رد عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ جو فیصلے ہوں وہ reactionary کم اقدامی زیادہ ہوں۔
۳) امت جس بدحالی کا شکار ہے وہ اس کی طویل المدت کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کو کسی قلیل المدت اقدام سے ختم نہیں کیا جا سکے گا۔اس لئے دور اندیشی اور طویل المدت جد و جہد کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔
۴) یہ نہایت اہم ہے کہ مد مقابل کی صحیح پہچان ہو۔ قرآن کی یہ آیت اسی کی نشان دہی کرتی ہے : إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً(فاطر :۶) امت کا ایک بڑا طبقہ اپنے دشمن کی صحیح پہچان کرنے سے قاصررہتاہے۔
ایک نگاہ ادھر بھی
یہ امت ، جو دنیا کی بہتری اور بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی ، آج ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں اسے محکم فیصلے کرنےکی ضرورت ہے۔جو مسائل پیش ہیں ان کو کسی جادو کی چھڑی سے دور نہیں کیا جا سکتا۔سبھی کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور حالات کا گہرائی سے تجزیہ کر کے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔درج ذیل نکات بھی پیش نظر رہیں۔
۱) ہندوستان میں امت کی سیاست محض مسلمانوں کے گرد گھومتی رہی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی ۸۰فیصد آبادی غیر مسلم ہے۔ مسلمانوں پر اثر انداز ہونے والے ہر معاملےپر ہم اظہارِخیال کرتے ہیں، دوسرے کسی موضوعپر ہمارا کوئی نمایاں موقف نہیں ہوتا ۔کرپشن، تحفظ نسواں، مہنگائی، عصمت دری کے واقعات کتنے ہی ایسے مسائلہیں جن پر مسلمان اس ملک میں کوئی مثبت کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔ نتیجتاً ہماری تصویر ایک خود غرض گروہ کی بن گئی ہے۔ہم سب سے الگ تھلگ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس صورت حال کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔ دنیاکو جب تک ہم نَاصِحٌ أَمِينٌ کا کردار نہیں اپنائیںگے، اپنا موقف پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔
۲) اسلام عظیم مشن کو سامنے رکھتا ہے ، اس کے لئے مضبوط اور صالح کردارکی ضرورت ہے، ایسے لوگ درکار ہیںجو اپنےا علیٰ موقف پر صبر اور استقامت کے ساتھ جم جائیں اور اس راہ میں آنے والی ہر آزمائش کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں۔ اسلام نے رخصت کی راہ اختیار کرنے کی اجازت تو دی ہے، پر رخصت کی راہ کو معمول نہیں بنایا جا سکتا۔ مطلوب تو عزیمت کی راہ ہی ہے اور صحابہ کرام کی زندگیاں اس کا جیتا جاگتا نمونہ پیش کرتی ہیں۔رخصت کی راہ پر چلنے والی قوم نہ کبھی کوئی انقلاب برپا کر سکی ہے نہ آئندہ کر سکتی ہے۔اسی راہ پر چل کر وہ افراد پیدا ہوں گے جو امت کو اس کا کھویا ہوا مقام دلا سکیں گے-وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ(سورہ السجدہ : 24)
۳) مسلمانوں کو اسلام سے جتنی محبت ہے ، اتنی ہی منفی قوتوں کو اس سے عداوت ہے۔ وہ ہمیں’مسلمان بدون اسلام‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری کامیابی یہ نہیں ہوگی کہ ہم اپنے دین کے معاملے میں سمجھوتہ کر لیں۔کامیابی یہ ہوگی کہ دنیا جتنا ہم کو اسلام سے دور کرنے کی کوشش کرے، ہم اتنا ہی مضبوطی سے اسلام سے چمٹ جائیں۔یہ پیغام ایک ایک مسلمان تک پہنچانے کی مہم چلنی چاہیے۔اس کے نتیجے میں مضبوط کردار کے لوگ آگے آئیں گے اور مجموعی طور پر مثبت سوچ پیدا ہوگی۔
۴) ضروری ہے کہ مسلمان اپنے مقام اور مرتبے کی عظمت کو پہچانے۔ دین حق کے پیرواس زمین پر مالک کائنات کے خلیفہ ہیں۔اقتدار اور رزق کی ساری کنجیاں اسی مالک کے ہاتھ میں ہیں۔ اس عظیم مرتبے پر فائز امتکے شایان شان یہ روش کس طرح ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں سے مراعات مانگتی پھرے اور ہر صاحب اقتدار کی خوشامد کرتی نظر آ ئے؟ اتفاق رائے سے ہمارے اکابرین اور ذمّہ داران دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا بند کر دیں اور قوم کو بھی اسی کی تلقین کریں۔
۵) انتخاب میں مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش مسلم تنظیموں کی طرح دوسری تنظیمیں بھی کرتی ہیں۔ہر نشست پر کئی کئی مسلم امیدوار میدان میں آتے ہیں، ووٹ بری طرح تقسیم ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کا ووٹ مسلم پارٹیوں کے علاوہ دوسری جماعتوں کو بھی ملتاہے ، اور یہ بھی شکست کی وجہ بنتی ہے۔ اس کے مقابلے میں غیرمسلموں کے ووٹ مسلمان امیدوار کو بہت کم ملتے ہیںچاہے وہ کسی پارٹی کا ہو۔ اس دلدل سے نکلنے کا ایک راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ مسلمان اپنی کسی ایک پارٹی پر اتفاق کر لیں اور اسی کے لئے کوشش کریں۔ تب مسلم امیدواروں کی کامیابی کے امکانا ت قدرے بہتر ہو سکتے ہیں۔
۶) اپنا نصب العین متعین کرنے کے لئے مالک کائنات نے امت کو آزاد نہیں چھوڑا ہے، بلکہ اس کا فیصلہ خود ہی کر دیا ہے۔ اقامت دین کے اس مشن کو پورا کرنے میں اس امت نے بہت کوتاہی برتی ہے۔ جن لوگوں نے اس کی اہمیت اور فرضیت کو سمجھا بھی ، انہوں نے اس کے اولین تقاضے ’دعوت دین‘ پر اتنی توجہ نہیں دی جتنا کہ اس کا حق تھا۔ دعوت دین نہ صرف ہمارا دینی فریضہ ہے بلکہ یہ ہمارے دفاع کا ضامن بھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دعوت نے ہمیشہ ’صنم خانوں‘ میں سے کعبے کے ’پاسباں‘ تلاش کرنے کا کام کیا ہے۔دعوت کے جذبے کو از سر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دعوت ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہو۔
- دعوت میں اسلام کو بطور نظام زندگی پیش کرنے کے ساتھ اس کے عقائد کو بھی مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ توحید، رسالت اور آخرت کی وضاحت کے ساتھ شرک کی تردید کی جائے۔
- باشدگان مُلک کے گروپس میں منظم طریقے سے کام کیا جائے اور ہر گروپ میں کام کرنے کے لئے اسپیشلسٹ تیار کیے جائیں۔
- اگر کوئی ایسا مونیٹرنگ ادارہ بن جائے تو بہتر ہوگا جو ایک ہی مقام پر مختلف لوگوں کی صلاحیتوں کو مربوط انداز میں استعمال کرسکے۔ علاقے تقسیم کر کے لوگوں کو دعوت کے لئے ذمہ داری سپرد کرے۔
کوئی بھی اقدام اور کوشش نتیجہ خیزنہیں ہو سکتی جب تک کہ امت کی صفوں میں اتحادنہ پیدا ہو۔ اختلافات نے امت کے شیرازے کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ یہ امت كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ کی تصویر بنی ہوئی ہے ۔ ضروری ہے کہ اختلافات کو کنٹرول کرنے اور اتحاد کی راہیں ہموار کرنے کے لیے موثراقدامات کیے جائیں۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014