ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کا مسئلہ

مسلمانوں کی پہچان اسلام سے ہے لہٰذا جب بھی اس عنوان سے گفتگو کی جائےگی تواِس حقیقت کو پیش نظر کرکے ہی کی جائےگی کہ اس ملت کے کسی بھی مسئلہ کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں ہوگا ۔ ہمارے ملک عزیز میں مسلمانوں کے بہت سے مسائل ہیں مثلاً آئے دن فسادات کا مسئلہ ، سرکاری محکموں میں مسلمانوں کے بحالی کا مسئلہ ، زبان وثقافت کے ’’تحفظ کا مسئلہ ، دین میں آئےدن چھیڑ چھاڑ کا مسئلہ ، تعلیم یافتہ بلخصوص نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھنسانے کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام مسائل اس وجہ سے وجود میں آئیں ہیں کہ مسلمان دین حق کے پیرو ہیں ، دین مصطفیٰ کے علم بردار ہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کے کسی بھی مسئلہ کو اسلام کے تناظر میں سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی اوراس کا حل بھی اسلامی ہی ہوگا ۔ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ تعلیم ایک نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا ہی رول تھا اور آج بھی ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی اکثریت اس اہم فریضہ سے بالکل غافل ہے ۔ انہیں نہ تو اپنے حال کی فکر ہے اورنہ اپنے نونہالوں کے مستقبل کی ۔ تعلیم ہی نوجوانوں کو ملت کی شاندار روایات کا امین اوراس کی تہذیب وثقافت کا پاسدار بناتی ہے اورمسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس پرکبھی بھی سنجیدگی سے غور وخوض نہیں کرتے مسلمانوںکے ایک بڑے گروپ پر تو تعلیم برائے معاش کا نظریہ غالب ہے ۔ یہ گروپ بچوں کو اس لئے پڑھاتے ہیں کہ وہ بڑا ہوکر خوب روپیہ پیسہ کمائے اور پُر لطف زندگی بسر کرے ۔ آخرت کووہ خدا پر چھوڑدیتے ہیں۔ بقول شاعر؎

اب تو آرام کی گذرتی ہے
آخرت کی خبر خدا جانے

یہ صورت حال انتہائی تشویشناک اور پریشان کن ہے ۔ خارج سے ان پر جومصیبت آنے والی ہے اور تعلیم کاجو نظریہ ان کی نئی نسلوں پر تدریجاً تھوپا جارہا ہے اس کی نہ توانہیں خبر ہے نہ فکر ۔ انتشار اور آپسی کشمکش نے انہیں عصری تقاضوںسے بے خبر کردیا ہے دشمن سر پر ہیں اوریہ خواب غفلت میں ہیں۔ اس مسئلہ کا حل صرف اورصرف بیداری اور مسئلے کی پوری جانکاری میں ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو بیدار کیا جائے تا کہ ان کے اندر علم نافع کی تڑپ پیدا ہو۔ سویا ہوا انسان اگر جاگ اُٹھے توحرکت بھی جنم لے لیتی ہے ساتھ ہی توانائی بھی قوت بن کر اُبھرآتی ہے ۔

اسلام ایک مکمل زندگی ہے ۔ اس کا اپنا ایک مخصوص نظام تعلیم ہے ۔ چونکہ اسلام ایک انقلابی تحریکی ہے اس لیے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ہے یہ تعلیمی میدان میں بھی ایک انقلابی تعمیری رجحان پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ اسلامی تعلیم کا مقصد ایسے حوصلہ مند باکردار اوربامقصد افراد تیار کرنا ہے جوذاتی مفاد کو قربان کرکے رضائے الٰہی کی خاطر اسلامی نظام برپا کرنے میں اپنے سر دھڑ کی بازی لگادینے کے لیے تیار ہوں ۔ اسلامی نظام تعلیم ایک نظریاتی اورفطری عمل ہے یہ طلبہ کے فطری صلاحیتوں کوابھارتا ہے۔ ان کے طبعی رجحان کوصحیح رخ پر ڈالتا ہے ۔ ان میں بھلے اوربُرے کی تمیز پیدا کرتا ہے ۔ ان میں حق سے محبت اورباطل سے نفرت پیدا کرتا ہے ۔ یہ ان کو اللہ کا صالح بندہ بناتا ہے ۔ اسلامی نظریہ یہ ہے کہ انسانوں کواس طرح کی تعلیم دی جائے کہ وہ علم حاصل کرے نیابت الٰہی کا فریضہ ٹھیک ٹھیک طورپر انجام دے سکیں ساتھ ہی اپنے معاشی  اورسماجی زندگی سے بھی اچھی طرح عہدہ برآ ہوسکیں ۔ اسلامی نظام تعلیم ان کے ذہنوں میں اس تصور کی پرورش کرتا ہے وہ اس دنیا میںغیر ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ایک ذمہ دار زندگی کے حامل ہیں اور آخرت میں اپنے کئے کا حساب دینا ہے ۔ اسلامی نظام تعلیم اُن کے اخلاق وکرد ا ر کی بہترین تربیت کرتا ہے اوران کو ایک خاص مقصد اورنصب العین کے لئے تیار کرتا ہے تاکہ وہ اسلام کی دعوت کو لے کر اُٹھیں اور اِ س دین کوبحیثیت نظام زندگی دنیا میں قائم کریں یا اس کو غالب کرنے کی کوششیں کریں۔

اسلامی تعلیم یہ چاہتا ہے کہ لوگ دنیا کے معاملات سے الگ تھلگ نہ رہیں ، صوفی ودرویش نہ بن جائیں ۔ وہ مسجد اور خانقاہوں میں دنیا سے بے نیاز ہوکر گوشہ نشین نہ بنیں بلکہ وہ دنیا کے معاملات کوہاتھ میں لے کر حسن وبخوبی کے ساتھ چلا سکیں۔ پوری انسانیت کے فلاح وبہبود کے لئے کام کریں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں وہ انسانوں کی صحیح رہنمائی کرسکیں۔ زندگی کے اجتماعی ہنگاموں میں پورےاعتماد اور قوت کے ساتھ قدم رکھ سکیں ۔ مختصر یہ کہ اسلامی نظام تعلیم کا مقصد طلبہ وطالبات کوذہنی ،جسمانی ، علمی اور عملی حیثیت سے ایسی تربیت دیتا ہے کہ وہ اسلام اورانسانیت کے لئےخادم بن سکیں دنیا کی رہنمائی اپنے ہاتھوں میں لے سکیں ۔ دنیا کے مسائل اورمشکلات کا حل پیش کرکے اقوام عالم کے امام بن سکیں ۔ دنیا کے اندھیروں کواُجالوں میں بدل دیں ۔ باطل سے پنجہ آزمائی کرکے اسے حق پر قائم کردیں اور ان تمام کوششوں کا مطمحہ نظر صرف اورصرف اللہ کی رضا اورآخرت کی فلاح ہو۔

آئیے اب یہ جائزہ لیں کہ اس وقت ملک میں موجود ممتاز دینی اداروں میں کون اس مقصد کوپورا کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کررہےہیں ۔ اگرچہ موجود ہ مدارس  اس معاملہ میں ناسازگار ماحول کے باوجود صدیوں سے اس کام کو انجام دےرہے ہیں ان مدارس میں کام کرنے والے افراد کم آمد نیوں میںحد درجہ ایثار سے کام کررہےہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ موجودہ مدارس اسلامی مقاصد ونصب العین کے لیے کسی طرح بھی مفید ثابت نہیں ہورہےہیں ۔مبارکپور ہو یا دیوبند ، ندوہ ہو یا کوئی اور دوسرا بڑا  ادارہ آپ کی کسی بھی تعلیم گاہ کودیکھئے ہر جگہ اسلامی نصب العین کی روح فراموش ہے اوراِن کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ خطیب ، مفتی ، مدرس اورامام مسجد پیدا کریں اوراسی کام میں مشغول ہیں ۔ آج حق وباطل کی کشمکش زوروں پر ہے ہر جگہ اسلام وکفر میں جنگ چھڑی ہے ۔ تحریکات اسلامی نے دنیا میں ایک ہلچل مچا رکھی ہے مگر اس کشمکش کے پہلے ہی مرحلہ میں دینی مدارس بہترین افراد سے کمک پہنچانے میں نا کام ہورہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کے تین وجوہات ہیں:

lپہلی وجہ تو ازکارر فتہ نصاب تعلیم ہے ۔ ان مدارس میں جونصاب چل رہا ہے وہ حالات اور ضروریات کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ موجودہ نصاب ایک دفاعی قسم کا نصاب ہے جواُس دور میں تیار کیا گیا تھا جب انگریزوں نے ملک پر قبضہ کررکھا تھا اورمغربی تہذیب کا غلبہ ہورہا تھا ۔ عام مسلمان مغربی تہذیب سے مرعوب ہوچکےتھے اور مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ کھلم کھلا دین سے منحرف ہورہا تھا ۔ ایسے حالات میں اس بات کی ضرورت تھی کہ دین کا جو کچھ بھی حصہ مسلمانوں میں باقی تھا اس کی حفاظت کی جائے ۔ یہ نصاب تعلیم اسلام کے انقلابی تصور کو سامنے  رکھ کر نہیں تیار کیا تھا بلکہ وقتی ضرورت کے پیش نظر جلدی میں اُٹھا یا ہوا قدم تھا اورجز وقتی قدم کے حساب سے تیار کیا گیا تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں ۔ اِن بدلے ہوئے حالات میں ایک نئے نصاب تعلیم کی ضرورت ہے جوطلبہ  وطالبات میں حالات حاضرہ میں صحیح اسلامی اسپرٹ پیدا کرسکے اوران کواسلامی مقاصد کے لئے تیار کرسکے ۔

lدوسری وجہ دین ودنیا کی تفریق کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ اِن مدارس نے اسلام کے بر خلاف اُس تصور کوقبول کرلیا ہے کہ دین الگ ہے اوردنیا الگ ہے ۔ موجودہ تعلیم گاہیں صرف انفرادی مذہب کی تعلیم دیتی ہیں اجتماعی معاملات جیسے سیاسی اورتمدنی ، سماجی اورعمرانی وغیرہ مسائل سے طلبہ وطالبات کو بالکل بے تعلق رکھا جاتا ہے ۔ ان کی تمام سرگرمیاں چند عقائد اوراُن کے متعلق کلامی بخشیں ، بنیادی عبادات اوران کے متعلق فقہی مسائل کومحور بنا کر ان کے گرد گھومتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس تعلیم سے وہ نصب العین حاصل نہیں ہوتا جس کی آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں ملت کو ضرورت ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ان مدارس میں طلبہ وطالبات کودور حاضر کے تقاضوں کے تعلق سے تعلیم نہیں مل رہی ہے حالانکہ اسلام اِن تمام علوم وفنون کی ترغیب دیتا ہے جو اسلام کے مقاصد کوپورا کرنے میں معاون اورمددگار ثابت ہوں ۔ جدید فلسفہ حیات، فلسفہ تاریخ ، فلسفہ سیاسیات، فلسفہ معاشیات ، فلسفہ سائنس وغیرہ کے علوم سے ان کو باخبر ہونا چاہیے ۔ ان کے کھوکھلے پن اوراُن کی خرابیوں وکمیوں کوان پر واضع ہونا چاہیے ۔ اسلامی تصورات کے ساتھ ان کا تقابلی مطالعہ ہونا چاہیے ، اسلامی نظام کی جدوجہد میں اس طرح کی تعلیم طلبہ وطالبات میں اسلامی عقائد ونظریات کی برتری کا پورا شعور پیدا کریگا ۔ طالب علم کو یہ باتیں اس طرح پڑھائی جائیں کہ وہ ان پر اسلام کی حقانیت واضع کردے ۔ انہیں اس بات کا یقین محکم ہو کہ اسلام ہی وہ طرز فکروعمل ہے جواِس کائنات کے خالق کی عطا کردہ ہے اسی میں پوری انسانیت کے دکھوں کا علاج ہے ۔ اسلام کے علاوہ دوسرے نظام اول توانسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ دوئم اِن میں کوئی بھی نظام انسانوں کو اس کے دکھ کا درماں نہیں بن سکا بلکہ تجربات کے دوران مقدر ترمیما ت کی نذر ہوگیا ۔ یہ بات بڑے افسوس کی ہے کہ جدید علم کا مطالعہ تو بہت دورکی بات ہے اُنہیں اِس کی زبان اور اُن کی اصطلاحات سے بھی آگاہ نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اِن درسگاہوں سے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات بُری طرح احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں اور عملی دنیا کے لئے محض شئے بے کار بن جاتے ہیں ۔ ان کی زندگی کسی نہ کسی درجہ میں جدید تعلیم یافتہ افراد سے مرعوب کی زندگی گزرتی ہے ۔ معاشی میدا  ن میں ان کے لیے تنگ ہوجاتا ہے اور آخر میں یا تو کسی مسجد کے امام بن جائیں یا پھر کوئی چھوٹا موٹا مدرسہ لے کر بیٹھ جائیں اور عشرت و تنگدستی کی زندگی گزاریں بقول علامہ اقبال ؒ

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا               کہاں سے آئے صدا لا ء الہ اللہ

اب اگر ہم جدید تعلیم (Modern Education)کے مراکز اسکول ، کالج اوریونیورسٹی کی طرف نظر اُٹھاتے ہیں تویہ نظام تواوربھی مضر ونقصاندہ ہی ثابت ہوا ہے ۔ یہ ہمارے دین وایمان پر نہا یت تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے ۔

lجدید تعلیم میں جہاں بعض خوبیاں ہیں وہیں اس کی خامیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اس کی پوری افادیت پر پانی پھرجاتا ہے آج انسان کا علم اتنی ترقی کرچکا ہے کہ ترتیب کے ساتھ مطالعہ و تحقیق کے لیے اس کو کئی شعبوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ، علم تاریخ ، علم عمر انیات ، علم جغرافیہ ، علم معاشیات ، علم تمدن، علم کیمیا، علم ریاضی ، علم طبیعات ،علم النباتات، علم الحیوانات، علم فلکیات وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام شعبے معلوم و معرو ف ہیں۔ اِن کا مطالعہ اوراِن سے استفادہ کرنا ضروری ہے ۔ ہر طالب علم کواس کا مطالعہ کرنا چاہیے اورایک مسلم طالب علم کواس کا مطالعہ کرنا اورابھی زیادہ ضروری ہے تا کہ اِن علوم کی تحصیل کے بعد اِن علوم کو اسلام کا کلمہ پڑھانا ہے ۔ یہ علوم اسلام کی اساسی تعلیم کی افادیت کے پڑھانے میں مددگار بنتے ہیں اور ان کو تقویت پہنچاتے ہیں ۔ لہٰذا اِن کا حصول لازمی ہے مگر اس بات کوبھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان علوم کی تربیت وتدوین اس گروہ کی طرف سے کی گئی ہے جو خدا بیزار نہیں اورایسے خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے مرتب نہیں کیا گیا ہے ۔ گزشتہ پانچ چھ سو برسوں میں انسان کوجس قدر معلومات حاصل ہوئیں ہیں اوران کومرتب کرنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کا سارا کام خدا ناشناش یا مذہب بیزار لوگوں نے کیاہے جس کے نتیجہ میں آج کا علم انسان کے لئے مفید ہونے کے بجائے مجموعی حیثیت سے مضر ثابت ہورہا ہے ۔ رائج الوقت نظام تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ وطالبات خدا کے باغی بن جاتے ہیں، مذہب دشمن بن جاتے ہیں۔ اخلاقی قدروں کوپامال کرنے لگتے ہیں ۔ اس گمراہی کے اسباب اس کے مضامین میں نہیں بلکہ وہ بنیادی واساسی افکار ونظریات ہیں جن پر عصری تعلیم کا ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے ۔ مذکورہ بالا نظام تعلیم کے پس پُشت جو تصورات (Ideologies)کام کررہے ہیں وہ انسانیت کے لیے سخت تباہ کن اورفساد فی الارض پیدا کرنے والے ہیں۔ جب سے دنیا نے ان کو اختیار کیا ہے وہ فتنہ وفساد کا گہوارہ بن گئی ہے ۔ آیئے اب موجودہ تعلیم کی بنیاد پر کچھ روشنی ڈالا جائے تاکہ بات زیادہ صاف ہو۔

lجدید تعلیم کی بنیاد الحاد اور دہریت (AETHISM)ہے جس کا مطلب ہے کہ پوری کائنات اتفاقیہ (ACCEDENTAL)وجود میں آگئی ہے ۔ اس کے بنانے والے کا کوئی وجود نہیں ہے اور اگر ہے بھی توہماری زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں زندگی کے معاملات میں خدا کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ تصورات ، (BELIVIES)انتہائی تباہ کن ہے جوجدید تعلیم کی افاد یت کوبرباد کرتا ہے ۔ یہ تصورات انسانوں کے ذہن کوبگاڑ کر رکھ دیتی ہے ۔ انسان سوچنے لگتا ہے کہ ہمار ے اوپر کوئی بالا تر ہستی نہیں جو ہماری پوچھ گچھ کرے ۔ لہٰذا اس تصورات کا انسان پرے درجے کا خود غرض بن جاتا ہے من مانے طریقہ سے زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے اور خواہشات نفس کے پیچھے دوڑنے لگتا ہے۔ خداسے رشتہ توڑنے کےبعد اس کا رشتہ شیطان سے جڑجاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کی زندگی میں ہرطرح کی شطنیت (DEVILISHNESS)آجاتی ہے۔

lجدید تعلیم کی دوسری بنیاد مادہ پرستی (MATEREALISM)پر ہے جوآخرت پسندی کی عین ضد ہے اس سے آدمی مکمل دنیا پرست بن جاتا ہے ۔ جدید تعلیم کا یہ تصور کہ ہماری زندگی بس اسی دنیا تک محدود ہے مرنے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے سڑ گل کر فنا ہوجانا ہےاس زمرہ میں آتا ہے ۔ جوں مسفلذ (JOHNMASFIELD)کی وہ نظم تو آپ نے پڑھی ہوگی جس کا عنوان ہے (Eat Drink and Bemerry)  کھاؤ ، پیو اور مزہ کرو، اس تصور کا حاصل آدمی یہ سوچتا ہے کہ ہم زندگی کا بھرپور مزہ لوٹیں زیادہ سے زیادہ داد عیش لے لیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی دنیا کی لذّت اوراسکی رنگینیوں پر بھوکے کتے کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے ۔ آدم کی بیٹیاں ننگی ناچتی ہے ۔  عیّاشی کے اڈے قائم ہوتےہیں ۔ شراب وکباب کے دور چلتے ہیں ۔ بازاروں میں بہو بیٹیاں فروخت ہوتی ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ خود غرضی کی وَبا پھوٹتی ہے ۔ آدم کے بیٹوں میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے ۔ ظلم ایک کھیل وتماشہ بن جاتا ہے ۔ آج کی دنیا اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب یہ خدشہ ہوا تو لندن پر جرمنی بمباری کرسکتا ہے توموت کے خطرے میں وہاں کےباشندوں(نوجوانوں ، مردوں اورعورتوں ) کو خدا یاد نہیں آیا بلکہ شراب وکباب یاد آیا اورزیادہ عیاشی میں غرق ہوگئے یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرح کے اسکینڈل کی خبریں جو اخبار ورسائل کی زینت بنتے ہیں ان میں ان پڑھ لوگ کم ملوث ہوتے ہیں اور جد ید تعلیم کے حضرات زیادہ شامل ہوتے ہیں۔

lجدید تعلیم کی تیسری بنیادمفاد پرستی (UTILITARIANSIM)پر ہے اس مفروضے کے مطابق اخلاق، روحانی اور زندگی کی مستقل قدروں (COMMON VALUES)کی موجودہ نظام تعلیم میں کوئی جگہ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مغرب نے جس نظام تعلیم کوفروغ دیا ہے اس نے تو یونیورسٹیز کوبھی بحران میں مبتلا کردیا ہے ۔ پروفیسر ٹائیس لکھتے ہیں ’’موجودہ تعلیم نے اپنے آپ کو ماضی کے روحانی ورثے سے الگ کرلیا ہے اورا س کا مناسب متبادل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد بھی زندگی کی اقدار کے صحیح احساس سے عاری ہیں۔‘‘جدیدتعلیم سے آراستہ لو گ  ہر چیز کو افادی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ہر کام میں مادی تلاش کرتے ہیں۔ اخلاق ان کے لیے بالکل ایک بے معنیٰ چیز بن کر رہ جاتا ہے ۔ ایسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آدمی عیّار اورمکّار بن گیا ہے ۔ لوگوں کو دھوکہ دینا ایک ہنر بنا ۔ دھوکے اور فریب سے کام نکالنا آدمی کا خاصہ بن گیا ہے ۔ طلبہ وطالبات میں بد اخلا قیو ں کے واقعات روزانہ اخبار ورسائل میں نظروں سے گزرتے ہیں ۔ طلبہ چوری وڈکیتی سے لے کر قتل و غارت گری اور سر بازار زناتک جیسے جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ عیش پرستی ، بے راہ روی اور اباجیت کا شکار بن رہے ہیں ۔ اساتدہ والدین اوردیگر بزرگوں تک کا احترام نہیں کرتے۔ امتحان میں چھڑے دکھا کر جوابات نقل کرتے ہیں ۔غرض کوئی ناکردی ایسی نہیں کرتے ہوں جوطلبہ کونہ کرنی چاہیے  اوروہ مجسم تخریب بن چکے ہیں۔

lجدید تعلیم کی چوتھی بنیاد وطن پرستی (NATIONWORSHIP)ہے جس کا آج کل ملک میں بہت چرچا ہے ۔ طلبہ وطالبات کے ذہن میں یہ بیٹھا یا جاتا ہے کہ ہمیں اپنی قوم کا ساتھ دینا ہے خواہ وہ ناجائز پر ہی کیوں نہ ہوں۔ مکاولی کا یہ تصور اورمقولہ My Nahon Right OR Wrongپر عمل کریں اور کرایا جائے۔ اس تصور نے عالمی برادری کومختلف خانوں میں تقسیم کردیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ قوموں اورملکوں سے بھائی چارگی ، امداد و اعانت کے بجائے دشمن اورتعصب بے جا پیدا ہوگیا ہے ماضی میں جو دو عظیم جنگیں ہوئیںہیں وہ کسی مذہب کے نام پر نہیں ہوئیں ہیں بلکہ قوم پرستی کے سبب ظہور پذیر ہوئیں اور اس کا انجام سب کے سامنے ہے وہیں اگر ایک خدا ، ایک انسان اورایک خدا ئی کا ضابطہ کا تصور پیش کیا جاتا توانسانوں میں تعصب ختم ہوتا ۔

lجدید تعلیم کی پانچویں بنیاد ڈاروینزم (DARWINISM)پر ہے ۔ یہ نظریہ انسانوں کودرندہ صفت بنادیتا ہے ۔ اس نظریہ کی تباہ کن تفصیلات سے قطع نظر فی الوقت Servival For The Fihest کے نظریہ کوہی اگردکھا جائے تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زندہ رہنے کا حق صرف اس کوہے جو سب سے زیادہ طاقتور ہے ۔ اس فلسفہ نے آج اتنی ترقی کرلی ہے کہ لوگ عام طور پر ہی سمجھنے لگے ہیں کہ فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کمزور اور طاقتور زندہ ہیں اُن کا ماننا ہے کہ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کوکھا جاتی ہے ۔ اس فلسفہ کی ترویج اوراشاعت سے پہلے ایک قوم دوسری قوم پر ظلم کرکے اپنے ظالم ہونے کا احساس کرلیتی تھی مگر اب ڈارون کے اس نظریہ نے لوگوں کوسمجھا دیا کہ جس چیز کو تم ظلم کہتے ہو وہ ظلم نہیں ہے بلکہ عین تقاضائے فطرت ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان وغیرہ ملکوں پر حملہ کیا ۔ روس نے چیخنا اور افغانستان پر حملہ کیا برطانیہ نے ناگالینڈ پر حملہ کیا وغیرہ یہ سب انہیں باطل تصورات کا نتیجہ ہے جہاں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ۔

اس مختصراً وضاحت سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ عصری تعلیم (Modern Education)کے خطرات کیا کیا ہیں ایمان کے لٹ جانے یااسمیں تشلیک (Making Scephical)پیدا ہوجانے کے بعد خطرہ کس حد تک بڑھ جاتاہے ۔ اخلاق برباد ہوجاتے ہیں سیرت وکردار بگڑ جاتے ہیں ۔ انسان حرص وہوس کا غلام بن جاتا ہے ۔ آپ اس بات کوپھر تازہ کرلیں گے خطرات اِن مضامین میں ہیں جوان اداروں میں پڑھائے جاتے ہیں بلکہ یہ ان بنیادی افکارو نظریات میں ہیں جن کی بنیاد پر اِن مضامین کی تعلیم دی جاتی ہیں ، اگر یہ مضامین اسلامی افکار ونظریات جیسے توحید، رسالت ، آخرت، وحدت آدم، اخلاقی اور  مستقل اقدار وغیرہ ) کی روشنی میں بنائے جائیں اور پڑھائے جائیں تویہ سارے خطرات کم سے کم ہوجائیں گے اور اس سے نکلنے والے افراد صالح ، نیک اوربارکردار ہوںگے جوسماج کے لیے ایک نعمت (Boon/Blessing)ہو ںگے، یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ اسلامی مقاصد کے حصول کے لیے خالص توحید کی بنیاد پر درس وتدریس کا کوئی تعلیمی ادارہ ہندوستان کے طول و عرض میں ہے بھی یا نہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے تعلیم کا مسئلہ انہیں وجوہات سے بڑا نازک بن جاتا ہے ۔ اگر ہم اپنی دینی مدارس میں جاتے ہیں تودنیا کیا خود اسلام کے بیکار بن جاتے ہیں اور اگر جدید اسکول وکالج کا رخ کرتے ہیں تودین وایماں سے دور ہوجاتے ہیں ۔ اخلاق بگاڑ کے شکار بن جاتے  ہیں اس بنیا دی مسئلہ کوحل کئے بغیر ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے اورنہ یہ ممکن ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ رکھ کر پیچھے رہیں۔ اس مسئلہ کا حل تنہا جتنا جلد ممکن ہو نکالنا ہوگا ۔ بدھ سے بد تر اورصبر آزما حالات میں بھی ہمیں اپنے خداپر اعتماد کرکے نبرد آزما ہونا ہوگا راستے نکالنے ہوں گے۔

ہندوستانی مسلمانوں کے تعلیم کی راہ میں ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ دو متضاد نظام تعلیم سے دوچار ہیں۔ ایک جانب دینی مدارس ہیں اوردوسرے جانب جدید طرزِ تعلیم کے ادارے ہیں دونوں میں بعد المشرقین کا فرق ہے دونوں میں مختلف مزاج اور مختلف طریقہ تعلیم ہے ان میں کسی بھی سطح پر ذرہ برابر مطابقت نظر نہیں آتی ۔ ان دونوں سے فارغ التحصیل افراد دو قطعی مختلف طبقوں میں تقسیم ہوکر زندگی کی منازل طے کرتے ہیں ۔ جن کے بود وباش تک میں واضع  اختلاف وتضاد دکھائی دیتا ہے  جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم معاشرہ دو طبقوں میں منقسم ہوکر رہ گیا ہے جوایک دوسرے کی ضد ہے ۔ ایک طبقہ مساجد کی امامت تعویذ گنڈے وغیرہ میں تودوسرا طبقہ انگریزی طریقۂ ، تعلیم کی لعنتوں میں مبتلا ہوکر تعلیم کا واحد مقصد نوکری کا حصول سمجھ کر دینی زندگی سے دور نظر آتا ہے ۔یہاں تک کہ حرام وحرام وحلال کے فرق سے بھی غافل ہوجاتا ہے ۔ اس صبروآزماماحول میں آج کی نئی نسل کےسرپرست ایک عجیب خلجان میںمبتلا ہیں۔ اپنی نئ نسلوں کواگر دینی مدارس کے حوالے کرتے ہیں توان پر سائنس وٹکنالوجی میں ترقی کے دروازے بند ہوجاتےہیں اوراگر جدید طریقہ تعلیم کے اسکول کالج کا رخ کرتے ہیں توزندگی کا دینی پہلوتاریک ہوجاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ ملت  اسلامیہ کے نونہالان کا اس طرح دو حریف طبقوں میں تقسیم ہوجانا کس درجہ تباہ کن اورغارت گر ثابت ہوسکتا ہے ۔ لہٰذا ملت کے اکابرین واہل علم حضرات پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس ملت کش اوراسلام آزاد حالات میں علم کی وہ شمع روشن کریں جوہمیں بیک وقت دین سے بھی آشنا کرسکے اورسائنس وٹکنالوجی کے علوم سے بھی ہمکنار کرے تاکہ ہم دور حاضر کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے اسلام کی صف میں قائم رہیں ۔ اس حقیقت کوبھی ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ علم کی یہ دوئی غلط اور غیر اسلامی ہے ۔ در اصل یہ ایک ایسی وحد ت ہے جسمیںاصولاً جدید اورقدیم کی تقسیم ہوہی نہیں سکتی ۔ مسلمانوں کے ماضی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو وہاں دینی اوردُنیوی کی تقسیم نہیںملتی ہے ایسی کوئی تفریق نظر نہیں آتی ، ماضی میں مسلمان ہر علم کے شیدائی تھے ۔ ایک طرف قرآن ، حد یث، تفاسیر، فقہ، عقائد وغیرہ علوم حاصل کرتے تھے تودوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ علوم کی رو شنی میں سائنس ، جغرافیہ ، طب ، ریاضی، کیمیا، طبیعات ، نجوم وغیرہ وغیرہ علوم بھی حاصل کیا کرتے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ساتویں صدی سے سترہویں صدی تک دنیاکے تمام علوم پر جوکام ہوا اوران میںبے انتہا ترقی بھی ہوئی ۔ ان صدیوں میں جوایجاد اورانکشاف ہوئے ان کے امام صرف اورصرف مسلم علماء ہی تھےجیسے جن درس گاہوں سے امام غزالی ، امام رازی، امام تیمیہ جیسے جلیل القدر علماء نکلے انہیں در س گاہوں سے جابر بن حیاۃ، فارابی، ابن القیم ، ابو علی سینا ، البیرونی وغیرہ وغیرہ جیسے بلند پایہ سائنسدان اورمحقق بھی پیدا ہوئے ۔ اگر خدا اعتمادی اور خود اعتمادی پیداہوئے توآج بھی مسلمانوں کے وہ دور واپس آسکتے ہیں ۔ آج بھی مغرب کی لائبریری ہماری تصانیف سے بھری پڑی ہیں۔ بقول ڈاکٹر اقبالؒ

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی          جودیکھیں ان کویورپ  میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

مسلمان طلبہ وطالبات کے تعلیم کے تئیں زبان کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے یعنی یہ کہ بچوں کوتعلیم کس زبان میں دی جائے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ مادری زبان کے سوا کسی اور زبان کو تعلیم کا ذریعہ بنانا نہ صرف غیر فطری ہے بلکہ دینی نشو نما کے لیے مضرہے ۔ مادری زبان کے ذریعہ ہی خیالات میں صحت اور صفائی پیدا ہوسکتی ہے ۔ مسلمانوں کی مادری زبان تو خاص اردو ہے اور اردوکے ساتھ حکومت ہند کا جو رویہ ہے وہ ہم سب کومعلوم ہے ۔ لہٰذا ہمارے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمان طلبہ وطالبات کو اردو زبان میں کس طرح تعلیم دی جائے آج کل نصابی کتاب کا اردو میں حصول کس حد تک مشکل ہے ۔ خود اقلیتی ادارے، اسکول و کالج جودستور ہند کی دفعہ ۲۹ اور ۳۰کےذریعہ حاصل ہوئے اور اس ضابطے کے ذریعہ چل رہیں ہیں یعنی جن کو مذہب اور مادری زبان کی وجہ سے یہ سہولت دی گئی ہیں کہ اپنے ادارے قائم کرسکتےہیں اور دستور ہند ان کوہر سہولت دے گی وہ بھی ہندی کے گیسو کے اسیر ہوچکےہیں۔ وہاں نہ تواسلام نظر آتا ہے اورنہ زبان اردو میں تعلیم دی جاتی ہے۔ توزبان ہے اورنہ اسلام (مذہب)اگروہاں کچھ ہے توصرف روزی روٹی کاذریعہ ۔پیٹ کی آگ بجھانے کا ایک ذریعہ۔ ان اداروں میں کام کرنے والے کی اکثریت اوران کو چلانے والے دونوں ابھی پیٹ سے اوپر نہیں اُٹھ سکے۔ دماغ ودل تک تو ان کی رسائی ہوہی نہیں سکتی۔ بہرحال مسلم طلبہ وطالبات کومادری زبان میں تعلیم دی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اُن کو ہندی ، انگریزی  اورعربی میں بھی مہارت حاصل کرنی ہوگی اسلام کی زبان تو عربی ہے ا س کا سارا سرمایہ عربی میں ہے مصارف کی کنجی قرآن وحدیث ہے جوعربی میں ہے ۔ عربی کی واقفیت کے بغیر ہم دین سے کلی طور پر واقف نہیں ہوسکتے۔ اس طرح فی زمانہ انگریزی زبان جدید علوم کی کنجی ہے اگر ہم جدید علوم کے ماہر بننا چاہتے ہیں توانگریزی زبان ضرورت ہے ۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو ایک مسلم طالب علم کوچہار لسانی فارمولہ پر عمل کرنا ہوگا یعنی عربی ، اردو ، ہندی اورانگریزی جویقیناً ایک امر مشکل ہے مسلم ماہرین تعلیم کو ایک ایسا نصاب تیار کرنا ہوگا جومسلم طلبہ وطالبات کی اس ضرورت کوپورا کرے ۔ اِن چاروں زبان کے حصول کے لیے پرائمری ، اپر ئمپرائی اورمڈل اسکول تک کوئی دو زبان مکمل کردی جائے جسمیں ایک مادری زبان ہو، ہائی اسکول تک جاتے جاتے اِن کوچاروں زبان آجانا چاہیے کیونکہ چھٹی کلاس سے سبجکٹ میٹر (Subject Matter)آنا شروع ہوجاتا ہے ۔ اس وقت صورتِ حال انتہائی تشویشناک ہے ۔ آزادی کے پہلے مسلمانوں کے گھروں میں یہ رواج عام تھا کہ بچوں کی بسم اللہ ہر دروازے پر مولوی صاحب سے کرائی جاتی تھی پھر ناظرہ قرآن ختم کیا جاتا تھا اورپھر اردو ، عربی ، فارسی کی پڑھائی کی جاتی تھی جس کی مشق دوچار سال کرائی جاتی تھی پھر اس کے بعد میں بچوں کوسرکاری اسکول میں داخلہ کرایا جاتا تھا جس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے تھے بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ بچہ تین چار سال کا ہوا اور اسے نرسری اسکول میں داخل کردیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے غیر اسلامی ماحول اور غیر مسلم اساتذہ کی تحویل میں چلے جاتے ہیں ساتھ میں اُن اسکول کا نصاب بھی غیر اسلامی ہوتا ہے ، بچوں کوقرآن ، حدیث ، عربی اوراسلامی تہذیب کی ہوا تک نہیں لگتی اوربچے اپنے اسکول واساتذہ کے غیر اسلامی ماحول سے متاثر ہوکر اس میں ڈ ھل جاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان ہر مقام پر اسلامی نظریہ کے تحت نرسری و پرائمری اسکول قائم کریں جس میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی ماحو ل میں اسلامی افکار ونظریات کی تعلیم اسلامی مضا مین کے ذریعہ ہو۔ نصاب تعلیم اورتربیت میں اس کا پورا خیال رکھا جائے۔

ہندوستان کی مسلم اقلیت کواپنی نئ نسلوں کی تعلیم کے مسائل پر فوری طورپر نہایت مؤثر اور نتیجہ خیز  انداز میں اقدام کرنے کی ضرورت  ہے ۔ اس راہ میں ہلکی سی غفلت و لاپرواہی بھی آئندہ نسلوں کی مذہبی ، اخلاقی ، اقتصادی اور ثقافتی تباہی کا سبب ہوگی جس کی علامتیں صبح آزادی سے ہی واضع طور پر سامنے آرہی ہیں۔مذکورہ بالا صبرآزما حالات میں آزادیٔ وطن کے اڑسٹھ (۶۸) برسوں سے رونما ہونے والے لرزہ خیز مسلم کش، فسادات اوراقلیت آزارسازشوں نے جہاں ایک طرف مسلمانوں کوجانی ومالی نقصان کا زخم دیا ہے وہیں ایک حوصلہ پرور صورت حال یہ ضرور پیدا ہوئی ہے کہ ہماری موجودہ نوجوان نسل نے ہلکی سی ہی ایک کروٹ لی ہے اورمعمولی طور پر ہی سہی نگرانی میں ملی حمیت واتحاد کا احساس جاگا ہے ۔ اس امتحانی موڑ پر اکابر ملت اورمسلم ماہرین تعلیم پریہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے خول سے باہر نکلیں اورنئی نسل کی تعمیر نومیں لگ جائیں اوراس تعمیر نو میں مکمل بیداری کے یہ مقصد کے تحت نتیجہ خیز منصوبہ بندی کریں ۔ دستیاب وسائل کو زیر عمل میں لا کر ملت کے مسائل کا حل تلاش کریں۔

تعلیمی اداروں کا قیام ان کے متعلق مصارف واخراجات اوردیگر ضروریات کی تکمیل کے لیے سرکاری امداد بھی سد راہ ہوگا ۔ لہٰذا یہ ضروری ہے ملی وسائل پر انحصار واکتفا کا اصول عمل میں لایا جائے ، ہر ہر شہر اورقصبے میں تعلیم یافتہ روشن خیال اوراسلامی مزاج کے با عمل وباکردار لوگوںکی مقامی تعلیمی کمیٹیاں قائم کی جائیں جومنصوبہ بند طور پر اپنے اپنے علاقوں میں اپنی نئی نسلوں کی تعلیمی ضرورتوں کا اسلامی عقائد کی بنیادپر نظم کریں اوربے لوث خدمت کے جذبات کے سہارے اس مشن کوآگے بڑھانے کی سعی کریں۔ اوقاف، زکوٰۃ ، چرم قربانی وغیرہ کا اجتماعی نظم کریں اوراسلامی طریقے سے ہی کریں۔ ظاہر ہے اس طرح کے تعمیری منصوبات کیلئے رقم کثیر کی ضرورت پڑےگی جس کے لئے مناسب راہیں ہی تلاش کرنا ہوگا ۔ تاکہ افراد ملت واقتصادی معاون میں کو جھجھک یا تذبذب نہ محسوس کریں ۔ موجودہ اداروں میں اسلامی اصلاحی ماحول کے اقدامات کئے جائیں ۔ دینی اداروں کوان کے مسلک پر قائم رہنے کی چھوٹ دیتے ہوئے ان میں دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر جدید علوم کی تحصیل کے انتظام اور سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کی جائیں۔

اللہ ہماری کوششوں میں کامیابی  دے اور ہمارے اداروں میں پختگی عطا فرماتے ۔ آمین ثم آمین آئیے ایک نئے دور کا آغاز نئے جذبوں سے ہو ۔ بقول علامہ اقبال

آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا

آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلگ

مشمولہ: شمارہ جون 2016

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau